تاریخ و جغرافیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
تاریخ و جغرافیہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

'باندھ دینے والی بیماری': 3200 سال پرانی وبا جس نے قدیم مشرقِ وسطیٰ کی ریاستیں مٹا دیں

ایڈون سمتھ پاپیرس جسے دنیا کی قدیم ترین طبی تحریر مانا جاتا ہے
سید عرفان مزمل ،  محقق و مؤرخ (1)

( تاریخ اشاعت : 25 مئ 2020م ، بی بی سی اردو )
----------------------------------------------------

وہ علاقہ جو اب مشرق وسطیٰ کہلایا جاتا ہے، وہاں آج سے تقریباً 3200 سال قبل ایک خوفناک تباہی آئی۔

اس تباہی نے اس خطے کی تمام معروف ریاستوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا جن میں بابل (موجودہ دور میں جنوبی عراق)، اشور (موجودہ دور میں شمالی عراق)، مصر، ہٹوسا (موجودہ دور میں مشرقی ترکی) اور قبرص سمیت کئی علاقے شامل تھے۔

یہ ریاستیں یا تو کرہ ارض سے مٹ گئیں یا پھر ایک ایسے تاریک دور سے گزریں جو کئی صدیوں تک ان پر سیاہی کی چادر تانے رہا۔ اس تباہی کو آج ہم ’برونز ایج کولیپس‘ یعنی تانبے کے دور کے خاتمے کی اصطلاح سے یاد کرتے ہیں۔

اور اس تباہی کے پیچھے جنگ، قحط، سیلاب اور دیگر فطری وجوہات کے علاوہ سب سے اہم وجہ ایک عالمی وبا تھی۔
اگرچہ ڈی این اے سے ملنے والی معلومات کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی امراض سے انسانوں کا سب سے پہلا سامنا تقریباً 75 ہزار سل قبل افریقہ کے جنگلات میں ہوا تھا مگر یہ پہلا موقع تھا جب ایسے کسی مرض نے پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی گرفت میں لے لیا ہو۔

خلافت : تاریخ کے آئینہ میں

مختلف ادوار میں مسلم فتوحات 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ آپ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا تھے اور دنیاوی امور میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے۔ افواج کی سپہ سالاری، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے آنحضرت کی مرضی اور ہدایت کے بموجب ہوتے تھے۔

خلافت راشدہ

آنحضرت کی وفات کے بعد اس اسلامی مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے جانشین مقرر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا اسے خلافت کہتے ہیں۔ پہلے چار خلفاء ’’ حضرت ابوبکر رض، حضرت عمر رض، حضرت عثمان رض، حضرت علی رض‘‘ کے عہد کو خلافت راشدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں   نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی اور مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی بھی احسن طریقے سے کی۔ اور ہر طرح سے یہ خلفاء اللہ تعالیٰ کے بعد اہل اسلام کے سامنے جوابدہ تھے۔ اور ان کا چناؤ موروثی نہیں تھا بلکہ وصیت/اکابر اصحابہ رض کی مشاورت سے ان کا انتخاب کیا جاتا رہا۔

سلطنت عثمانیہ : ابتداء سے سقوط تک

سلطنت عثمانیہ : تاریخ و جغرافیہ 
سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختیار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔

 کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انہوں نے دو لشکروں کو آپس میں برسر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے برسرپیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انہیں اسکی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنہوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خودمختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ 

شیخ الاسلام کا عہدہ تاریخ کے آئینہ میں اور شیوخ کی فہرست

سلطنت عثمانی کا  شیخ الاسلام
محمد جمال الدین آفندی وفات 1917ء
سلطنت عثمانیہ ، یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1923ء  تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔


مؤرخین کا اتفاق ہے کہ شیخ الاسلام کے عہدہ کا آغاز سلطان محمد فاتح کے عہد میں ہوا تھا۔ اس عہدہ کو سب سے پہلے سلطان محمد فاتح نے سنہ 1451ء میں قائم کیا تھا، شیخ الاسلام کا لقب سلطنت عثمانیہ کے مفتی اعظم کے لیے بولا جاتا تھا۔ یہ سلطنت کا اہم عہدہ تھا جس کا مرکز آستانہ (استنبول) میں تھا۔  حالانکہ اِس سے قبل صرف اناطولیہ اور روم ایلی کے قاضی
مقرر ہوا کرتے تھے۔ پھر سلطان سلیم اول کے عہد میں خاصا اہم اور باوزن منصب بن گیا اور سلطان سلیمان کے عہد میں یہ عہدہ حکومت کا ایک اہم سرکاری و قانونی ادارہ اور شعبہ بن گیا، جس کے فتاوی اور اجتہادات کے روشنی میں سلطنت کے سیاسی اور دینی امور طے پاکر نافذ ہوتے تھے۔ 

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیا کو کیسے بدلا ؟

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیاکو کیسے بدلا ؟ 
(تاریخ اشاعت : 23 مئی 2020 ، بی بی سی اردو ) 
اس دنیا کی مصالحوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک نے تجارت کے وہ راستے کھولے جو آج پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تجارت نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور اس کے اثرات عالمی معیشت پر بھی پڑے۔

تقریباً 2500 سال قبل عرب تاجر ایک خطرناک دارچینی پرندے کی کہانی سناتے تھے جسے سنامولوگس بھی کہا جاتا تھا۔

یہ پرندہ دارچینی کی نازک ڈنڈیوں سے اپنا گھونسلہ بناتا تھا۔ اس سے دارچینی کی ڈنڈیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تاجر اس کے سامنے گوشت کے بڑے پارچے ڈالتے تھے، چڑیاں یہ ٹکڑے اٹھا کر اپنے گھونسلے میں لے جاتیں اور ان کے وزن سے گھونسلہ ٹوٹ کر نیچے گر جاتا تھا اور چالاک تاجر گھونسلے سے گری دارچینی اٹھ کر بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔

انگریزوں نے ہندوستان کو کل کتنا مالی نقصان پہنچایا؟

ظفر سید ،  بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
سر ٹامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں
15 اگست 2018

آج بادشاہ کی سالگرہ ہے اورمغل روایات کے مطابق انھیں تولا جانا ہے۔ اس موقعے پر برطانوی سفیر سر ٹامس رو بھی دربار میں موجود ہیں۔

تقریب پانی میں گھرے ایک چوکور چبوترے پر منعقد کی جا رہی ہے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک دیوہیکل طلائی ورق منڈھی ترازو نصب ہے۔ ایک پلڑے میں کئی ریشمی تھیلے رکھے ہوئے ہیں، دوسرے میں خود چوتھے مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر احتیاط سے سوار ہوئے۔

بھاری لبادوں، تاج اور زر و جواہر سمیت شہنشاہ جہانگیر کا وزن تقریباً ڈھائی سو پاؤنڈ نکلا۔ ایک پلڑے میں ظلِ الٰہی متمکن رہے، دوسرے میں رکھے ریشمی تھیلے باری باری تبدیل کیے جاتے رہے۔ پہلے مغل بادشاہ کو چاندی کے سکوں سے تولا گیا، جو فوراً ہی غریبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ اس کے بعد سونے کی باری آئی، پھر جواہرات، بعد میں ریشم، اور آخر میں دوسری بیش قیمت اجناس سے بادشاہ سلامت کے وزن کا تقابل کیا گیا۔یہ وہ منظر ہے جو آج سے تقریباً ٹھیک چار سو سال قبل مغل شہنشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے دربار میں انگریز سفیر سر ٹامس رو نے دیکھا اور اپنی ڈائری میں قلم بند کر لیا۔ تاہم دولت کے اس خیرہ کن مظاہرے نے سر ٹامس کو شک میں ڈال دیا کہ کیا بند تھیلے واقعی ہیرے جواہرات یا سونے سے بھرے ہوئے ہیں، کہیں ان میں پتھر تو نہیں؟

کورونا وائرس: برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟ -

عالمی وبا عالمی بحران ، کرونا وائرس
برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 کرونا جیسی وبا آئے گی ؟
( برائن والش ، بی بی سی فیوچر 8 اپريل 2020)

کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بارے میں، جو کووِڈ 19 کے نام سے جانی جاتی ہے، پہلے سے اندازہ کر لینا اس سے زیادہ آسان نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ دعوٰی میں اپنی رپورٹنگ کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔

اکتوبر 2019 میں، میں نے کورونا وائرس کی ایک فرضی عالمی وبا کے بارے میں ایک سِمیولیشن یا تمثیل کا مشاہدہ کیا تھا۔ اسی طرح سنہ 2017 کے موسم بہار میں، میں نے اسی موضوع پر ٹائم میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا تھا۔ رسالے کے سرِ ورق پر تحریر تھا: ’خبردار: دنیا ایک اور عالمی وبا کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ پچھلے پندرہ برس میں ایک ایسی عالمی وبا کے بارے میں بہت سے مضامین اور قرطاسِ ابیض شائع ہوئے ہیں جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ ہمارے نظام تنفس کو متاثر کرنے والا ایک نیا مرض پھیلنے والا ہے۔

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان

( ظفر سید ،  بی بی سی اردو ڈاٹ کام،  18 نومبر 2017 )
سلطنت عثمانیہ : تین بر اعظموں کے سلطان 

(عام خیال کے مطابق 1517 میں خلافتِ عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا۔ اس بات کے 500 سال مکمل ہونے کے موقعے پر یہ خصوصی تحریر لکھی گئی تھی)

ظہیر الدین بابر کو اچھی طرح احساس تھا کہ اس کی فوج دشمن کے مقابلے پر آٹھ گنا کم ہے، اس لیے اس نے ایک ایسی چال چلی جو ابراہیم لودھی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔

اس نے پانی پت کے میدان میں عثمانی ترکوں کا جنگی حربہ استعمال کرتے ہوئے چمڑے کے رسوں سے سات سو بیل گاڑیاں ایک ساتھ باندھ دیں۔ ان کے پیچھے اس کے توپچی اور بندوق بردار آڑ لیے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں توپوں کا نشانہ کچھ زیادہ اچھا نہیں ہوا کرتا تھا لیکن جب انھوں نے اندھا دھند گولہ باری شروع کی تو کان پھاڑ دینے والے دھماکوں اور بدبودار دھویں نے افغان فوج کو حواس باختہ کر دیا اور اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر جس کا جدھر منھ اٹھا، ادھر کو بھاگ کھڑا ہوا۔
یہ پانی پت کی پہلی لڑائی تھی اور اس کے دوران ہندوستان میں پہلی بار کسی جنگ میں بارود استعمال کیا گیا۔

50 ہزار سپاہیوں کے علاوہ ابراہیم لودھی کے پاس ایک ہزار جنگی ہاتھی بھی تھے لیکن سپاہیوں کی طرح انھوں نے بھی کبھی توپوں کے دھماکے نہیں سنے تھے، اس لیے پورس کے ہاتھیوں کی تاریخ دہراتے ہوئے وہ جنگ میں حصہ لینے کی بجائے دم دبا کر یوں بھاگ کھڑے ہوئے کہ الٹا لودھی کی صفیں تتر بتر کر دیں۔

بابر کے 12 ہزار تربیت یافتہ گھڑسوار اسی لمحے کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے لودھی کی فوج کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور کچھ ہی دیر بعد بابر کی فتح مکمل ہو گئی۔

مصری کیسے لوگ ہیں ۔ جاوید چوہدری

(تاریخ اشاعت : 28 جنوری 2020ء روزنامہ ایکسپیریس )

جامعہ الازھر 
قاہرہ طلسماتی شہر ہے‘ مصر کی آبادی دس کروڑ ہے‘ آبادی کا بیس فیصد یعنی دو کروڑ لوگ قاہرہ شہر میں رہتے ہیں‘ مصری خوش گمان لوگ ہیں‘ یہ مصر کو پورا جہاں اور قاہرہ کو دنیا کا سب سے بڑا شہر سمجھتے ہیں‘ شہر ماضی اور حال کا خوبصورت ملاپ ہے‘ اس کے ایک بازو پر ماضی کی شوکت رکھی ہے اور دوسرے پر دمکتا چمکتا حال اور آپ ان دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر حیرت سے سوچتے ہیں ماضی کی حیرتوں کا تجزیہ کیاجائے یا حال کی چکا چوند پر توجہ دی جائے اور آپ کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔ یہ شہر صرف شہر نہیں طلسم ہے‘ دریائے نیل پر کشتیاں چلتی ہیں اور قدیم قاہرہ میں تاریخ کی موجیں بے رحم وقت کے قلعے سے ٹکراتی رہتی ہیں۔



قاہرہ کا پہلا طلسم جامعہ الازہر ہے‘ یہ تاریخ اسلام کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے‘ یہ فاطمی خلافت کے دور میں 972ء میں بنی‘ یونیورسٹی مسجد میں قائم کی گئی تھی‘ جامعہ الازہر اب شہر کے دوسرے حصوں میں منتقل ہو چکی ہے اور قدیم درس گاہ اب بطور مسجد استعمال ہوتی ہے‘ آپ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ہال کے چاروں اطراف درمیانے سائز کے کمرے ملتے ہیں‘ یہ قدیم دور میں کلاس رومز اور ہاسٹل ہوتے تھے‘ تمام کمرے اسلامی ریاست کے مختلف ممالک کے نام منسوب تھے‘ کسی پر شام لکھا ہے‘ کسی پر المغرب (مراکش) اور کسی پر ہندوستان۔ یہ نشان ظاہر کرتے ہیں کمروں میں ان ان ممالک کے طالب علم قیام کیا کرتے تھے‘ مسجد کے اندر درجنوں ستون ہیں‘ صبح کی نما زکے بعد ہر ستون کے ساتھ ایک استاد بیٹھ جاتا تھا‘ طالب علم اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے اور استاد انھیں چشمہ علم سے سیراب کرتا جاتا تھا۔

خانہ کعبہ کا محاصرہ : 20 نومبر 1979 ء ، بمطابق یکم محرم 1400 ھ

( تاریخ اشاعت : بی بی سی اردو ، 5 دسمبر 2017  )

یکم محرم 1400 ھ کو خانہ کعبہ  پر حملہ آورں کی تصویر 

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ 'ہم ملک میں اسلام کو اس کی اصل شکل میں واپس لے جانا چاہتے ہیں اور سعودی معاشرے کو ویسا بنانا چاہتے ہیں جیسا وہ 1979 سے پہلے تھا۔'

اس حوالے سے کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھا کہ 1979 میں ایسا کیا ہوا تھا جس نے سعودی معاشرے کی شکل تبدیل کر دی تھی؟

1979 کو ویسے تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے لیکن سعودی عرب میں یہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کیے جانے والے حملے اور دو ہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور تقریباً ایک لاکھ لوگ مسجد الحرام میں محصور ہو گئے تھے۔

38 برس قبل چار دسمبر کو سعودی حکومت نے فرانسیسی کمانڈوز، پاکستانی فوج اور سعودی فوج کی مدد سے لڑائی کا خاتمہ کیا جس کا آغاز 20 نومبر کو ہوا تھا جب 400 سے 500 شدت پسندوں نے یکم محرم 1400 ہجری کو نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کر کے ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد میں محصور کر کے خود انتظام سنبھال لیا تھا۔
حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کا تعلق نجد کے ایک بدو قبیلے سے تھا، اور وہ سعودی عرب کے معروف عالم دین عبدالعزیز بن باز کی تعلیمات سے نہایت متاثر تھا۔

کرسمس کا تہوار کیسے وجود میں آیا ؟

کرسمس کا تہوار کیسے وجود میں آیا ؟
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کرسمس ایک تہوار کے طور پر کیسے وجود میں آیا۔ آج دنیا بھر میں کرسمس بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

لیکن مسیحی مذہب کے ابتدائی تین سو سالوں میں کرسمس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ سنہ 239 عیسوی میں روم کے بادشاہ کونسٹینٹائن نے پہلی مرتبہ 25 دسمبر کو ایک تہوار کی شکل دی۔ وہ روم کا پہلا مسیحی حکمراں تھے۔ کچھ عرصے بعد پوپ جولیس اول نے 25 دسمبر کو رسمی طور پر عیسیٰ مسیح کا روز تولد قرار دیا۔

ابتدا میں یہ صرف سنجیدہ مذہبی تہوار تھا جس میں حضرت عیسیٰ مسیح کی قربانیوں کا ذکر ہوتا تھا اور ان کے دنیا میں آنے کی خوشیاں منائی جاتی تھیں۔
رفتہ رفتہ اس میں بہت سی رسومات شامل ہوتی گئیں اور نسل و نژاد کی قید سے آزاد یہ ایک اجتماعی تہوار بن گیا۔ تحفے تحائف کا سلسلہ شروع ہوا۔ سینٹ نکولس ’فادر کرسمس‘ بن گئے۔

سولہ دسمبر - محمد اظہار الحق

سولہ دسمبر - محمد  اظہار الحق 
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا!جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎

کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروںکو بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب  آبروئے  شیوئہ اہلِ   نظر  گئی

احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔

محمد رسول اللہ ﷺ کی 9 تلواریں اور ان کی تصاویر - ابو البشر احمد طیب

العضب سيف النبي ﷺ
ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ ہماری بہادر فوج نے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لئے جو  نام منتخب  کیا وہ  ’’ضرب عضب‘‘ تھا، اس  فوجی کارروائی  کے بارے میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا میں زبردست تجسس پیدا ہوا تھا  ۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے  کہ آخر اس فوجی کارروائی کو ضرب عضب کا نام کیوں دیا گیا تھا ؟ 

دراصل " العضب " ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا کئی ۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس رہنے کا درس دیا ہے تاکہ دنیا میں  مظلوموں، کمزوروں، بے بسوں و بے کسوں کو ظالموں کے جبر و استبداد ان کے ظلم و بربریت سے محفوظ رکھا جائے ۔ انسانیت کی بقاء کو یقینی بنایاجا سکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل 9 تلواریں تھیں اور آج بھی وہ تلواریں پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہیں۔ ان 9 تلواروں :  ذوالفقار، البتار، الماثور، الرسوب، المخذم، حتف،قلعی، القضیب اور العضب  ہیں۔ درج ذیل میں ہم ان کا تعارف پیش کریں گے ۔ 
  
 دنیا کو ان مقدس و متبرک تلواروں سے واقف کروانے میں محمد بن حسن محمد التہامی کا سب سے اہم کردار ہے ۔  انہوں نے 1929ء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں اور جنگی ساز و سامان (آلات حربی) کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا، جس کے لئے انہوں نے  ان تلواروں کی تصویریں لی ۔ ان 9 تلواروں میں سے 8 تلواریں  استنبول میں توپ کاپی میوزیم میں آج تک  موجود ہیں جبکہ ایک تلوار مصر کی مسجد الحسین بن علی میں ہے۔ ان تلواروں کی لمبائی 90 تا 140 سنٹی میٹر بتائی گئی ہے۔

العضب:

 العضب کے معنی تیز چلنے والی اور تیز دھار تلوار ہے ، یہ سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا فرمائی۔   ایک دوسری روایت کے مطابق یہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجی تھی اور پھر آپ نے اسے غزہ احد میں استعمال کیا۔ یہ  تلوار فی الوقت مصر کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔ 

 الذو الفقار، سیف النبی ﷺ 

جس نے ماسکو فتح کرلیا - جاوید چوہدری

دیگر ممالک کے ساتھ  روس کی سرحدیں 
روس بیک وقت حیران کن اور دل چسپ ملک ہے‘یہ دنیا کے 11 فیصد رقبے پر محیط ہے‘ گیارہ ٹائم زون ہیں‘ ملک کے اندر 9گھنٹے کی فلائٹس بھی چلتی ہیں‘ سرحد گیارہ ملکوں سے ملتی ہے‘ یہ جنوب میں جاپان‘ چین‘ شمالی کوریا اور منگولیا سے ملتا ہے۔

درمیان میں سینٹرل ایشیا کے ملکوں قزاقستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان‘ آذر بائیجان‘ جارجیا اور آرمینیا‘ یورپ کی سائیڈ سے یوکرائن‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ بیلاروس‘ لتھونیا‘ لٹویا اور اسٹونیا‘ قطب شمالی کی طرف سے فن لینڈ اور ناروے اور یہ دنیا کے آخری سرے سے الاسکا کے ذریعے امریکا سے بھی جڑا ہوا ہے۔

روس کی تین سرحدیں انتہائی دل چسپ ہیں‘ یہ سینٹ پیٹرز برگ سے فن لینڈ سے ملتا ہے‘ پیٹر برگ سے ٹرین یا فیری کے ذریعے فن لینڈ جانا ایک رومانوی تجربہ ہے‘ ناروے کے علاقے سورورینجر (Sor-Varanger)اور روس کے شہر پیچنگ سکی (Pechangsky)کے درمیان دس منٹ کا فاصلہ ہے‘ لوگ یہ فاصلہ پیدل عبور نہیں کر سکتے چناں چہ یہ روسی علاقے سے سائیکلیں لیتے ہیں‘ سائیکل پر ناروے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر سائیکل سرحد پر پھینک کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں‘ سورورینجرشہر دنیا میں بے کار سائیکلوں کا قبرستان بن چکا ہے‘ شہر میں سائیکلوں کے ڈھیر کی وجہ معیار ہے۔

یورپ کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد

پورپ کی سب سے بڑی مسجد 
گروزنی: جمعۃ المبارک 23 اگست 2019 ء کو چیچنیا میں یورپ کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد کا افتتاح ہوگیا ہے جس کی تزئین اور آرائش کے لیے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔

یہ مسجد نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نامِ مبارک سے منسوب کی گئی ہے۔ چیچن انتظامیہ کے مطابق یہ مسجد یورپ کی سب سے بڑی اور حسین مسجد ہے جس کے اندر 30 ہزار نمازی سماسکتے ہیں۔ تاہم اس کے باہر باغیجے میں خوبصورت پودے، پھول اور فوارے لگائے گئے ہیں اور دالان میں مزید 70 ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کی تعمیر میں خاص قسم کا ماربل اور دیگر تعمیراتی سامان استعمال کیا گیا ہے۔

خانہ کعبہ (بیت اللہ )

حج کے موسم میں خانہ کعبہ کا ایک منظر 
دنیا بھر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہوئے اپنا رُخ خانہ کعبہ کی سمت کرتے ہیں۔ عمرے اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کے گرد (گھڑی کی سُوئیوں کے مخالف رُخ) سات چکر لگاتے ہیں۔

اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا، اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں ۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے تعمیر کیا ہے۔

خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت بھی وہ نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی ۔ مختلف ادوار میں نئے سِرے سے تعمیر ہوئی ۔ تاریخ کتب میں درجِ ذیل ادوار کا ذکر آتا ہے :

1- اسلام سے قبل کے زمانے میں قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو کی.

2- صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن الزبیر کے ہاتھوں اس کی تعمیرِ نو ہوئی.

3- اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف نے تعمیر کروایا۔

4- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں تعمیر کروائی۔ یہی خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔

موجودہ خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔

اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں ، ہر کونے کا ایک خاص نام ہے۔ رکن یمانی ، رُکنِ عراقی ، رکن شامی اور رکن حجرِ اسود ہیں اُس کونے میں جنّت کا مبارک پتھر حجر اسود نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حطیم ہے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔



خانہ کعبہ کے بنیادی حصوں کے نام 
خانہ کعبہ کے بنیادی حصوں کی فہرست یہ ہے : 

1 - حجر اسود
2 - باب کعبہ 
3 - پرنالہ 
4 - بنیادیں 
5 - حطیم
6 - ملتزم 
7 - مقام ابراہیم
8 - رکن حجر اسود
9 - رکن یمانی
10 - رکن شامی
11 - رکن عراقی
12 - غلاف کعبہ
13 - چاروں طرف سے سنگ مرمر سے ڈھانپا ہوا حصہ
14 - مقام جبرائيل

ڈارون کا نظریۂ ارتقاء ۔ ہارون یحی

ڈارون کا نظریۂ ارتقاء - ایک دھوکہ ایک فریب

ڈارون کا نظریہ ارتقاء - ایک دھوکہ ایک فریب
انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے. یہ نظریہ چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اور میڈیا پر بھی اکثر اس کے حق میں خبریں شائع کی جاتی ہیں جس سے بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب ہو چکے ہیں. نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کر دیا ہے. واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دو طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں. ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے. قرآن و احادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا، پھرا س جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے. آدم علیہ السلام کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکا اور ایسی روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی. یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں دوسرے تمام حیوانات سے بہت زیادہ عقل و شعور، قوت ارادہ و اختیار اور تکلم کی صفات پائی جاتی ہیں. اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے.