دنیا کی سیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
دنیا کی سیر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

’میں 17 سال تک خاموش کیوں رہا‘

جب امریکی شہری جان فرانسس ایک نوجوان ہپی ہوا کرتے تھے تو اس وقت انھوں نے اپنی زندگی بدلنے والا ایک فیصلہ کیا: یہ فیصلہ تھا بولنا ترک کرنے کا۔ وہ 17 سال تک خاموش رہے اور بالآخر انھیں ایک دن احساس ہوا کہ انھیں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔
جان فرا نسس ۔۔۔۔ تب اور اب!
یہ سب ایک حادثے سے شروع ہوا۔ سنہ 1971 میں دو آئل ٹینکر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور پانچ لاکھ گیلن سے زیادہ خام تیل کے بہنے سے سان فرانسسکو خلیج آلودہ ہو گئی۔

’میں نے اس کے بارے میں سنا اور اسے دیکھنا چاہتا تھا، لہٰذا میں اپنے چھوٹے سے قصبے انورنیس سے سان فرانسسکو چلا گیا۔ میں نے ساحل سمندر پر لوگوں کو چھوٹے گروپوں میں صفائی کرتے دیکھا۔ وہ پانی میں اترتے تھے اور تیل میں لپٹے ہوئے سمندری پرندوں، پیلیکن (ماہی خور)، بگلے اور کارمورینٹس کے ساتھ باہر آتے تھے۔‘

پرندوں اور لوگوں کو ان کی جان بچاتے دیکھ کر انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں بھی کچھ کرنا چاہیے۔میں نے سوچا کہ میں اب کار نہیں چلاؤں گا۔ میں یقینی طور پر تھوڑا بہت ہپی تھا، اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہی کروں گا۔‘

یاد رہے کہ یہ 1970 کی دہائی کا کیلیفورنیا تھا۔ ہر کوئی ہر جگہ گاڑی چلاتا تھا، اس لیے موٹر والی گاڑیوں کو یکسر ترک کرنا ایک جرات مندانہ اقدام تھا۔

خلافت : تاریخ کے آئینہ میں

مختلف ادوار میں مسلم فتوحات 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو دنیائے اسلام میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ آپ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا تھے اور دنیاوی امور میں بھی ان کی رہنمائی فرماتے تھے۔ افواج کی سپہ سالاری، بیت المال کی نگرانی اور نظم و نسق کے جملہ فیصلے آنحضرت کی مرضی اور ہدایت کے بموجب ہوتے تھے۔

خلافت راشدہ

آنحضرت کی وفات کے بعد اس اسلامی مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے جانشین مقرر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا اسے خلافت کہتے ہیں۔ پہلے چار خلفاء ’’ حضرت ابوبکر رض، حضرت عمر رض، حضرت عثمان رض، حضرت علی رض‘‘ کے عہد کو خلافت راشدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں   نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی اور مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی بھی احسن طریقے سے کی۔ اور ہر طرح سے یہ خلفاء اللہ تعالیٰ کے بعد اہل اسلام کے سامنے جوابدہ تھے۔ اور ان کا چناؤ موروثی نہیں تھا بلکہ وصیت/اکابر اصحابہ رض کی مشاورت سے ان کا انتخاب کیا جاتا رہا۔

جس نے ماسکو فتح کرلیا - جاوید چوہدری

دیگر ممالک کے ساتھ  روس کی سرحدیں 
روس بیک وقت حیران کن اور دل چسپ ملک ہے‘یہ دنیا کے 11 فیصد رقبے پر محیط ہے‘ گیارہ ٹائم زون ہیں‘ ملک کے اندر 9گھنٹے کی فلائٹس بھی چلتی ہیں‘ سرحد گیارہ ملکوں سے ملتی ہے‘ یہ جنوب میں جاپان‘ چین‘ شمالی کوریا اور منگولیا سے ملتا ہے۔

درمیان میں سینٹرل ایشیا کے ملکوں قزاقستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان‘ ترکمانستان‘ آذر بائیجان‘ جارجیا اور آرمینیا‘ یورپ کی سائیڈ سے یوکرائن‘ رومانیہ‘ بلغاریہ‘ بیلاروس‘ لتھونیا‘ لٹویا اور اسٹونیا‘ قطب شمالی کی طرف سے فن لینڈ اور ناروے اور یہ دنیا کے آخری سرے سے الاسکا کے ذریعے امریکا سے بھی جڑا ہوا ہے۔

روس کی تین سرحدیں انتہائی دل چسپ ہیں‘ یہ سینٹ پیٹرز برگ سے فن لینڈ سے ملتا ہے‘ پیٹر برگ سے ٹرین یا فیری کے ذریعے فن لینڈ جانا ایک رومانوی تجربہ ہے‘ ناروے کے علاقے سورورینجر (Sor-Varanger)اور روس کے شہر پیچنگ سکی (Pechangsky)کے درمیان دس منٹ کا فاصلہ ہے‘ لوگ یہ فاصلہ پیدل عبور نہیں کر سکتے چناں چہ یہ روسی علاقے سے سائیکلیں لیتے ہیں‘ سائیکل پر ناروے میں داخل ہوتے ہیں اور پھر سائیکل سرحد پر پھینک کر آگے روانہ ہو جاتے ہیں‘ سورورینجرشہر دنیا میں بے کار سائیکلوں کا قبرستان بن چکا ہے‘ شہر میں سائیکلوں کے ڈھیر کی وجہ معیار ہے۔