اسرار حیات کی کلید
چونکہ انسان کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ خدا کی آرزو یا محبت ہے اقبال بجا طور پر سمجھتا ہے زندگی کے سر بستہ رموز کی کلید انسان کا اپنا دل ہے اور زندگی کے مقصد کو سمجھنے کے لئے اسے اپنے دل ہی کی آرزو کو سمجھنا چاہئے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
اپنی اسی آرزو یا محبت کی وجہ سے انسان خدا کے ذکر سے دلجمعی اور اطمینان قلب حاصل کرتا ہے۔
دل ما آتش و تن موج دودش
تپیدن دم بدم ساز و جودش
بذکر نیم شب جمعیت او
چو سیمابے کہ بند و چوب عووش
الذین امنو و تطمئن ولبہم بذکر اللہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب
(وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل خدا کے ذکر سے اطمینان پاتے ہیں، خبردار دلوں کو اطمینان خدا کے ذکر سے ہی حاصل ہوتا ہے)
قرآن حکیم میں ہے کہ ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے ولقد کرمنا بنی آدم( اور بیشک ہم نے انسان کو معزز بنایا ہے) انسان کی اس عزت اور عظمت کا باعث یہی ہے کہ خدا نے اس کے دل میں اپنی محبت کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔
انسان کی سب سے بڑی ضرورت
انسان کی سب سے بڑی ضرورت خدا ہے اور اس کی باقی تمام ضرورتیں اس سب سے بڑی ضرورت کے ماتحت اس کی خدمت گزار ہیں۔ انسان کی اس ضرورت کا پورا کرنا، اس کو خدا کی معرفت بہم پہنچانا اور اس کو یہ بتایا کہ کون سا عمل خدا کی محبت کی نشوونما کرنے والا ہے اور کون سا اس کے منافی ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خدمت ہے انسان کی ساری رگ و دو کا مقصود انسان کی اس ضرورت کی تکمیل ہونا چاہئے۔ ہم انسانیت کے لئے اور جو کچھ بھی کریں وہ اس ضرورت کی تکمیل کی کوشش کے بالمقابل ہیچ ہے۔ کیونکہ انسان کی اسی ضرورت کا نام انسان یا آدم ہے۔
یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحب مقصود
ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ
انسان کی انسانیت کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اسے خدا کی محبت کا جذبہ عطا کیا گیا ہے چونکہ انسان کی اصل خدا کی محبت کا جذبہ ہے۔ خدا کا منکر ہونے سے جو بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اس سے انسان کو اپنا منکر ہونا لازم آتا ہے اگر انسان اپنے آپ پر ایمان لے آئے تو یہ کافی ہے کیونکہ پھر اس ایمان میں خدا پر ایمان لانا خود بخود شامل ہو جاتا ہے انسان کو خود اپنی ذات کی تکمیل اور شخصیت کی نشوونما کے لئے خدا کے تصورکی ضرورت ہے جو شخص خدا کی عبادت اور اطاعت کرتا ہے وہ در حقیقت اپنی تکمیل کا خواہش مند ہے۔ لہٰذا یہ آخر کار خدا پرستی نہیں بلکہ خود پرستی ہے ہم خودی سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے ہماری خودی ہی سب کچھ ہے اسی کو جاننا، پہچاننا اور اس کی تربیت اور تکمیل کرنا ہماری زندگی کا مقصد ہے لیکن اس کا کیا علاج ہے کہ یہ مقصد خدا کی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔
مرا از خود برون رفتن محال است
بہر رنگے کی ہستم خود پرستم
خدا کی محبت کے لئے اقبال کی اصطلاحات
انسان سرا سر آرزوئے جمال ہے اور یہ آرزوئے جمال کمزور بھی نہیں بلکہ نہایت طاقتور ہے انسان کیا ہے تمنائے حسن کا ایک زبردست طوفان ہے جو موجزن ہے اگر یہ طوفان تمنا نہ رہے تو انسان بھی باقی نہیں رہتا۔
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی
اسی آرزوئے جمال یا خدا کی محبت کو اقبال نے اپنے کلام میں کبھی آرزو، کبھی تمنا، کبھی دل، کبھی نظر، کبھی نگاہ، کبھی درد، کبھی داغ، کبھی سرور، کبھی سوز، کبھی بادہ، کبھی نشہ، کبھی مشتاقی، کبھی مستی، کبھی شوق، کبھی خون دل، کبھی خون جگر، کبھی آہ سحر، کبھی جان، کبھی غم، کبھی تب و تاب، کبھی جذب اندروں، کبھی جذب مسلمانی، کبھی جذب قلندرانہ، کبھی فقر، کبھی درویشی، کبھی ذوق تجلی، کبھی عشق اور کبھی محبت کے ناموں سے تعبیر کیا ہے اور چونکہ یہ آرزوئے جمال مخالفانہ آرزوؤں سے آزاد ہونے کے بعد نہایت ہی زور دار عمل میں ظاہر ہوتی ہے جس کا لازمی نتیجہ تسخیر کائنات ہوتا ہے لہٰذا اقبال اسے کبھی ذوق تسخیر کا نام بھی دیتا ہے۔
چیست جاں جذب و سرود و سوز و درد
ذوق تسخیر سپہر گرد گرد
خدا کی محبت کے بغیر انسان مردہ ہے
جب انسان کی اصل فقط خدا کی محبت ہے اور اس کے علاوہ انسان اور کچھ بھی نہیں یا زیادہ سے زیادہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ یا گوشت کا ایک ڈھیر ہے تو پھر یوں کہنا چاہئے کہ جو شخص ہمہ تن خدا کی محبت نہیں وہ بحیثیت ایک انسان کے موجود ہی نہیں کیونکہ جس حد تک ایک انسان اپنی زندگی کے تقاضوں کی تشفی اور تکمیل کرتا ہے اسی حد تک وہ زندہ اور موجود سمجھا جا سکتا ہے۔ زندگی یا خودی اس وقت آشکار ہوتی ہے جب خدا کی محبت آشکار ہوتی ہے اور اپنی تکمیل اور تشفی کے مدارج سے گزرتی ہے یہی خودی کی نمود یا زندگی کی نمود ہے خدا کی محبت کی تربیت خودی کی نمود ہے اور خودی کی نمود کا ہی دوسرا نام زندگی یا وجود ہے۔ زندگی فقط خدا کی محبت کی آشکارائی ہے۔ اگر خدا کی محبت نہیں تو زندگی بھی نہیں۔
تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا
وجود کیا ہے فقط جوہر خودی کی نمود
کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا
جو شخص اس بات کا قائل نہیں کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ موجود ہے جس کی تسکینا ور تشفی اسے خدا کا مقرب بنا سکتی ہے وہ شخص اپنے آپ کو ایک انسان کی حیثیت سے نہال سدرہ کی مقدس شاخ یا دوسرے لفظوں میں بالقوہ خدا کا مقرب نہیں سمجھتا بلکہ چمن کائنات کا کوڑا کرکٹ سمجھتا ہے وہ خدا کا ہی منکر نہیں بلکہ اپنا بھی منکر ہے۔ لیکن اگر انسان خدا سے الگ ہو کر خدا کا منکر بنتا ہے توتو اپنے آپ سے الگ ہو کر اپنا منکر تو نہ بنے اگر وہ اپنا منکر نہیں تو پھر اسے خدا کے اقرار سے گریز کیسے ہو سکتا ہے۔
شاخ نہال سدرہ خار و خس چمن مشو
منکر او اگر شدی منکر خویشتن مشو