گوشۂ مودودی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
گوشۂ مودودی ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحہ عمل - مولانا سید ابوالاعلی مودودی

مسلمانوں کے لیے 
جدید تعلیمی پالیسی
 اور لائحہ عمل 
یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلسِ اصلاحِ نصابِ دینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں خطاب بظاہر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے‘ لیکن دراصل اس کے مخاطب مسلمانوں کے تمام تعلیمی ادارات ہیں۔ جس تعلیمی پالیسی کی توضیح اس نوٹ میں کی گئی ہے‘ اسے اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ علی گڑھ ہو یا دیوبند یا ندوہ یا جامعہ ملیہ‘ سب کا طریقۂ کار اب زائد المیعاد ہوچکا ہے‘ اگر یہ اس پر نظرثانی نہ کریں گے تو اپنی افادیت بالکل کھودیں گے۔

مسلم یونی ورسٹی کورٹ اس امر پر تمام مسلمانوں کے شکریے کا مستحق ہے کہ اس نے اپنے ادارے کے بنیادی مقصدیعنی طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی طرف توجہ کی، اور اس کو روبعمل لانے کے لیے آپ کی مجلس کاتقرر کیا۔ اس سلسلے میں جو کاغذات یونی ورسٹی کے دفتر سے بھیجے گئے ہیں ان کو میں نے پورے غور و خوض کے ساتھ دیکھا۔ جہاں تک دینیات اورعلوم اسلامیہ کے موجودہ طریق تعلیم کا تعلق ہے اس کے ناقابل اطمینان ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو نصاب اس وقت پڑھایا جا رہا ہے وہ یقیناًناقص ہے، لیکن مجلس کے معزز ارکان کی جانب سے جو سوالات مرتب کیے گئے ہیں‘ ان کے مطالعے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلس کے پیش نظر صرف ترمیمِ نصاب کا سوال ہے‘ اور غالبًا یہ سمجھا جارہا ہے کہ چند کتابوں کو خارج کر کے چند دوسری کتابیں رکھ دینے سے طلبہ میں ’اسلامی اسپرٹ‘ پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر میرا قیاس صحیح ہے تو میں کہوں گا کہ یہ اصلی صورت حال کا بہت ہی نامکمل اندازہ ہے۔ دراصل ہم کو اس سے زیادہ گہرائی میں جاکر یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن‘ حدیث‘ فقہ اورعقائد کی اس تعلیم کے باوجود جو اس وقت دی جارہی ہے‘طلبا میں ’’حقیقی اسلامی اسپرٹ‘‘ پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر محض موجودہ نصاب دینیات کا نقص ہی اس کی وجہ ہے تو اس نقص کو دور کرنا بلاشبہ اس خرابی کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے اسباب زیادہ وسیع ہیں‘ اگر آپ کی پوری تعلیمی پالیسی میں کوئی اساسی خرابی موجود ہے تو اصلاح حال کے لیے محض نصاب دینیات کی ترمیم ہرگز کافی نہ ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع کرنا ہوگا۔ خواہ وہ کتنا ہی محنت طلب اور مشکلات سے لبریز ہو۔ میں نے اس مسئلے پر اسی نقطہ نظر سے غور کیا ہے‘ اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں انھیں امکانی اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

میرا یہ بیان تین حصوں مشتمل ہوگا:

• پہلے حصے میں یونی ورسٹی کی موجودہ تعلیمی پالیسی پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی اساسی خرابیوں کو واضح کیا جائے گا اور یہ بتایا جائے گا کہ مسلمانوں کے حقیقی مفاد کے لیے اب ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہیے۔

• دوسرے حصے میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائیں گی۔

• اور تیسرے حصے میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سے بحث کی جائے گی۔

اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں جو طریق تعلیم رائج ہے وہ تعلیمِ جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اور کوئی ہم آہنگی نہیں۔ دو بالکل متضاد اور بے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ ان میں یہ صلاحیت پیدا نہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کرسکیں۔ یک جائی و اجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے قطع نظر‘ خالص تعلیمی نقطہ نگاہ سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصرکی آمیزش اصلاً غلط ہے‘ اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔

اسلامی نقطہ نظر سے یہ آمیزش اور بھی زیادہ قباحت کا سبب بن گئی ہے‘کیونکہ اول تو خود آمیزش ہی درست نہیں ہے‘پھر اس پر مزید خرابی یہ ہے کہ آمیزش بھی مساویانہ نہیں ہے۔ اس میں مغربی عنصر بہت طاقت ور اور اسلامی عنصر اس کے مقابلے میں بہت کمزور ہے۔ مغربی عنصر کو پہلا فائدہ تو یہ حاصل ہے کہ وہ ایک عصری عنصر ہے جس کی پشت پر رفتار زمانہ کی قوت اور ایک عالم گیر حکمراں تمدن کی طاقت ہے۔ اس کے بعد وہ ہماری یونی ورسٹی کی تعلیم میں ٹھیک اسی شان اور اسی طاقت کے ساتھ شریک کیا گیا ہے جس کے ساتھ وہ ان یونی ورسٹیوں میں ہے اور ہونا چاہیے جو مغربی کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مغربی علوم و فنون کی تعلیم اس طور پر دی جاتی ہے کہ ان کے تمام اصول اور نظریات مسلمان لڑکوں کے صاف اور سادہ لوح دل پر ایمان بن کر ثبت ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنیت کلیۃً مغربی سانچے میں ڈھل جاتی ہے‘ حتیٰ کہ وہ مغربی نظر سے دیکھنے اور مغربی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں‘ اور یہ اعتقاد ان پر مسلط ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز معقول اور باوقعت ہے تو وہی ہے جو مغربی حکمت کے اصول و مبادی سے مطابقت رکھتی ہو۔ پھر ان تاثرات کو مزید تقویت اس تربیت سے پہنچتی ہے جو ہماری یونی ورسٹی میں عملاً دی جارہی ہے۔ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار‘ رفتار و گفتار‘ کھیل کود‘ غرض کون سی چیز ہے جس پر مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی رجحانات کا غلبہ نہیں ہے۔ یونی ورسٹی کا ماحول اگر پورا نہیں تو ۹۵ فی صدی یقیناًمغربی ہے اور ایسے ماحول کے جو اثرات ہوسکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں ان کو ہر صاحب نظر خود سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی عنصر نہایت کمزور ہے۔ اول تو وہ اپنی تمدنی و سیاسی طاقت کھوکر ویسے ہی کمزور ہو چکا ہے۔ پھر ہماری یونی ورسٹی میں اس کی تعلیم جن کتابوں کے ذریعے سے دی جاتی ہے وہ موجودہ زمانے سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی زبان اور ترتیب و تدوین ایسی نہیں جو عصری دماغوں کو اپیل کرسکے۔ ان میں اسلام کے ابدی اصولوں کو جن حالات اور جن عملی مسائل پر منطبق کیا گیا ہے‘ ان میں سے اکثر اب در پیش نہیں ہیں‘ اور جو مسائل اب درپیش ہیں ان پر ان اصولوں کو منطبق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مزید براں اس تعلیم کی پشت پر کوئی تربیت‘ کوئی زندہ ماحول‘ عملی برتاؤ اور چلن بھی نہیں۔ اس طرح مغربی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کی آمیزش اور بھی زیادہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسی نامساوی آمیزش کا طبیعی نتیجہ یہ ہے کہ طلبا کے دل و دماغ پر مغربی عنصر پوری طرح غالب آجائے اور اسلامی عنصر محض ایک سامان مضحکہ بننے کے لیے رہ جائے‘ یا زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ زمانہ ماضی کے آثار باقیہ کی طرح اس کا احترام کیا جائے۔

میں اپنی صاف گوئی پر معافی کا خواستگارہوں‘ مگر جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس کو بے کم و کاست بیان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی و دنیاوی تعلیم بحیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آ پ ایک شخص کو از سر تا پا غیر مسلم بناتے ہیں۔ پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں‘ تاکہ آپ پر اسے غیر مسلم بنانے کا الزام عائد نہ ہو‘ اور اگر وہ اس بستے کو اٹھا کر پھینک دے (جس کی وجہ دراصل آپ ہی کی تعلیم ہوگی) تو وہ خود ہی اس فعل کے لیے قابل الزام قرار پائے۔ اس طرز تعلیم سے اگر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ یہ مسلمان پیدا کرے گا تو یہ یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ معجزے اور خرقِ عادت کے متوقع ہیں کیونکہ آپ نے جو اسباب مہیا کیے ہیں ان سے قانونِ طبیعی کے تحت تو یہ نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہوسکتا۔ فی صدی ایک یا دو چار طالب علموں کا مسلمان (کامل اعتقادی و عملی مسلمان) رہ جانا کوئی حجت نہیں۔ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کا ثبوت ہے کہ جو اس فیضان سے اپنے ایمان و اسلام کو بچا لے گیا وہ دراصل فطرت ابراہیمی پر پیدا ہوا تھا۔ ایسے مستثنیات جس طرح علی گڑھ کے فارغ التحصیل اصحاب میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح ہندستان کی سرکاری یونی ورسٹیوں، بلکہ یورپ کی یونی ورسٹیوں کے مُتَخَرِجِیْن میں بھی مل سکتے ہیں جن کے نصاب میں سرے سے کوئی اسلامی عنصر ہے ہی نہیں۔

اب اگر آپ ان حالات اور اس طرز تعلیم کو بعینہ باقی رکھیں اور محض دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور نصاب شریک کر دیں تو اس کا حاصل صرف یہ ہوگا کہ فرنگیت اور اسلامیت کی کشمکش زیادہ شدید ہو جائے گی۔ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا جس میں یہ دو طاقتیں پوری طاقت کے ساتھ جنگ کریں گی اور بالاخر آپ کے طلبا تین مختلف گروپوں میں بٹ جائیں گے

• ایک وہ جن پر فرنگیت غالب رہے گی‘ عام اس سے کہ وہ انگریزیت کے رنگ میں ہو‘ یا ہندی وطن پرستی کے رنگ میں، یا ملحدانہ اشتراکیت کے رنگ میں۔

• دوسرے وہ جن پر اسلامیت غالب رہے گی‘ خواہ اس کا رنگ گہرا ہو یا فرنگیت کے اثر سے پھیکا پڑ جائے۔

• تیسرے وہ جو نہ پورے مسلمان ہوں گے، نہ پورے فرنگی۔

ظاہر ہے کہ تعلیم کا یہ نتیجہ بھی کوئی خوشگوار نتیجہ نہیں۔ نہ خالص تعلیمی نقطہ نظر سے اس اجتماعِ نقیضین کو مفید کہا جاسکتا ہے‘ اور نہ قومی نقطہ نظر سے ایسی یونی ورسٹی اپنے وجود کو حق بجانب ثابت کرسکتی ہے جس کے نتائج کا ۳/ ۲ حصہ قومی مفاد کے خلاف اور قومی تہذیب کے لیے نقصانِ کامل کا مترادف ہو۔ کم از کم مسلمانوں کی غریب قوم کے لیے تو یہ سودا بہت ہی مہنگا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک ایسی ٹکسال جاری رکھے جس میں سے ۳۳ فی صدی سکے تو مستقل طور پر کھوٹے نکلتے رہیں‘ اور ۳۳ فی صدی ہمارے خرچ پر تیار ہو کر غیروں کی گود میں ڈال دیے جائیں‘ بلکہ بالآخر خود ہمارے خلاف استعمال ہوں۔

مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:

• اولاً تعلیم میں متضاد عناصر کی آمیزش اصولی حیثیت سے غلط ہے۔

• ثانیاً اسلامی مفاد کے لیے بھی ایسی آمیزش کسی طرح مفید نہیں‘ خواہ وہ اس قسم کی غیرمساوی آمیزش ہو۔ جیسی اب تک رہی ہے‘ یا مساوی کر دی جائے‘ جیسا کہ اب کرنے کا خیال کیا جارہا ہے۔

ان امور کی توضیح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی اب کیا ہونی چاہیے۔

یہ ظاہر ہے کہ ہر یونی ورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے‘ نہ آج دی جاری ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور ایک خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ و صورت کا انتخاب پورے غور و فکر کے بعد، اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کی یونی ورسٹی کس کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اگر وہ مغربی کلچر ہے تو اس کو مسلم یونی ورسٹی نہ کہیے‘ نہ اس میں دینیات کا ایک نصاب رکھ کر خواہ مخواہ طالب علموں کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کیجیے، اور اگر وہ اسلامی کلچر ہے تو آپ کو اپنی یونی ورسٹی کی پوری ساخت بدلنی پڑے گی اور اس کی ہیئتِ ترکیبی کو ایسے طرز پر ڈھالنا ہوگا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس کلچر کے مزاج اور اس کی اسپرٹ کے مناسب ہو‘ اور نہ صرف اس کا تحفظ کرے بلکہ اس کو آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھی طاقت بن جائے۔

جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کہ موجودہ حالت میں تو آپ کی یونی ورسٹی اسلامی کلچر کی نہیں بلکہ مغربی کلچر کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اس حالت میں اگر صرف اتنا تغیر کیا جائے کہ دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور کر دیا جائے اور تعلیم و تربیت کے باقی تمام شعبوں میں پوری مغربیت برقرار رہے تو اس سے بھی یہ درس گاہ اسلامی کلچر کی خادم نہیں بن سکتی۔ اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی تعلیم و تربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یکجا جمع کر دینا بالکل لا حاصل ہے۔ اسلام مسیحیت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کا دین دنیا سے کوئی الگ چیز ہو۔ وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقے پر تیار کرنا ہے‘ جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی‘ عزت اور برتری کا طریقہ ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی فکر و نظر کو درست کرتا ہے۔ اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے‘ اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے، اس کے لیے حقوق و فرائض متعین کرتا ہے اور اس کو اجتماعی زندگی کا ایک خاص نظام وضع کر کے دیتا ہے۔

افراد کی ذہنی و عملی تربیت‘ سوسائٹی کی تشکیل و تنظیم اور زندگی کے تمام شعبوں کی تربیت و تعدیل کے باب میں اس کے اصول و ضوابط سب سے الگ ہیں۔ انھی کی بدولت اسلامی تہذیب ایک جداگانہ تہذیب کی شکل اختیار کرتی ہے‘ اور مسلمان قوم کا بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہنا انھی کی پابندی پر منحصر ہے۔ پس جب حال یہ ہے تو ’اسلامی دینیات‘ کی اصلاح ہی بے معنی ہو جاتی ہے اگر زندگی اور اس کے معاملات سے اس کا ربط باقی نہ رہے۔ اسلامی کلچر کے لیے وہ عالم دین بے کارہے جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے مگر ان کو لے کر علم و عمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال و مسائل میں ان کو برتنا نہیں جانتا۔ اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالم دین بھی بے کار ہے جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے، مگر دماغ سے غیراسلامی طریق پر سوچتا ہے‘ معاملات کو غیر اسلامی نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے زوال اور اسلامی نظام تمدن کی ابتری کا اصل سبب یہی ہے کہ ایک مدت سے ہماری قوم میں صرف انھی دو قسموں کے عالم پیدا ہو رہے ہیں‘ اور دنیوی علم و عمل سے علم دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔

اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور زمانے کے پیچھے چلنے کے بجائے آگے چلنے لگے‘ تو اس ٹوٹے ہوئے رابطہ کو پھر قائم کیجیے، مگر اس کو قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسم تعلیمی کی گردن کا قلاوہ یا کمر کا پشتارہ بنا دیا جائے۔ نہیں، اس کو پورے نظام تعلیم و تربیت میں اس طرح اتار دیجیے کہ وہ اس کا دوران خون‘ اس کی روح رواں، اس کی بینائی و سماعت‘ اس کا احساس و ادراک‘ اس کا شعور و فکر بن جائے‘ اور مغربی علوم و فنون کے تمام صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی تہذیب کا جز بناتا چلا جائے۔ اس طرح آپ مسلمان فلسفی‘ مسلمان سائنس دان‘ مسلمان ماہرین معاشیات‘ مسلمان مقنن‘ مسلمان مدبرین‘ غرض تمام علوم و فنون کے مسلمان ماہر پیدا کرسکیں گے جو زندگی کے مسائل کو اسلامی نقطہ نظر سے حل کریں گے‘ تہذیب حاضر کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے تہذبِ اسلامی کی خدمت لیں گے‘ اور اسلام کے افکار و نظریات اور قوانین حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سر نو مرتب کریں گے‘ یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم و عمل کے ہر میدان میں اسی امامت و رہنمائی کے مقام پر آجائے گا جس کے لیے وہ درحقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔

یہ ہے وہ تخیل جو مسلمانوں کی جدید تعلیمی پالیسی کا اساسی تخیل ہونا چاہیے۔ زمانہ اس مقام سے بہت آگے نکل چکا ہے جہاں سرسید ہم کو چھوڑ گئے تھے۔ اب اگر زیادہ عرصے تک ہم اس پر قائم رہے تو بحیثیت ایک مسلم قوم کے ہمارا ترقی کرنا تو درکنار‘ زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔

(۲)

اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اوپر جس تعلیمی پالیسی کا ہیولیٰ میں نے پیش کیا ہے اس کو صورت کالباس کس طرح پہنایا جاسکتا ہے۔

۱۔ مسلم یونی ورسٹی کے حدود میں ’فرنگیت‘ کا کلی استیصال کر دینا نہایت ضروری ہے۔ اگر ہم اپنی قومی تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں چاہتے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسلوں میں فرنگیت کے ان روز افزوں رجحانات کا سدباب کریں۔ یہ رجحانات دراصل غلامانہ ذہنیت اور چھپی ہوئی احساس ونائت (Inferiority complex)کی پیداوار ہیں۔ پھر جب ان کا عملی ظہور‘ لباس‘ معاشرت‘ آداب و اطوار اور بحیثیت مجموعی پورے ماحول میں ہوتا ہے تو یہ ظاہر اور باطن دونوں طرف سے نفس کا احاطہ کر لیتے ہیں‘ اور اس میں شرفِ قومی کا رمق برابر احساس نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں اسلامی تہذیب کا زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ کوئی تہذیب محض اپنے اصولوں اور اپنے اساسی تصورات کے مجرد ذہنی وجود سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ عملی برتاؤں سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے نشوونما پاتی ہے۔ اگر عملی برتاؤ مفقود ہو جائے تو تہذیب اپنی طبیعی موت مرجائے گی‘ اور اس کا ذہنی وجود بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ پس سب سے مقدم اصلاح یہ ہے کہ یونی ورسٹی میں ایک زندہ اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ آپ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی قومی تہذیب پر فخر کرنا سکھائے‘ ان میں اپنی قومی خصوصیات کا احترام بلکہ عشق پیدا کرے‘ ان میں اسلامی اخلاق اور اسلامی سیرت کی روح پھونک دے‘ ان کو اس قابل بنا دے کہ وہ اپنے علم اور اپنی تربیت یافتہ ذہنی صلاحیتوں سے اپنے قومی تمدن کو شائستگی کے بلند مدارج کی طرف لے چلیں۔

۲۔ اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلمین کے علم و عمل پر ہے۔ جو معلم خود اس روح سے خالی ہیں‘ بلکہ خیال اورعمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ آپ محض عمارت کا نقشہ بنا سکتے ہیں‘ مگر اصلی معمار آپ نہیں، آپ کے تعلیمی اسٹاف کے ارکان ہیں۔ فرنگی معماروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسلامی طرز تعمیرپر عمارت بنائیں گے‘ کریلے کی بیل سے خوشۂ انگور کی امید رکھنا ہے۔ محض دینیات کے لیے چند ’مولوی‘ رکھ لینا ایسی صورت میں بالکل فضول ہوگا جب کہ دوسرے تمام یا اکثر علوم کے پڑھانے والے غیر مسلم یا ایسے مسلمان ہوں جن کے خیالات غیر اسلامی ہوں، کیونکہ وہ زندگی اور اس کے مسائل اور معاملات کے متعلق طلبا کے نظریات اور تصورات کو اسلام کے مرکز سے پھیر دیں گے‘ اور اس زہر کا تریاق محض دینیات کے کورس سے فراہم نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا خواہ کوئی فن ہو‘ فلسفہ ہو یا سائنس‘ معاشیات ہو یا قانون‘ تاریخ ہو یا کوئی اور علم‘ مسلم یونی ورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہر فن ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اورپکا مسلمان ہو۔ اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہر فن کی خدمات حاصل کرنی پڑیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن عام قائدہ یہی ہونا چاہیے کہ ہماری یونی ورسٹی کے پروفیسر وہ لوگ ہوں جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اساسی مقصد یعنی اسلامی کلچر کے لیے خیالات اور اعمال دونوں کے لحاظ سے مفید ہوں۔

۳۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں عربی زبان کو بطور ایک لازمی زبان کے شریک کیا جائے۔ یہ ہمارے کلچر کی زبان ہے۔ اسلام کے مآخذ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن اور سنت تک بلاواسطہ دسترس حاصل نہ کرے گا‘ اسلام کی روح کو نہ پاسکے گا‘ نہ اسلام میں بصیرت حاصل کرسکے گا۔ وہ ہمیشہ مترجموں اور شارحوں کا محتاج رہے گا‘ اور اس طرح کی روشنی اس کو براہِ راست آفتاب سے کبھی نہ مل سکے گی، بلکہ مختلف قسم کے رنگین آئینوں کے واسطے ہی سے ملتی رہے گی‘ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اسلامی مسائل میں ایسی ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی ابجد تک سے ناواقف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن اور سنت سے استفادہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے۔آگے چل کر پراونشل اٹانومی کے دور میں جب ہندستان کی مجالس مقننہ کو قانون سازی کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور سوشل رفارم کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جانے لگیں گے۔ اس وقت اگر مسلمانوں کی نمائندگی ایسے لوگ کرتے رہے جو اسلام سے ناواقف ہوں اور اخلاق‘ معاشرت اور قانون کے مغربی تصورات پر اعتقاد رکھتے ہوں‘ تو جدید قانون سازی سے مسلمانوں میں سوشل ریفارم ہونے کے بجائے انٹی سوشل ڈیفارم ہوگی اور مسلمانوں کا اجتماعی نظام اپنے اصولوں سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس عربی زبان کے مسئلے کو محض ایک زبان کا مسئلہ نہ سمجھیے‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے اساسی مقصد سے تعلق رکھتا ہے اور جو چیز اساسیات (Funadamentals)سے تعلق رکھتی ہو اس کے لیے سہولت کا لحاظ نہیں کیا جاتا‘ بلکہ ہر حال میں اس کی جگہ نکالنی پڑتی ہے۔

۴۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو حسب ذیل مضامین کی ابتدائی معلومات حاصل ہونی چاہییں۔

الف۔ عقائد

اس مضمون میں عقائد کی خشک کلامی تفصیلات نہ ہونی چاہییں، بلکہ ایمانیات کو ذہن نشین کرنے کے لیے نہایت لطیف انداز بیان اختیارکرنا چاہیے جو فطری وجدان اورعقل کو اپیل کرنے والا ہو۔

طلبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے ایمانیات دراصل کائنات کی بنیادی صداقتیں ہیں اور یہ صداقتیں ہماری زندگی سے ایک گہرا ربط رکھتی ہیں۔

ب۔ اسلامی اخلاق

اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور انبیاء علیھم السلام کی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبا کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان کے کریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔

ج۔احکام فقہ

اس مضمون میں حقوق اللہ اور حقوق العباد اور شخصی کردار کے متعلق اسلامی قانون کے ابتدائی اور ضروری احکام بیان کیے جائیں جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے، مگر اس قسم کے جزئیات اس میں نہ ہونے چاہییں جیسے ہماری فقہ کی پرانی کتابوں میں آتے ہیں کہ مثلاً کنویں میں چوہا گر جائے تو کتنے ڈول نکالے جائیں۔ ان چیزوں کے بجائے عبادات اور احکام کی معنویت‘ ان کی روح اور ان کے مصالح طلبہ کے ذہن نشین کرنے چاہییں۔ ان کو یہ بتانا چاہیے اسلام تمھارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا پروگرام بتاتا ہے اور یہ پروگرام کس طرح ایک صالح سوسائٹی کی تخلیق کرتا ہے۔

د۔ اسلامی تاریخ

یہ مضمون صرف سیرت رسولؐ اور دور صحابہؓ تک محدود رہے۔ اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیت کی اصل سے واقف ہو جائیں اور ان کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔

ر۔عربیت

عربی زبان کا محض ابتدائی علم جو ادب سے ایک حد تک مناسبت پیدا کر دے۔

س۔قرآن صرف اتنی استعداد کہ لڑکے کتاب اللّٰہ کو روانی کے ساتھ پڑھ سکیں۔ سادہ آیتوں کو کسی حد تک سمجھ سکیں اور چند سورتیں بھی ان کو یاد ہوں۔

(۵) کالج کی تعلیم میں ایک نصاب عام ہونا چاہیے جو تمام طلبہ کو پڑھایا جائے۔ اس نصاب میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں۔

الف۔ عربیت انٹرمیڈیٹ میں عربی ادب کی متوسط تعلیم ہو۔ بی اے میں پہنچ کر اس مضمون کو تعلیم قرآن کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔

ب۔ قرآن انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو فہم قرآن کے لیے مستعد کیا جائے۔ اس مرحلے میں صرف چند مقدمات ذہن نشین کرا دینے چاہئییں۔ قرآن کا محفوظ اور تاریخی حیثیت سے معتبر ترین کتاب ہونا۔ اس کا وحی الٰہی ہونا۔ تمام مذاہب کی اساسی کتابوں کے مقابلے میں اس کی فضیلت۔ اس کی بے نظیر انقلاب انگیز تعلیم۔ اس کے اثرات نہ صرف عرب پر بلکہ تمام دنیا کے افکار اور قوانینِ حیات پر۔ اس کا انداز بیان اور طرزاستدلال۔ اس کا حقیقی مدعا۔

بی۔ اے میں اصل قرآن کی تعلیم دی جائے۔ یہاں طرز تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ طلبا خود قرآن کو پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں اور استاد ان کی مشکلات کو حل اور ان کے شبہات کو رفع کرتا جائے۔ اگر مفصل تفسیر اور جزئی بحثوں سے اجتناب ہو، اور صرف مطالب کی توضیح پر اکتفا کیا جائے تو دو سال میں با آسانی پورا قرآن پڑھایا جاسکتا ہے۔

ج۔ تعلیمات اسلامی اس مضمون میں طلبہ کو پورے نظام اسلامی سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے۔ ان تصورات کی بنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر اس سوسائٹی کی زندگی کو وہ معاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کن اصولوں پر منظم کرتا ہے۔ اس کے اجتماعی نظام میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کس ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ حدود اللہ کیا ہیں۔ ان حدود کے اندر مسلمان کو کس حد تک فکرو عمل کی آزادی حاصل ہے اور ان حدود کے باہر قدم نکالنے سے نظام اسلامی پر کیا اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ یہ تمام امور جامعیت کے ساتھ نصاب میں لائے جائیں اور اس کو چار سال کے مدارج تعلیمی پر ایک مناسبت کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔

۶۔ نصاب عام کے بعد علوم اسلامیہ کو تقسیم کرکے مختلف علوم و فنون کی اختصاصی تعلیم میں پھیلا دیجیے اور ہر فن میں اسی فن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو پیوست کیجیے۔ مغربی علوم و فنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیں‘ اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں‘ بلکہ جواباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائق علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں بلکہ مغربیت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہل مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصورات‘ بنیادی مفروضات (Hypothesis)،نقطہ ہائے آغاز(Starting Points)اور زاویہ حائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ محض ان کے اپنے وجدانیات ہیں۔ وہ حقائق علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں‘ اور اس سانچے کی مناسبت سے ان کو مرتب کرکے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی دشمنی دراصل انھی وجدانیات سے ہے۔ وہ حقائق کا دشمن نہیں بلکہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنا ایک مرکزی تصور‘ ایک زاویۂ نظر‘ ایک نقطہ آغاز فکر، ایک وجدانی سانچہ رکھتا ہے جو اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مغربی سانچوں کی عین ضد واقع ہوا ہے۔

اب یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی نقطہ نظر سے ضلالت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ مغربی علوم و فنون سے حقائق لیتے ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ آپ مغرب ہی سے اس کا وجدانی سانچہ بھی لے لیتے ہیں۔ فلسفہ‘ سائنس‘ تاریخ‘ قانون‘ سیاسیات‘ معاشیات اور دوسرے علمی شعبوں میں آپ خود ہی تو اپنے نوجوان اور خالی الذہن طلبا کے دماغوں میں مغرب کے اساسی تصورات بٹھاتے ہیں‘ ان کی نظر کا فوکس مغربی زاویہ نظر کے مطابق جماتے ہیں‘ مغربی مفروضات کو مسلمات بناتے ہیں۔ استدلال و استشہاد اور تحقیق و تفحیص کے لیے صرف وہی ایک نقطہ آغاز ان کو دیتے ہیں جو اہل مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پر مرتب کرکے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں جس طرز پر اہل مغرب نے ان کو مرتب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے۔ یہ کس طرح ممکن ہے؟ وہ شعبہ دینیات کیا کرسکتا ہے جس مں مجرد تصورات ہوں۔ حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بلکہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ان تصورات کے بالکل برعکس ہو۔ یہی گمراہی کا سرچشمے ہے۔ اگر آپ گمراہی کا سدباب کرنا چاہتے ہیں تو اس سرچشمے کے مصدر پر پہنچ کر اس کا رخ پھیر دیجیے اور تمام علمی شعبوں کو وہ نقطہ آغاز‘ وہ زاویہ نظر‘ وہ اساسی اصول دیجیے جو قرآن نے آپ کودیے ہیں۔ جب اسی وجدانی سانچے میں معلومات مرتب ہوں گی اور اس نظر سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ ’مسلم طلبہ‘ بنیں گے اور آپ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں اسلامی سپرٹ پیدا کی، ورنہ ایک شعبے میں اسلام اور باقی تمام شعبوں میں غیر اسلام رکھ دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ آپ کے فارغ التحصیل طلبہ فلسفہ میں غیر مسلم‘ سائنس میں غیر مسلم‘ قانون میں غیر مسلم‘ سیاسیات میں غیر مسلم‘ فلسفہ تاریخ میں غیر مسلم‘ معاشیات میں غیر مسلم ہوں گے اور ان کا اسلام محض چند اعتقادات اور چند مذہبی مراسم کی حد تک محدود رہ جائے گا۔

۷۔ بی‘ ٹی‘ ایچ اور ایم‘ ٹی‘ ایچ کے امتحانات کو بند کر دیجیے۔ نہ ان کی کوئی ضرورت، نہ فائدہ۔ جہاں تک علوم اسلامیہ کے مخصوص شعبوں کا تعلق ہے ان میں سے ہر ایک شعبے کو اسی کے مماثل علم کے مغربی شعبے کے انتہائی کورس میں داخل کر دیجیے۔ مثلاً فلسفے میں حکمت اسلامیہ اور اسلامی فلسفے کی تاریخ اور فلسفیانہ افکار کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ۔ تاریخ میں تاریخ اسلام اور اسلامی فلسفہ تاریخ‘ قانون میں اسلامی قانون کے اصول اور فقہ کے وہ ابواب جو معاملات سے متعلق ہیں۔ معاشیات میں اسلامی معاشیات کے اصول اور فقہ کے وہ حصے جو معاشی مسائل سے متعلق ہیں۔ سیاسیات میں اسلام کے نظریات سیاسی اور اسلامی سیاسیات کے نشووارتقا کی تاریخ اور دنیا کے سیاسی افکار کی ترقی میں اسلام کا حصہ۔ (قس علیٰ ھذا)

۸۔ اس کورس کے بعد علوم اسلامیہ میں ریسرچ کے لیے ایک مستقل شعبہ ہونا چاہیے جو مغربی یونی ورسٹیوں کی طرح اعلیٰ درجے کی علمی تحقیق پر سند فضیلت (Doctrate)دیا کرے۔ اس شعبے میں ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مجتہدانہ طرز تحقیق کی تربیت پا کر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام دنیا کی نظری و فکری رہنمائی کے لیے مستعد ہوں۔

(۳)

حصہ دوم میں جس طرز تعلیم کا خاکہ میں نے پیش کیا ہے وہ بظاہر ناقابل عمل معلوم ہوتا ہے لیکن میں کافی غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ توجہ اور محنت اور صَرف مال سے اس کو بتدریج عمل میں لایا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ کسی راہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل کے آخری نشان پر نہیں پہنچ سکتے۔ کام کی ابتدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی تکمیل کا پورا سامان پہلے سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ابھی تو آپ کو صرف عمارت کی بنیاد رکھنی ہے‘ اور اس کا سامان اس وقت فراہم ہوسکتا ہے۔ موجودہ نسل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرز تعمیر پر بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت سے جو نسل اٹھے گی وہ دیواریں اٹھانے کے قابل ہوگی۔ پھر تیسری نسل ایسی نکلے گی جس کے ہاتھوں یہ کام ان شاء اللہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ جو درجہ کمال کم از کم تین نسلوں کی مسلسل محنت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے‘ اس کو آج ہی حاصل کرلینا ممکن نہیں، لیکن تیسری نسل میں عمارت کی تکمیل تب ہی ہوسکے گی کہ آپ آج اس کی بنیاد رکھ دیں، ورنہ اگر اس کے درجۂ کمال کو اپنے سے دور پاکر آپ نے آج سے اس کی ابتدا ہی نہ کی، حالانکہ ابتدا کرنے کے اسباب آپ کے پاس موجود ہیں‘ تو یہ کام کبھی انجام نہ پائے گا۔

چونکہ میں اس اصلاحی اقدام کا مشورہ دے رہا ہوں اس لیے یہ بھی میرا فرض ہے کہ اس کو عمل میں لانے کی تدابیر بھی پیش کروں۔ اپنے بیان کے اس حصے میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرز تعلیم کی ابتدا کس طرح کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے قابل عمل تدبیریں کیا ہیں

۱۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے عقائد‘ اسلامی اخلاق اور احکام شریعت کا ایک جامع کورس حال ہی میں سرکار نظام کے محکمہ تعلیمات نے تیار کرایا ہے اس کو ضروری ترمیم و اصلاح سے بہت کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔

عربی زبان کی تعلیم قدیم طرز کی وجہ سے جس قدر ہولناک ہوگئی تھی الحمد للہ کہ اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے مصر و شام اور خود ہندستان میں ایسے نکل آئے ہیں جن سے باآسانی یہ زبان سکھائی جاسکتی ہے۔ ایک خاص کمیٹی ان لوگوں کی مقرر کی جائے جو عربی تعلیم کے جدید طریقوں میں علمی و عملی مہارت رکھتے ہیں اور ان کے مشورے سے ایک ایسا کورس تجویز کیا جائے جس میں زیادہ تر قرآن ہی کو عربی کی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ اس طرح تعلیم قرآن کے لیے الگ وقت نکالنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی، اور ابتدا ہی سے طلبہ کو قرآن سے مناسبت پیدا ہو جائے گی۔

اسلامی تاریخ کے بکثرت رسالے اردو زبان میں لکھے جاچکے ہیں۔ ان کو جمع کر کے بنظر غور دیکھا جائے اور جو رسائل مفید پائے جائیں ان کو ابتدائی جماعتوں کے کورس میں داخل کرلیا جائے۔

مقدم الذکر دونوں مضامین کے لیے روزانہ صرف ایک گھنٹہ کافی ہوگا۔ رہی اسلامی تاریخ تو یہ مضمون کوئی الگ وقت نہیں چاہتا۔ تاریخ کے عمومی نصاب میں اس کو ضم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کوئی زیادہ تغیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ تغیر کی ضرورت جو کچھ بھی ہے نصاب تعلیم اور تعلیمی اسٹاف میں ہے۔ دینیات کی تدریس اور اس کے مدرس کا جو تصور آپ کے ذہن میں اب تک رہا ہے اس کو نکال دیجیے۔ اس دور کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیت اور ان کے نفسیات کو سمجھنے والے مدرس رکھیے۔ ان کو ایک ترقی یافتہ نصاب تعلیم دیجیے اور اس کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیجیے جس میں ’اسلامیت‘ کے بیج کو بالیدگی نصیب ہوسکے۔

۲۔ کالج کے لیے نصاب عام کی جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس کے تین اجزا ہیں

(الف)عربیت، (ب) قرآن، (ج) تعلیمات اسلامی

ان میں سے عربیت کو آپ ثانوی لازمی زبان کی حیثیت دیجیے۔ دوسری زبانوں میں سے کسی کی تعلیم اگر طلبہ حاصل کرنا چاہیں تو ٹیوٹرس کے ذریعے سے حاصل کرسکتے ہیں، مگر کالج میں جو زبان ذریعۂ تعلیم ہے‘ اس کے بعد صرف عربی زبان ہی لازم ہونی چاہیے۔ اگر نصاب اچھا ہو اور پڑھانے والے آزمودہ کار ہوں تو انٹرمیڈیٹ کے دو سالوں میں طلبہ کے اندر اتنی استعداد پیدا کی جاسکتی ہے کہ وہ بی ۔ اے میں پہنچ کر قرآن کریم کی تعلیم خود قرآن کی زبان میں حاصل کرسکیں۔

قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجے کا پروفیسر کافی ہے جس نے قرآن کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو اور جو طرز جدید پر قرآن پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ وہ اپنے لیکچروں سے انٹرمیڈیٹ میں طلبا کے اندر قرآن فہمی کی ضروری استعداد پیدا کرے گا۔ پھر بی۔ اے میں ان کو پورا قرآن اس طرح پڑھا دے گا کہ وہ عربیت میں بھی کافی ترقی کر جائیں گے اور اسلام کی روح سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گے۔

تعلیمات اسلامی کے لیے ایک جدید کتاب لکھوانے کی ضرورت ہے جو ان مقاصد پر حاوی ہو جن کی طرف میں نے حصہ دوم کے نمبر ۵ ضمن (ج) میں اشارہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے خود اِن مقاصد کو پیش نظر رکھ کر ایک کتاب اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے عنوان سے لکھنی شروع کی تھی جس کے ابتدائی تین باب ترجمان القرآن میں محرم ۱۳۵۲ھ سے شعبان ۱۱۳۵۳؂ھ تک کے پرچوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر اس کو مفید سمجھا جائے تو میں اس کی تکمیل کرکے یونی ورسٹی کی نذر کردوں گا۔

ان مضامین کے لیے کالج کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کسی تغیر کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ عربیت کے لیے وہی وقت کافی ہے جو آپ کے ہاں ثانوی زبان کے لیے ہے۔ قرآن اور تعلیمات اسلامیہ دونوں کے لیے باری باری سے وہی وقت کافی ہوسکتا ہے جو آپ کے ہاں دینیات کے لیے مقرر ہے۔

۳۔ زیادہ تر مشکل اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آئے گی جسے میں نے حصہ دوم کے نمبر۶‘ ۷ میں پیش کیا ہے۔ اس کے حل کی تین صورتیں ہیں جن کو بتدریج اختیار کیا جاسکتا ہے

الف۔ ایسے پروفیسر تلاش کیے جائیں (اور وہ ناپید نہیں ہیں) جو علوم جدیدہ کے ماہر ہونے کے ساتھ قرآن اور سنت میں بھی بصیرت رکھتے ہوں‘ جن میں اتنی اہلیت ہو کہ مغربی علوم کے حقائق کو ان کے نظریات اور ان کی وجدانی اساس سے الگ کر کے اسلامی اصول و نظریات کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ب۔ اسلامی فلسفۂ قانون‘ اصول قانون و فلسفہ تشریع‘ سیاسیات‘ عمرانیات‘ معاشیات‘ تاریخ و فلسفہ تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی‘ اردو‘ انگریزی‘ جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بعینہ لینے کے قابل ہوں ان کا انتخاب کرلیا جائے اور جن کو اقتباس یا حذف و ترمیم کے ساتھ کار آمد بنایا جاسکتا ہو ان کو اسی طریق پر کام میں لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہل علم کی ایک خاص جمعیت مقرر کرنی ہوگی۔

ج۔ چند ایسے فضلا کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں۔ خصوصیت کے ساتھ اصول فقہ‘ احکام فقہ‘ اسلامی معاشیات‘ اسلام کے اصول عمران‘ اور حکمت قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا نہایت ضروری ہے‘ کیونکہ قدیم کتابیں اب درس و تدریس کے لیے کارآمد نہیں ہیں‘ ارباب اجتہاد کے لیے تو بلاشبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر ان کو جوں کا توں لے کر موجود زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔

اس میں شک نہیں کہ سردست ان تینوں تدبیروں سے وہ مقصد بدرجہ کمال حاصل نہ ہوگا جو ہمارے پیش نظر ہے۔ بلاشبہہ اس تعمیر جدید میں بہت کچھ نقائص پائے جائیں گے لیکن اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ صحیح راستے پر پہلا قدم ہوگا۔ اس میں جو کوتاہیاں رہ جائیں گی ان کو بعد کی نسلیں پورا کریں گی یہاں تک کہ اس کے تکمیلی ثمرات کم از کم پچاس سال بعد ظاہر ہوں گے۔

۴۔ اسلامی ریسرچ کا شعبہ قائم کرنے کا ابھی موقع نہیں۔ اس کی نوبت چند سال بعد آئے گی۔ اس لیے اس کے متعلق تجاویز پیش کرنا قبل از وقت ہے۔

۵۔ میری تجاویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب کیا جائے کہ وہ کس حد تک اس طرز تعلیم میں شیعہ طلبہ کو سنی طلبہ کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے۔ اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلبا کے لیے خود کوئی اسکیم مرتب کریں‘ مگر مناسب یہ ہوگا کہ جہاں تک ہوسکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم سے کم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آئندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اصول و مبادی کے تحت تربیت کیا جائے۔

۶۔ سر محمد یعقوب کے اس خیال سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ وقتاً فوقتاً علماو فضلا کو اہم مسائل پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی جاتی رہے۔ میں چاہتا ہوں کہ علی گڑھ کو نہ صرف ہندستان کا بلکہ تمام دنیائے اسلام کا دماغی مرکز بنا دیا جائے۔ آپ اکابر ہندستان کے علاوہ مصر‘ شام‘ ایران‘ ٹرکی اور یورپ کے مسلمان فضلا کو بھی دعوت دیجیے کہ یہاں آکر اپنے خیالات‘ تجربات اور نتائجِ تحقیق سے ہمارے طلبہ میں روشنی فکر اورروح حیات پیدا کریں۔ اس قسم کے خطبات کافی معاوضہ دے کر لکھوائے جانے چاہئییں تاکہ وہ کافی وقت محنت اور غور و فکر کے ساتھ لکھے جائیں اور ان کی اشاعت نہ صرف یونی ورسٹی کے طلبا کے لیے بلکہ عام تعلیم یافتہ پبلک کے لیے بھی مفید ہو۔

۷۔ اسلامی تعلیم کے لیے کسی ایک زبان کو مخصوص کرنا درست نہیں۔ اردو‘ عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں بھی اس وقت نصاب کے لیے کافی سامان موجود نہیں ہے، لہٰذا سردست ان میں سے جس زبان میں بھی جو مفید چیز مل جائے اس کو اسی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ دینیات اور علوم اسلامیہ کے معلمین سب کے سب ایسے ہونے چاہییں جو انگریزی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ اب کوئی یک رخا آدمی صحیح معلم دینیات نہیں ہوسکتا۔

میں اپنے اس بیان کی اس طوالت پر عذر خواہ ہوں‘ مگر اتنی تطویل و تفصیل میرے لیے ناگزیر تھی‘ کیونکہ میں بالکل ایک نئے راستے کی طرف دعوت دے رہا ہوں جس کے نشانات کو پہچاننے میں خود مجھے غور و فکر کے کئی سال صَرف کرنے پڑے ہیں۔ میں حتماً اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے زندہ رہنے کی اب کوئی صورت بجز اس کے نہیں ہے کہ ان کے طرز تعلیم و تربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے اور وہ انقلاب ان خطوط پر ہو جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ ایک بڑی جماعت ایسے لوگوں کی موجود ہے‘ اور خود علی گڑھ میں ان کی کمی نہیں‘ جو میرے ان خیالات کو ایک دیوانے کا خواب کہیں گے۔ اگر ایسا ہو تو مجھے کوئی تعجب نہ ہوگا۔ پیچھے دیکھنے والوں نے آگے دیکھنے والوں کو اکثر دیوانہ ہی سمجھا ہے، اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں لیکن جو کچھ میں آج دیکھ رہا ہوں‘ چند سال بعد شاید میری زندگی ہی میں وہ اس کو بچشم سر دیکھیں گے اور ان کو اس وقت اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہوگی جب طوفان سر پر ہوگا اور تلافیِ مافات کے مواقع کم تر رہ جائیں گے۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاخری ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)


مرض اور اس کا علاج - مولانا سید ابوالاعلی مودودی

مرض اور اس کا علاج
اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے‘ نہ وہ محض چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اوررسموں کا مجموعہ ہے‘ بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک مفصل اسکیم ہے۔ اس میں عقائد‘ عبادات اورعملی زندگی کے اصول و قواعد الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سب مل کر ایک ناقابل تقسیم مجموعہ بناتے ہیں‘ جس کے اجزا کا باہمی ربط بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک زندہ جسم کے اعضا میں ہوتا ہے۔

آپ کسی زندہ آدمی کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں‘ آنکھیں اور کان اور زبان جدا کر دیں‘ معدہ اور جگر نکال دیں‘ پھیپھڑے اور گردے الگ کر دیں‘ دماغ بھی پورا یا کچھ کم و بیش کاسۂ سر سے خارج کر دیں اور بس ایک دل اُس کے سینے میں رہنے دیں۔ کیا یہ باقی ماندہ حصۂ جسم زندہ رہ سکے گا؟ اور اگر زندہ بھی رہے تو کیا وہ کسی کام کا ہوگا؟

ایسا ہی حال اسلام کا بھی ہے۔ عقائد اس کا قلب ہیں۔ وہ طریق فکر (Attitude of mind)، نظریہ حیات (view of Life)، مقصد زندگی اور معیار قدر (Standard of values)جوان عقائد سے پیدا ہوتا ہے اس کا دماغ ہے‘ عبادات اس کے جوارح اور قوائم ہیں جن کے بل پر وہ کھڑا ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ معیشت‘ معاشرت‘ سیاست اور نظم اجتماعی کے تمام وہ اصول جو زندگی کے لیے اسلام نے پیش کیے ہیں وہ اس کے لیے معدے اور جگر اور دوسرے اعضائے رئیسہ کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کو صحیح و سالم آنکھوں اور بے عیب کانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ زمانے کے احوال و ظروف کی ٹھیک ٹھیک رپورٹیں دماغ تک پہنچائیں اور دماغ ان کے متعلق صحیح حکم لگائے۔ اس کو اپنے قابو کی زبان درکار ہے تاکہ وہ اپنی خودی کا کما حقہ اظہار کرسکے۔ اس کو پاک صاف فضا کی حاجت ہے جس میں وہ سانس لے سکے۔ اس کو طیب و طاہر غذا مطلوب ہے جو اس کے معدے سے مناسبت رکھتی ہو اور اچھا خون بنا سکے۔

اس پورے نظام میں اگرچہ قلب (یعنی عقیدہ)بہت اہمیت رکھتا ہے‘ مگر اس کی اہمیت اسی لیے تو ہے کہ وہ تمام اعضا و جوارح کو زندگی کی طاقت بخشتا ہے۔ جب اکثر و بیش تر اعضا کٹ جائیں، جسم سے خارج کر دیے جائیں یا خراب ہو جائیں تو اکیلا قلب تھوڑے بہت بچے کھچے خستہ و بیمار اعضا کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور اگر زندہ بھی ہے تو اس زندگی کی کیا وقعت ہوسکتی ہے؟

اب آپ غور فرمائیں کہ اس وقت آپ اپنی اسی ہندستان کی دنیا میں اسلام کو کس حال میں دیکھ رہے ہیں۔ قوانین اسلامی قریب قریب معطل ہیں‘ اخلاق میں‘ معاشرت میں‘ معیشت میں اور زندگی کے سارے معاملات میں اصول اسلامی کا نفاذ ۵ فی صدی سے زیادہ نہیں ہے۔ غیر اسلامی ماحول‘ غیر اسلامی تربیت‘ اور غیر اسلامی تعلیم نے دماغ کو کہیں بالکل اور کہیں کچھ کم و بیش غیر مسلم بنادیا ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں مگر زاویہ نظر بدل گیا ہے‘ کان سنتے ہیں مگر ان کے پردے متغیر ہو چکے ہیں‘ زبان بولتی ہے مگر اس کی گویائی میں فرق آگیا ہے۔ پھیپھڑوں کو صاف ہوا میسر نہیں کہ ایک زہریلی فضا چاروں طرف محیط ہے۔ معدے کو پاک غذا نہیں ملتی کہ رزق کے خزانے مسموم ہو چکے ہیں۔ عبادات جو اس جسم کے جوارح اور قوائم ہیں قریب قریب ۶۰فی صدی تو مفلوج ہیں اور ۴۰ فی صدی جو باقی ہیں وہ بھی کوئی اثر نہیں دکھا رہے ہیں کیونکہ دوسرے اعضائے رئیسہ سے ان کا تعلق باقی نہیں رہا، اسی لیے فالج کا مادہ ان میں پھیلتا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا اسلام ہے جو آپ کے سامنے ہے؟ کتنے ہی اعضا کٹ گئے‘ کتنے مفلوج ہوگئے‘ کتنے موجود ہیں مگر بیمار ہیں اور ٹھیک کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک قلب باقی ہے‘ اور وہ بیمار ہو رہا ہے کیونکہ جس طرح وہ ان اعضا کو زندگی کی طاقت بخشتا تھا اسی طرح خود بھی تو ان سے طاقت حاصل کرتا تھا۔ جب دماغ اور پھیپھڑوں اور معدہ و جگر سب کا فعل خراب ہوگیا تو قلب کیسے صحیح و سالم رہ سکتا ہے؟ یہ محض اس زبردست قلب کی غیر معمولی طاقت ہے کہ نہ صرف خود زندہ ہے بلکہ بچے کھچے اعضا کو بھی کسی نہ کسی طرح چلائے جارہا ہے، مگر کیا اس میں یہ طاقت ہے کہ ہندستان کی زندگی میں اپنا کوئی اثر قائم کرسکے؟ بلکہ خاکم بدہن میں تو یہ پوچھوں گا کہ اس نوبت پر کیا یہ ان حوادث کے مقابلے میں جن کا سیلاب روز افزوں تیزی کے ساتھ آرہا ہے اپنے بقیہ اعضا کو مزید قطع و برید سے اور خود اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے؟

اسی کا نتیجہ ہے کہ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا ] النصر ۱۱۰۲[ کے برعکس اب خود مسلمانوں کے گروہ میں اسلام سے بغاوت اور انحراف کی وبا پھیل رہی ہے۔ سارے ہندستان میں اور اس کے اطراف و اکناف میں کہیں بھی نظام اسلامی اپنی پوری مشینری کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ لوگ اس کے جمال و کمال کو دیکھیں اور درخت کو اس کے پھلوں سے پہچانیں۔ وہ جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ یہی اعضا بریدہ اسلام ہے اور سمجھتے ہیں کہ بس اسلام یہی ہے۔ اس کو دیکھ کر بعض تو علانیہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں‘ بہت سے ایسے ہیں کہ مسلمان ہونے سے بس انکار نہیں کرتے باقی تمام باتیں ایسی کرتے ہیں کہ ان میں اور منکرین اسلام میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ بہت سوں کے دل پھر گئے ہیں‘ مگر چونکہ ابھی صریح بغاوت برپا نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہیں اور بغاوت کے جراثیم پھیلا رہے ہیں تاکہ جب عام بلوٰی شروع ہو جائے تب خود بھی اپنا جھنڈا لے کر کھڑے ہوں۔ کچھ لوگ صاف نہیں کہتے مگر دبی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ نئی قومیت اور نئی تہذیب میں جذب ہونے کے لیے تیار ہو جاؤ‘ کیونکہ یہ تن مردہ جسے تم لیے بیٹھے ہو‘ نہ خود تمھیں کوئی فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ان فوائد ہی سے متمتع ہونے دیتا ہے جو دوسروں میں جذب ہونے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک اب مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ اسلام کا باضابطہ مثلہ کر دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف مذہبی حرکت و عمل کی حد تک مسلمان رہنا چاہیے‘ باقی زندگی کا سارا پروگرام وہی اختیار کرلینا چاہیے جو غیرمسلموں نے سکھایا ہے اور جس کو غیر مسلم اختیار کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ خود دھوکے میں ہیں یا دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے جس کو یہ لوگ بھول گئے ہیں یا بھلا رہے ہیں کہ تمام معاملات زندگی میں غیر اسلامی نظریات اختیار کرنے اور غیر اسلامی اصول پر عامل ہوجانے کے بعد مذہبی عقائد اور مذہی حرکت و عمل قطعاً بے زور ہو جاتے ہیں۔ نہ ان پر زیادہ مدت تک ایمان باقی رہ سکتا ہے اور نہ عمل جاری رہ سکتا ہے اس لیے کہ یہ عقائد اور یہ عبادات تووہ بنیادیں ہیں جن کو اس لیے قائم کیاگیا ہے کہ زندگی کی پوری عمارت ان پر تعمیر ہو۔ جب یہ عمارت دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوگئی تو ان آثار قدیمہ سے بے فائدہ و بے ضرورت دلچسپی کب تک باقی رہ سکے گی؟ نئے نظام زندگی میں جو بچہ پرورش پا کر جوان ہوگا وہ پوچھے گا کہ چند لا حاصل عقیدتوں اور چند بے نتیجہ رسموں کا یہ قلادہ کیوں میرے گلے میں ڈال رکھا ہے؟ میں کیوں اس قرآن کو پڑھوں اور کیوں اس پر ایمان رکھوں جس کے سارے احکام اب بے کار ہو چکے ہیں؟ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جو انسان گزر چکا ہے آج اس کو میں کس لیے خدا کا رسول مانوں؟ جب اس زندگی میں وہ میری رہنمائی ہی نہیں کرتا تو محض اس کی رسالت تسلیم کرلینے سے فائدہ کیا اور نہ تسلیم کرنے سے نقصان کیا؟ یہ نظام حیات جس میں عمل کر رہا ہوں اس میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے‘ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے کیا فرق واقع ہو جاتا ہے؟ کیا رابطہ ہے ان اعمال اور اس زندگی کے درمیان؟ یہ بے جوڑ پیوند میری زندگی میں آخر کیوں لگا رہے؟

یہ منطقی نتیجہ ہے دین اور دنیا کی علیحدگی کا اور جب یہ علیحدگی اصولاً اور عملاً مکمل ہو جائے گی تو یہ نتیجہ رونما ہو کر رہے گا۔ جس طرح نظام جسمانی سے الگ ہو جانے کے بعد قلب بے کار ہو جاتا ہے اسی طرح زندگی سے بے تعلق ہو جانے کے بعد عقائد اور عبادات کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عقائد اور عبادات اسلامی زندگی کو قوت حیات دیتے ہیں اور اسلامی زندگی عقائد اور عبادات کو طاقت بہم پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں ان دونوں میں ایک زندہ نظام جسمانی کے اعضا کا تعلق ہے جسے منقطع کر دینے کا لازمی نتیجہ دونوں کی موت ہے۔ غیر اسلامی زندگی میں اسلامی عقائد اور عبادات کا پیوند بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے گویلا کے جسم میں انسانی دماغ اور انسانی دست و پا۔

یہ نہ سمجھ لیجیے کہ اسلام کی موجودہ حالت کا یہ اثر صرف نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ایک مختصر گروہ پر ہی مترتب ہو رہا ہے۔ نہیں آج جو لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں‘ جن کے دلوں میں اس کی محبت اور عزت موجود ہے‘ خواہ نئے گروہ کے لوگ ہوں یا پرانے گروہ کے‘ ان سب پر کم و بیش ان حالات کا اثر پڑ رہا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کا درہم برہم ہو جانا ایک عام مصیبت ہے جس کے طبیعی نتائج سے کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں ہے اور نہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہم سب کو اس میں سے حصہ مل رہا ہے، اور ہمارے علما و مشائخ بھی اس میں اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے مدرسوں اورکالجوں سے نکلے ہوئے لوگ،لیکن سب سے زیادہ خطرہ میں ہمارے وہ عوام ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ۱۶ لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، اُن کے پاس صرف اسلام کا نام باقی ہے جس سے ان کو غیر معمولی محبت ہے۔ نہ علمی حیثیت سے یہ غریب اس چیز سے واقف ہیں جس پر یہ اس طرح جان دے رہے ہیں اور نہ عملی حیثیت سے کوئی ایسا نظام زندگی موجود ہے جو انھیں غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ ان کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر ہر گمراہ کرنے والا، ان کے عقائد اور ان کی زندگی کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ بس انھیں یہ اطمینان دلا دینا کافی ہے کہ یہ ضلالت جو ان کے سامنے پیش کی جارہی ہے یہی عین ہدایت ہے یا کم از کم اسلام کے مخالف نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ جس راستے پر چاہیں انھیں بھٹکالے جاسکتے ہیں‘ خواہ وہ قادیانیت کا راستہ ہویا اشتراکیت کا‘ یا فسطائیت کا۔ ان کے روز افزوں افلاس اور ان کی ہولناک معاشی خستہ حالی نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو موجودہ بے نظمی کی حالت میں اصول اسلام کے مطابق حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔

مسلمانوں میں کوئی منظم جماعت ایسی موجود نہیں جو اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کے معاشی و تمدنی اصولوں کو لے کر اٹھے اور ان مسائل کو حل کرکے دکھادے جو عام لوگوں کے لیے فی الواقع بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مفلس و فاقہ کش مسلمانوں کی یہ بھیڑ اشتراکی مبلغین کے لیے نہایت سہل الحصول شکار بن گئی ہے۔ بور ژوا طبقے کے جن لوگوں میں حوصلہ مندی اور اقتدار کی حرص ذرا اعتدال سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ ہمیشہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے نئی نئی تدبیریں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اب روسی انقلاب نے اس طبقے کے ایک گروہ کو ایک اور تدبیر سکھا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسان اور مزدور کے حامی بن کر غریب عوام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان کے اندر خود غرضی‘ حرص اور حسد کی آگ بھڑکائیں‘ ان کے جائز حقوق سے بڑھ کر انھیں دولت میں حصہ دلوانے کا لالچ دلائیں‘ خوش حال طبقوں کی جائز دولت تک چھین کر ان میں تقسیم کر دینے کا وعدہ کریں‘ اور اس طرح ملک کے سواد اعظم کو اپنی مٹھی میں لے کر وہ اقتدار حاصل کریں جو سرمایہ داری نظام کے بادشاہوں‘ ڈکٹیڑوں اور کروڑ پتیوں کو حاصل ہے۔ یہ لوگ غیر مسلم عوام سے بڑھ کر مسلم عوام سے توقعات رکھتے ہیں کیونکہ معاشی حیثیت سے مسلمان زیادہ خستہ حال ہیں۔ یہ ان کے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیٹ کی طرف سے راستہ پیدا کر رہے ہیں جو بھوکے آدمی کے جسم کا سب سے زیادہ نازک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ان سے کہتے ہیں کہ آؤ ہم وہ طریقہ بتائیں جس سے امیری اور غریبی مرتی ہے اور آسودہ حالی آتی ہے۔ پھر جب بے چارہ بھوکا مسلمان دو روٹیوں کی امید پر ان کی طرف دوڑتا ہے تو یہ اسے خدا پرستی کے بجائے شکم پرستی کے مذہب کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جذبہ اس کے دل میں پیدا کرتے ہیں کہ دین اور ایمان کوئی چیز نہیں‘ اصل چیز روٹی ہے‘وہ جس طریقے سے ملے وہی دین ہے اور اسی میں نجات ہے۔

غریبوں مفلسوں اور غلاموں کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدن ایک پھٹا پرانا کُرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان اس موجودہ افلاس اور نکبت سے چھٹکارا پالینا ہے۔ وہی روٹی اورکپڑا جس کے لیے وہ چوری تک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج افلاس اور غلامی کی دنیا میں اس کا کوئی مذہب نہیں۔

یہ ابتدائی سبق ہے مذہب اشتراکیت کا اور جس آن یہ سبق بے چارے جاہل و مفلس مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اسی آن انھیں اس امر کا اطمینان بھی دلایا جاتا ہے کہ ہم تمھارے مذہب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔

مذہب اورعقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ کیا تعلق؟ مذہب تو ہمیشہ اگر اس میں اخلاقی اور روحانی طاقت رہی ہے‘ زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے۔

یہ دونوں فقرے جو یہاں نقل کیے گئے ہیں ایک مسلمان صاحب کے مضمون سے ماخوذ ہیں جو ایک کثیر الاشاعت مسلم اخبارکے کالموں میں شائع ہوا ہے۔

گزشتہ ۲۰ سال کے اندر روسی اشتراکیت کے جو اثرات مسلمانانِ روس کی نوخیز نسلوں پر مترتب ہوئے ہیں وہ جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہی مستقبل مسلمانانِ ہند کے سامنے بھی دھمکیاں دیتا ہوا آرہا ہے۔ پیٹ کی آگ متاع ایمان کو خاکستر کر دینے کے لیے بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک سرچشمہ اتنا چھوٹا ہے کہ اسے ایک سلائی سے بند کیاجاسکتا ہے، لیکن اگر غفلت کے چند سال یوں ہی گزار دیے گئے تو یہ اتنا بڑا سیلاب بن جائے گا کہ اس کے مقابلے میں ہاتھیوں کے پاؤں اکھڑ جائیں گے۔

ان حالات میں محض عیسائی مشنریوں کے ڈھنگ پر اسلام کی تبلیغ کر دینا لاحاصل ہے۔ عقائد کی اصلاح کے لیے ایک رسالہ نہیں ہزاروں رسالے، اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی شائع کر دے جائیں تو یہ حالات روبراہ نہیں آسکتے۔ محض زبان اور قلم سے اسلام کی خوبیوں کو بیان کردینے سے کیا فائدہ؟ ضرورت تو اس کی ہے کہ ان خوبیوں کو واقعات کی دنیا میں سامنے لایا جائے۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ اس اسلام کے اصولوں میں زندگی کے مسائل کا حل موجود ہے‘ سارے مسائل خود بخود حل نہیں ہو جائیں گے۔ اسلام میں بالقوۃ جو کچھ موجود ہے اس کو بالفعل بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کشمکش اور جدوجہد کی دنیا ہے‘ اس کی رفتار محض باتوں سے نہیں بدلی جاسکتی۔ اس کو بدلنے کے لیے انقلاب انگیز جہاد کی ضرورت ہے۔ اگر اشتراکی اپنے غلط اصولوں کو لے کر نصف صدی کے اندر دنیا کے ایک بڑے حصے میں اپنا اثر و اقتدار قائم کر سکتے ہیں۔ اگر فاشست اپنے غیر معتدل طریقوں کو لے کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکتی ہے۔ اگر گاندھی کی اہمسا ایک غیر فطری چیز ہونے کے باوجود محض جدوجہد کے بل پر فروغ پا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جن کے پاس حق اور عدل کے غیر فانی اصول ہیں‘ ایک مرتبہ پھر دنیا میں اپنا سکہ نہ جما سکیں، مگر یہ سکہ نرے وعظ و تلقین سے نہیں جم سکتا۔ اس کے لیے سعی و عمل کی ضرورت ہے اور انھی طریقوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے سنت اللہ کے مطابق دنیا میں سکہ جما کرتا ہے۔

’انقلاب انگیز جدوجہد‘ ایک مبہم لفظ ہے۔ اس کی عملی صورتیں بہت سی ہیں اور بہت سی ہوسکتی ہیں۔ جس قسم کا انقلاب برپا کرنا مقصود ہو اُس کے لیے وہی صورت اختیار کرنی پڑے گی جو اس انقلاب کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہو۔

ہم جو انقلاب چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں کوئی نئی صورت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انقلاب اس سے پہلے برپا ہو چکا ہے۔ جس پاک انسان(صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلی مرتبہ یہ انقلاب برپا کیا تھا وہی اس کی فطرت کو خوب جانتا تھا‘ اور اسی کے اختیارکیے ہوئے طریقے کی پیروی کرکے آج بھی یہ انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس پاک ہستی کی سیرت ایک لحاظ سے معجزہ ہے‘ مگر دوسرے لحاظ سے اسوہ بھی ہے۔ وہ اخلاق‘ وہ تقویٰ ‘ وہ حکمت‘ وہ عدالت‘ وہ طاقت وَر شخصیت، وہ انسانیت کبریٰ کی عظیم الشان خصوصیات اب کوئی انسان کہاں سے لاسکتا ہے؟ اس لیے اب کوئی انسان اتنا کمال درجے کا انقلاب بھی کہاں برپا کرسکتا ہے؟ اس لحاظ سے وہ معجزہ ہے اور قیامت تک کے لیے معجزہ ہے،لیکن اس انسان اکبر نے جو نمونہ چھوڑا ہے اس کا طبعی خاصہ وہی انقلاب انگیزی ہے، جس کی نظیر ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ اس نمونے کی جتنی زیادہ پیروی کی جائے گی اور جس قدر زیادہ اس سے مماثلت پیدا کی جائے گی‘ اسی قدر زیادہ انقلاب انگیز نتائج بھی ظاہر ہوں گے اور وہ اس پہلے انقلاب سے اتنے ہی زیادہ اقرب ہوں گے جو اصل نمونے کی طاقت سے برپا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسوہ ہے، اور قیامت تک کے لیے اسوہ ہے۔ بیسویں صدی ہو یا چالیسویں صدی‘ ہندستان ہو‘ یا امریکہ یا روس جہاں اور جس وقت چاہیں آپ اسی نوعیت کا انقلاب برپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ اسی اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر کام کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں۔ یہاں صرف اس امرکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ادارہ دارالاسلام ۲؂کا تخیل اسی اسوہ پاک کے غائر مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔

آنحضرت ؐ جب مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر ایک شخص بھی مسلم نہ تھا۔ آپؐ نے اپنی دعوت دنیا کے سامنے پیش کی اور آہستہ آہستہ متفرق طور پر ایک ایک دو دو چار چار آدمی مسلمان ہوتے چلے گئے۔ یہ لوگ اگرچہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھتے تھے‘اور ایسی فدویت ان کو اسلام کے ساتھ تھی کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے‘ مگر چونکہ متفرق تھے‘ کفارکے درمیان گھرے ہوئے تھے، بے بس اور کمزور تھے اس لیے اپنے ماحول سے لڑتے لڑتے ان کے بازو شل ہو جاتے تھے اور پھر بھی وہ ان حالات کو نہ بدل سکتے تھے جن کو بدلنے کے لیے وہ اور ان کے ہادی و مرشد (فِدَاہُ اُمِّیْ وَ اَبِیْ) کوشش فرما رہے تھے۔ ۱۳ سال تک حضورؐ اسی طرح جدوجہد کرتے رہے اور اس مدت میں سرفروش اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جماعت آپؐ نے فراہم کرلی۔ اس کے بعد اللہ نے دوسری تدبیرکی طرف آپؐ کی ہدایت فرمائی اور وہ یہ تھی کہ ان سرفروشوں کو لے کر کفر کے ماحول سے نکل جائیں‘ ایک جگہ ان کو جمع کرکے اسلامی ماحول پیدا کر دیں‘ اسلام کا ایک گھر بنائیں جہاں اسلامی زندگی کا پورا پروگرام نافذ ہو‘ ایک مرکز بنائیں جہاں مسلمانوں میں اجتماعی طاقت پیدا ہو‘ ایک ایسا پاور ہاؤس بنا دیں جس میں تمام برقی طاقت ایک جگہ جمع ہو جائے اور پھر ایک منضبط طریقے سے وہ پھیلنی شروع ہو۔ یہاں تک کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس سے منور ہوجائے۔ مدینہ طیبہ کی جانب آپؐ کی ہجرت اسی غرض کے لیے تھی۔ تمام مسلمان جو عرب کے مختلف قبیلوں میں منتشر تھے‘ ان سب کو حکم دیا گیا کہ سمٹ کر اس مرکز پر جمع ہو جائیں۔ یہاں اسلام کو عمل کی صورت میں نافذ کرکے بتایا گیا۔ اس پاک ماحول میں پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص ایک چلتا پھرتا اسلام بن گیا جسے دیکھ لینا ہی معلوم کرنے کے لیے کافی تھا کہ اسلام کیا ہے اور کس لیے آیا ہے۔ ان پر اللہ کا رنگ (صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً)اتنا گہرا رنگ چڑھایا گیا کہ وہ جدھر جائیں دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھائیں۔ ان میں کیرکٹر کی اتنی طاقت پیداکی گئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوں اور جو ان کے مقابلے میں آئے ان سے مغلوب ہو کر رہ جائے۔ ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس طرح پیوست کر دیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام دنیوی اغراض ثانوی درجے میں ہوں۔ ان کو تعلیم اور تربیت دونوں کے ذریعے سے اس قابل بنا دیا گیا کہ جہاں جائیں زندگی کے اسی پروگرام کو نافذ کرکے چھوڑیں جو قرآن و سنت نے انھیں دیا ہے اورہر قسم کے بگڑے ہوئے حالات کو منقلب کرکے اسی کے مطابق ڈھال لیں۔

یہ حیرت انگیز تنظیم تھی جس کا ایک ایک جز گہرے مطالعے اورغور و فکر کا مستحق ہے۔ اس تنظیم میں کام کو چار بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا

۱۔ ایک گروہ ایسے لوگوں کا تیار کیا جائے جو دین میں تفقہ حاصل کریں اور جن میں یہ استعداد ہو کہ لوگوں کو دین اور اس کے احکام بہترین طریقے پر سمجھا سکیں

فَلَوْ لَا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ۔ (التوبہ۹ ۱۲۲)

[ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے۔]

۲۔ کچھ لوگ ایسے تیار کیے جائیں جن کی زندگیاں اسلام کے نظام عمل کو قائم کرنے اور پھیلانے کی سعی وجہد کے لیے وقف ہوں۔ جماعت کا فرض ہے کہ ان کو کسب معیشت سے بے نیاز کر دے لیکن خود انھیں اس کی پرواہ نہ ہو‘ چاہے معیشت کا کوئی انتظام ہو یا نہ ہو‘ بہرحال وہ اپنے دل کی لگن سے مجبور ہوں اور ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کرکے اس کام میں لگے رہیں جو اُن کی زندگی کا واحد نصب العین ہے

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِْ۔ (آل عمران۳ ۱۰۴)

[تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔]

۳۔ پوری جماعت میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہر ہر شخص اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھے۔ وہ اپنے دنیا کے کاروبار چلاتا رہے مگر ہر کام میں یہ مقصد اس کے سامنے ہو۔ تاجر اپنی تجارت میں‘ کسان اپنی زراعت میں‘ صَنَّاع اپنے پیشے کے کام میں اور ملازم اپنی ملازمت میں اس مقصد کو نہ بھولے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ یہ سب کام جینے کے لیے ہیں اور جینا اس کام کے لیے ہے۔ وہ زندگی کے جس دائرے میں بھی کام کرے‘ اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق اور معاملات میں اسلام کے اصول کی پابندی کرے اور جہاں دنیوی فوائد میں اور اصول اسلام میں نقیض واقع ہو جائے وہاں فوائد پر لات مار دے اور اصول کو ہاتھ سے دے کر اسلام کی عزت کو بٹہ نہ لگائے۔ پھر وہ جتنا مال اور جتنا وقت اپنی ذاتی ضروریات سے بچا سکتا ہو اس کو اسلام کی خدمت میں صَرف کر دے، اور ان لوگوں کا ہاتھ بٹائے جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کی ہیں

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (آل عمران۳ ۱۱۰)

[اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔]

۴۔ باہر کے لوگوں کو موقع دیا جائے کہ دار الاسلام میں آئیں اور ایسے ماحول میں رہ کر کلام اللہ کا مطالعہ کریں جہاں کی ساری زندگی اس کلام پاک کی عملی تفسیر ہو۔ کفر کے ماحول کی بہ نسبت اسلام کے ماحول میں وہ قرآن کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھیں گے اور زیادہ گہرا اثر لے کر واپس جائیں گے

وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہ‘۔ (التوبہ۹ ۶)

[اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اُسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کلام سن لے پھر اُسے اُس کے مَاْمَن (ٹھکانے) تک پہنچا دو۔]

اس طرح صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے اس سب سے بڑے ہادی و رہبر نے مدینہ کے پاور ہاؤس میں اتنی زبردست طاقت بھر دی کہ دیکھتے دیکھتے اس نے سارے عرب کو منور کر دیا اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آج ساڑھے تیرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر وہ پاور ہاؤس اب بھی طاقت کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔

خلافت راشدہ کے بعد جب نظام اسلامی میں بہت کچھ برہمی پیدا ہوگئی تو صوفیائے اسلام نے بھی اسی طریقے کی پیروی میں جگہ جگہ خانقاہیں قائم کی تھیں۔ آج خانقاہ کا مفہوم اس قدر گر گیا ہے کہ یہ لفظ سنتے ہی انسان کے ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصور آجاتا ہے جہاں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو، اور صدیوں تک جنتری کا ورق نہ پلٹے، مگر اصل میں یہ خانقاہ بھی اسی نمونے کی ایک نقل تھی جسے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کیا تھا۔ صوفیائے کرام جن لوگوں میں استعداد پاتے تھے ان کو بیرونی دنیا کے گندے ماحول سے نکال کر کچھ مدت تک خانقاہ میں رکھتے تھے اور وہاں اعلیٰ درجے کی تربیت دے کر انھیں اسی کام کے لیے تیار کرتے تھے جس کے لیے مرشد اعظمؐ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تیار کیا کرتے تھے۔

اب جو لوگ اسلامی طرز کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ان کو پھر اسی طریقے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ہم ہندستان سے نکل کر کہیں آزاد فضا نہیں پاسکتے جہاں مدینہ طیبہ کی طرح دارالاسلام بنایا جاسکے تو کم از کم ہم کو اسی ملک میں ایسی تربیت گاہیں بنانی چاہییں جہاں خالص اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ جہاں اخلاق اسلامی ہوں‘ معاشرت اسلامی ہو‘ عملی زندگی مسلمانوں کی سی ہو‘ گرد و پیش ہر طرف اسلام اپنی روح اور اپنی صورت کے ساتھ نمایاں ہو۔ جہاں کسی چیز کے صحیح ہونے کے لیے صرف یہ دلیل کافی ہو کہ خدا اوررسول نے اس کی اجازت دی ہے، یا اس کا حکم دیا ہے‘ اور کسی چیز کا غلط ہونا صرف اس دلیل سے تسلیم کیا جائے کہ خدا اور رسول نے اس سے منع کیا ہے، یا اسے ناپسند کیا ہے۔ جہاں یہ بغاوت اورسرکشی کا ماحول‘ یہ غیر اسلامی فضا نہ ہو جس نے ہر طرف سے ہمارا احاطہ کر رکھا ہے۔ جہاں ہم کو کم از کم اتنا اختیار تو ہو کہ بیرونی اثرات میں سے جن کو ہم روح اسلامی کے موافق پائیں صرف انھی کو داخل ہونے دیں اور جن کو منافی پائیں ان کو اپنی زندگی پر مسلط ہونے اور اپنے دل و جان میں نفوذ کرنے سے روک سکیں۔ جہاں ہم کو ایسی فضا میسر آسکے کہ مسلمان کی طرح سوچ سکیں‘ مسلمان کی سی نظر اپنے اندر پیدا کرسکیں‘ ان اسلامی صفات کو نشوونما دے سکیں جو اس دار الکفر کی مسموم آب و ہوا میں فنا ہوتی چلی جا رہی ہیں‘ ان گندگیوں اور آلائشوں سے اپنی زندگی کو پاک کر سکیں جو غیر اسلامی ماحول میں آنکھیں کھولنے اور نشوونما پانے کی وجہ سے ہمارے افکار اور اعمال میں گھس گئی ہیں‘ جن کا شعور تک بسا اوقات ہمیں نہیں ہوتا اور جن کو اگر ہم محسوس کر بھی لیتے ہیں تو ماحول کی طاقت اتنی جابر و قاہر ثابت ہوتی ہے کہ باوجود کوشش کرنے کے ہم اپنے آپ کو ان سے نہیں بچا سکتے۔ اس قسم کی تربیت گاہوں میں ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو سچے دل سے اسلام کی خدمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہاں کے کام کا نقشہ وہی ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کا نقشہ تھا۔ اسی طرح کام کو شعبوں میں تقسیم کیا جائے‘ اور اسی طرح ہر شعبے میں آدمیت کو اسلامیت کے سانچے میں ڈھالنے کی تدبیر کی جائے

• ایک شعبہ ایسا ہو کہ جس میں اعلیٰ درجے کی علمی استعداد کے لوگ شامل ہوں۔ ان میں سے جو لوگ علوم دینیہ میں دستگاہ رکھتے ہوں انھیں مغربی زبانوں سے اورعلوم جدیدہ سے روشناس کیا جائے‘ اور جن حضرات نے علوم جدیدہ کی تحصیل کی ہو انھیں عربی زبان اور اسلامی علوم کی تعلیم دی جائے۔ پھر یہ لوگ قرآن اور سنت کا گہرا مطالعہ کرکے دین میں تفقہ اور بصیرت حاصل کریں۔ اس کے بعد ان کے مختلف گروپ بنا دیے جائیں۔ ہر گروپ ایک ایک شعبہ علم کو لے کر اس میں اسلام کے اصول و نظریات کوجدید طرز پر مرتب کرے‘ زندگی کے جدید مسائل کو سمجھے اور اصول اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرے‘ علوم کی بنیاد میں جو مغربی نقطہ نظر پیوست ہو گیا ہے اس کو نکال کر اسلام کے نقطہ نظر سے علوم کو از سر نو مدون کرے اور اپنی تحقیقات سے ایسا صالح لٹریچر پیدا کرے جو اسلام کی موافقت میں ایک ذہنی انقلاب برپا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔

۲۔ دوسرا شعبہ ایسا ہو جس میں خدمت اسلام کے لیے اچھے کارکن تیارکرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکیزہ اخلاق‘ مضبوط سیرت‘ دھن کے پکے اور اپنے نصب العین کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے لوگ، جو ایک زبردست انقلابی پارٹی کی صورت میں منظم ہوں‘ جن کی زندگی سادہ ہو‘ جن میں جفا کشی ہو‘ جن میں پورا ضبط و نظم پایا جائے‘ اور جن کی عملی سیرت ٹھیٹھ مسلمان کی سی ہو۔ یہ پارٹی اسلام کے اصولوں پر ایک نئے اجتماعی نظام (Social order)اور ایک نئی تہذیب (Civilisation)کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھے اور عامہ خلائق کے سامنے اپنے پروگرام کو پیش کرکے، زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت فراہم کرے اور بالآخر حکومت کی مشین پر قابض ہو جائے تاکہ ظلم و جور کی حکومت کو عدل کی حکومت میں تبدیل کیا جاسکے۔

۳۔ تیسرے شعبے میں ایسے لوگ ہوں جو صرف تھوڑی مدت کے لیے تربیت گاہ میں رہ کر واپس جانا چاہتے ہوں۔ انھیں صحیح علم اور اخلاقی تربیت دے کر چھوڑ دیا جائے کہ جہاں چاہیں رہیں مگر مسلمان کی طرح رہیں۔ دوسروں سے متاثر ہونے کے بجائے ان پر اپنا اثر ڈالیں۔ اپنے اصولوں میں سخت ہوں۔ اپنے عقائد میں مضبوط ہوں‘ بے مقصد زندگی نہ بسر کریں۔ ایک نصب العین ہر حال میں ان کے سامنے ہو۔ پاک طریقوں سے روزی کمائیں اور ان لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے مدد دینے کے لیے تیار رہیں جو شعبہ نمبر۲ کے تحت کام کر کر رہے ہوں۔ یہ ان کو مالی مدد بھی دیں‘ ان کے کاموں میں شریک بھی رہیں، اور جہاں رہیں وہاں کی فضا کو انقلابی پارٹی کی موافقت میں تیار بھی کرتے رہیں۔

۴۔چوتھا شعبہ ایسے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ہو جو محض عارضی طور پر تربیت گاہ میں آکر کچھ علمی استفادہ کرنا چاہیں، یا وہاں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند ہوں۔ ان لوگوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائیں جائیں تاکہ وہ اسلام اور اس کی تعلیم کا گہرا نقش لے کر واپس جائیں۔

یہ ایک سرسری سا خاکہ ہے اس نظام کا جو ہمارے نزدیک اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک ضروری مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی کامیابی کا انحصار تمام تر اس پر ہے کہ یہ اپنی روح اور اپنے جوہر میں مدینہ طیبہ کے اس مثالی نظام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مماثلت پیدا کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔

مدینہ طیبہ سے مماثلت پیدا کرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اتباع رسولؐ و اصحاب کا یہ مفہوم ہی سرے سے غلط ہے‘ اور اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسا لباس وہ پہنتے تھے ویسا ہی ہم پہنیں‘ جس قسم کے کھانے وہ کھاتے تھے اسی قسم کے کھانے ہم بھی کھائیں‘ جیسا طرز معاشرت ان کے گھروں میں تھا بعینہ وہی طرز معاشرت ہمارے گھروں میں بھی ہو۔ تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل مُتَحَبَّر۳؂ (Foscilised)صورت میں قیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے ارد گرد ایک حصار کھینچ لیں جس کی سرحدمیں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور جو دور انحطاط کی کئی صدیوں سے دین دار مسلمانوں کے دماغوں پر مسلط رہا ہے درحقیقت روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثار قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو قدیم تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زمان و مکان کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے۔ ہم کو ’خیرامت‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (Rear Guard) کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت و رہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر امت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِمیں پوشیدہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانینِ طبیعی کو قوانینِ شرعی کے تحت استعمال کرکے، زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا، انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا‘ اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت لے گئے تاکہ خدا سے بغاوت کرنے والوں کی تہذیب کے مقابلے میں خدا کی خلافت سنبھلانے والوں کی تہذیب کامیاب ہو۔ اسی چیز کی تعلیم خدا نے اپنی کتاب میں ان کو دی تھی کہ وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنَ قُوَّۃٍ ] الانفال۸۶۰[ اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت۔۔۔۔۔۔ مہیا رکھو۔

ان کو یہ سکھایا گیا تھا کہ خدا کی پیدا کی ہوئی قوتوں سے کام لینے کا حق کافر سے زیادہ مسلم کو پہنچتا ہے بلکہ اس کا اصلی حق دار مسلم ہی ہے۔ پس نبیؐ و اصحاب نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اس طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اول میں کی گئی تھی۔ نجاست اور گندگی جو کچھ ہے وہ ان وسائل میں نہیں ہے بلکہ اس کافرانہ تہذیب میں ہے جو ان وسائل سے فروغ پا رہی ہے۔ ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے، ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائرکٹر کو داروغۂ ارباب نشاط یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجائے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے، ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کاکام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی تمام ان طاقتوں سے کام لیا جارہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اب اگر ہم اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں جو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے۔ یہ طاقتیں تو تلوار کی طرح ہیں کہ جو اس سے کام لے گا وہی کامیاب ہوگا‘ خواہ وہ ناپاک مقصد کے لیے کام لے یا پاک مقصد کے لیے۔ پاک مقصد والا اگر اپنے مقصد کی پاکی ہی کو لیے بیٹھا رہے اور تلوار استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے اور اس قصور کی سزا اسے بھگتنی پڑے گی کیونکہ اس عالم اسباب میں خدا کی جو سنت ہے اسے کسی کی خاطر نہیں بدلا جاسکتا۔

اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں، نہ تو کوئی ارتجاعی (Reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی تحریک ہے جس کے پیش نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیش نظر جو تربیت گاہ ہے اس کے لیے گرو کل کانگڑی‘ سیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللّٰہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا۔

(ترجمان القرآن‘ شوال ۱۳۵۵۶ھ۔ دسمبر ۱۹۳۷ء)


دور جدید کی بیمار قومیں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

دور جدید کی بیمار قومیں 
مشرق ہو یا مغرب‘ مسلمان ہو یا غیر مسلم‘ بلا اِستثنا سب ایک ہی مصیبت میں گرفتار ہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایک تہذیب مسلط ہوگئی ہے جس نے سراسر مادیت کے آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس کی حکمت نظری و حکمت عملی‘ دونوں کی عمارت غلط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے۔ اس کا فلسفہ‘ اس کا سائنس‘ اس کا اخلاق‘ اس کی معاشرت‘ اس کی سیاست‘ اس کا قانون‘ غرض اس کی ہر چیز ایک غلط نقطۂ آغاز سے چل کر ایک غلط رخ پر ترقی کرتی چلی گئی ہے اور اب اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل قریب نظر آرہی ہے۔

اس تہذیب کا آغاز ایسے لوگوں میں ہوا جن کے پاس درحقیقت حکمت الٰہی کا کوئی صاف اور پاکیزہ سرچشمہ نہ تھا۔ مذہب کے پیشوا وہاں ضرور موجود تھے‘ مگر ان کے پاس حکمت نہ تھی‘ ان کے پاس علم نہ تھا‘ ان کے پاس خدا کا قانون نہ تھا۔ محض ایک غلط مذہبی تخیل تھا جو فکر و عمل کی راہوں میں نوعِ انسانی کو سیدھے راستے پر اگر چلانا چاہتا بھی تو نہ چلا سکتا تھا۔ وہ بس اتنا ہی کر سکتا تھا کہ علم و حکمت کی ترقی میں سدِراہ بن جاتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ ترقی کرنا چاہتے تھے وہ مذہب اور مذہبیت کو ٹھوکر مار کر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے جس میں مشاہدے‘ تجربے اور قیاس و استقرا کے سوا کوئی اور چیز ان کی رہنما نہ تھی۔ یہی ناقابل اعتماد رہنما‘ جو خود ہدایت اور نور کے محتاج ہیں‘ ان کے معتمد علیہ بن گئے۔ ان کی مدد سے انھوں نے فکر و نظر‘ تحقیق و اکتشاف‘ اور تعمیر و تنظیم کی راہ میں بہت کچھ جدوجہد کی مگر ان کو ہر میدان میں ایک غلط نقطۂ آغاز نصیب ہوا ،اور ان کی تمام ترقیات کا رخ ایک غلط منزلِ مقصود کی طرف پھر گیا۔ وہ الحاد اور مادیت کے نقطے سے چلے۔

اسلام کى وجہ تسميہ

کتاب: دینیات
مصنف: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
باب: اسلام
عنوان: وجہ تسمیہ

دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ہر ایک کا نام یاتو کسی خاص شخص کے نام پر رکھا گیا ہے یا اس قوم کے نام پر جس میں مذہب پیدا ہوا۔ مثلاً عیسائیت کا نام اس لیے عیسائیت ہے کہ اس کی نسبت حضرت عیسی کی طرف ہے۔ بودھ مت کا نام اس لیے بودھ مت ہے کہ اس کے بانی مہاتما بدھ تھے۔ زردشتی مذہب کا نام اپنے بانی زردشت کے نام پر ہے۔یہودی مذہب ایک خاص قبیلہ میں پیدا ہوا جس کانام یہوداہ تھا۔ایسا ہی حال دوسرے مذاہب کے ناموں کابھی ہے۔ مگر اسلام کی خصوصیت یہ ہےکہ وہ کسی شخص یا قوم کی طرف سےمنسوب نہیں ہے۔ بلکہ اس کانام ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے جو لفظ “اسلام” کے معنی میں پائی جاتی ہے۔یہ نام خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی ایجاد نہیں ہے۔ نہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کو شخص یاملک یا قوم سے کوئی علاقہ نہیں۔ صرف “اسلام” کی صفت لوگوں میں پیدا کرنا اس کا مقصد ہے۔ ہر زمانے اور ہر قوم کےجن سچے اور نیک لوگوں میں یہ صفت پائی گئی ہے وہ سب مسلم تھے، “مسلم” ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔

ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ - مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ

سوال: مسلمان قوم اگر ہندوستان میں گائے کی قربانی کو روک دے تو اسلام کی نگاہ میں کوئی قیامت نہیں آجاتی، خصوصاً جب کہ اس فعل میں نفع کم اور نقصان زیادہ ہے۔ پھر کیوں نہ ایک ہمسایہ قوم کا اتحاد حاصل کرنے کے لیے رعایت سے کام لیا جائے؟ اکبر اعظم، جہانگیر، شاہجہاں اور موجودہ نظام حیدر آباد نے عملی مثالیں اس سلسلے میں قائم کی ہیں۔
ہندوستان میں گائے کی قربانی کا مسئلہ - سید ابوالاعلی مودودی ؒ 

جواب: آپ نے جن بڑے بڑے’’اماموں‘‘ کا نام لیا ہے مجھے ان میں سے کسی کی تقلید کا شرف حاصل نہیں ہے، میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندوؤں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔ افسوس یہ ہے کہ آپ لوگوں کا نقطہ نظر اس مسئلہ میں اسلام کے نقطہ نظر کی عین ضد ہے۔ آپ کے نزدیک اہمیت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح دو قوموں کے درمیان اختلاف و نزاع کے اسباب دور ہوجائیں۔ لیکن اسلام کے نزدیک اصل اہمیت یہ امر رکھتا ہے کہ توحید کا عقیدہ اختیار کرنے والوں کو شرک کے ہر ممکن خطرہ سے بچایا جائے۔

سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت کا پس منظر

سید  ابوالاعلی مودودی ؒ کی شخصیت کا پس منظر 
عبد الحی عابد 

انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حا مل ہے۔ اس زمانے میں انسانی علوم و افکار نے نہایت سرعت سے ارتقاء کی منازل طے کیں۔ یورپ کی جدید علمی و فکری تحقیق سے عیسائی متکلمین کے مذہبی عقائد اور بائبل کے تصور کائنات کو ٹھیس پہنچی۔ علمی بیداری کے نتیجے میں حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان چھڑنے والی لڑائی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت میں بدل گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں جو طرز فکر وجود میں آیا اس کے بنیادی اصولوں میں یہ بات شامل تھی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم و فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں، وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ، تنقیحات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ص ۹۔) 

اس دور میں ہندوستان پر انگریزی حکومت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ طرز فکر جدید تعلیم کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس کے نتیجے میں کئی ردِ عمل سامنے آئے۔ ایک گروہ نے انگریزی تعلیم کے ذریعے آنے والے مغربی افکار، اقدار، ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات، مغربی نظام تعلیم، تہذیب، سیاسی نظریات اور تصورِ معیشت کو اپنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے یہ فرض کر لیا کہ جدید تہذیب کی اس یلغار کے سامنے مزاحمت نہ تو مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس دوسرے گروہ کے سربراہ سرسید احمد خاں تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں سماجی، علمی، ادبی موضوعات پر مضامین لکھ کر تہذیب اور ’’سویلائزیشن‘‘ کا درس دیا فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے سمجھوتا کرنے کے لیے اپنا زور قلم صرف کر دیا۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل، سائنس اور تہذیب و شائستگی کا مخالف نہیں لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کے لیے مغربی افکار کو ہی رہنما بنایا اور اسلامی اقدار و نظریات کو معیار بنا کر اصلاح کام انجام نہیں دیا بلکہ قدم قدم پر اسلام ہی کی قطع و برید کی۔ [خورشید احمد، پروفیسر، ’’تحریک اسلامی شاہ ولی اللہ اور ان کے بعد‘‘، چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر ‘‘، ص ۴۹۔ ، ص ۵۷۔] سرسید کی کوششوں سے قوم کے سیاسی، سماجی اور ادبی خیالات میں خاصی تبدیلی آئی۔ 

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی

قائداعظم اور ۱۱؍اگست کی تقریر - سیّدابوالاعلیٰ مودودی 
(حکومت ِ پاکستان نے صوبہ پنجاب کے ان ہنگاموں اور واقعات کے اسباب معلوم کرنے کے لیے، جو ۶مارچ ۱۹۵۳ء میں لاہور میں مارشل لا لگانے کا باعث بنے تھے، جسٹس محمدمنیر کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیٹی مقرر کی تھی۔ اس کمیٹی کی سماعتوں کے دوران میں جسٹس محمدمنیر باربار قائداعظمؒ کی اس تقریر سے جو ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو انھوں نے مجلس دستور ساز میں کی تھی، یہ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’’پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانا قائداعظم کے پیش نظر نہ تھا‘‘۔ اس پر مولانا مودودیؒ نے ۸نومبر۱۹۵۳ء کو جیل ہی سے ایک تفصیلی بیان کمیٹی کے نام بھیجا ، جس کا ایک حصہ یہاں پیش ہے۔ یادرہے کہ منیر انکوائری کمیٹی کی مرتبہ رپورٹ اپریل ۱۹۵۴ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کمیٹی کے تضادات اور بدنیتی پر مبنی نتائج کا تفصیلی جواب بھی مولانا مودودیؒ نے تحریر فرمایا تھا، جسے پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے انگریزی میں An Analysis of Munir Report کے عنوان سے اور محترم نعیم صدیقی صاحب نے تحقیقاتی رپورٹ پر تبصرہ کے نام سے شائع کیا تھا۔ )

اصولی سوالات پر بحث کرنے سے پہلے مَیں اس غلط فہمی کو صاف کر دینا چاہتا ہوں جو قائداعظمؒ کی اُس تقریر سے پیدا ہوئی، جو انھوں نے ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورساز میں کی تھی۔ اس تقریر سے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں:
 اوّل یہ کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر میں ایک ایسی ’پاکستانی قومیت‘ کی بنا ڈالنے کا اعلان کیا تھا، جو وطنیت پر مبنی ہو، اور جس میں پاکستان کے ہندو، مسلمان، عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔
دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریر میں یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور غیرمذہبی نوعیت کا، یعنی ’سیکولر‘ ہوگا۔
 سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریر کو کوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے، یا اس کے دستورساز اب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیں سکتے۔
میرے نزدیک یہ تینوں نکات جو اس تقریر سے بطورِ نتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیں ہیں اور اپنی اس راے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:

کیا عربی پاکستان کی قومی و سرکاری زبان بن سکتی ہے؟

سوال: ایک صاحب کا انگریزی مضمون ارسال خدمت ہے جو اگرچہ مسلم لیگ کے حلقے میں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کی منشاء کے مطابق تبدیلی آئے۔ فی الحال یہ ایک خاص مسئلہ پر متوجہ ہیں۔ یعنی اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان بروئے دستور عربی قرار پائے۔ ان کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔
’’پاکستان کی قومی زبان کے مسئلے کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہونے والا ہے۔ میری التجا ہے کہ آپ عربی زبان کے حق میں آواز بلند کرنے پر پوری توجہ صرف کریں۔ یہ معاملہ اسلام اور پاکستان کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اگر آپ میری ان سطور کو موقر جریدے میں شائع فرمادیں تو میں بہت شکرگزار ہوں گا۔

عربی زبان کلام الہٰی یعنی قرآن مجید کی زبان ہے اور قرآن مجید ہی پر سارے اسلام کا دارومدار ہے۔ اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے عربی سیکھنا ضروری ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کے ارشاد کے بموجب عالمِ آخرت کی زبان بھی عربی ہوگی۔ پھر اسلام کے سارے سرمایہ روایات کے علمی ماخذ بھی عربی زبان میں ملتے ہیں۔

انسانی فطرت - سید ابوالاعلی مودودی ؒ

 ’فطرت‘ کے اصل معنی ساخت کے ہیں، یعنی وہ بناوٹ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس، نوع اور فرد کو عطا کی ہے، اور وہ صلاحیتیں اور قوتیں جو اس نے ہرایک کی ساخت میں رکھ دی ہیں۔

ایک فطرت بحیثیت مجموعی’انسان‘ کی ہے، جو پوری نوعِ انسانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک فطرت ہرہرانسانی فرد کی جدا جدا بھی ہے، جس سے ہرایک کی الگ ایک مستقل شخصیت و انفرادیت تشکیل پاتی ہے۔ اور اسی فطرت میں وہ قوتیں بھی شامل ہیں، جن کو استعمال کرکے اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے، اور دوسروں کے مفید یا مضر اثرات کو قبول یا رد کرنے کی قدرت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے نہ تو یہ کہنا درست ہے کہ انسان اپنی فطرت کو بنانے یا بدلنے پر کامل قدرت رکھتا ہے، اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ بالکل مجبور ہے اور کوئی قدرت اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں ہے۔ بات ان دونوں کے درمیان ہے۔

آپ کوشش کر کے اپنی بعض فطری کمزوریوں کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں اور یہ اصلاح کی قدرت بھی آپ کی فطرت ہی کا ایک حصہ ہے۔ [جہاں تک] اپنی کمزوریوں کا ذکر ہے، [تو] اپنے نفس کا جائزہ لے کر اچھی طرح ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنی قوتِ فکروفہم، قوتِ تمیز اور قوتِ ارادی سے کام لے کر بتدریج ان کو گھٹانے اور اعتدال پر لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔

یہ کہنا کہ ’’میرے اندر یہ یہ کمزوریاں ہیں‘‘ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ انھیں محسوس کرتے ہیں۔ اب جس وقت بھی ان میں سے کسی کمزوری کا ظہور شروع ہو، اور آپ کو محسوس ہوجائے کہ اس کمزوری نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے، اسی وقت اپنی ارادی قوت کو اس کی روک تھام کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیجیے اور اپنی قوتِ فکروفہم اور قوتِ تمیز سے کام لے کر معلوم کیجیے کہ نقطۂ اعتدال کون سا ہے، جس کی طرف اپنے آپ کو موڑنے اور آگے بڑھانے کے لیے آپ اپنی ارادی طاقت استعمال کریں۔ 

(’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۵۲، عدد ۴، اگست ۱۹۵۹ء، ص ۶۰-۶۱) 



فن تصویر اور مجسمہ سازی کی شرعی حیثیت

فن تصویر او رمجسمہ سازی کی شرعی حیثیت 
ارشاد باری تعالی :   یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ﴿۱۳﴾ ( سورہ سبا) 

 اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے 19۔ ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں تصویریں20، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں21۔۔۔۔ اے آلِ داؤد عمل کو شکر کے طریقے پر 22، میرے بندوں میں کم ہی شکر گذار ہیں۔

سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے سورہ سبا کی  مذکورہ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے تمثال یعنی تصویر اور مجسمہ سازی کی شرعی حیثیت کا تفصیل سے جائزہ لیا اور بعض قدیم اور جدید مغرب زدہ مفسرین پرغلط فہمی پر سخت تنقید کی ہے وہ لکھتے ہیں:  

" اصل میں لفظ تَمَاثِیل استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز۔التمشال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلا من خلق اللہ (لسان العرب)"" تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ‘‘ التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو ’’ تماثیل ‘‘ بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جب سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔

حکمت عملی کا مسئلہ - سید ابوالاعلی مودودی ؒ


  ’خلافت کے لیے قرشیت‘ کے قول سے جو اصول مستنبط ہوتے ہیں، وہ مختصراً یہ ہیں: 

٭ اوّلاً: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظامِ زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کرکے حالات کا لحاظ کیے بغیر، پورے کا پورا نسخۂ اسلام یک بارگی استعمال نہ کرا ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے، اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو مؤخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں، جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہوسکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے، جس کی ایک نہیں بیسیوں مثالیں شارع علیہ السلام کے اقوال اور طرزِعمل میں ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ِ دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ 

سید ابوالاعلٰی مودودی

سید ابوالاعلٰی مودودی (1903ء - 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی ہیں ۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک ہیں ۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکوں کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت 
موجودہ دور میں اسلام کی دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی  سید ابوالاعلی مودودی (بانی جماعت اسلامی ہند ، پاکستان ، اور بنگلہ دیش )  اور شیخ حسن البناء ( بانی اخوان المسلمون ) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنہوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پزیرائی بخشی۔

 سید ابوالاعلی مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا۔ سید ابوالاعلی مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔

سید ابوالاعلٰی مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گزرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔