مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ نے اپنی کتاب " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ "مصر کے دوران قیام ہی میں کتاب کی دوسری اشاعت کی نوبت آگئی اس موقع پر مصنف کے مخلص دوست اور کتاب کے خاص قدردان ڈاکٹر محمد یوسف موسیٰ مرحوم (سابق استاذ جامع ازہر و پروفیسر اسلامی قانون قاہرہ یونیورسٹی ) نے اپنی کمیٹی " جماعۃ الازھر للنشر والتالیف" کی طرف سے طبع ثانی کی پیش کش کی،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اس کا موقع تھا کہ مقدمہ کے لیے ایسے موزوں شخص کا انتخاب کیا جائے جو کتاب کے مقصد اور روح پر پورا یقین رکھتا ہو اور اس کا پر جوش وکیل اور داعی ہو، اس مقصد کے لیے موزوں ترین شخصیت سید قطب کی ہوسکتی تھی۔
سید قطب مصر جدید میں اسلامی فکر اور اسلامی دعوت کے سب سے بڑےعلمبردار ہیں، ان کا قلم ادھر چند برسوں سے نوجوانوں میں اسلامی روح اور خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے وقف ہے، ان کی ذات وسیع النظر عالموں کا مطالعہ جدید ادیبوں کا زور قلم اور اسلوب داعی کا جذبہ اور اخلاص اور نو مسلموں کا جوش جمع ہے، وہ اپنے حالات کے لحاظ سے مسلمان خاندان میں پیدا ہونے کے باوجود نو مسلم ہی ہیں، تعلیم و تربیت اور ماحول نے ان کو اسلام سے بہت دور اور بیگانہ کردیا تھا، قرآن مجید کے مطالعہ اور تفکر اور مغربی تہذیب کی ناکامی اور افلاس نے ان کو پھر اسلام کی طرف واپس کیا اور وہ نئے جوش و خروش اور اعتماد و یقین کے ساتھ اسلام کی طرف آئے، وہ دارالعلوم مصر کے فاضل ہیں، ان کی ادبی زندگی تنقید ادب سے شروع ہوئی جس میں انھوں نے بہت جلد اپنا مقام پیدا کرلیا "النقد الادبي" اور "التصوير الفني في القرأن" اور "مشاھد القيامة فى القرآن" اس زمانہ کی یادگار اور ادبی حلقوں کی مقبول اور کامیاب کتابیں ہیں، عرصہ تک محکمۂ تعلیم سے متعلق رہے، اسی سلسلہ میں بعض تعلیمی نظریات کے مطالعہ کے لئے ان کو امریکہ میں کچھ عرصہ قیام کرنا پڑا، وہاں مغربی زندگی کے تاریک پہلو کھلے طریقہ پر ان کی نظر کے سامنے آئے اور مغربی تہذیب اور فلسفۂ زندگی کی ناکامی کو انھوں نے بچشمِ خود دیکھ لیا، اس سے ان کے ایمان و یقین اور اسلام کے تعلق میں بڑا اضافہ ہوا اور اسلامی دعوت کا نیا جوش پیدا ہوا، امریکہ سے آنے کے بعد وہ اسلام کے ایک پرجوش داعی اور مغربی تہذیب کے مبصر ناقد بن گئے اور ہمہ تن جدید اسلامی ادب کی ترتیب میں منہمک ہوگئے، ان کے فکر کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک ابدی اور عالمگیر پیغام مانتے ہیں جس کے بغیر دنیا کی نجات اور سلامتی نہیں، ان کے اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معذرت اور مدافعت کے قائل نہیں، وہ مغربی تہذیب کی بنیادوں پر تیشہ چلاتے ہیں، اور اپنے حریف پر بڑھ چڑھ کر حملہ کرتے ہیں، ان کو اسلام میں کوئی کمزوری اور کمی محسوس نہیں ہوتی اور وہ اس کو ایک مکمل اور جامع دستورِ حیات کی طرح پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ پیش کرتے ہیں، اس لئے ان کی تحریریں پڑھنے والوں میں اعتماد و یقین کی ایک نئی روح اور مغربی نظامِ فکر کی حقارت پیدا کردیتی ہیں، اور نوجوان ان کی تصنیفات و مقالات سےبہت متاثر ہوتے ہیں، ان کی کتاب "العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام" ( اگرچہ مصنف کو اس کے بعض مقامات سے اختلاف ہے) اس طرز اور اس تحریر کا کامیاب نمونہ ہے، اور جدید اسلامی ادب میں خاص مقام رکھتی ہے۔(1)
مزید پڑھیں !
مزید پڑھیں !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- " انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر " ص 9-21، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )