خالقیت
آخر کار یہ بھی ضروری ہے کہ پوری کائنات کی تخلیق اس کے نصب العین کے مدعا کے ماتحت اور اس کی خدمت اور اعانت کے لئے ہو اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا نصب العین خود کائنات کا خالق اور حکمران نہ ہو اور ان تمام صفات کا مالک نہ ہو جو ان دو صفتوں کے اندر مضمر ہیں اگر ایسا نہ ہو تو وہ قوانین قدرت جو کائنات کی مادری حیاتیاتی اور انسانی سطح پر کام کر رہے ہیں اس وجود کی تخلیق نہ ہوں گے جو اس کا نصب العین ہے لہٰذا اس کے اور اس کے نصب العین کے مشترک مدعا کے ساتھ متصادم ہوں گے اور وہ اور اس کا نصب العین اس قابل نہ ہوں گے کہ اس مدعا کو حاصل کر سکیں اور پھر اگر وہ جانتا ہو کہ کائنات جس میں اس کا اپنا وجود بھی شامل ہے خود بخود وجود میں آ گئی ہے اور اس کے نصب العین کی حکمرانی کے دائرہ سے باہر ہے تو وہ محسوس کرے گا کہ اس کا نصب العین اس سے پست تر درجہ کا یا زیادہ سے زیادہ اس سے مساوی درجہ کا کوئی وجود ہے لہٰذا اس سے محبت کرنے یا اس کی خدمت و اعانت کرنے یا اس کے لئے اپنی زندگی کو وقف کرنے کا کوئی جذبہ اپنے دل کے اندر محسوس نہیں کرے گا۔
یہ وہ صفات ہیں جو قرآن حکیم نے خدا کی صفات بتائی ہیں، یہی سبب ہے کہ اقبال رومی کی زبان میں ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی حقیقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کو دیکھنے کی ایک آرزو ہے۔
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
خودی کی فطرت سے باہر قدم رکھنا ممکن نہیں
انسان کسی مذہب یا ملت میں چلا جائے وہ اپنی فطرت سے بھاگ نہیں سکتا اور مجبور ہوتا ہے کہ ہر حالت میں اپنی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرے اگر وہ خدا کی صفات کے حسن و کمال سے آشنا نہ ہو سکے اور لہٰذا خدا سے محبت نہ کر سکے تو اس کا جذبہ محبت کسی غلط نصب العین کے ذریعہ سے اپنے آپ کو مطمئن کرنے لگتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان کا نصب العین خواہ کچھ ہو وہ کوئی بے جان چیز مثلا! ایک پتھر یا درخت یا دریا یا پہاڑ ہو یا کوئی بت یا قوم یا ملک یا نسل ہو یا کوئی زندہ حیوان مثلاً گائے یا بندر یا سانپ ہو یا کوئی ایسا تصور ہو جو کسی نظریہ یا ازم کا مرکز ہو۔ انسان ہر حالت میں خدا کی محولہ بالا صفات کو اپنے ںصب العین کی طرف شعوری یا غیر شعوری طور پر منسوب کرتا ہے مثلاً اگر اس کا نصب العین کسی ایسی چیز کا تصور ہو جو مردہ اور بے جان ہے تو پھر بھی وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ ایک زندہ شخصیت ہے جس کے اندر محبت اور نفرت اور قدرت اور قوت اور حسن اور نیکی اور صداقت کے اوصاف بدرجہ کمال موجود ہیں یہی سبب ہے کہ اس کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ اپنے تمام اعمال کو اس کے تابع کرے اور دل ہی دل میں اس سے دعائیں مانگے اور برکتیں چاہے۔
مرا از خود بروں رفتن محال است
بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم