اخوان المسلمون: عزیمت کی ۹۰ سالہ داستان

منیر احمد خلیلی 

پندرہ روزہ معارف،  کراچی 
اسلامک ریسرچ اکیڈمی ،  کراچی 
تاریخ اشاعت : 16 جولائی 2018 

حسن البناءؒ کی تحریک الاخوان المسلمون کی تاسیس کو گزرے مارچ میں ۹۰ برس ہوگئے ہیں۔ ۱۹۲۸ء میں قائم ہونے والی عالم عرب کی اس بے نظیر دینی تحریک جسے معروف معنوں میں سیاسی جماعت بھی کہا جاسکتا ہے، کے پس منظر میں ہمیں خلافتِ عثمانیہ کا شکستہ ڈھانچہ پڑا نظر آتا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت کے ادارے کا انہدام ہوا تو اس پر ماتمی نوحے برصغیر پاک و ہند میں بھی بلند ہوئے اور مصر میں بھی سنائی دے رہے تھے۔ مصر میں اس ماتم کی فضا میں احیاء خلافت کی ایک مہین سی کوشش ہوئی تھی لیکن اس ادارے کو ختم کرنے والوں نے خوب سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا تھا کہ اب اسے زندہ کرنے کی کوئی کوشش بارآور نہیں ہوگی۔ چنانچہ مصر میں ہونے والی یہ کوشش جلد ہی دم توڑ گئی تھی۔ مصر کو پوے عالم عرب میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ علم و عرفان، تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف، شعر و ادب، طباعت و اشاعت یہاں تک کہ فلم اور ڈرامہ کی صنف تک کے جو چشمے سارے شرقِ اوسط کو سیراب کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں ان کا منبع مصر ہی تھا۔ ترک مدتوں تک میدانِ جنگ کے معرکوں میں الجھے رہے چنانچہ علمی و فکری روشنی ترکی سے زیادہ مصر ہی میں پھیلی رہی۔ فاطمی عہد کی یادگار الازہر جیسی قدیم اور عظیم علمی درسگاہ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت سے مصر کے ماتھے کا جھومر چلی آرہی ہے۔ مصر میں مغرب پرستی، لبرل ازم اور سیکولرازم کی ان لہروں کا تذکرہ آگے آرہا ہے جنہوں نے گویا ایک دینی تحریک کی برپائی کو وقت کی پکار بنا دیا تھا۔ انیسویں صدی کے وسطِ اول میں مصر کے فکری افق پر جدیدیت کا طلوع ہونے والا ایک بڑا نام رفاعۃ طہطاوی ہے۔ طہطاوی مصری قوم پرست، مصنف، معلم، مترجم اور احیائے علوم کے علمبردار تھے۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج کی طرز پر ایک ادارے کی بنیاد ڈالی تھی تاکہ مغربی علوم کے عربی میں اور عربی علم وادب کے مغربی زبانوں میں ترجمے کیے جائیں۔ وہ روشن خیالی اور سیکولرازم کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ ان لوگوں نے لبرل ازم اور سیکولر ازم کے جو بیج بوئے تھے حسن البناءؒ کے اخوان کی تشکیل کے وقت تک وہ اگ آئے تھے اور ان کی فصل خوب پھل پھول لارہی تھی۔ اس چمن کے بڑے پیڑوں میں ہمیں مفتی محمد عبدہٗ، احمد لطفی سید، احمد امین، قاسم امین، محمد مصطفی ہیکل، طٰحٰہ حسین، عباس محمود العقاد، توفیق الحکیم اور عبدالمتعال الصعیدی کے علاوہ خالد احمد خالد کے نام خاص طور پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ شام میں شیخ عبدالرحمن الکوا کبی بھی اسی عرصے کے اس فکر کے نمائندہ بنے تھے۔ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط تک فرانسیسی ادب، ثقافت اور آزادی نسواں کے تصورات کی لذت آشنا نازلی فاضل کے قائم کردہ ’’صالون‘‘ میں مفتی محمد عبدہٗ سمیت علم و ادب کی علامتیں سمجھی جانے والی بڑی بڑی شخصیات اس ثقافت کی دلدادگی کا ثبوت دینے پر حاضر ہوتی تھیں۔ نازلی کے اس صالون نے لبرل فکر کی آبیاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے آگے پیچھے مصر میں جو بہت بڑے ادبی معرکے برپا تھے ان میں اس صدی کے جاحظ شمار ہونے والے مصطفی صادق الرافعی اور عباس محمود عقاد کے مابین عرصہ تک جاری رہنے والے معرکے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی سید قطب شہیدؒ اس وقت تک سیکولر نظریات کے نامور ادیب عباس محمود عقاد کے خاص ’شاگردوں‘ اور عقاد کے دفاع میں ’لڑنے‘ والے قلم کاروں میں شمار ہوتے تھے۔ عباس محمود عقاد سید قطبؒ کو بہت قدر و اہمیت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ دونوں کا یہ تعلق سید قطبؒ کے حسن البناءؒ کی تحریک کا ایک عظیم سالار بننے تک برقرار رہا تھا۔ معروف داعی اور مبلغ شیخ علی طنطاوی کا تعلق تھا تو شام سے لیکن عباس محمود عقاد اور مصطفی صادق الرافعی کے ادبی معرکوں میں وہ الرافعی کی اسلامی فکر کے موئید اور ان کے حق میں معرکہ آرا تھے۔ یوں گویا بعد میں دین حق کی یکساں آواز بن جانے والے دونوں نامور ادیب، سید قطب اور علی طنطاوی، اپنے ’استادوں‘ کے لشکری بن کر ایک دوسرے کے خلاف بھی صف آراء رہے۔

خلافت کے اِلغا کے بعد ادب کے محاذ کے علاوہ مذہبی اور سیاسی افکار کے میدان میں بھی بڑی گرما گرمی پیدا ہوگئی تھی۔ عثمانی خلافت کے خاتمے کے اگلے ہی سال الازہر کے ایک شیخ علی عبدالرزاق (۱۹۶۶۔۱۸۸۸) کی کتاب ’الاسلام و اصول الحکم‘ نے دین و سیاست اور ریاست اور دین کے تعلق کے بارے میں ایک زبردست جدل اٹھا دیا تھا۔ یہ گویا الازہر کے اندر سے سیکولرازم کے حق میں اٹھنے والی ایک اور مضبوط آواز تھی۔ بعض لوگوں کاخیال تھا کہ شیخ علی عبدالرزاق نے شیخ محمد عبدہٗ کے ایما اور انگیخت پر یہ کتاب لکھی تھی۔ شیخ علی عبدالرزاق کا رجحان کچھ صوفی ازم کی طرف تھا اور کچھ نمایاں اثرات اس فکر کے تھے جس کا ظہور حالیہ عرصے میں ہمارے ہاں اس بیانیے کی صورت میں ہوا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ سیاست اور دین دو مختلف دائرے ہیں۔ مذہب کو سیاست میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔اسلام فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ فرد کی اصلاح اور تزکیہ و تربیت کی ایک خدائی اسکیم ہے۔ خلافت کے نام پر مذہب کے اجتماعی زندگی کے دائروں اور اداروں تک پھیلاؤ کی کتاب و سنت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگرچہ ایک روایت ہے کہ زندگی کے آخری عرصے میں شیخ علی عبدالرزاق نے اپنی اس متنازع کتاب میں پیش کیے گئے خیالات سے رجوع کرلیا تھا۔ ان کی کتاب کے رد میں ۱۹۲۶ء میں شیخ علامہ محمد الخضر حسین کی کتاب ’نقص کتاب الاسلام و اصول الحکیم‘ اور اسی سال مفتی مصر محمد بخیت المطیعی کی ’حقیقۃ الاسلام و اصول الحکم‘ اور عبدالرزاق سنھوری کی کتاب ’اصول الحکم فی الاسلام‘ منصہ شہود پر آئیں۔ الازہر نے شیخ علی کے ان نظریات کی بنا پر ان کی ازہری مشیخت واپس لے لی تھی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس کتاب کی وجہ سے اسلامی اور لبرل اور سیکولر فکر کے درمیان برپا کشمکش میں شدت آگئی تھی۔ اس کشمکش کا آغاز اصل میں اسی وقت ہوگیا تھا جب انیسویں صدی کے وسطِ آخر (۱۸۹۵ء) میں وطن پارٹی (الحزب الوطنی) کی تاسیس ہوئی تھی۔ اس پارٹی کا منشور ہی لادینی سیاست پر مبنی تھا۔

دین کے معاملے میں اس وقت سیاسی قیادت ہی جہل اور بے حسی کا شکار نہیں تھی بلکہ مجموعی دینی فراست پر بھی گہرا جمود طاری تھا۔ نوجوان حسن البناءؒ نے حلقہ ہائے صوفی و ملا کی ایک ایک زنجیر ہلائی۔ ایک ایک کے درِ دل پر دستک دی، ایک ایک کے کانوں میں اذانیں دیں، ایک ایک کو بیداری کے لیے جھنجھوڑا۔ لیکن ان حلقوں پر چھایا ہوا سکوتِ مرگ نہ ٹوٹا۔ دوسری طرف اسلام مخالف قوتیں اپنے مغربی آقاؤں کی سرپرستی میں مسلسل پیش قدمی کر رہی تھیں۔ مارچ ۱۹۲۸ء تک کے یہ وہ حالات جنہوں نے حسن البناءؒ کو دین کے دفاع میں تنہا اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے ایک نئی تحریک کا آغاز کیا اور ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ ابتدا میں یہ تحریک ایک دعوتی، تبلیغی اور اصلاحی پروگرام کے ساتھ متحرک ہوئی لیکن اس کے اسلامی فہم کی رو سے اسلام ایک کامل اور مثالی نظامِ زندگی ہے جس کی تعلیمات اور اصول و قواعد فرد کی نجی اور عائلی زندگی سے لے کر تہذیب و تمدن، معیشت و معاشرت اور سیاست و ریاست سمیت ہر گوشہ حیات کے لیے ہیں۔ یہ اصول و قواعد اور تعلیمات مسلمانوں کا اختیاری معاملہ نہیں بلکہ وہ مکلف ہیں کہ ساری اجتماعیت کو اسلام کے تابع لائیں۔ اسلام کو اگر اجتماعی شعبوں سے بے دخل کردیا جائے تووہ وقت آجاتا جب گھر اور مسجد میں بھی اجنبی بن کر رہ جاتا ہے۔ ۱۹۳۶ء سے اخوان نے سماجی خدمات اور معاشرتی اصلاح کی سرگرمیوں کے ساتھ بھرپور سیاسی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ حسن البناءؒ ملوک و حکام کو باور کرا رہے تھے کہ اسلامایک مکمل ضابطۂ حیات اور نظامِ زندگی ہے۔ انہوں نے حکومت سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کر دیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اسلامی ملک مصر میں لادینی نظریات کے تحت دین و ریاست میں جو فاصلے پیدا کر دیے گئے انہیں مٹانا لازم ہے۔ سیکولر ریاستی قوتیں حسن البناءؒ کے اس تصورِ دین کو اپنی موت سمجھتی تھیں۔ چنانچہ ابتدا ہی میں ایک طرف مصری ملوکیت کے کان کھڑے ہوگئے۔ دوسری طرف وہ مغربی قوتیں جنہوں نے نپولین کے حملے سے لے کر برطانوی تسلط تک بڑی محنت سے مصر میں اپنے فکری اور ثقافتی نقوش ثبت کیے تھے ان کو بھی یہ گوارا نہیں تھا کہ یہ تہذیبی و ثقافتی اور فکری نقوش مٹ جائیں اور مصر کے طاقت و اقتدار کے ایوانوں میں اسلام کی آواز گونجنے لگے۔ نفاذِ شریعت کے مطالبے کے علاوہ دل ابلیس میں اخوان اور امام حسن البناءؒ کے کانٹے کی طرح کھٹکنے کی دوسری وجہ اسرائیل کی مخالفت تھی جسے عربوں کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست کردیا گیا تھا۔ ۱۹۴۸ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ میں حسن البناءؒ نے اخوانی دستوں کی خود قیادت کی تھی۔ اخوانی مجاہدوں نے اس جنگ میں شجاعت و بسالت اور استقامت کا جو مظاہرہ کیا اس نے اسرائیل کے سرپرستوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ دارالمرکز العام میں فلسطین کے مسئلے پر ایک کانفرنس میں اخوان کے مرشدِ عام حسن البناءؒ نے اعلان کیا تھا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے اخوان المسلمون دس ہزار مجاہد رضاکار فراہم کرنے کی ذمہ داری لیتی ہے۔ یہیں سے گویا طے کرلیا گیا تھا کہ اس تنظیم کو مصرمیں آزادی سے اپنا سیاسی، دعوتی اور اصلاحی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ پہلے مغرب پرست شاہ فاروق مہرہ بنا۔ مصر کی خفیہ پولیس کے کارندوں نے ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو حسن البناءؒ کو گولی کا نشانہ بنایا۔ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر شہید کر دیے گئے۔

۱۹۴۵ء میں مصر اور سوڈان (اس وقت تک مصر اور سوڈان ایک تھے) کی فوج کے جونیئر افسروں نے حرکۃ الضباط الاحرار (Free Officers Movement) کے نام سے ایک قوم پرست خفیہ تحریک شروع کی جس کا مقصد شاہ فاروق کا تختہ الٹنا تھا۔ مصر کے شاہ فاروق نے قومی خودمختاری اور وقار برطانیہ کے ہاتھ رہن رکھا ہوا تھا۔ اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی کی تھی۔ اس صورتحال پر فوج کے نوجوان افسر قوم پرستی کے جذبے کے تحت ناخوش تھے اور اخوان دینی غیرت کے سبب ملکی وقار کی اس بے حرمتی پر نالاں تھے۔ یوں دونوں میں ملوکیت کے اس ناسور کے خلاف یکساں منفی جذبات پائے جاتے تھے۔ حرکۃ الضباط الاحرار کے نمایاں اور زیادہ سرگرم افسر اخوان کی افرادی قوت اور معاشرے میں اس کے پھیلتے ہوئے اثرات کو محسوس کررہے تھے۔ اخوان تحریک کے بانی حسن البناءؒ کی شہادت کے پیچھے شاہ فاروق کا خون آلود ہاتھ چھپا ہوا نہیں تھا۔ اس لیے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حکومت کی زبردست کوتاہیوں بلکہ مجہول و مشکوک کردار کی وجہ سے اخوان میں شاہ فاروق سے نفرت کے ابھرتے ہوئے جذبات میں اپنے مرشد کی شہادت پر غم و غصہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ اوپر سید قطبؒ کا ادب کے محاذ پر ایک shining star کے طورپر تذکرہ ہو چکا ہے جو عباس محمود عقاد کی سبد ادب کا ایک مہکتا ہوا پھول اور عقاد کے ادبی معرکوں میں اس کے دفاع میں لڑنے والے ایک جری سپاہی تھے۔ اخوان تحریک سے نظریاتی رشتہ جوڑا تویہاں کے فکری و نظریاتی دستے کے سالار بن گئے۔ پہلے عرب اسرائیل جنگ میں شانہ بشانہ لڑتے ہوئے اخوان سے ’’فری آفیسرز‘‘ اچھی طرح متعارف ہوگئے تھے۔ ملوکیت مخالف جذبات بھی دونوں میں یکساں تھے۔ دونوں ملکی خودمختاری اور وقار کی بازیابی کے خواہاں تھے۔ اخوان کے اندر جو مخلص مگر کسی قدر جذباتی گروہ ان قوم پرست فوجی افسروں کے بہت قریب ہوگیا تھا سید قطبؒ بھی اس میں نمایاں طور پر شامل تھے۔ یہ اخوانی گروہ ان افسروں میں سے جمال عبدالناصر جیسے لوگوں کی چھپی ہوسِ اقتدار اور خود غرضی کو بھانپ نہ سکا۔ نجیب محفوظ چار سال بعد یعنی ۱۹۴۹ء ان افسروں کے جتھے میں شامل ہوا اور ۱۹۵۲ء کے انقلاب کی قیادت اسی نے کی تھی۔ لیکن جمال عبدالناصر کے مکروہ ارادے اسے نجیب کے تابع نہیں رہنے دے رہے تھے۔ اس نے زمامِ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب جمال ناصر کے اشتراکی نظریات اور حقیقی عزائم اخوان سے پوشیدہ نہ رہے تھے۔

مایوسی کبھی ہاتھ پاؤں توڑ کر گرا دیتی ہے اور کبھی کسی انتہائی اقدام کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ ان ’’فری آفیسرز‘‘ کی صحیح قومی مقاصد سے بے وفائی کی وجہ سے مذکورہ اخوانی گروہ میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ مرشدِ اول کی شہادت کے بعد حسن الہضیبیؒ منصب ارشاد پر فائز ہوچکے تھے۔ وہ کشیدگی کی زیر سطح لہروں کو محسوس کر رہے تھے۔ وہ انتہا پسندانہ نظریاتی رویے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اصل میں جس مقدس کارواں کا میر کارواں تھے اسے کسی بڑی آزمائش سے بچانے کے خواہاں تھے۔ ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ایک اخوانی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ناصر کو اخوان المسلمون پر ہاتھ ڈالنے کا بہانہ مل گیا۔ یہاں سے اخوان المسلمون کی تاریخ عزیمت کا ہولناک باب شروع ہوا۔ قہر و جبر کے انتقامی آگ کے شعلے پہلے عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت، ابراہیم الطیب، ہنداوی دویر، محمود عبداللطیف جیسی نادرِ روزگار ہستیوں کی طرف لپکے۔ پھر ۲۹ ؍اگست ۱۹۶۶ء کو سید قطبؒ جیسے بے بدل ادیب اور ممتاز دانشور، ماہر تعلیم، مضطرب داعی، مخلص مصلح، عظیم مفکر اور روح پرور مفسر کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔ ہزاروں اخوانی کارکنوں کی مظلومانہ شہادت ہوئی۔ ہزاروں جیلوں کی صعوبتیں سہتے ہوئے اور ایذا و اذیت کے وحشیانہ برتاؤ میں جان سے گزر گئے۔ سیکڑوں کا کیریئر تباہ ہوا اور سیکڑوں کا ٹیلنٹ خاک میں مل گیا۔ بے شمار کی قوم ووطن کے کام آنے والی تخلیقی صلاحیتیں برباد ہوئیں، گھر بار اور کاروبار تباہ ہوئے، ملازمتیں چھنیں، تب سے لے کر اب تک قہر و جبر کا یہ لرزہ خیز باب ۶۶ سال پر پھیلا ہوا ہے۔ کمیونزم جیسے سفاک نظام میں بھی کسی طبقے کو اپنے عقیدہ و نظریہ کی بناء پر اس قدر طویل عرصہ جوروستم کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا جس قدر چار مسلسل آمریتوں میں اخوان المسلمون کو بنایا گیا ہے۔ اپنے ایمان کی جیسی قیمت اللہ کے ان بندوں کو دینی پڑ رہی ہے ایسی فرعونیوں اور نمرودوں کے دور میں بھی کسی نے نہ چکائی ہوگی۔

اگر اخوان المسلمون نے اپنے کارکنوں کے لیے تربیت کی بھٹی گرم نہ رکھی ہوتی اور تزکیہ نفس، اصلاح باطن، تعمیر اخلاق اور تشکیل کردار کی صنعت گری نہ کی ہوتی تو عزم و ہمت اور عزیمت و صبر کی یہ داستان رقم نہ ہو پاتی۔ یہ تعلق باللہ اور توکل علی اللہ کی کیفیات ہی ہیں جو ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتیں۔ زخم کھا کر گرتے ہیں اور گر کر اٹھتے ہیں۔ وحشی صفت آمریت کی کمان میں تیر ختم ہو جاتے ہیں مگر تیر کھانے والے سینے ختم نہیں ہوتے۔ اخوان المسلمون کے منصب قیادت کے لیے گویا معیار ہی یہ ٹھہر گیا کہ کس نے سب سے زیادہ قید کاٹی اور مظالم برداشت کیے۔ مصر کی آمریت کا نیا چہرہ عبدالفتاح السیسی پانچ سال پہلے تاریخ کے اسٹیج پر فرعونی کردار ادا کرنے کے لیے نمودار ہوئے۔ خیر و شر کی کشمکش کی اس داستان میں نئے خونیں اوراق کا اضافہ ہونے لگا۔ السیسی نے بربریت، خساست اور شقاوت میں ناصر کے ریکارڈ بھی توڑ دیے۔ منتخب صدر محمد مرسی کی معزولی پر احتجاج کے لیے ہزاروں اخوانی کارکن مسجد رابعہ العداویہ کے جوار میں میدان میں اور سڑکوں اور چوراہوں پر جمع تھے۔ مصری فوج اور پولیس نے ان پر یلغار کردی۔ صرف گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ ان پر بلڈوزر اور ٹینک چڑھا دیے۔ چھ سات سو افراد ایک ہی وقت میں ایک ہی مقام پر لقمہ اجل بنے۔ ساڑھے چار ہزار زخمی ہوئے۔ منتخب پارلیمنٹ کے ارکان سمیت اخوان المسلمون کی ساری قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔ مرشد عام محمد بدیع کا جواں سال بیٹا یہاں شہید ہوا۔ معروف اخوانی رہنما محمد البلتاجی کی جوان بیٹی اسماء بلتاجی یہیں مظلومیت کا استعارہ بنی۔ ہزاروں کارکن جیلوں میں ٹھوس دیے گئے۔ معمر اور مریض مرشد عام محمد بدیع تو اپنے منصب کی وجہ سے نشانہ انتقام ہیں۔ لیکن سابق مرشد عام محمد مہدی عاکف جو اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے منصب ارشاد سے مستعفی ہو چکے تھے ان کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ جیل کی تکلیفوں نے ان کی حالت صحت کو مزید دگرگوں کر دیا تھا۔ گزشتہ سال کے اواخر ستمبر میں ان کی موت ایک لحاظ سے جیل ہی میں ہوئی۔ کبھی گولیوں کے سامنے سینہ تانے، کبھی تاریک زندانوں میں، کبھی تختہ دار پر، کبھی سیاست کی تنہائیوں میں اور کبھی نااہلی اور کالعدمی کے عدالتی فیصلوں کی زَد میں، کبھی پابندیوں کی لپیٹ میں اور کبھی اندر اور باہر سے پرنفرت پروپیگنڈے کی بوچھاڑ میں، کبھی بڑی عالمی طاقتوں کے غیض و غضب اور کبھی اسرائیل جیسے دائمی دشمن کی ریشہ دوانیوں اور دسیسہ کاریوں کی آندھیوں میں یہی وہ قافلہ ہے جس کے بارے میں اقبالؒ نے کہا تھا:

کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشق       بلاخیز       کا       قافلۂ       سخت جاں!

یہ دوچار برس کی بات نہیں بلکہ ۹۰ سالہ المناک داستان عزیمت ہے۔ اگر اللہ سے تعلق نہ ہو اور یہ شعور نہ ہو کہ لمحوں کی کربلا میں اٹھتے قدم اس کی راہ میں اور اسی کی رضا کے لیے اٹھ رہے ہیں تو ایسی استقامت دکھانا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ کے ان سپاہیوں میں سے ہر سپاہی کی کیفیت یہ ہے:

مردِ سپاہی ہے وہ، اس کی زرہ ’لااِلٰہ‘
سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ ’لااِلٰہ‘