اہم خبریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اہم خبریں لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

دوروزہ اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) کا 48 واں وزرائے خارجہ اجلاس 2022ء

اوآئی سی وزرائے خارجہ اجلاس 22، 23، مارچ  2022 ء،  پاکستان 

پاکستان کے وزیر اعظم عمران نے منگل کو اسلامی اتحاد تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور کشمیر پر ناکام ہوچکے ہیں۔ عمران خان کے مطابق ’ہم تمام ممالک کی اپنی خارجہ پالیسیاں ہیں مگر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح فلسطین میں دن دیہاڑے ڈکیتی ہورہی ہے، اگر ہم متحد نہ ہوئے اور ایک مؤقف نہ رکھا تو ہم کہیں کے نہیں رہ جائیں گے۔‘


او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ او آئی سی اجلاس پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ہورہا ہے، اور او آئی سی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کی آمد پر ان کا مشکور ہوں۔


خیال رہے کہ پاکستان میں ہونے والے اس 48 ویں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں 57 مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ، مبصرین اور مہمان شریک ہیں۔

دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں سے لدا جہاز کیسے ڈوبا ؟

دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں سے لدا جہاز کیسے ڈوبا ؟
 2مارچ 2022ء بی بی سی اردو کے مطابق : 

دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں سے لدا مال بردار بحری جہاز سمندر میں ڈوب گیا

’فلیسیٹی ایس‘ نامی مال بردار بحری جہاز شمالی بحر اوقیانوس کے ٹھنڈے پانیوں میں جب آہستہ آہستہ ڈوب رہا تھا تو جہاز پر سوار کپتان سمیت عملے کے 22 خوش قسمت افراد کی جان بچائی جا چکی تھی۔

لیکن اس جہاز پر لدا مال اتنا خوش قسمت نہیں رہا۔ اور یہ کوئی عام مال نہیں بلکہ دنیا کی مہنگی ترین چار ہزار گاڑیاں تھیں جن کی مالیت تقریبا 27 ارب روپے تھی۔

جی ہاں۔ آپ نے درست پڑھا۔ 27 ارب پاکستانی روپے جو تقریبا 155 ملین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

ان چار ہزار گاڑیوں میں زیادہ تر لگژری کارز تھیں۔ ان میں پورشے اور بینٹلے جیسی مہنگی ترین گاڑیاں بھی شامل تھیں جن کی انفرادی قیمت ہی 70 ہزار برطانوی پاؤنڈ تک ہوتی ہے۔

لگژری کاریں بنانے والی بینٹلے کمپنی کے مطابق جہاز پر اُن کی 189 نئی نویلی گاڑیاں موجود تھیں جبکہ پورشے کمپنی نے کہا ہے کہ ڈوبنے والے جہاز پر ان کی 1100 گاڑیاں لدی ہوئی تھیں۔یہ گاڑیاں جرمنی سے امریکہ کے ’روڈ آئی لینڈ‘ پہنچائی جانی تھیں جہاں اُن کو صارفین کے حوالے کر دیا جاتا مگر دوران سفر ہی بحری جہاز آہستہ آہستہ پانی میں غرق ہونے لگا۔

روس یوکرین جنگ : پاکستان کا موقف

تاریخ اشاعت : 1 مارچ 2022ء : بی بی سی اردو کے مطابق  پاکستان میں تعینات مختلف غیر ملکی مشنز کی جانب سے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں روس کے خلاف جنگ بندی کی قرارداد پر دستخط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ان مشنز میں جرمنی اور فرانس بھی شامل ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ : پاکستان کا موقف

گزشتہ ایک روز سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا روس اور یوکرین کے تنازعے پر ہنگامی اجلاس جاری ہے۔ یہ اجلاس یکم مارچ کو اختتام پذیر ہوگا جس کے دوران قرارداد منظور کی جائے گی۔

اس قرارداد کے ذریعے 193 رکن ممالک روس پر اپنے ہمسایہ ملک یوکرین سے جنگ بندی پر زور دیں گے۔ اسی سلسلے میں منگل کے روز پاکستان میں 19 غیر ملکی مشنز سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں نے ایک خط کے ذریعے پاکستان پر اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور دیا ہے۔

جبکہ پاکستان کے سفارتی حلقوں سے مصدقہ اطلاعات ہیں کہ پاکستان نے اس اجلاس کا حصہ نہ بننے اور یوکرین کے ساتھ روس کے تنازعے پر ایک نیوٹرل مؤقف اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔

کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی سے کہا ہے کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔ ان اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ روس اور یوکرین کو اپنے معاملات افہام و تفہیم سے حل کرنے چاہییں۔

پاکستان کے اس فیصلے کو کئی لوگ خوش آئند سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کے برعکس پاکستان کسی 'سیاسی دھڑے' کا حصہ نہیں بن رہا بلکہ افہام و تفہیم سے معاملات سلجھانے کی تلقین کر رہا ہے۔

پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔

دھڑوں کی سیاست سے ’نیوٹرل‘ ہونے تک

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یوکرین اور روس کے معاملے پر نیوٹرل کیوں ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرین میں جاری ہے۔  'اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔ 

امریکہ اسرائیل کو اتنی امداد کیوں دیتا ہے ؟ اور یہ پیسے کہاں استعمال ہوتے ہیں ؟

 بی بی سی  اردو، 25 مئی 2021 

امریکہ ، اسرائیل تعلقات

امریکی صدر جو بائیڈن کو اپنی ہی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی میں سے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو امداد کے حوالے سے سوالات کا سامنا ہے۔

سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ امریکہ کو اس پر 'سخت نظرِثانی' کرنی چاہیے کہ یہ پیسہ کیسے استعمال ہو رہا ہے۔

تو اسرائیل کو امریکہ سے کیا ملتا ہے اور یہ پیسہ کس لیے استعمال ہوتا ہے؟

اسرائیل کے لیے امریکی امداد

سنہ 2020 میں امریکہ نے اسرائیل کو اوباما دور میں کیے گئے ایک طویل مدتی سالانہ وعدے کے تحت 3.8 ارب ڈالر کی امداد دی۔ یہ امداد تقریباً مکمل طور پر عسکری مقاصد کے لیے تھی۔

سابق صدر باراک اوباما نے سنہ 2016 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت اسرائیل کو 2017 سے 2028 کے درمیان کُل 38 ارب ڈالر کی امداد دی جانی تھی۔

چین: ’ 32 سال بعد ماں نے اپنے اغوا ہونے والے بیٹے کو ڈھونڈ نکالا‘

لی جینگزی نے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ اپنے بیٹے ماؤ ین کی تلاش میں گزار دیا۔ ماؤ ین کو سنہ 1988 میں اغوا کرنے کے بعد بیچ دیا گیا تھا۔ لی اپنے بیٹے سے دوبارہ ملنے کی امید کھو بیٹھی تھیں لیکن رواں برس مئی میں انھیں ایک فون کال موصول ہوئی جس کی وہ سالہا سال سے منتظر تھیں۔

ہفتہ وار چھٹی کے دوران جینگزی اور ان کے شوہر ننھے ماؤ کو لے کر چڑیا گھر جاتے یا شہر کے بہت سے پارکس میں سے کسی ایک میں۔ وہ شنگھائی کے مرکزی شہر زیان میں رہتے تھے۔ باہر گھومنے پھرنے کے ان دنوں کی یادیں ہمیشہ تروتازہ رہی ہیں۔
32 سال  بعد ماں نے اپنے بیٹے کو  ڈھونڈ نکالا  

ان کے بیٹے کی عمر تقریباً ڈیڑھ برس تھی۔

جینگزی کہتی ہیں کہ ہم اسے شہر کے ایک چڑیا گھر میں لے کر گئے۔ اس نے وہاں زمین پر ایک کیڑا دیکھا۔

وہ بہت متجسس ہوا اور اس کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگا ماما کیڑا! اور جیسے ہی میں اسے چڑیا گھر سے باہر لے کر گئی تو میں نے دیکھا کہ اس نے کیڑے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور اس نے اسے میرے چہرے کے قریب کیا۔ماؤ ین ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ان دنوں چین میں ون چائلڈ پالیسی یعنی ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی عروج پر تھی۔ اس وقت دوسرے بچے کو پیدا کرنے کے بارے میں سوچنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا پڑھے لکھے اور کامیاب ہو۔ اس لیے انھوں نے اپنے بیٹے کو جیا جیا کا نام دیا جس کا مطلب ہے عظیم۔

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان، سید منور حسن کی سیاسی زندگی

سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی سیاسی زندگی
(بی سی اردو تاریخ اشاعت : 26 جون 2020م ) 
جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن جمعے کے روز (26 جون ، 2020م ) کراچی میں انتقال کر گئے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے ان کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے اور کراچی کے مقامی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ مصنف و کالم نگار فاروق عادل نے سید منور حسن کی زندگی کے سفر پر نظر ڈالی ہے۔

کراچی میں تازہ وارد ایک نوجوان سید منور حسن کی خدمت میں حاضر ہوا، ٹٹول کر جیب سے ایک رقعہ نکالا اور جھک کر انھیں پیش کر دیا۔ سید صاحب نے دیکھے بغیر اِسے میز پر ڈالا، کچھ دیر کے لیے دراز ٹٹولی، فارغ ہو کر اچٹتی سی ایک نگاہ رقعے پر ڈالی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

اٹھتے اٹھتے جیسے انھیں کچھ یاد آیا اور انھوں نے نگاہ التفات کے منتظر اجنبی کی طرف دیکھا اور بلا تمہید بولے کہ پھر چلیں؟

’کہاں؟‘

’ہمارے ہاں یہ وقت ظہر کی نماز کا ہوتا ہے۔‘

سننے والے نے اس مختصر جملے میں بے تکلف شگفتگی میں لپٹی ہوئی طنز کی گہری کاٹ کو محسوس کیا، ان کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور سوچا، اس شخص کے ساتھ بات کرنا کتنا مشکل ہے۔

سید منور حسن سے قربت رکھنے والے ان کے بہت سے احباب کا اصرار ہے کہ وہ سراپا دل تھے، سفر و حضر کے ساتھیوں کا مشاہدہ بالعموم درست ہوتا ہے لیکن یہ خیال بھی غلط نہیں کہ یہ زبان ہی تھی جو سید صاحب کا سب سے بڑا ہتھیار اور سب سے بڑی کمزوری بنی لیکن ٹھہریے، یہ تبصرہ ذرا غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے ،لہٰذا تھوڑی تفصیل سے بات کرنی ضروری ہے۔
سید صاحب کے مزاج کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو اپنے پیرو کار کہاں سے ملے؟

کائنات میں تاریک مادے کی کھوج کے دوران ’نامعلوم سگنل‘ کی دریافت (بی بی سی اردو )

کائنات میں تاریک مادے کی کھوج 
 کائنات میں 'ڈارک میٹر' کے وجود کے متلاشی سائنسدانوں کو ایک ایسے سگنل کا سراغ ملا ہے جس کی فی الحال وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

ڈارک میٹر یا تاریک مادہ کائنات میں پایا جانے والا وہ مادہ ہے جس کے وجود کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا تاہم کشش ثقل (گریوٹی) کے اصول کے تحت اس پُراسرار مادے کے وجود کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

جن سائنسدانوں نے اس نامعلوم سگنل کی کھوج لگائی ہے وہ 'زینان ون ٹی' نامی سائنسی منصوبے پر کام کر رہے جس کا مقصد نظام کائنات میں پھیلے ڈارک میٹر پر تحقیق کرنا ہے۔

'زینان ون ٹی' پر کام کے دوران سائنسدانوں نے اپنے سراغ رساں آلات کے ذریعے کائنات میں اس سے کہیں زیادہ سرگرمی کا پتا لگایا ہے جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔

سائنسدانوں کا گمان ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ 'غیر متوقع سرگرمی' درحقیقت ڈارک میٹر کے اب تک ناقابلِ شناخت 'شمسی ایکسیان' نامی ذرات کی وجہ سے ہو۔ڈارک میٹر کیا ہے؟
ڈارک میٹر کائنات میں موجود مادے کا لگ بھگ 85 فیصد پر مشتمل ہے، تاہم ڈارک میٹر کی نوعیت اور ساخت کیا ہے یہ اب تک صیغہ راز ہے۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتم مفتی محمد نعیم کا انتقال (بی بی سی اردو )

مفتی محمد نعیم
پاکستان کے نامور عالم دین اور جامعہ بنوریہ العالمیہ کراچی کے مہتم مفتی محمد نعیم ہفتے کے روز (20 جون ، 2020م) انتقال کر گئے ۔ ان کی عمر 62 برس تھی اور وہ گذشتہ کچھ عرصے سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔

جامعہ بنوریہ العالمیہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مطابق سنیچر کی شام مفتی نعیم کی طبیعت اچانک خراب ہونے پر انھیں ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ وہ راستے میں ہی انتقال کر گئے۔

مفتی نعیم کے آباؤ اجداد کا تعلق پارسی مذہب سے تھا جو بھارتی گجرات کے علاقے سورت میں آباد تھے۔ مفتی نعیم کے دادا نے اسلام قبول کیا اور اُس وقت ان کے والد قاری عبد الحلیم کی عمر چار برس تھی۔

قاری عبد الحلیم تقسیم ہند سے قبل ہی پاکستان آ گئے تھے۔

مہاتير محمد کی لمبي عمر کا راز

مہاتیر محمد کی لمبی عمر کا راز  
موجودہ دنیاکے معمرترین منتخب حکمران رہنے والے ڈاکٹر مہاتیر محمد آخرکار اپنی بہترین صحت اورلمبی عمر کاراز منظرِعام پر لاکر دنیاکو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔  ۹۴سالہ مہاتیرمحمدکے بارے میں پوری دنیامیں حیرت واستعجاب کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ 

مہاتیر محمد ۱۹۶۴ء میں سیاست میں آنے سے پہلے اپنی آبائی ریاست کیدہ میں ایک معالج کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں ملائیشیا کے ممتازترین اخبار ’’نیوسٹریٹ ٹائمز‘‘ میں دومضامین کے ذریعے بتایا کہ ان کی صحت کا راز کھانے پینے اوربودوباش پر کنٹرول کرنے کی عادات کو پختہ کرنے میں پوشیدہ ہے۔ 

مہاتیرمحمد نے اپنے مضامین میں بتایا کہ یہ بات ایک آفاقی حقیقت کے طورپر تسلیم کی جاتی ہے کہ اچھی صحت کے لیے اصول یہ اپنایاجاناچاہیے کہ زندہ رہنے کے لیے کھایاجائے نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہاجائے۔

 ڈاکٹرمہاتیرمحمد نے مزیدبتایاکہ موٹاپا جو چربی کی زیادتی کے باعث جنم لیتا ہے، وہ انسانی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ ایک اچھی صحت کے لیے کھانے کی مقدار میں ایک چوتھائی یا ایک تہائی تک کمی کرکے موٹاپے اورچربی کی زیادتی پر قابوپایاجاسکتاہے۔ اسی طرح چاول اورتیل دار غذاؤں سے بھی پرہیز کرکے اس مشکل کوختم کیاجاسکتاہے۔

کورونا وائرس: سائنسدان کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟

کورونا وائرس : سائنسدان  کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
(تاریخ اشاعت : 2 اپریل ، 2020 م  بی بی سی اردو ) 

نول کویڈ-19 وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں، سائنسدان اس وائرس کی ویکسین بنانے میں کوشاں ہیں لیکن وہ اس وائرس کے متعلق کیا اور کتنا جانتے ہیں،

ان کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی ظاہری علامات موجود ہیں ، وہ دوسرے لوگوں میں وائرس منتقل کر سکتے ہیں ۔

 لیکن جن لوگوں میں ظاہری علامات موجود نہیں ، ان کا کیا ؟ 

وائرس کون کون پھیلارہا ہے ؟ 

بہت سے افراد کو پتا ہی نہیں ہے کہ ان میں وائرس موجود ہے ، بعض اوقات بچوں میں وائرس کی زیادہ علامات نظر نہیں آتیں ، لیکن وہ وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کر سکتے ہیں ، لیکن ابھی سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ، کیا آپ وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کر سکتے ہیں ؟ 

کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں، طبی ، سماجی سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ (بی بی سی اردو )

کورونا وائرس: نظروں سے اوجھل چین اور امریکہ کی کشیدگی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں اور سیاسی حالات 

( 26 مارچ 2020 بی بی سی اردو )

سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا پر یہ وقت بہت بھاری ہے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کورونا وائرس کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے ’ووہان وائرس‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر بیجنگ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر اور امریکہ کے وزیر خارجہ دونوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی دنوں میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن چین کے سرکاری ترجمان نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں چین کی طرف سے اس کے بارے میں واضح بات نہیں کی گئی تھی۔

دریں اثنا چین میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ عالمی وبا امریکی فوج کے جراثیم پھیلانے کے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی گئی ہے۔ ان افواہوں پر بہت سے لوگوں نے دھیان دیا تاہم سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے۔

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟
کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔

افغان طالبان اور امریکہ "امن معاہدہ " 2020 م

افغان طالبان اور امریکہ امن معاہدہ 2020م 
یاد رہے کہ ہفتہ 29 فروری 2020م  کو امریکہ اور افغان طالبان نے طویل عرصے سے جاری امن مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے  جس کے تحت افغانستان میں گذشتہ 18 برس سے جاری جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پائے گا۔

امن معاہدے پر دستخط کے بعد اب توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں افغانستان کی حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اتحادی افواج افغانستان میں موجود اپنے دستے اگلے 14 ماہ میں نکال لیں گی بشرطیکہ طالبان اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔

امریکہ نے نائن الیون کے واقعات کے چند ہفتوں بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا جہاں شدت پسند گروپ القاعدہ موجود تھا۔

اس کے بعد سے اب تک 2400 سے زیادہ امریکی فوجی، ہزاروں طالبان جنگجو اور عام لوگ اس لڑائی میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اس وقت بھی 12000 اتحادی فوجی وہاں تعینات ہیں۔

"سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے ".عالمی تنظیم اوکسفیم کی رپورٹ

(روزنامہ ایکسپریس 24جنوری 2020)
سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے -
عالمی تنظیم اوکسفیم کی رپورٹ

 پوری دنیا میں دولت کی عدم تقسیم خوف ناک حد تک بڑھ چکی ہے اس وقت 2153 ارب پتی افراد کے پاس دنیا کے ساڑھے چار ارب افراد کی مجموعی دولت سے زیادہ اثاثے موجود ہیں۔

بین الاقوامی فلاحی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں عالمی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ بالخصوص انتہائی غریب اور کم معاوضے پر کام کرنے والی خواتین، بوڑھوں اور بچوں کا بوجھ کم کرنے کی پالیسیاں بنائیں، تنظیم نے امیروں پر مزید ٹیکس لگانے اور غریبوں بالخصوص بچوں کی خوراک اور صحت پر خرچ کرنے کی سفارشات کی ہیں۔

سوئزرلینڈ کے شہر ڈاووس میں منعقدہ عالمی اقتصادی فورم سے قبل یہ رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کے چیدہ نکات چونکادینے والے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ:

1 : دنیا کے ایک فیصد انتہائی امیر ترین لوگوں کے پاس 6 ارب 90 کروڑ افراد کی دولت سے زیادہ مجموعی اثاثے اور دولت موجود ہے۔

میوزیم آف دی فیوچر ، دبئی ، متحدہ عرب امارات

میوزیم آف فیوچر ،  دبئی 

میوزیم آف دی فیوچر: دبئی میں ’مستقبل کے عجائب گھر‘ کی انوکھی عمارت میں کیا دکھایا جائے گا؟


دبئی میں جہاں راتوں راتوں بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دی جاتی ہیں وہاں لوگ اب ان عمارتوں پر نگاہ تک نہیں ڈالتے۔

لیکن یہاں ایک ایسا زیرِ تعمیر منصوبہ بھی ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ ہے میوزیم آف دی فیوچر یا مستقبل کا عجائب گھر، جو ستونوں کے اوپر ڈرائیور کے بغیر چلنے والی میٹرو کے لیے بنائے گئے ٹریک پر بنایا جا رہا اور یہ شہر کے مالیاتی مرکز کے قریب ہے۔

عجائب گھر کا ڈھانچہ 2400 ترچھے ایک دوسرے سے جڑے سٹیل کے ستونوں سے بنایا گیا جو نومبر 2018 میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اب اس کے بیرونی حصے کے پینلز کو جوڑا جا رہا ہے۔ دبئی میں 20 اکتوبر 2020 میں ’ورلڈ ایکسپو‘ یا عالمی نمائش کے انعقاد کے موقع پر اس عجائب گھر کا افتتاح کر دیا جائے گا۔

تعمیراتی ماہرین اس عجائب گھر کی جدید طرز پر مبنی ہیئت کو ’ٹورس‘ کہتے ہیں۔ ٹورس کسی ڈونٹ کی طرح ایک پھولا ہوا دائرہ ہوتا ہے جو بیچ میں سے خالی ہوتا ہے، لیکن اس کو اگر ’ہولا ہوپ‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

کوالالمپور سمٹ کیا ہے؟

کوالالمپور سمٹ کیا ہے ؟ 
اس سال 18 تا 21 دسمبر کو ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں مسلم رہنما، دانشور اور دنیا بھر سے سکالر مسلم دنیا کو درپیش مسائل اور ان ممالک کے باہمی دلچسپی کے امور کے بارے میں تبادلہ خیال کے لیے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر اکھٹے ہوئے ہیں۔

اس کا پہلا اجلاس نومبر 2014 میں کوالالمپور میں ہوا تھا، جس میں معروف مسلم شخصیات کے درمیان مسلم دنیا کو درپیش مسائل کے لیے نئے اور قابل قدر حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

ملائیشیا کے وزیر اعظم 94 سالہ ڈاکٹر مہاتیر محمد اس سربراہی اجلاس کے چیئرمین ہیں جنھوں نے اس کا قیام اس مقصد کے تحت کیا تھا کہ مسلم رہنماؤں، دانشوروں اور علمائے کرام کو جمع کر کے مسلم دنیا کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل تلاش کیا جاسکے۔

اس سربراہی اجلاس کے رکن ممالک میں ملائیشیا، ترکی، قطر، موریطانیہ اور الجیریا شامل ہیں۔

ملائیشین ماڈل‘ کیا ہے؟


یونیورسٹی آف لیڈز برطانیہ میں شعبہ عمرانیت سے منسلک جنید سیرت احمد کا کہنا ہے کہ مہاتیر کے ملائیشین ماڈل کے تحت ملائیشیا بھر میں تعلیم، صحت اور عوامی فلاح کے منصوبوں سمیت تمام کاروباروں میں حکومتی سطح پر سرمایہ کاری کی گئی۔ مہاتیر کے اس ماڈل کا مقصد ملک میں موجود تمام طبقوں میں مساوات لانا اور خاص طور پر نچلے طبقے کی فلاح تھا۔

جنید سیرت نے بتایا کہ اس ماڈل کے نتائج یہ نکلے کہ اب ملائیشیا کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور صحت کی بہترین سہولیات ملک کے تمام طبقات کو میسر ہیں۔ اسی ماڈل کی بدولت اب ملائیشیا کی معشیت کا شمار مسلم دنیا کی سب سے متنوع معیشت میں ہوتا ہے۔


جبکہ اس برس  ہونے والے سربراہی اجلاس میں پاکستان، ایران، انڈونیشیا کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

الریاض شہر کو عرب دنیا کا پہلا 'ڈیجیٹل دارالحکومت' قرار دیا گیا ہے ۔

ریاض شہر کو پہلا ڈیجیٹل دار الحکومت قرار دیا گیا ہے۔ 
سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں منعقدہ عرب وزارتی کونسل کے اجلاس میں الریاض شہر کو عرب دنیا کا پہلا 'ڈیجیٹل دارالحکومت' قرار دیا گیا ہے۔ عرب وزارتی کونسل برائے سائنس و ٹیلی کام'کے 23 ویں اجلاس کے لیے 'ڈیجیٹل جنریشن کے لیے عرب عزائم' کا عنوان منتخب کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب آئندہ سال 2020ء میں سعودی عرب 'گروپ 20' کی میزبانی کے ساتھ کئی اہم عالمی نوعیت کے اجلاسوں کی صدارت اورمیزبانی کرنے کی تیاری کررہا ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کو عرب دنیا کا 'ڈیجیٹل کیپٹل' قرار دینے کی کئی وجوہات ہیں۔ الریاض شہر ٹیلی کام، سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقا میں پہلے جب کہ پوری دنیا میں 13 ویں نمبر پرہے۔ اس کے علاوہ الریاض اقتصادی اعتبار سے بھی عرب ممالک ممالک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سعودی عرب دنیا کی 20 بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہونے کی وجہ سے الریاض اس گروپ میں عرب دنیا سے شامل واحد دارالحکومت بھی ہے۔

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے مسلمانوں کی شہریت کا مسئلہ

31 اگست 2019ء کو بی بی سی اردو میں ایک رپورٹ شائع ہوئی انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں 19 لاکھ سے زائد افراد کے انڈین شہری ہونے کے دعوؤں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

آسام بنگلہ دیش سے ملحقہ ریاست ہے۔ ریاست کی مجموعی آبادی تین کروڑ 29 لاکھ ہے۔ آبادی میں 34 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے تقریباً 70 لاکھ بنگالی نژاد ہیں۔ مسلمانوں میں بیشتر غریب، ناخواندہ اورچھوٹے کسان ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً 50 لاکھ بنگالی ہندو بھی ریاست میں رہتے ہیں۔


حکام نے انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں بسنے والے 19 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت کو ختم کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی غیر ملکی‘ قرار دے دیا ہے۔

یہ 19 لاکھ افراد ان 40 لاکھ سے زائد باشندوں میں سے تھے جن کے بارے میں انڈین حکومت نے سنیچر (آج) فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ 31 اگست کے بعد انڈیا کے شہری شمار کیے جائیں گے یا نہیں۔

آج انڈیا کی حکومت نے آسام میں اس حوالے سے حتمی فہرست جاری کی ہے۔

یورپ کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد

پورپ کی سب سے بڑی مسجد 
گروزنی: جمعۃ المبارک 23 اگست 2019 ء کو چیچنیا میں یورپ کی سب سے بڑی اور خوبصورت مسجد کا افتتاح ہوگیا ہے جس کی تزئین اور آرائش کے لیے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔

یہ مسجد نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے نامِ مبارک سے منسوب کی گئی ہے۔ چیچن انتظامیہ کے مطابق یہ مسجد یورپ کی سب سے بڑی اور حسین مسجد ہے جس کے اندر 30 ہزار نمازی سماسکتے ہیں۔ تاہم اس کے باہر باغیجے میں خوبصورت پودے، پھول اور فوارے لگائے گئے ہیں اور دالان میں مزید 70 ہزار افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کی تعمیر میں خاص قسم کا ماربل اور دیگر تعمیراتی سامان استعمال کیا گیا ہے۔

کشمیر اور امت مسلمہ - خورشید ندیم

flag of Jummu Kashmir
دارالعلوم دیوبند برِ صغیر کا تاریخ ساز مدرسہ ہے۔ بھارتی حکومت نے جب اپنے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کیا تو مجھے جستجو ہوئی کہ میں اس ادارے کا ردِ عمل معلوم کروں۔ میں نے جب دارالعلوم کی ویب سائٹ کو دیکھا تو مجھے مکمل خاموشی دکھائی دی۔ میں نے خیال کیا کہ یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے اور ممکن ہے کہ اس نے خود کو سیاسی امور سے لا تعلق رکھنے کا فیصلہ کیا ہو۔ بعد میں اس کی تصدیق ہوئی جب ادارے کے نائب مہتمم کا موقف سامنے آیا۔ موقف یہی تھا کہ یہ ادارہ سیاسی معاملات میں کلام کرنے سے گریز کرتا ہے۔

یہ موقف ایک پہلو سے قابلِ فہم تھا۔ مسلک دیوبند نے اپنے ہاں کچھ اس طرح تقسیمِ کار کا اصول اپنایا ہے کہ تعلیم و تدریس کے لیے دارالعلوم اور ذیلی مدارس، دعوت کے لیے تبلیغی جماعت اور سیاست کے لیے جمعیت علمائے ہند کے فورمز مختص ہیں۔ یہ تقسیم آج سے نہیں، کم و بیش ایک صدی سے ہے۔ اب میں نے جمعیت علمائے ہند کی ویب سائٹ کی طرف رجوع کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں بھی کشمیر کے معاملے میں مکمل خاموشی کو روا رکھا گیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا ذکر ہے۔ فلسطین کی تازہ ترین صورتِ حال پر جمعیت کا موقف موجود ہے لیکن اگر کسی موضوع پر زباں بندی ہے تو وہ کشمیر ہے۔