ابوالبشر احمد طیب

دوسری طرف علماء کرام اور ان کے نمائدہ دانشور اور صحافی ہیں، وہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ نظریہ پاکستان، دوقومی نظریہ پر زور دیتے ہیں۔ قرارداد مقاصد کے مطابق پاکستان اور پاکستانی معاشرہ اور قوم کی تشکیل پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ روشن خیال طبقہ قرارداد مقاصد کو درست نہیں مانتے وہ ریاست پاکستان کی نئی تشکیل کرنا جاہتے ہیں اور نیا پاکستان، ایک نئی قوم اور نیا معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں ۔
میری نظر میں ان دونوں گروہ کی تعلیم و تربیت، مطالعہ و تجربہ کا قدرتی نتیجہ ہے کہ وہ ان خیالات و تصورات کا اظہار کر یں جو ان کی اپنی اپنی تعلیم و تربیت ، تجربہ و مشاہدہ پر مبنی ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اختلاف رائی قدرتی ہے ۔ہر معاشرہ میں اس کا وجو د ایک قدرتی بات ہے ۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ بحث 70 سا ل سے اپنی جگہ کھڑی ہے ۔ اس کا آج تک کوئی کامل جواب یا حل نہیں نکلا۔ بحث وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں قیام پاکستان سے پہلے اور اس کے بعد جاری تھی ۔ لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ آج ان قدیم بحثوں سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں دوقومی نظریہ کا کردار بہت اہم تھا ۔ کوئی اس سے انکار نہیں کرسکتا ۔ تشکیل پاکستان میں اس نظریہ نے مسلمانون کو متحد بھی کیا اور قربانی اور ایثار پر آمدہ بھی کیا ۔ دراصل اس نظریہ کی تخلیق میں دین اسلام اورمسلمانوں کے عقیدہ کا اثر تھا ۔قیام پاکستان کے بعد بھی قانون سازی میں یہ عقیدہ اور مذہبی تصورات اثر انداز ہوئے ۔ جس کے نتیجے میں قرارداد مقاصد وجود میں آئی ۔ جو لوگ اسلامی طرز زندگی پر یقین رکھتے تھے وہ اس کو انفرادی، اجتماعی ہر سطح پر نافذ دیکھنا چاہتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے ہر سطح پر دینی اصول اور شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
دوسری طرف وہ طبقہ جودین اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح ایک مذہب سمجھتے ہیں جس طرح مغرب میں مسیحیت ، یہودیت ہیں ۔ وہ اسلام کو ریاست کے کاروبار ،تجارت اور معاشرے کی اجتماعی زندگی، رسم ورواج سے الگ صرف گھر وں مسجدوں اور خانقاہوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں ۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ریاست کے ساتھ مذہب کی پیوند کاری درست نہیں ۔ اور نہ خلافت کا جدید ریاست سے کوئی تعلق ہے ۔ ان کا گمان ہے کہ اسوہ رسول ، ریاست مدینہ ، خلافت راشدہ کے دور کے تمام ریاستی ماڈل ، جدید دور کی ریاست کی ترقی خوشحالی کے لیے ناکافی ہے ۔ وہ مغربی جمہوری ماڈل کو خوشحالی و ترقی کے لیے سب سے زیادہ مناسب خیال کرتے ہیں ۔ جس میں مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہ ہو ۔ ہر فرد کو مذہبی آزادی ہو یا اگر کوئی فرد مذہب سے بے تعلقی یا بد عملی کا مظاہرہ بھی کرے تو ریاست اس کو مذہب کے پابند نہ بنائے ۔ جبکہ علماء دین اور ان کے ہم خیال دانشور اورصحافی اس خیال کے شدید مخالف ہیں ۔ وہ پاکستان اور پاکستانی ریاست اور قوم کے لیے اس تصور کو قبول کرنے کے لیے باکل تیار نہیں ۔
قصہ مختصر یہ ایک ایسی بحث ہے جو 70 سال سے حل ہونے کی بجائے پاکستانی عوام اور ریاست کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت ایک مسلم قوم ہے ۔ اس میں موجود غیر مسلم بھی پاکستانی شہری ہیں ۔ سب باہم مل کر ایک ہی پاکستانی قوم کی حیثیت سے آزادی کے ساتھ اپنے اپنے مذہب کے دائرہ میں رہ کر زندگی کی تشکیل نو کر سکتے تھے ۔ ریاست کا اسلامی تصور بھی اس عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
میری نظر میں اس بحث میں اصل غور طلب سوال یہ ہے کہ کسی ریاست کی تشکیل میں اسلام کا کیا کردار ہے ؟ اس سوال کے جواب سے ہی بحث کسی نتیجہ پر پہنچ سکتی ہے ۔ کیونکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو پابند بنا تا ہے کہ وہ اس پر مکمل طور پر عمل پیرا ہو ۔ انفرادی اجتماعی ہر سطح پر اس کی پابندی کرے، عہد رسالت میں مدینہ کی ریاست ، خلافت راشدہ کے ادوار سب اسی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔ قیام پاکستان بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ اس حقیقت سے کوئی دانشور خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم انکار نہیں کرسکتا ۔ اس لئے پاکستانی ریاست یا قوم کو اس شجرۂ نسب سے قطع کرنا خود کشی کی دعوت دینے کی بات ہے ۔
میری تجویز ہے کہ ان دونوں طبقوں کو چاہیے کہ اپنی اپنی کج بحثی ، خلط مبحث میں قوم اور ریاست کو الجھانے کے بجائے سب مل کر بحیثیت پاکستانی قوم اسلام کے شورائی یا جمہوری اصولوں کے مطابق ریاست کی رہنمائی کریں اور ایک باشعور اور باکردار قوم تخلیق کرنے کی فکر کریں۔ آج اس ترقی یافتہ دور میں خلط مبحث سے نکل کر حقائق پر اجماع اور اتفاق کی ضرورت ہے ۔ اختلاف رائی ، فلسفیانہ بحث اچھی بات ہے۔ فکری نشونما کی حدتک تو اس کی گنجائش ہے۔ جہاں تک پاکستانی ریاست اور قومیت کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اسلام اور برصغیر کے مسلمانوں سے وجود پذیر ہوا ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، دانشوروں کو چاہیئے کہ قوم کے نونہالوں کو اس حقیقت سے آشنا کریں ۔ اس سے برگزشتہ نہ کریں ۔