انکشاف حقیقت کا مقام، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

انکشاف حقیقت کا مقام
شروع میں مومن نبی کی شریعت کو سمجھنے کے بغیر اور اپنے آپ کو مجبور کر کے اور بڑی جدوجہد کے بعد عمل میں لاتا ہے پھر کچھ عرصہ کے بعد وہ شریعت کے احکام کی عقلی توجیہہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرتا ہے لیکن چونکہ نبی کی شریعت خودی کی فطرت پر مبنی ہوتی ہے اور زندگی کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔
شرع مے خیزد ز اعماق حیات
روشن از نورش ظلام کائنات
جوں جوں شریعت کی پابندی کی وجہ سے مومن کی محبت ترقی کرتی جاتی ہے۔ اس پر یہ حقیقت کھلتی جاتی ہے کہ یہ شریعت کوئی ایسی چیز نہیں جو اس سے غیر ہو یا اس کی فطرت سے بیگانہ ہو۔ اور آخر کار ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کی محبت درجہ کمال پر پہنچ جاتی ہے۔ یہاں وہ شریعت کے احکام کو ایک طاقتور اندرونی جذبہ کے ناقابل مزاحمت تقاضوں کے طور پر محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہر مومن کے لئے ضروری ہے کہ اپنی محبت کو فروغ دے کر اس مقام کو پائے جب تک وہ اس مقام کو نہیں پاتا وہ خدا سے دور رہتا ہے۔
فاش مے کواہی اگر اسرار دیں
جز باعماق ضمیر خود مبین،
گر نہ بینی دین تو مجبوری است
ایں چنیں دین از خدا مہجوری است
جب مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن خود اس کی ذات پر نازل ہوا ہے۔ پھر وہ کتاب خوان نہیں رہتا بلکہ صاحب کتاب بن جاتا ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ وہ خود ہی قرآن بن جاتا ہے۔ جب تک مومن اس مقام کو نہیں پاتا کوئی بڑے سے بڑا مفسر بھی اسے قرآن کے رموز و اسرار سے آشنا نہیں کر سکتا۔
تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
٭٭٭
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خوان ہے مگر صاحب کتاب نہیں
٭٭٭
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
اس مفہوم کو اقبال نے اپنی نثر میں اور وضاحت سے بیان کیاہے۔ وہ لکھتا ہے:
’’ مذہبی زندگی بالعموم تین ادوار میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ ان کو ’’ایمان‘‘ ۔ ’’ عقل‘‘ اور ’’ عرفان‘‘ کے ادوار کہا جا سکتا ہے۔ پہلے دور میں مذہبی زندگی ایک نظم کی صورت میں نظر آتی ہے۔ جسے ایک فرد یا ایک پوری قوم کو ایک مشروط حکم کے طور پر قبول کر لینا چاہئے۔ بغیر اس بات کے کہ انہوں نے اس حکم کی بنیادی حکمت یا مصلحت کو عقلی طور پر سمجھا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نقطہ نظر کسی قوم کی سماجی اور سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت پیدا کرے۔ لیکن جہاں تک فرد کی باطنی ترقی اور توسیع کا سوال ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ نظم کی مکمل اطاعت کے بعد نظم اور اس کے جواز کے اصل منبع کی عقلی تفہیم کا دور آتا ہے۔ اس دور میں مذہبی زندگی اپنی بنیادیں ایک طرح کے مابعد الطبیعیات میں تلاش کرتی ہے۔ یعنی کائنات کے ایک ایسے نظریہ میں جو عقلی نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہو اور جس میں خدا کا تصور بھی شامل ہو تیسرے دور میں ما بعد الطبیعیات کی جگہ نفسیات لے لیتی ہے اور مذہبی زندگی کی حقیقت وجود کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کرنے کی تمنا کرنے لگتی ہے۔
یہ ہے وہ مرحلہ جہاں مذہب زندگی اور قوت کو جذب کرنے کا ذاتی معاملہ نظر آتا ہے اور فرد ایک آزاد شخصیت کا مالک بن جاتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ اپنے آپ کو قانون شریعت کی بندشوں سے آزاد کر لیتا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ وہ معلوم کر لیتا ہے کہ قانون شریعت کا اصل منبع اس کے اپنے شعور کی گہرائیوں میں ہے جیسا کہ ایک مسلمان صوفی نے کہا ہے خدا کی کتاب کو سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ مومن کے دل پر اس طرح سے نازل نہ ہو جس طرح سے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔‘‘
(صفحہ181’’ تشکیل الہٰیات جدید)

٭٭٭