مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کا تنقیدی اسلوب

محمد رضی الاسلام ندوی

سکریٹری تصنیفی اکیڈمی، جماعت اسلامی ہند،نئی دہلی
معاون مدیر ،سہ ماہی تحقیقات اسلامی ،علی گڑھ

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے تصنیفی سرمایہ کا جائزہ لیں تو اس کا قابلِ لحاظ حصہ سیر و سوانح کے موضوع پر نظر آتا ہے۔ ان کا سلسلۂ ’تاریخِ دعوت و عزیمت‘ اپنی مثال نہیں رکھتا۔ اس میں امت کے مجدّدین و مصلحین کے احوال،دینی و علمی خدمات، تجدیدی کارناموں اور داستانِ عزیمت کو بڑے مؤثر اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘ ہندوستان کی تاریخ کے ایک عہد پر روشنی ڈالتی ہے اور سید شہیدؒ کے داعیانہ و مجاہدانہ کارناموں کا بھر پور انداز میں تعارف کراتی ہے۔ان کے علاوہ سیر و سوانح کے موضوع پر مولانا کی اور بھی متعدد تصانیف ہیں، مثلاً صحبتے با اہلِ دل، حیاتِ عبد الحیؒ،مولانا محمد الیاسؒ اور ان کی دینی دعوت وغیرہ۔

ان کتابوں میں مولانا نے متعلقہ شخصیات کا جامع تعارف کرایا ہے،ان کے خاندانی اور ذاتی احوال و کوائف بیان کیے ہیں،ان کی علمی و دینی، دعوتی و تبلیغی، اصلاحی و تجدیدی اور دیگر خدمات پر روشنی ڈالی ہے ،معاشرہ پر ان کے کتنے اثرات مرتب ہوئے ؟ اورامت کو ان سے کتنا فائدہ پہنچا؟اس کا تجزیہ کیا ہے۔ ان تصانیف میں مولانا ایک کام یاب اور ماہر سوانح نگار کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ وہ کسی بھی موضوع کے تمام پہلوؤں کا اس طرح تجزیہ کرتے ہیں کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔

مولانا نے سوانح نگاری کے دوران عموماً متعلقہ شخصیات کی حیات اور خدمات کے ایجابی اور مثبت پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے اور ان کی خامیوں، کوتاہیوں اور منفی پہلوؤں کو نظر انداز کیا ہے۔بعض حضرات نے اسے مولانا کی سوانح نگاری کا ایک نقص قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سوانح نگار کو کسی شخصیت کا تجزیہ غیر جانب دار ہو کر کرنا چاہیے۔جس طرح وہ اس کی خوبیاں، کارنامے اور محاسن بیان کرے ، اسی طرح اس کی ذمہ داری ہے کہ اگر اسے اس میں کوئی خامی اور منفی پہلو پائے تو اسے بھی نمایاں کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی حیثیت اصلاً ایک داعی ٔ اسلام اور مصلح کی ہے۔ ان کی تمام تحریروں میں، جن میں سوانحی تحریریں بھی شامل ہیں، ان کی یہ حیثیت نمایاں ہے۔کسی شخصیت پر لکھتے ہوئے انھوں نے اس کی خامیاں تلاش کرنے اور کم زوریاں نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی ہے،بلکہ اس کے مثبت پہلوؤں ہی کو اجاگر کیا ہے۔اس چیز کو مولانا نے اپنی ’افتاد طبع‘ قرار دیا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ مصنف کا عام اندازِ نگارش اور تصنیف و تالیف کا نہج شروع سے تعمیری، مثبت اور غیر مجادلانہ رہا ہے اور اختلافی مسائل اور لفظی نزاعات سے اس نے ہمیشہ اجتناب کیا ہے اور جہاں اس کو یہ خدمت انجام دینی پڑی اسے وقتی اور ضمنی طور پر انجام دیا اور وہ جلد اپنے مزاج اور معمول کے مطابق اصولی اور مقصدی مباحث و مسائل کی طرف واپس ہو گیا۔‘‘

[عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح، ابو الحسن علی ندوی،دار عرفات، گوئن روڈ، لکھنؤ،طبع دوم ۱۹۸۰ئ،ص۲۳] 

اس مضمون میں مولانا کی ان تحریروں کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں انھوں نے بعض شخصیات اور ان کے افکار پر تنقید کی ہے۔ یہ تحریریں ہمیں ایک نئے تنقیدی اسلوب سے متعارف کراتی ہیں ۔ان کی خوبی یہ ہے کہ ان میں مؤرّخانہ استناد اور زبان کی شگفتگی کے ساتھ اظہار و بیان میں متانت،سنجیدگی اور شائستگی بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔شخصیت کوئی بھی ہو، مولانا نے اس کا پورا احترام ملحوظ رکھا ہے،لیکن یہ احترام اظہارِ حق میں مانع نہیں ہوا ہے۔انھوں نے متعلقہ شخصیت کی فکر میں جو انحراف محسوس کیا اسے بغیر کسی لاگ لپیٹ کے پیش کرنا اپنا فریضہ سمجھا ہے۔

مولانا کا تنقیدی اسلوب ان کی جن کتابوں میں بہت نمایاں ہے ،ان میں ’مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کش مکش‘ کو امتیازی مقام حاصل ہے۔اس کتاب میں وہ مغربی تہذیب کے زبردست ناقد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ترکی، مصر، ایران، تونس، الجزائر،لیبیا اور دیگر مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کے درمیان برپا ہونے والی کش مکش کا انھوں نے بھر پور تجزیہ کیا ہے اورجن مسلم شخصیات نے ان ممالک میں مغربی افکار و نظریات کو رواج دینے کی کوشش کی ہے اور اس معاملے میں اہم کردار انجام دیا ہے،ان پر زبردست تنقید کی ہے۔

بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جن مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کے درمیان زبردست معرکہ برپا ہواان میں سر فہرست ترکی ہے۔اس معرکہ میں مغربیت کا سپہ سالار کمال اتاترک تھا۔اس نے ترکی سے اسلامیت کے تمام آثار کو ختم کرنے اور اس کو مغربی رنگ دینے کی کوشش کی اور اس میں وہ کام یاب بھی ہوا۔ مولانا نے اتاترک کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

’’ کمال اتاترک کی قیادت میں ترکی نے نا مذہبیت(سیکولرزم)، اپنے ماضی سے انحراف، بلکہ بغاوتِ شدید و جذباتی مغربیت اور عسکری آمریت کا جو رخ اختیار کیا، اس کے وجوہ و اسباب سمجھنے کے لیے اس تحریک و رجحان کے فکری و سیاسی قائد اور ترکی جدید کے معمارِ اعظم کمال اتاترک کے ذہنی ارتقائ، فکری نشو و نما اور اس کی مزاجی کیفیت کے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ جمہوریت و عوامیت کے ادّعاء کے باوجود وہ ممالک جو کسی فوجی آمر کے قبضۂ تصرف میں آجا تے ہیں وہ بہت حد تک اس کی شخصیت و مزاج کا عکس بن کر رہ جاتے ہیں اور ان کی جدید تشکیل کو سمجھنے کے لیے ان آمرین(Dictators) اور ان کے عناصرِ ترکیبی کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔….ترکی قوم کو جلد سے جلد مغربی اقوام کے رنگ میں رنگ دینے اور مکمل طور پر ان کا ایسا ہم رنگ بنا دینے کے لئے،جس کے بعد کوئی امتیاز نہ رہے، اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس کو خلافِ قانون قرار دیا اور ہیٹ کا استعمال لازمی کر دیا اور اس کے بارے میں اتنی شدّت برتی کہ گویا اس سے بڑھ کر کوئی اصلاح اور ترکی قوم کی زندگی اور عزت کے لئے کوئی شرط نہ تھی۔ یہ ہیٹ کی وہ خوں ریز جنگ تھی جس نے جنگِ صلیبی کی شکل اختیار کرلی۔ ….کمال اتاترک نے واقعۃً قوم پر فتح پائی، ملک کو سیکولر(نا مذہبی) اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا، جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی، دین و سیاست میں تفریق ہو گئی اور یہ فیصلہ کر لیا گیاکہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ہر شخص اپنے لیے کسی مذہب کا انتخاب کر سکتا ہے، بغیر اس کے کہ سیاست میں بھی اس کو دخل ہو، خلافت کے ادارہ کو ختم کر دیا گیا، شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانونِ شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے سوئزرلینڈ کا قانونِ دیوانی، اٹلی کا قانونِ فوج داری اور جرمنی کا قانون بین الاقوامی تجارت نافذ کیا گیا اور پرسنل لا کو یورپ کے قانونِ دیوانی کے مطابق و ما تحت کردیا،دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلافِ قانون قرار دے دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے،عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہوگیا،ہیٹ کا استعمال لازمی قرار پایا، غرض کہ کمال اتاترک نے ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کے ختم کر دیا اور قوم کا نقطۂ نظر ہی بدل دیا۔‘‘

[مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کش مکش،مولانا سید ابوالحسن علی ندوی،مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ،۲۰۰۳ئ،طبع پنجم، ص۷۳۔۸۱] 

اس کتاب کا ایک مفصّل باب مصر پر ہے۔وہاں کی جن شخصیات نے مغربی تہذیب و معاشرت اور مغربی فکر و فلسفہ سے مرعوبیت کی بنا پر مغربیت کو فروغ دیا ہے،مولانا نے ان کی خوب خبر لی ہے اور ان کی فکر کا تجزیہ کرکے اس کے تارو پود بکھیر دیے ہیں۔مثلاً شیخ محمد عبدہ جدیدمصر کی ایک مشہور شخصیت ہیں، جن کے معاشرہ پر گہرے اثرات مرتّب ہوئے ہیں۔ان کے بارے میں مولانا نے لکھا ہے:

’’جہاں تک شیخ محمد عبدہ کا تعلق ہے تو اس اعتراف کے ساتھ کہ انھوں نے اسلام کی مدافعت، نظامِ تعلیم کی اصلاح اور جدید نسل کو دین سے مانوس کرنے کے سلسلے میں بڑی مفید خدمت انجام دی، اس واقعہ کا اظہارضروری معلوم ہوتا ہے کہ وہ عالمِ عربی میں تجدّد کے ابتدائی علم برداروں میں تھے۔ انھوں نے اسلام اور بیسویں صدی کی زندگی اور معاشرہ میں مطابقت پیدا کرنے کی پر زور دعوت دی۔ ان کے خیالات اور تحریروں میں مغربی اقدار سے گہرا تاثر پایا جاتا ہے اور وہ اسلام کی ایسی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ ان اقدار کے ساتھ میل کھانے لگے۔ اسی طرح وہ فقہ اور احکامِ شریعت کی ایسی تشریح و تاویل کی کوشش میں نظر آتے ہیں جس سے تمدنِ جدید کے مطالبات کی زیادہ سے زیادہ تکمیل ہو سکے۔ اس لحاظ سے ان میں اور سر سید احمد خاں میں بہت کم فرق نظر آتا ہے۔ مفتی محمد عبدہ کا یہ میلان ان کی تفسیر، فتاویٰ اور ان کی تحریروں میں صاف طریقہ پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے بعد تجدد کے جو داعی پیدا ہوئے انھوں نے عام طور پر انہی کی کتابوں سے استفادہ کیا اور انہی کا حوالہ دیا ہے۔‘‘ [حوالہ سابق ،ص۱۳۷۔۱۳۸] 

شیخ محمد عبدہ کے شاگرد قاسم امین کو اس عتبار سے شہرت حاصل ہے کہ انھوںنے مصر میں آزادیٔ نسواں کی تحریک چلائی اور اس موضوع پر مؤثر کتابیں تحریر کیں۔ اس کے نتیجے میں بے پردگی، مرد و زن کے اختلاط اور عورتوں کی آزادی کو بہت فروغ ملا۔مولانا نے قاسم امین کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ مغربی تہذیب و معاشرت سے گہرے تاثر کی ایک واضح مثال آزادیٔ نسواں کے مشہور مصری نقیب قاسم امین کی کتاب تحریر المرأۃ(عورت کی آزادی) نیز ان کی دوسری کتاب المرأۃ الجدیدۃ (خاتونِ جدید) ہے۔ پہلی کتاب میں مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ بے پردگی کی دعوت میں دین سے کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی ….اس کتاب میں مصنف نے چار مسائل سے بحث کی ہے:(۱)پردہ(۲)عورت کا عام زندگی میں حصہ لینا(۳)تعدّدِ ازدواج(۴)طلاق۔ ان چاروں مباحث میں انھوں نے اہلِ مغرب کے مسلک کو اختیار کیا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہی اسلام کا مسلک ہے۔مغربی تعلیم، مغربی تہذیب اور اس کے اقدار سے مصنف کا گہرا تاثر ان کی دوسری کتاب’خاتونِ جدید‘ میں زیادہ نمایاںہے…. اس میں مصنف نے مغربی تہذیب و معاشرت کے طریقوں کو اختیار کرنے کی کھلی دعوت دی ہے….یہ دونوں کتابیں مصر کے جدید حلقہ میں بڑی مقبول ہوئیں، ان کی اشاعت اور آزادیٔ نسواں کی تحریک میں تجدّد پسندوں نے جو سرگرمی دکھائی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں میں آزادی و بے پردگی کی ایک شدید لہر پیدا ہوگئی، مردوں اور عورتوں کے مخلوط اجتماعات کا رواج ہو چلا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے مصری لڑکیاں اور طالبات یورپ اور امریکہ کا سفر کرنے لگیں۔‘‘ [حوالہ سابق ،ص۱۴۴۔۱۴۶] 

جدید مصر کے ادباء اور دانش وروں میں ڈاکٹر طہ حسین کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے مصر کی نئی نسل کو مغرب زدہ بنانے میں اہم کردار انجام دیا ہے۔مولانا نے اپنے تبصرہ میں دونوں پہلوؤں میں توازن برقرار رکھا ہے۔ وہ جہاں طہ حسین کی ادبی خدمات کا برملا اعتراف کرتے ہیں،وہیں ان کی مغرب زدگی پر بھر پور نقد سے بھی گریز نہیں کرتے۔لکھتے ہیں:

 ’’ ڈاکٹرطہ حسین جدید عربی ادب کے سرخیل اور نوجوانوں اور نئے لکھنے والوں کے محبوب اور ان کے مثالی ادیب و مفکر ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی جدید نسل پر شاید ان سے زیادہ کسی نے اثر نہیں ڈالا….انھوں نے مکتب میں داخل ہو کر قرآن شریف حفظ کیا، کچھ عرصہ ازہر میں رہے، لیکن ان دونوں سے بیزاری کا اظہار ان کی کتابوں میں جا بجا نظر آتا ہے….انھوں نے بہت سے ایسے خیالات و تحقیقات کا اظہار کیا، جو ادب و تاریخ اور دین کے مسلّم و معروف خیالات و عقائد کے خلاف تھیں اور جن پر مصر کے ادبی و دینی حلقوں میں سخت تلاطم اور ہنگامہ پیدا ہوا…. طہ حسین مغربی تمدن و فلسفہ کے گرویدہ اور فرانسسی ثقافت و ادب کے دل دادہ ہیں۔ ان کو فرانس سے گہرا ذہنی و ادبی لگاؤ تھا….ان کی کتابوں میں مستشرقین کے خیالات و ’تحقیقات‘ کا کامل عکس پایا جاتا ہے۔ ان کو ان کے بنیادی خیالات کو پھیلاکر بیان کرنے کا خاص ملکہ ہے۔ذہنی اپج، طبیعت کی بے چینی اور جدّت پسندی ان کی خصوصیات ہیں۔‘‘ [حوالہ سابق ،ص۱۵۲۔۱۵۴]

 مصر کے علمی و دینی حلقوں میںوہاں کے ازہری عالم اور جسٹس علی عبد الرازق کے ان خیالات سے بڑی بے چینی اور اضطراب پیدا ہو گیا کہ اسلام نے نظامِ حکومت کے لیے کچھ اصول و نظریات نہیں دیے ہیں اور خلفائے راشدین نے سیکولر بنیادوں پر حکومت چلائی تھی۔ان کے ان خیالات پر مصر میں زبردست بحث و مباحثہ ہوا اور ان کے رد میں متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ مولانا نے مصر میں اسلامیت و مغربیت کی کش مکش کے ضمن میں علی عبد الرازق کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

’’ازہری عالم شیخ علی عبد الرازق، جو اس وقت مصر میں شرعی قاضی (جج) بھی تھے، ان کے قلم سے ایک کتاب شائع ہوئی، جس کا نام ’الاسلام و أصول الحکم‘ ہے۔ اس نے مصر کے دینی حلقہ میں سخت بے چینی اور ناراضگی کی لہر پیدا کر دی اور اس کے نتیجے میں مصنف کو ازہر کی سند اور اس کے حقوق و امتیازات سے محروم ہونا پڑا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین کے خیالات تعلیم یافتہ طبقہ میں یہاں تک مقبول ہو چکے تھے کہ ایک عالم ِ دین ان کی پر زور وکالت اور تبلیغ پر آ ماد ہ ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں مصنف کا دعویٰ ہے کہ خلافت ایک محض عربی اور رائج الوقت نظام تھا جس کو مسلمانوں نے اختیار کر لیا تھا اور شریعت اس کا پابند نہیں کرتی۔ وہ ثابت کرتے ہیں کہ خلافت، قضائ، سرکاری عہدے اور حکومت کے مناصب سب خالص دنیاوی عہدے اور انتظامات ہیں، جن کی نہ کوئی دینی حیثیت ہے نہ شریعت سے ان کا کچھ تعلق ہے۔‘‘ [حوالہ سابق ،ص۱۴۸،حاشیہ] 

اسی طرح مولانا نے دیگر مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کے درمیان برپا کش مکش کی تاریخ بیان کی ہے،ان ممالک میں مغربی تہذیب کو رواج دینے میں کن شخصیات کا حصہ ہے؟ ان کا تذکرہ کیا ہے،ان کے افکار و نظریات کو نقل کرکے ان پر نقد کیا ہے اور صحیح اسلامی فکر پیش کیا ہے۔یہاںمولانا کی تمام تنقیدوں کو نقل کرنا ممکن نہیں ہے۔مزید ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے، جس میں مولانا نے تونس کے پہلے صدر ’حبیب بورقیبہ‘ کے خلافِ شریعت اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور قرآن اوررسول اکرمﷺ کے بارے میں ان کے گم راہ کن خیالات نقل کرتے ہوئے ان پر تنقید کی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’ہم ان بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، اس لیے کہ صدر بور قیبہ کوئی قابلِ ذکر علمی مقام نہیں رکھتے اور ان بیانات کے پیچھے کوئی فکر و مطالعہ نہیں ہے، البتہ ان سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ صدر بورقیبہ احساسِ کہتری اور ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔ انھوں نے کسی اسلامی علم کی تحصیل اس عمر میں نہیں کی جس میں مہارت پیدا کی جا سکتی تھی۔ اب ضروری سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ جو شخص اس قسم کے اسلام دشمن خیالات رکھتا ہے، وہ دائرۂ اسلام میں بھی باقی رہ سکتا ہے یا نہیں ؟ اور کیا اسے ایک اسلامی اکثریت کے ملک پر حکم رانی کا حق حاصل ہے؟‘‘ [حوالہ سابق، ص۲۰۷۔۲۰۸] 

یہ کتاب اگر چہ مسلم ممالک میں اسلامیت و مغربیت کی کش مکش کی دستاویز ہے، لیکن اس میں مولانا نے ہندوستان کا بھی جائزہ لیا ہے اور یہاں مغربی کلچر کے فروغ کی تاریخ بیان کی ہے۔اس ضمن میں انھوں نے سر سید احمد خاں کی شخصیت اور افکار پر تفصیل سے بحث کی ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان کا تجزیہ کیا ہے۔یہاں اس موضوع پر مولانا کے چند اقتباسات نقل کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے:

’’سر سید احمد خاں نے آخری مغل سلطنت کا زوال (جو مسلمانوں کی عظیم حکومت کی ایک دھندلی اور پھیکی سی تصویر تھی) اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انھوں نے اس ہزیمت، اہلِ ہند کی دل شکستگی، ان کی عظیم جماعت کے مقابلہ میں مٹھی بھر غیر ملکیوں کی فتح کا مشاہدہ کیا۔ مسلمانوں کو اس کوشش کی جو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی اس کو بھی دیکھا۔ وہ قوم جو کل اس ملک کی حاکم تھی، اس کی ذلت و پستی، بڑے بڑے خاندانوں اور گھرانوں کی فلاکت اور انگریزوں کی شان و شوکت (جو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے ملبہ پر قائم ہو رہی تھی) نیز ان کی حکومت اور ساحرانہ تہذیب کے مناظر بھی دیکھے، اس کے علاوہ ملازمت، رفاقت اور دوستی و تعارف کے ذریعہ ان کو انگریزوں سے طویل واسطہ پڑا تھا اور بہت قریب سے ان کی زندگی کے مطالعہ کا موقع ملا تھا۔ وہ ان کی ذہانت، قوت ِعمل اور ان کے تمدّن سے متاثر ہوئے۔ وہ ایک ذہین، نہایت ذکی الحس، سریع الانفعال اور درد مند قسم کے آدمی تھے۔ انھوں نے متوسط درجہ کی دینی تعلیم پائی تھی اور دینی علوم اور کتاب و سنت پر ان کی نظر گہری اور وسیع نہ تھی۔ جلد رائے قائم کر لینے اور جرأت کے ساتھ اس کا اظہار کرنے کے عادی تھے۔ وہ انگریزوں سے اس طرح متاثر ہوئے جس طرح کوئی مغلوب غالب سے یا کوئی کم زور طاقت ور سے متاثر ہوتا ہے۔ انھوں نے شخصی طور پر انگریزی تہذیب اور طرزِ معاشرت کو اختیار کیا اور دوسروں کو بھی بڑی گرم جوشی اور قوت کے ساتھ اس کی دعوت دی۔ ان کا خیال تھا کہ اس ہم رنگی، حاکم قوم کی معاشرت و تمدّن اختیار کرنے اور ان کے ساتھ بے تکلف رہنے سے وہ مرعوبیت ، احساسِ کہتری اور احساسِ غلامی دور ہو جائے گا جس میں مسلمان مبتلا ہیں اور حکام کی نظر میں ان کی قدر و منزلت بڑھ جائے گی اور وہ ایک معزز مساوی درجہ کی قوم کے افراد معلوم ہونے لگیں گے۔ یہ خیال اور نقطۂ نظر ان کے بعض مضامین میں بہت صفائی کے ساتھ ملتا ہے۔‘‘ [حوالہ سابق،ص۹۵۔۹۶] 

مغربی تہذیب و معاشرت سے سر سید کی تاثر پذیری کے حوالے سے مولانا لکھتے ہیں:

’’ وہ اس تہذیب و معاشرہ سے اس طرح متاثر ہوئے کہ ان کے دل و دماغ، اعصاب اور ساری فکری صلاحیتیں اس سے وابستہ ہو گئیں۔۱۲؍ اکتوبر ۱۸۷۰ء میں وہ اس تہذیب کے گرویدہ اور ہندوستان کی مسلم سوسائٹی میں ان اقدارا ور اصولوں کی بنیاد پر اصلاح و تغیّر کے پرجوش داعی اور مبلّغ بن کر اپنے ملک واپس ہوئے اور پورے خلوص اور گرم جوشی کے ساتھ انھوں نے اس تحریک و دعوت کا علم بلند کیا اور اپنی ساری صلاحیتیں اور قوتیں اس کے لیے وقف کردیں۔ ان کا نقطۂ نظر خالص مادی ہو گیا۔ وہ مادی طاقتوں اور کائناتی قوتوںکے سامنے بالکل سر نگوں نظر آنے لگے۔ وہ اپنے عقیدہ اور قرآن مجید کی تفسیر بھی اسی بنیاد پر کرنے لگے۔ انھوں نے اس میں اس قدر غلو سے کام لیا کہ عربی زبان و لغت کے مسلّمہ اصول و قواعد اور اجماع و تواتر کے خلاف کہنے میں بھی ان کو باک نہ رہا۔ چنانچہ ان کی تفسیر نے دینی وعلمی حلقوں میں سخت برہمی پیدا کردی۔‘‘ [حوالہ سابق،ص۹۹]

 مولانا کے تنقیدی اسلوب کی ایک نمائندہ کتاب’قادیانیت۔مطالعہ و جائزہ‘ ہے۔اس میں انھوں نے فتنۂ قادیانیت کا بھر پور جائزہ لیا ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ردِّ قادیانیت پر وسیع لٹریچر موجود ہے۔اس میںبہت سی ایسی کتابیں ہیں جو مجادلانہ اور مناظرانہ اسلوب میں لکھی گئی ہیں اور ان میں قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد کے بارے میں سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔ لیکن مولانا کا اسلوب اس حسّاس اور نازک موضوع میں بہت محتاط رہا ہے۔ انھوں نے مرزا غلام احمد اور ان کی تحریک کے بارے میں بہت شائستہ زبان استعمال کی ہے اوراس طرزِ تخاطب سے مکمل احتراز کیا ہے جو اس زمانے میں رائج تھا۔ مولانا نے اپنے اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:


’’مناظرانہ و متکلمانہ مباحث کی ہندوستان کے دورِ آخر میں ایک خاص زبان اور خاص اسلوبِ تحریر بن گیا ہے،جس کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ مصنف نے اس کی پابندی ضروری نہیں سمجھی۔ اس کتاب میں مناظرانہ جوش کے بجائے مؤرخانہ متانت زیادہ ملے گی اور جو لوگ مناظرانہ و فریقانہ کتب کے ایک خاص طرز و لہجہ کے عادی ہیں، شاید ان کو اس کتاب کو پڑھ کر مایوسی اور شکایت ہو، لیکن مصنف اس کے لیے معذرت کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ اس نے یہ کتاب جس طبقہ اور جس مقصد کے لیے لکھی ہے اور جو معیار اس کے لیے مقرر کیا ہے، اس کے لیے یہی طرز مناسب تھا۔‘‘

[قادیانیت۔ مطالعہ و جائزہ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، مجلس نشریاتِ اسلام کراچی،سنہ اشاعت ندارد، ص ۸]

 یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ مولانا نے اس کتاب میں مرزا غلام احمد کا جہاں بھی نام لیا ہے وہاں ان کے نام کے ساتھ ’صاحب‘ ضرور لگایا ہے۔کتاب میں مولانا نے مرزا قادیانی اور ان کے خلیفۂ اوّل حکیم نور الدین کے حالاتِ زندگی بیان کیے ہیں،ان کے خیالات و افکار کا تجزیہ کیا ہے اور ان کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ہر جگہ پوری متانت اور شائستگی کو ملحوظ رکھا ہے۔مولانا کو شکایت ہے کہ مرزا قادیانی نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ پیغمبروں اور مصلحین و مجددین توکجا،باوقار اور سنجیدہ مصنفین کے اسلوب سے بھی ادنیٰ مناسبت نہیں رکھتا۔ان کی بعض تصانیف کے حوالے سے مولانا نے لکھا ہے:

’’ ان تصانیف میں مرزا صاحب کی طبیعت کا جوش بہت بڑھ گیا ہے اور ان کی تحریر میں طنز و تعریض کا ایک ایسا عنصر اور ایسی تلخی آگئی ہے جس کی وجہ سے یہ کتابیں سنجیدہ بحث و نظر کی کتابوں اور اصلاحی و دعوتی تصانیف کے بجائے ہجو و طنز کی کتابوں میں شامل ہو جاتی ہیں۔ ان کتابوں میں مرزا صاحب نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ پیغمبروں سے قطع نظر اور مصلحین و مجدّدین کو بھی چھوڑ کر متین و سنجیدہ مصنفین اور با وقار اہلِ قلم سے بھی کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ انھوں نے حیات و نزولِ مسیح کے عقیدہ کا اور اس کے ماننے والوں کا جس انداز میں مذاق اڑایا ہے وہ ایک علمی بزم سے زیادہ امراء کے درباروں اورمصاحبوں کی فقرہ بازیوں سے مشابہ ہے، نیز ان کے اندر جو مجادلانہ روح اور وکیلانہ موشگافیاں ہیں، ان کو کلامِ نبوت اور مزاجِ نبوت سے کوئی مناسبت نہیں۔‘‘
[حوالہ سابق ،ص۶۵۔۶۶]

 لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مولانا نے قادیانیت پر تنقید کرنے میں کوئی نرمی دکھائی ہو یا مداہنت سے کام لیا ہو۔وہ صاف الفاظ میں قادیانیت کو اسلام کے متوازی ایک مذہب اور نبوت محمدی کے خلاف سازش قرا دیتے ہیں ۔ لکھتے ہیں:
’’قادیانیت کے بارے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے صدہا دینی و علمی اختلافات اور مکاتبِ فکر میں سے ایک دینی و علمی اختلافِ رائے اور ایک خاص مکتبِ فکر ہے اور اس کے پیرو امتِ اسلامیہ کے مذہبی فرقوں اور جماعتوں میں سے ایک مذہبی فرقہ اور جماعت ہیں اور یہ اسلام کی کلامی اور فقہی تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں، لیکن قادیانیت کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرنے سے یہ غلط فہمی اور خوش گمانی دور ہو جاتی ہے اور ایک منصف مزاج اس نتیجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ قادیانیت ایک مستقل مذہب اور قادیانی ایک مستقل امت ہیں، جو دینِ اسلام اور امتِ اسلامیہ کے بالکل متوازی چلتے ہیں۔‘‘
[حوالہ سابق ،ص۱۳۷] 

آگے لکھتے ہیں:

’’اسلام کے خلاف وقتاً فوقتاً جو تحریکیں اٹھیں ان میں قادیانیت کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ وہ تحریکیں یا تو اسلام کے نظامِ حکومت کے خلاف تھیں یا شریعت اسلامی کے خلاف، لیکن قادیانیت در حقیقت نبوت محمدی کے خلاف ایک سازش ہے۔ وہ اسلام کی ابدیت اور امت کی وحدت کو چیلنج ہے۔ اس نے ختمِ نبوت سے انکار کرکے اس سرحدی خط کو بھی عبور کر لیا جو اس امت کو دوسری امتوں سے ممتاز و منفصل کرتا ہے اور جو کسی مملکت کے حدود کو حاضر کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔‘‘
[حوالہ سابق، ص۱۵۰۔۱۵۱] 

مولانا کی ایک تصنیف ’ دینِ اسلام اور اوّلین مسلمانوں کی دو متضاد تصویریں‘ کے نام سے ہے۔ اس میں اہل سنت اور شیعی فرقہ اثنا عشریہ کے بعض عقائد کا تقابلی مطالعہ کیا گیا ہے۔ عموماً اس طرح کے مطالعے مناظرانہ انداز میں کیے جاتے ہیںاور کیے گئے ہیں۔ اہل سنت کی طرف سے ردِّ شیعیت پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے بیش تر پر مناظرانہ و مجادلانہ رنگ غالب ہے۔ لیکن اس کتاب کا رنگ ہی دوسرا ہے۔اس میں صدرِ اسلام کی دو تصویریں الگ الگ پیش کی گئی ہیں۔ ایک تصویر وہ ہے جو اہل سنت کی کتابوں سے سامنے آتی ہے۔یہ بڑی تاب ناک اور روشن تصویر ہے۔ دوسری تصویر تاریک تر اور بھیانک ہے۔یہ شیعی نقطۂ نظر کی حامل کتابوں سے سامنے آتی ہے۔ مولانا نے پوری متانت اور سنجیدگی کے ساتھ دونوں تصویریں پہلو بہ پہلو قارئین کے سامنے رکھ دی ہیں اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔مولانا کی پوری بحث کا خلاصہ کتاب کے پیش لفظ میں آگیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’زیر نظر کتاب کسی مخصوص دینی مسلک، نظامِ عقائد یا مکتبِ فکر کے اثبات و احقاق اور اس کے مخالف مسلک، عقیدہ یا فرقہ و جماعت کی تنقید و تردید کی کوئی متکلمانہ و مناظرانہ کتاب نہیں ہے۔ جو لوگ اس نظر سے اس کتاب کو پڑھیں گے، اندیشہ ہے کہ ان کو مایوسی ہوگی…. اس کتاب میں اولین مسلمانوں اور تاریخِ اسلام کے مثالی و معیاری عہد (عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ) میں اسلامی تعلیمات کے اثرات اور رسول اللہﷺ کی دعوتی و تربیتی مساعی کے نتائج کا ایک ہلکا سا نقشہ پیش کیا گیا ہے…. پھر اہلِ سنت کے اس اجماعی عقیدہ اور تسلسل و تواتر کے ساتھ فہمِ دین، حیاتِ نبوی، عہدِ صحابہ اور تاریخِ اسلام کی اس تعبیر و تصویر کے بالکل متوازی فرقۂ امامیہ اثنا عشریہ (اپنے اولین بانی سے لے کر امام خمینی تک) جو نقطہٗ نظر رکھتا ہے اور اس نے اس کو اپنے عقیدہ و عمل کی اساس اور اپنے فرقہ و جماعت کا شعار بنایا ہے، اس کو خود اسی کے مستند نمائندوں، دینی پیشواؤں اور ان کی معتبر و مسلّم تصنیفات اور کتابوں کے الفاظ میں پیش کر دیا گیا ہے اور اس کا فیصلہ فطرتِ سلیم، ذوقِ صحیح اور عقل عام پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ان میں سے کون سی تعبیر و تصویر پیغمبر اور دین کے شایانِ شان ہے۔‘‘

[دین اسلام اور اوّلین مسلمانوں کی دو متضاد تصویریں، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی،حاجی عارفین اکیڈمی،کراچی،۱۹۸۵ئ، ص۷۔۸] 

مولانا کے تنقیدی اسلوب کی نمائندہ ایک مہتم بالشان کتاب’عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح‘ ہے۔ یہ کتاب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے بعض افکار کے رد میں لکھی گئی ہے۔برِّ صغیر ہند و پاک میں بعض مخصوص اسباب سے مولانا مودودیؒ کے بعض افکار و نظریات کے رد میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان میں بڑی تعداد ایسی کتابوں کی ہے جن میں مولانا مودودی کو ضالّ و مضلّ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے،ان کے افکار کو ’ فتنۂ مودودیت‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اوران کے رد میں بعض مدارس اور اداروں میں سیکشن مخصوص کیے گئے ہیں۔اس پس منظر میں مولانا ندویؒ کی اس کتاب کا مطالعہ کیجیے تو وہ متانت و شائستگی کے اعلیٰ مقام پر نظر آتے ہیں اور دل میں ان کی عظمت کا گہرا نقش قائم ہوتا ہے۔انھوں نے اپنی بعض دیگر تحریروں میں اور اس کتاب میں بھی پہلے مولانا مودودی کی دینی خدمات کا برملا اعتراف کیا ہے۔چند سطریں ملاحظہ ہوں:

’’جہاں تک مولانا مرحوم کی خدمات اور ان کی خصوصیات و کمالات کا تعلق ہے، اس میں نہ پہلے شک تھا نہ اب ہے۔مصنف نے ہر موقع پر اس کا پوری فراخ دلی، بلکہ مسرّت و شادمانی کے ساتھ اعتراف کیا ہے اور اس پر اپنے اس مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، جو ان کی وفات کے ۳،۴ ہی دن کے بعد رسالہ’تعمیر حیات‘ کے لیے لکھا گیا اور اس کی تازہ کتاب پرانے چراغ حصہ دوم کا ایک جز ہے۔‘‘ [عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح،ص۱۲، مقدمۂ طبع دوم]

 مزید لکھتے ہیں:

’’بیسویں صدی کے نصف اول میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنے مؤقر رسالہ ’ترجمان القرآن‘(حیدر آباد) کے ان مضامین سے مسلمان تعلیم یافتہ طبقہ کی نگاہوں کو متوجہ کر لیا، جو مغربی تہذیب اور فلسفۂ حیات کی تردید و تنقید میں ’مدافعانہ‘ کے بجائے ’جارحانہ‘ انداز میں لکھے گئے تھے، نیز مغربی تعلیم کے اثر سے پیدا ہونے والی تجدّد کی تحریک اور ان خیالات کی تردید میں، جو غالی قوم پرستی کی شکل میں پیدا ہو گئے تھے، تحریر کیے گیے تھے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے شریعتِ اسلامی اور قوانینِ اسلامی کے ان مسائل و مباحث پر بھی مدلّل و مؤثر مضامین لکھے جو تجدّد پسندوں کا خاص طور پر نشانہ بنے ہوئے تھے۔ مثلاً سود، پردہ، جہاد، قربانی، غلامی، حدیث و سنت، عائلی قوانین وغیرہ۔ انھوں نے ان مضامین کے ذریعے، جو بعد میں علیٰحدہ مجموعوں کی شکل میں شائع ہوئے، نیز متعدد مستقل تصانیف و رسائل کے ذریعے جدید تعلیم یافتہ اور ذہین طبقہ کا اسلام کے اقدار و افکار پر اعتماد بحال کرنے اور اس کو اسلام اور اس کی تعلیمات کے بارے میں احساسِ کہتری اور شکست خوردگی کی ذہنیت سے بچانے کا وہ مفید کام انجام دیا، جس کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہے۔ اسی بنا پر اس وقت کے بعض اہلِ قلم نے ان کو ’متکلمِ اسلام‘ کا خطاب دیا۔‘‘

[حوالہ سابق،ص۲۰] 

اصل مباحث کے آغاز سے مولانا نے قبل واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ا س کتاب میں نہ تو مناظرانہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے نہ فتویٰ کی زبان استعمال کی گئی ہے:

’’پیش نظر کتاب نہ مناظرہ کے انداز میں لکھی گئی ہے نہ فتویٰ کی زبان میں۔ وہ ایک اندیشہ کا اظہار ہے اور الدین النصیحۃ (دین خیر خواہی کا نام ہے) کے حکم پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش۔ اس کی نہ کوئی سیاسی غرض ہے نہ کوئی جماعتی مقصد۔‘‘ [حوالہ سابق،ص۲۱۔۲۲]

 مولانا ندویؒ نے مولانا مودودیؒ سے جن مباحث میں اختلاف کیا ہے ان میں پورے دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھی ہے، لیکن کہیں بھی اسلوب کی متانت پر حرف نہیں آیا ہے اور شائستگی مجروح نہیں ہوئی ہے۔پوری کتاب میں طنز و تعریض کا شائبہ تک نہیں پایاجاتا۔ آخر میں مولانا نے پھر اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں اختلافِ آراء کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ اسے کبھی ناپسندیدہ نہیں سمجھا گیا ، بلکہ مفید سمجھا گیا ہے۔مولانا نے لکھا ہے:

’’ یہ حقیقت ہے کہ تحقیق و نقطۂ نظر کا اختلاف اور خالص دین اور مسلمانوں کے مفاد میں اس کا اظہار و اعلان نہ صرف یہ کہ سلف سے لے کر خلف تک کا شیوہ اور شعار رہا ہے، بلکہ دین کی(جزئی)تحریف سے اور ملت کے(کلّی) انحراف سے محفوظ رہنے میں اس کا بڑا دخل ہے ۔۔۔حجۃ الاسلام امام غزالیؒ پر ابن جوزیؒ اور امام ابن تیمیہؒ کی تنقیدیں اور خود شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ پر ان کے ان معاصرین کی تنقیدیں، جو ان کے محیّر العقول تبحّر، نادرۂ روزگار ذکاوت اور غیر مشتبہ اخلاص کے قائل تھے(مثلاً علامہ ذہبیؒ اور ابن دقیق العیدؒ وغیرہ) اس کا نمونہ ہیں۔‘‘ [حوالہ سابق،ص۱۲۵۔۱۲۶] 

مولانا نے جس اخلاص، درد مندی اور خیر خواہی کے ساتھ یہ کتاب تالیف کی تھی، اس کی قدر کی گئی۔مولانا مودودیؒ (وفات ۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ئ) کی حیات کے آخری دنوں میں یہ کتاب ان تک پہنچی تو اس پر انھوں نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا ،بلکہ شکریہ ادا کرتے ہوئے انھوں نے مولانا ندویؒ سے اپنی دیگر کتابوں اور تحریروں کا بھی تجزیہ کرنے کی درخواست کی۔ اس کا تذکرہ مولانا ندویؒ نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں کیا ہے۔فرماتے ہیں:

’’مصنف نے کتاب کی اشاعت کے فوراًبعد اس کا ایک نسخہ اپنے ذاتی خط کے ساتھ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔ اس کی وصول یابی پر مولانا کا ۲۳؍ جنوری ۱۹۷۹ء کا لکھا ہوا جو خط آیا ،وہ ہر طرح ان کے مقام ومزاج کے شایانِ شان تھا۔ اس میں انھوں نے صاف لکھا تھا کہ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو تنقید سے بالا تر نہیں سمجھا، نہ میں اس پر بُرا مانتا ہوں‘‘۔ مولانا نے اپنی دوسری کتابوں اور تحریروں کو بھی اسی نظر سے دیکھنے اور اپنے ’تاثرات اور خدشات‘ ظاہر کرنے کی دعوت دی۔‘‘

[حوالہ سابق،ص۱۱]

 یہ مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے تنقیدی اسلوب کے چند نمونے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ مولانا نے اپنی سوانحی تحریروں میں عموماً ایجابی رویّہ اختیار کیا ہے اور مثبت پہلوؤں کو پیش کیا ہے، لیکن اہم دینی تقاضوں کے پیش نظر جب کبھی انھیں بعض شخصیات پر تنقید کرنی پڑی ہے تو انھوں نے متانت اور شائستگی کا پورا خیال رکھا ہے اور مجادلانہ و مناظرانہ انداز سے قطعی پرہیز کیا ہے۔یہ مولانا کی شخصیت کا ایسا قابل تقلید پہلو ہے، جسے موجودہ دور میں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔