پاکستان کا وہ ’سیاسی‘ فتویٰ جس کے خلاف بھٹو، شیخ مجیب اور مفتی محمود ہم آواز ہوئے

فاروق عادل مصنف، کالم نگار

اپنے وجود میں آنے کے ٹھیک 22 برس بعد یعنی 1969 میں پاکستان ایک بار پھر سوچ رہا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد کیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کی نظریاتی منزل کیا ہو گی؟

مختلف پس منظر رکھنے والے لوگوں نے اس سوال کا مختلف جواب دیا۔ یہ جواب کیا رہے ہوں گے، انھیں سمجھنے کے لیے اس زمانے کی سیاسی صف بندی کو سمجھنا ضروری ہے۔

پاکستان میں علمائے دیو بند کی ایک ممتاز شخصیت مولانا عبید اللہ انور کی سوانح سے اس تقسیم کی خبر ملتی ہے۔

’مولانا عبید اللہ انور: شخصیت اور جدوجہد‘ نامی کتاب میں مصنف امجد علی شاکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کی قومی سیاست اس وقت پانچ سیاسی دھاروں میں بہہ رہی تھی۔

  • اسلامی سوشلزم یا سوشلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی)
  • نیشنلزم کی علم بردار جماعتیں (یعنی عوامی لیگ)
  • مسلم لیگ کے مختلف گروہ جن کا نعرہ ’اسلام‘ تھا
  • اسلام کی علم بردار جماعت جمیعت علمائے اسلام۔ (دینی جماعتوں کے ایک طبقے کا الزام تھا کہ یہ جماعت سوشلزم کو قابل قبول قرار دے کر بائیں بازو کی جماعتوں کی دست و بازو بن چکی ہے)
  • اسلامی نظام کی حامی اور سوشلزم کی مخالف جماعتیں (یعنی جماعت اسلامی اور مرکزی جمیعت علمائے اسلام)

پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر یہ تقسیم کس طرح عمل میں آئی ہو گی، اس کے پس منظر میں مقامی حالات کے علاوہ بین الاقوامی صورتحال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں سوشلزم کا نعرہ


ممتاز مؤرخ اور پاکستان سٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں میں بائیں بازو کے رجحانات اگرچہ قیام پاکستان سے پہلے سے پائے جاتے تھے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد حالات میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور یہ تمام عناصر اس تازہ لہر میں بہہ کر اس نئی جماعت کے دست و بازو بن گئے۔

اس نئی جماعت نے اپنے چار نکاتی نصب العین میں سوشلزم کو بطور معاشی نظام اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ یوں اس نعرے نے پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے نظریاتی تالاب میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک یہ نعرہ پاکستان جیسے ملک میں نظریاتی انحراف کا درجہ رکھتا تھا۔

امجد علی شاکر کے مطابق اس کا ایک سبب مولانا عبدالحمید بھاشانی کی کسان کانفرنس بھی بنی۔ اُن کے مطابق جماعت اسلامی نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور ’یہ تاثر دیا کہ جیسے اشتراکی انقلاب پاکستان کے دروازے پر آن پہنچا ہے۔‘

ڈاکٹر جعفر احمد اس تاثر کی مکمل طور پر تائید نہیں کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی ان واقعات سے بھی پہلے سوشلزم کے خلاف متحرک ہو چکی تھی۔

اس کا ثبوت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد کی ادارت میں ’چراغ راہ‘ نامی پرچہ سوشلزم نمبر کے عنوان سے ایک ضخیم دستاویز شائع کر چکا تھا۔

ان کے بعد نعیم صدیقی نے ’دارالفکر‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس نے سوشلزم کے خلاف سینکڑوں پمفلٹ لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے ایک فضا قائم کر دی۔

یوں اس تاثر کی تصدیق ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی ان واقعات سے قبل ہی سوشلزم کے خلاف متحرک ہو چکی تھی۔

اس نظریاتی کشمکش میں یحییٰ خان کے دور کی طویل انتخابی مہم نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ’سال بھر جاری رہنے والی انتخابی مہم نے نظریاتی کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ سوشلزم کے خلاف فتویٰ بھی اسی کا شاخسانہ تھا۔‘

سوشلزم کے خلاف فتویٰ



یہ فتویٰ مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے 113 علمائے کرام نے جاری کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ فتوے پر دستخط کرنے والے علما کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

یہ فتویٰ ایک سوال کی بنیاد پر جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں چار قسم کی سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں، ان میں کچھ اسلامی نظام کے قیام کی بات کرتی ہیں جبکہ بعض جماعتیں ’انکار خدا، انکار رسالت و آخرت‘ کرتی ہیں۔ یہ جماعتیں ’قرآن و سنت کا انکار کرنے کے علاوہ نظریہ پاکستان کی بھی منکر ہیں۔‘

تیسری قسم کی جماعتیں مسلم تہذیب پر ہندو تہذیب کو فوقیت دیتی ہیں اور نیشنلزم و سیکیولرزم کے نفاذ کا نعرہ بلند کرتی ہیں جب کہ دینی جماعتوں کی ایک قسم قرآن و سنت کا اقرار کرنے کے باوجود سوشلزم اور نیشنلزم کی داعی جماعتوں سے اشتراک عمل اور اتحاد کرتی ہیں۔

سوال کیا گیا کہ ان جماعتوں کو مالی تعاون اور ووٹ دینے سمیت شریعت کا حکم کیا ہے؟

اس جامع سوال کے جواب میں فتوے کی ابتدا ان سطور سے ہوتی ہے: ’اس وقت اسلام اور پاکستان کے لیے سوشلزم سے بڑا کوئی خطرہ اور فتنہ نہیں ہے۔ ان کے خلاف جہاد ہر مسلمان پر بقدر طاقت فرض ہے۔‘

فتوے کے اگلے حصے میں بائیں بازو کی جماعتیں زیر بحث لائی گئی ہیں۔ اس حصے میں کہا گیا ہے:

’(تیسری قسم، اصل میں دوسری) ان جماعتوں کی ہے جو یا تو کمیونزم اور سوشلزم کو عقیدۃً قبول کر کے خدا کے وجود ہی کی منکر ہیں یا قرآن کے تاقیامت واجب العمل قانون ہونے کی یا حدیث رسول کے حجت ہونے کا انکار کرتی ہیں۔ یا انفرادی ملکیت کو مطلقاً ظلم قرار دیتی ہیں اور اس کے خلاف لوٹ مار کر کے دوسروں کے اموال اور جائیدادوں پر قبضہ کر لینے کو جائز قرار دیتی ہیں۔‘

’وہ بلاشبہ قرآن و سنت کی باغی ہیں۔۔۔ ایسے لوگوں سے کسی قسم کا اشتراک عمل ہدم اسلام کا مترادف ہے۔ ان کے ساتھ شریک ہونا یا ان کی کسی قسم کی امداد کرنا یا ان کو ووٹ دینا، کفر کی امداد کرنا (ہے) اور سخت حرام ہے۔‘

فتوے کے تیسرے حصے میں تیسری قسم کی جماعتوں یعنی قوم پرست جماعتوں کا ذکر ہے جنھیں نظریہ پاکستان کا مخالف اور ہندوؤں کا دوست قرار دیا گیا۔ ایسی جماعتوں کی حمایت کو ’ناجائز‘ قرار دیا گیا۔

فتوے کے چوتھے حصے میں ان دینی جماعتوں پر بحث کی گئی ہے جنھیں سوال میں سوشلسٹس کے ساتھ اتحاد کرنے والی جماعتیں قرار دیا گیا تھا۔ فتوے میں کہا گیا کہ: ’ان (سوشلسٹ جماعتوں) کے ساتھ معاہدہ اشتراک عمل ان کے باطل نظریات کو قوت پہنچانے اور ملک پر سوشلزم کو مسلط کرنے کا سبب بنے گا۔ اہل علم کا ان کے ساتھ اختلاط مسلمانوں کے قلوب سے اس کافرانہ نظام کی نفرت کم کرے گا اور ان کو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے اور ناواقف مسلمانوں کو اپنے دام میں لانے کا ذریعہ بنے گا۔‘

ایسا کرنے والے حضرات کتنے ہی نیک اور نیک نیت ہوں مگر ان کی نیک نیتی سعی و عمل کے منطقی اور فطری نتائج کو نہیں بدل سکتی۔ اس لیے ان حضرات کی امداد و اعانت کا سارا فائدہ سوشلسٹ عناصر کو پہنچے گا۔ ان کو چندہ یا ووٹ دینا ایسا ہی ہو گا جیسے براہ راست سوشلسٹ عناصر کو ووٹ دیا جائے۔‘

یہ اس طویل فتوے کے بنیادی نکات تھے جس نے پورے ملک میں ہیجان پیدا کر دیا۔ اس فتوے پر دو طرف سے ردعمل سامنے آیا۔ اس طرح واضح ہو گیا کہ اس کا ہدف کون سے طبقات تھے۔

اس زمانے میں بائیں بازو کے نظریات کی ترجمانی ’لیل و نہار‘ نامی ایک ممتاز ہفت روزہ کیا کرتا تھا۔ اس ہفت روزے نے ’فتویٰ و جواب فتویٰ نمبر‘ شائع کیا۔


اس میں شامل تحریروں میں اس فتوے سے پیدا ہونے والے تاثر کی تردید کرنے کے علاوہ علما کے اس طرز عمل کی نشان دہی کی گئی کہ وہ اسی طرح ہمیشہ ہی نئے اور ترقی پسندانہ خیالات کا راستہ فتوؤں کے ذریعے روکنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ ’لیل و نہار‘ کے اس خصوصی نمبر کو مدافعانہ اور جارحانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

بھٹو، مجیب ہم آواز ہو گئے

اس فتوے کے خلاف دو سیاسی طبقات نے آواز بلند کی۔ ان میں بائیں بازو کی جماعتیں، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی، شامل تھیں۔ اس جماعت کی طرف سے فتوے کو سامراجی طاقتوں کے مقاصد کے حصول کی ایک کوشش قرار دیا گیا۔

اس عہد کے ایک ممتاز صحافی جمیل احمد رانا نے اس ردعمل کو مرتب کر کے ہفت روزہ ’آئین‘ میں شائع کیا۔ بائیں بازو کے چند اہم رہنماؤں کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فتوے کے خلاف ان کا ردعمل کس قدر سخت تھا۔ یہ ردعمل ہفت روزہ ’لیل و نہار‘ کے علاوہ دیگر قومی اخبارات میں بھی شائع ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے اس ضمن میں اپنے متعدد بیانات میں کہا: ’یہ فتوے جاری کرنے والے سامراجیوں کے پٹھو ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، وہ خود کافر ہیں۔ جو لوگ پیسے لے کر مسلمانوں کے خلاف فتوے دیتے ہیں، ہم انھیں فکس اپ کریں گے۔ انھوں نے کافرو ں کی خدمت کی ہے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل جے اے رحیم نے اس فتوے کو ’یہودی سازش‘ قرار دیا۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے کہا کہ ان فتوؤں کا حشر بھی وہی ہو گا جو سرسید اور اقبال کے خلاف فتوؤں کا ہوا تھا۔

عوامی نیشنل پارٹی بھاشانی گروپ کی مجلس عاملہ نے اپنی قرار داد میں فتوے کو شرانگیزی کے علاوہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور سامراج کو فائدہ پہنچانے کی کوشش قرار دیا۔

عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن نے اس فتوے کو غاصبوں کے ہاتھ مضبوط کرنے اور عوام کے مسائل میں اضافے کی کوشش قرار دیا۔

جماعت اسلامی کے کردار پر سوال اور مذہبی جماعتوں کا ردعمل



بھٹو اور مفتی محمود

اس فتوے کے خلاف دوسرا ردعمل دینی طبقات خاص طور پر جمیعت علمائے اسلام ہزاروی گروپ کی طرف سے آیا جس کی قیادت مولانا مفتی محمود کے پاس تھی۔

انھوں نے روزنامہ ’امروز‘ میں شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ان فتووں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسی اخبار میں شائع ہونے والے ایک اور بیان میں انھوں نے کہا کہ فتویٰ جاری کرنے والے اس کے ذریعے نہ سرمایہ داری نظام کو بچا سکتے ہیں اور نہ آنے والے عوامی انقلاب کو روکا جا سکتا ہے۔

ایک اور بیان میں انھوں نے اشارہ کیا کہ یہ فتویٰ ایک سیاسی جماعت کے اشارے پر جاری کیا گیا ہے، انھوں نے کہا: ’کچھ نام نہاد علما نے ایک سیاسی جماعت کے اشارے پر سوشلزم کے خلاف جو فتویٰ جاری کیا ہے، وہ ایک سازش ہے۔ یہ سازش پاکستان کے بارہ کروڑ عوام کے خلاف ہے۔‘

مولانا مفتی محمود نے اس فتوے کے سلسلے میں جو بات اشارے میں کہی، وہی بات مولانا عبید اللہ انور کی سیاسی سوانح میں زیادہ وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے۔ امجد علی شاکر نے مولانا احتشام الحق تھانوی کے ایک خط کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ فتویٰ جماعت اسلامی کے اشارے پر لکھا گیا۔

پروفیسر سلیم منصور خالد اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فتوے پر جماعت اسلامی سے وابستہ کسی عالم دین کے دستخط نہیں ہیں، اشارے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اسی زمانے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور ممتاز عالم دین مفتی سیاح الدین کاکا خیل کا ایک طویل مضمون شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں اس فتوے کو درست قرار دیا اور کہا کہ فتویٰ دینے والے علما صاحبان علم اور صاحبان کردار شخصیات ہیں، یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ہلکی بات کہیں یا کسی مفاد کے تحت دین کے مزاج کے خلاف کوئی غلط بات کہیں۔

انھوں اپنے مضمون میں یہ گواہی بھی دی کہ اس میں جماعت اسلامی یا اس سے وابستہ کسی ذیلی تنظیم کے کسی رکن نے حصہ لیا یا کوئی کردار ادا کیا۔

فتوے سے جماعت اسلامی کے تعلق اور دیوبند کے تھانوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علما کے ذکر سے علما کی وہ بہت بڑی تعداد پس منظر میں چلی گئی جنھوں نے اس فتوے پر دستخط کیے تھے۔

فتوے پر دستخط کرنے والے علما کی ایک بڑی تعداد کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جب کہ دستخط کرنے والے علما کی غالب اکثریت ایسے ناموں پر مشتمل ہے جن کی اپنی جداگانہ شناخت ابھی تک قائم ہے۔

نمایاں سنی علما میں مولانا ظفر احمد عثمانی، امیر مرکزی جمیعت علمائے اسلام، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا سید محمود احمد رضوی اور مولانا محمد بخش مسلم سمیت کئی درجن دیگر علما شامل تھے جب کہ نمایاں شیعہ علما میں سید محمد دہلوی، علامہ ابن حسن جارچوی کے علاوہ بہت سے دیگر علما شامل تھے۔

انتخابی نتائج کے اثرات

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات سے قبل یہ فتویٰ ایک بڑے ہیجان کا باعث بنا لیکن انتخابی کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی اس کے اثرات زائل ہو گئے۔



امجد علی شاکر نے لکھا ہے کہ مولانا احتشام الحق تھانوی جو خود فتویٰ دینے والوں میں شامل تھے، ذوالفقار علی بھٹو کے اتحاد ی بن گئے اور ان کے پورے دور حکومت میں رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے۔

اگر یہ فتویٰ اتنی جلدی اپنا اثر کھو بیٹھا تو کیا سبب تھا کہ انتخابات سے قبل رویوں میں اتنی شدت پیدا ہو گئی؟

جمیعت علمائے اسلام (ف) کی مرکزی مجلس عمومی کے رکن مولانا محمود الحسینی نے بتایا کہ اس کا باعث انتخابی گہما گہمی اور سیاسی مفادات تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اگرروٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تو جمیعت علمائے اسلام کا نعرہ بھی اس سے مماثلت رکھتا تھا۔ جمیعت کا نعرہ تھا ’زمین ہاری کی، کارخانہ مزدور کا۔‘

اس کے علاوہ جمیعت کا بائیں بازو کے ایک معروف مزدور رہنما بشیر احمد بختیار سے اتحاد بھی ہو گیا تھا۔ یہ اتحاد بھی اس فتوے کا باعث بنا۔

عرب سوشلزم کا اثر


ڈاکٹر جعفر احمد اس صورتحال کی ایک اور توجیہہ بھی بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جمیعت علمائے اسلام سے وابستہ علما کا ایک بڑا طبقہ اس زمانے میں متعارف ہونے والے عرب سوشلزم کا قائل تھا اور سمجھتا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل بھی اسی نظام میں ہے۔

ڈاکٹر جعفر احمد کے تجزیے کی تصدیق جمیعت علمائے اسلام کے ترجمان جریدے ’ترجمان اسلام‘ کے مندرجات سے ہوتی ہے۔

اس جریدے کے ایڈیٹر مسلسل ایسی تحریریں اور تجزیے شائع کیا کرتے تھے جن سے سوشلزم کی حمایت یا اس کے لیے نرم گوشے کا تاثر مضبوط ہوتا تھا۔

چار جون 1969 کے ’ترجمان اسلام‘ میں لکھا: ’اشتراکی نظام اپنی اصل میں محض اقتصادی اور معاشی تبدیلیوں کا نظام ہے جس کا کوئی واقعی تعلق نظریاتی و اعتقادی افکار سے نفیاً و اثباتاً نہیں ہے۔‘

اسی طرح روزنامہ ’حریت‘ میں مولانا مفتی محمود کا ایک بیان شائع ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ ’ہمارا اصل دشمن سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سوشلزم سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘

جس طرح فتویٰ دینے والے علما نے حالات میں تبدیلی کے بعد فتوے کا ہدف بننے والی سیاسی قوتو ں سے ہاتھ ملانے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا، اسی طرح فتوے کا ہدف بننے والی جماعت علمائے اسلام نے فتویٰ دینے والوں کے ساتھ ربط ضبط بڑھانے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کی۔

مولانا محمود الحسینی نے بی بی سی کو بتایا کہ انتخابات کے بعد جمیعت علمائے اسلام کے جماعت اسلامی اور مرکزی جمیعت علمائےاسلام کے ساتھ تعلقات میں اعتدال پیدا ہو گیا۔

مرکزی جمیعت علمائے اسلام کو ’ترجمان اسلام‘ کے ایڈیٹر ڈاکٹر کمال سے اُن کے نظریات کے تعلق سے شکایات تھیں۔ مولانا مفتی محمود نے اس جماعت کو یقین دلایا کہ انھیں سبکدوش کر دیا جائے گا۔

اسی طرح جماعت اسلامی کو یقین دہانی کرائی گئی کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کو غیر فعال کر دیا جائے گا۔ مولا نا ہزاروی جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔

پاکستانی سیاست کا یہ دور شاید واحد دور ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس میں فریقین کی طرف سے بھرپور طریقے سے نظریاتی سیاست کی گئی۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن اسی نظریاتی کشمکش میں اتنی شدت پیدا ہو گئی کہ لوگوں کے سماجی تعلقات ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ کسی کا نام لیے بغیر ہی سہی کفر کے فتوے تک جاری کیے گئے۔

یہی دور اس اعتبار سے بھی یادگار رہے گا کہ اس میں ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ سیاست کی دنیا میں مذہبی فتویٰ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔

یہ فتویٰ جن سیاسی قوتوں کے خلاف دیا گیا تھا، وہی انتخابات کے نتیجے میں طاقت بن کر ابھریں اور فتوے کا سہارا لینے والی قوتیں اس معرکے کے بعد بکھر کر رہ گئیں۔

واقعات جماعت اسلامی کے اس دعوے کی تائید کرتے ہیں کہ اس فتوے سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا پھر کیا وجہ تھی کہ اسے اس فتوے کا بوجھ برداشت کرنا پڑا۔

اس سوال کا ایک جواب ڈاکٹر جعفر احمد فراہم کرتے اور ایک مولانا محمود الحسینی۔ مولانا حسینی کہتے ہیں کہ مولانا مودودی نے ’مسئلہ ملکیت زمین‘ نامی کتاب لکھ کر لینڈ ہولڈنگ کی حمایت کی تھی جبکہ جمیعت نے ’زمین ہاری کا‘ نعرہ لگا کر اس تاثر کی نفی کی تھی۔ یہ تاثر جماعت اسلامی کو مہنگا پڑا۔

ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی چونکہ پہلے سے ہی سوشلزم کے خلاف مہم چلا رہی تھی، اس لیے فطری طور پر اسے بھی فتوے کا ہم خیال گردانا گیا۔