خدا کا انکار اپنا انکار ہے
خدا کے اقرار کا مقصد یہ ہے کہ خدا سے ایسی محبت کی جائے جس سے انسان کی اپنی شخصیت کی ترقی اور تکمیل ہو۔ جو شخص خدا کا اقرار کرتا ہے لیکن خدا سے محبت نہیں کرتا وہ خدا کے اقرار سے اپنی شخصیت کی تربیت کا فائدہ حاصل نہیں کرتا وہ خدا کا منکر تو نہیں لیکن اپنا منکر ہے جب وہ خدا کے اقرار کے مقصود سے بے خبر ہے تو اس کا اقرار انکار سے بہتر نہیں بلکہ بدتر ہے کہ یہ خدا کو جاننے کے بعد خدا کی ناقدری ہے۔
منکر حق نزو ملا کافر است
منکر خود نزو من کافر تر است
خدا پر ایمان لانے اور خدا سے محبت کرنے کا فائدہ خود انسان کو ہے کہ اس کے بغیر انسان کا اپنا وجود متحقق نہیں ہو سکتا۔ خودی کی زندگی یہ ہے کہ وہ بڑھے اور پھولے اور تربیت اور ترقی پا کر اپنے مخفی کمالات کو آشکار کرے نشوونما زندگی کا خاصہ ہے۔ زندگی اگر نشوونما نہ پائے تو زندگی نہیں، بیج اگر نشوونما پا رہا ہے تو زندہ ہے اگر نشوونما پانے سے رہ گیا ہے تو مردہ ہے اگر ایک جسم حیوانی نشونما پا رہا ہے تو زندہ ہے ورنہ مردہ ہے یا جان بلبل، اور آشکارائی وجودیا زندگی سے الگ نہیں کئے جا سکتے۔
گفت موجود آنکہ مے خواہد نمود
آشکارائی تقاضائے وجود
خودی کی زندگی اور ترقی کیلئے خدا کی محبت کی ضرورت
لیکن خودی کی تربیت اور ترقی اور نشوونما اور بالیدگی کا مقصد خدا کی محبت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ خودی فقط خدا ہی کی سمت میں کامل نشوونما پا سکتی ہے۔ لہٰذا خدا کے منکر کو چاہئے کہ اپنی زندگی کی فکر کرے یعنی خدا پر ایمان لائے اور خدا کی محبت کا حق ادا کر کے زندگی پائے۔
وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
جو شخص خدا کے بغیر جی رہا ہے وہ مردار ہے۔ اگرچہ لوگ اس کا ماتم نہیں کرتے۔
آنکہ بے حق زیست جز مردار نیست
گرچہ کس در ماتم او زار نیست
خدا کی محبت سے دل کی کلی شگفتہ ہوتی ہے
جس طرح سے پھول کی کلی نسیم سحر کے بغیر کھل نہیں سکتی۔ انسان کے دل (یعنی خودی) کی کلی خدا کی محبت کے بغیر کھل نہیں سکتی جس طرح سے صبح کی ہوا کے زندگی بخشنے والے اثر سے پھول کی کلی شگفتہ ہو جاتی ہے اسی طرح سے خدا کی محبت کی زندگی اور راحت بخشنے والے اثر سے انسان کا دل مسرت سے بھر جاتا ہے مومن کے دل کی ساری داستان کا حاصل اور ا سکی زندگی کی ساری تگ و دو کا باعث یہ ہے کہ جس طرح کلی نسیم سحر کے لئے تشنہ ہوتی ہے۔ مومن کا دل خدا کی محبت کے لئے تشنہ ہوتا ہے۔
کلی کو دیکھ کہ ہے تشنہ نسیم سحر
اسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ
انسان کا خدا سے بھاگنا اپنی تربیت اور تکمیل کو روک دینا ہے۔ حالانکہ خدا وہ ذات پاک ہے جو انسان کو پیدا کرتی ہے اور پھر اسے جسمانی نشوونما کے کمال پر پہنچاتی ہے۔ یہی ذات پاک اس کی روحانی اور نفسیاتی نشوونما کی ضامن بھی ہے۔ اگر لالہ کی کلی جو کھل کر ایک دلہن کی طرح رنگین لباس میں ملبوس ہو جاتی ہے۔ نسیم سحر سے گریز کرے تو وہ اپنے حسن کے کمال کو کیسے پہنچ سکتی ہے۔
عروس لالہ مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیم سحر کے سوا کچھ اور نہیں
خدا کی محبت خودی کے ارتقا کی شرط ہے
انسان کا خدا سے گریز کرنا اپنے آپ سے گریز کرنا ہے کیونکہ خدا کی محبت کے بغیر انسان اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اور اگر انسان خدا سے بھاگے تو زود یا بدیر پھر اس کو خدا ہی کی طرف واپس لوٹنا پڑے گا۔
از کہ بگریزیم از خود ایں محال
از کہ رو تابیم از خود ایں خیال
مومن اسی حقیقت کا اعتراف کرت اہے جب وہ کہتا ہے
لاحول ولا قوۃ الا باللہ منجا من اللہ الا الیہ
(کفر اور ہر بری چیز سے بچنا اور ایمان ہر اچھی چیز پر قدرت پانا خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں اور خدا سے بھاگنے کے بعد اگر کوئی راستہ نجات کا ہے تو خدا ہی کی طرف ہے)جس طرح سے خدا نے انسان کی جسمانی نشوونما اپنے ذمہ لے رکھی ہے اسی طرح سے اس نے انسان کی روحانی یا نفسیاتی نشوونما بھی اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ لیکن چونکہ انسان اپنے فکر و عمل میں آزاد ہے وہ اپنی نشوونما کی روحانی یا نفسیاتی سطح پر اپنے اختیارات کو غلط طور پر کام میں لاتا ہے اور اس طرح سے خدا کے مقاصد میں حائل ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کا روحانی یا نفسیاتی ارتقا جو دراصل اس کی خودی کا ارتقا ہے۔ اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے اختیارات کو تمام و کمال خدا کے تابع نہ کر دے اور اپنے آپ کو کلیتاً خدا کے سپرد نہ کر دے۔ اقبال اس خیال کو یوں ظاہر کرتاہے:
خویش را در باز و خود را باز گیر
دام گستر از نیاز و ناز گیر
(اپنے آپ کو ہار دے اور اس کے نتیجہ کے طور پر اپنی خودی کو پالے، اطاعت اور فرمانبرداری کا دام پھیلا اور خود داری کو اپنی گرفت میں لا)
یک بینی اور یک اندیشی کے بغیر خودی اپنے آپ کو نہیں پا سکتی
چونکہ خدا کی محبت خودی کی مرکزی خواہش ہے اور باقی خواہشات اس کے تابع ہیں جو خواہش اس خواہش کی حریف ہوتی ہے وہ خودی کی اپنی خواہش نہیں ہوتی بلکہ خودی کی خواہش کے راستہ میں ایک ناگوار بلکہ خطرناک رکاوٹ ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر ایسی خواہش کو مٹانا خودی کے لئے ضروری ہوتا ہے تاکہ خودی اپنے آپ کو پا سکے اور اپنی فطرت کے مخفی کمالات کو آشکار کر سکے۔ دوسرے الفاظ میں ماسویٰ اللہ سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہونا خودی کی فطرت ہے۔ جب تک کہ خودی غیر اللہ کے ساتھ وابستہ رہے وہ اپنے آپ کی طرف آنے کے لئے یعنی اپنی فطری محبت کی تشفی اور تکمیل کے لئے آزاد نہیں ہوتی اس کے برعکس جب وہ غیر اللہ سے کٹ جائے تو اپنے آپ کی طرف لوٹنے کے لئے آزاد ہو جاتی ہے اور غیر اللہ کو اپنے نصب العین کے تابع کر دیتی ہے جب تک انسان خدا کی محبت میں پختہ نہ ہو یا ماسویٰ اللہ سے پوری طرح نہیں کٹ سکتا۔
تانہ رمز لا الہ آدمی بدست
بند غیر اللہ را نتواں شکست
اگر ہم غیر اللہ کی محبت سے کنارہ کش ہو کر خودی کے جذبہ محبت کو آزادی کے ساتھ اپنا اظہار کرنے دیں تو خدا ملتا ہے اور اگر ہم آزادی کے ساتھ خدا کی جستجو کریں تو ہماری خودی اپنے کمال کو پہنچتی ہے گویا ہمیں اپنی خودی سے خدا ملتا ہے اور خدا سے اپنی خودی ملتی ہے اور دونوں انعامات کی حقیقت ایک ہی ہے۔
از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب
ہم ز خدا خودی طلب ہم از خودی خدا طلب
اس شعر کا پہلا مصرع گویا قرآن حکیم کی اس ایت کا ترجمہ ہے وتتبل الیہ تبتیلا(ہر ایک سے کٹ کر خدا سے وابستہ ہو جائیے)
خدا کی نمود خودی کی نمود ہے
انسانی خودی کی زندگی یا اس کے وجود کی علامت یہ ہے کہ وہ برابر نشوونما کرتی رہے اور اس کے مخفی کمالات کی نمود یا آشکارائی ہوتی رہے۔ لیکن یہ بات خدا کی محبت کے بغیر ممکن نہیں ہوتی اور جب انسانی خودی کی نمود ہوتی ہے یعنی اس کے مخفی علمی، اخلاقی، روحانی اور جمالیاتی کمالات آشکار ہوتے ہیں تو ا س دنیا میں خدا کی صفات کے کمالات و محاسن کی آشکارائی یا نمود بھی ساتھ ہی عمل میں آتی ہے۔ خدا کی نمود خودی کی نمود کی صورت اختیار کرتی ہے۔
خودی را از وجود حق وجودے
خودی را از نمود حق نمودے