حج کے موسم میں خانہ کعبہ کا ایک منظر |
دنیا بھر کے مسلمان نماز ادا کرتے ہوئے اپنا رُخ خانہ کعبہ کی سمت کرتے ہیں۔ عمرے اور حج کے مناسک کی ادائیگی کے دوران خانہ کعبہ کے گرد (گھڑی کی سُوئیوں کے مخالف رُخ) سات چکر لگاتے ہیں۔
اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا، اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں ۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلی مرتبہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سے تعمیر کیا ہے۔
خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت بھی وہ نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوئی تھی ۔ مختلف ادوار میں نئے سِرے سے تعمیر ہوئی ۔ تاریخ کتب میں درجِ ذیل ادوار کا ذکر آتا ہے :
1- اسلام سے قبل کے زمانے میں قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرِ نو کی.
2- صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن الزبیر کے ہاتھوں اس کی تعمیرِ نو ہوئی.
3- اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں حجاج بن یوسف نے تعمیر کروایا۔
4- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں تعمیر کروائی۔ یہی خانہ کعبہ کی موجودہ عمارت ہے۔
موجودہ خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔
اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں ، ہر کونے کا ایک خاص نام ہے۔ رکن یمانی ، رُکنِ عراقی ، رکن شامی اور رکن حجرِ اسود ہیں اُس کونے میں جنّت کا مبارک پتھر حجر اسود نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حطیم ہے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔
خانہ کعبہ کے بنیادی حصوں کے نام |
خانہ کعبہ کے بنیادی حصوں کی فہرست یہ ہے :
1 - حجر اسود
2 - باب کعبہ
3 - پرنالہ
4 - بنیادیں
5 - حطیم
6 - ملتزم
7 - مقام ابراہیم
8 - رکن حجر اسود
9 - رکن یمانی
10 - رکن شامی
11 - رکن عراقی
12 - غلاف کعبہ
13 - چاروں طرف سے سنگ مرمر سے ڈھانپا ہوا حصہ
14 - مقام جبرائيل
خانہ کعبہ کی تزئین اور آرائش میں بعض دیگر امور کا اضافہ ہوا۔ ان میں خاںہ کعبہ کا غسل اور غلاف (کِسوہ) کی تبدیلی شامل ہیں جو سال میں دو مرتبہ تبدیل ہوتا ہے۔
خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں کسی منظّم طریقے کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ اس طرح شدید بھیڑ کے باعث لوگوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوجا تا۔ اس لئے اب خانہ کعبہ کا دروازہ سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے ۔ایک مرتبہ شعبان میں خانہ کعبہ کے غُسلِ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ ذوالحجہ کے مہینے میں غُسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر.
خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں کسی منظّم طریقے کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ اس طرح شدید بھیڑ کے باعث لوگوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہوجا تا۔ اس لئے اب خانہ کعبہ کا دروازہ سال میں صرف دو مرتبہ کھولا جاتا ہے ۔ایک مرتبہ شعبان میں خانہ کعبہ کے غُسلِ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ ذوالحجہ کے مہینے میں غُسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر.
غلاف کعبہ
غلاف کعبہ کی تیاری |
بیت اللہ کے تقدس کی طرح اس کے غلاف کی تاریخی اہمیت بھی مسلمہ ہے اور ظہور اسلام سے قبل دور جاہلیت میں بھی غلاف کعبہ 'کسوہ' نہایت توجہ اور انہماک کے ساتھ تیار کیا جاتا رہا ہے۔
معلوم تاریخ اور مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا غلاف یمن کے"تبع الحمیری" نامی ایک بادشاہ نے تیار کیا تھا۔
تبع الحمیری نے مکہ مکرمہ کے دورے کے بعد واپسی پر ایک موٹے کپڑے کی مدد سے غلاف کعبہ تیار کیا۔ بعد ازاں اسی بادشاہ نے "المعافیریہ" کپڑے سے غلاف تیار کیا۔ معافیریہ یمن کا ایک قصبہ تھا جہاں سوت سے کپڑے تیار کیے جاتے تھے اور اسی نام سے اس کپڑے کو 'المعافیر' یا 'المعافیریہ' کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایک نرم اور رقیق دھاگے سے غلاف کعبہ تیار کیا گیا۔
تبع بادشاہوں کے بعد دور جاہلیت کے دوسرے فرمانرواؤں نے بھی غلاف کعبہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ بعد میں آنے والوں نے چمڑے کا غلاف بھی تیار کیا۔ تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ غلاف کعبہ کی تیاری میں ہر آنے والا حکمراں دوسروں سے بڑھ کردلچسپی لیتا ۔ یوں اللہ کے گھر کے غلاف کے معاملے میں بادشاہوں میں بھی ایک مقابلے کی کیفیت تھی۔
غلاف کعبہ عہد اسلامی میں
یہ معلوم نہیں کہ فتح مکہ سے قبل عہد نبوی میں غلاف کعبہ تیار کیا گیا یا نہیں البتہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 'القباطی' نامی کپڑے سے غلاف کعبہ تیار کرایا تھا۔ یوں یہ اسلامی عہد میں پہلا غلاف کعبہ تھا۔ ایک تاریخی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے دور کا تیار کردہ غلاف کعبہ اس وقت تبدیل کیا جب ایک خاتون کے ہاتھوں غلاف کعبہ کا کچھ حصہ جل گیا تو آپ نے یمنی کپڑے سے نیا غلاف تیار کرایا تھا۔
خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد میں القباطی اور یمنی کپڑوں کے غلاف تیار کیے گئے۔ حضرت عثمان بن عفان نے نیا غلاف تیار کرنے کے بجائے بہ یک وقت دو غلاف چڑھا دیے تھے۔ ایک ہی وقت میں خانہ کعبہ کے دو غلافوں کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
دیگر خلفائے راشدین کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عہد حکومت 'پُرفتن' دور رہا اس لئے انہیں غلاف کعبہ کی تیاری کا موقع نہیں مل سکا۔ البتہ ان کے بعد آنے والے خلفاء اور سلاطین نے غلاف کعبہ کی تیاری کو اپنے فرائض منصبی ودینی میں شامل رکھا۔
آل سعود اور غلاف کعبہ
آل سعود حکمراں خاندان نے غلاف کعبہ کی تیاری اور جدت میں زیادہ توجہ دی اس حوالے سے عبدالعزیز آل سعود کا نام سب سے مشہور ہے۔
سعودی حکمراں خاندان نے نہ صرف غلاف کعبہ کی منفرد انداز میں تیاری کا بیڑا اٹھایا بلکہ اس مقصد کے لیے خصوصی بجٹ مقرر کرنے کے ساتھ سنہ 1346ھ ایک محکمہ بھی قائم کیا گیا جو غلاف کعبہ کے لیے نہایت عمدہ کپڑے کے دھاگے سے غلاف کی تیاری تک تمام مراحل کی بذات خود نگرانی کرتا ہے۔ اب ہر سال خانہ کعبہ کے غلاف کو نئے انداز اور ایک منفرد جدت کے ساتھ تیا ر کیا جاتا ہے اور خانہ خدا کی زینت بنایا جاتا ہے۔
غلاف کی تیاری کے لے کارخانے کا قیام
سعودی عرب کے موجودہ حکمراں خاندان نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے الگ سے محکمہ قائم کرنے کے بعد 1397 ھجری میں ام الجود بندرگاہ پر اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کارخانہ قائم کیا۔ اس کارخانے میں غلاف کعبہ کی جدید ترین تکنیک کے مطابق تیاری کے لیے تمام ضروری انتظامات کیے گئے۔ یوں ہر سال یہ کارخانہ بیت اللہ کا ایک نیا غلاف تیار کرتا ہے جسے پورے تزک واحتشام کے ساتھ خانہ کعبہ کی زینت بنایا جاتا ہے۔
غلاف کعبہ کی تیاری کے مختلف مراحل
ام الجود میں قائم کارخانے میں غلاف کعبہ کی تیاری کا کام سال بھر جاری رہتا ہے۔ غلاف کی تیار کے مختلف مراحل ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ان پر مختصر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
دھلائی کا مرحلہ
خانہ کعبہ کی تیاری کے لیے نہایت عمدہ "السرسین" نامی ریشم کا دھاکہ استعمال کیا جاتا ہے۔ عموما غلاف کے لیے 670 کلوگرام خاص ریشمی دھاکہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دھاگے کی تیاری کے بعد پہلا مرحلہ دھلائی کا ہے جس میں دھاگے کو اس کے منفی اثرات زائل کرنے کے لیے گرم پانی میں دھویا جاتا ہے تاکہ دھاکے کی تیاری میں استعمال ہونے والی کیمیائی اثرات ختم ہو سکیں۔ دھاگے کو ہر قسم کے مضر اثرات سے سو فیصد پاک کرنے کے بعد غلاف کے بیرونی حصے کے دھاگے پر سیاہ اور اندرونی حصے پر سبز رنگ کیا جاتا ہےجسے اصطلاح میں "الستارہ" بھی کہا جاتا ہے۔
شعبہ لیبارٹری
لیبارٹری کے شعبے میں غلاف کعبہ کی تیاری میں استعمال ہونے والے ریشمی اور سوتی دھاگے کی کوالٹی اور معیار کو چیک کیا جاتا ہے۔ غلاف کے کپڑے کی تیاری شروع کرنے سے قبل اسی تجربہ گاہ میں دھاگے سے نمونے کے کپڑے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ اس کی عمدگی اور معیار میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
دستی اور مشینی سلائی کا مرحلہ
مرور زمانہ کے ساتھ غلاف کعبہ میں جدت کے ساتھ اس کی تیاری کے طریقہ کار میں بھی جدت آتی گئی۔ چند برسوں قبل تک غلاف کعبہ کی تیاری کا تمام کام ہاتھ سے کیا جاتا تھا۔ غلاف کی سلائی کڑھائی،آیات قرآنی کی لکھائی سمیت تمام سوئی یا دستی آلات کی مدد سے طے کئے جاتے تھے۔ یہ یقیناً مشکل اور صبر آزما کام تھا اور اس طرح خانہ کعبہ کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوتا تھا۔ آل سعود کے ابتدائی دور میں بھی دستی آلات کی مدد سے غلاف تیار کیا جاتا رہا ہے لیکن اب اس کی جگہ جدید مشینیوں نے لے لی ہے۔
اب غلاف کعبہ کے اندرونی اور بیرونی دونوں حصوں کی تیاری کے ساتھ ساتھ ان پر ہونے والی کشیدہ کاری، لکھائی اور سلائی کے لیے "جاکارڈ" نامی ایک سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ اب مشینوں سے غٍلاف کعبہ کی تیاری میں استعمال ہونے والی دھاگوں کی تعداد تک معلوم کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک میٹر غلاف کعبہ میں986۔ 9 دھاگے استعمال ہوتے ہیں۔
طباعت کا مرحلہ
غلاف کعبہ کی تیاری میں طباعت کا مرحلہ اہم ترین سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ آسان ہونے کے ساتھ نہایت نازک بھی ہوتا ہے کیونکہ اس میں دھاگوں کی مدد سے آیات قرآنی کپڑے پر منقش کرنا ہوتی ہیں۔ آیات کی طباعت کے مرحلے کے لیے غلاف کے ساد کپڑے کو دو اطراف سے مضبوط لکڑیوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس پر پہلے عام ریشم اور پھر ریشمی کپڑا چڑھایا جاتا ہے۔ اس کپڑے پر منقش آیات کی پٹیاں چسپاں کی جاتی ہیں۔ مشین کے ذریعے پرنٹنگ کے مرحلے کے بعد سفید اور زرد دھاگوں سے اس پر کشیدہ کاری کرتے ہیں۔
کڑھائی کا مرحلہ
غلاف کعبہ کی تیاری میں طباعت کی طرح اس پر آیات کی کشیدہ کاری اور کڑھائی کا کام بھی نہایت حساس سمجھا جاتا ہے۔ کڑھائی کے لیے مختلف کثافتوں کے سوتی دھاگے لیے جاتے ہیں اور سوتی اور ریشمی دھاگوں کی مدد سے پہلے سے مطبوعہ آیات یا نقوش سے کشیدہ کاری کی جاتی ہے۔ کشیدہ کاری کے لیے سوتی، ریشمی دھاگوں کے علاوہ آیات کی تزئین کے لیے سونے اور چاندی کے ریشے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
کڑھائی کے کام میں خاص طور پر غلاف پر 12 شمعوں۔ غلاف کے چار کونوں پر سورہ اخلاص منقش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ غلاف پرمختلف آیات قرآنی پر مشتمل 16 پٹیاں الگ سے جوڑی جاتی ہیں۔ ایک بڑی پٹی غلاف کعبہ کے سامنے باب کعبہ کی طرف لگائی جاتی ہے جس پر غلاف کی تیاری کے حوالے سے"مملکت سعودی عرب کی کاوش" کے عربی الفاظ لکھے جاتے ہیں۔
غلاف کعبہ کی تبدیلی |
غلاف کعبہ کی تیاری میں یہ عموما آخری اور اہم ترین مرحلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں غلاف کعبہ کے چاروں اطراف کے اجزاء کو باہم مربوط کرنے کے بعد ان کی سلائی کی جاتی ہے، جس کی تکمیل کے بعد اسے خانہ کعبہ پر چڑھا دیا جاتا ہے۔
غلاف کعبہ کے بارے میں اہم معلومات
آل سعود خاندان کے شاہ عبدالعزیز پہلے حکمراں تھے جنہوں نے سنہ 1346ھ میں غلاف کعبہ تبدیل کیا۔ انہی کے دور میں 1403 کو غلاف کعبہ کا اندرونی کپڑا تبدیل کیا گیا اور سنہ 1417ھ کو دوبارہ مکمل غلاف تبدیل کیا گیا۔
غلاف کعبہ کی تیاری میں 670 کلو گرام خالص ریشم استعمال کیا جاتا ہے۔
غلاف کعبہ کی موٹائی 98 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔
غلاف کعبہ کی اونچائی 14 میٹر ہے۔
رکنین کی جانب سے غلاف کی چوڑائی 10 اعشاریہ 78 میٹر ہوتی ہے۔
ملتزم کی جانب سے غلاف کی چوڑائی 12 اعشاریہ 25 میٹر، حجر اسود کی سمت سے 10 اعشاریہ 29 میٹر جبکہ باب ابراہیم کی جانب سے 12 اعشاریہ 74 میٹر ہوتی ہے۔
یکم ذی الحجہ کو غلاف کعبہ کی "سدنہ" یعنی متولی خاندان کو حوالے کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔
ہر سال 09 ذی الحجہ کو غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے۔
غلاف کی تیاری پر 20 ملین ریال کی لاگت آتی ہے۔
باب کعبہ کی جانب سے غلاف کے نیچے 6 اعشاریہ 32 میٹر اونچا اور تین اعشاریہ تیس میٹر چوڑا اضافہ کپڑا جوڑا جاتا ہے تاکہ غلاف کو چھونے سے بچایا جا سکے۔
اسی دوران حرمین شریفین کے امور کے سربراہ شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس نے مسجد حرام اور خانہ کعبہ کو دُھونی دینے اور خوشبو سے مہکانے کی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ پہلی مرتبہ مسجد حرام میں روزانہ 60 سے زیادہ مرتبہ دُھونی دی جا رہی ہے۔ اس کے لیے ہر ماہ 60 کلو گرام مہنگی اور قیمتی دھونی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ حجر اسود اور ملتزم کو روزانہ پانچ مرتبہ انتہائی قیمتی روغن عود سے مہکایا جا رہا ہے۔ اس کے لیے پانچ کلو سے زیادہ روغنِ عود استعمال ہوتا ہے۔
اس سال حرمین شریفین کے امور کی جنرل پریذیڈنسی نے مسجد حرام میں قرآن کریم کے دس لاکھ سے زیادہ نسخے مہیا کر دیے ہیں جو 65 زبانوں میں تراجم پر مشتمل ہیں۔ ان میں "بریل" لینگویج بھی شامل ہے جس کے 300 نسخے خصوصی الماری میں تقسیم کیے گئے ہیں۔
جنرل پریذیڈنسی نے مناسک، روزے کے احکام، اذکار، دعاؤں اور خواتین کے مسائل سے متعلق 269310 کتابچے بھی بطور ہدیہ پیش کیے ہیں۔ علاوہ ازیں حرم شریف میں مردوں اور خواتین کے شعبوں میں 7034 زائرین نے تلاوت کی تصحیح اور حفظ کے حلقوں سے استفادہ کیا۔
مزید برآں "حرمین قاری پورٹل پروگرام" کے تحت مردوں کے لیے 25 قاری اور خواتین کے لیے 9 قاریات کے ذریعے دنیا بھر میں خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں 1437 ہجری میں 75 ہزار، 1438 ہجری میں 92 ہزار اور رواں برس یعنی 1439 ہجری کے پہلے چھ ماہ کے دوران 52 ہزار افراد استفادہ کر چکے ہیں۔
حرمین قاری پورٹل پروگرام کو دنیا بھر میں 179 ممالک کے 34 ہزار صارف استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے قیام کے بعد سے اب تک دنیا بھر میں 230 طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ یہ پورٹل مختلف قرأتوں ، حفظ ، دُہرائی ، تلاوت بہتر بنانے اور نورانی قاعدے کے حوالے سے پروگرام پیش کرتا ہے۔