پاکستانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستانیات لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پاکستان کا وہ ’سیاسی‘ فتویٰ جس کے خلاف بھٹو، شیخ مجیب اور مفتی محمود ہم آواز ہوئے

فاروق عادل مصنف، کالم نگار

اپنے وجود میں آنے کے ٹھیک 22 برس بعد یعنی 1969 میں پاکستان ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی نظریاتی منزل کیا ہو گی؟

مختلف پس منظر رکھنے والے لوگوں نے اس سوال کا مختلف جواب دیا۔ یہ جواب کیا رہے ہوں گے، انھیں سمجھنے کے لیے اس زمانے کی سیاسی صف بندی کو سمجھنا ضروری ہے۔

پاکستان میں علمائے دیو بند کی ایک ممتاز شخصیت مولانا عبید اللہ انور کی سوانح سے اس تقسیم کی خبر ملتی ہے۔

’مولانا عبید اللہ انور: شخصیت اور جدوجہد‘ نامی کتاب میں مصنف امجد علی شاکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کی قومی سیاست اس وقت پانچ سیاسی دھاروں میں بہہ رہی تھی۔

  • اسلامی سوشلزم یا سوشلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی)
  • نیشنلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی عوامی لیگ)
  • مسلم لیگ کے مختلف گروہ جن کا نعرہ ’اسلام‘ تھا
  • اسلام کی علم بردار جماعت جمیعت علمائے اسلام۔ (دینی جماعتوں کے ایک طبقے کا الزام تھا کہ یہ جماعت سوشلزم کو قابل قبول قرار دے کر بائیں بازو کی جماعتوں کی دست و بازو بن چکی ہے)
  • اسلامی نظام کی حامی اور سوشلزم کی مخالف جماعتیں (یعنی جماعت اسلامی اور مرکزی جمیعت علمائے اسلام)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر یہ تقسیم کس طرح عمل میں آئی ہو گی، اس کے پس منظر میں مقامی حالات کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ


ممتاز مؤرخ اور پاکستان سٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں بائیں بازو کے رجحانات اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے سے پائے جاتے تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد حالات میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور یہ تمام عناصر اس تازہ لہر میں بہہ کر اس نئی جماعت کے دست و بازو بن گئے۔

اس نئی جماعت نے اپنے چار نکاتی نصب العین میں سوشلزم کو بطور معاشی نظام اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ یوں اس نعرے نے پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے نظریاتی تالاب میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک یہ نعرہ پاکستان جیسے ملک میں نظریاتی انحراف کا درجہ رکھتا تھا۔

اسلام آباد: پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کا نام کس نے اور کیسے تجویز کیا؟

 عقیل عباس جعفری

محقق و مؤرخ، کراچی
بی بی سی اردو 24 فروری 2022 ء


ایوب خان کو اسلام آباد شہر کی سائٹ پر نقشوں کی مدد سے بریفننگ دی جا رہی ہے

ایوب آباد، ایوب پور، ایوب نگر، الحمرا، اقبال پوٹھوہار، پارس، پاک ٹاؤن، پاک مرکز، پاک نگر، جناح، جناح آباد، جناح برگ، جناح پور، جنت نشان، خانہ آباد، دارالامن، دارالامان، دارالسلام، دارالجمہور، دارالفلاح، حسین آباد، ریاض، عادل نگر، فردوس،گلزار، گلستان، مسرت آباد، ملت آباد، منصورہ، ڈیرہ ایوب، عسکریہ، قائداعظم آباد، قائد آباد، کہکشاں، مدینہ پاکستان، استقلال، الجناح، پاک زار، دارالایوب اور نیا کراچی۔


یہ وہ سب نام ہیں جو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے لیے پاکستانی شہریوں کی جانب سے تجویز کیے گئے تھے۔ مگر پاکستان کے دارالحکومت کے لیے ’اسلام آباد‘ کا نام کیسے فائنل ہوا اور یہ کس نے تجویز کیا تھا، یہ کہانی کافی دلچسپ ہے۔

پاکستان کے ’بنگالی‘ اور بنگلہ دیش کے ’بہاری‘، پچاس سال سے شناخت کے منتظر بے نام لوگ


کریم الاسلام
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کراچى

تاریخ ہے سولہ دسمبر سنہ انیس سو اکہتر۔۔۔

وقت ہے شام کے چار بج کر اکتیس منٹ۔۔۔


مقام ہے ڈھاکہ کا رمنا ریس گراؤنڈ۔۔۔


میدان میں لاکھوں لوگ جمع ہیں جو نعرے لگا رہے ہیں۔۔۔

ہجوم کے درمیان تھوڑی سی جگہ میں ایک چھوٹی میز اور دو کرسیاں رکھی گئی ہیں۔۔۔ میز پر پہلے سے ٹائپ شدہ ایک دستاویز رکھی ہے۔۔۔


مشرقی پاکستان کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پاکستانی فوج کی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی اور انڈین آرمی کے لیفٹننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔


پھر وہ لوگوں کے شور اور میڈیا کے کیمروں کی چُندھیا دینے والی فلیش لائٹوں کے درمیان باری باری ایک ہی پین سے 'انسٹرومنٹ آف سرینڈر' یا ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کرتے ہیں۔ جنرل نیازی کرسی سے اُٹھتے ہیں اور ہولسٹر سے اپنا ریوالور نکال کر جنرل اروڑہ کو پیش کر دیتے ہیں۔

آغا حسن عابدی : ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کرنے کا خواب اور اس کا انجام

مضمون نگار : عقیل عباس جعفری ،  محقق و مورخ، کراچی 
 اشاعت : بی بی سی اردو 5 اگست 2020 

آغا حسن عابدی 
آغا حسن عابدی: بی سی سی آئی کی بنیاد رکھنے والے پاکستانی بینکار جن پر ایٹمی پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کی معاونت کا الزام لگایا گیا ۔ 

لکھنؤ یونیورسٹی میں آغا حسن عابدی کے سب سے قریبی دوست عبادت یار خان تھے، جو ادبی دنیا میں عبادت بریلوی کے نام سے معروف ہوئے۔ وہ اپنی کتاب 'غزالان رعنا' میں آغا حسن عابدی کا ایک بہت خوبصورت خاکہ لکھتے ہیں:

آغا حسن عابدی لکھنؤ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ایم اے اور ایل ایل بی ساتھ ساتھ کر رہے تھے۔

ایک دن آغا حسن عابدی نے عبادت بریلوی سے کہا 'نہ میں لیکچرر شپ کرسکتا ہوں، نہ وکالت، دونوں پیشے میرے مزاج کے نہیں۔ سوچتا ہوں محمود آباد اسٹیٹ میں ،جہاں میرے والد ملازم ہیں ،کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لوں۔‘

عبادت بریلوی نے ان سے کہا 'اتنا پڑھ لکھ کر محمود آباد ریاست کی ملازمت تمہارے شایان شان نہیں ہوگی۔ ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے۔ حبیب بینک نیا نیا کھلا ہے، یہ مسلمانوں کا بینک ہے۔ اگر راجہ صاحب محمود آباد، حبیب سیٹھ کو سفارشی خط لکھ دیں گے تو اس بینک میں تمہیں آفیسر کی جگہ مل جائے گی۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اس کے لیے تمہیں بمبئی جانا ہو گا، لکھنؤ سے باہر رہنا ہو گا۔'

آغا حسن عابدی نے کہا 'یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟ میں بینک کی ملازمت کروں گا! تم میرے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ یہ ملازمت میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘

عبادت بریلوی نے کہا 'میاں صاحبزادے! حالات بہت سنگین ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، مجھے تو صرف یہی دروازہ کھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ راجہ صاحب سے حبیب سیٹھ کے نام خط لکھوالو اور چپ چاپ بمبئی چلے جاؤ۔ اس ملازمت میں آئندہ ترقی کے امکانات بہت ہیں۔‘
آغا حسن عابدی کو عبادت بریلوی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی، لیکن وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں: 'بالآخر انھوں نے میری تجویز پر عمل کیا اور راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر حبیب سیٹھ کو خط لکھنے کی درخواست کی۔ راجہ صاحب نہایت شریف انسان تھے۔ انھوں نے آغا حسن عابدی کے لیے خط لکھ دیا اور کہا کہ 'یہ خط لے کر آپ بمبئی چلے جائیے، انشااللہ کام ہو جائے گا۔'

پاکستان کا اصل یوم آزادی کیا ہے ؟ ایک تحقیقی مطالعہ

عقیل عباس جعفری ، محقق و  مورخ 
تاریخ اشاعت : 22 جولائی 2020م ، بی بی سی اردو

پاکستان کو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس طویل عرصے میں ہم اپنی تاریخ کے کتنے ہی گوشوں سے ناواقف رہے۔ ہم اپنی یوم آزادی کی تقریبات ہر سال 14 اگست کو اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسایہ ملک انڈیا اپنی یہی تقریبات 15 اگست کو مناتا ہے اور ہر سال یہ سوال اٹھتا ہے کہ دو ملک جو ایک ساتھ آزاد ہوئے ہوں، ان کے یوم آزادی میں ایک دن کا فرق کیسے آگیا؟ اس تحریر میں ہم نے اسی معمے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

بزرگ ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان رمضان کی 27ویں شب کو آزاد ہوا اور یہ کہ جس دن پاکستان آزاد ہوا اس دن جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن 14 اگست 1947 کی تاریخ تھی اور ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے 'ایک دن بڑے' ہیں۔

لیکن جب ہم 14 اگست 1947 کی تقویم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن تو جمعرات تھی اور ہجری تاریخ بھی 27 نہیں 26 رمضان تھی۔

پھر ہم پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ دیکھتے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے 11 ماہ بعد 9 جولائی 1948 کو جاری ہوئے تھے۔ ان ڈاک ٹکٹوں پر واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی 15 اگست 1947 طبع ہوا ہے۔

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سید منور حسن کی سیاسی زندگی

سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی سیاسی زندگی
(بی سی اردو تاریخ اشاعت : 26 جون 2020م ) 
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جمعے کے روز (26 جون ، 2020م ) کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ مصنف و کالم نگار فاروق عادل نے سید منور حسن کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالی ہے۔

کراچی میں تازہ وارد ایک نوجوان سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا، ٹٹول کر جیب سے ایک رقعہ نکالا اور جھک کر انھیں پیش کر دیا۔ سید صاحب نے دیکھے بغیر اِسے میز پر ڈالا، کچھ دیر کے لیے دراز ٹٹولی، فارغ ہو کر اچٹتی سی ایک نگاہ رقعے پر ڈالی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

اٹھتے اٹھتے جیسے انھیں کچھ یاد آیا اور انھوں نے نگاہ التفات کے منتظر اجنبی کی طرف دیکھا اور بلا تمہید بولے کہ پھر چلیں؟

’کہاں؟‘

’ہمارے ہاں یہ وقت ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔‘

سننے والے نے اس مختصر جملے میں بے تکلف شگفتگی میں لپٹی ہوئی طنز کی گہری کاٹ کو محسوس کیا، ان کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سوچا، اس شخص کے ساتھ بات کرنا کتنا مشکل ہے۔

سید منور حسن سے قربت رکھنے والے ان کے بہت سے احباب کا اصرار ہے کہ وہ سراپا دل تھے، سفر و حضر کے ساتھیوں کا مشاہدہ بالعموم درست ہوتا ہے لیکن یہ خیال بھی غلط نہیں کہ یہ زبان ہی تھی جو سید صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار اور سب سے بڑی کمزوری بنی لیکن ٹھہریے، یہ تبصرہ ذرا غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے ،لہٰذا تھوڑی تفصیل سے بات کرنی ضروری ہے۔
سید صاحب کے مزاج کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنے پیرو کار کہاں سے ملے؟

علامہ محمد اسد اور پاکستان

علامہ محمد اسد 
یہودیت کو  چھوڑ اسلام قبول کرنے والے محمد اسد (سابق نام: لیوپولڈ ویز) جولائی 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹرو۔ ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔

بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23 سال کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر 1926ء میں جرمنی کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں 66 سال صرف کرکے بالآخر 1992ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

ابتدائی زندگی

لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی 
(حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ )

اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
 اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
 سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:

Dawn of Islam , بابر اعوان, معروف وکیل اور سیاست دان


Dawn of ISLAMبابر اعوان معروف وکیل اور سیاست دان
صفی لکھنوی کی نظم ''رجزِ مسلم‘‘ کے یہ اشعار ایک مسلسل آفاقی حقیقت کو آشکار کرتے ہیں۔؎

اسلام   زمانے   میں  دبنے  کو   نہیں   آیا
تاریخ سے یہ مضموں ہم تم کو دکھا دیں گے

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ   دبا   دیں گے

مغرب کی کولڈ وار (Cold War) کے بعد ''تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا نظریہ تخلیق کیا گیا۔ اس تھیوری کو سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samual P. Huntington) نے سال 1992ء میں ایک لیکچر کے دوران پیش کیا تھا‘ جو درحقیقت صلیبی جنگوں (Crusades) کا ہی کاپی پیسٹ تھا؛ چنانچہ اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی رہا۔ خونِ مسلم کی ارزانی لاکھوں کروڑوں کا قتلِ عام فصلوں‘ شہروں‘ آبادیوں‘ درختوں اور انسانوںکو Flora and Fauna سمیت توسیع پسندی کی قربان گاہ پر بَلی چڑھا دیا گیا۔ یوں ثابت ہوا کہ کنگڈم آف ہیون کا تصور تھوڑا مدہم ہوا تھا‘ رخصت نہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر امپورٹڈ غیر ملکیوں کی بستیاں‘پھر سانحہ نائن الیون کی تخلیق کاری‘ جس پر امریکی افواج نے 9/11 سے پہلے تحریری رپورٹ دے کر صیہونی ایجنٹوں کی جانب سے Twin Towers کو گرانے کا الرٹ جاری کیا تھا۔ 9/11 کے سانحے سے ایک روز قبل موساد کے بارے میں امریکن آرمی سکول آف ایڈوانس سٹڈیز کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا: موساد کے صیہونی ایجنٹ امریکن فورسز پر حملہ کریں گے اور اس حملے کو ایسا پینٹ کریں گے کہ امریکن یہ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں‘ اُن پر کسی اور نے نہیں عرب/ مسلمانوں نے حملہ کیا ہے۔ عملی طور پر نائن الیون مسلمانوں کے لئے بہت خون آشام کروسیڈ ثابت ہوا۔

مسلم معاشرے اور سیکولرازم - خورشید ندیم

مسلم معاشرہ اور سیکولر ازم - خورشید ندیم 
مشکل کی اس گھڑی میں کون ہے جو بھارت کے مظلوم مسلمانوں کا ہاتھ تھام سکتا ہے؟ ہر سمت سے ایک ہی آواز ہے: ''سیکولرازم‘‘۔

ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ سیکولرازم 'لادینیت‘ ہے۔ مذہب کے خلاف اُٹھنے والا سب سے بڑا فتنہ۔ پھر وہ مسلمانوں کی مدد کو کیوں آئے گا؟ ان کی مذہبی شناخت کی حفاظت کیوں کرے گا؟ اب ان دو مقدمات میں سے ایک ہی درست ہو سکتا ہے: یا تو ہم نے سیکولرازم کو سمجھنے میں غلطی کی یا پھر تجزیے میں۔ یا تو سیکولرازم لادینیت نہیں ہے یا پھر یہ مسلمانوں کا نجات دہندہ نہیں۔ میرا احساس ہے کہ آج یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا فکری مخمصہ ہے۔ اس نے ایک فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور لبرل ازم اس کے نتائج ہیں۔

24 دسمبر کو ''نیو یارک ٹائمز‘‘ میں ایک ترک دانشور مصطفیٰ اخول کا ایک بہت اہم مضمون شائع ہوا ''اسلام میں جدید سیکولرازم کا ظہور‘‘ (A New Secularism is Appearing in Islam) ۔ یہ مضمون عالم اسلام میں آنے والی بعض اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مصطفیٰ نے گزشتہ سالوں میں بہت اہم تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کی کتاب 'اسلام کا مسیحؑ‘ (The Islamic Jesus) بین المذاہب ہم آہنگی کے باب میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ یہودی مسیحی (Jewish Christians)، یعنی وہ یہود جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لائے، وہ انہیں اللہ کا پیغمبر اور مسیحا مانتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ان کے عقائد وہی تھے جو قرآن مجید نے چھٹی صدی عیسوی میں بیان کیے۔ یوں اخول نے ابراہیمی ادیان میں فکری ربط، یہودی و مسیحی علمی تاریخ کے ابتدائی ماخذات سے ثابت کیا ہے۔
مصطفیٰ نے پرنسٹن اور میشیگان یونیورسٹی کے ایک مشترکہ ریسرچ پروجیکٹ 'عرب بیرومیٹر‘ کے ایک سروے کا ذکر کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں مذہب بیزاری روز افزوں ہے۔ بہت سرعت کے ساتھ تو نہیں لیکن لوگوں میں مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں چھ عرب ممالک میں مذہب بیزار افراد کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ 2018ء میں یہ تیرہ فیصد ہو چکی۔

سولہ دسمبر - محمد اظہار الحق

سولہ دسمبر - محمد  اظہار الحق 
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا!جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎

کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروںکو بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب  آبروئے  شیوئہ اہلِ   نظر  گئی

احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔

اقبال تعلیم اور مدرسہ ۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی

علامہ اقبال اور تعلیم 
اقبال تعلیم کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ عہدِ حاضر میں ذہنوں کو مغلوب کرنے کا سب سے موثر ہتھیار تعلیم ہے۔ اقبال کے بقول:

سینے میں رہے رازِ ملوکانہ تو بہتر
کرتے نہیں محکوموں کو تیغوں سے کبھی زیر

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے اور ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر

تصور، جستجو، تحقیق، آزاد ئی فکر، عمل، حرکت اور تبدیلی اقبال کے تصور تعلیم کے بنیادی اجزا ہیں۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی کے اسباب کا تجزیہ ان کی نظم ”آوازِ غیب“ میں ملتا ہے۔ اس نظم کے شروع کے دو اشعار میں مسلمانوں کی زبوں حالی کے حوالے سے سوال سامنے آئے ہیں :

کیا عربی پاکستان کی قومی و سرکاری زبان بن سکتی ہے؟

سوال: ایک صاحب کا انگریزی مضمون ارسال خدمت ہے جو اگرچہ مسلم لیگ کے حلقے میں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کی منشاء کے مطابق تبدیلی آئے۔ فی الحال یہ ایک خاص مسئلہ پر متوجہ ہیں۔ یعنی اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان بروئے دستور عربی قرار پائے۔ ان کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔
’’پاکستان کی قومی زبان کے مسئلے کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہونے والا ہے۔ میری التجا ہے کہ آپ عربی زبان کے حق میں آواز بلند کرنے پر پوری توجہ صرف کریں۔ یہ معاملہ اسلام اور پاکستان کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اگر آپ میری ان سطور کو موقر جریدے میں شائع فرمادیں تو میں بہت شکرگزار ہوں گا۔

عربی زبان کلام الہٰی یعنی قرآن مجید کی زبان ہے اور قرآن مجید ہی پر سارے اسلام کا دارومدار ہے۔ اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے عربی سیکھنا ضروری ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے ارشاد کے بموجب عالمِ آخرت کی زبان بھی عربی ہوگی۔ پھر اسلام کے سارے سرمایہ روایات کے علمی ماخذ بھی عربی زبان میں ملتے ہیں۔

کشمیر اور امت مسلمہ - خورشید ندیم

flag of Jummu Kashmir
دارالعلوم دیوبند برِ صغیر کا تاریخ ساز مدرسہ ہے۔ بھارتی حکومت نے جب اپنے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کیا تو مجھے جستجو ہوئی کہ میں اس ادارے کا ردِ عمل معلوم کروں۔ میں نے جب دارالعلوم کی ویب سائٹ کو دیکھا تو مجھے مکمل خاموشی دکھائی دی۔ میں نے خیال کیا کہ یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے اور ممکن ہے کہ اس نے خود کو سیاسی امور سے لا تعلق رکھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ بعد میں اس کی تصدیق ہوئی جب ادارے کے نائب مہتمم کا موقف سامنے آیا۔ موقف یہی تھا کہ یہ ادارہ سیاسی معاملات میں کلام کرنے سے گریز کرتا ہے۔

یہ موقف ایک پہلو سے قابلِ فہم تھا۔ مسلک دیوبند نے اپنے ہاں کچھ اس طرح تقسیمِ کار کا اصول اپنایا ہے کہ تعلیم و تدریس کے لیے دارالعلوم اور ذیلی مدارس، دعوت کے لیے تبلیغی جماعت اور سیاست کے لیے جمعیت علمائے ہند کے فورمز مختص ہیں۔ یہ تقسیم آج سے نہیں، کم و بیش ایک صدی سے ہے۔ اب میں نے جمعیت علمائے ہند کی ویب سائٹ کی طرف رجوع کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں بھی کشمیر کے معاملے میں مکمل خاموشی کو روا رکھا گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا ذکر ہے۔ فلسطین کی تازہ ترین صورتِ حال پر جمعیت کا موقف موجود ہے لیکن اگر کسی موضوع پر زباں بندی ہے تو وہ کشمیر ہے۔