پاکستان کا تاریخی مطالعہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
پاکستان کا تاریخی مطالعہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خان عبد الولی خان کا خطاب ( 1970ء کے انتخابات کے موقع پر اپنی سیاسی جماعت کا منشورپیش کرتے ہوئے )


ایئرمارشل (ر) اصغر خان کا خطاب (1970 ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کر تے ہوئے )


عطاء الرحمان خان کا خطاب (1970 ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کر تے ہوئے )


قائد ملت لیاقت علی خان کا خطاب ( قائد اعظم کی برسی کے موقع پر، جہانگیر پارک کراچی)


نورالامین کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے )



نور الامین (بنگالی: নূরুল আমীন) (پیدائش: 15 جولائی 1893ء، وفات: 2 اکتوبر 1974ء) پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ ان کا تعلق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے تھا۔ ان کا دورِ وزارتِ عظمیٰ 7 دسمبر 1971ء سے 20 دسمبر 1971ء تک رہا۔ نور الامین پاکستان مسلم لیگ مشرقی پاکستان کے رہنما تھے۔ آپ بنیادی طور پر قانون دان تھے۔ مشرقی پاکستان کے حالات کا آپ کو بہت دکھ تھا اور آپ چاہتے تھے کہ پاکستان قائم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ یحییٰ خان جب ڈھاکہ کی شکست کو ابھی چھپا رہا تھا تو انہوں  نے کہا تھا کہ 'ڈھاکہ میں شکست ہو چکی ہے۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل گیا ہے اور تم عیاشیاں کر رہے ہو'[حوالہ درکار ہے]۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد نور الامین مغربی پاکستان ہی میں رہے اور 1974ء میں وفات پائی۔

مولانا احتشام الحق تھانوی ؒ کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے )



عالم دین قصبہ تھانہ بھون (یو۔ پی، بھارت ) میں پیداہوئے۔ دارلعلوم دیوبند سے دینی علوم میں سند فضیلت لی۔ 
تحریک پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔ ١٩٤٧ء میں کراچی آ گئے اور جیکب لائین میں مسجد تعمیر کرائی۔ حافظ قرآن اور خوش الحان قاری تھے۔ 
١٩٤٨ء میں ٹنڈوالہ یار (سندھ) میں دیوبند کے نمونے پر ایک دارلعلوم قائم کیا۔ مدراس (ہندوستان) میں، جہاں سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کیا۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ کمالات سے نوازا تھا۔آپ کی تلاوت اور شعر خوانی میں عجیب حسن پایا جاتا تھا کہ سامع مسحور ہوجاتا تھا۔

عبدالحمید خان بھاشانی کا خطاب (1970ء کے انتخابات سے قبل اپنی سیاسی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے )




عبد الحمید خان بھاشانی۔ برصغیر کے ممتاز سیاست دان۔ سراج گنج ضلع پٹنہ ’’بہار، بھارت‘‘ میں پیدا ہوئے۔ 12 سال کی عمر میں مشرقی بنگال کے علاوہ تانگیل میں سکونت اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد آسام منتقل ہو گئے اور جدوجہد آزادی میں سرگرم حصہ لینا شروع کیا۔ 1919ء میں تحریک خلافت میں شامل ہو گئے اور 18 ماہ قید و بند میں گزارے۔

شروع میں مولانا کی ہمدردیاں کانگرس کے ساتھ تھیں لیکن جلد ہی کانگریسی لیڈروں سے مایوس ہو گئے اور مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی پرجوش حمایت کرنے لگے۔ پاکستان کے قیام کے وقت آسام مسلم لیگ کے صدر تھے۔ انھی کی کوششوں سے آسام کے ضلع سلہٹ ’’جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی‘‘ کے مسلمانوں نے 1947ء کے ریفرنڈم میں پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔

قیام پاکستان کے بعد مولانا نے لیگی لیڈروں سے بد دل ہو کرعوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1949ء میں عوامی لیگ سے بھی علاحدہ ہو گئے اور اپنی ایک جماعت نیشنل عوامی پارٹی قائم کی۔ 1970ء میں مشرقی پاکستان کے علیحدگی پسندوں کے ساتھ مل گئے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں شیخ مجیب الرحمن کی بھرپور مدد کی۔ مشرقی پاکستان میں باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کے نتیجے میں باغیوں کا جو پہلا جتھا فرار ہو کر بھارت پہنچا اس میں بھاشانی بھی شامل تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد واپس آ گئے اور ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ اکتوبر 1976ء میں پیرانہ سالی کے سبب عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ شعلہ نفس اور سیماب طبع بزرگ تھے۔

مولانا محمد علی جوہراور مولانا شوکت علی ۔ ملا واحدی کی آواز میں (ایک نادر آڈیو)


نظریہ پاکستان کے موضوع پر ایک مذاکرہ ، شرکاء : راجہ صاحب محمودآباد، مولانا جمال میاں فرنگی محلی اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی


مولانا عبد الحمید بھاشانی ؒ کا خطاب 1970ء کے انتخابات کے موقع پر


علم تاریخ

تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔

تاريخ دان

تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذرائع معلومات کو اہميت دی گئی۔

اردو زبان میں  تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے حال و استقبال کو اپنے منشا و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔  (ڈاکٹر آفتاب اصغر، مقدمہ تاریخ مبارک شاہی۔ 21)

تاشقند معاہدے کا پس منظر ، کلدیپ نیر


حاجی پیر اور ٹٹھوال‘ دو ایسی چوکیاں تھیں جن پر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ہندوستان نے قبضہ کر لیا تھا۔ وزیراعظم لال بہادر شاستری نے پہلے ہی سے صحافیوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ان کی حکومت ان سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے تاشقند روانہ ہونے سے قبل کہی تھی جہاں وہ پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان سے گفت و شنید کے لیے جارہے تھے۔ شاستری جی نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ تاشقند جانے کے لیے بھی راضی نہیں تھے لیکن جب سوویت یونین کے وزیراعظم کو سیگن نے ان سے دوسری بار خواہش کی وہ انکار نہیں کر سکے کیونکہ روسی کشمیر کے تعلق سے ہمیشہ ہماری تائید کرتے رہے ہیں۔
شاستری جی یہ چاہتے تھے کہ صحافیوں کا ایک بڑا قافلہ ان کے ساتھ ہو کیونکہ وہ مکمل تشہیر چاہتے تھے۔ تہران سے ہو کر دو طیارے تاشقند کے لیے پرواز کر رہے تھے کیونکہ جنگ کے بعد پاکستان نے ہندوستان کے طیاروں کی پرواز اپنے علاقوں کے اوپر بند کر دی تھی۔ اس طویل سفر میں تہران کی جگمگاتی روشنیوں اور سیخ کباب کی بنا پر رات میں بڑا پرلطف وقت گزارا۔ ہندوستان اور پاکستان کے صحافیوں کو ایک ہی ہوٹل‘ ہوٹل تاشقند میں ٹھہرایا گیا تھا لیکن دونوں الگ الگ منزلوں پر تھے۔

1970ء اور 2018 ء کے انتخابات اور دینی جماعتوں کی حیرت انگیز ناکامی

(1970ء کے انتخاب میں دینی جماعتوں کو حیرت انگیز ناکامی ہوئی تھی ، اس پر دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ، عظیم سیاست دان اور صحافی شورش کاشمیری ؒ کا دل بھی نہایت زخمی ہواتھا، اب 2018ء کے انتخاب میں بھی دینی جماعتوں کی بری طرح ناکامی نے ہمارے بڑے بڑے مذہبی لیڈروں اور دانشورں کے دل زخمی کردیے ہیں ۔ اسی تناظر میں شورش کاشمیری اور سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے احساسات قارئین کی نذر کرتا ہوں ، شورش کاشمیری اپنے خط کے بارے میں لکھتے ہیں۔)


" 17دسمبر 1970ء کو احقر نے ذیل کا خط مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے نام لکھا، مولانا نے اگلے ہی روز 18 دسمبر کو جواب مرحمت فرمایا ۔ راقم نے ذیل کا خط لکھا تھا ۔ " 


(لاہور) 


17 سمبر 1970ء


مخدومی مولانا ، سلام و مسنون ۔


نتائج کے بعد دماغ میں سوالات کا ایک ہجوم ہے ، ابھی خود انہیں چھانٹ رہاہوں جو بچ رہے ، عرض کروں گا ۔ ہم نئی پود سے غافل تھے ۔ نتیجتا اس نے ہمیں مسترد کردیا ؟ اور اگر صورتحال کا ہم ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کرسکے تو اب اس ویرانے میں کہاں تک اذان دے سکتے ہیں ؟ فی الحال ایک ہی خلش ہے اور یہ خلش میرے دماغ میں بہت دنوں سے ہے ، میں نے ایک دفعہ پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ جس چیز کا نام حق ہے ، تاریخ میں کب اور کہاں کامیاب ہوا ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ جب اس پر مصائب بیت گئے اور اس کے داعی باقی نہ رہے تو ان کی سرگزشت قلم نےنے محفوظ کر لی اور ہم نے اس تذکرہ کو تاریخ بنادیا ۔ کیا ہم اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے رہ گئے ہیں اور روشنیاں صرف ان کے لیے ہیں جو اندھیروں میں پیدا ہوئے ، اندھیروں میں پروان چڑھے اور جن کا حسب ونسب اندھیروں سے ملتا ہے ۔ والسلام 

تحریک خلافت اور آزادئی ہند

خلافت خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنھم کے بعد بنو امیہ اور بنو عباس سے ہوتی ہوئی ترکی کے عثمانی خاندان کو منتقل ہوئی۔

پہلی جنگ عظیم کے وقت اسلامی سلطنت کا مرکز ترکی تھا اور اس کے سربراہ خلیفہ عبد الحمید تھے۔

 خلفائے راشدین نے دار الحکومت کا درجہ مدینہ منورہ کو دیا جبکہ حضرت علی نے انتظامی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے دار الحکومت کو کوفہ منتقل کیا۔

 بنوامیہ کے دور میں دار الحکومت کوفہ سے دمشق لے جایا گیا بنی عباس کے دور میں دار الحکومت کی سرگرمیوں کا مرکز بغداد بنا۔
 بغدادکی تباہی (1258ء ) کے بعد دار الحکومت کو قاہرہ میں لے جایا گیا۔ 1518ء میں ترک عثمانی بادشاہ سلطان سلیم نے خلافت کے اختیارات سنبھال کر دار الحکومت قسطنطنیہ (استنبول) کا اعلان کیا ۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے برطانیہ کے خلاف جرمنی کا ساتھ دیا۔ ترکی کی جنگ میں شمولیت سے ہندوستان کے مسلمان پریشان ہوئے کہ اگر انگریز کامیاب ہو گیا تو ترکی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے لیے وزیر اعظم برطانیہ لائیڈ جارج سے وعدہ لیا کہ جنگ کے دوران میں مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی نہیں ہو گی اور جنگ کے بعد مسلمانوں کی خلافت محفوظ ہوگی ۔

جرمنی کو شکست اور برطانیہ کو فتح ہوئی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بصرہ اور جدہ میں داخل کر دیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کو وعدے یاد دلانے کے لیے اور خلافت کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کی جسے "تحریک خلافت" کا نام دیا گیا۔

مولانا محمد علی جوہر،حیات و خدمات

تحریک خلافت
مولانا محمد علی جوہر
 یہ سن نوے کے عشرے کی بات ہے میں جب بھی انڈیا آفس لائبریری جاتا جو اس وقت دریائے ٹیمز کے کنارے اوربٹ ہاؤس کی عمارت میں واقع تھی تو دارالمطالعہ میں ایک صاحب کو ایک میز پر فائلوں کے ڈھیر کے پیچھے نہایت جانفشانی اور لگن کے ساتھ نوٹس لیتا دیکھتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہال میں بڑے نمایاں انداز سے رکھی ہوئی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ کی سرخ مخمل والی شاہانہ کرسی کی طرح یہ صاحب بھی اس ہال کی ایک مستقل تنصیب ہیں۔
ان صاحب سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ صابر ارشاد عثمانی ہیں جو مولانا محمد علی جوہر کی زندگی اور ان کی خدمات کے بارے میں ایک کتاب کے لیے تحقیق کر رہے ہیں۔

دس برس کی تحقیق اور مطالعہ کے بعد عثمانی صاحب کی کتاب مقتدرہ قومی زبان پاکستان نے شائع کی ہے اور انہوں نے واقعی ایک ہشت پہلو کارنامہ انجام دیا ہے۔

یوں تو مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت اور ان کی خدمات کے بارے میں اب تک بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن عثمانی صاحب کی یہ کاوش کئی اعتبار سے منفرد ہے۔ انہوں نے مولانا کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو خود ان کی تحریروں اور تقاریر سے اجاگر کیا ہے اور انہی کی زبانی بہت سے ایسے ان سوالات کا جواب دیا ہے جو مولانا کی شخصیت اور ان کی سیاست کے ضمن میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں ابھرتے رہے ہیں۔

بر صغیر کے مسلمانوں کی سیاسی بیداری

("برید فرنگ" علامہ سید سلیمان ندوی ؒ کے خطوط کا مجموعہ ہے اس میں ان تاریخی اور اہم خطوط کا مجموعہ ہے جو وفد خلافت کے سلسلہ میں یورپ سے ہندوستان کے بزرگوں دوستوں اور عزیزوں کے نام لکھے گئے ان میں دنیائے اسلام کے اکابر رجال سے ملاقاتوں کی دلچسپ روداد بھی ہے 1920ء میں یہ خطوط لکھے گئے ہیں اس لحاظ سے ان کی اہمیت تاریخی بھی ہے۔  وہ ان خطوط کے پس منظر کے بارے میں یہ تحریر 1951 ء میں لکھی ہے  جب وہ پاکستان کے شہر کراچی میں مقیم تھے ۔) 

" آج 1951ء ہے آج سے بتیس برس پہلے 1920ء تھا ہماری کہانی اسی سال کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے جب 1914 ء والی جنگ عظیم ختم ہوچکی تھی اور ایران سے لے کر تھریس تک ساری دنیائے اسلام اتحادیوں کے ہاتھوں پامال ہورہی تھی ۔ 

1857ء کے بعد مسلمانوں کی سیاسی بیداری کا آغاز 1901ء سے شروع ہوتا ہے بوڑھوں میں اس کے پہلے محرک سر سید ان کے رفقائے خاص میں ان کے جانشین دوم وقار الملک اور نوجوانوں میں پٹنہ کے مشہور بیرسٹر مظہر الحق تھے ، دونوں نے مل کر جیسا کہ مظہر الحق صاحب مرحوم نے مجھ سے کہا مسلم لیگ کا خاکہ تیار کیا اور 1906 ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کے ساتھ ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی قیادت میں اس کے مستقل وجود کا اعلان کیا گیا ، یہ ملکی سیاست کے میدان میں مسلمانوں کا سب سے پہلاقدم تھا ۔ اس کے بعد اسی کانفرنس کے ساتھ اس کے روکھے پھیکے جلسے سال بسال ہونے لگے ۔ 

ریاست پاکستان اور پاکستانی قومیت کی بحث

ابوالبشر احمد طیب 

قیام پاکستان سے قبل اور اس کے بعد  ہی سے صحافیوں ، دانشورں اور علماء کے درمیان یہ بحث جاری ہے کہ  دوقومی نظریہ یا نظریہ پاکستان کی حقیقت کیا ہے ؟ پاکستانی قوم کی  شناخت کیا ہے ؟ اور ریاست پاکستان کا بیانیہ کیا ہے؟  اس بحث میں شریک  ایک گروہ کا تو یہ بھی دعوی ہے کہ اس وقت پاکستانی قومیت کی شناخت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ قوم کی بازیافت کے لیے ریاست کو نیابیانیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے پیچھے خاص کر وہ طبقہ ہے جو مدارس اور علماء دین سے بیزار ہے۔ وہ مدارس اور علماء دین کے تصور ریاست سے مطمئن نہیں وہ اس تصور کو پاکستانی قوم اور معاشرہ کی ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔ 

دوسری طرف علماء کرام اور ان کے نمائدہ دانشور اور صحافی ہیں، وہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ پر زور دیتے ہیں۔ قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان اور پاکستانی معاشرہ اور قوم کی تشکیل پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ روشن خیال طبقہ قرارداد مقاصد کو درست نہیں مانتے وہ ریاست پاکستان کی نئی تشکیل کرنا جاہتے ہیں اور نیا پاکستان، ایک نئی قوم اور نیا معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں ۔ 

1947ء کے خواب کی حقیقی تعبیر



مضمون نگار : منظورالحسن  ماہنامہ اشراق  ، تاریخ اشاعت : ستمبر 2003ء  ، مضمون کا اصل عنوان : استحکام پاکستان 

1947ء میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم کرۂ ارض پر ایک ایسی سلطنت قائم کر رہے ہیں جہاں اسلام اپنے پورے فلسفے اور قانون کے ساتھ نافذالعمل ہوگا۔ چشم عالم ایک مرتبہ پھر اس عدل اجتماعی کا نظارہ کرے گی جو چودہ صدیاں پہلے خلافت راشدہ کی صورت میں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے مرکزی ادارے کا کردار ادا کرے گا اور غیر مسلم دنیا کے لیے اسلام کی مشہوددعوت قرار پائے گا۔ اس کے حدودمیں مسلمانوں کی ترقی کی راہیں کسی دوسری قوم کے تعصب سے مسدود نہیں ہوں گی۔ وہ باہم متحد ہو کر اسے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بنا دیں گے اور دیگر مسلمانان عالم کے لیے سہارے اور تعاون کا باعث ہوں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دے رہے ہیں جو دور جدید میں فلاحی ریاست کے تمام تر تصورات کی آئینہ دار ہو گی۔ جہاں تفریق وامتیاز کے بغیر شہریوں کو ان کے حقوق میسر ہوں گے اور لوگ یکساں طور پر تعلیم، روزگار، صحت اور امن عامہ کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ہمارا تصور تھا کہ ایک ایسا ملک معرض وجود میں لارہے ہیں جس کا نظم سیاسی جمہوری اقدار پر مبنی ہوگا۔ اس کے عوام اپنا اجتماعی نظام خود تشکیل دیں گے اور انھیں اس میں تبدیلی کرنے اور اپنے حکمرانوں کے تقرر وتنزل کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔

تاریخ اور تصورِ تاریخ

خورشید ندیم 

روز نامہ دنیا ، 25 جون 2018 ء 

تحریکِ پاکستان اپنے عروج پر تھی تو مسلم لیگی حلقوں میں ایک نعرہ گونجتا تھا: مسلم ہے تومسلم لیگ میں آ۔تقسیمِ ہند کے مطالبے میںاسی وقت وزن پیدا ہو سکتا تھا جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت قرار پاتی۔

تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا تو مسلم لیگ کایہ نعرہ ابھی امر واقعہ نہیں بناتھا۔کانگرس سمیت بہت سی جماعتیں تھیں جو خود کو مسلمانوں کا نمائندہ قرار دیتی تھیں‘تاہم 1945-46 ء کے انتخابات نے مسلم لیگ کی یہ حیثیت مستحکم کر دی کہ وہ مسلمانوں کی اگر واحد نہیں تو سب سے بڑی جماعت ضرور ہے۔اس بنیاد پر کانگرس اور انگریز سرکار نے مسلم لیگ کو مسلمانوں کا حقیقی نمائندہ مان لیا۔پاکستان کا قیام مسلم لیگ کی جیت تھی۔یوں اس نئی مملکت کی باگ ڈور فطری طور پر مسلم لیگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس طرح وہ مسلمان پس منظر میں چلے گئے ‘جو مسلم لیگ کے ہم نوا نہیں تھے۔

پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے؟

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


سوال : آپ کے نزدیک اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے؟

جواب :میرے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تقریباً وہی ہے جو تمام مسلم ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ لیڈرشپ آخرکار اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں کے ہاتھ میں آتی ہے ، یا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ رہتی ہے جو اسلام کا نام لیتے ہوئے یا کھلم کھلا اس کی مخالفت کرتے ہوئے، اپنی قوم کو بگٹٹ غیراسلامی راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فیصلہ پہلی صورت کے حق میں نہ ہوا، تو مجھے اندیشہ ہے کہ سارے مسلم ممالک سخت تباہی سے دوچار ہوں گے۔