کاروان زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
کاروان زندگی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اخوان المسلمون: عزیمت کی ۹۰ سالہ داستان

منیر احمد خلیلی 

پندرہ روزہ معارف،  کراچی 
اسلامک ریسرچ اکیڈمی ،  کراچی 
تاریخ اشاعت : 16 جولائی 2018 

حسن البناءؒ کی تحریک الاخوان المسلمون کی تاسیس کو گزرے مارچ میں ۹۰ برس ہوگئے ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والی عالم عرب کی اس بے نظیر دینی تحریک جسے معروف معنوں میں سیاسی جماعت بھی کہا جاسکتا ہے، کے پس منظر میں ہمیں خلافتِ عثمانیہ کا شکستہ ڈھانچہ پڑا نظر آتا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کے ادارے کا انہدام ہوا تو اس پر ماتمی نوحے برصغیر پاک و ہند میں بھی بلند ہوئے اور مصر میں بھی سنائی دے رہے تھے۔ مصر میں اس ماتم کی فضا میں احیاء خلافت کی ایک مہین سی کوشش ہوئی تھی لیکن اس ادارے کو ختم کرنے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا تھا کہ اب اسے زندہ کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہوگی۔ چنانچہ مصر میں ہونے والی یہ کوشش جلد ہی دم توڑ گئی تھی۔ مصر کو پوے عالم عرب میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ علم و عرفان، تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف، شعر و ادب، طباعت و اشاعت یہاں تک کہ فلم اور ڈرامہ کی صنف تک کے جو چشمے سارے شرقِ اوسط کو سیراب کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں ان کا منبع مصر ہی تھا۔ ترک مدتوں تک میدانِ جنگ کے معرکوں میں الجھے رہے چنانچہ علمی و فکری روشنی ترکی سے زیادہ مصر ہی میں پھیلی رہی۔ فاطمی عہد کی یادگار الازہر جیسی قدیم اور عظیم علمی درسگاہ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت سے مصر کے ماتھے کا جھومر چلی آرہی ہے۔ مصر میں مغرب پرستی، لبرل ازم اور سیکولرازم کی ان لہروں کا تذکرہ آگے آرہا ہے جنہوں نے گویا ایک دینی تحریک کی برپائی کو وقت کی پکار بنا دیا تھا۔ انیسویں صدی کے وسطِ اول میں مصر کے فکری افق پر جدیدیت کا طلوع ہونے والا ایک بڑا نام رفاعۃ طہطاوی ہے۔ طہطاوی مصری قوم پرست، مصنف، معلم، مترجم اور احیائے علوم کے علمبردار تھے۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج کی طرز پر ایک ادارے کی بنیاد ڈالی تھی تاکہ مغربی علوم کے عربی میں اور عربی علم وادب کے مغربی زبانوں میں ترجمے کیے جائیں۔ وہ روشن خیالی اور سیکولرازم کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ان لوگوں نے لبرل ازم اور سیکولر ازم کے جو بیج بوئے تھے حسن البناءؒ کے اخوان کی تشکیل کے وقت تک وہ اگ آئے تھے اور ان کی فصل خوب پھل پھول لارہی تھی۔ اس چمن کے بڑے پیڑوں میں ہمیں مفتی محمد عبدہٗ، احمد لطفی سید، احمد امین، قاسم امین، محمد مصطفی ہیکل، طٰحٰہ حسین، عباس محمود العقاد، توفیق الحکیم اور عبدالمتعال الصعیدی کے علاوہ خالد احمد خالد کے نام خاص طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ شام میں شیخ عبدالرحمن الکوا کبی بھی اسی عرصے کے اس فکر کے نمائندہ بنے تھے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط تک فرانسیسی ادب، ثقافت اور آزادی نسواں کے تصورات کی لذت آشنا نازلی فاضل کے قائم کردہ ’’صالون‘‘ میں مفتی محمد عبدہٗ سمیت علم و ادب کی علامتیں سمجھی جانے والی بڑی بڑی شخصیات اس ثقافت کی دلدادگی کا ثبوت دینے پر حاضر ہوتی تھیں۔ نازلی کے اس صالون نے لبرل فکر کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آگے پیچھے مصر میں جو بہت بڑے ادبی معرکے برپا تھے ان میں اس صدی کے جاحظ شمار ہونے والے مصطفی صادق الرافعی اور عباس محمود عقاد کے مابین عرصہ تک جاری رہنے والے معرکے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی سید قطب شہیدؒ اس وقت تک سیکولر نظریات کے نامور ادیب عباس محمود عقاد کے خاص ’شاگردوں‘ اور عقاد کے دفاع میں ’لڑنے‘ والے قلم کاروں میں شمار ہوتے تھے۔ عباس محمود عقاد سید قطبؒ کو بہت قدر و اہمیت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دونوں کا یہ تعلق سید قطبؒ کے حسن البناءؒ کی تحریک کا ایک عظیم سالار بننے تک برقرار رہا تھا۔ معروف داعی اور مبلغ شیخ علی طنطاوی کا تعلق تھا تو شام سے لیکن عباس محمود عقاد اور مصطفی صادق الرافعی کے ادبی معرکوں میں وہ الرافعی کی اسلامی فکر کے موئید اور ان کے حق میں معرکہ آرا تھے۔ یوں گویا بعد میں دین حق کی یکساں آواز بن جانے والے دونوں نامور ادیب، سید قطب اور علی طنطاوی، اپنے ’استادوں‘ کے لشکری بن کر ایک دوسرے کے خلاف بھی صف آراء رہے۔

خلافت کے اِلغا کے بعد ادب کے محاذ کے علاوہ مذہبی اور سیاسی افکار کے میدان میں بھی بڑی گرما گرمی پیدا ہوگئی تھی۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے اگلے ہی سال الازہر کے ایک شیخ علی عبدالرزاق (۱۹۶۶۔۱۸۸۸) کی کتاب ’الاسلام و اصول الحکم‘ نے دین و سیاست اور ریاست اور دین کے تعلق کے بارے میں ایک زبردست جدل اٹھا دیا تھا۔ یہ گویا الازہر کے اندر سے سیکولرازم کے حق میں اٹھنے والی ایک اور مضبوط آواز تھی۔ بعض لوگوں کاخیال تھا کہ شیخ علی عبدالرزاق نے شیخ محمد عبدہٗ کے ایما اور انگیخت پر یہ کتاب لکھی تھی۔ شیخ علی عبدالرزاق کا رجحان کچھ صوفی ازم کی طرف تھا اور کچھ نمایاں اثرات اس فکر کے تھے جس کا ظہور حالیہ عرصے میں ہمارے ہاں اس بیانیے کی صورت میں ہوا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سیاست اور دین دو مختلف دائرے ہیں۔ مذہب کو سیاست میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔اسلام فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ فرد کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کی ایک خدائی اسکیم ہے۔ خلافت کے نام پر مذہب کے اجتماعی زندگی کے دائروں اور اداروں تک پھیلاؤ کی کتاب و سنت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگرچہ ایک روایت ہے کہ زندگی کے آخری عرصے میں شیخ علی عبدالرزاق نے اپنی اس متنازع کتاب میں پیش کیے گئے خیالات سے رجوع کرلیا تھا۔ ان کی کتاب کے رد میں ۱۹۲۶ء میں شیخ علامہ محمد الخضر حسین کی کتاب ’نقص کتاب الاسلام و اصول الحکیم‘ اور اسی سال مفتی مصر محمد بخیت المطیعی کی ’حقیقۃ الاسلام و اصول الحکم‘ اور عبدالرزاق سنھوری کی کتاب ’اصول الحکم فی الاسلام‘ منصہ شہود پر آئیں۔ الازہر نے شیخ علی کے ان نظریات کی بنا پر ان کی ازہری مشیخت واپس لے لی تھی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے اسلامی اور لبرل اور سیکولر فکر کے درمیان برپا کشمکش میں شدت آگئی تھی۔ اس کشمکش کا آغاز اصل میں اسی وقت ہوگیا تھا جب انیسویں صدی کے وسطِ آخر (۱۸۹۵ء) میں وطن پارٹی (الحزب الوطنی) کی تاسیس ہوئی تھی۔ اس پارٹی کا منشور ہی لادینی سیاست پر مبنی تھا۔

دین کے معاملے میں اس وقت سیاسی قیادت ہی جہل اور بے حسی کا شکار نہیں تھی بلکہ مجموعی دینی فراست پر بھی گہرا جمود طاری تھا۔ نوجوان حسن البناءؒ نے حلقہ ہائے صوفی و ملا کی ایک ایک زنجیر ہلائی۔ ایک ایک کے درِ دل پر دستک دی، ایک ایک کے کانوں میں اذانیں دیں، ایک ایک کو بیداری کے لیے جھنجھوڑا۔ لیکن ان حلقوں پر چھایا ہوا سکوتِ مرگ نہ ٹوٹا۔ دوسری طرف اسلام مخالف قوتیں اپنے مغربی آقاؤں کی سرپرستی میں مسلسل پیش قدمی کر رہی تھیں۔ مارچ ۱۹۲۸ء تک کے یہ وہ حالات جنہوں نے حسن البناءؒ کو دین کے دفاع میں تنہا اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے ایک نئی تحریک کا آغاز کیا اور ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ ابتدا میں یہ تحریک ایک دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی پروگرام کے ساتھ متحرک ہوئی لیکن اس کے اسلامی فہم کی رو سے اسلام ایک کامل اور مثالی نظامِ زندگی ہے جس کی تعلیمات اور اصول و قواعد فرد کی نجی اور عائلی زندگی سے لے کر تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست و ریاست سمیت ہر گوشہ حیات کے لیے ہیں۔ یہ اصول و قواعد اور تعلیمات مسلمانوں کا اختیاری معاملہ نہیں بلکہ وہ مکلف ہیں کہ ساری اجتماعیت کو اسلام کے تابع لائیں۔ اسلام کو اگر اجتماعی شعبوں سے بے دخل کردیا جائے تووہ وقت آجاتا جب گھر اور مسجد میں بھی اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔ ۱۹۳۶ء سے اخوان نے سماجی خدمات اور معاشرتی اصلاح کی سرگرمیوں کے ساتھ بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ حسن البناءؒ ملوک و حکام کو باور کرا رہے تھے کہ اسلامایک مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی ہے۔ انہوں نے حکومت سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اسلامی ملک مصر میں لادینی نظریات کے تحت دین و ریاست میں جو فاصلے پیدا کر دیے گئے انہیں مٹانا لازم ہے۔ سیکولر ریاستی قوتیں حسن البناءؒ کے اس تصورِ دین کو اپنی موت سمجھتی تھیں۔ چنانچہ ابتدا ہی میں ایک طرف مصری ملوکیت کے کان کھڑے ہوگئے۔ دوسری طرف وہ مغربی قوتیں جنہوں نے نپولین کے حملے سے لے کر برطانوی تسلط تک بڑی محنت سے مصر میں اپنے فکری اور ثقافتی نقوش ثبت کیے تھے ان کو بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ یہ تہذیبی و ثقافتی اور فکری نقوش مٹ جائیں اور مصر کے طاقت و اقتدار کے ایوانوں میں اسلام کی آواز گونجنے لگے۔ نفاذِ شریعت کے مطالبے کے علاوہ دل ابلیس میں اخوان اور امام حسن البناءؒ کے کانٹے کی طرح کھٹکنے کی دوسری وجہ اسرائیل کی مخالفت تھی جسے عربوں کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کردیا گیا تھا۔ ۱۹۴۸ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ میں حسن البناءؒ نے اخوانی دستوں کی خود قیادت کی تھی۔ اخوانی مجاہدوں نے اس جنگ میں شجاعت و بسالت اور استقامت کا جو مظاہرہ کیا اس نے اسرائیل کے سرپرستوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ دارالمرکز العام میں فلسطین کے مسئلے پر ایک کانفرنس میں اخوان کے مرشدِ عام حسن البناءؒ نے اعلان کیا تھا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اخوان المسلمون دس ہزار مجاہد رضاکار فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ یہیں سے گویا طے کرلیا گیا تھا کہ اس تنظیم کو مصرمیں آزادی سے اپنا سیاسی، دعوتی اور اصلاحی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پہلے مغرب پرست شاہ فاروق مہرہ بنا۔ مصر کی خفیہ پولیس کے کارندوں نے ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البناءؒ کو گولی کا نشانہ بنایا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر شہید کر دیے گئے۔

۱۹۴۵ء میں مصر اور سوڈان (اس وقت تک مصر اور سوڈان ایک تھے) کی فوج کے جونیئر افسروں نے حرکۃ الضباط الاحرار (Free Officers Movement) کے نام سے ایک قوم پرست خفیہ تحریک شروع کی جس کا مقصد شاہ فاروق کا تختہ الٹنا تھا۔ مصر کے شاہ فاروق نے قومی خودمختاری اور وقار برطانیہ کے ہاتھ رہن رکھا ہوا تھا۔ اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی تھی۔ اس صورتحال پر فوج کے نوجوان افسر قوم پرستی کے جذبے کے تحت ناخوش تھے اور اخوان دینی غیرت کے سبب ملکی وقار کی اس بے حرمتی پر نالاں تھے۔ یوں دونوں میں ملوکیت کے اس ناسور کے خلاف یکساں منفی جذبات پائے جاتے تھے۔ حرکۃ الضباط الاحرار کے نمایاں اور زیادہ سرگرم افسر اخوان کی افرادی قوت اور معاشرے میں اس کے پھیلتے ہوئے اثرات کو محسوس کررہے تھے۔ اخوان تحریک کے بانی حسن البناءؒ کی شہادت کے پیچھے شاہ فاروق کا خون آلود ہاتھ چھپا ہوا نہیں تھا۔ اس لیے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حکومت کی زبردست کوتاہیوں بلکہ مجہول و مشکوک کردار کی وجہ سے اخوان میں شاہ فاروق سے نفرت کے ابھرتے ہوئے جذبات میں اپنے مرشد کی شہادت پر غم و غصہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ اوپر سید قطبؒ کا ادب کے محاذ پر ایک shining star کے طورپر تذکرہ ہو چکا ہے جو عباس محمود عقاد کی سبد ادب کا ایک مہکتا ہوا پھول اور عقاد کے ادبی معرکوں میں اس کے دفاع میں لڑنے والے ایک جری سپاہی تھے۔ اخوان تحریک سے نظریاتی رشتہ جوڑا تویہاں کے فکری و نظریاتی دستے کے سالار بن گئے۔ پہلے عرب اسرائیل جنگ میں شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اخوان سے ’’فری آفیسرز‘‘ اچھی طرح متعارف ہوگئے تھے۔ ملوکیت مخالف جذبات بھی دونوں میں یکساں تھے۔ دونوں ملکی خودمختاری اور وقار کی بازیابی کے خواہاں تھے۔ اخوان کے اندر جو مخلص مگر کسی قدر جذباتی گروہ ان قوم پرست فوجی افسروں کے بہت قریب ہوگیا تھا سید قطبؒ بھی اس میں نمایاں طور پر شامل تھے۔ یہ اخوانی گروہ ان افسروں میں سے جمال عبدالناصر جیسے لوگوں کی چھپی ہوسِ اقتدار اور خود غرضی کو بھانپ نہ سکا۔ نجیب محفوظ چار سال بعد یعنی ۱۹۴۹ء ان افسروں کے جتھے میں شامل ہوا اور ۱۹۵۲ء کے انقلاب کی قیادت اسی نے کی تھی۔ لیکن جمال عبدالناصر کے مکروہ ارادے اسے نجیب کے تابع نہیں رہنے دے رہے تھے۔ اس نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب جمال ناصر کے اشتراکی نظریات اور حقیقی عزائم اخوان سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔

مایوسی کبھی ہاتھ پاؤں توڑ کر گرا دیتی ہے اور کبھی کسی انتہائی اقدام کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ ان ’’فری آفیسرز‘‘ کی صحیح قومی مقاصد سے بے وفائی کی وجہ سے مذکورہ اخوانی گروہ میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ مرشدِ اول کی شہادت کے بعد حسن الہضیبیؒ منصب ارشاد پر فائز ہوچکے تھے۔ وہ کشیدگی کی زیر سطح لہروں کو محسوس کر رہے تھے۔ وہ انتہا پسندانہ نظریاتی رویے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اصل میں جس مقدس کارواں کا میر کارواں تھے اسے کسی بڑی آزمائش سے بچانے کے خواہاں تھے۔ ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک اخوانی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ناصر کو اخوان المسلمون پر ہاتھ ڈالنے کا بہانہ مل گیا۔ یہاں سے اخوان المسلمون کی تاریخ عزیمت کا ہولناک باب شروع ہوا۔ قہر و جبر کے انتقامی آگ کے شعلے پہلے عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم الطیب، ہنداوی دویر، محمود عبداللطیف جیسی نادرِ روزگار ہستیوں کی طرف لپکے۔ پھر ۲۹ ؍اگست ۱۹۶۶ء کو سید قطبؒ جیسے بے بدل ادیب اور ممتاز دانشور، ماہر تعلیم، مضطرب داعی، مخلص مصلح، عظیم مفکر اور روح پرور مفسر کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔ ہزاروں اخوانی کارکنوں کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ ہزاروں جیلوں کی صعوبتیں سہتے ہوئے اور ایذا و اذیت کے وحشیانہ برتاؤ میں جان سے گزر گئے۔ سیکڑوں کا کیریئر تباہ ہوا اور سیکڑوں کا ٹیلنٹ خاک میں مل گیا۔ بے شمار کی قوم ووطن کے کام آنے والی تخلیقی صلاحیتیں برباد ہوئیں، گھر بار اور کاروبار تباہ ہوئے، ملازمتیں چھنیں، تب سے لے کر اب تک قہر و جبر کا یہ لرزہ خیز باب ۶۶ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ کمیونزم جیسے سفاک نظام میں بھی کسی طبقے کو اپنے عقیدہ و نظریہ کی بناء پر اس قدر طویل عرصہ جوروستم کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا جس قدر چار مسلسل آمریتوں میں اخوان المسلمون کو بنایا گیا ہے۔ اپنے ایمان کی جیسی قیمت اللہ کے ان بندوں کو دینی پڑ رہی ہے ایسی فرعونیوں اور نمرودوں کے دور میں بھی کسی نے نہ چکائی ہوگی۔

اگر اخوان المسلمون نے اپنے کارکنوں کے لیے تربیت کی بھٹی گرم نہ رکھی ہوتی اور تزکیہ نفس، اصلاح باطن، تعمیر اخلاق اور تشکیل کردار کی صنعت گری نہ کی ہوتی تو عزم و ہمت اور عزیمت و صبر کی یہ داستان رقم نہ ہو پاتی۔ یہ تعلق باللہ اور توکل علی اللہ کی کیفیات ہی ہیں جو ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتیں۔ زخم کھا کر گرتے ہیں اور گر کر اٹھتے ہیں۔ وحشی صفت آمریت کی کمان میں تیر ختم ہو جاتے ہیں مگر تیر کھانے والے سینے ختم نہیں ہوتے۔ اخوان المسلمون کے منصب قیادت کے لیے گویا معیار ہی یہ ٹھہر گیا کہ کس نے سب سے زیادہ قید کاٹی اور مظالم برداشت کیے۔ مصر کی آمریت کا نیا چہرہ عبدالفتاح السیسی پانچ سال پہلے تاریخ کے اسٹیج پر فرعونی کردار ادا کرنے کے لیے نمودار ہوئے۔ خیر و شر کی کشمکش کی اس داستان میں نئے خونیں اوراق کا اضافہ ہونے لگا۔ السیسی نے بربریت، خساست اور شقاوت میں ناصر کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ منتخب صدر محمد مرسی کی معزولی پر احتجاج کے لیے ہزاروں اخوانی کارکن مسجد رابعہ العداویہ کے جوار میں میدان میں اور سڑکوں اور چوراہوں پر جمع تھے۔ مصری فوج اور پولیس نے ان پر یلغار کردی۔ صرف گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان پر بلڈوزر اور ٹینک چڑھا دیے۔ چھ سات سو افراد ایک ہی وقت میں ایک ہی مقام پر لقمہ اجل بنے۔ ساڑھے چار ہزار زخمی ہوئے۔ منتخب پارلیمنٹ کے ارکان سمیت اخوان المسلمون کی ساری قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ مرشد عام محمد بدیع کا جواں سال بیٹا یہاں شہید ہوا۔ معروف اخوانی رہنما محمد البلتاجی کی جوان بیٹی اسماء بلتاجی یہیں مظلومیت کا استعارہ بنی۔ ہزاروں کارکن جیلوں میں ٹھوس دیے گئے۔ معمر اور مریض مرشد عام محمد بدیع تو اپنے منصب کی وجہ سے نشانہ انتقام ہیں۔ لیکن سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف جو اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے منصب ارشاد سے مستعفی ہو چکے تھے ان کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جیل کی تکلیفوں نے ان کی حالت صحت کو مزید دگرگوں کر دیا تھا۔ گزشتہ سال کے اواخر ستمبر میں ان کی موت ایک لحاظ سے جیل ہی میں ہوئی۔ کبھی گولیوں کے سامنے سینہ تانے، کبھی تاریک زندانوں میں، کبھی تختہ دار پر، کبھی سیاست کی تنہائیوں میں اور کبھی نااہلی اور کالعدمی کے عدالتی فیصلوں کی زَد میں، کبھی پابندیوں کی لپیٹ میں اور کبھی اندر اور باہر سے پرنفرت پروپیگنڈے کی بوچھاڑ میں، کبھی بڑی عالمی طاقتوں کے غیض و غضب اور کبھی اسرائیل جیسے دائمی دشمن کی ریشہ دوانیوں اور دسیسہ کاریوں کی آندھیوں میں یہی وہ قافلہ ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا:

کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشق       بلاخیز       کا       قافلۂ       سخت جاں!

یہ دوچار برس کی بات نہیں بلکہ ۹۰ سالہ المناک داستان عزیمت ہے۔ اگر اللہ سے تعلق نہ ہو اور یہ شعور نہ ہو کہ لمحوں کی کربلا میں اٹھتے قدم اس کی راہ میں اور اسی کی رضا کے لیے اٹھ رہے ہیں تو ایسی استقامت دکھانا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کے ان سپاہیوں میں سے ہر سپاہی کی کیفیت یہ ہے:

مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ ’لااِلٰہ‘
سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ ’لااِلٰہ‘

حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ

مولانا زاھد الراشدی 

مجلہ/مقام/زیراہتمام: روزنامہ اوصاف، اسلام آباد
تاریخ اشاعت:  ۱۴ جنوری ۲۰۰۰ء


حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زیارت و ملاقات سب سے پہلے ۱۹۸۴ء میں ہوئی تھی جب وہ رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے اور راقم الحروف بھی عمرہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں حرم پاک میں تھا۔ حضرت مولانا ندویؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ محترم سعدی صاحب مرحوم کے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے خالو محترم مفتی محمد اویس خان ایوبیؒ کا مہمان تھا جو اُن دنوں جامعہ ام القریٰ میں زیر تعلیم تھے اور اب وہ میر پور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی ہیں۔

مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا علی میاںؒ (مولانا ندویؒ ) کو زندگی میں پہلی بار وہاں دیکھا بلکہ مولانا ندویؒ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کا موقع بھی ملا اور ان کے بڑھاپے اور ضعف کے پیش نظر انہیں بازوؤں کے حصار میں رکھتے ہوئے ہجوم سے بچانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اور پھر سعدی صاحب مرحوم کے مکان پر دونوں بزرگوں کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔

سید قطب شہید سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی نظر میں

مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ "مصر کے دوران قیام ہی میں کتاب کی دوسری اشاعت کی نوبت آگئی اس موقع پر مصنف کے مخلص دوست اور کتاب کے خاص قدردان ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ مرحوم (سابق استاذ جامع ازہر و پروفیسر اسلامی قانون قاہرہ یونیورسٹی ) نے اپنی کمیٹی " جماعۃ الازھر للنشر والتالیف" کی طرف سے طبع ثانی کی پیش کش کی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس کا موقع تھا کہ مقدمہ کے لیے ایسے موزوں شخص کا انتخاب کیا جائے جو کتاب کے مقصد اور روح پر پورا یقین رکھتا ہو اور اس کا پر جوش وکیل اور داعی ہو، اس مقصد کے لیے موزوں ترین شخصیت سید قطب کی ہوسکتی تھی۔ 

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا تنقیدی اسلوب

محمد رضی الاسلام ندوی

سکریٹری تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند،نئی دہلی
معاون مدیر ،سہ ماہی تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے تصنیفی سرمایہ کا جائزہ لیں تو اس کا قابلِ لحاظ حصہ سیر و سوانح کے موضوع پر نظر آتا ہے۔ ان کا سلسلۂ ’تاریخِ دعوت و عزیمت‘ اپنی مثال نہیں رکھتا۔ اس میں امت کے مجدّدین و مصلحین کے احوال،دینی و علمی خدمات، تجدیدی کارناموں اور داستانِ عزیمت کو بڑے مؤثر اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘ ہندوستان کی تاریخ کے ایک عہد پر روشنی ڈالتی ہے اور سید شہیدؒ کے داعیانہ و مجاہدانہ کارناموں کا بھر پور انداز میں تعارف کراتی ہے۔ان کے علاوہ سیر و سوانح کے موضوع پر مولانا کی اور بھی متعدد تصانیف ہیں، مثلاً صحبتے با اہلِ دل، حیاتِ عبد الحیؒ،مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی دینی دعوت وغیرہ۔

مفکر اسلام سید قطب شھید

سید قطب شہید 
سید قطب کا اصل نام سید ہے جبکہ قطب ان کا خاندانی نام ہے۔ ان کے آباء واجداد اصلاً جزیرۃ العرب کے رہنے والے تھے۔ ان کے خاندان کے ایک بزرگ وہاں سے ہجرت کرکے بالائی مصر کے علاقے میں آباد ہو گئے تھے۔ سید قطب کی پیدائش 9 اکتوبر 1906ء میں مصر کے ضلع اسیوط کے موشا نامی گاؤں میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں اور بقیہ تعلیم قاہرہ یونیورسٹی سے حاصل کی اوربعد میں یہیں پروفیسر ہو گئے۔ کچھ دنوں کے بعد وزارت تعلیم کے انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے اور اس کے بعد ’’اخوان المسلمین‘‘سے وابستہ ہو گئے اور آخری دم تک اسی سے وابستہ رہے
سید قطب شہید مصری معاشرے کے اندر ایک ادیب لبیب کی حیثیت سے ابھرے۔ سیاسی اور اجتماعی نقاد کے عنوان سے انہوں نے نام پیدا کیا۔ ان کی اہم ترین تصنیف قرآن کریم کی تفسیر ہے جو ’’فی ظلال القرآن‘‘کے نام سے عربی میں لکھی 
گئی ہے اور اس کا ترجمہ بشمول اردو کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔


جمال ناصر کے تاریک دور آمریت میں کئی بار آپ کو پابند سلاسل کیا گیا۔ اخوان المسلمین سے آپ کی وابستگی مصری حکومت کو بہت کھٹکتی تھی۔

حسن البنّا شھید ، بانی جماعت "الاخوان المسلمون"


محمد قمرالزمان شہید ؒ (1952ء - 2015ء )

محمد قمرالزمان شہید ؒ  (1952ء - 2015ء ) 



بنگلہ دیش میں ظلم کی سیاہ رات کب تک مسلط رہے گی۔ اللہ ہی اس راز کو جانتا ہے مگر فطرت کا تقاضا ہے کہ رات کتنی ہی لمبی ہو، سحر طلوع ہو کر رہتی ہے۔ تین سال قبل 11 اور 12 اپریل (2015ئ) کی درمیانی شب بنگلہ دیش کے مقامی وقت کے مطابق 10 بجے عظیم مجاہد، مردِ درویش، عالم اور سیاسی رہنما جناب محمد قمر الزمان کو ڈھاکہ کی سنٹرل جیل میں تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ابھی آسمان کی بلندیوں پر قمرِ فلک طلوع نہیں ہوا تھا کہ اس ماہتابِ ارضی کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ وہ اپنے ماں باپ اور خاندان کا ایک روشن ستارہ تھا۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ہر لیڈر اور کارکن کے نزدیک ایک چمکتا ہوا چاند تھا اور سچی بات یہ ہے کہ اس کی روشنی بنگلہ دیش تک محدود نہیں تھی، وہ پوری دنیا میں اپنی کرنوں سے نور بکھیرتا تھا۔ اللہ اس کی قبر کو منور فرمائے اور اسے جنت کی وسعتوں میں بدل دے۔ آمین! 
محمد قمر الزمان شہید پر بھی اسی طرح لغو اور جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے، جس طرح جماعت کے تمام رہنماؤں پر لگائے گئے۔ عبدالقادر مُلاّؒ 12 دسمبر 2013ء کو اس منزل سے گزر چکے تھے۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے مولانا اے کے ایم یوسفؒ (9 فروری 2014ئ) اور پروفیسر غلام اعظمؒ (23 اکتوبر2014ئ) اپنی جان کا نذرانہ راہِ حق میں پیش کرکے سرخرو ہو چکے تھے۔ اب یہ سعادت اس عظیم فرزنداسلام کے حصے میں آئی۔ اللہ اس کی شہادت کو قبول فرمائے اور ظلم کی دیوی کو اپنی گرفت میں لے لے۔ وہ قادر مطلق دیرگیر ہے، مگر ظالم اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے۔ قمر الزمان کے بیٹے اقبال حسن نے اپنے باپ کی شہادت پر کہا تھا کہ ظلم کے یہ فیصلے ہمارے سر نہیں جھکا سکتے۔ ہم نے اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت میں دائر کر دیا ہے اور وہاں حق و انصاف کے فیصلے ہوں گے۔ عظیم والد کے عظیم بیٹے کا یہ عزم قافلۂ حق کے لیے بہت بڑا پیغامِ عمل اور ہر قسم کے حالات میں پُرامید رہنے کی تلقین کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
راقم کو محمد قمر الزمان سے ذاتی تعلقات اور تعارف کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ انتہائی شائستہ، نرم گو اور مضبوط ارادے اور اعصاب کا مالک تھا۔ جسم مضبوط اور طاقت سے بھرپور، سوچ و فکر پاکیزہ اور قلب و نظر پاکیزہ تر! شہید کی پیدائش ایک دیہاتی علاقے مودی پارہ میں 4 جولائی1952ء کو ہوئی۔ اس زمانے میں یہ گاؤں ضلع میمن سنگھ میں آتا تھا‘ اب نئی تقسیم کے بعد یہ ضلع شیرپور میں واقع ہے۔ اس کا تعلق علاقے کے معروف و معزز مسلم گھرانے سے تھا۔ محمد قمر الزمان نے قریبی گاؤں کامری کالی تولہ کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور پھر ڈھاکہ یونیورسٹی سے 1976ء میں صحافت و ابلاغ عامہ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کی ابتدا سے لے کر آخری مدارج تک قمر الزمان نہ صرف سکالر شب ہولڈر رہا بلکہ اس نے کئی تمغے بھی جیتے۔
دورِ طالب علمی میں قمر الزمان جماعت اسلامی کے ایک رہنما قاضی فضل الرحمن مرحوم کے ذریعے اسلامی جمعیت طلبہ (نیا نام اسلام چھاترو شبر) سے متعارف ہوئے۔ قاضی فضل الرحمن جماعت کے نمایاں بزرگان میں سے تھے۔ بعد میں ان کی بیٹی رشیدہ خاتون جماعت کی طرف سے پارلیمنٹ کی ممبر بھی رہیں۔ قمر بھائی اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شبر) کے مقامی نظم سے لے کر نظامتِ اعلیٰ تک مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ ان پر جس دور میں قتل و تشدد اور آتش زنی کے جرائم کا مرتکب ہونے کے الزامات لگائے گئے‘ اس وقت ان کی عمر 18 سال تھی۔ جھوٹے اور لچر الزامات لگانے والوں کو ذرا شرم نہیں آئی کہ کل اللہ کو وہ کیا جواب دیں گے۔ اور پھر نام نہاد ٹریبونلز اور جعلی عدالتوں کا حال بھی پوری دنیا کے سامنے طشت از بام ہو چکا ہے۔ 
قاضی فضل الرحمن صاحب کی تربیت کے نتیجے میں قمر الزمان نے اوائل عمری ہی میں اپنے پورے خاندان کو بھی تحریک اسلامی سے متعارف و روشناس کرا دیا۔ اپنے دورِ طالب علمی میں قمر الزمان (1974ء سے 1977ء تک) ڈھاکہ کی مقامی جمعیت کے ناظم اور مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ 1977ء سے 1978ء تک وہ جمعیت کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے، جبکہ جلد ہی انہیں قائم مقام ناظم اعلیٰ کی ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔ اس کے بعد وہ دو مرتبہ 1978ء اور 1979ء میں جمعیت کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اپنی نظامت اعلیٰ کے دور میں قمر الزمان نے ملک بھر میں جمعیت کو منظم اور فعال بنایا۔ اس دور میں انہوں نے ایک بہت عظیم یوتھ کیمپ کا انعقاد کیا، جس میں دنیا بھر سے طلبہ تنظیموں اور انجمن ہائے نوجوانان کے نمائندوں کو دعوت دی گئی۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں وہ یوتھ کنونشن آج تک یادگار ہے۔
قمر الزمان نے تعلیم سے فراغت کے بعد شعبۂ صحافت میں قدم رکھا۔ مختلف اخبارات میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد قمر الزمان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ 1980ء میں بنگلہ زبان کے معروف ادبی رسالے ڈھاکہ ڈائجسٹ کے مدیر مقرر ہوئے۔ یہ مجلہ پہلے بھی بہت معروف تھا، مگر ان کی ادارت میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔ 1983ء میں بنگلہ زبان میں عالمی شہرت کے حامل ہفت روزہ ''سونار بنگلہ‘‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ بطور صحافی ان کے بنگلہ دیش ہی میں نہیں، بنگلہ دیش کے باہر بھی عالمی شہرت کی حامل شخصیات سے بہت قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ ان کو دی جانے والی جعلی ٹریبونل سزا پر پورے عالم اسلام ہی نہیں، مشرق و مغرب کے بے شمار اداروں اور نامور شخصیات نے بنگلہ دیشی حکومت اور نام نہاد ٹریبونلز کی شدید ترین مذمت اور اس کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ جو لوگ شہید کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، انہیں اعتراف ہے کہ اس کی شخصیت میں بے پناہ کشش تھی۔ شہید نے پروفیسر غلام اعظم سے خصوصی تربیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے بنگلہ زبان میں بہت اچھی کتب لکھیں۔ 
حسینہ واجد جب دوسری بار برسر اقتدار آئی تو بھارت کے ایما پر اس نے اپنے مخالفین بالخصوص جماعت اسلامی کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے 1971ء کی پٹاری کھولی۔ جعلی ٹریبونلز اور جھوٹے الزامات کا طوفان بدتمیزی برپا کر دیا گیا۔ 29جولائی 2010ء کو محمد قمر الزمان کو انہی جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کرکے ڈھاکہ جیل میں بند کر دیا گیا۔ شروع میں ان پر الزام یہ تھا کہ ان کی تحریروں میں مذہبی منافرت پائی جاتی ہے۔ اسی دوران جماعت کے دیگر قائدین کے ساتھ ان کو بھی جھوٹے الزامات کے تحت جنگی جرائم کا مجرم قرار دیا گیا اور ان پر 2 اکتوبر 2010ء کو فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ محمد قمر الزمان ان جھوٹے الزامات سے ایک لمحے کے لیے بھی گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے۔ اللہ نے قمر الزمان کو بڑا دل گردہ دیا تھا۔ انہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی تو انہوں نے ٹریبونل کے سامنے مسکراتے ہوئے یہ کہا ''جھوٹ کی بنیاد پر دی جانے والی یہ سزا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ نہ ہی یہ سزائیں ہمارا سر باطل کے سامنے جھکا سکتی ہیں‘‘۔ اپنے وکیلوں کے مشورے سے قمر الزمان نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی کے لیے اپیل کی۔ انہیں معلوم تھا کہ سپریم کورٹ سے کیا فیصلہ صادر ہونا ہے۔ اس کے باوجود اتمام حجت کے لیے انہوں نے اپنے وکلا کا مشورہ قبول کر لیا۔ حسب توقع سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کر دی۔
توقعات کے مطابق نظر ثانی کی یہ درخواست بھی مسترد ہو گئی۔ شہید کے وکیل مسٹر اکانڈا نے کہا کہ اب بھی محمد قمر الزمان اپنے بارے میں ذرہ برابر تشویش میں مبتلا نہیں، البتہ انہوں نے بہت دکھ اور کرب کے ساتھ یہ کہا ہے کہ وطن عزیز سے ظالم حکمران اسلام کا نام و نشان مٹانا چاہتے ہیں۔ تحریک اسلامی ان کی آنکھوں میں اس لیے کھٹکتی ہے کہ یہ اس دیس کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے؛ تاہم مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ ان آزمائشوں سے تحریک سرخرو ہو کر نکلے گی اور ظلم کی سیاہ رات ڈھل جائے گی۔ دو مجسٹریٹ جیل میں ان سے 10 اپریل کو ملنے کے لیے آئے اور انہوں نے قافلۂ مودودیؒ و حسن البناؒ کے اس صاحبِ عزیمت راہی کو سمجھایا کہ رحم کی اپیل کر دینی چاہیے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ کہا کہ آپ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا اعتراف کر لیں تو جان بخشی کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔ مرد مومن قمر الزمان اس احمقانہ نصیحت پر کان دھرنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا۔ فرمایا ''بنگلہ دیش کے صدر اور دنیا کی کسی طاقت کے پاس موت و زندگی کے فیصلوں کا اختیار نہیں ہے۔ میں راہِ حق میں جان قربان کرنے کے لیے بالکل تیار ہوں‘‘۔
11 اپریل کو محمد قمر الزمان شہید کے اہل وعیال اور قریبی عزیزوں سے ان کی ملاقات کرائی گئی۔ ان کے بیوی بچوں کے علاوہ دیگر عزیز بھی ملاقات کے لیے آئے۔ کل 21 افراد کو ملاقات کی اجازت ملی۔ ایک گھنٹہ اور دس منٹ سے زائد اس ملاقات میں ایک لمحہ بھی خاندان کو اپنے محبوب قمر الزمان کے پاس ٹھہرنے کی اجازت نہ دی گئی۔ اس آخری ملاقات میں فرمایا ''چند لمحات کے بعد ان شاء اللہ، اللہ کے دربار میں حاضر ہو جاؤں گا اور مجھے اس کی رحمت سے امید ہے کہ وہ رحیم و کریم مجھے اپنی رحمتوں کے سائے میں شہدا کی جماعت میں لے جائے گا۔ میرے اٹھ جانے کے بعد تم میں سے کوئی بھی نہ حوصلہ ہارے، نہ شکوہ شکایت کرے۔ اللہ کے دین کا کام ہم اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں۔ کوئی دنیوی مفاد ہمارے پیش نظر نہیں۔ ہم نے جو سودا کیا ہے اس میں نفع ہی نفع ہے‘‘۔ مرحوم نے اپنے پیچھے بیوہ نور النھار، ایک بیٹی عطیہ نور اور چار بیٹے احمد حسن، حسن امام، اکرام حسن اور اقبال حسن چھوڑے ہیں۔ اللہ ان سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین!

(حافظ محمد ادریس  ، روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 10 اپریل 2018) 

سید نا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی

سید نا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی 


ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی 


سیدنا امام حسینؓ کی زندگی میں مسلمان ریاست کی وسعتوں میں آئے دن اضافہ ہو رہا تھا، جنگی فتوحات نے مسلمانوں کے دن پھیر دیے تھے، ہر جگہ دولت کی بہتات کھلی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیدنا حسینؓ اس صورتِ حال پر فخر کرتے اور اللہ کا شکر بجا لاتے لیکن انھوں نے جیسے ہی محسوس کیا کہ خلافت کے ادارے میں ملوکیت کی پیوندکاری ہونے لگی اور اسلامی ریاست کا مزاج تبدیل ہونے لگا ہے اور اسلامی مملکت کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں تو انھوں نے وہی کچھ کیا جو اسلامی تعلیم کا عین تقاضا ہے اور اپنی قربانی سے اس کو اتنا نمایاں کردیا کہ اب ہزار تاویلوں سے بھی اس کو چھپایا نہیں جا سکتا۔
دْنیا میں کسی شخص سے بھی چاہے وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، شہری ہو یا دیہاتی، اگر یہ پوچھا جائے کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت کون سی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے اور اگر جان نہیں تو جہان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ جہان یعنی دنیا میں بے شمار نعمتیں ہیں۔ مطعومات کی کمی ہے نہ مشروبات کی، ملبوسات کا شمار ممکن ہے نہ باقی اسباب زندگی کا اور اس کے علاوہ موسموں کی نیرنگی، پھولوں کی خوشبو، دریاؤں کا زیروبم، آبشاروں کا گرنا، چشموں کا ابلنا، تودوں کا پگھلنا، گھنگھور گھٹاؤں کا جھوم کر اْٹھنا، پربت پر چھائی ہوئی بادلوں کی چھاؤنی، چیڑوں کے گڑے ہوئے جھنڈے، سرسوں کے پھولے ہوئے کھیت، مسکراتی ہوئی کشت زعفران، گندم کی روپہلی فصل۔ ایسی بے شمار نعمتیں اللہ نے انسان کے لیے پیدا کر رکھی ہیں لیکن ان سب کا تعلق حیاتِ انسانی سے ہے۔
جب تک زندگی ہے تو ایک نعمت سے فائدہ اٹھانے کا امکان باقی ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ہر نعمت بیش بہا ہے لیکن زندگی ان سب سے بڑھ کر انمول ہے۔ اس لیے کوئی شخص بھی بقائمی ہوش و حواس اپنا سر کٹوانا پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس عقدے کا آخر کیا حل ہے کہ جتنے پاکیزہ ترین لوگ اس دنیا میں آئے ہیں اور جن کی عظمتوں سے انسانیت کا نام روشن ہے۔ ان میں سے کوئی شخصیت گزری کہ جس نے کبھی زندگی سے پیار کیا ہو اور جس نے اپنا مقصدِ حیات محض زندہ رہنا قرار دیا ہو۔
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
حالات جدھر آدمی کو کھینچے پھرتے ہیں آدمی اْدھر کو چلتا ہے۔ یہ وہ حیوانی زندگی ہے کہ جو اللہ کی پسندیدہ شخصیتوں کی زندگی سے مختلف ہے۔ وہ زندگی کو اللہ کی نعمت سمجھ کر شکر ادا کرتے ہیں۔ وہ زندگی کو مقصد نہیں بلکہ مقصد حیات کی ادائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جب کہیں مقصد حیات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو مقصد حیات کو بچانے کے لیے زندگی کو قربان کرنا پڑے تو ایک لمحے کے لیے تامل نہیں کرتے۔
سیدنا علیؓ پر جب قاتلانہ حملہ ہوا اور تلوار نیچے تک اْتر گئی اور آپ نے محسوس کیا کہ اب بچنا مشکل ہے تو بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا ’’فزت برب الکعبۃ‘‘ ربّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیا۔ جنگ موتہ میں یکے بعد دیگرے سیدنا زیدبن حارثہؓ، سیدنا جعفر طیارؓ اور عبداللہ بن رواحہؓ زخموں سے گھائل ہو کر گرے تو ہر ایک کی زبان سے یہی جملہ لوگوں نے سْنا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مقصد حیات کے مسافر اپنے سفر کو اس قدر دراز سمجھتے ہیں کہ جس کا ایک سرا دْنیا کے ساتھ وابستہ ہے تو دوسرا آخرت سے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ زندگی کا سفر راستے میں ختم ہوجاتا ہے اور یہ مسافر اپنے سفر پر آگے نکل جاتے ہیں۔
ان کے پیشِ نظر بجز اس کے اور کوئی ارمان نہیں ہوتا کہ یہ زندگی جو اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس دین کی سربلندی کے کام آجائے جو اس سے بھی بڑی نعمت ہے۔ چنانچہ جب اس کا موقع پیدا ہوتا ہے تو وہ اسے اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اعلیٰ اقدار اور انسانیت کی بقاء کے لیے مقصدحیات جسے دوسرے لفظوں میں دین کہا جاتا ہے (اور دین درحقیقت تمام اچھائیوں، تمام حقائق اور تمام صداقتوں کا مجموعہ ہے) سب سے قیمتی چیز ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے جتنے عظیم بندے دنیا میں آئے ہیں۔ چاہے وہ اللہ کے نبی و رسول ہوں یا چاہے اس کے راستے پر چلنے والے لوگ وہ ہمیشہ انسانیت کے سرمائے کی حفاظت اور انسانیت کی بقاء کے لیے ہمیشہ اس راز کو اپنی قربانیوں کے ذریعے منکشف کرتے آئے ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے بھی یہی احسان امت مسلمہ پر کیا اور مسلمانوں پر اس حقیقت کو واضح کیا کہ تمھارا اصل سرمایہ وہ ہے جو اس وقت خطرے میں ہے۔ 



فقہ حنفی کے بانی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، مفتی محمد نعیم


فقہ حنفی کے بانی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ 




آپ زندگی قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت اور علوم نبوی کی خدمت میں بسر ہوئی 
سرورِکونین،رحمۃ لّلعالمین،امام الانبیاء،سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’’اگر علم ثریا کے پاس ہو تو فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر لیں گے‘‘۔سرکار دو عالمﷺ کی اس پیش گوئی کا مصداق عام طور پر علمائے کرام نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کو قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں:’’ابو حنیفہؒ اس حدیث کے حکم میں داخل ہیں۔‘‘امام شافعیؒ فرماتے ہیں:’’النّاسُ عیال لابی حنیفۃ فی الفقہ‘‘ بعد کے سب آنے والے فقہ میں امام ابو حنیفہؒ کے خوشہ چیں ہیں۔‘‘
امام اعظم ابو حنیفہؒ بیک وقت محدّث، فقیہ، مفسر، مجتہد ہونے کے ساتھ زہد و تقویٰ اور خشیّتِ الٰہی کے پیکر تھے۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو اس وقت سرکارِ دو عالم ﷺ کو پردہ فرمائے ہوئے ستّر برس ہو چکے تھے۔ امام اعظمؒ کی یہ خوش نصیبی تھی کہ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد صحابۂ کرامؓکی زیارت کی اور ان کی صحبت سے سرفراز ہوئے،جو اس وقت حیات تھے۔ بے شک، اللہ والوں کی صحبت آدمی کو ولایت کے درجے پر پہنچا دیتی ہے، پھر صحابۂ کرامؓ کی صحبت جو دربارِ رسالت ﷺ سے فیض یاب ہوئے ہوں،ان کے متعلق کیا کہنا۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ ؒ کو دیگر ائمہ پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپؒ نے صحابۂ کرامؓ کی ایک کثیر تعداد کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو منور کیا،جن میں حضرت انس بن مالکؓ،حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت عبداللہ بن اوفیٰؓ، حضرت واثلہ بن اسقعؓ وغیرہ شامل ہیں۔حضرت امام جعفر صادقؒ سے بھی آپؒ کا رشتہ انتہائی عقیدت و احترام کا تھا،آپؒ کے تلامذہ میں حضرت فضیل بن عیاضؒ،حضرت ابراہیم بن ادہمؒ،حضرت بشر حافیؒ اور حضرت دائود طائیؒ جیسے صاحبِ علم و عمل اور اپنے وقت کے امام و ولی شامل ہیں۔
امام ابو حنیفہؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ والد کے انتقال کے بعد آپ پر کاروباری بوجھ بڑھ گیا اور تجارت میں مشغول ہو گئے،مگر امام اعظمؒ کے دل میں تحصیلِ علم کی لگن تھی۔یہ جذبہ اگر سچا ہو تو کامیابی حاصل کرنا دشوار تو ہو سکتا ہے،مگرناممکن نہیں۔اخلاص شامل ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ 
امام اعظمؒ حصولِ علم کی منازل طے کرتے ہوئے عظیم مقام پر پہنچے۔آپ نے جن اساتذہ کی صحبت اختیار کی اور علمی فیض حاصل کیا،ان میں وقت کے فقہاء اورمحدثین شامل تھے کہ’’جن کی ایک نظر ہی طالب علم کو عالم بنا دے‘‘۔ آپ کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ حقوق العباد کے معاملے میںاللہ سے بے حد ڈرنے والے تھے۔ زہد و تقویٰ اسی کا نام ہے،اور یہ وہ مقام ہے کہ جسے اختیار کرنے والا اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔
ایک موقع پر نبی کریمﷺ نے اپنا دستِ اقدس حضرت سلمان فارسیؓ کے شانے پر رکھا اور فرمایا: ’’اگر ایمان یا علم ثریا (کہکشاں) کے پاس بھی ہوا تو کچھ لوگ یا ایک شخص اہل فارس (فارسی نسل) کے لوگوں میں سے اسے ضرور حاصل کرلے گا۔(بخاری و مسلم)اس بات میں کوئی شک نہیںکہ امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں کوئی بھی شخص آپ جیسا علمی مقام و مرتبہ نہیں رکھتا تھا، بلکہ آپؒ کے شاگردوں کے مبلغ علم کو بھی کوئی نہیں پہنچ سکا اور یہ نبی کریمﷺ کا کھلا معجزہ ہے کہ آپ ﷺ نے مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی بات کی حقیقت پر مبنی خبردی۔ 
امام اعظم ابو حنیفہؒ بلاشبہ مینارہ علم و کمال تھے اور حدیث مبارکہ ’’اللہ تعالیٰ جس شخص کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے،اسے دین کی فقاہت اور سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘ آپ پر پوری طرح صادق آتی ہے ۔اللہ عزوجل نے حضرت امام ابوحنیفہؒ کو انتہائی فہم و فراست سے نوازا تھا۔ امام صاحب نے جب یہ دیکھا علم ایک جگہ یا ایک فرد کے پاس نہیں ہے اور وہ اطرافِ عالم میں منتشر ہو چکا ہے،اب ضرورت ہے کہ اسے یک جا کیا جائے، ورنہ وہ ضائع ہو جائے گا یا پھر اس کی اصل صورت بدل جائے گی۔ 
امام ابوحنیفہؒ کے پیش نظر یہ بھی تھا کہ ایک صدی میں بڑا تغیّرواقع ہو چکا ہے اور آئندہ ادوار میں یہ تغیّر رک نہیں سکتا، اس لیے اس علم کو یک جا کرنا چاہیے، قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے ایسا دستورالعمل مرتّب کرنا چاہیے جس میں تمام چیزوں کی رعایت ہو، اس لیے اسلامی قانون کی تدوین اور اس کے اصول متعین کرنا ضروری ہوا۔
امام ابو حنیفہؒ کے پیش نظر یہ بھی تھا کہ آج سے پہلے جو اہلِ علم و فضل تھے، وہ آج نہیں ہیں اور زمانہ تیزی سے انحطاط کی طرف جا رہا ہے، آج دنیا میں جو اہلِ علم وفضل ہیں، ان سے استفادہ کرنا چاہیے، جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان کے آثار سے استفادہ کرنا چاہیے اور اسے اصول و ضوابط کے تحت مرتّب کرنا چاہیے۔
امام ابو حنیفہؒ نےاپنی درس گاہ اس نہج پر ترتیب دی اور فقہِ اسلامی کی تدوین کا کام شروع کر دیا۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لیے تدوین کا کام رکا بھی،لیکن پھر پابندی سے اس کام کو جاری رکھا اور بالآخر اس کام کی تکمیل ہوئی اور امّت مسلمہ کے لیے ایک عظیم سرمایہ علم و عمل محفوظ ہوا۔
امامِ اعظم ابوحنیفہؒ نے اپنا فقہی مسلک اپنے اصحاب اور نام ور حنفی فقہاء کے درمیان مشاورت کے ذریعے مدوّن کیا تھا۔امام ابوحنیفہؒ کی قائم کردہ اس فقہی کمیٹی یا مجلسِ بحث و تحقیق کی تعداد چالیس بتائی جاتی ہے۔ یہی اجتماعی اجتہاد اور شورائیت،فقہِ حنفی کا امتیاز اور اس کی خصوصیت ہے، جس کی وجہ سے اسلامی دُنیاکی اکثریت اس کی اتباع کرتی ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کو تدوینِ فقہ اور اسلامی دستور کی باقاعدہ تشکیل میں اوّلین راہی کا مقام حاصل ہے اور ائمہِ اسلام کے تمام فقہی ذخیروں میں صرف اور صرف فقۂ حنفی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ کسی شخصی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ چالیس علما کی جماعت شوریٰ کی ترتیب دادہ ہے اور حنفی مسلک، گویا شورائی مسلک ہے۔
اس میں شک نہیں کہ فقہ حنفی کا اصل سرچشمہ وہ فقہی ذخیرہ ہے، جو حضرت حمادؒ نے حضرت ابراہیم نخعیؒ سے ورثے میں پایا، مگرحضرت حمادؒ کی شاگردی کے باوجود امام ابوحنیفہؒ دوسرے اساتذہ سے بھی استفادہ کرتے رہے، حضرت حمادؒ کی وفات کے بعد بھی امام اعظمؒ نے پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں کیا،بلکہ ہمیشہ اسلاف کے اس قول پر عمل کیا۔’’جب تک آدمی طلبِ علم جاری رکھتا ہے، تو وہ عالِم بنا رہتا ہے اور جب اپنے آپ کو عالِم تصور کر نے لگتا ہے، تو جاہل بن جاتا ہے‘‘۔
امام ابوحنیفہؒ نے مجلسِ تدوین فقہ انتہائی غور و خوض کے بعد کوفہ میں قائم کی، کیوںکہ کوفہ میں عربی و عجمی تہذیبیں موجود تھیں اور قسم قسم کے مسائل وہاں اٹھتے رہتے تھے، اہلِ علم بھی بہت تھے۔جب کہ عرب کے دوسرے شہروں کی تہذیب خالص عربی اور سادہ تھی۔ ایک قانون ساز کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کی تہذیبوں کا بنظرِ غائر مطالعہ کرے اور ان سے پیدا شدہ مسائل و ضروریات کے لیے معمولی باتوں کو بھی نظرانداز نہ کرے۔
امام صاحبؒ نے فقہ کی تدوین کے لیے ایک مجلسِ شوریٰ جو مجلسِ مباحثہ تھی،مرتّب فرمائی، امام صاحب نے اپنے مسلک کو مشورے پر رکھا اور مجلس سے کٹ کر فقہ کو اپنی ذات پر موقوف نہیں رکھا۔ 
آپ نے تدوینِ فقہ کے لیے اپنے ہزاروں شاگردوں میں سے چالیس ماہرِ فن اشخاص منتخب فرمائے،یہ سب وہ حضرات تھے جو درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے اور پھر ایک خصوصی مجلس قائم تھی جو عمومی مجلس کے کام کو دوبارہ جانچتی۔ اس خصوصی مجلس کے اراکین میں امام ابویوسفؒ،امام زفرؒ، دائود طائیؒ، احمد بن عمروؒ، یوسف بن خالدؒ، یحیٰی بن زائدہؒ، امام محمدؒ، عبداللہ بن مبارکؒ اور خود امام ابوحنیفہؒ شامل تھے۔
وکیع بن الجرّاح جو اپنے وقت کے مشہور و معروف محدّث تھے،امام صاحب کی مجلس تدوین فقہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں،امام ابوحنیفہؒ کے کام میں کس طرح غلطی باقی رہ سکتی تھی ،جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ان کی مجلسِ تدوین فقہ میں ابو یوسف، زفر، محمد جیسے لوگ جو ماہر قیاس و اجتہاد ہیں، موجود ہیں اور یحیٰی بن زکریا بن زائدہ، حفص بن غیاث، حبان بن علی، مندل بن علی جیسے ماہرینِ حدیث ان کے ساتھ تھے۔ 
قاسم بن معین جیسے لغت اور عربی کے ماہر موجود تھے اور دائود بن نصیر طائی، فضیل بن عیاض جیسے صاحبِ زہد و تقویٰ موجود تھے۔ جس مجلس کے ایسے اراکین ہوں گے،وہ غلطی نہیں کر سکتے، کیوںکہ غلطی کی صورت میں صحیح امرکی طرف یہ لوگ لانے والے تھے۔ امام ابوحنیفہؒ کی پوری زندگی قال اللہ اورقال الرسولﷺ کہتے گزری،اپنے اعمال و اقوال میں انہوں نے اللہ کے احکام اور سنتِ رسول ﷺ کی پابندی کو ہمیشہ مدنظر رکھا۔یہی وجہ ہے کہ ہردور کے علما ، محدثین اور اہل علم و دانش نے آپ کی جلالت شان کا اعتراف کیا ہے۔

( مصنف : مفتی محمد  نعیم،  روزنامہ جنگ ، تاریخ اشاعت 1 اپریل 2018) 

سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبدالعزيز بن باز کے سوانح حیات

سابق مفتی اعظم  سعودی عرب شیخ  عبدالعزيز بن باز کے سوانح حیات 


شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کی عظیم المرتبت شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ مملکت سعودی عرب کے مفتی اعظم، دارالافتاء کے رئیس اور بے شمار اسلامی اداروں کے سربراہ تھے۔ عصر حاضر میں شیخ ابن باز سے عالم اسلام کو جتنا فائدہ پہنچا ہے شاید ہی کسی اور عالم دین سے پہنچا ہو۔ پوری دنیا میں ان کے مقررہ کردہ داعی، ان کے مبعوث علماء کرام، اور ان کے قائم کردہ مدارس و اسلامی مراکز کام کر رہے ہیں اور اسلام کی شمع کو دنیا بھر میں روشن کئے ہوئے ہیں۔

شیخ ابن باز کی زندگی پر جب انسان نظر ڈالتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ وہ حیات، مستعار کی 90 سے زائد بہاریں دیکھنے کے باوجود انتہائی مصروفِ کار تھے اور ان کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے دین کو پھیلانے کے لئے وقف تھا۔ اسلام سے متعلق تقریبا تمام ہی موضوعات پر شیخ کی تصانیف موجود ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا:
"میں نے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ (خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد کے والدِ گرامی) کے دور سے لکھنا شروع کیا۔ اللہ کی قسم! میں نے آج تک جو بھی لفظ لکھا یا لکھوایا، وہ صرف اللہ کی رضا کے لئے تھا" ۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جتنی پذیرائی ان کی کتب کو حاصل ہوئی ہے، عصر حاضر میں کسی مؤلف کے حصے میں کم ہی آئی ہے۔
اپنے تمام علمی اور ادارتی مناصب کے ساتھ ساتھ انہوں نے بے شمار مسائل پر قرآن و سنت کی روشنی میں فتوے دئیے ہیں۔ ان فتوؤں میں انہوں نے ہمیشہ محدثین کے مسلک کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے فتوے مختلف کتابوں اور جرائد میں چھپتے رہتے ہیں، حال ہی میں مجلہ "الدعوۃ" نے ان کے فتاویٰ کو کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ یاد رہے کہ شیخ مرحوم کے مطبوعہ فتاویٰ اب تک گیارہ ضخیم جلدوں میں سمائے ہیں اور ابھی سینکڑوں فتاویٰ ایسے ہیں جو زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئے ۔۔ ذیل میں مفتی مرحوم کے مختصر سوانح حیات اور بعض علمی کارناموں کو بالاختصار پیش کرنے کی ہم سعادت حاصل کر رہے ہیں (حسن مدنی)
آپ کا پورا نام عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن محمد بن عبداللہ آلِ باز ہے۔
مقام و تاریخ پیدائش
آپ 12 ذی الحجہ 1330 (1911ء) کو ریاض میں پیدا ہوئے۔ آپ بینا اور صحیح النظر تھے۔ لیکن 1346ھ کو آپ کی آنکھوں میں کوئی بیماری لاحق ہو گئی، جس کی وجہ سے آپ کی نظر کمزور ہو گئی اور 1350ھ کو آپ کی نظر کلی طور پر ختم ہو گئی اور آپ نابینا ہو گئے۔
حصولِ تعلیم
آپ نے بالغ ہونے سے پیشتر ہی قرآنِ کریم کا حفظ مکمل کر لیا، پھر آپ ریاض کے علماء کے پاس تحصیل علم کے لئے کوشاں ہو گئے اور جب آپ نے شرعی علوم اور لغت میں نمایاں مقام حاصل کر لیا تو 1357ھ (1938ء) کو محکمہ قضاء میں آپ کا تقرر کر دیا گیا۔ طلبِ علم کا یہ سلسلہ وفات تک جاری رہا اور آپ نے اس سے اپنا ناطہ نہیں توڑا۔ آپ رات دن تحقیق و تدریس کے کام میں مشغول رہتے مختلف حکومتی عہدوں/ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ اس سے غافل نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے علوم میں آپ کی بصیرت ار پختگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ علومِ حدیث کے سلسلے میں آپ نے خاص اہتمام کیا۔ اس سلسلے میں آپ کو اس قدر مہارت اور رسوخ حاصل ہوا کہ کسی حدیث کی صحت و سقم کے بارے میں آپ کا فیصلہ انتہائی معتبر سمجھا جاتا اور یہ وہ علمی مقام ہے جو خاص طور پر موجودہ زمانے میں کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آپ کی تحریروں اور فتوؤں میں اس کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں، کیونکہ آپ ہمیشہ انہی اقوال اور آراء کو اختیار کرتے ہیں جن کی تائید کسی مسلمہ دلیل سے ہوتی ہو۔
شیوخ اور اَساتذہ
آپ نے بہت سے علماء سے علم حاصل کیا جن میں سے چند معروف اساتذہ کے نام یہ ہیں:
(1)الشیخ محمد بن عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن حسن بن الشیخ محمد بن عبدالوہاب (قاضی ریاض)
(2) الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن بن حسن بن الشیخ محمد بن عبدالوہاب
(3) الشیخ سعد بن حمد بن عتیق (قاضی ریاض)
(4) الشیخ حمد بن فارس (سیکرٹری خزانہ)
(5) سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم بن عبداللطیف آلِ الشیخ جو تاحیات مملکتِ سعودی عرب کے مفتی رہے۔ آپ نے عرصہ دس سال (1347ھ تا 1357ھ) ان کے حلقہ درس کا التزام کیا اور ان سے تمام شرعی علوم سیکھے۔
(6) الشیخ سعد وقاص بخاری جو مکہ مکرمہ کے علماء میں سے تھے۔ ان سے آپ نے 1355ھ میں علمِ تجوید سیکھا۔
علمی خدمات
جب آُ 1357ھ (1938ء) کو منطقہ خَرَج میں قاضی کے عہدہ پر فائز ہوئے، اس وقت سے لے کر آج تک اشاعتِ علم کے لئے آپ مسلسل تدریسی حلقوں کا باقاعدہ التزام کرتے رہے۔ خرج میں آپ منگل اور جمعہ کے علاوہ ہفتہ کے دیگر تمام دنوں میں علمی مجالس کا اہتمام کرتے۔ طلباء کی ایک جماعت مستقل طور پر آپ کی خدمت میں موجود رہتی تھی، جنہوں نے اپنے آپ کو حصولِ علم کے لئے وقف کر رکھا تھا، ان میں سے چند معروف سعودی اور پاکستانی شاگردوں کے نام یہ ہیں:
(1)الشیخ عبداللہ کنھل
(2) الشیخ راشد بن صالح الخنین
(3) الشیخ عبدالرحمٰن بن ناصر البراک
(4) الشیخ عبداللطیف بن شدید
(5) الشیخ عبداللہ بن حسن بن قعود
(6) الشیخ عبدالرحمٰن بن جلال
(7) الشیخ صالح بن ہلیل
(8) ڈاکٹر ربیع بن ہادی المدخلی
(9) پروفیسر یوسف کاظم، اسلام آباد
(10) مولانا بشیر احمد گوہڑوی، قصور
(11) حافظ عبدالرحمٰن مدنی پرنسپل شریعت کالج، لاہور
(12) حافظ ثناءاللہ مدنی، سربراہ (پاکستانی) سعودی مشن
(13) ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، ناظم جامعہ عربیہ، کراچی
(14) ڈاکٹر صہیب حسن، سربراہ ادارۃ القرآن، لندن
(15) پروفیسر عبدالسلام کیلانی، یوگنڈا
(16) شیخ الحدیث مولانا حسن جان سابق MNA، پشاور
(17) پروفیسر عبداللہ کاکاخیل، اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد
(18) پروفیسر ابراہیم خلیل، نیروبی (کینیا)
(19) حافظ محمد سلفی، مہتمم جامعہ ستاریہ، کراچی
(20) ڈاکٹر صدیق الحسن خان، مجلس تحقیق اسلامی، لاہور
1372ھ کو آپ ریاض منتقل ہو گئے، جہاں آپ ریاض کے معہدِ علمی میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور جب 1373ھ کو کلیۃ الشریعہ کا قیام عمل میں آیا تو وہاں آپ فقہ، حدیث اور توحید کے علوم پڑھاتے رہے۔ اس کے بعد 1381ھ کو آپ کا تبادلہ مدینہ منورہ ہو گیا اور آپ کو مدینہ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ جب آپ ریاض منتقل ہوئے تھے تو آپ نے ریاض کی بڑی جامع مسجد میں ایک تدریسی حلقے کی بنیاد رکھی، یہ تدریسی حلقہ آج بھی قائم ہے اور وہاں درس و تدریس کا کام بدستور جاری ہے، تاہم ریاض میں قیام کے آخری سالوں میں آپ کی مصروفیات بڑھ گئیں اور اس تدریسی حلقے کا دائرہ عمل ہفتے کے بعض ایام تک محدود ہو کر رہ گیا۔ طلباء کی ایک کثیر تعداد اس علمی حلقے سے وابستہ رہی۔
1381ھ (1961ء) کو مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور 1390ھ سے لے کر 1395ھ تک چانسلر کی حیثیت سے جب آپ کا قیام مدینہ منورہ میں رہا تو اس دوران آپ نے مسجدِ نبوی شریف میں تدریس کا ایک حلقہ قائم کیا۔ علاوہ ازیں جب آپ اپنے مستقل رہائشی مقام سے عارضی طور پر کسی اور مقام کی طرف نقل مکانی کرتے جیسا کہ موسم گرما میں آپ کا قیام طائف وغیرہ میں ہوتا تھا تو وہاں بھی آپ اس تدریسی حلقے کو بدتور قائم رکھتے۔
تصنیفات
(1) فتح الباری شرح صحیح بخاری پر کتاب الحج تک مفید تعلیقات
(2) فتوؤں کا مجموعہ اور مختلف موضوعات پر مقالے (جن کی اب تک 11 جلدیں شائع ہو چکی ہیں)
(3) الفوائد الجلية فى المباحث الفرضية
(4) التحقيق والايضاح لكثير من مسائل الحج والعمرة والزيارة (توضیح المناسک) حج، عمرہ اور زیارت کے بہت سے مسائل کی وضاحت اور تحقیق۔
(5) التحذير من البدع ، یہ چار مفید مقالوں پر مشتمل ہے: (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش منانے کا مسئلہ (ب) شبِ معراج منانے کا حکم (ج) نصف شعبان کی رات یعنی شبِ براءت منانے کا حکم (د) حجرہ نبوی کے خادم شیخ احمد کے من گھڑت اور جھوٹے خوابوں کی وضاحت۔
(5) زکوٰۃ اور روزوں سے متعلق دو جامع اور مختصر رسالے۔
(6) العقيده الصحيحة وما يضادها (صحیح عقیدہ کی تعلیم اور جو کچھ اس کے برعکس ہے)
(7) وجوب العمل بسنة الرسول صلى الله عليه وسلم و كفر من انكرها (سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل واجب ہے اور جو اُس کا انکار کرے وہ کافر ہے)
(8) الدعوة الى الله و اخلاق الدعاة (دعوت الی اللہ ۔۔ اور داعیوں کے اوصاف)
(9) وجوب تحكيم شرع الله و نبذ ما خالفه (اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا واجب ہے اور جو بات اس کے خلاف ہو وہ ناقابل قبول ہے)
(10) حكم السفور والحجاب و نكاح الشغار (بے پردگی، حجاب اور وٹے سٹے کے نکاح کا حکم)
(11) نقد القومية العربية (عربی قومیت پر مبنی نظریات پر تنقید)
(12) الجواب المفيد فى حكم التصوير (تصویر کے مسئلہ پر مفید وضاحتیں)
(13) الشیخ محمد بن عبدالوہاب ۔۔ آپ کی دعوت اور سیرت
(14) نماز سے متعلق تین رسائل: (الف) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت (ب) باجماعت نمازس پڑھنے کا وجوب (ج) جب نمازی رکوع سے اٹھے تو ہاتھ کہاں رکھے؟
(15) جو شخص قرآن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی کرے، اس کے متعلق اسلام کا حکم کیا ہے؟
(16) سورج کے متحرک، زمین کے ساکن ہونے اور ستاروں تک پہنچنے کے سائنسی نظریات پر نقلی اور عقلی دلائل
(17) اقامة البراهين على من استغاث بغير الله و صدق الكهنة و العرافين (جو شخص اللہ کے سوا کسی سے فریاد رسی کرے اور جو کاہنوں اور نجومیوں کو سچا سمجھے اس کے کفر پر واضح دلائل)
(18) الجهاد فى سبيل الله
(19) الدروس الهمة لعامة الامة (اُمت کے عام لوگوں کے لئے ضروری اسباق)
(20) فتاوىٰ تتعلق باحكام الحج والعمرة والزيارة (حج، عمرہ اور زیارت کے احکام پر فتاویٰ)
(21) وجوب لزوم السنة والحذر من البدعة (سنت کو لازم پکڑنے اور بدعت سے بچنے کا وجوب)
۔۔ یہ تو تھیں آپ کی وہ تصنیفات جن کی طباعت مکمل ہو چکی ہیں اور ان کے علاوہ آپ نے بعض کتابوں پر تعلیقات بھی لکھی ہیں، جو یہ ہیں:
(1) بلوغ المرام
(2) تقريب التهذيب للحافظ ابن حجر (غیر مطبوعہ)
(3) تحفة الاخيار ببيان جملة نافعة مما ورد فى الكتاب والسنة الصحيحة من الادعية والاذكار (نیک لوگوں کو کتاب و سنت میں مفید ادعیہ و اذکار کا خوبصورت ہدیہ)
(4) التحفة الكريمة فى بيان كثير من الاحاديث الموضوعة والسقيمة (متعدد موضوع و سقیم احادیث کے تذکرہ پر مبنی تحفہ)
(5) تحفة اهل العلم والايمان بمختارات من الاحاديث الصحيحة والحسان (اہل علم و ایمان کو منتخب صحیح و حسن احادیث پر مبنی عظیم تحفہ)
علمی خدمات کے علاوہ سماحۃ الشیخ کی دیگر مصروفیات
(1) شاہی فرمان کے ذریعے آپ کو ادارہ برائے بحوث علمیہ، افتاء و دعوت و ارشاد کے چئیرمین کے منصب پر فائز کیا گیا۔ واضح رہے کہ اب چند سال قبل ادارہ دعوت و ارشاد سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کو منتقل کر دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں آپ درج ذیل مناصب پر کام کر رہے تھے:
(2) هيئة كبار العلماء (کبار علماء کے بورڈ) کے سربراہ
(3) شعبہ بحوثِ علمیہ اور افتاء کی مستقل کمیٹی کے بھی سربراہ
(4) رابطہ عالم اسلامی مجالس تاسیس کے ممبر بھی ہیں اور چئیرمین بھی
(5) مکہ مکرمہ میں مساجد کی اعلیٰ عالمی مجلس کے چئیرمین
(6) رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی فقہی اسلامی اکیڈمی کے چئیرمین
(7) مملکتِ سعودی عرب کی دعوتِ اسلامیہ کی اعلیٰ کمیٹی کے ممبر کے طور پر
آپ کی علمی اور دینی سرگرمیوں کا دائرہ مذکورہ خدمات تک ہی محدود نہیں بلکہ آپ علمی مجلسوں میں شرکت فرما کر اہم موضوعات پر لیکچر دیتے اور علمی، تنقیدی تبصروں میں شرکت بھی فرماتے۔ عام و خاص محفلوں میں شریک ہو کر قراءت اور تنقیدی تبصروں کے ساتھ ان کی رونق کو دوبالا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف اور نهى عن المنكر کے فریضے کا بھی خاص اہتمام کرتے اور یہ ایک ایسا وصف ہے جو آپ کی شخصیت کا ایک لازمی حصہ بن چکا تھا۔
آپ کی وفات سے عالم اسلام اور ایک عظیم علمی اور فقہی بصیرت کی حامل شخصیت سے محروم ہو گیا۔ یہ آپ کی ذاتِ ستودہ صفات کا اثر تھا کہ سعودی عرب میں اب تک بیسیوں منکرات کے دروازے بند تھے۔ سعودی فرمانروا آپ کے فرامین کو حکم ناموں کی سی اہمیت دیتے، اور آپ سے ملاقات کے لئے خود حاضری دیا کرتے۔ واقعتا آپ کا مقام مفتی اعظم کے سرکاری منصب سے بہت بلند و بالا تھا۔
سعودی عوام میں آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ہر شخص انہیں سماحة الوالد کے عقیدت بھرے خطاب سے یاد کرتا تھا۔ اور آپ کا نام سنتے ہی احترام و عقیدت کے جذبات سے مغلوب ہو جاتا۔ آپ کے نام سے کسی مسئلے پر آ جانے والا فتویٰ سعودی عرب میں حرفِ آخر سمجھا جاتا اور حکومتیں اس کے مطابق قانون سازی کرنے پر مجبور ہوتیں۔ واقعتا آپ ایسے مخلص، پرہیزگار اور نمونہ اسلاف شخصیت کے چلے جانے سے سعودی عرب میں بالخصوص اور عالم اسلام میں بالعموم عظیم خلا پیدا ہو گیا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے علمی ذخیرے سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے اور آپ کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین!                (ادارہ "محدث")
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ ﴿٢٦﴾ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ﴿٢٧﴾...رحمن

( ماہنامہ  محدث ، تاریخ اشاعت : جون 1999ء )