آغا حسن عابدی : ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کرنے کا خواب اور اس کا انجام

مضمون نگار : عقیل عباس جعفری ،  محقق و مورخ، کراچی 
 اشاعت : بی بی سی اردو 5 اگست 2020 

آغا حسن عابدی 
آغا حسن عابدی: بی سی سی آئی کی بنیاد رکھنے والے پاکستانی بینکار جن پر ایٹمی پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کی معاونت کا الزام لگایا گیا ۔ 

لکھنؤ یونیورسٹی میں آغا حسن عابدی کے سب سے قریبی دوست عبادت یار خان تھے، جو ادبی دنیا میں عبادت بریلوی کے نام سے معروف ہوئے۔ وہ اپنی کتاب 'غزالان رعنا' میں آغا حسن عابدی کا ایک بہت خوبصورت خاکہ لکھتے ہیں:

آغا حسن عابدی لکھنؤ یونیورسٹی میں انگریزی زبان میں ایم اے اور ایل ایل بی ساتھ ساتھ کر رہے تھے۔

ایک دن آغا حسن عابدی نے عبادت بریلوی سے کہا 'نہ میں لیکچرر شپ کرسکتا ہوں، نہ وکالت، دونوں پیشے میرے مزاج کے نہیں۔ سوچتا ہوں محمود آباد اسٹیٹ میں ،جہاں میرے والد ملازم ہیں ،کوئی چھوٹی موٹی ملازمت کر لوں۔‘

عبادت بریلوی نے ان سے کہا 'اتنا پڑھ لکھ کر محمود آباد ریاست کی ملازمت تمہارے شایان شان نہیں ہوگی۔ ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے۔ حبیب بینک نیا نیا کھلا ہے، یہ مسلمانوں کا بینک ہے۔ اگر راجہ صاحب محمود آباد، حبیب سیٹھ کو سفارشی خط لکھ دیں گے تو اس بینک میں تمہیں آفیسر کی جگہ مل جائے گی۔ لیکن یہ سوچ لو کہ اس کے لیے تمہیں بمبئی جانا ہو گا، لکھنؤ سے باہر رہنا ہو گا۔'

آغا حسن عابدی نے کہا 'یار! کیسی باتیں کرتے ہو؟ میں بینک کی ملازمت کروں گا! تم میرے مزاج سے اچھی طرح واقف ہو۔ یہ ملازمت میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔‘

عبادت بریلوی نے کہا 'میاں صاحبزادے! حالات بہت سنگین ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں، مجھے تو صرف یہی دروازہ کھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ راجہ صاحب سے حبیب سیٹھ کے نام خط لکھوالو اور چپ چاپ بمبئی چلے جاؤ۔ اس ملازمت میں آئندہ ترقی کے امکانات بہت ہیں۔‘
آغا حسن عابدی کو عبادت بریلوی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی، لیکن وہ اس کے بارے میں سوچتے رہے۔ عبادت بریلوی لکھتے ہیں: 'بالآخر انھوں نے میری تجویز پر عمل کیا اور راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر حبیب سیٹھ کو خط لکھنے کی درخواست کی۔ راجہ صاحب نہایت شریف انسان تھے۔ انھوں نے آغا حسن عابدی کے لیے خط لکھ دیا اور کہا کہ 'یہ خط لے کر آپ بمبئی چلے جائیے، انشااللہ کام ہو جائے گا۔'

دوسرے دن یہ خط لے کر آغا حسن عابدی عبادت بریلوی کے گھر پر آئے اور کہنے لگے 'یار! راجہ صاحب نے ازراہ نوازش خط تو لکھ دیا ہے۔ لیکن میں الجھن میں ہوں۔ کیا کروں؟ مجھے رائے دو!۔'

عبادت صاحب نے کہا 'یہ خط لے کر آپ فوراً بمبئی چلے جایئے۔ حبیب سیٹھ سے ملیے، یہ خط انھیں پہنچائیے اور حبیب بینک میں افسر کے عہدے پر فائز ہو جائیے۔‘

آغا حسن عابدی عبادت بریلوی کی بات مانتے تھے، اس لیے ان کے کہنے پر بمبئی جانے کے لیے تیار ہو گئے اور ایک ہفتے بعد بادل نخواستہ بمبئی روانہ ہو گئے۔

تین چار دن کے بعد بمبئی سے عبادت بریلوی کے نام آغا حسن عابدی کا خط آیا۔ لکھا تھا: 'راجہ صاحب کے خط نے بڑا کام کیا۔ مجھے ملازمت مل گئی، یہاں ماحول اچھا ہے، بمبئی شہر بہت خوب صورت ہے۔ میرا دل یہاں لگ گیا ہے۔ ابھی ٹریننگ ہو رہی ہے۔ تین چار مہینے میں ٹریننگ مکمل ہو گی اور حبیب بینک کی مختلف برانچوں کی تنظیم کا کام میرے سپرد کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرنا ہو گا۔‘

عبادت بریلوی کہتے ہیں کہ یہ خط پڑھ کر انھیں بے حد خوشی ہوئی۔

آغا حسن عابدی اپنے بینکنگ کے کاموں کے سلسلہ میں دہلی آتے جاتے رہے۔ پھر پاکستان بن گیا۔ عبادت بریلوی اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہو گئے، آغا حسن عابدی پاکستان آ گئے اور انھوں نے حبیب بینک میں ترقی کے مدارج طے کرنا شروع کر دیے۔

سہگل خاندان سے تعلقات اور یونائیٹڈ بینک کا قیام


حبیب بینک میں ملازمت کے دوران آغا حسن عابدی کے تعلقات پاکستان کی کاروباری شخصیات سے استوار ہونا شروع ہوئے جن میں سہگل خاندان کا نام سرفہرست تھا۔ 1959 میں حبیب خاندان نے سہگل خاندان کو ایک ایسے کاروباری معاملے میں بینک گارنٹی دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جس میں حبیب خاندان خود بھی دلچسپی رکھتا تھا۔

آغا حسن عابدی نے حبیب خاندان کو ایسا کرنے سے باز رکھنا چاہا مگر ان کی ایک نہ سنی گئی نتیجہ حبیب بینک سے آغا حسن عابدی کی علیحدگی کی صورت میں نکلا۔

سہگل خاندان نے آغا حسن عابدی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا اور یوں سات نومبر 1959 کو یونائیٹڈ بینک کا قیام عمل میں آ گیا جس کے لیے سرمایہ سہگل خاندان نے فراہم کیا تھا اور اس کے پیچھے ذہن آغا حسن عابدی کا تھا۔

پاکستان کے بینکنگ کے افق پر اگلے 10-12 برس یونائیٹڈ بینک کے عروج کے برس تھے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ ہی نہیں چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی اس کی شاخیں کھلتی چلی گئیں۔ مغربی پاکستان کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی یونائیٹڈ بینک اپنی ساکھ بنا رہا تھا۔ سہگل گروپ کی سرپرستی کی وجہ سے پاکستان کا دیگر کاروباری حلقہ بھی یونائیٹڈ بینک پر اعتماد کر رہا تھا۔

1970 کے لگ بھگ ملک بھر میں یونائیٹڈ بینک کی 912 شاخیں کھل چکی تھیں جن میں سے 224 شاخیں مشرقی پاکستان میں تھیں۔ بیرون ملک قائم ہونے والی 24 برانچیں ان کے علاوہ تھیں۔

مشرقی پاکستان میں آغا حسن عابدی کو صالح نقوی کی رفاقت میسر آئی جو مغربی پاکستان سے تبادلہ ہو کر مشرقی پاکستان بھیجے گئے تھے مگر انھوں نے اپنی صلاحیتوں سے مشرقی پاکستان کا کاروباری میدان فتح کر لیا تھا۔

ایک عالمی بینک کے قیام کا خواب


1971 میں سقوط ڈھاکا کے بعد یونائیٹڈ بینک کو مشرقی پاکستان سے بوریا بستر سمیٹنا پڑا۔ صالح نقوی سقوط ڈھاکا سے بہت پہلے مغربی پاکستان آ چکے تھے۔ اب آغا حسن عابدی نے ایک عالمی بینک کے قیام کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ یکم جنوری 1974 کو جب حکومت پاکستان نے پاکستان کے تمام بینک قومی تحویل میں لیے تو آغا حسن عابدی اس بینک کے قیام کی تیاری مکمل کرچکے تھے۔

انھوں نے نو آزاد متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان کا اعتماد حاصل کیا اور ان کی مالی اعانت سے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک عالمی بینک کے قیام کا ڈول ڈال دیا۔ اس بینک کو لکسمبرگ میں رجسٹر کروایا گیا تھا۔

آغا حسن عابدی کا خواب تھا کہ وہ ورلڈ بینک کے طرز پر ایک عالمی اسلامی بینک قائم کریں جس کے سرمایہ کار مسلمان ہوں۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ بینک کمزور مسلمان ممالک کو بہت کم شرح سود پر قرض دے کر انھیں معاشی طور پر مضبوط کرے اور تیسری دنیا کے محروم، پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام بھی ترقی یافتہ اقوام کے دوش بدوش آگے بڑھ کرسکیں۔

آغا حسن عابدی، شیخ زید بن سلطان النہیان کی اعانت سے اپنے بینک کو ترقی دیتے چلے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے 72 ممالک میں بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (بی سی سی آئی) کی چار سو سے زیادہ شاخیں قائم ہو گئیں، اس کے ملازمین کی تعداد سولہ ہزار تک پہنچ گئی اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا بینک بن گیا۔

بی سی سی آئی کہنے کو صرف ایک بینک تھا مگر اس کے اہداف بہت اعلیٰ تھے۔ اس نے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کی بہبود کے لیے مختلف منصوبوں پر کام شروع کیا۔

آغا حسن عابدی نے سب سے پہلے تعلیم کے فروغ پر توجہ دی اور کراچی سے لے کر صوابی تک متعدد ادارے قائم کیے جن میں کورنگی اکیڈمی، فاسٹ یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سرفہرست تھے۔ بے گھر افراد کے لیے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ اور نادار فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے انفاق فاؤنڈیشن جیسے اداروں کا قیام ساری دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ بی سی سی آئی نے صحت عامہ پر بھی خرچ کرنا شروع کیا اور کراچی میں ایس آئی یو ٹی اور لیڈی ڈفرن ہسپتال کو بھی خطیر عطیات سے نوازا۔

بی سی سی آئی کی ترقی کا راز، قدرت اللہ شہاب کی زبانی


آغا حسن عابدی کی کامیابیاں اور کامرانیاں افسانوی حیثیت اختیار کرتی جا رہی تھیں، مگر مغربی دنیا ان کی کامیابیوں کو رشک سے زیادہ حسد کی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

قدرت اللہ شہاب، شہاب نامہ میں لکھتے ہیں، 'اکتوبر 1981 میں لندن میں وہاں کے ایک مشہور رسالے نیو اسٹیٹسمین (New Statesman) کا ایک شمارہ میری نظر سے گزرا۔ اس کے سرورق پر آغا حسن عابدی کی بڑے سائز کی رنگین تصویر چھپی تھی جس کے نیچے یہ کیپشن درج تھا: ہائی اسٹریٹ کا بینکر، جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔'

'رسالے کے اندر بی سی سی آئی کے تعلق سے آغا حسن عابدی کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا فقرہ فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا، جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی سی سی آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔'

قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: 'بی سی سی آئی کی ترقی اور وسعت کی یہ تیز رفتاری انگلستان کے اونگھتے ہوئے سست رو، سرد مہر، بے حس اور سرخ فیتوں میں جکڑے ہوئے غیر مثالی بینکوں کے لیے ایک زبردست خطرے کا نشان بن گئی تھی۔'

وہ مزید لکھتے ہیں: 'یہ مضمون پڑھ کر مجھے کرید لگ گئی کہ میں آغا صاحب سے مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترقی کا اصل راز کیا ہے۔'

انھوں نے شہاب نامہ میں آغا حسن عابدی سے ہونے والی ملاقات کی تفصیل بیان کی ہے۔ ان کے مطابق ادارے کی انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان رشتہ ایسا تھا کہ ہر فرد خود کو ادارے کا فعال رکن تصور کرتا تھا۔

ادارے کے زیر انتظام نہ صرف متعدد فلاحی ادارے کام کر رہے تھے بلکہ ادارہ کے ہر کارکن کو ہر برس پورے سال کی تنخواہ کی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد تک اضافی رقم بھی اس شرط پر ادا کی جاتی تھی کہ وہ اسے اپنی ذات پر خرچ نہیں کرے گا بلکہ دوسروں کے کام میں لائے گا۔

تاہم کوئی ملازم اس شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ معاملہ ہر شخص کے اپنے ضمیر اور اعتماد پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔

ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا مگر پھر اس کی یہی ترقی اور فلاحی کام بین الاقوامی اداروں کی نظر میں کھٹکنے لگے۔امریکی سیاست دان جان کیری نے امریکی سینیٹ کی جانب سے بی سی سی آئی کے خلاف الزامات کی تحقیقات کی تھیں

’دنیا کا سب سے مطلوب شخص‘


سنہ 1988 میں آغا حسن عابدی نے بیماری کے سبب بی سی سی آئی سے ازخود ریٹائرمنٹ لے لی اور پھر زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ ان کے اس بینک پر پاکستان کے جوہری پروگرام اور فلسطینی حریت پسندوں کے لیے سرمایہ فراہم کرنے اور مختلف ممالک کے سابق سربراہان اور جرائم پیشہ افراد کا کالا دھن سفید کرنے سمیت بہت سے الزامات عائد کیے گئے اور آغا حسن عابدی دنیا بھر میں مطلوب ترین آدمی بن گئے۔

پانچ جولائی 1991 کو انگلینڈ، لکسمبرگ، کیمن آئی لینڈز، امریکہ، فرانس، سپین اور سوئٹزر لینڈ میں بی سی سی آئی کے اثاثوں اور لاکھوں کھاتے داروں کا سرمایہ منجمد کر دیا گیا۔

امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ آغا حسن عابدی کو تفتیش کے لیے اس کے حوالے کر دیا جائے مگر پاکستان نے انھیں امریکہ بھیجنے سے انکار کر دیا۔

آغا حسن عابدی کی ریٹائرمنٹ کے بعد بی سی سی آئی کی سربراہی صالح نقوی نے سنبھالی تھی۔ انھیں ابوظہبی سے گرفتار کر کے امریکہ منتقل کر دیا گیا جہاں 1994 میں انھیں آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

رہائی کے بعد وہ پاکستان آئے جہاں انھوں نے بی سی سی آئی کے رفاہی کاموں کی سربراہی سنبھال لی۔ انھوں نے بی سی سی آئی کے عروج و زوال پر ایک کتاب بھی تحریر کی، مگر وہ کتاب اب تک شائع نہیں ہوسکی ہے۔ سات ستمبر 2019 کو صالح نقوی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے اور یوں بی سی سی آئی کی داستان اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

پاکستان کے لیے آغا حسن عابدی کی خدمت کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ انھیں جدید پاکستان کے معماروں میں گِنا جا سکتا ہے۔

انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام کراچی میں گزارے، وہ فالج کا شکار ہو چکے تھے اور انھیں گفتگو کرنے میں بھی بہت دقت ہوتی تھی اور پانچ اگست 1995 کو کراچی میں ان کی وفات ہو گئی اور وہ علی باغ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
----------------------------

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق : 

برطانیہ میں رہنے والے ہزاروں ایشیائی باشندوں کے لیے بی سی سی آئی کا نام ایک ایسی یاد ہے جسے وہ کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔

یہ نہیں کہ وہ اس یاد سے پیچھا چھڑانا نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں لیکن انہیں اس نام نے زندگی کے ان بد ترین تجربات سے دوچار کیا ہے جو ذہن سے محو ہی نہیں ہوتے۔

ایوانِ صنعت و تجارت ساؤتھ ہال کے چیئرمین منجیت لِت کہتے ہیں ’میں دسیوں لاکھ پاؤنڈ سے محروم ہو گیا۔ میں جائیدادوں کی خرید و فروخت کا کام کرتا تھا میں، اور میں نے اپنا سارا پیسہ اسی کام میں لگا رکھا تھا۔ میرا ایک ہی بینک تھا بی سی سی آئی، تمام رقوم اس میں جاتی اور اسی سے نکلتی تھیں۔‘

ساؤتھ ہال لندن کا وہ علاقہ ہے جسے مختلف ایشیائی برادریوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور ہے بھی۔

لاکھوں سے محروم ہونے والے اس پراپرٹی ڈیلر نے انیس سو اسی کی دہائی کے آخر میں بی سی سی آئی کی دہلیز پر قدم رکھا اور چند ہزار سے اپنا اکاونٹ کھولا لیکن پھر بینک کی مدد اور اپنی محنت سے انہوں نے اپنے کاروبار کو اتنی وسعت دی کہ بات لاکھوں کے لین دین تک جا پہنچی۔

دھماکہ خیز بندش


کسی کو کچھ پتہ نہیں چلا، ایک دن اچانک لندن میں بی سی سی آئی کے صدر دفتر پر پولیس اور تحقیقات کرنے والوں نے دھاوا بول دیا۔ آناً فاناً بی سی سی آئی کو بند کر دیا گیا اور اس کے معاملات قرقی کی کارروائی کرنے والوں کے حوالے کر دیے گئے۔

نام ظاہر نہ کرنے والے اس پراپرٹی ڈیلر کا کہنا ہے ’میں اس شام دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا کہ مجھے فون آیا اور فون کرنے والے نے بتایا بینک کے دروازے بند ہو رہے ہیں۔‘

’میں نے پوچھا کب ؟ جواب ملا ’پندرہ منٹ میں۔‘ اور اس کے ساتھ ہی سب کچھ چلا گیا۔

دفتر سے نکلا تھا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ رات تک میں ایک ایک پائی کا محتاج ہو جاؤں گا۔ میرے بینک اکاؤنٹ جامد کر دیے گئے۔ انہیں استعمال کرنا تو کجا میں ان کو چھو بھی نہیں سکتا تھا۔

بی سی سی آئی مالیاتی مارکیٹ کا کوئی بڑا بینک تو نہیں تھا لیکن وہ برطانوی ایشیائیوں میں اس کی ساکھ دوسرے بینکوں کے مقابلے میں بہت اچھی تھی۔ ان ایشیائیوں کا کہنا تھا کہ کم از کم ایک بینک تو ایسا تھا جو ان کی بات سنتا تھا اور ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ان کی مدد کرتا تھا۔

شنوائی والا بینک


دہلی میں تعمیرات کی مہارت حاصل کرنے والے اس پراپرٹی ڈیلر کا کہنا ہے ’ہم منصوبے تیار کرتے تھے، بی سی سی آئی کے پاس لے کر جاتے تھے، وہ اسے دیکھتے تھے اور کہتے ٹھیک ہے، قابلِ عمل ہے منافع دے گا۔ اس کے منیجروں سے بات کرنا آسان ہوتا تھا جب کہ دوسرے بینک آسانی سے بات کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتے تھے۔‘


کب کیا ہوا؟

 
انیس سو بہتر : بی سی سی آئی لکسمبرگ نے لندن میں اپنی شاخ کھولی
انیس سو پچاسی : بی سی سی آئی میں خساروں کی پہلی تحقیقات ہوئیں
انیس سو ستاسی: لکسمبرگ نے بی سی سی آئی کو ریگیولیٹ کرنے کے لیے کہا
انیس سو اٹھاسی: منی لانڈرنگ کے الزامات کے بعد بی سی سی آئی کی ٹامپا برانچ بند کر دی گئی
انیس سو نوے : پرائس واٹرہاؤس نے کہا کہ بی سی سی آئی کو بچنے کے لیے ایک ارب اسی کروڑ پاؤنڈ درکار ہیں
انیس سو اکیانوے: عالمی ضابطوں کے تحت بی سی سی آئی کو بند کر دیا گیا
انیس سو بانوے : بنگھام رپورٹ میں بی سی سی آئی کے حوالے سے بینک آف انگلینڈ کے کردار پر تنقید کی گئی
انیس سو تیرانوے: بینک کو تحلیل کرنے والوں نے بینک آف انگلینڈ کے خلاف رٹ دائر کی
دو ہزار چار: بینک آف انگلینڈ کے خلاف ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا
 
بی سی سی آئی کو ایک پاکستانی بینکار آغا حسن عابدی نے قائم کیا تھا اور وہ ایشیائیوں کے کاروباری منصوبوں کو آگے بڑھانے میں ترجیح دیتے تھے۔

ایک اور تاجر مسٹر سنگھ نے بتایا ’ہمیں دوسرے برطانوی بینکوں سے وہ مدد نہیں ملتی تھی جو بی سی سی آئی سے ملتی تھی، وہ ہماری مدد کرتا تھا اس لیے ہم نے اپنا سب کچھ اس میں لگا دیا۔‘

مالیاتی مشکلات


بی سی سی آئی کے برطانیہ میں چھ ہزار پانچ سو کے لگ بھگ اکاؤنٹ ہولڈر یا کھاتےدار تھے اور ان کی اکثریت بھارتیوں، بنگلہ دیشیوں اور پاکستانیوں کی تھی۔

یہ کم و بیش سب کے سب ایسے تھے جو بی سی سی آئی سے قرض لیتے اور کاروبار کرتے تھے۔

ان میں سے پراپرٹی کا کاروبار کرنے والے نے بتایا کہ جب بینک بند کیا گیا اور اس کے اکاؤنٹ جامد کیے گئے اس وقت اس کا ایک منصوبہ بالکل مکمل ہو چکا تھا۔ یہ ایک ویئر ہاؤس تھا اور اسے بینک کے تیرہ لاکھ پاؤنڈ کی سرمایہ کاری سے خریدا گیا تھا اور اس پر اس کے اپنے بھی دس لاکھ پاؤنڈ لگے ہوئے تھے اور اسے امید تھی کہ بہت آرام سے تیس لاکھ پاؤنڈ کی واپسی ہو گی۔

ویئر ہاؤس کو چھ یونٹوں میں تبدیل کیا گیا تھا اور منصوبہ بالکل سو فیصد مکمل تھا۔ لیکن سب رکھا رہ گیا اور اس سے یہی نہیں ہوا کے صرف یہ منصوبہ ہی گیا بلکہ اس ساتھ ساتھ اس کے تمام دوسرے منصوبے تباہ ہو گئے۔

انہوں نے بتایا ’چھ مہینے کے اندر اندر سب کچھ بدل گیا اور میں خود کو دیوالیہ قرار دینے پر مجبور ہو گیا۔‘

 
اس میں ان کا ایک تھری اسٹار ہوٹل بھی شامل تھا اور ان کا ذاتی گھر بھی۔ جو سب کا سب دیوالیہ کی نظر ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اپنی بچیوں کے تعلیمی اخراجات تک ادا کرنے کے قابل بھی نہ رہے۔

جب وہ دیوالیہ ہو گئے تو ان کا یہ حق بھی جاتا رہا کہ وہ بی سی سی آئی کے اکاؤنٹ میں رکھے ہوئے پیسوں کے معاوضے کے بارے میں کوئی دعویٰ کر سکتے۔

اس کے علاوہ برطانوی قانون کے تحت وہ کسی بھی بینک سے چھ سال تک کوئی قرض حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

اب بی سی سی آئی کے کھاتے داروں کی طرف سے بینک آف انگلینڈ پر ایک ارب کے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ ’ڈیلوئٹ ٹوش‘ کی جانب سے دائر کیا گیا ہے۔

ڈیلوئٹ ٹوش نے اب تک ان کھاتے داروں کو جن کے بینک میں بیس ہزار پاؤنڈ تک جمع تھے پچھتر فی صد تک رقم ادا کی ہے اور اب اگر یہ ادارہ بینک آف انگلینڈ سے ہرجانہ وصول کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو کھاتے داروں کو مزید کچھ رقوم حاصل ہو جائیں گی۔

لیکن ان پراپرٹی ڈیلر کو، جو اب اپنی اہلیہ کی ڈرائی کلینگ کی دکان میں کام کرتے ہیں یا ان جیسے دوسرے کھاتے داروں کو کچھ نہیں ملے گا جو دیوالیہ ہو گئے تھے۔

بی سی سی آئی کے بند ہونے یا ختم ہونے سے صرف برطانیہ ہی میں اس کے کھاتے دار متاثر نہیں ہوئے بلکہ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی لاکھوں لوگ متاثر ہوئے جو اس بینک کے کھاتے داروں کے عزیز و اقرباء تھے یا ان کے حوالے سے دوسرے کام کرتے تھے۔