ارشاد باری تعالی : یَعۡمَلُوۡنَ لَہٗ مَا یَشَآءُ مِنۡ مَّحَارِیۡبَ وَ تَمَاثِیۡلَ وَ جِفَانٍ کَالۡجَوَابِ وَ قُدُوۡرٍ رّٰسِیٰتٍ ؕ اِعۡمَلُوۡۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُکۡرًا ؕ وَ قَلِیۡلٌ مِّنۡ عِبَادِیَ الشَّکُوۡرُ ﴿۱۳﴾ ( سورہ سبا)
اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے 19۔ ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے۔ وہ اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا، اونچی عمارتیں تصویریں20، بڑے بڑے حوض جیسے لگن اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنے والی بھاری دیگیں21۔۔۔۔ اے آلِ داؤد عمل کو شکر کے طریقے پر 22، میرے بندوں میں کم ہی شکر گذار ہیں۔
سید ابوالاعلی مودودی ؒ نے سورہ سبا کی مذکورہ آیات کی تفسیر کرتے ہوئے تمثال یعنی تصویر اور مجسمہ سازی کی شرعی حیثیت کا تفصیل سے جائزہ لیا اور بعض قدیم اور جدید مغرب زدہ مفسرین پرغلط فہمی پر سخت تنقید کی ہے وہ لکھتے ہیں:
" اصل میں لفظ تَمَاثِیل استعمال ہوا ہے جو تِمثَال کی جمع ہے۔ تمثال عربی زبان میں ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی قدرتی شے کے مشابہ بنائی جائے قطع نظر اس اصل سے کہ وہ کوئی انسان ہو یا حیوان، کوئی درخت ہو یا پھول یا دریا یا کوئی دوسری بے جان چیز۔التمشال اسم للشئ المصنوع مشبھا بخلا من خلق اللہ (لسان العرب)"" تمثال نام ہے ہر اس مصنوعی چیز کا جو خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کے مانند بنائی گئی ہو ‘‘ التمثال کل ما صور علی صورۃ غیرہ من حیوان و غیر حیوان۔ (تفسیر کشاف) تمثال ہر اس تصویر کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی صورت کے مماثل بنائی گئی ہو، خواہ وہ جان دار ہو یا بے جان ‘‘۔ اس بنا پر قرآن مجید کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے جو ’’ تماثیل ‘‘ بنائی جاتی تھیں وہ ضرور انسانوں اور حیوانوں کی تصاویر یا ان کے مجسمے ہی ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھول پتیاں اور قدرتی مناظر اور مختلف قسم کے نقش و نگار ہوں جب سے حضرت سلیمان نے اپنی عمارتوں کو آراستہ کرایا ہو۔
غلط فہمی کا منشا بعض مفسرین کے یہ بیانات ہیں کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکہ کی تصویریں بنوائی تھیں۔ یہ باتیں ان حضرات نے بنی اسرائیل کی روایات سے اخذ کر لیں اور پھر ان کی توجیہ یہ کی کہ پچھلی شریعتوں میں اس قسم کی تصویر بنانا ممنوع نہ تھا لیکن ان روایات کو بلا تحقیق نقل کرتے ہوئے ان بزرگوں کو یہ خیال نہ رہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جس شریعت موسوی کے پیرو تھے اس میں بھی انسانی اور حیوانی تصاویر اور مجسمے اسی طرح حرام تھے جس طرح شریعت محمدیہ میں حرام ہیں۔ اور وہ یہ بھی بھول گئے کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو حضرت سلیمانؑ سے جو عداوت تھی اس کی بنا پر انہوں نے آنجناب کو شرک و بت پرستی جادو گری اور زنا کے بد ترین الزامات سے متہم کیا ہے، اس لیے ان کی روایات پر اعتماد کر کے اس جلیل القدر پیغمبر کے بارے میں کوئی ایسی بات ہر گز قبول نہ کرنی چاہیے جو خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت کے خلاف پڑتی ہو۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بنی اسرائیل میں جتنے انبیاء بھی آئے ہیں وہ سب تورات کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی شریعت نہ لایا تھا جو تورات کے قانون کی ناسخ ہوتی۔ اب تورات کو دیکھیے تو اس میں بار بار بصراحت یہ حکم ملتا ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں اور مجسمے قطعاً حرام ہیں :
’’تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا نہ کوئی چیز کی صورت بنانا جو اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا زمین کے نیچے پانی میں ہے ‘‘ (خروج۔ باب 20۔آیت 4)۔
تم اپنے لیے بُت اپنے لیے بت نہ بنانا اور نہ تراشی ہوئی مورت یا لاٹ اپنے لیے کھڑی کرنا اور نہ اپنے ملک میں کوئی شبیہ دار پتھر رکھنا کہ اسے سجدہ کرو‘‘ (احبار۔ باب 26، آیت 1)
’’تا نہ ہو کہ تم بگڑ کر کسی شکل یا صورت کی کھودی ہوئی مورت اپنے لیے بنا لو جس کی شبیہ کسی مرد یا عورت یا زمین کے کسی حیوان یا ہوا میں اڑنے والے کسی پرند یا زمین میں رینگنے والے جاندار یا مچھلی سے جو زمین کے بیچے پانی میں رہتی ہے ملتی ہو ‘‘(استثنا، باب 4۔ آیت 16۔18)۔
'' لعنت اس آدمی پر جو کاریگری کی صنعت کی طرح کھودی ہوئی یا ڈھالی ہوئی مورت بنا کر جو خداوند کے نزدیک مکر وہ ہے اس کو کسی پوشیدہ جگہ میں نصب کرے "" (استثناء، باب 27۔ آیت 15)
ان صاف اور صریح احکام کے بعد یہ بات کیسے مانی جا سکتی ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے انبیاء اور ملائکَ کی تصویریں یا ان کے مجسمے بنانے کا کام جِنوں سے لیا ہو گا اور یہ بات آخر ان یہودیوں کے بیان پراعتماد کر کے کیسے تسلیم کر لی جائے جو حضرت سلیمانؑ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنی مشرک بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کر بت پرستی کرنے لگے تھے (1۔سلاطین۔ باب 11).
تاہم مفسرین نے تو بنی اسرائیل کی یہ روایات نقل کرنے کے ساتھ اس امر کی صراحت کر دی تھی کہ شریعت محمدیہ یہ فعل حرام ہے اس لیے اب کوئی شخص حضرت سلیمانؑ کی پیروی میں تصویریں اور مجسمے بنانے کا مجاز نہیں ہے۔ لیکن موجودہ زمانے کے بعض لوگوں نے )جو اہل مغرب کی تقلید میں مصوری و بت تراشی کو حلال کرنا چاہتے ہیں،قرآن مجید کی اس آیت کو دلیل ٹھیرا لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک پیغمبر نے یہ کام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کتاب میں اس کے اس فعل کا ذکر کیا ہے اور اس پر کسی نا پسندیدگی کا اظہار بھی نہیں فرمایا ہے تو اسے لازماً حلال ہی ہونا چاہیے۔
ان مقلدین مغرب کا یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ لفظ تماثیل جو قرآن مجید میں استعمال کیا گیا ہے، انسانی اور حیوانی تصاویر کے معنی میں صریح نہیں ہے، بلکہ اس کا اطلاق غیر جاندار اشیاء کی تصویر وں پر بھی ہوتا ہے، اس لیے محض اس لفظ کے سہارے حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ قرآن کی رو سے انسانی اور حیوانی تصاویر حلال ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہایت کثیر التعداد اور قوی الاسناد اور متواتر ا لمعنیٰ احادیث سے ہی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ذی روح اشیاء کی تصویریں بنانے اور رکھنے کو قطعی حرام قرار دیا ہے۔ اس معاملہ میں جو ارشادات حضورؐ سے ثابت ہیں اور جو آثار اکابر صحابہ سے منقول ہوئے ہیں انہیں ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
1۔ ین عایشہ اُم المومنین ان ام جیبۃ وام سلمۃ ذکر تا کنیسۃ راْینھا بالحنشۃ فیھا تساویر نذکرتا للنبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال ان اولٰٓعِک اذاکان فیھم الرجل الصالح فمات بنو ا علیٰ قبر ہ مسجد او صوروافیہ تلک اصور فیہ تلک صور فاولٰٓعِک شرار الخلق عنداللہ یوم القیٰمۃ (بخاری، کتاب المساجد)
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ حضرت ام حبیبہ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے حبش میں ایک کنیسہ دیکھا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ اس کا ذکر انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا۔حضورؐ نے فرمایا ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ جب ان میں کوئی صالح شخص ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد وہ اس کی قبر پر ایک عبادت گاہ بناتے اور اس میں یہ تصویریں بنا لیا کرتے تھے۔ یہ لوگ قیامت کے روز اللہ نزدیک بدترین خلائق قرار پائیں گے۔
2۔ عن ابی حجیفہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لعن المصور (بخاری، کتاب البیوع، کتاب الطلاق و کتاب اللباس)
ابو حجیفہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مصور پر لعنت فرمائی ہے۔
3۔ عن ا بی زرعہ قال دخلتُ مع ابی حریرۃ داراً بالمدینۃ فرأی اعلاھا مصوراً یصور قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول ومن اظلم ممن ذھب یخلق کخلقی فلیخلقو احبۃ ولیخلقو اذرۃ (بخاری، کتاب اللباس۔ مُسند احمد اور مسلم کی روایت میں تصریح ہے کہ یہ مروان کا گھر تھا)
ابو زرعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے ساتھ ایک مکان میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مکان کے اوپر ایک مصور تصویریں بنا رہا ہے۔ اس پر حضرت ابوہریرہؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا لے اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرے۔ یہ لوگ ایک دانہ یا ایک چیونٹی تو بنا کر دکھائیں۔
4۔ عنا بی محمد الھذلی عن لی قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فی جنازۃ فقال ایکم ینطلق الی المدینۃ فلا یَدَع بھاوثناً الاکسرہ ولا قبراً الاسوّاہ ولاصورۃ الالطخھا۔ فقال رجل انا یا رسول اللہ فانطلق فھاب اھل المدینہ۔ فرجع۔ فقوال علی انا انطلق یا رسول اللہ۔ قال فانطلق، فانطلقَ ثم رجع۔ فقال یا رسول اللہ لم ادعُ بھا وثناً الا کسرتہ ولا قبراً الّا سویتہ ولا صورۃ الالطختھا۔ ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من عاد لصنعۃ شئ من ھٰذا فقد کفر بما انزل علیٰ محمدؐ(مسند احمد۔ مسلم، کتاب الجنائر اور نَسائی کتاب الجنائیر میں بھی اس مضمون کی ایک حدیث منقول ہوئی ہے )۔
ابو محمد ہُذَلی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک جنازے میں شریک تھے۔ آپ نے فرمایا تم لوگوں میں سے کون ہے جو جا کر مدینہ میں کوئی بُت نہ چھوڑے جسے توڑ نہ دے اور کوئی قبر نہ چھوڑے زمین کے برابر نہ کر دے اور کوئی تصویر نہ چھوڑے جسے مٹا نہ دے۔ ایک شخص نے عرض کیا میں اس کے لیے حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ گیا مگر اہل مدینہ کے خوف سے یہ کام کیے بغیر پلٹ آیا۔ پھر حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں جاتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا اچھا تم جاؤ۔ حضرت علیؓ گئے اور واپس آ کر انہوں نے عرض کیا میں نے کوئی بت نہیں چھوڑا جسے توڑ نہ دیا ہو، اور کوئی قبر نہیں چھوڑی جسے زمین کے برابر نہ کر دیا ہو اور کوئی تصویر نہ چھوڑی جسے مٹا نہ دیا ہو۔ اس پر حضورؐ نے فرما یا، اب اگر کسی شخص نے ان چیزوں میں سے کوئی چیز بنائی تو اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمد(صلی اللہ علیہ و سلم)پر نازل ہوئی ہے۔
5۔ عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ و سلم ………… ومن صور صورۃ عذبُ کلف ان ینفخ فیھا ولیس بنا فخ(بخاری۔ کتاب التعبیر۔ ترمذی، ابواب للباس نسائی۔ کتاب الزینۃ۔ مسند احمد)
ابن عباس نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں'……اور جس شخص نے تصویر بنائی اسے عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے اور وہ نہ پھونک سکے گا۔
6۔ عن سعید بن ابی الحسن قال کنت عند ابن عباس رضی اللہ عنہما اذا تاہ رجل فقال یا اباعباس انی انسان انما معیشتی من صنعۃ یدی وانی اسنع ھٰذہ اتصاویر۔ فقال ابن عباس لا احد ثک الاما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول۔ سمعتہ یقول من صورصور ۃً فان اللہ معذ بہ حتٰی ینفخ فیھا الروح ولیس بنا فخ فیھا ابداً۔ جربالرجل ربو ۃً شدیدۃواصفر وجھہ۔ فقال ویحک ان انیت الا ان تصنع فعلیک بھٰذا الشجر کل شئی لیس فیہ روح(بخاری، کتاب البیوع۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینۃ۔ مسند ٓاحمد)۔
سعید بن ابی الحسن کہتے ہیں کہ میں ابن عباسؓ کے پاس بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص آیا، اور اس نے کہا کہ اے ابو عباس میں ایک ایسا شخص ہوں جو اپنے ہاتھ سے روزی کماتا ہے اور میرا روزگار یہ تصویریں بنانا ہے۔ ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گاجو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنی ہے۔ میں نے حضورؐ سے یہ بات سنی ہے کہ جو شخص تصویر بنائے گا اللہ اسے عذاب دے گا اور اسے نہ چھوڑے گا جب تک وہ اس میں روح نہ پھونکے، اور وہ کبھی روح نہ پھونک سکے گا۔ یہ بات سن کر وہ شخص سخت برافروختہ ہوا اور اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا بندہ خدا، اگر تجھے تصویر بنانی ہے تو اس درخت کی بنا، یا کسی ایسی چیز کی بنا جس میں روح نہ ہو۔
7۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے روز اللہ کے ہاں سخت تریں سزا پانے والے مصور ہوں گے۔
8۔ عن عبداللہ بن عمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال ان الذین یصنعون ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال لہم احیوا ما خلقتم (بخاری، کتاب اللباس۔ مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ۔ مسند احمد)
عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو لوگ یہ تصویریں بناتے ہیں ان کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو۔
9۔ عن عائشہ رضی اللہ عنھا انھا اشتزت نمرقۃ فیھا تصاویر فقام النبی صلی اللہ علیہ و سلم بالباب ولم ید خل فقلت اتوب الی اللہ ممّا اذنبت قال ما ھٰذہ النمر قۃ قلت لتجلس علیھا وتو سد ھا قال ان اصحاب ھٰذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ یقال نہم احیواما خلقتم و ا الملا ئکۃ لا تد خل بیتاً فیہ الصورۃ۔ (بخاری، کتاب الباس، مسلم، کتاب اللباس۔ نسائی، کتاب الزینہ، ابن ماجہ، کتاب التجارات۔ موطا، کتاب الاستیذان)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ پھر بنی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے اور دروازے ہی میں کھڑے ہو گئے۔ اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ میں خدا سے توبہ کرتی ہوں ہر اس گناہ پر جو میں نے کیا ہو۔ حضورؐ نے فرمایا یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ اس غرض کے لیے ہے کہ آپ یہاں تشریف رکھیں اور اس پر ٹیک لگائیں۔ فرمایا ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے روز عذاب دیا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے اس کو زندہ کرو۔ اس ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت ) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویریں ہوں۔
10۔ عن عائشۃ قالت دخل علَیّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و انا متسترہ بقرام فیہ صورۃ فتلوَّ نَ وجھہ ثم تناول الستر نھتکہ ثم قال انکن اشد الناس عذاباً یوم القیٰمۃ الذین یشبہون بخلق اللہ (مسلم، کتاب اللباس بخاری، کتاب اللباس۔نسائی، کتاب الزینہ)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے ایک پردہ لٹکا رکھا تھا جو میں تصویر تھی۔ آپؐ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر آپ نے اس پردے کو لے کر پھاڑ ڈالا اور فرمایا قیامت کے روز سخت ترین عذاب جن لوگوں کو یا جائے گا ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۔
11۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر سے واپس تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، جس میں پر دار گھوڑوں کی تصویریں تھیں۔ حضورؐ نے حکم دیا کہ اسے اتار دو اور میں نے اتار یا۔
12۔ عن جابر قال نھیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عن الصورۃ فی البیت ونھٰی ان یصنع ذالک۔ (ترمذی، ابواب اللباس)
جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرما دیا کہ گھر میں تصویر رکھی جائے اور اس سے بھی منع فرما دیا کہ کوئی شخص تصویر بنائے۔
13۔ عن ابن عباس عنا بی طلحہ عنالنبی صلی اللہ علیہ و سلم قال لا تد خل الملا ئکۃ بیتا فیہ کلب ولا صورۃ۔ (بخاری کتاب اللباس)۔
ابن عباسؓ ابوطلحہ انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ملائکہ (یعنی ملائکہ رحمت) کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا پلا ہوا ہو اور نہ ایسے گھر میں جس میں تصویر ہو۔
14۔ عن عنداللہ بن عمر قال وعدالنبی صلی اللہ علیہ و سلم جبریل فرا ث علیہ حتی اشتد علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم فلقیہ فشکا الیہ ماوجد فقال لہْ انّا لا ند خل بیتاً فیہ صورۃ ولا کلب۔ (بخاری، کتاب اللباس۔ اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، ابو داوْد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام مالک اور امام احمد نے متعدد صحابہ سے نقل کی ہیں)۔
عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریلؑ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا مگر بہت دیر لگ گئی اور وہ نہ آئی۔ حضورؐ کو اس سے پریشانی ہوئی اور آپ گھر سے نکلے تو وہ مل گئے۔ آپ ؐ نے ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ہم کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کُتا ہو یا تصویر ہو۔
ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایتیں ایسی پیش کی جاتی ہیں جن میں تصاویر کے معاملہ میں رخصت پائی جاتی ہے مثلاً ابو طلحہ انصاری کی یہ روایت کہ جس کپڑے میں تصویر کڑھی ہوئی ہو اس کا پردہ لٹکانے کی اجازت ہے۔(بخاری، کتاب اللباس) اور حضرت عائشہ کی یہ روایت کہ تصویر دار کپڑے کو پھاڑ کر جب انہوں نے گدّا بنا لیا تو حضور نے اسے بچھانے سے منع نہ فرمایا۔ (مسلم، کتاب اللباس) اور سالم بن عبداللہ بن عمر کی روایت کہ ممانعت اس تصویر کی ہے جو نمایاں مقام پر نصب کی گئی ہو، نہ کہ اس تصویر کی جو فرش کے طور پر بچھا دی گئی ہو (مسند احمد)۔ لیکن ان میں سے کوئی حدیث بھی دراصل ان احادیث کی تردید نہیں کرتی جو اوپر نقل کی گئی ہیں۔ جہاں تک تصویر بنانے کا تعلق ہے اس کا جواز ان میں سے کسی حدیث سے بھی نہیں نکلتا۔ یہ احادیث صرف اس مسئلے سے بحث کرتی ہیں کہ اگر کسی کپڑے پر تصویر بنی ہوئی ہو اور آدمی اس کو لے چکا ہو تو کیا کرے۔ اس باب میں ابو طلحہ انصاری والی روایت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ وہ بکثرت دوسری صحیح احادیث سے ٹکراتی ہے جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تصویر دار کپڑا لٹکانے سے نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اسے پھاڑ دیا ہے۔ نیز خود حضرت ابو طلحہ کا اپنا عمل جو ترمذی اور موطّا میں منقول ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تصویر دار پردہ تو در کنار وہ ایسا فرش بچھانے میں بھی کراہت محسوس کرتے تھے جس میں تصاویر ہوں۔ رہیں حضرت عائشہ اس سالم بن عبداللہ کی روایات تو ان سے سرف اتنا جواز نکلتا ہے کہ اگر تصویر احترام کی جگہ پر نہ ہو بلکہ ذلت کے ساتھ فرش میں رکھی جائے اور اسے پامال کیا جائے تو وہ قابل برداشت ہے۔ ان احادیث سے آخر اس پوری ثقافت کا جواز کیسے نکالا جا سکتا ہے جو تصویر کشی اور مجسمہ سازی کے آرٹ کو تہذیب انسانی کا قابل فخر کمال قرار دیتی ہے اور اسے مسلمانوں میں رواج دینا چاہتی ہے۔
تصاویر کے معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار امت کے لیے جو ضابطہ چھوڑا ہے اس کا پتہ اکابر صحابہ کے اس طرز عمل سے چلتا ہے جو انہوں نے اس باب میں اختیار کیا۔ اسلام میں یہ اصول مسلم ہے کہ معتبر اسلامی ضابطہ وہی ہے جو تمام تدریجی احکام اور ابتدائی رخصتوں کے بعد حضورؐ نے اپنے آخر عہد میں مقرر کر دیا ہو۔ اور حضورؐ کے بعد اکابر صحابہ کا کسی طریقے پر عمل درآمد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسی طریقے پر حضورؐ نے امت کو چھوڑا تھا۔ اب دیکھیے کہ تصویروں کے ساتھ اس مقدس گروہ کا کیا برتاؤ تھا۔
قال عمر رضی اللہ عنہ انا لا ندخل کنا ئسکم کن اجل التماثیل التی فیھا الصُّوَر۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
حضرت عمر نے عیسائیوں سے کہا کہ ہم تمہارے کنیسوں میں اس لیے داخل نہیں ہوتے کہ ان میں تصویریں ہیں۔
کان ابن عباس یصلی فی بیعۃ الابیعۃ فیھا تماثیل (بخاری، کتاب الصلوٰۃ)
ابن عباسؓ گرجا میں نماز پڑھ لیتے تھے، مگر کسی ایسے گرجا میں نہیں جس میں تصویریں ہوں۔
عن ا بی الھیاج الاسدی قال لی عَلی الابعثک علیٰ ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان لا تدع تمثیلاً الا طمستہ ولاقبراً مشرفاً الا سویتہ ولاصورۃ الا طمستھا۔ )مسلم، کتاب الجنائز۔ نسائی، کتاب الجنائز)
ابو الہیاج اسی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے مجھ سے کہا کیا نہ بھیجوں میں تم کو اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا؟ اور وہ یہ کہ تم کوئی مجسمہ نہ چھوڑو جسے توڑ نہ دو، اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو جسے زمین کے برابر نہ کر دو اور کوئی تصویر نہ چھوڑو جسے مٹا نہ دو۔
عن حنش الکنانی عن علی انہ بعث عامل شرطہِ فقال لہ اتدری علی ما ابعثک؟ علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان انحت کل صورۃ و ان اسوی کل قبر (مسند احمد)
حنش الکنانی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے اپنی پولیس کے کوتوال سے کہا کہ تم جانتے ہو میں کس مہم پر تمہیں بھیج رہا ہوں؟ اس مہم پر جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے بھیجا تھا۔ یہ کہ میں ہر تصویر کو مٹا دوں اور ہر قبر کو زمین کے برابر کر دوں۔
اسے ثابت شدہ اسلامی ضابطہ کو فقہائے اسلام نے تسلیم کیا ہے اور اسے قانون اسلامی کی ایک دفعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی توضیح کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
""ہمارے اصحاب (یعنی فقہائے احناف )اور دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کسی جاندار چیز کی تصویر بنانا حرام ہی نہیں، سخت حرام اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے، خواہ بنانے والے نے اسے کسی ایسے استعمال کے لیے بنایا ہو جس میں اس کی تذلیل ہو، یا کسی دوسری غرض کے لیے۔ ہر حالت میں تصویر کشی حرام ہے کیوں کہ اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اسی طرح تصویر خواہ کپڑے میں ہو یا فرش میں یا دینار یا درہم یا پیسے میں، یا کسی برتن میں یا دیوار میں، بہرحال اس کا بنانا حرام ہے۔ البتہ جاندار کے سوا کسی دوسری چیز مثلاً درخت وغیرہ کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے۔ ان تمام امور میں تصویر کے سایہ دار ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی رائے امام مالک، سفیان ثوری، امام ابو حنیفہ اور دوسرے علماء کی ہے۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس سے لڑکیوں کی گڑیاں مستثنی ہیں۔مگر امام مالک ان کے خریدنے کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ (عمدۃ القاری۔ج22 ص70۔ اسی مسلک کو امام ثوری نے شرح مسلم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ملاحظہ ہو شرح نَسَدِی، مطبوعہ مصر، ج 14۔ ص 81۔ 82)""
یہ تو ہے تصویر سازی کا حکم۔ رہا دوسرے کی بنائی ہوئی تصویر کے استعمال کا مسئلہ تو اس کے بارے میں فقہائے اسلام کے مسلک علامہ ابن حجر نے اس طرح نقل کیے ہیں: ’’ مالکی فقیہ ابن عربی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ پڑتا ہو اس کے حرام ہونے پر تو اجماع ہے قطع نظر اس سے کہ وہ تحقیر کے ساتھ رکھی گئی ہو یا نہ۔ اس اجماع سے صرف لڑکیوں کی گڑیاں مستثنیٰ ہیں۔''''''''''' ابن عربی یہ بھی کہتے ہیں کہ جس تصویر کا سایہ نہ پڑتا ہو وہ اگر اپنی حالت پر باقی رہے (یعنی آئنہ کی پرچھائیں کی طرح نہ ہو بلکہ چھپی ہوئی تصویر کی طرح ثابت و قائم ہو) تو وہ بھی حرام ہے، خواہ اسے حقارت کے ساتھ رکھا گیا ہو یا نہ۔ البتہ اگر اس کا سر کاٹ دیا گیا ہو یا اس کے اجزاء الگ الگ کریے گئے ہوں تو اس کا استعمال جائز ہے …… امام الحرمین نے ایک مسلک ی نقل کیا ہے کہ پردے یا تکیہ پر اگر تصویر ہو تو اس کے استعمال کی اجازت ہے، مگر دیوار یا چھت میں جو تصویر لگائی جائے وہ ممنوع ہے کیونکہ اس کا اعزاز ہو گا، بخلا ف اس کے پردے اور تکیے کی تصویر حقارت سے رہے گی. ابن ابی شینبہ نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ زمانہ تابعین کے علماء یہ رائے رکھتے تھے کہ فرش اور تکیہ میں تصویر کا ہونا۔ اس کے لیے باعث ذلت ہے۔ نیز ان کا یہ خیال بھی تھا کہ اونچی جگہ پر جو تصویر لگائی گئی ہو وہ حرام ہے اور قدموں میں جسے پامال کیا جاتا ہو وہ جائز ہے۔ یہی رائے ابن سیرین، سلم بن عبداللہ، عِکرمہ بن خالد اور سعید بن جُبیر سے بھی منقول ہے۔"" (فتح الباری، ج10،ص300)
اس تفصیل سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں تصاویر کی حرمت کوئی مختلف فیہ یا مشکوک مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صریح ارشاد ات ' صحابہ کرام کے عمل اور فقہائے اسلام کے متفقہ فتاویٰ کی رو سے ایک مسلم قانون ہے جسے آج بیرونی ثقافتوں سے متاثر لوگوں کی مو شگافیاں بادل نہیں سکتیں۔
بعض لوگ فوٹو اور ہاتھ سے بنی ہوئی تصویر میں فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ شریعت بجائے خود تصویر کو حرام کرتی ہے نہ کہ تصویر سازی کے کسی خاص طریقے کو۔ فوٹو اس دستی تصویر ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے درمیان جو کچھ بھی فرق وہ طریق تصویر سازی کے لحاظ سے ہے اور اس لحاظ سے شریعت نے احکام میں کوئی فرق نہیں کیا۔
بعض لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ اسلام میں تصویر کی حرمت کا حکم محض شرک و بت پرستی کو روکنے کی خاطر دیا گیا تھا، اور اب اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے، لہذا یہ حکم باقی نہ رہنا چاہیے، لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے، اول تو احادیث میں کہیں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ تصاویر صرف شرک و بت پرستی کے خطرے سے بچانے کے لئے حرام کی گئی ہیں۔ دوسرے یہ دعویٰ بھی بالکل بےبنیاد ہے کہ اب دنیا میں شرک و بت پرستی کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ آج خود بر عظیم ہندو پاکستان میں کروڑوں بت پرست مشرکین موجود ہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں طرح طرح سے شرک ہورہا ہے، عیسائی اہل کتاب بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت مریم علیہا السلام اور اپنے متعدد اولیاء کی تصاویر اور مجسموں کو پوج رہے ہیں، حتی کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی مخلوق پرستی کی آفتوں سے محفوظ نہیں ہے ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف وہ تصویریں ممنوع ہونی چاہییں جو مشرکانہ نوعیت کی ہیں، یعنی ایسے اشخاص کی تصاویر اور مجسمے جن کو معبود بنا لیا گیا ہو، باقی دوسری تصویروں اور مجسموں کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی باتیں کرنے والے دراصل شارع کے احکام و ارشادات سے قانون اخذ کرنے کے بجائے آپ ہی اپنے شارع بن بیٹھتے ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تصویر صرف بڑے ذرائع میں سے ایک ہے جن سے بادشاہوں، ڈکٹیٹروں اور سیاسی لیڈروں کی عظمت کا سکہ عوام الناس کے دماغوں پر بٹھانے کی کوشش کی گءی ہے۔ تصویر کو دنیا میں شہوانیت پھیلانے کے لیے بھی بہت بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے اور آج یہ فتنہ ہر زمانے سے زیادہ برسر عروج ہے۔ تصاویر قوموں میں نفرت اور عداوت کے بیج بونے، فساد ڈلوانے اور عام لوگوں کو طرح طرح سے گمراہ کرنے کے لیے بھی بکثرت استعمال کی جاتی رہی ہیں اور آج سب سے زیادہ استعمال کی جارہی ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ شارع نے تصویر کی حرمت کا حکم صرف بت پرستی کے استیصال کی خاطر دیا ہے، اصلاً غلط ہے۔ شارع نے مطلقاً جاندار اشیاء کی تصویر کو روکا ہے۔ ہم اگر خود شارع نہیں بلکہ شارع کے متبع ہیں تو ہمیں علی الاطلاق اس سے رک جانا چاہیے، ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اپنی طرف سے کوئی علت حکم خود تجویز کر کے اس کے لحاظ سے بعض تصویروں کو حرام اور بعض کو حلال قرار دینے لگیں ۔
بعض لوگ چند بظاہر بالکل ''بے ضرر'' قسم کی تصاویر کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ آخر ان میں کیا خطرہ ہے، یہ تو شرک اور شہوانیت اور فساد انگیزی اور سیادی پروپیگنڈے اور ایسے ہی دوسرے مفسدات سے قطعی پاک ہیں، پھر ان کے ممنوع ہونے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے ؟ اس معاملہ میں لوگ پھر وہی غلطی کرتے ہیں کہ پہلے علت حکم خود تجویز کرلیتے ہیں اور اس کے بعد یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فلاں چیز میں یہ علت نہیں پائی جاتی تو وہ کیوں ناجائز ہے۔ علاوہ بریں یہ لوگ اسلامی شریعت کے اس قاعدے کو بھی نہیں سمجھتے کہ وہ حلال اور حرام کے درمیان ایسی دھندلی اور مبہم حد بندیاں قائم نہیں کرتی جن سے آدمی یہ فیصلہ نہ کرسکتا ہو کہ وہ کہاں تک جواز کی حد میں ہے اور کہاں اس حد کو پار کر گیا ہے، بلکہ ایسا واضح خط امتیاز کھینچتی ہے جسے ہر شخص روز روشن کی طرح دیکھ سکتا ہو۔ تصاویر کے درمیان یہ حد بندی قطعی واضح ہے کہ جانداروں کی تصویریں حرام اور بےجان اشیاء کی تصویریں حلال ہیں۔ اس خط امتیاز میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے جسے احکام کی پیروی کرنی ہو وہ صاف صاف جان سکتا ہے کہ اس کے لئے کیا چیز جائز ہے اور کیا ناجائز۔ لیکن اگر جانداروں کی تصاویر میں سے بعض کو جائز اور بعض ناجائز ٹھہرایا جاتا تو دونوں قسم کی تصاویر کی کوئی بڑی سے بڑی فہرست بیان کردینے کے بعد بھی جواز و عدم جواز کی سرحد کبھی واضح نہ ہوسکتی اور بےشمار تصویروں کے بارے میں یہ اشتباہ باقی رہ جاتا کہ انہیں حد جواز کے اندر سمجھا جائے یا باہر۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے شراب کے بارے میں اسلام کا یہ حکم کہ اس سے قطعی اجتناب کیا جائے ایک صاف حد قائم کردیتا ہے۔ لیکن اگر یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی اتنی مقدار استعمال کرنے سے پرہیز کیا جائے جس سے نشہ پیدا ہو تو حلال اور حرام کے درمیان کسی جگہ بھی حد فاصل قائم نہ کی جاسکتی اور کوئی شخص بھی فیصلہ نہ کرسکتا کہ کس حد تک وہ شراب پی سکتا ہے اور کہاں جاکر اسے رک جانا چاہیے۔ (مزید تفصیلی بحث کے لئے ملاحظہ ہو رسائل و مسائل، حصہ اول، ص ١٥٢ تا ١٥٥)
------------------------------------------------------
بحوالہ تفہیم القرآن جلد چہارم سُوْرَةُ سَبـَا حاشیہ نمبر :20
--------------
یہ بھی پڑھیں !
اسلامی ریاست کی بنیاد ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد
--------------
یہ بھی پڑھیں !
اسلامی ریاست کی بنیاد ۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد