محمد رسول اللہ ﷺ کی 9 تلواریں اور ان کی تصاویر - ابو البشر احمد طیب

العضب سيف النبي ﷺ
ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ ہماری بہادر فوج نے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے لئے جو  نام منتخب  کیا وہ  ’’ضرب عضب‘‘ تھا، اس  فوجی کارروائی  کے بارے میں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے میڈیا میں زبردست تجسس پیدا ہوا تھا  ۔ لوگ یہ جاننا چاہتے تھے  کہ آخر اس فوجی کارروائی کو ضرب عضب کا نام کیوں دیا گیا تھا ؟ 

دراصل " العضب " ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک صحابی سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا کئی ۔


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہتھیاروں سے لیس رہنے کا درس دیا ہے تاکہ دنیا میں  مظلوموں، کمزوروں، بے بسوں و بے کسوں کو ظالموں کے جبر و استبداد ان کے ظلم و بربریت سے محفوظ رکھا جائے ۔ انسانیت کی بقاء کو یقینی بنایاجا سکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل 9 تلواریں تھیں اور آج بھی وہ تلواریں پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہیں۔ ان 9 تلواروں :  ذوالفقار، البتار، الماثور، الرسوب، المخذم، حتف،قلعی، القضیب اور العضب  ہیں۔ درج ذیل میں ہم ان کا تعارف پیش کریں گے ۔ 
  
 دنیا کو ان مقدس و متبرک تلواروں سے واقف کروانے میں محمد بن حسن محمد التہامی کا سب سے اہم کردار ہے ۔  انہوں نے 1929ء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلواروں اور جنگی ساز و سامان (آلات حربی) کے بارے میں ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا تھا، جس کے لئے انہوں نے  ان تلواروں کی تصویریں لی ۔ ان 9 تلواروں میں سے 8 تلواریں  استنبول میں توپ کاپی میوزیم میں آج تک  موجود ہیں جبکہ ایک تلوار مصر کی مسجد الحسین بن علی میں ہے۔ ان تلواروں کی لمبائی 90 تا 140 سنٹی میٹر بتائی گئی ہے۔

العضب:

 العضب کے معنی تیز چلنے والی اور تیز دھار تلوار ہے ، یہ سعد بن عبادہ الانصاریؓ نے غزوۂ احد سے قبل بطور ہدیہ پیش کی تھی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غزوۂ احد میں حضرت ابو دجانہ الانصاری ؓ کو لڑنے کے لئے عطا فرمائی۔   ایک دوسری روایت کے مطابق یہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجی تھی اور پھر آپ نے اسے غزہ احد میں استعمال کیا۔ یہ  تلوار فی الوقت مصر کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی میں محفوظ ہے۔ 

 الذو الفقار، سیف النبی ﷺ 


الذوالفقار :


الذوالفقار تلوار کے نام کے ساتھ ہی داماد رسول حضرت علی ؓ ابن ابی طالب کا اسم مبارک زبان پر آ جاتا ہے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ الذوالفقار تلوار دو دھاری ہونے اور اس پر دو نوک والے نقش و نگار کے باعث خاص شہرت رکھتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کے استعمال میں رہنے کے باعث تاقیامت اس کی شہرت کو چار چاند لگ گئے ہیں۔ 

روایت کے مطابق الذوالفقار جنگ بدر میں مال غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی اور بعد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے چچازاد بھائی اور داماد حضرت علیؓ کو عطا فرمایا ۔ روایتوں میں یہ بھی  ہے کہ الذوالفقار آل رسول ؐ میں کئی نسلوں تک رہی۔ حضرت علیؓ نے جنگ احد میں اسی تلوار سے کفار کے پیر اکھاڑ دیئے تھے۔ اب یہ تلوار استنبول میں واقع توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہے اور دنیا بھر سے آنے والے سیاح بالخصوص مسلماناس تلوار کی زیارت کرتے  ہیں۔
البتار ، سيف النبي ﷺ

البتار:


 حضور اکرم ؐ کی تلواروں میں سے ایک البتار تلوار  ہے اور اس کے بارے میں مسلمان کے ساتھ ساتھ یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی بہت دلچسپی ہے۔ البتار دراصل السیف القاطع یعنی کاٹ دینے والی تلوار کے نال سے مشہور ہے۔ ایک روایت میں  آیا ہے کہ البتار تلوار اصل میں جالوت کی تھی ، جس سے حضرت داؤد ؑ نے اس کا سرقلم کیا تھا۔ اس تلوار پر ایک تصویر بھی ہے جس میں حضرت داؤد ؑ کو جالوت کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔  البتار سیف الانبیاء یعنی انبیاء کی تلوار کے نام سے  بھی مشہور ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پر حضرت داؤد، ؑ حضرت سلمان ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ،حضرت ہارون ؑ ، حضرت یسع ؑ، حضرت ذکریا ؑ ، حضرت یحییٰ ؑ،حضرت عیسیٰ ؑ، اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارکہ کندہ ہیں۔ البتار تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ اسی تلوار سے حضرت عیسیٰ ؑ دجال کا مقابلہ کریں گے۔ اس تلوار پر ایک ایسا نشان بھی ہے جو اردن کے شہر البتراء کے قدیم باشندے اپنی ملکیت کے اشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ یہ 101 سنٹی میٹر لمبی ہے ،  البتار تلوار مسلمانوں کو پثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی تھی ۔ یہ تلوار بھی استنبول کے توپ کاجی میوزیم میں موجود ہے۔
الماثور ، سيف النبي صلى الله عليه و سلم 

 الماثور: 


اب چلتے ہیں الماثور تلوار کی طرف یہ تلوار ماثور الفجر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس تلوار کی خاص بات یہ ہے کہ یہ حضور اکرم ؐ کو اپنے اباجان حضرت عبداللہ سے وراثت میں ملی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کئے اس وقت الماثور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی بعد میں دیگر سامان حربی کے ساتھ یہ تلوار بھی حضرت نبی کریم ؐ نے حضرت علیؓ کو منتقل کردی۔ الماثور کا دستہ سونے کا ہے اور اطراف سے مڑا ہوا بھی ہے۔ اس دستے پر زمرد اور فیروز جڑے ہوئے ہیں۔ 99 سنٹی میٹر بھی الماثور پر عبداللہ بن عبدالمطلب کندہ ہے۔

الرسوب ، سيف النبي صلى الله عليه و سلم 

 الرسوب :


 حضور ؐ کے 9 تلواروں میں سے ایک تلوار الرسوب بھی ہے اس کے معنی اندر گھس جانے والی تلوار کے ہیں یہ سب سے لمبی تلوار ہے جس کی لمبائی 140 سنٹی میٹر ہے اور نسل درنسل آپ ؐ تک پہنچی۔ اس تلوارپر سنہرے دائرے بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ میان پر بھی سنہرے دائرے پائے جاتے ہیں۔  تلوار پر جو سنہرے دائرے بنے ہوئے ہیں ان پر حضرت امام جعفر صادق ؓ کا اسم پاک کندہ ہے۔ اسے بھی آپ ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں دیکھ سکتے ہیں۔ 

 المخذم:

المخذم ، سيف النبي صلى الله عليه و سلم 
ایک اور تلوار المخذم ہے اس کے معنی بھی کاٹ دینے والی ہے۔ المخذم تلوار کے بارے میں دو روایات ہیں ایک روایت یہ ہے کہ حضور اکرم ؐ نے یہ تلوار حضرت علی ؓ کو خود عنایت فرمائی تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ شامیوں کے ساتھ مصر میں حضرت علی ؓ کو یہ مال غنیمت کے طور پر ملی تھی۔ 97 سنٹی میٹر لمبائی کی حامل اس تلوار پر حضرت امام زین العابدین کا نام کندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ المخذم تلوار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی ؓ اور پھر آپ کے فرزندان تک منتقل ہوتی رہی۔ اس تلوار کا مشاہدہ بھی استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں کیا جاسکتا ہے۔ 
الحتف ، سيف النبي صلي الله عليه و سلم 

الحتف:

آپ کو بتادیں کہ پاکستان اپنے میزائلوں کے نام حتف I حتف II وغیرہ رکھتاہے۔ حتف بھی دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تلوار کا نام ہے۔ الحتف کے معنی مارنا ہے۔ اسے حتف السیف یعنی مار دینے والی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس بنی اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل چلی آرہی تھی۔ یہ تلوار بھی ہمارے نبی ؐ کو یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ہوئی۔ یہ بھی کہاگیا  ہے کہ حتف کو حضرت داود ؑ نے خود تیار کیا تھا کیونکہ اللہ عزوجل نے انہیں فولادی سازو سامان اور ہتھیار بنانے میں غیر معمولی مہارت عطاکی تھی۔ اگرچہ یہ تلوار البتار کی طرح ہے لیکن حجم میں بڑی ہے اس کی لمبائی 112 سنٹی میٹر اور چوڑائی8 سنٹی میٹر ہے۔ 
القلعي ، سيف النبي صلي الله عليه و سلم 

القلعی:

اس کے نام سے ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق شام ہندوستان یا چین کے کسی سرحدی علاقہ سے ہو۔ 100 سنٹی میٹر لمبی یہ تلوار بھی  استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے ۔ یہ  بھی یہودیوں کے قبیلے بنو قینقاع سے مال غنیمت میں حاصل ملی تھی ۔ اکثر محققین، اس تلوار کے نام کے بارے میں کہتے ہیں کہ قلعی ایک قسم کی دھات ہے جو دیگر دھاتی اشیاء کو چمکانے یاان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب نے مکہ مکرمہ میں جب چاہ زم زم کود وایا تھا یہ تلوار وہاں دستیاب ہوئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قلعی تلوار کو وہاں نبی اسماعیل کے سسرالی قبیلہ نے دفن کیا تھا۔ اس تلوار پر عربی میں یہ تحریر کنندہ ہے ’’یہ اللہ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کی تلوار ہے‘‘ یہ  دوسرے تلواروں سے بالکل جدا گانہ ہے۔ 
القضيب ، سيف النبي صلي الله عليه و سلم 

القضیب:

 عربی میں اس کے معنی کٹی ہوئی شاخ یا بناء سدھائی ہوئی اونٹنی کے ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بہت پتلی اور کم چوڑائی والی ہے۔ کہاجاتا ہےکہ یہ  کسی غزوہ میں استعمال نہیں ہوئی۔ اس تلوار پر چاندی سے ’’لاالہٰ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘، لکھا ہوا ہے۔ یہ تلوار ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں موجود رہی ۔  بعض روایتوں میں ہے کہ اسے فاطمیوں کے دور میں استعمال کیا گیا۔ یہ تلوار بھی استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے۔ 

آخر میں یہ ذکر لازمی ہے کہ آپ ؐ نے اپنے پاس جو بھی ہتھیار رکھا اس سے مسلم حکمرانوں کو یہ پیام ملتا ہے کہ اپنے دفاعی ذخائر کو ہمیشہ جدید اسلحہ سے لیس رکھنا چاہئے کیونکہ جس کے پاس عصری ٹکنالوجی اورجدید اسلحہ ہوں گے اس سے ایک طرف دنیا کی طاغوتی طاقتیں خائف رہیں گی۔  اور ساتھ ہی اس طرح اللہ کے حکم  کی تعمیل بھی ہوگی . 

ارشاد باری تعالی ہے : 

وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ  وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ " (الأنفال : 60 ) 

ترجمہ : " اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد رہو کہ اس سے خدا کے دشمنوں اور تمہارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ہیبت بیٹھی رہے گی " (ترجمہ حافظ جالندھری ؒ )


--------------------
یہ بھی پڑھیں !

عید میلاد النبی، ایک غلطی کی نشاندہی۔۔۔۔۔!!


سیرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ

غزوہ ٔ احزاب (جنگ خندق)


تعلیماتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسیاتی پہلو ـ شفاقت علی شیخ

معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات ۔ مفتی منیب الرحمن

سیرت کے مصادر و مآخذ

سید ابوالاعلٰی مودودی ؒ کا ایک نادر خطاب (مکہ مکرمہ میں حج کے دوران)

میں اور میرے رسولﷺ

اسلام کے بین الاقوامی سفیر ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

حقوقِ انسانی: سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

منشورانسانیت : نبی اکرم ﷺکا خطبۂ حجۃ الوداع ، مولانا زاہد الراشدی

مولانا مودودی کا تصور حدیث و سنت

توہین رسالت کا مسئلہ

توہین رسالت کی سزا

صحابہ کرام کی ہجرت حبشہ کا واقعہ

روضۂ نبویؐ پرسید ابوالاعلی مودودی ؒ 

بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے بدھ مت کے اثرات اور تغیرات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ایران کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے یہویوں اور عیسائیوں کی باہم منافرت - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے رومی سلطنت کے سیاسی اور معاشرتی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے ہندوستان کے حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ("")

دین مسیحیت چھٹی صدی عیسوی میں - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  (1) 

قرآن اور حدیث کا باہمی تعلق اور تدوین حدیث -  مولانا سید سلیمان ندویؒ 

بعثت محمد ﷺ سے پہلے دنیا کے مذھبی اور سیاسی حالات - مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ 

عہد رسالت میں مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل

رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں - ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی 

محمد عربی کی نبوت - جاوید احمد غامدی 

اور آپ ﷺ ہنس پڑے !! (قسط دوم )