مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیا کو کیسے بدلا ؟

مصالحوں کے چٹخاروں نے قدیم دنیاکو کیسے بدلا ؟ 
(تاریخ اشاعت : 23 مئی 2020 ، بی بی سی اردو ) 
اس دنیا کی مصالحوں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک نے تجارت کے وہ راستے کھولے جو آج پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس تجارت نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور اس کے اثرات عالمی معیشت پر بھی پڑے۔

تقریباً 2500 سال قبل عرب تاجر ایک خطرناک دارچینی پرندے کی کہانی سناتے تھے جسے سنامولوگس بھی کہا جاتا تھا۔

یہ پرندہ دارچینی کی نازک ڈنڈیوں سے اپنا گھونسلہ بناتا تھا۔ اس سے دارچینی کی ڈنڈیاں حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ تاجر اس کے سامنے گوشت کے بڑے پارچے ڈالتے تھے، چڑیاں یہ ٹکڑے اٹھا کر اپنے گھونسلے میں لے جاتیں اور ان کے وزن سے گھونسلہ ٹوٹ کر نیچے گر جاتا تھا اور چالاک تاجر گھونسلے سے گری دارچینی اٹھ کر بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔


یہ کہانی بہت دلچسپ ہے لیکن یہ چڑیا صرف افسانوی تھی۔ حقیقت میں ایسی کوئی چڑیا نہیں تھی۔ اس کہانی کو بنانے کے پیچھے یہ وجہ تھی کہ تاجر اپنے حریفوں کو مصالحوں کو حاصل کرنے کا صحیح راستہ نہیں بتانا چاہتے تھے اور بہت عرصے تک عرب تاجر قدیم لبنانی اور رومن تاجروں کو ایسے ہی بیوقوف بناتے رہے۔

بظاہر ایسا لگ سکتا ہے کہ کھانے میں پڑنے والی ایک چھوٹی سے شے یا پھر ہوا میں خوشبو پھیلانے والی ایک چيز اتنی قیمتی کیسے ہو سکتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے اتنا سخت مقابلہ ہو اور جسے راز میں رکھنے کے لیے اس طرح کی افسانوی کہانیاں گھڑی جائیں۔لیکن رومن دور اور قرونِ وسطیٰ میں پوری دنیا میں مصالحوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس سے یورپ سے لے کر انڈیا تک کی معیشتیں متاثر ہوئیں۔

مصالحوں کے مطالبے میں اضافے نے پہلی بار تجارت کے نئے عالمی راستوں کو شکل دی اور عالمی معیشت کے بعض ایسے ڈھانچے تیار ہوئے جو آج بھی زیر استعمال ہیں۔ مصالحوں پر جن کا قبضہ تھا ان میں دنیا کی دولت کے بہاؤ کے رخ کو اپنی جانب موڑنے کی طاقت تھی۔

لیکن دارچینی کے اصل وسائل کو بہت دن تک چھپائے رکھنا آسان نہیں تھا۔ سنہ 1498 میں پرتگال سے تعلق رکھنے والے واسکو ڈی گاما نے افریقہ کے جنوب سے ہوتے ہوئے یورپ کے راستے انڈیا کا پہلا سمندری راستہ طے کیا ۔ اس سفر کا مقصد ان مقامات کے براہ راست راستوں کا پتہ لگانا تھا جہاں مصالحوں کی بےپناہ دولت موجود تھی تاکہ مصالحوں کے حصول میں کسی آڑھتی پر انحصار نہ کرنا پڑے۔

انڈیا کے جنوب میں واقع مالابار ساحل پر واسکو ڈی گاما کی آمد نے یورپ اور شمالی مشرقی ایشیا کے درمیان مصالحوں کی براہ راست تجارت کی بنیاد ڈالی۔ مالابار کے علاقے کو مصالحوں کی تجارت کا گڑھ مانا جاتا تھا۔واسکو ڈی گاما اور ان کے ملک کا انڈیا تک پہنچنا عرب تاجروں کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا اور ان کے لیے ایک بہت بڑا مالی نقصان بھی۔ واسکو ڈی گاما نے یورپ اور انڈیا کے درمیان مصالحوں کے نئے راستوں کو قائم کرنے اور ان کا دفاع کرنے کے لیے اپنے سمندری سفر کے دوران عرب تاجروں پر پرتشدد حملے بھی کیے۔

یونیورسٹی آف لیسٹر میں پروفیسر امیریتس مریکا وان ڈیر ویر کا کہنا ہے کہ دنیا کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں مصالحوں کے آمدورفت نے زمینی اور سمندری راستوں میں بڑے پیمانے پر بہتر اور کارآمد بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے کی ضرورت کو جنم دیا۔ یہ کام رومن دور میں شروع ہوا تھا جو قرونِ وسطیٰ میں بھی جاری رہا۔

ان کا مزید کہنا تھا 'یہ ایک طرح سے گلوبلائزیشن کی شروعات تھی۔ ہمیں اس کے قرونِ وسطیٰ دور میں نمایاں شواہد نظر آتے ہیں۔‘

اس کا اثر یہ ہوا کہ یورپ میں لوگوں کے کھانے کا مزا تھوڑا چٹخارے دار ہو گیا لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ مصالحے دولت مند اور طاقتور کہلانے کا نیا طریقہ بن گئے۔

پروفیسر وان ڈیر کا کہنا ہے کہ اس کا یورپ کی سماجی، جذباتی اور معاشی زندگی پر اہم اثر ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مصالحوں نے ملک کے متوسط طبقے کو اپنی دولت دکھانے کا موقع فراہم کیا اور اس سے یہ تاثر بھی پیدا کیا گیا کہ مصالحوں پر قبضہ دوسرے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے‘۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مصالحوں کی بھوک صرف اس کے ذائقے کی وجہ سے نہیں رہی۔ حالانکہ ایشیا میں جب سے انسانی زندگی کے آثار ملے ہیں تب سے وہاں لوگ مصالحوں کا استعمال کرتے ہیں لیکن یورپ میں یہ دولت اور عالی سماجی معیار کی نئی علامت بن گئے‘۔امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے پروفیسر پال فریڈمین کا کہنا ہے کہ ’ان معمولی سی اشیا کے حصول کے تباہ کن نتائج ہوئے۔ معمولی اس لیے کہ یہ مصالحے غذائیت کے لیے اہم نہیں ہیں۔ تاریخ میں مصالحے پہلی ایسی شے یا سامان تھے جس کے ڈرامائی اور غیرمتوقع نتائج مرتب ہوئے‘۔

ان نتائج میں کولمبس کا مصالحوں کی تلاش میں اپنے سفر کے دوران غلط موڑ لے کر شمال کی جانب جانے کے بجائے مغرب کی طرف جاکر امریکہ پہنچنےکے بعد نئی دنیا یا نیو ورلڈ کا کولونائزیشن ہونا شامل ہے۔

ابتدا میں مصالحوں کے لیے جو پریشان کن کوششیں ہوئیں اس کے برعکس کے موجودہ دور مصالحوں کی تجارت کا وجود ناقابل شناخت ہے۔ آج کے دور میں مصالحوں تک سب کو رسائی حاصل ہے وہ ہر بازار، ہر دکان اور ہر ریستوران میں دستیاب ہیں۔ ایک وقت تھا جب واسکو ڈی گاما کے سمندری سفر میں مہنیوں لگے تھے اور آج چند گھنٹوں میں مصالحے دنیا کے ایک حصے سے دوسرے میں لائے جا سکتے ہیں۔

لیکن صدیوں سے کچھ باتیں ہیں جو نہیں بدلیں اور ان میں مصالحوں کی تجارت کا دل کہے جانے والا ملک بھی شامل ہے اور وہ ہے انڈیا۔

انڈیا کی مصالحے پیدا کرنے والے ملک کی تاریخ کا سب سے اہم دارومدار اس کے ماحول یا موسم پر رہا ہے جو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں مختلف ہے اور مختلف اقسام کے مصالحوں کی پیداوار کے لیے بےحد سازگار ہے۔ مثال کے طور پر ہلدی- دنیا میں دن بہ دن اہمیت اختیار کرتا یہ مصالحہ انڈیا کے تیز بارش اور حبس والے گرم موسم میں بہترین طریقے سے اگتا ہے۔ وہیں زیرے کے لیے خشک اور ٹھنڈا موسم بےحد سازگار ہوتا ہے۔

انڈیا میں مصالحوں کے متعدد کھیت ایسے ہیں جن کا رقبہ مختصر ہے اور لوگوں کے ذاتی کھیت ہیں لیکن بازار میں مصالحوں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کاشتکاروں کی آمدنی کو متاثر کرتا ہے۔

نوٹنگھم یونیورسٹی بزنس سکول میں عالمی خوراک کی محقق اینا ٹوبولک کہتی ہیں ’مصالحوں کی صنعت پر سب سے بڑے دباؤ میں سے ایک اہم دباؤ ماحولیاتی تبدیلی کا ہے۔ مثال کے طور پر دن بہ دن زیادہ سے زیادہ سخت موسم، سیلاب، سمندری طوفان اور دنیا کے مختلف حصوں میں خشک سالی‘۔

ان کا مزید کہنا تھا، ’اس سے دیہی علاقوں میں مصالحوں کی کاشت متاثر ہو گی جسے اس بات کا تعین ہوگا کہ بازار میں مصالحوں کی کتنی رسد ممکن ہو گی اور پھر اس سے مصالحوں کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا‘۔جس طرح کی مشکلات کا سامنا مصالحوں کی کاشت کرنے والے کسانوں کو ہے اس طرح کے چیلینجز کا سامنا دیگر کسانوں کو بھی ہے۔ نائٹروجن کھاد کے بےحد استعمال، پانی کی کمی اور پولن پیدا کرنے والے کیڑوں کا فقدان ان میں اہم ہے اور اگر اس کے ساتھ مصالحوں کی مہنگی کاشت کو بھی جوڑ لیا جائے تو کل ملا کر مصالحوں کی رسد پر منفی اثر پڑے گا۔

اس کی ایک مثال انڈیا کے باہر مڈغاسکر میں ونیلا کی ہے۔ قدرتی ونیلا دنیا کے مہنگے ترین مصالحوں میں سے ایک ہے۔ 2018 کے موسم گرما میں بہترین معیار کے مکمل طور پر پکے ہوئے ونیلا کی قیمت نے چاندی کی قیمت کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور ایک کلو ونیلا کی قیمت 600 ڈالر فی کلو تھی۔

2017 میں دنیا میں سب سے زیادہ ونیلا پیدا کرنے والے ملک مڈغاسکر میں طوفان آیا تھا جس سے ونیلا کی کاشت بری طرح متاثر ہوئی تھی اور ونیلا کی قیمت مزید بڑھ گئی تھی۔

اینا ٹوبولک کے مطابق ’ونیلا کی قیمتوں میں اس لیے اضافہ ہوا کیونکہ اس کی طلب بہت زیادہ ہے اور مڈغاسکر میں موسمیاتی تبدیلی اور موسموں کی شدت کی وجہ سے یہ نایاب ہوتا جا رہا ہے۔

اینا ٹوبولک کا مزید کہنا تھا ’بہت سے کسان ونیلا کی کاشت کر رہے ہیں اور روزی روٹی کما رہے ہیں لیکن کاشت کاری کے لیے آپ کو جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ونیلا کی کاشت کرنے کے لیے کہیں سے تو زمین کا انتظام کرنا پڑے گا‘۔

ان کے مطابق نتیجہ یہ ہے کہ ’مڈغاسکر میں خوبصورت جنگلات جن میں مختلف طرح کے ایکو سسٹم یا قدرتی وسائل اور حیوانوں کے گھر، اب ہم ان کو کٹتے ہوئے دیکھ رہے ہیں‘۔

جنگلات کی کٹائی سے یہاں رہنے والے عام جانور اور نایاب ہوتے جانوروں کو تو خطرہ ہے ہی لیکن اسے ونیلا کی پیداوار بھی متاثر ہورہی ہے کیونکہ مڈغاسکر کے جنگلات ونیلا کے پودوں کو پھلنے پھولنے کے لیے صحیح مقدار میں درکار بارش اور حبس کی فراہمی میں بھی مددگار ہیں۔

اینا کا کہنا ہے کہ مڈغاسکر کے نازک ماحولیاتی نظام سے چھیڑ چھاڑ وہاں ونیلا کے لیے بےحد سازگار موسمی حالات میں مداخلت کے برابر ہے۔مصالحوں کی طلب کم ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ بعض صنعتی ادارے مصالحوں کا استعمال کھانوں کے علاوہ دیگر چيزوں کے لیے کر رہے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکہ میں مصالحوں کے روایتی استعمال کے برعکس اس کے استعمال کا انداز اور طریقہ بدل رہا ہے۔

اینا ٹوبولک کا کہنا ہے کہ ’مغرب میں صحت مند کھانے اور صحت مند طرز زندگی میں بے حد دلچسپی بڑھ رہی ہے اور برطانیہ جیسے ملک میں صحت کے لیے مصالحوں کے فوائد پیش نظر ان کا استعمال بڑھ رہا ہے‘۔

ہلدی اس کی بہترین مثال ہے۔ بعض تحقیقات میں ہلدی اور خاص طور اس میں پائے جانا والے مادے کرکیومن کے متعدد فوائد کے بارے میں دعویٰ کیا گیا حالانکہ بعض محقیقن کا کہنا ہے کہ ان فوائد کے بارے میں پرجوش ہونے کی بجائے محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ان دعوؤں کے بعد صحت سے متعلق صنعت میں ہلدی کی طلب کو بہت بڑھا دیا ہے۔

لوسی بکنگھم خوبصورتی اور صحت کے کاروبار سے منسلک ہیں اور لوسی بی نامی کمپنی چلاتی ہیں جو ہلدی سے بنی مصنوعات فروخت کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’یہ ایک بےحد مقبول شے ہے۔ لوگ زیادہ سے زیادہ اس کا کھانے میں استعمال کررہے ہیں اور گرم مشروبات میں بھی جیسے کہ دودھ میں ہلدی کے استعمال کا رواج بڑھ گیا ہے‘۔

لوسی کا کہنا ہے کہ ہلدی کی فروخت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ صرف کھانے پکانے میں اس کے استعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ صحت سے متعلق اشیا میں اس کے استعمال کی وجہ سے بھی ہوا ہے۔

ان کے مطابق لوگ بعض چھوٹی موٹی بیماری کے لیے خود سے ہلدی کا استعمال کررہے ہیں مثال کے طور پر لوگ جوڑوں کے درد کے علاج کے لیے ہلدی کا استعمال کرنے لگے ہیں۔

’وہ سوجن ختم کرنے کے لیے ہلدی استعمال کررہے ہیں۔ اس سے پہلے آپ نے اس استعمال کے بارے میں نہیں سنا ہو گا‘۔

یورپ میں ہلدی کی سالانہ فروخت میں چھ فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لوسی بکھنگم کے کاروبار میں مصالحوں کی بہت اہمیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی شناخت سے لے کر اس کی پیکیجنگ تک ان مصالحوں کی پیداوار کے اصل مقام کا پتا لگانا بےحد اہمیت کا حامل ہے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ صارفین کے رویوں میں تبدیلی مصالحوں کی صنعت کو متاثر کر رہی ہے۔

’اس سے رسد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو قدرتی کھاد سے اگائی گئی ہلدی چاہیے تو آّپ کو اس کے ذرائع بھی تلاش کرنے ہوں گے۔ اس میں ان ذرائع کی تلاش کرنا اور کسانوں کی قدرتی کھاد سے کاشت کرنے کے لیے حوصلہ افزائی شامل ہے‘۔

جب کسی چيز کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے تو مشکلات کے ساتھ ساتھ نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ مصالحوں کی تجارت کو ایک ایسے بازار میں جو کہ معیار اور پیداوار کے اصل مقام کو اہمیت دیتا ہے، مزید شفاف بنانے کے لیے نئی تکنیکوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

بیلفاسٹ کیون یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل فوڈ سکیورٹی میں محقق کرس ایلیٹ کا کہنا ہے ’کھانے پینے کی اشیا کے اعتبار سے مصالحے بےحد اہم چيز ہیں اور ان کی تجارت میں بڑا سرمایہ لگا ہوا ہے اور اس طرح کی قیمتی اشیا کی تجارت میں دھوکہ دہی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں‘۔

دھوکہ دہی مختلف طرح سے ہو سکتی ہے۔ بےایمان تاجر ان مصالحوں میں سستی اور صحت کو نقصان پہنچانے والی چيزیں ملا سکتے ہیں۔ ایسی چيزيں جو کھانے کے لیے نہیں بنی ہیں اور ان غیر معیاری چيزوں سے مصالحوں کے وزن میں 20 سے 30 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

مثال کے طور پر انڈیا میں اس حقیقت کے باوجود کے وہاں بڑی تعداد میں مصالحے پیدا ہوتے ہیں پسی ہوئی لال مرچ میں لال اینٹ کا برادہ ملانے کی بات سامنے آچکی ہے۔

اس کی دوسری مثال ہے کہ مصالحوں کے رنگوں کو بہتر رنگ دینے کے لیے ان میں فوڈ کلر ملائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ایسے رنگ ہوتے ہیں جو انسانوں کے کھانے کے لیے بنے ہی نہیں ہیں۔ ہر سال اس قسم کے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں لال مرچ اور زعفران پر ایسے رنگ چڑھائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے بےحد مضر ہیں۔

کرس ایلیٹ کا کہنا ہے کہ اس صنعت میں کس سطح کی دھوکہ دہی ہورہی ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے لیکن ان کے ادارے نے ایک بار دیکھنے میں بہت اعلیٰ معیاری اورگینو کا جائزہ لیا تو علم ہوا کہ اس کے 40 فیصد اجزا جعلی تھے۔لیکن اب اس طرح کی دھوکہ دہی کرنے والوں کا پتا لگانے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ ہر مصالحے میں ایک ’مولیکولر فنگر پرنٹ‘ ہوتا ہے جس کا انفراریڈ سپریکٹوسکوپی نامی تکنیک سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس تکنیک کی مدد سے اگر کسی مصالحے میں ملاوٹ ہے تو وہ اس فنگر پرنٹ کے جائزے سے معلوم ہو جاتی ہے۔

روایتی طور پر ایک فیکٹری یا دکان سے مصالحوں کے نمونے کرس ایلیٹ کی تجربہ گاہ جیسے اداروں میں بھیجے جاتے ہیں لیکن ان کے تجزیے کے نتائج آنے میں کم از کم دو ہفتوں کا وقت لگ سکتا ہے۔

اس کے لیے ایک حل یہ تلاش کیا جارہا ہے کہ کرس ایلیٹ اور ان کی ٹیم سمارٹ فون میں اس طرح کے سکینرز لگانے کے تجرباتی مراحل پر ہیں جو مصالحوں کے پاؤڈر پر رکھتے ہی ایک سبز رنگ کی بتی جلے گي جس سے یہ طے ہوگا کہ مصالحے اصل ہیں اور اگر سرخ بتی جلتی ہے تو سمجھو کہ مصالحوں میں ملاوٹ ہے۔

کرس ایلیٹ کا کہنا ہے کہ ’متعدد کمپنیاں اس طرح کی تکنیک میں دلچسپی کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ان کے یہاں فروخت کیے جانے والے مصالحوں میں کوئی ملاوٹ نہیں ہے۔ اگر وہ اس تکنیک کا استعمال کرتے ہیں تو وہ یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے مصالحے سائنسی طریقے سے کیے گئے تجزیے پر کھرے اترے ہیں اور اصل ہیں''۔

اینا ٹوبولک کا کہنا ہے کہ ’بہت حد تک مصالحوں کی کہانی میں گلوبلائزیشن کی تاریخ بیان ہوتی ہے۔ ابتدا میں خفیہ رکھی جانے والی مصالحوں کی عالمی تجارت سمندری اور زمینی راستوں سے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ آج کے دور میں دنیا کا شاید ہی ایسا کوئی ملک ہوگا جہاں مصالحے آسانی سے دستیاب نہ ہوں‘۔پروفیسر فریڈمین کا کہنا ہے کہ ’ایک اگر آپ مصالحے اگانے والے اور ان کو استعمال کرنے والے ممالک کو دیکھیں تو سپلائی چین ایک علامتی تجارت ہے۔ یہ ثقافتوں کے گلوبلائزیشن کی بھی علامت ہے۔ اب ہم مغرب میں مصالحوں کو عام سی چيز سمجھتے جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ اب میں یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ برطانیہ میں لوگ کالی مرچ کے بغیر رہ رہے ہوں‘۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ ثقافتی عمل اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ شروعاتی دور میں مصالحوں کی تجارت کے دوران لڑائیاں ہوئیں اور خون بہا اور ساتھ ساتھ دولت بھی آئی۔ مصالحوں کی تجارت کی ایک وراثت جس سے مکرنا ناممکن ہے وہ ہے نوآبادیات۔ ’مصالحوں کی تجارت کے اڈوں کا براہ راست پتا لگانے کے لیے شروع ہونے والا یورپی سمندری سفر آخر میں نوآبادیاتی نظام کا سبب بنا‘۔

مستقبل میں مصالحوں کی تجارت کو متعدد مشکلات کا سامنا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور اس کے مطابق مصالحوں کی پیداوار کے راستے تلاش کرنا ان میں اہم ہے اگر اس تجارت کو اپنی ڈیمانڈ کے مطابق زندہ رہنا ہے تو یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب کھانے کے علاوہ صحت کے شعبے میں بھی اس کے نت نئے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔