آرٹ کی دو خطرناک قسمیں، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

آرٹ کی دو خطرناک قسمیں
آرٹ چونکہ خودی کی آرزوئے حسن کی تشفی کا عمل ہے اس سے بھی خودی کی محبت ترقی کرتی ہے۔ لیکن آرٹ کی بعض قسمیں ایسی ہیں مثلاً سرود، رقص، مصوری اور مجسمہ سازی جو آسانی سے جنسی تلذذ کا سامان بن جاتی ہیں۔ اس قسم کے آرٹ کو پاکیزہ بھی بنایا جا سکتا ہے لیکن اگر مکمل طور پر ایسا کرنا مشکل ہو تو خودی کی حفاظت اور تربیت کے لئے اس سے احتراز ضروری ہے کیونکہ پھر یہ آرٹ کے مقام سے گر کر فقط جنسی اپیل کا ایک ڈھنگ بن کر رہ جاتا ہے۔ جب بھی ہم اس قسم کے آرٹ کا مشاہدہ کریں ہمیں دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ یہ آرٹ ہے۔ اس قسم کا آرٹ خودی کے لئے موت کا پیغام ہے۔
وہ مغنی جس کا دل پاک نہیں اپنے سانس سے نغمہ کو زہر آلود کر دیتا ہے۔
نوا کو کرتا ہے موج نفس سے زہر آلود
وہ نے نواز کہ جس کا ضمیر پاک نہیں
مرجع عقیدت انسانوں کی تصویر کشی اور مجسمہ سازی بالخصوص آرٹ کی ایسی قسمیں ہیں جو ایک حد تک انسان کے مخلصانہ ذوق عبادت اور جذبہ یک بینی و یک پرستی کو چرانے اور ایک غیر محسوس طریق پر خدا سے ہٹانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے آرٹ سے بھی احتراز خودی کی پوری پوری نشوونما کیلئے ضروری ہے۔
سینما
اس وقت سینما کی جو حالت ہے اس کا جو تاجرانہ مقصد اور مدعا ہے اور اس کے پیچھے زندگی کا جو سفلی اور حیوانی نقطہ نظر کام کر رہا ہے اس کے پیش نظر ہمیں سینما کو بھی آرٹ کی ایسی ہی اقسام میں شمار کرنا چاہئے۔ اقبال کی نگاہ میں یہ عہد قدیم کی بت فروشی اور بت گری کی ایک صورت ہے۔ وہ بت گری کوئی آرٹ(صنعت) نہ تھی بلکہ کافری کا ایک تقاضا تھا۔ یہ بھی کوئی آرٹ نہیں بلکہ ایک قسم کی ساحری ہے اور تہذیب نو کی پیدا کی ہوئی ایک تجارت ہے جس کا مقصد جلب زر کے سوائے اور کچھ نہیں۔ اقبال اسے بت سازی اور بت پرستی اس لئے کہتا ہے کہ یہ انسان کی آرزوئے حسن کو خدا سے ہٹا کر غلط راستہ پر ڈالتا ہے اور بت پرستی بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ انسان کی تفریح کا سارا سامان آرزوئے حسن کی صحیح تشفی سے پیدا ہونا چاہئے۔ ورنہ اس کی تفریح اس کی خودی کی نشوونما کے لئے مضر ہوتی ہے۔ اور اس کا انجام مسرت نہیں بلکہ حزن و ملال کی صورت میں رونما ہوتا ہے۔
وہی بت فروشی وہی بت گری ہے
سینما ہے یا صنعت آذری ہے
وہ صنعت نہ تھی شیوہ کافری تھا
یہ صنعت نہیں شیوہ ساحری ہے
وہ مذہب تھا اقوام عہد کہن کا
یہ تہذیب حاضر کی سوداگری ہے
تمثیل
اسی طرح سے تیاتر یا تمثیل بھی خودی کی تربیت کے لئے خطرناک ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا کمال اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اداکار اپنے آپ کو بالکل مٹا دے اور اپنی جگہ اس شخص کی خودی کو پوری طرح سے کار فرما کر دے جس کا کردار وہ ادا کر رہا ہے۔ ایک انسا ن اپنی شخصیت اور اس کے اندر جاگزیں ہونے والی آرزوئے حسن کا اس سے زیادہ برا استعمال اور کیا کر سکتا ہے کہ وہ اپنے دل میں جو خدا کا گھر ہے خدا کے سوائے اوروں کی خودی کو بساتا ہے۔ جس طرح سے اسلام سے پہلے کافروں نے خانہ کعبہ میں لات و منات ایسے بت پوجا کے لئے کھڑے کر دئیے تھے۔ ایسے کفر سے خد اکی پناہ، انسان کی زندگی اس کی خودی پر منحصر ہے۔ اس کی مسرت اس کی محبت، اس کی ذات کا تسلسل اور ثبات اور اس کی صفات سب کا دار و مدار اس کی خودی پر ہے۔ اگر وہ اپنی خودی کو ہی مٹا دے تو پھر اس کے پاس اور کیا چیز رہ جاتی ہے جس کی بنا پر اسے زندہ سمجھا جائے۔ چونکہ انسان کی خودی خدا کی طلب گار ہے اس کا مقام مہ و پردین سے بھی اونچا ہے۔ انسان اسی کی وجہ سے معزز اور مکرم ہے۔ اسے غیر اللہ کے لئے وقف کرنا اپنی تذلیل ہے۔
تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود
حیات کیا ہے؟ اسی کا سرور و سوز و ثبات
بلند تر مہ پروین سے ہے مقام اس کا
اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات
حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ
دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات
یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے
رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات

ظاہر ہے کہ جن حقائق کی بنا پر تیاتر یا تمثیل خودی کی تربیت کے لئے مضر ہے وہ اداکاری کی تمام قسموں پر صادق آتے ہیں۔
ہنرورانِ ہند کا آرٹ
ہنروران ہند کا آرٹ جنسیت میں ڈوبا ہوا ہے لہٰذا گھٹیا اور پست ہے۔ ان کا تخیل اس قسم کا ہے کہ انسان کے دل سے عشق و مستی یعنی خدا کی محبت رخصت کر دیتا ہے۔ ان کا تاریک فکر قوموں کے لئے ہلاکت ہے۔ یہ ہنر ور خدا پرست نہیں بلکہ برہمنوں کی طرح بت پرست ہیں اور ان کے صنم خانوں میں موت کی تصویریں بنا کر رکھی گئی ہیں۔ یعنی ان کے ہنر کی مخلوقات افراد اور اقوام کے لئے موت کا حکم رکھتی ہیں۔ ان کا ہنر انسانوں کو یہ جاننے سے باز رکھتا ہے کہ ان کی خودی ترقی کر کے بلند مقامات تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ اپنے ہنر سے بدن کی خواہشات کو تو بیدار کرتے ہیں لیکن روح یا خودی کی خواہشات کو سلاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک خواہ وہ شاعر ہے یا مصور ہے یا افسانہ نویس عورت کی کشش کے فریب میں مبتلا ہے۔
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا،
ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کا مزار
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس

آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار