انسانی فطرت - سید ابوالاعلی مودودی ؒ

 ’فطرت‘ کے اصل معنی ساخت کے ہیں، یعنی وہ بناوٹ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس، نوع اور فرد کو عطا کی ہے، اور وہ صلاحیتیں اور قوتیں جو اس نے ہرایک کی ساخت میں رکھ دی ہیں۔

ایک فطرت بحیثیت مجموعی’انسان‘ کی ہے، جو پوری نوعِ انسانی میں پائی جاتی ہے۔ ایک فطرت ہرہرانسانی فرد کی جدا جدا بھی ہے، جس سے ہرایک کی الگ ایک مستقل شخصیت و انفرادیت تشکیل پاتی ہے۔ اور اسی فطرت میں وہ قوتیں بھی شامل ہیں، جن کو استعمال کرکے اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے، اور دوسروں کے مفید یا مضر اثرات کو قبول یا رد کرنے کی قدرت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے نہ تو یہ کہنا درست ہے کہ انسان اپنی فطرت کو بنانے یا بدلنے پر کامل قدرت رکھتا ہے، اور نہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ بالکل مجبور ہے اور کوئی قدرت اس کو سرے سے حاصل ہی نہیں ہے۔ بات ان دونوں کے درمیان ہے۔

آپ کوشش کر کے اپنی بعض فطری کمزوریوں کی اصلاح بھی کرسکتے ہیں اور یہ اصلاح کی قدرت بھی آپ کی فطرت ہی کا ایک حصہ ہے۔ [جہاں تک] اپنی کمزوریوں کا ذکر ہے، [تو] اپنے نفس کا جائزہ لے کر اچھی طرح ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر اپنی قوتِ فکروفہم، قوتِ تمیز اور قوتِ ارادی سے کام لے کر بتدریج ان کو گھٹانے اور اعتدال پر لانے کی کوشش کرتے چلے جائیں۔

یہ کہنا کہ ’’میرے اندر یہ یہ کمزوریاں ہیں‘‘ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ انھیں محسوس کرتے ہیں۔ اب جس وقت بھی ان میں سے کسی کمزوری کا ظہور شروع ہو، اور آپ کو محسوس ہوجائے کہ اس کمزوری نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا ہے، اسی وقت اپنی ارادی قوت کو اس کی روک تھام کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیجیے اور اپنی قوتِ فکروفہم اور قوتِ تمیز سے کام لے کر معلوم کیجیے کہ نقطۂ اعتدال کون سا ہے، جس کی طرف اپنے آپ کو موڑنے اور آگے بڑھانے کے لیے آپ اپنی ارادی طاقت استعمال کریں۔ 

(’رسائل و مسائل‘ ،سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۵۲، عدد ۴، اگست ۱۹۵۹ء، ص ۶۰-۶۱)