کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں، طبی ، سماجی سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ (بی بی سی اردو )

کورونا وائرس: نظروں سے اوجھل چین اور امریکہ کی کشیدگی کا نتیجہ کیا ہو گا؟
کرونا وبا : عالمی سرگرمیاں اور سیاسی حالات 

( 26 مارچ 2020 بی بی سی اردو )

سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا پر یہ وقت بہت بھاری ہے اور چین اور امریکہ کے تعلقات کٹھن دور سے گزر رہے ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار کورونا وائرس کو ’چائنیز وائرس‘ قرار دے رہے ہیں۔ جارحانہ مزاج کے مالک امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسے ’ووہان وائرس‘ کہہ کر پکارتے ہیں جس پر بیجنگ میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

امریکہ کے صدر اور امریکہ کے وزیر خارجہ دونوں نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے ابتدائی دنوں میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن چین کے سرکاری ترجمان نے اس تاثر کو رد کر دیا ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں چین کی طرف سے اس کے بارے میں واضح بات نہیں کی گئی تھی۔

دریں اثنا چین میں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ یہ عالمی وبا امریکی فوج کے جراثیم پھیلانے کے جنگی پروگرام کے تحت پھیلائی گئی ہے۔ ان افواہوں پر بہت سے لوگوں نے دھیان دیا تاہم سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس وائرس کی ساخت قطعی طور پر قدرتی ہے۔


لیکن یہ کشمکش صرف لفظوں کی جنگ تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے پسِ پردہ اور بہت کچھ چل رہا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں جب امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اٹلی سمیت یورپ کے بیشتر ملکوں سے آنے والوں کے لیے اپنی سرحدیں بند کر رہا ہے تو چین نے کہا تھا کہ وہ طبی عملہ، آلات اور امدادی سامان اٹلی روانہ کر رہا ہے جو کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔

اس کے علاوہ چین نے ایران اور سربیا کو بھی ایسے نازک موقع پر امداد فراہم کی جب چین خود اس وبا سے نکلنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔

ان واقعات کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

اطلاعات کے دور کی یہ وہ جنگ ہے جو پس پردہ لڑی جا رہی ہے۔

چین چاہتا ہے کہ اس بحران سے وہ ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرے۔ یقینی طور پر یہ ایک ایسی جنگ ہے جس میں امریکہ اس وقت تک بری طرح ہار رہا ہے۔ امریکی فضائیہ کی ایک موبائل میڈیکل فسیلیٹی کو اٹلی روانہ کرنے کے تاخیر سے لیے گئے فیصلے سے اب کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

یقیناً یہ دنیا کے تمام ملکوں کے انتظامی اور سیاسی ڈھانچوں کے کڑے امتحان کا دور ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قائدانہ صلاحیت بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ موجودہ دور کی سیاسی قیادت کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ وہ اس نازک وقت میں کیا فیصلے کرتی ہے۔

کون سی قیادت کتنی فصاحت اور بلاغت کا مظاہرہ کرتی ہے اور ملکی وسائل کتنے مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کرتی ہے۔

یہ وبا ایک ایسے وقت میں پھوٹی ہے جب چین اور امریکہ کے تعلقات پہلے ہی سرد مہری کا شکار تھے۔

ایک جزوی سے تجارتی معاہدے نے بمشکل دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی کھینچا تانی پر پردہ ڈالا تھا۔ اس وقت دونوں عالمی طاقتیں ایشیائی بحرالکاہل میں ممکنہ جنگ کی پیش بندی کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلح کر رہی ہیں۔

چین کم سے کم علاقائی سطح پر تو خطے کا ایک فوجی سپر طاقت بن گیا ہے مگر چین کی شدید خواہش ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو تسلیم کروائے، جس کا اس کے خیال میں وہ بین الاقوامی سطح پر حقدار ہے۔

کورونا وائرس کی عالمی وبا سے چین اور امریکہ کے تعلقات اور زیادہ کشیدہ ہو گئے ہیں۔

اس کشیدگی سے اس بحران کے حل اور اس سے ابھر کر سامنے آنے والی دنیا پر اثر پڑے گا۔ وائرس پر جب قابو پا لیا جائے گا تو چین کی معیشت کا دوبارہ اٹھنا دنیا کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے میں اہم عنصر ثابت ہو گا۔

لیکن فی الحال چین کی طبی امداد اس وائرس سے لڑنے میں بہت اہم ہے۔

چین کے مشاہدات اور تجربات سے دوسرے ملکوں کو فائدہ اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔ چین دنیا میں ادوایات بنانے والا بہت بڑا ملک ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈسپوزیبل اشیا مثلاً دستانے، جراثیم سے محفوظ رکھنے والے سوٹ، اور وہ تمام اشیا جو کورونا سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں کو بڑے پیمانے پر بنا رہا ہے۔

چین کئی اعتبار سے طبی ساز و سامان بنانے کی دنیا کی سب سے بڑی ورکشاپ ہے اور اس کے پاس ضرورت پڑنے پر اس صلاحیت میں اضافہ کرنے کی استطاعت بھی موجود ہے، جو کہ بہت کم ملکوں کو حاصل ہے۔

چین اس لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے ناقدین کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے خود ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے ہیں۔

ابتدا میں تو ٹرمپ انتظامیہ اس خطرے کی سنگینی کا اعتراف کرنے میں ناکام رہی اور اس کو ’امریکہ فرسٹ‘ اور امریکی نظام کی فرضی برتری کو ثابت کرنے کے ایک اور موقعے کے طور پر دیکھتی رہی۔

لیکن یہاں سوال عالمی سطح پر قیادت فراہم کرنے کا تھا۔

جیسا کہ ایشیائی امور کے دو ماہرین، سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں نائب وزیر خارجہ کرٹ ایم کیمبل اور رش دوشی، نے حال ہی میں امریکی جریدے فارن افیئر میں اپنے ایک مشترکہ مضمون میں لکھا ہے کہ گذشتہ سات دہائیوں میں امریکہ کی عالمی رہنما ہونے کی حیثیت کا انحصار صرف دولت اور فوجی قوت پر ہی منحصر نہیں تھا۔

ان کے مطابق یہ حیثیت امریکی حکومت کو داخلی طور پر بہتر طرز حکمرانی کی وجہ سے حاصل قانونی جواز، انسانیت کی فلاح کے کاموں اور کسی بھی عالمی بحران کی صورت میں فوری اور مربوط رد عمل کے لیے تیار رہنے اور متحرک ہو جانے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا امریکہ کی عالمی برتری کے تینوں عناصر کا امتحان ہے۔

اب تک امریکہ اس امتحان پر پورا نہیں اتر سکا ہے۔ ایک طرف امریکہ کچھ نہیں کر پا رہا، تو دوسری طرف چین بڑی سرگرمی اور انتہائی مہارت سے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس وبائی بحران میں اپنے آپ کو عالمی لیڈر ثابت کرنے میں امریکی کی ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں شاید یہ بات ہو کہ اس وقت چین کس طرح اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

کیمپبل اور دوشی اسے چین کی دیدہ دلیری قرار دے رہے ہیں کیونکہ یہ وبا چین ہی سے شروع ہوئی۔ بیجنگ نے ابتدائی طور ووہان میں پھیلنے والی وبا پر پردہ ڈالے رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے بعد اس نے بڑے مؤثر انداز میں اپنے تمام وسائل مجتمع کر لیے۔

پریس کی آزادی کی تنظیم ’پین امریکہ‘ کی سربراہ سوزن نوسل نے اسی جریدے میں لکھا کہ ابتدائی حالتِ انکار اور وبا پر قابو پانے میں بدانتظامی کی وجہ سے داخلی عدم استحکام پیدا ہونے کے خوف سے بیجنگ نے بڑے جارحانہ انداز میں اندرونی اور بیرونی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی۔

اس مہم کا مقصد اس وبا کے عالمی سطح پر پھلاؤ میں اپنے قصور کو کم کر کے پیش کرنا اور اس کے خلاف سخت ترین اقدامات کو درست قرار دینا تھا۔ اس کے علاوہ اس کا ایک اور مقصد مغرب اور خاص طور امریکہ کے ردعمل کے مقابلے میں اپنی کاوشوں کے موازنے کے طور پر پیش کرنا تھا۔

بہت سے مغربی مبصرین کی نظر میں چین زیادہ قوم پرستی اور آمریت کی طرف جا رہا ہے۔

انھیں ڈر ہے کہ یہ نتائج وبا کے عالمی اثرات اور اس کے بعد معاشی سست روی سے اور زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کی عالمی حیثیت پر اس کا اور تباہ کُن اثر پڑ سکتا ہے۔

امریکہ کے اتحادی اسے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ پر شاید وہ سرِعام تنقید نہ کریں لیکن بہت سے چینی ٹیکنالوجی ہواوے کے بارے میں امریکی رویے، ایران اور کئی دوسرے علاقائی معاملات پر امریکی پالیسیوں سے اختلافات رکھتے ہیں۔

چین نے اس وبا کے خلاف جنگ میں دوسرے ملکوں سے اپنے روابط کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل اپنے تعلقات کے دائرۂ کار کو وسعت دے رہا ہے۔ ایسے تعلقات جس میں وہ دوسرے ملکوں کے لیے ایک ناگزیر ملک بن جائے۔ اپنے ہمسایہ ملکوں جاپان اور جنوبی کوریا سے نئے روابط اور یورپی ملکوں کو طبی آلات اور ساز و سامان کی فراہمی کو اسی بیانیے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

کیمپبل اور دوشی نے اپنے مضمون میں اس صورتحال کا موازنہ برطانیہ کے زوال سے کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1956 میں نہر سوئز کے ناکام آپریشن نے برطانیہ کی کمزوریوں کو آشکار کر دیا تھا اور اس کے ایک عالمی طاقت ہونے کے طویل دور کو ختم کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ اگر اس وقت امریکہ کورونا وائرس کے امتحان پر پورا نہیں اترتا تو اس کے لیے اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو نہر سوئز کے ناکام آپریشن کے بعد برطانیہ کے لیے نکلا تھا۔

--------


کورونا کے خلاف جنگ: مغرب ایشیا سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے؟

(ہیلیئر چیونگ ، بی بی سی نیوز،  24 مار چ 2020)

مغربی ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور کئی ممالک نے لاک ڈاؤن اور سکولوں کی بندش سمیت دیگر کڑے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

اس وبا نے کئی ہفتے قبل ایشیا کے کئی ممالک کو نشانہ بنایا تھا۔ چند ایشیائی ممالک کی کورونا پر قابو پانے کے حوالے سے تعریف بھی کی جا رہی ہے۔

مثال کے طور پر سنگاپور، ہانگ کانگ اور تائیوان نے چین سے اپنی زمینی قربت کے باوجود کیسز کی تعداد کو نسبتاً کم رکھا ہے۔

آخر ان ممالک نے ایسا کیا کیا اور کیا اس میں دیگر ممالک کے لیے کوئی سبق موجود ہے

پہلا سبق: اسے سنجیدگی سے لیں اور فوری اقدامات کریں
طبی ماہرین کا ایسی وبا کو روکنے کے طریقوں پر اتفاق پایا جاتا ہے: جن میں وسیع پیمانے پر ٹیسٹ، متاثرہ افراد کو علیحدہ کرنا اور سماجی دوری کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہیں۔ مغرب میں اب اس طرح کے اقدامات پر مختلف انداز میں عمل کیا جا رہا ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر ممالک نے اتنی جلد عمل نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے تھا۔

عالمی ادارہ صحت میں ریسرچ پالیسی کے سابق ڈائریکٹر ٹکی پنگیستو کہتے ہیں کہ 'امریکہ اور برطانیہ نے موقع گنوا دیا۔ ان کے پاس چین کو دیکھتے ہوئے دو ماہ تھے، مگر اس کے باوجود وہ یہ سوچتے رہے کہ 'چین بہت دور ہے اور انھیں کچھ نہیں ہو گا۔‘

چین نے 31 دسمبر کو عالمی ادارہ صحت کو ’سارس جیسے پراسرار نمونیا‘ کے کیسز کی اطلاع دی تھی۔ اس وقت تک اس کے انسان سے انسان میں منتقل ہونے کا کوئی مصدقہ کیس موجود نہیں تھا۔ وائرس کے حوالے سے بھی کم ہی معلومات دستیاب تھیں مگر تین دن کے اندر اندر سنگاپور، تائیوان اور ہانگ کانگ نے تمام سرحدی پوائنٹس پر سکریننگ میں اضافہ کر دیا۔ تائیوان نے تو ووہان سے آنے والی پروازوں میں لوگوں کے طیارے سے اترنے سے پہلے ہی سکریننگ شروع کر دی۔

جیسے جیسے سائنسدانوں نے وائرس کے بارے میں مزید جانا تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ لوگ بھی انفیکشن پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں جن میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں، چنانچہ ٹیسٹنگ اہم قرار پائی۔


دوسرا سبق: ٹیسٹوں کی قیمت میں کمی اور وسیع پیمانے پر انتظام

جنوبی کوریا میں ابتدائی طور پر کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہوا مگر اس نے فوراً ہی وائرس کے لیے ایک ٹیسٹ تیار کر لیا جس کے ذریعے اب تک دو لاکھ 90 ہزار لوگوں کا ٹیسٹ کیا جا چکا ہے۔ وہاں روزانہ تقریبا دس ہزار ٹیسٹ مفت کیے جاتے ہیں۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں نئے انفیکشنز کے ماہر پروفیسر اووئی اینگ ایئونگ کہتے ہیں کہ ’جس طرح انھوں نے سخت اقدامات کیے اور عوام کی سکریننگ کی، وہ نہایت متاثر کُن تھا۔‘

جنوبی کوریا میں انفیکشن پھیلانے والی بیماریوں کے ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک نظام پہلے سے موجود تھا جسے سنہ 2015 میں 35 لوگوں کی جان لینے والی بیماری مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سنڈروم (مرس) کے پھیلاؤ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔

اس کے برعکس امریکہ میں ٹیسٹنگ میں تاخیر کی گئی۔ ابتدائی ٹیسٹنگ کٹس میں نقائص تھے اور نجی لیبارٹریوں کے لیے اپنے ٹیسٹ منظور کروانا مشکل تھا۔ کئی لوگ ٹیسٹ کروانے کی جدوجہد کرتے رہے، پر وہ بہت مہنگے تھے۔ بالآخر ہر کسی کے لیے مفت ٹیسٹنگ کا قانون پاس کر دیا گیا۔

اس دوران برطانیہ نے کہا ہے کہ صرف ہسپتالوں میں داخل افراد کا ہی باقاعدگی سے ٹیسٹ کیا جائے گا، جس سے کم علامات رکھنے والے افراد کے کیسز کی نشاندہی کرنا مشکل ہو گیا۔

پروفیسر پنگیستو تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ ممالک میں ٹیسٹنگ کٹس وافر تعداد میں موجود نہیں۔ مگر وہ وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ کو ’سب سے اہم ترجیح‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جن لوگوں میں علامات ہیں مگر وہ ہسپتالوں میں داخل نہیں اور ابھی تک وائرس پھیلا رہے ہیں، ان کی ٹیسٹنگ کرنا اور بھی زیادہ اہم ہے۔‘


تیسرا سبق: نشاندہی کریں اور علیحدہ کریں

صرف ان لوگوں کی ٹیسٹنگ کرنا کافی نہیں ہے جن لوگوں میں علامات ہوں، بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ ان لوگوں کی نشاندہی کی جائے جن سے وہ ملاقات کرتے رہے ہیں۔

سنگاپور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے 6000 افراد کا پتا چلایا ہے۔ انھیں سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے ڈھونڈا گیا، ان کے ٹیسٹ کیے گئے اور انھیں خود کو تنہائی میں رکھنے کا حکم دیا گیا تب تک کہ جب تک ان کے نتائج منفی نہ آ جائیں۔ ہانگ کانگ میں کسی شخص میں علامات ظاہر ہونے سے دو دن قبل تک جتنے بھی لوگوں نے متاثرہ شخص سے ملاقات کی ہو ان کا پتا چلایا جا رہا ہے۔

انھوں نےایسے اقدامات اپنائے ہیں جن سے خود ساختہ تنہائی میں رہنے والے افراد کے بارے میں یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اپنے اپنے گھروں پر ہیں۔

ہانگ کانگ میں بیرونِ ملک سے آنے والوں کو اپنی نقل و حرکت سے حکام کو آگاہ رکھنے کے لیے برقی کڑے پہننے کا کہا گیا ہے۔ جبکہ سنگاپور میں خود ساختہ تنہائی اپنانے والوں کو روزانہ کئی مرتبہ رابطہ کیا جاتا ہے اور ان سے اپنی علاقے میں موجودگی کا ثبوت دینے کے لیے تصویریں بھیجنی ہوتی ہیں۔

سنگاپور نے متاثرہ لوگوں سے ملنے والوں کی نشاندہی کرنے کے لیے فوج کو بھی طلب کیا
سنگاپور میں ’گھر پر رکنے‘ کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں عائد کی جا رہی ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والے ایک شخص کی سنگاپور میں مستقل رہائش منسوخ کر دی گئی ہے۔

کئی مغربی ممالک کو اپنی بڑی آبادیوں اور زیادہ شہری آزادیوں کی وجہ سے ایسے اقدامات کے نفاذ میں مشکل ہو سکتی ہے۔

پروفیسر اووئی کہتے ہیں کہ ’ہم نے جو کچھ کیا وہ اس لیے کر سکے کیونکہ ہم ایک چھوٹا ملک ہیں۔ ہمارے اقدامات کو مکمل طور پر نقل کرنا ناقابلِ فہم ہو گا، اسے ہر ملک کے حساب سے اپنانا ہو گا۔‘


چوتھا سبق: فوری طور پر سماجی دوری

وبا پر قابو پانے کے لیے سوشل ڈسٹینسنگ یعنی سماجی دوری کو بہترین طریقوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔

ہانگ کانگ کے کئی مصروف علاقے کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد خالی ہوگئے
مگر یہ اقدامات جتنی دیر سے متعارف کیے جائیں گے، انھیں اپنا کام دکھانے کے لیے اتنا ہی سخت تر ہونا پڑے گا۔

چین کے شہر ووہان میں جہاں سے وائرس شروع ہوا، وہاں لاک ڈاؤن شروع ہونے سے قبل 50 لاکھ لوگ شہر چھوڑ چکے تھے۔ اس کی وجہ سے حکومت نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا قرنطینہ کا نفاذ کیا۔

اٹلی اور سپین میں کیسز کی تعداد ہزاروں میں جانے کے بعد وہ لاک ڈاؤن متعارف کرنے پر مجبور ہوئے۔ نیویارک اور کیلیفورنیا نے شہریوں کو گھر پر رکنے کا حکم دیا ہے اور استثنیٰ صرف سودا سلف خریدنے کے لیے ہے۔

اس کے برعکس سنگاپور میں ابھی تک سکول کھلے ہیں لیکن بڑے عوامی اجتماعات منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ ہانگ کانگ میں سکول بند کر دیے گئے ہیں اور لوگوں کو گھروں سے کام کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے مگر ریستوران اور بار ابھی تک کھلے ہیں۔

پروفیسر اووئی کا ماننا ہے کہ فرق یہ ہے کہ حکومتوں کی جانب سے سماجی دوری نافذ کرنے میں کتنی جلدی کی جاتی ہے۔

’جب تک زیادہ تر ممالک نے کنٹرول کے اقدامات میں سختی کی، تب تک کیسز کی تعداد اتنی بڑھ چکی تھی کہ غیر معمولی اقدامات کی ضرورت پیدا ہو گئی۔‘

سماجی دوری کا تعلق حکومت کی جانب سے اجتماعات پر پابندی اور تعلیمی ادارے بند کرنے سے تو ہے، مگر یہ لوگوں کی جانب سے اس میں شریک ہونے کی خواہش پر بھی منحصر ہے۔ اس لیے عوامی رابطہ کاری اور انفرادی رویہ نہایت اہم ہیں۔

پانچواں سبق: عوام کو آگاہ اور اپنے ساتھ رکھیں


پروفیسر پنگیستو کہتے ہیں کہ ’جب تک آپ کو عوام کا تعاون حاصل نہ ہو، تب تک آپ کی پالیسیوں پر شاید عمل نہ کیا جائے اور عملدرآمد محدود ہی رہے۔ اہم چیز یہ دکھانا ہے کہ پالیسیاں سائنسی ثبوتوں پر مبنی ہوں۔‘

چین پر وبا کے اعتراف میں سستی کرنے پر شدید تنقید ہوئی۔ اس نے خدشات کے باوجود ووہان میں ایک بڑا سیاسی اجتماع ہونے دیا۔ حکام نے ان ڈاکٹروں کو سزا بھی دیں جنھوں نے دوسروں کو خبردار کرنے کی کوشش کی تھی اور جب ان میں سے ایک ڈاکٹر وائرس سے ہلاک ہوگئے تو غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔

وبا کی وجہ سے سنگاپور میں بھی لوگوں نے ذخیرہ اندوزی کی
لیکن جب سے چین نے وائرس کو روکنے کے لیے وسیع پیمانے پر لاک ڈاؤن نافذ کرکے اپنے ہسپتالوں کی استعداد کار بڑھائی ہے تب سے اس کی تعریف بھی ہوئی ہے مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ ان انتہائی اقدامات کی ضرورت صرف اس لیے پڑی کیونکہ ابتدائی ردِعمل نہایت سست تھا۔

امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ طبی حکام سے وبا کی شدت اور دستیاب کٹس کی تعداد پر اختلاف کرتے نظر آئے ہیں۔ حکومت یہ معلومات بھی نہیں فراہم کر سکی ہے کہ کتنے لوگوں کی ٹیسٹنگ کی گئی ہے کیونکہ کئی نجی لیبارٹریاں اپنا ڈیٹا سی ڈی سی کو نہیں بھیج رہیں۔

پروفیسر اووئی کہتے ہیں کہ ’وبا پر ردِ عمل کو شفاف ہونا چاہیے کیونکہ یہی چیز لوگوں کو افراتفری اور ذخیرہ اندوزی سے روکتی ہے۔‘

چند حکومتوں نے اپنے عوام کو تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا ہے۔ ہانگ کانگ نے تمام کیسز کے لیے ایک آن لائن پورٹل شروع کیا ہے جس میں موجود نقشے میں ان عمارتوں تک کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جہاں یہ کیسز پائے گئے ۔ جنوبی کوریا میں اگر کوئی شخص کسی مریض کے آس پاس ہو تو اسے موبائل الرٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔

سنگاپور کی حکومت کی کورونا وائرس پر واضح رابطہ کاری کرنے پر تعریف کی جا رہی ہے۔ سنگاپور کے وزیرِ اعظم نے ایک تقریر بھی کی تھی جس میں لوگوں سے افراتفری میں خریداری کرنے سے اجتناب کرنے پر زور دیا گیا تھا۔

اس کے اقدامات کو عوام میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سنگاپور ایک طویل عرصے سے قومی سلامتی کے لیے اجتماعی ذمہ داری پر زور دیتا رہا ہے۔

اس کے علاوہ سنگا پور کے میڈیا میں سرکاری مؤقف چیلنج کرنے کا رجحان نہیں ہے۔

چھٹا سبق: انفرادی رویے بھی نہایت اہم ہیں

یہ کہنا سادہ لوحی ہے کہ ایشیائی افراد کے اپنی حکومتوں کے احکامات پر عمل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہانگ کانگ میں عوام کا حکومت پر اعتماد بہت کم ہے اور وہاں کئی ماہ سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں مگر دنیا کے سب سے گنجان آباد شہروں میں سے ایک میں زیادہ تر لوگوں نے خود کو رضاکارانہ طور پر ایک دوسرے سے دور کر لیا ہے جبکہ کئی لوگوں نے نئے قمری سال کی تقریبات میں بھی شرکت سے اجتناب کیا ہے جو کہ کرسمس کی تقریبات میں شریک نہ ہونے جیسا ہے۔

پروفیسر پنگیستو کا خیال ہے کہ کانگ کانگ کے لوگوں کو حکومت پر اعتماد نہیں ہے مگر ’انھیں ہانگ کانگ پر فخر ہے اور وہ اسے اپنے علاقے کو لاحق خطرہ تصور کر رہے ہیں۔‘

ایک سروے میں پایا گیا کہ ہانگ کانگ میں 98 فیصد لوگوں نے وبا کے پیشِ نظر ماسک پہنے
اس دوران واشنگٹن کے شہر سیاٹل میں مقیم نرس کیرن ہسٹر نے ہانگ کانگ میں کورونا وائرس پر ٹریننگ کے لیے ایک مہینہ گزارا۔

ڈاکڑز ود آوٹ بارڈرز کی ایمرجنسی فیلڈ کوارڈینیٹر کیرن ہسٹر نے تقریبا ایک ماہ ہانگ کانگ میں کورونا وائرس کی ٹرینگ پر کام کیا ہے۔

اس کے علاوہ ایشیا کے اس حصے میں ماسکس کے استعمال کا بھی کافی رجحان ہے جو ہسٹر کے مطابق ’دوسروں کی عزت کرنے‘ کی علامت ہے۔

انھوں نے کہا کہ اکثر لوگ ان کے ساتھ لفٹ میں صرف اس لیے سوار نہیں ہوتے تھے کیونکہ انھوں نے ماسک نہیں پہن رکھا ہوتا تھا۔ اس کے برعکس مغرب میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ جب تک وہ بیمار نہ ہوں تب تک ماسک نہ پہنیں، اور کئی ایشیائی لوگوں کو ماسک پہننے پر ہراساں کیا گیا ہے۔

ایشیا میں ماہرین کا اتفاق ہے کہ ہاتھ دھونے جیسے اقدامات کے مقابلے میں ماسک پہننا بہت کم مؤثر ہے لیکن جب ماسک کی دستیابی مسئلہ ہو تو انھیں طبی عملے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ مگر کیا ماسک پہننا فائدہ مند ہے یا نہیں، اس حوالے سے مختلف آرا ہیں۔

یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں ماہرِ وبائی امراض بنجامن کولنگ کہتے ہیں کہ ’ماسک کورونا وائرس کے خلاف کوئی جادوئی گولی نہیں ہیں، مگر اگر ہر کوئی ماسک پہنے تو یہ ممکنہ طور پر دیگر تمام اقدامات (مثلاً ہاتھ دھونے اور سماجی دوری)کے ساتھ مل کر وائرس کا پھیلاؤ روک سکتے ہیں۔‘

’اس کے حق میں ثبوت کم ہیں لیکن ہمیں لگتا ہے کہ اس کا فائدہ ہو گا کیونکہ ہم طبی عملے کو یہی تحفظ دیتے ہیں۔‘

لیکن کیرن ہسٹر سماجی دوری کے بارے میں کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ امریکہ میں لوگ بہت انفرادیت پسند ہیں۔ ہمارے لیے اپنی آزادی کی قربانی دینا تھوڑا مشکل ہو گا۔‘

اس سے قبل وہ ایبولا کی وبا پر کام کر چکی ہیں اور اس میں بھی لوگوں کو بار بار ہاتھ دھونے اور سماجی دوری اختیار کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج ’لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ انھیں اپنے طریقے بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

کیا اس سب سے وائرس رک جائے گا؟

ماہرین کو یقین ہے کہ مغربی ممالک میں جو جارحانہ اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ بالآخر انفیکشن پھیلنے کی شرح کو سست کر دیں گے۔ مگر اس کے بعد انھیں کیا چیلنج درپیش ہو گا، اس کے لیے بھی انھیں ایشیا کی طرف دیکھنا چاہیے۔

وائرس کو روک لینے کے باوجود چین، جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور اور ہانگ کانگ کو اب کورونا وائرس کی دوسری لہر کا سامنا ہے جس کی وجہ ان کی سرحدوں سے داخل ہونے والے لوگ بنے ہیں۔

اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یہ وبا کتنا عرصہ جاری رہے گی۔

پروفیسر اووئی پرامید ہیں جب لاک ڈاؤن کے دو سے تین ہفتے کے اندر ہوبائی صوبے میں نئے انفیکشنز کی تعداد گھٹنے لگی۔ بھلے ہی چین کا لاک ڈاؤن 'غیر معمولی' تھا لیکن ان کا خیال ہے کہ نرم تر اقدامات کرنے والے ممالک بھی چند ہفتوں کے اندر وبا پر قابو پا سکیں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ دوسرے ممالک کے لیے متاثر کن ہو سکتا ہے۔ یہ دردناک ہے مگر یہ ہو سکتا ہے۔‘

لیکن اس کے برعکس پروفیسر کاولنگ کو خدشہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن جلدی ختم ہو گیا تو مقامی طور پر یہ وائرس دوبارہ پھیل سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں پتا کہ سماجی دوری اتنے عرصے تک قائم رکھی جا سکتی ہے جتنا عرصہ اسے قائم رکھے جانا چاہیے۔ ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھ سکتے جب تک کہ ویکسین دستیاب نہ ہو، جس میں 18 ماہ تک لگ سکتے ہیں، مگر ہانگ کانگ میں لوگ دو ماہ کے بعد اب تھکاوٹ کے شکار ہیں۔‘

’طویل لاک ڈاؤن معیشت کے لیے تباہ کن ہیں جبکہ وبا پہلے ہی عوامی صحت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ہمارے پاس انتخاب کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔‘

-----------

کورونا وائرس: اس بیماری کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

(جیمز گیلیگر، نامہ نگار برائے سائنس اور صحت، 18 مار چ 2020)

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کے شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب 100 سے زیادہ ممالک تک پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے دو لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 8 ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ وائرس پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک میں بھی پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں تاحال اس کے 299 مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے۔


اس کی علامات کیا ہیں؟

یہ بظاہر بخار سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہے۔

ایک ہفتے بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے کچھ مریضوں کو ہسپتال لے جانے کے نوبت آ جاتی ہے۔

واضح رہے کہ اس انفیکشن میں ناک بہنے اور چھینکنے کی علامات بہت کم ہیں۔


عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے۔

لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔

وائرس کے خوف میں زندگی، ووہان کی لڑکی کی ڈائری

کورونا وائرس کے نئےمریض چین سے زیادہ دوسرے ممالک میں


آخر کرونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟


کچھ چینی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ لوگ خود میں علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی انفیکشن پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔


کورونا وائرس کس قدر جان لیوا ہے؟

اس وائرس سے متاثر ہونے والے 44000 مریضوں کے ڈیٹا کے جائزہ کے بعد عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ

81 فیصد افراد میں اس کی ہلکی پھلکی علامات ظاہر ہوئیں
14 فیصد میں شدید علامات ظاہر ہوئیں
پانچ فیصد لوگ شدید بیمار پڑ گئے
اس بیماری جسے کووڈ 19 کا نام دیا گیا سے مرنے والوں کی شرح ایک سے دو فیصد رہی لیکن ان اعداد پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

ہزاروں افراد کا علاج اب بھی جاری ہے اور شرح اموات بڑھ بھی سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی غیر واضح ہے کہ ہلکی پھلکے علامات والے کتنے کیسز ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوئے، اس صورت میں شرح اموات کم بھی ہو سکتی ہے۔

ہر سال ایک ارب افراد انفلواینزا کا شکار ہوتے ہیں اور دو لاکھ نوے ہزار سے چھ لاکھ پچاس ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ فلو کی شدت ہر سال بدلتی ہے۔

کیا کورونا وائرس کا علاج ممکن ہے؟

تاحال اس کا علاج بنیادی طریقوں سے کیا جا رہا ہے، مریض کے جسم کو فعال رکھ کر، سانس میں مدد فراہم کر کے، تاوقتکہ ان کا مدافعتی نظام اس وائرس سے لڑنے کے قابل ہو جائے۔

تاہم اس کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام جاری ہے اور امید ہے کہ اس سال کے آخر تک اس کی دوا انسانوں پر آزمانی شروع کر دی جائے گی۔

ہسپتالوں میں وائرس کے خلاف پہلے سے موجود دواؤں کا استعمال شروع کر رکھا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کے آیا ان کا کوئی اثر ہے۔

ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے:
اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جیل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو۔
کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپیں، بہتر ہوگا کہ ٹشو سے، اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے۔
کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہ آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو۔ ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضا میں ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ہو، کھانسی یا سانس لینے ںمی دشواری تو فوری طبی مدد حاصل کریں۔ طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں۔

یہ کتنی تیزی سے پھیل رہا ہے؟

ہر روز ہزاروں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کہ اصل میں یہ اس سے کہیں کمبڑے پیمانے پر پھیل رہا ہوسکتا ہے کم سے کم اس سے 10 گنا زیادہ جتنا کہ سرکاری اعداد و شمار میں بتایا جا رہا ہے۔

یہ اب تک جنوبی کوریا، اٹلی، ایران میں پھیل چکا ہے جس کے بعد یہ خدشہ ہے کہ یہ عالمی وبا بن جائے گی۔ کسی بھی انفیکشن کو عالمی وبا اس وقت قرار دیا جاتا ہے جب سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل کر خطرہ بن جاتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ وہ اس تعداد کے حوالےسے فک مند ہیں خصوصات ایسے کیسز کے بارے میں جن کا بلاواسطہ تعلق چین سے ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ’وائرس کے موجود ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘

موسم سرما میں سردی اور فلو کی وجہ سے یہ زیادہ تیزی سے پھیلا، امکان ہے کہ موسم میں تبدیلی اس وبا کے پھیلاو کو روکنے میں مدد دے گی۔

تاہم کورونا وائرس کی طرح کا ایک وائرس ’مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم‘ گرمیوں میں سعودی عرب پھیلتا ہے۔ اس لیے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ گرمیاں اس وبا کو روک دیں گی۔


یہ سب شروع کیسے ہوا؟

یہ وائرس خود کوئی ’نیا نہیں‘ ہے۔ یہ صرف انسانوں میں نیا ہے۔ یہ ایک مخلوق سے دوسری میں آیا ہے۔

کئی ابتدائی کیسز چین میں ووہان کے ایسے بازار سے جوڑی گئے جہاں جانوروں کا گوشت ملتا تھا۔

چین میں کئی لوگ جانوروں سے بہت قریب ہوتے ہیں جس سے یہ وائرسز منتقل ہو سکتا ہے۔ اور گنجان آباد شہروں کا مطلب ہے کہ یہ بیماریاں آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔

سارس نامی بیماری بھی کورونا وائرس سے ہی شروع ہوئی تھی۔ یہ چمگادڑوں سے شروع ہوئی اور سیوٹ کیٹ سے ہوتی ہوئی انسانوں تکل پہنچی تھی۔

سارس کی وبا نے چین میں سال 2002 کے دوران 774 افراد کو ہلاک کیا جبکہ آٹھ ہزار سے زائد اس سے متاثر ہوئے۔

حالیہ وائرس کورونا وائرس سے کی یہ ساتویں قسم ہے اور اب تک اس میں کؤیی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن جب حالات سنبھل جائیں گے تو سائنسدان اس کا قریبی جائزہ لیں گے۔