سید ابوالاعلی مودودی کی شخصیت کا پس منظر

سید  ابوالاعلی مودودی ؒ کی شخصیت کا پس منظر 
عبد الحی عابد 

انیسویں صدی کا آخری حصہ اور بیسویں صدی کے آغاز کا زمانہ دنیا کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حا مل ہے۔ اس زمانے میں انسانی علوم و افکار نے نہایت سرعت سے ارتقاء کی منازل طے کیں۔ یورپ کی جدید علمی و فکری تحقیق سے عیسائی متکلمین کے مذہبی عقائد اور بائبل کے تصور کائنات کو ٹھیس پہنچی۔ علمی بیداری کے نتیجے میں حریت فکر کے علمبرداروں اور کلیسا کے درمیان چھڑنے والی لڑائی مذہب اور آزاد خیالی کے درمیان جنگ کی صورت میں بدل گئی۔ اس تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں جو طرز فکر وجود میں آیا اس کے بنیادی اصولوں میں یہ بات شامل تھی کہ مذہب کو سیاست، معیشت، اخلاق، قانون، علم و فن، غرض اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبے میں دخل دینے کا حق نہیں، وہ محض افراد کا شخصی معاملہ ہے۔ ( مودودی، ابوالاعلیٰ، تنقیحات، لاہور:اسلامک پبلی کیشنز، ص ۹۔) 

اس دور میں ہندوستان پر انگریزی حکومت اور مغربی ثقافتی یلغار کے نتیجے میں یہ طرز فکر جدید تعلیم کی آڑ میں ہندوستان میں داخل ہوا۔ اس کے نتیجے میں کئی ردِ عمل سامنے آئے۔ ایک گروہ نے انگریزی تعلیم کے ذریعے آنے والے مغربی افکار، اقدار، ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس کے نظریات، مغربی نظام تعلیم، تہذیب، سیاسی نظریات اور تصورِ معیشت کو اپنا لیا۔ جبکہ دوسرے گروہ نے یہ فرض کر لیا کہ جدید تہذیب کی اس یلغار کے سامنے مزاحمت نہ تو مسلمانوں کے لیے مفید ہے اور نہ ہی اس کا مقابلہ ممکن ہے۔ اس دوسرے گروہ کے سربراہ سرسید احمد خاں تھے۔ انھوں نے تہذیب الاخلاق میں سماجی، علمی، ادبی موضوعات پر مضامین لکھ کر تہذیب اور ’’سویلائزیشن‘‘ کا درس دیا فکری اور تہذیبی میدان میں مسلمانوں کو تہذیب مغرب سے سمجھوتا کرنے کے لیے اپنا زور قلم صرف کر دیا۔ سرسید نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام عقل، سائنس اور تہذیب و شائستگی کا مخالف نہیں لیکن انھوں نے اپنے اس دعوے کے لیے مغربی افکار کو ہی رہنما بنایا اور اسلامی اقدار و نظریات کو معیار بنا کر اصلاح کام انجام نہیں دیا بلکہ قدم قدم پر اسلام ہی کی قطع و برید کی۔ [خورشید احمد، پروفیسر، ’’تحریک اسلامی شاہ ولی اللہ اور ان کے بعد‘‘، چراغ راہ، تحریک اسلامی نمبر ‘‘، ص ۴۹۔ ، ص ۵۷۔] سرسید کی کوششوں سے قوم کے سیاسی، سماجی اور ادبی خیالات میں خاصی تبدیلی آئی۔ 

مغربی تہذیب اور نظریات کے خلاف تیسرا رد عمل علمائے دیوبند کا تھا۔ اس گروہ نے مغرب کے برے اثرات سے دامن ضرور بچایا مگر مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھا۔ انھوں نے نہ تو نئی تہذیب سے کوئی اثر لیا اور نہ اس کے مقابلے کی کوئی منظم کوشش کی۔ تاہم انھوں نے قرآن و سنت کی تعلیمات اور اسلاف کے نظریاتی اثاثے کو محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ اس ادارے کے علما نے عیسائی مبلغین، اور آریہ سماج تحریک کا مقابلہ کیا۔ یہاں ذریعۂ تعلیم اردو ہونے کی وجہ سے اردو زبان کو بہت تقویت ملی۔ 

اس دور میں بعض علما نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور بعض اگرچہ اس کا حصول جائز سمجھتے تھے لیکن ان کے مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب جدید ترین نظریات کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ جب کہ دوسری طرف مغرب کا سیاسی، سماجی اور اقتصادی نظام اور علوم و افکار مسلم ذہن میں تشکیک و الحاد پیدا کر رہے تھے۔ علما ئے کرام نہ تو جدید ذہن کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوئے اور نہ ان کے پاس سیاسی قیادت تھی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد، مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد بالسیف کی بجائے جہاد باللسان اور جہاد بالقلم کا نظریہ پیش کیا۔ بقول مرزا صاحب:’’اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہا د کے معتقد کم ہوتے جائیں گے، کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔ ‘‘[مودودی، ابوالاعلیٰ، قادیانی مسئلہ، لاہور: اسلامک پبلی کیشنز، مارچ۱۹۹۸ء، ص۳۰۔] انگریزی سامراج کی حمایت حاصل ہوتے ہی مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ 

اس دور میں ہر صاحب دل اپنی اپنی جگہ پر قوم کی حالت سدھارنے اور اسے مذہبی، تہذیبی اور معاشی غلامی سے نکالنے کے لیے کوشاں تھا۔ علی گڑھ میں جدید تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی اور دیوبند قدامت پسندی کی علامت تھا۔ اس لیے ضرورت ایسے علما کی تھی جو اسلامی علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی آگاہ ہوں۔ اس غرض سے ۱۸۹۴ء میں ندوۃ العلماء کی تحریک شروع کی گئی اور اس کے نتیجے میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔ یہ تحریک عوام کی بجائے علما سے تعلق رکھتی تھی۔ کچھ وسیع النظر اور انصاف پسند علما اپنی جماعت کی کمزوریوں اور قدیم طرزِ تعلیم کی اصلاح چاہتے تھے۔ خصوصاً مولانا شبلی دینی مدارس کے تعلیمی نصاب کی تبدیلی کے لیے بہت بے چین تھے، وہ چاہتے تھے کہ نصاب، جدید ضرورتوں کے مطابق صحیح اسلامی علوم پر مشتمل ہو۔ انگریزی زبان کی تعلیم بھی دی جائے، لیکن یہ خصوصیات صرف شبلی کی ندوہ میں موجودگی تک قابل عمل رہیں۔ یہ تحریک اس لیے کوئی کردار ادا نہ کر سکی کہ ابوالحسن علی ندوی کے الفاظ میں : ’’اس تحریک کو قدیم اور جدید، دونوں طبقوں کا مؤثر اور پر جوش تعاون حاصل نہ ہوسکا‘‘۔ [ ندوی، ابوالحسن علی، اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش، ص۹۳۔] 

تحریک خلافت (۱۹۱۹ء -۱۹۲۴ء ) نے مسلمانوں میں مِلّی شعور بیدار کیا۔ اس تحریک کی بنیاد سیاست کی بجائے مذہب پر رکھی گئی تھی۔ اس تحریک کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ قوم جو ساٹھ سال سے انگریز کی غلامی میں مگن تھی، اب اس تحریک کے ذریعے انگریز کی سیاست، طاقت، تہذیب، تعلیم اور تجارت کو چیلنج کر رہی تھی۔ ابوالکلام آزاد اور محمد علی جوہر الہلال اور کامریڈ کے ذریعے، مسلمانوں کو دینی سیاست، اپنانے کی دعوت دے رہے تھے۔ یہ دونوں رہنما ایک طرف علی گڑھ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو دوسری طرف علما کی جامد ذہنیت پربھی تنقید کرتے تھے۔ چونکہ اس تحریک کا تعلق مقامی حالات سے نہیں تھا اس لیے یہ اچانک ختم ہو گئی۔ لیکن اس تحریک کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں ناکامی کے اثرات کم ہو گئے اور مذہب و سیاست کے الگ الگ ہونے کا تصور ختم ہو گیا۔ 

برصغیر کے مسلمانوں کے لیے یہ بہت کڑا وقت تھا۔ مغربی استعمار، پوری ملت اسلامیہ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ غالب قوم کے افکار اور تہذیب و تمدن، مسلم ذہنوں میں جگہ پا چکے تھے۔ معاش کے تمام ذرائع پر اہل مغرب قابض ہو چکے تھے۔ مسلمانوں میں ملوکیت، رہبانیت، روایت پرستی اور دین و دنیا کی تقسیم نے رواج پا لیا تھا۔ اجتہاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی تخلیقی صلاحیتیں سلب ہو گئی تھیں۔ اسی دوران اللہ تعالیٰ نے علامہ محمد اقبال (۱۸۷۷ء – ۱۹۳۸ء ) کی صورت میں مسلمانوں کو ایک عظیم راہ نما سے نوازا۔ عالمی سیاست اور امت مسلمہ کے معاملات پر علامہ کی بہت گہری نظر تھی۔ انھوں نے ا مت مسلمہ کے حالات کا جائزہ لے کر نیشنل ازم، مغربی تہذیب و افکار، تصوف اور دیگر نظریات کا کھوکھلا پن واضح کرتے ہوئے، اسلام کا متحرک اور عملی تصور پیش کیا۔ مذہب کی بنیاد، سائنس یا عقل کی بجائے نبی کے تجربے اور مشاہدے پر رکھی۔ اسلام کے روحانی اور مادی پہلوؤں کو یکساں اہمیت دی اور اجتہاد کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے فقہ کی تدوین نو پر زور دیا۔ چودھری نیاز علی نے جب اپنی زمین ایسے ہی کسی ادارے کے لیے وقف کرنے کی خواہش ظاہر کی اور علامہ اقبال سے اس ضمن میں مشورہ لیا تو انھوں نے سید مودودی کا نام تجویز کیا۔ یوں فقہ کی تدوین نو کے لیے یہ ادارہ وجود میں آ گیا۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: ’’پٹھان کوٹ کا دارالاسلام اسی سلسلے کی کڑی ہے ‘‘۔ [ ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۳ء، ص۴۹تا۵۲۔] 

بیسویں صدی کے تقریباً ابتدائی تیس سالوں میں بر عظیم کے مسلمانوں کو بہت سے علمی و فکری محاذوں پر سخت کش مکش کا سامنا تھا۔ مغرب کی علمی مرعوبیت، اور عقل پسندی کے گہرے رجحانات فتنۂ انکار سنت کی صورت میں سامنے آئے۔ عقل کو فوقیت دے کر حدیث اور سنت کو مشکوک قرار دے کر مسلمانوں کو ان کے نہایت اہم دینی و تہذیبی ورثے سے دور کر دینے کی کوشش کی گئی۔ بقول سید مودودی: ’’ فتنہ انکار حدیث کے اثرات پہلے سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی کے ہاں نظر آئے۔ پھر عبداللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ اس کے بعد مولوی احمد الدین نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخرکار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنھوں نے اس کو ضلالت کی حد تک پہنچا دیا‘‘۔ [مودودی، ابوالاعلیٰ، سنت کی آئینی حیثیت، ص۱۶۔۲] 

اس وقت بر عظیم کے مسلمانوں کی اکثریت کے ذہن میں اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا واضح تصور موجود نہ تھا۔ اسی لیے کسی کے ذہن پر اشتراکیت ہتھوڑے برسا رہی تھی تو کوئی الحاد پرستی میں مبتلا تھا، کوئی آمریت میں اسلام اور اسلام میں آمریت دیکھ رہا تھا تو کہیں اسلام پر معذرتیں پیش کی جا رہی تھیں۔ تہذیبی پسماندگی کی کیفیت یہ تھی کہ بے پردگی، ضبط ولادت، اور مغربی تہذیب کو نئے اخلاقی تناظر، اور جدت خیال کے پس منظر میں پرکھا جا رہا تھا۔ عقلیت، لادینیت، اشتراکیت، آمریت، قومیت، فسطائیت، دہریت، سیکولرازم، سوشلزم جیسے افکار، عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے، عالم گیر لٹریچر کی صورت میں پھیلائے جا رہے تھے۔ [ اسعد گیلانی، سید’’مولانا مودودی کا لٹریچر ایک دعوت انقلاب‘‘، ترجمان القرآن، اگست، ۲۰۰۳ء، ص۳۶۔] 

ان حالات میں ایک ایسے مدبر، مفکر اور لیڈر کی ضرورت تھی جو اسلام کی آفاقی اور ابدی تعلیمات کو عہد حاضر کی ضروریات کے مطابق موثر اسلوب میں پیش کرے اور امت مسلمہ کو خالص کتاب و سنت کی بنیاد پر جمع کرتے ہوئے، ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے کے لیے عملی کوشش بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سید مودودی (۱۹۰۳ء -۱۹۷۹ء) کو اس کام کے لیے غیر معمولی صلاحیتیں دے کر بھیجا۔ انھوں نے اپنے گھر کے علمی ومذہبی اور ادبی ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی اور تعلیم کے مختلف مراحل طے کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا، تو پورے غوروفکر، حکمت و تدبر کے ساتھ حالات کا تجزیہ کر کے اپنے راستے اور منزل کا تعین کر لیا۔ اپنی ساری زندگی احیائے اسلام اور غلبۂ دین کے لیے وقف کر دی۔ اپنی عقلی و فکری، علمی و ادبی اور تنظیمی صلاحیتیں امت مسلمہ کو قرآن کا پیغام سمجھانے کے لیے صرف کیں اور مسلم معاشرے کے بگاڑ کو دور کرنے کے لے پورے اعتماد کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھا، اگرچہ اس کی پاداش میں آپ کو دارورسن کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑا لیکن آپ کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔