1947ء کے خواب کی حقیقی تعبیر



مضمون نگار : منظورالحسن  ماہنامہ اشراق  ، تاریخ اشاعت : ستمبر 2003ء  ، مضمون کا اصل عنوان : استحکام پاکستان 

1947ء میں ہم نے سوچا تھا کہ ہم کرۂ ارض پر ایک ایسی سلطنت قائم کر رہے ہیں جہاں اسلام اپنے پورے فلسفے اور قانون کے ساتھ نافذالعمل ہوگا۔ چشم عالم ایک مرتبہ پھر اس عدل اجتماعی کا نظارہ کرے گی جو چودہ صدیاں پہلے خلافت راشدہ کی صورت میں ظہور پزیر ہوا تھا۔ اس کا وجود ملت اسلامیہ کے لیے مرکزی ادارے کا کردار ادا کرے گا اور غیر مسلم دنیا کے لیے اسلام کی مشہوددعوت قرار پائے گا۔ اس کے حدودمیں مسلمانوں کی ترقی کی راہیں کسی دوسری قوم کے تعصب سے مسدود نہیں ہوں گی۔ وہ باہم متحد ہو کر اسے اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بنا دیں گے اور دیگر مسلمانان عالم کے لیے سہارے اور تعاون کا باعث ہوں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دے رہے ہیں جو دور جدید میں فلاحی ریاست کے تمام تر تصورات کی آئینہ دار ہو گی۔ جہاں تفریق وامتیاز کے بغیر شہریوں کو ان کے حقوق میسر ہوں گے اور لوگ یکساں طور پر تعلیم، روزگار، صحت اور امن عامہ کی سہولتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ہمارا تصور تھا کہ ایک ایسا ملک معرض وجود میں لارہے ہیں جس کا نظم سیاسی جمہوری اقدار پر مبنی ہوگا۔ اس کے عوام اپنا اجتماعی نظام خود تشکیل دیں گے اور انھیں اس میں تبدیلی کرنے اور اپنے حکمرانوں کے تقرر وتنزل کا پورا اختیار حاصل ہوگا۔


آج پاکستان کو قائم ہوئے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس کا وجود سلامت ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے خواب آج بھی تشنۂ تعبیر ہیں۔ اسلام کا عدل اجتماعی اور خلافت راشدہ تو افلاک کی باتیں ہیں، ہم ان ارضی اخلاقیات تک بھی رسائی حاصل نہیں کر سکے جو دنیا میں متفق علیہ ہیں اور جن پر اسلام سے نابلد اقوام بھی صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔ یہ سلطنت اسلام کی تجربہ گاہ اور پھر اس کا مشہود نمونہ تو کیا بنتی، اسلام کی حیثیت عرفی کو مجروح کرنے کا باعث ضرور ہوئی ہے۔ اس کے مکینوں نے اپنے قول وعمل سے اسلام کا جو تعارف پیش کیا ہے، اس کی روشنی میں اہل دنیا اسے ایک متشدد، غیر عقلی، جذباتی اور عصر حاضر سے غیر ہم آہنگ مذہب تصور کرتے ہیں۔ فلاحی ریاست کے تمام تصورات بکھر چکے ہیں۔ غربت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ ملکی معیشت دن بہ دن روبہ زوال ہے۔ بیشتر آبادی کے لیے دو وقت کے کھانے کا حصول مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیمی پس ماندگی کا یہ عالم ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد ملازمت کا حصول بن گیا ہے۔ درس گاہوں کی حالت یہ ہے کہ فلسفہ، ادب، تاریخ، عمرانیات، اقتصادیات، ریاضی، سائنس، آرٹ اور دیگر علوم وفنون کے وہ نصابات جن سے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کئی عشرے پہلے گزر کر انھیں متروک قرار دے چکی ہیں، وہ ان میں کسب فیض کا ذریعہ ہیں۔ لوگوں کی اکثریت کو صحت کی ابتدائی ضرورتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ فلاحی ریاست کے حوالے سے ہمارا سفر آج بھی اتنا ہی باقی ہے جتنا آج سے پچاس سال پہلے تھا۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ ہم شاید چند دنوں کے لیے بھی اس کا تجربہ نہیں کر سکے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک ہماری جمہوری سیاست محض مفادات کی سیاست واقع ہوئی ہے۔

یہ حال ہے جو ہمارے خوابوں اور ہمارے تصورات کا ہوا ہے۔ ہمارے اجتماعی وجود کی یہ حالت اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ البتہ، یہ سوال ہر شخص کے ذہن میں ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ اس صورت حال کا سبب کیاہے؟ کیا یہاں افرادی وسائل کی کمی ہے، کیا یہاں بے صلاحیت لوگ بستے ہیں، کیا یہاں کے لوگوں کو نفاذ اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، کیا یہاں کے باشندے اپنی اور ملک کی ترقی کی خواہش سے محروم ہیں، کیا یہاں کے شہری نظم سیاسی کو اپنی منشا کے مطابق چلانے کی تمنا نہیں رکھتے؟ یا پھر یہ خطۂ ارضی آفات سماوی کا شکار ہے، یا اس کی سرزمین قدرتی وسائل سے خالی ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں ہر شخص کہے گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ملک افرادی وسائل سے مالامال ہے۔ قدرتی وسائل کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اس سرزمیں میں زراعت اور معدنیات کے حوالے سے ایسا تنوع اورتناسب پایا جاتا ہے کہ دنیا کے کم ممالک ایسی تقسیم کے حامل ہیں۔ اس کے باسی صلاحیت اور جاں فشانی میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے مسلسل جدوجہد سے ایک ایسے ملک کو قائم کیا جسے دنیا ناممکن قرار دے رہی تھی۔ ملک وملت کی بقا کے لیے جب بھی کسی نے صدا لگائی ہے، اس کے افراد نے اپنی جانیں تک پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جمہوریت کے نعرے پر ہمیشہ لبیک کہا ہے۔ اسلام سے محبت کا یہ عالم رہا ہے کہ اگر کسی طالع آزمانے بھی اسلام کا نعرہ لگایا تو اس پر بھی لبیک کہنے سے دریغ نہیں کیا۔

اگر معاملہ یہ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ۵۵ برس گزرنے کے باوجود ہم منزل تک رسائی تو کیا حاصل کرتے، نشانات منزل ہی کھو بیٹھے ہیں۔ اس تمام صورت حال کا صرف ایک سبب ہے اور وہ دینی اور دنیوی امور میں ہماری جہالت ہے۔

ہم اس ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ نہیں بنا سکے تو اس کی وجہ دین کے بارے میں ہماری جہالت ہے۔ اس جہالت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے عوام کا تصور دین مخصوص مکاتب فکر کی فقہی آرا کی پیروی تک محدود ہے۔ کہیں کلمات نماز کے بلند آہنگ یا کم آہنگ ہونے کا مسئلہ ہے، کہیں ازار کے ٹخنوں سے اوپر یا نیچے ہونے کا معاملہ ہے، کہیں داڑھی کے لمبا یا چھوٹا ہونے کا سوال ہے، کہیں عمامے اور ٹوپی کی جنگ ہے۔ خواص کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلام کی غلط تعبیرات سامنے آنے کی وجہ سے اسے ایک قصۂ پارینہ سمجھ کر دور جدید کے تقاضوں سے غیر ہم آہنگ قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک علماے دین کاتعلق ہے تو ان کی اکثریت لوگوں کو سرگرم جنگ رکھنے پر مصر ہے۔ انھوں نے اس دوران میں کبھی اس کے لیے کوشش نہیں کی کہ لوگوں کودین کے حقیقی شعور سے آگاہ کریں، ان کی اخلاقی تربیت کااہتمام کریں اور انھیں حالات کے لحاظ سے حکمت عملی ترتیب دینے کی ترغیب دیں۔ اس زمانے میں بالخصوص ان کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اسلام کے بارے میں جدید ذہن کے سوالات کا جائزہ لیتے اور عصر حاضر کے اسلوب میں ان کے تسلی بخش جوابات مرتب کرتے۔ المیہ یہ ہے کہ انھوں نے اس میدان میں علمی وفکری کام کرنے کے بجائے اپنی تمام ترتوجہ سیاست کی حریفانہ کشمکش اور معاندانہ قوتوں کے خلاف جذباتی فضا قائم کرنے پر مرتکز رکھی ہے۔

اگر ہم اسے ایک فلاحی ریاست نہیں بنا سکتے تو اس کی وجہ دنیوی امور کے بارے میں ہماری جہالت ہے۔ اپنے افراد کی عمومی تعلیم کے بارے میں ہم نے ہمیشہ غفلت اور بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمارے تمام طبقات بلا استثنا جہالت کا شکار ہیں۔ فلاحی ریاست کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ معاشرے کا اجتماعی نظام عادل، شفاف اور زندگی کی سہولتوں سے آراستہ ہو۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم نے کبھی منصوبہ بندی نہیں کی۔ معاشرے کی ترقی کے لیے کن عوامل کی ضرورت ہوتی ہے، قانون پسندی کی اہمیت ہے، اعلیٰ انسانی اقدار کس طرح اداروں میں ڈھلتی ہیں، رفاہی ادارے کس طریقے سے خدمت انجام دیتے ہیں، شہریوں کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں، اربات حکومت کو کیا فرائض انجام دینے ہوتے ہیں، صحت، تعلیم اور روزگار کی سہولتیں بہم پہنچانے کے لیے حکومت کو کیا منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے اور عوام کیسے اس عمل میں شریک ہوتے ہیں، امن عامہ کے مسائل کو کیسے حل کیا جا تا ہے، ظلم وعدوان کے خاتمے اورعدل وانصاف کے قیام کے لیے کیسے لائحۂ عمل تشکیل دیا جاتا ہے؟ یہ مسائل ہمارے فکروعمل کا کبھی حصہ نہیں بن سکے۔ اس زمانے میں کسی قوم کی مادی ترقی کا انحصار سرتاسر اس بات پر ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کس رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔ دفاع صنعت، زراعت اوررسل ورسائل کے معاملات میں سائنس اور ٹیکنالوجی ہی کی بنیاد پر ترقی کی جاسکتی ہے۔ مگر ہماری حالت اس میدان میں نہایت ابتر ہ۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہماری غربت کا اصل سبب جدید سائنسی علوم سے بے اعتنائی ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور امن عامہ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اس کے قیام کے لیے ضروری تھا کہ ہم عام اخلاقیات کے شعور سے بہرہ مند ہوں۔ ہماری تربیت ہونی چاہیے تھی کہ ایک شہری کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں، دوسروں کے حقوق کس طرح ادا کیے جا تے ہیں، قانون کی پاس داری کے فوائد اورقانون شکنی کے کیا نقصانات ہیں، دھوکا، فریب، عناد، ہٹ دھرمی اور حق تلفی سے کس طرح انسانی شخصیات مسخ ہوتی اور پورے معاشرے کے لیے امن وامان کا مسئلہ پیدا کردیتی ہیں۔ ان پہلووں سے ہم آج تک نہ اپنی تربیت کر سکے اورنہ اس مقصد کے لیے کوئی لائحۂ عمل تشکیل دے سکے ہیں۔

اگر ہم یہاں جمہوری اقدار کو مستحکم نہیں کر سکے تو اس کی وجہ سیاسی معاملات کے بارے میں ہماری جہالت ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت سیاسی شعور سے بے گانہ ہے۔ جمہوریت عوام کی سیاسی عمل میں بھر پور شرکت کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم کے افراد باہمی مشاورت سے اپنی ضرورتوں کا تعین کرتے، انھیں پورا کرنے کے لیے لائحۂ عمل تشکیل دیتے، اپنی تنظیم کرتے، تقسیم کار کے اصول پر اپنی ذمہ داریاں بانٹتے، اس مقصد کے لیے ادارے اور انجمنیں تشکیل دیتے اور پوری تن دہی کے ساتھ ملکی تعمیر میں سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ قوم کا ہر فرد اس کام میں پورے شعور کے ساتھ شریک ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارا معاملہ یہ ہے کار پرداز عناصر عوام کو فریب دیتے اور عوام بڑی آسانی سے ان کے فریب میں آجاتے ہیں۔ جس فرد یا گروہ کے ہاتھ میں اقتدار آتا ہے، وہ اس پر بالجبر قابض رہنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے جمہوری اداروں کی پامالی کی پروا بھی نہیں کرتا۔ ایسے موقعوں پر عوام نہ موثر احتجاج کر پاتے اور نہ تبدیلی حالات کے لیے صحیح خطوط پرکوئی جدوجہد کر سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا کہ جمہوری ادارے بننے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں اور ملک پر سیاسی عدم استحکام کی فضا طاری رہتی ہے۔

اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ 1947ء کے خواب کی حقیقی تعبیر کے لیے واحد راستہ تعلیم ہے۔ جب تک ہم دینی و دنیوی اعتبار سے اپنی جہالت سے چھٹکارا نہیں پالیتے اوراس حقیقت کاادراک نہیں کر لیتے کہ موجودہ زمانے میں تعلیم وتعلم ہی سے ترقی کے منازل طے کیے جا سکتے ہیں، اس وقت تک ہمارا یہ خواب، خواب ہی رہے گا۔

-----------------------------------------------------------------