حکمت عملی کا مسئلہ - سید ابوالاعلی مودودی ؒ


  ’خلافت کے لیے قرشیت‘ کے قول سے جو اصول مستنبط ہوتے ہیں، وہ مختصراً یہ ہیں: 

٭ اوّلاً: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظامِ زندگی جن لوگوں کو قائم کرنا اور چلانا ہو، انھیں آنکھیں بند کرکے حالات کا لحاظ کیے بغیر، پورے کا پورا نسخۂ اسلام یک بارگی استعمال نہ کرا ڈالنا چاہیے، بلکہ عقل اور بینائی سے کام لے کر زمان و مکان کے حالات کو ایک مومن کی فراست اور فقیہ کی بصیرت وتدبر کے ساتھ ٹھیک ٹھیک جانچنا چاہیے۔ جن احکام اور اصولوں کے نفاذ کے لیے حالات سازگار ہوں، انھیں نافذ کرنا چاہیے، اور جن کے لیے حالات سازگار نہ ہوں، ان کو مؤخر رکھ کر پہلے وہ تدابیر اختیار کرنی چاہییں، جن سے ان کے نفاذ کے لیے فضا موافق ہوسکے۔ اسی چیز کا نام حکمت یا حکمت عملی ہے، جس کی ایک نہیں بیسیوں مثالیں شارع علیہ السلام کے اقوال اور طرزِعمل میں ملتی ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اقامت ِ دین بدھووں کے کرنے کا کام نہیں ہے۔ 


٭ ثانیاً: اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب زمان و مکان کے حالات کی وجہ سے اسلام کے دو احکام یا اصولوں یا مقاصد کے درمیان عملاً تضاد واقع ہوجائے، یعنی دونوں پر بیک وقت عمل کرنا ممکن نہ رہے، تو دیکھنا چاہیے کہ شریعت کی نگاہ میں اہم تر چیز کون سی ہے، اور پھر جو چیز اہم تر ہو، اس کی خاطر شرعی نقطۂ نظر سے کم تر اہمیت رکھنے والی چیز کو اس وقت تک ترک کردینا چاہیے، جب تک دونوں پرایک ساتھ عمل کرنا ممکن نہ ہوجائے۔لیکن اُسی حد تک ایسا کرنا چاہیے جس حد تک یہ ناگزیر ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت ِ اسلامیہ کے استحکام کو اصولِ مساوات کے قیام پر ترجیح دی، کیونکہ خلافت کے استحکام پر پورے اسلامی نظامِ زندگی کا قیام و نفاذ موقوف تھا اور یہ کُل اسلام کی نگاہ میں ایک جُز کی بہ نسبت عظیم تر اہمیت رکھتا تھا۔ لیکن  آپؐ نے اس مقصد کے لیے اصولِ مساوات کو بالکلیہ نہیں بلکہ اس کے صرف اُس حصے کو معطل رکھا، جو منصب ِ خلافت سے متعلق تھا، کیونکہ صرف اسی حد تک اُس کا تعطل ناگزیر تھا۔ یہ ایک مثال ہے قاعدئہ اختیار اہون البلیتین  کی۔ اس سے وہ موقع و محل بھی معلوم ہوجاتا ہے جس میں یہ قاعدہ جاری ہوگا اور اس کے حدود و شرائط پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

 ٭ ثالثاً: اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جہاں قبائلیت اور برادریوں کے تعصبات یا دوسری گروہی عصبیتیں زندہ و متحرک ہوں، وہاں ان سے براہِ راست تصادم کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ جہاں جس قبیلے یا برادری یا گروہ کا زور ہو، وہاں اسی کے نیک لوگوں کو آگے لانا چاہیے، تاکہ زورآور گروہ کی طاقت اسلامی نظام کے نفاذ کی مزاحم بننے کے بجاے اس کی مددگار بنائی جاسکے اور بالآخر نیک لوگوں کی کارفرمائی سے وہ حالات پیدا ہوسکیں، جن میں ہرمسلمان مجرد اپنی اپنی دینی و اخلاقی اور ذہنی صلاحیت کی بنا پر ، بلالحاظ نسل و نسب و وطن سربراہی کے مقام پر آسکے۔ یہ بھی اُسی حکمت کا ایک شعبہ ہے، جسے ’حکمت عملی‘ کے نام سے یاد کرنے کا گناہ مجھ سے سرزد ہوا ہے۔ یہ اصول جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول و عمل سے مَیں نے مستنبط کیے ہیں ، اگر ان میں کوئی قباحت کسی کو نظر آتی ہو تو وہ دلیل کے ساتھ اس کی نشان دہی کرے۔ رہا اس پر کسی کا یہ اعتراض کہ اس نوع کے تصرفات کرنے کا حق صرف شارع کو پہنچتا تھا، دوسرا کوئی اس کا مجاز نہیں ہوسکتا، تو میں صاف عرض کروں گا، کہ یہ بات اگر مان لی جائے تو فقہ اسلامی کی جڑ ہی کٹ جاتی ہے۔ 

( ’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد ۵۲، عدد ۴، جولائی ۱۹۵۹ء، ص۵۲-۵۳)