1970ء اور 2018 ء کے انتخابات اور دینی جماعتوں کی حیرت انگیز ناکامی

(1970ء کے انتخاب میں دینی جماعتوں کو حیرت انگیز ناکامی ہوئی تھی ، اس پر دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ، عظیم سیاست دان اور صحافی شورش کاشمیری ؒ کا دل بھی نہایت زخمی ہواتھا، اب 2018ء کے انتخاب میں بھی دینی جماعتوں کی بری طرح ناکامی نے ہمارے بڑے بڑے مذہبی لیڈروں اور دانشورں کے دل زخمی کردیے ہیں ۔ اسی تناظر میں شورش کاشمیری اور سید ابوالاعلی مودودی ؒ کے احساسات قارئین کی نذر کرتا ہوں ، شورش کاشمیری اپنے خط کے بارے میں لکھتے ہیں۔)


" 17دسمبر 1970ء کو احقر نے ذیل کا خط مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے نام لکھا، مولانا نے اگلے ہی روز 18 دسمبر کو جواب مرحمت فرمایا ۔ راقم نے ذیل کا خط لکھا تھا ۔ " 


(لاہور) 


17 سمبر 1970ء


مخدومی مولانا ، سلام و مسنون ۔


نتائج کے بعد دماغ میں سوالات کا ایک ہجوم ہے ، ابھی خود انہیں چھانٹ رہاہوں جو بچ رہے ، عرض کروں گا ۔ ہم نئی پود سے غافل تھے ۔ نتیجتا اس نے ہمیں مسترد کردیا ؟ اور اگر صورتحال کا ہم ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کرسکے تو اب اس ویرانے میں کہاں تک اذان دے سکتے ہیں ؟ فی الحال ایک ہی خلش ہے اور یہ خلش میرے دماغ میں بہت دنوں سے ہے ، میں نے ایک دفعہ پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ جس چیز کا نام حق ہے ، تاریخ میں کب اور کہاں کامیاب ہوا ؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ جب اس پر مصائب بیت گئے اور اس کے داعی باقی نہ رہے تو ان کی سرگزشت قلم نےنے محفوظ کر لی اور ہم نے اس تذکرہ کو تاریخ بنادیا ۔ کیا ہم اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے رہ گئے ہیں اور روشنیاں صرف ان کے لیے ہیں جو اندھیروں میں پیدا ہوئے ، اندھیروں میں پروان چڑھے اور جن کا حسب ونسب اندھیروں سے ملتا ہے ۔ والسلام 

مخلص 

شورش کاشمیری

(بحوالہ : " مکاتیب سید مودودی ؒ " ص 128، تحقیق و تدوین : پروفیسرنورورجان )


----------------------------------------------------


( مولانا سیدابوالاعلی مودودی ؒ کا جواب ملاحظہ فرمائیں ، مولانا ؒ نے اس وقت کے مایوس کن حالات میں ایک داعی حق کی حیثیت سے جو جواب دیاہے قابل غور ہے ۔ اس خط سے آج بھی ہمارے مایوس نوجوانوں کو روشنی مل سکتی ہے ۔)

(لاہور ) 


18 دسمبر 1970ء 

برادرم شورش صاحب ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

آپ کے عنایت نامے سے یہ محسوس کرتاہوں کہ خلاف توقع نتائج کے فوری اثر نے آپ کے ذہن پر یاس و قنوط کی کیفیت طاری کردی ہے ، حالانکہ آپ جیسے پختہ عزم اور قومی زندگی کا طویل تجربہ رکھنے والے آدمی کو اس اکا اتنا اثر قبول نہ کرنا چاہیے تھا ۔ 

آُپ کا یہ خیال صحیح نہیں کہ نئی پود نے ہمیں مسترد کر دیا ہے ۔ دراصل جو کچھ ہوا ہے ، وہ یہ ہے کہ نئی پود کے ایک حصے کو جو یقینا اس کا غالب حصہ نہیں ہے ، ایک شدید گمراہ کن تحریک نے خراب کیا ہے ، اور خدا کے فضل سے نئی پود کا ایک بڑا اچھا عنصر ایسا موجود ہے جس کے ذریعہ سے اس خراب عنصر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔

جہاں تک انتخابی نتائج کا تعلق ہے ، ان پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات باکل واضح ہے کہ قوم کے متوسط تعلیم یافتہ طبقے کی عظیم اکثریت ایک طرف گئی ہے اور غریب طبقوں کو سراسر پُر فریب وعدوں کا سبز باغ دکھا کر دوسری طرف کھینچ لیا گیا ہے۔ ان طبقوں کو دھوکا دینے میں نئی پود کے اس عنصر نے اچھا خاصا کام کیا ہے جسے خراب کرنے میں اس گمراہ کن تحریک کو کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ اس تدارک ان شاء اللہ ہم پیہیم کوشش کر کے مستقبل قریب میں کرسکیں گے ۔

حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجائے خود حق ہے ۔ وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسرصحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے تب بھی وہ حق ہی ہے، کیونکہ اس کا حق ہونا اس شرط سے مشروط نہیں ہے کہ دنیا اس کو مان لے۔ دنیا کا ماننا یا نہ ماننا سرے سے حق و باطل کے فیصلے کا معیار ہی نہیں ہے ۔ اگر دنیا حق کو نہیں مانتی تو "حق" ناکام نہیں ہے بلکہ ناکام وہ دنیا ہے جس نے اسے نہ مانا اور باطل کو قبول کر لیا ۔ مصائب حق پر نہیں بلکہ اہل حق پر آتے ہیں لیکن جو لوگ سوچ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انہیں بہرحال حق پر ہی قائم رہنا اور اسی کا بول بالا کر نے کے لئے اپنا سرمایۂ حیات لگادینا ہے وہ مصائب میں تو مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ناکام، کبھی نہیں ہو سکتے ۔ احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ بعض انبیا ایسے گزرے ہیں جنھوں نے ساری عمر دین حق کی طرف دعوت دینے میں کھپادی اور ایک آدمی بھی ان پر ایمان نہ لایا ، کیا ہم انھیں ناکام کہہ سکتے ہیں ؟ نہیں، ناکام وہ قوم ہوئی جس نے انھیں رد کردیا اور باطل پر ستوں کو اپنا رہنما بنایا ۔

اس میں شک نہیں کہ دنیا میں بات وہی چلتی ہے جسے لوگ بالعموم قبول کرلیں اور وہ بات نہیں چلتی جسے لوگ بالعموم رد کردیں ۔ لیکن لوگوں کا رد و قبول ہر گز حق و باطل کا معیار نہیں ہے ، لوگوں کی اکثریت اگر اندھیروں میں بھٹکنا اور ٹھوکریں کھانا چاہتی ہے تو خوشی سے بھٹکے اور ٹھوکریں کھاتی رہے ، ہمارا کام بہرحال اندھیروں میں چراغ جلانا ہے اور ہم مرتے دم تک یہی کام کر تے رہیں گے ۔ ہم اس سے خداکی پناہ مانگتے ہیں کہ ہم بھٹکے یا بھٹکا نے والوں میں شامل ہوجائیں ۔ خدا کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں اندھیروں میں چراغ چلانے کی توفیق بخشی اس احسان کا شکر یہی ہے کہ ہم چراغ ہی جلاتے جلاتے مرجائیں ۔


خاکسار 


ابوالاعلی
----------------
مکاتیب سید مودودی ؒ ص 127