خودی اور آرٹ
ثقافت اور تہذیب کا فرق
فعل جمیل سے اقبال کا مطلب ایسا فعل ہے جو اپنے مقصد کے لحاظ سے حسین ہو یعنی جس کا مقصد خودی کے کامل نصب العین یا صحیح تصور حقیقت سے ماخوذ ہو اور لہٰذا صفات حسن کے مطابق ہو۔ لیکن خودی چونکہ ہمہ تن خدا کی آرزو ہے جو حسن کا مبداء اور منتہا ہے اور دوسری کوئی آرزو نہیں رکھتی ۔ وہ اپنی اس آرزو کو مطمئن کرنے کا کوئی طریقہ یا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اور ہر وقت اپنی اس آرزو کی تشفی میں مصروف رہتی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ہر فعل کو نہ صرف معنوی طور پر یعنی اس کے مقصد کے اعتبار سے حسین بنانے کی کوشش کرتی ہے بلکہ ہر فعل کی ظاہری صورت کو بھی خوبصورت بناتی ہے۔ خودی کی فطرت اس قسم کی ہے کہ انسان کوئی کام ایسا نہیں کرتا جس کو وہ معنوی طور پر ہی نہیں بلکہ ظاہری طور پر بھی خوبصورت بنانے کی کوشش نہ کرے۔ انسان کی روز افزوں ضروریات زندگی کا بہت تھوڑا حصہ ایسا ہے جو بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ ان کا بیشتر حصہ انسان کی آرزوئے حسن کی تسکین کا سامان ہے جس سے انسان زندگی کے ماحول کی تحسین اور تزئین کا کام لیتا ہے۔ انسان کی تمنائے حسن کی کوئی انتہا نہیں اس لئے اس کی حسن آفرینی کی بھی کوئی حد نہیں۔ یہی سبب ہے کہ جوں جوں تہذیب ترقی کرتی جاتی ہے۔ ہماری ضروریات بڑھتی جاتی ہیں۔ ہم زمانہ حال کے انسان کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے لباس کی ساخت میں اور اپنے مکان کی تعمیر اور شکل و صورت میں اپنے میزوں، کرسیوں، صوفوں، قالینوں، تصویروں اور گھر کے دوسرے سامان کی ترتیب اور ترکیب میں بلکہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، بولنے، چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، کھیلنے اور سفر کرنے کے طور طریقوں میں بھی حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نہ حسن آفرینی کی کوششوں سے تھکتا ہے اور نہ حسن سے سیر ہوتا ہے۔ ثقافت یا کلچر نصب العین کی معنویت کو یا اس کے باطنی حسن کو علم، اخلاق، سیاست، تعلیم، قانون اور حصول نصب العین کے لئے ایسے ہی دوسرے اعمال و افعال میں آشکار کرنے کا نام ہے۔ لیکن تہذیب جسے کہتے ہیں وہ زندگی کے ظاہری ماحول میں حسن طلبی اور حسن آفرینی ہے۔
خدا کی دوسری صفات کی طرح حسن آفرینی کی صفت میں بھی انسانی خودی خدا کے وجود کا عکس ہے کیونکہ خدا کی تخلیقی فعلیت بھی جس کا نتیجہ یہ کائنات ہے اپنے معنی اور مقصد اور مدعا کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اپنے نتائج کی ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے بھی حسین ہے۔ کائنات حسن سے لبریز ہے۔ ضیائے حسن اس کے ہر ذرہ میں چمک رہی ہے خدا نے کوئی چیز ایسی نہیں بنائی جو حسین نہ ہو۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ ہم بعض چیزوں کے حسن کی پہچان سے قاصر رہ جائیں۔
محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایاں حسن
آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرہ میں ہے طوفان حسن
حسن کوہستان کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے
مہر کی ضو گستری شب کی سیاہ پوشی میں ہے
آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ
شام کی ظلمت شفق کی گل فروشی میں ہے یہ
ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے
ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے
٭٭٭
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا،
واں چاندی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دئیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چمک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے
ہنر یا آرٹ کی تعریف
ایسا عمل جس میں کسی محسوس اور مرئی چیز کو ذریعہ یا واسطہ(Medium) بنا کر حسن کا اظہار کیا گیا ہو۔ ہنر یا فن یا آرٹ کہلاتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ انسان کا ہر کام اظہار حسن کا واسطہ بن سکتا ہے اور بنتا ہے لیکن جب حسن کے اظہار کے لئے اینٹ یا پتھر یا صوت یا صدا یا رنگ یا لفظ یا حرکت کو واسطہ بنا کر اس میں حسن کا اظہار کیا جائے تو جو فن اس سے پیدا ہوتا ہے اسے اسی ترتیب کے ساتھ تعمیر، مجسمہ سازی، سرود، موسیقی، مصوری، شاعری اور رقص کا نام دیا جاتا ہے۔ ہنر کی ان اقسام کے اندر تخلیق حسن یا مشاہدہ حسن سے لطف اندوز ہونا ایک خاص قسم کی تربیت چاہتا ہے اس لئے ہر انسان کو تخلیق حسن یا مشاہدہ حسن کے ذرائع کے طور پر کام میں نہیں لا سکتا۔ لہٰذا ہنر یا فن کی حیثیت سے زندگی کے عام کاموں کی تحسین اور تجمیل کے مقابلہ میں ان کی افادیت بہت محدود ہو جاتی ہے۔ تاہم ان میں سے ہر ایک، ایک خاص گروہ کو جو اس سے مستفید ہونے کی مہارت رکھتا ہے، متاثر کر سکتا ہے۔
حسن کے دو پہلو صداقت اور نیکی
ہنر کی حقیقت سے تعلق رکھنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ صداقت، نیکی اور حسن خدا کی صفات ہیں۔ ان میں سے ہر ایک حسن بھی ہے نیکی بھی ہے اور صداقت بھی۔ گویا صداقت اور نیکی حسن ہی کے دو پہلو ہیں۔ لہٰذا اگر حسن صداقت سے یا نیکی سے عاری ہو تو وہ حسن نہیں رہتا۔ ہر عمل جو کچھ وہ ہوتا ہے اپنے اندرونی مدعا یا مقصد اور اپنی ظاہری صورت دونوں سے مل کر بنتا ہے۔ اس لئے اگر کسی عمل کی ظاہری صورت حسین ہو لیکن اس کے پیچھے مدعا حسین نہ ہو تو اس کا حسن داغدار ہو جاتا ہے اور وہ اپنی کلی یا مجموعی حیثیت سے حسین نہیں رہتا۔ حسن کلی طور پر حسن ہوتا ہے اور زشتی کی ملاوٹ کو گوارا نہیں کرتا۔ اگر زشتی اس میں شامل ہو جائے تو وہ جزوی طور پر نہیں بلکہ ایک کل کی حیثیت سے حسین نہیں رہتا۔ حسن ایک ناقابل تقسیم کل ہوتا ہے اور اسے اجزاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ کہ ہم کہہ سکیں کہ کوئی چیز آدھی زیبا ہے اور آدھی زشت۔ زشتی ہمیشہ زیبائی اور زشتی کے امتزاج سے بنتی ہے۔ کوئی چیز جس کے متعلق ہمارا فیصلہ ہو کہ وہ زشت ہے مکمل طور پر زشت نہیں ہوتی۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
گھٹیا آرٹ
چونکہ آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کا ایک پہلو ہے ضروری ہے کہ یہ آرزوئے حسن کے اصل مقصود یعنی طلب جمال حقیقی کے ساتھ اور آرزوئے حسن کے دوسرے ممد و معاون پہلوؤں یعنی طلب خیز اور طلب صداقت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ لہٰذا جو آرٹ (خواہ وہ شعر ہو یا رقص یا مصوری یا موسیقی یا کوئی اور) بد اخلاقی کی طرف ایما کرتا ہو۔ وہ اخلاقی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ مطلق آرٹ کی حیثیت سے بھی پست اور گھٹیا ہوتا ہے۔ ایسا آرٹ خودی کی آرزوئے حسن کا خالص اظہار نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں خودی کی آرزو کا اظہار جبلتی خواہشات کے اظہار کے ساتھ ملوث ہوتا ہے۔ وہ خالص خودی کا عمل یا انسانی عمل نہیں ہوتا بلکہ انسانی اور حیوانی اعمال کا امتزا ج ہوتا ہے ایسے آرٹ کا دیکھنا یا تخلیق کرنا وہ خاص قسم کا سرور پیدا نہیں کرتا جو سچے آرٹ کا امتیاز ہے اور اس سرور سے بالکل مختلف ہے جو جبلتوں کی تشفی سے حاصل ہوتا ہے۔
سچا آرٹ
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں آرٹ کو بتکلف نیکی یا اخلاق کی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہئے۔ سچا آرٹ جستجوئے حسن کے سوائے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا۔ خودی کی ہر فعلیت کی طرح آرٹ بھی خودی کی آرزوئے حسن کا آزادانہ اظہار ہوتا ہے جو خود بخود اور بغیر کسی پابندی یا تکلف یا غرض کے فقط اپنی ہی خاطر عمل میں آتا ہے۔ لیکن سچا آرٹ چونکہ حسن کی سچی جستجو کرتا ہے وہ خود بخود خیر اور صداقت اور حسن حقیقی کی جستجو سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے تاکہ اپنے آپ کو آرٹ کی حیثیت درست اور مکمل بنا لے۔ اگر وہ خیر اور صداقت کو نظر انداز کر دے تو پھر نہ وہ حسن کا اظہار ہی رہ سکتا ہے اور نہ آرٹ۔ جب تک آرٹ جبلتوں کے دباؤ سے اور بدی اور بد اخلاقی کے اثر سے آزاد نہ ہو اور نیکی اور صداقت کو پوری طرح سے ملحوظ نہ رکھے۔ وہ نہ تو خودی کی آزادانہ فعلیت ہی ہو سکتا اور نہ ہی آرٹ کہلا سکتا ہے لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کا فعل جمیل جو نیکی کے بلند ترین معیار پر پورا اتر سکے۔ صرف خدا کی محبت کے درجہ کمال پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سچے آرٹ کی توقع صرف اس شخص سے کر سکتے ہیں جس کا تصور حقیقت فی الواقع حسین ہو یعنی سچا خدا ہو اور جس کی خودی خدا کی محبت کے کمال کو پا چکی ہو۔ جس شخص کا تصور حقیقت حسین نہیں ہو گا۔ یعنی خدا کے سوائے کوئی اور ہو گا جیسا کہ مثلاً ایک کافر یا منکر خدا کا تصور تو اس کا آرٹ بھی خود بخود اس کے نازیبا اور ناقص تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر کے پایہ حسن سے گر جائے گا۔ یہی صورت حال کم و بیش اس شخص کے ساتھ پیش آئے گی جس کا تصور حقیقت تو صحیح اور حسین ہے لیکن جس کو اپنے تصور حقیقت کے ساتھ ایسی کامل اور خالص محبت نہیں جو غلط تصورات کی محبت کے ساتھ ذرا بھی ملوث نہ ہو۔ چونکہ آرٹ ہمیشہ فنکار کے تصور حقیقت کے ساتھ مطابقت پیدا کر لیتا ہے اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ سچا آرٹ ایک مکمل طور پر آزاد فعلیت ہونے اور آرٹ برائے آرٹ ہونے کے باوجود ہمیشہ خود بخود مقاصد زندگی کا ترجمان اور خدمت گزار ہوتا ہے۔
سچا علم اور سچا آرٹ دونوں حسن حقیقی یعنی خدا کی محبت کے دو پہلو ہیں جو اسی کی خدمت اور اعانت کے لئے اپنا وجود رکھتے ہیں۔
علم و فن از پیش خیزان حیات
علم و فن از خانہ زادان حیات
اس شعر میں حیات سے اقبال کی مراد آرزوئے حسن یا خدا کی محبت ہے۔ کیونکہ اقبال اپنے کلام میں جس چیز کو حیات کہتا ہے وہی ارتقا انسانی سطح پر آرزوئے حسن یا خدا کی محبت کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔