حکمت اقبال، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
حکمت اقبال، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خودی اور مارکسزم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور مارکسزم
کارل مارکس (Karl Marx) کے نزدیک بنیادی طور پر انسان کے اعمال کی قوت محرکہ جبلت تغذیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حیوان خوراک حاصل کر کے اپنی زندگی برقرار رکھے۔ چونکہ خوراک کا مقصد زندگی کا قیام ہے۔ کارل مارکس خوراک کی ضرورت میں انسان کی اور ایسی ضرورتیں بھی شامل کرتا ہے جس کی تشفی بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ مثلاً موسم کے مطابق کپڑا اور گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لئے رہائشی مکان وغیرہ اور ان سب کو ملا کر اقتصادی ضروریات کا نام دیتا ہے۔ کارل مارکس تسلیم کرتا ہے کہ انسان اخلاقی، مذہبی، روحانی، علمی، جمالیاتی اور سیاسی نصب العینوں سے محبت کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ انسان کے اعمال بظاہر نصب العین کی خاطر ظہور پذیر ہوتے ہیں تاہم وہ نصب العینوں کے لئے شعور (Consciousness) یا مشتملات شعور (Contents of Consciousness) کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے اعمال کی قوت محرکہ اس کی اقتصادی ضروریات ہیں تو انسان کے نصب العینوں کی حیثیت کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ انسان کے سارے اعمال و افعال اقتصادی ضروریات سے نہیں بلکہ نصب العینوں سے پیدا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کارل مارکس اور اس کا دوست اور فلسفہ سوشلزم کی تخلیق کا شریک کار اینجلز دونوں اس حقیقت کی ایک عجیب و غریب وجہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل نو اقتصادی ضروریات ہی انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہیں لیکن انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ضروریات کے لئے نہیں بلکہ کسی نصب العین کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ بات کچھ اس قسم کی ہے ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر چلا جا رہا ہو اور دیکھنے والوں کو ساتھ ساتھ یہ کہتا جائے کہ آپ یقین کیجئے میں در حقیقت پیدل چل رہا ہوں۔ آپ کو فقط ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر جو کچھ محسوس ہوتا ہے حقیقت وہ نہیں تو س کا کوئی ثبوت بھی تو ہونا چاہئے کہ حقیقت کچھ اور ہے ورنہ جو کچھ محسوس ہوتا ہے اسی کو حقیقت سمجھا جائے گا۔ ذاتی احساس سے بڑھ کر کسی چیز کا ثبوت اور کیا ہو گا خصوصاً ایسی حالت میں جب دنیا میں ہر آدمی کا احساس وہی ہو اور اس کلیہ کا استثنیٰ ایک بھی موجود نہ ہو۔ ہر مشاہدہ بھی تو دیکھنے والے کی ذاتی احساس میں بدل کر ہی ایک حقیقت بنتا ہے۔ دراصل یہ حکماء اس قسم کا بے بنیاد دعویٰ کر کے یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ تاریخ کا ہر مذہبی، علمی یا اخلاقی انقلاب در حقیقت ایک اقتصادی انقلاب تھا۔ مارکس لکھتا ہے:
’’ جس طرح سے کوئی شخص ایک فرد کے متعلق اس بناء پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے اس طرح سے کوئی شخص سماجی انقلاب کے ایک دور کے متعلق اس بناء پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا کہ اس دور کے لوگوں کا شعور (یعنی نصب العین) کیا ہے۔‘‘
اسی طرح سے اینجلز لکھتا ہے:
’’ نصب العین کی سوچ ایک ایسا عمل ہے جسے نام نہاد سوچنے والا لاریب شعوری طور پر انجام دیتا ہے لیکن ایک کاذب شعور کے ساتھ۔ اس کے عمل کو حرکت میں لانے والی اصلی قوتیں اس کے لئے نامعلوم رہتی ہیں۔ لہٰذا وہ عمل کی کاذبہ اور ظاہری قوتوں کا ہی تصور کرتا ہے۔ چونکہ اس کا سارا عمل نصب العین کے ذریعہ سے انجام پاتا ہے اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نصب العین پر مبنی ہے۔‘‘

لیکن اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ جو شخص ایک اخلاقی یا مذہبی نصب العین کی جستجو کرتا ہے، اس کا خیال کاذب ہوتا ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے اور در حقیقت وہ اپنی اقتصادی ضروریات کا اہتمام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک شخص کو دماغی طور پر صحت مند ہونے کے باوجود اپنی اقتصادی ضروریات کسی اخلاقی یا مذہبی نصب العین کے ایسے تقاضے نظر آتے ہیں جن کا اقتصادی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ جن کی خاطر وہ اپنی اقتصادی ضروریات کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ جب ایک شخص کو بھوک لگتی ہے تو وہ صاف کہتا ہے کہ اسے خوراک کی ضرورت ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اسے مسجد میں جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب وہ اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لئے موجودہ اقتصادی حالات کو بدلنا چاہتا ہے تو صاف طور پر اپنے مقصود کا ذکر کیوں نہیں کرتا اور اس کی بجائے کسی اخلاقی یا مذہبی نصب العین کا ذکر کیوں کرتا ہے اور اس کی عقل پر ایسا پردہ کیوں پڑ جاتا ہے جو اس کو بھلا دیتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا چاہتا ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ اقتصادی تبدیلی کو برپا کرنے کے لئے ایک ٹیڑھا اور منافقانہ راستہ اختیار کر کے یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ فلاں مذہبی یا اخلاقی نصب العین کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ مارکس اور اینجلز کے خیال کے مطابق انسان فقط ایک اقتصادی وجود ہے اور ایک مذہبی یا اخلاقی وجود نہیں۔ اور اس کے لئے سیدھا اور غیر منافقانہ راستہ اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں۔ جب انسان کی ساری خواہشات اقتصادی خواہشات ہیں تو وہ ظاہر طور پر لاشعوری طور پر یا منافقانہ بھی ایسی غیر حقیقی اور فرضی خواہشات کا بندہ کیوں بن جاتا ہے جو روحانی یا اخلاقی خواہشات کہلاتی ہیں اور جن کے مقابلہ میں وہ اقتصادی خواہشات کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا اور پھر جب کسی شخص کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے کہ اس کے عمل کے اصلی محرکات کیا ہیں تو مارکس اور اینجلز کو ان محرکات کا علم کیسے ہو گیا۔ اینجلز تسلیم کرتا ہے کہ انسان کا ’’ سارا عمل نصب العین کے ذریعہ سے انجام پاتا ہے۔‘‘ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود وہ یہ نہیں مانتا کہ یہ عمل نصب العین پر مبنی ہے حالانکہ کسی دلیل کے بغیر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ نصب العین کے ذریعہ سے اسی لئے انجام پاتا ہے کہ وہ در حقیقت اس پر مبنی ہے۔

خودی اور میکڈوگل ازم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور میکڈوگل ازم
میکڈوگل (Mcdougall) کے نزدیک انسان کے اعمال کی قوت محرکہ اس کی جبلتیں ہیں وہ لکھتا ہے:
’’ جبلتیں انسان کے سارے اعمال کی حرکت میں لانے والی بنیادی قوتیں ہیں۔‘‘
میکڈوگل تسلیم کرتا ہے کہ انسان اور حیوان کی جبلتیں ایک ہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری ہے کہ حیوان اور انسان کے فطری رحجانات اور قدرتی اعمال و افعال بھی ایک ہی ہوں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسانی فطرت کے بعض امتیازات ایسے بھی ہیں جو حیوان میں موجود نہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کسی علمی، اخلاقی، روحانی یا جمالیاتی نصب العین کی خاطر اپنی جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے لیکن حیوان جبلتوں کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نصب العین کی محبت کا جوہر حیوان میں موجود ہی نہیں لیکن یہ نصب العین کی محبت انسان میں کہاں سے آئی ہے۔ فطرت انسانی میں اس کا ماخذ مقام اور کردار کیا ہے۔کیا یہ بھی کوئی جبلت ہے۔ میکڈوگل کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک جبلت نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے جو جبلتوں کی ترکیب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس جذبہ کو وہ جذبہ ذات اندیشی کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ جذبہ جبلت تفوق کی مدد سے دوسری جبلتی خواہشات کی مخالفت کرنے پر قادر ہوتا ہے۔
میکڈوگل کا یہ نظریہ بہت سے اعتراضات کی زد میں آتا ہے مثلاً
1۔اگر انسان کے اندر اس کی حیوانی جبلتیں مل کر اور ترکیب پا کر نصب العینی خواہش پیدا کر سکتی ہیں تو حیوان میں کیوں پیدا نہیں کرتیں۔ بالخصوص جب میکڈوگل تسلیم کرتا ہے کہ انسان اور حیوان میں جو چیز امتیاز پیدا کرتی ہے وہ فقط عقل ہے جو انسان میں ہے اور حیوان میں نہیں اور انسانی عقل انسانی جبلتوں کی اس ترکیب کا سبب نہیں جو جذبہ اندیشی کی صورت اختیار کرتی ہے۔
2۔اگر نصب العینی خواہش جبلتوں کی ترکیب سے پیدا ہوئی ہے تو وہ جبلتوں کی مخالفت کیوں کرتی ہے یہاں تک اس کی خاطر ایک انسان بعض وقت نہ صرف اپنی جبلتی ضروریات کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی (جس کی حفاظت کے لئے وہ موجود ہوئی ہیں) قربان کر دیتا ہے اور پھر یہ نصب العینی خواہش جبلتی خواہشات کو میکڈوگل کے اپنے الفاظ میں ’’ خوف‘‘ (Horror) اور ’’ حقارت‘‘ (Detertation) کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے۔

3۔بعض وقت جبلت تفوق کا مقصد نصب العینی خواہش کے مقصد کے بالکل برعکس قسم کا ہوتا ہے۔ جبلت تفوق تو فقط غلبہ کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن بعض وقت ایک انسان اپنے نصب العین کی ناداری، کمزوری، بیچارگی اور ذلت بلکہ موت تک کو بخوشی قبول کر لیتا ہے ایسی حالت میں جبلت تفوق جو غلبہ چاہتی ہے۔ جذبہ ذات اندیشی یا نصب العینی خواہش کی مدد کیوں کر کرتی ہے۔ اگر نصب العینی خواہش کی تشریح کے لئے فلسفہ خودی کی اس روشنی کو قبول کر لیا جائے کہ نصب العین کی محبت انسانی فطرت کا ایک مستقل جذبہ ہے جو جبلتوں کے کسی مرکب سے پیدا نہیں ہوا تو اس تشریح پر اس قسم کے کوئی اعتراضات وارد نہیں ہو سکتے۔

خودی اور ایڈ لرزم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور ایڈ لرزم
فرائڈ کے ایک شاگرد ایڈلر (Adler) نے اپنے استاد کی خیال آرائیوں سے اختلاف کر کے انہیں غلط قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے نزدیک انسان کے اعمال کو قوت محرکہ اگر جبلت جنس نہیں تو جبلت تفوق (Self Asserton) ہے اس کا خیال یہ ہے کہ انسان کے سارے اعمال و افعال کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور برتر بنائے۔ اور دوسروں سے زیادہ قوت اور طاقت حاصل کر کے ان پر غالب آئے۔ انسانی فرد جب دنیا میں آتا ہے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی ہر ضرورت اور خواہش کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس کمتری کے مقام سے راضی نہیں ہوتا بلکہ تمنا کرتا ہے کہ جدوجہد کر کے اپنی کمتری کو دور کرے اور لوگوں کی توجہ اور ستائش کا مرجع بن جائے اور یہی تمنا اس کی زندگی کی ساری تگ و دو کا سبب بنتی ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ پھر انسان کی فطرت میں نصب العین کی محبت کا مقام کیا ہے اور کیوں جبلت تفوق کی بجائے نصب العین ہی انسان کے سارے اعمال کا حکمران نظر آتا ہے تو ایڈلر اس سوال کا جواب فرائڈ ہی کی طرح یہ دیتا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کی آرزوئے تفوق کی ایک وہمی توجیہ ہوتا ہے۔ انسان کا نصب العین وہی تصور ہوتا ہے جو اس کے خیال میں اس کی کمتری کی تلافی کر سکتا ہے اور اسے قوی اور طاقت ور بنا سکتا ہے چونکہ افراد کی اپنی کمتری کے تصورات مختلف ہوتے ہیں اس لئے ان کے وہ تصورات بھی مختلف ہوتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کی کمتری کو دور کر سکتے ہیں۔ یہی تصورات ان کے نصب العین ہوتے ہیں۔ چونکہ لوگ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کو پسند کرتے ہیں جو شخص ان اوصاف کو اپنا لیتا ہے وہ لوگوں میں پسندیدہ ہو جاتا ہے اور لہٰذا قوت اور طاقت حاصل کر لیتا ہے۔
ایڈلر کا نظریہ کئی سوالات پیدا کرتا ہے مثلاً
1اگر بچہ شروع ہی سے بڑوں میں رہنے کی وجہ سے اپنی کمتری اور دوسروں کی بڑائی کے احساس کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اپنے اس مقام کو ضروری اور قدرتی سمجھ کر اس سے رضا مند کیوں نہیں ہو جاتا اور کیوں اس کے خلاف رد عمل کر کے اپنی کمتری کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے صاف ظاہر ہے کہ بڑائی یا عظمت کی محبت اس کے دل میں شروع سے ہی اس کی فطرت کے ایک ضروری عنصر کے طور پر موجود ہوتی ہے ۔ کیا یہ حقیقت فلسفہ خودی کی تائید مزید نہیں کرتی جس کی رو سے انسان، خدا اور اس کی صفات حسن، نیکی، صداقت، قوت اور عظمت کی محبت کا ایک جذبہ ہے۔ اگر انسان خدا کی محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو اس میں عظمت کی محبت بھی نہ ہوتی اور وہ قوت اور عظمت کے حصول کی تمنا بھی نہ کر سکتا۔
بچہ ستائش کا طالب اس لئے ہوتا ہے کہ ستائش حسن کے لئے ہوتی ہے اور وہ بحیثیت انسان کے ہمہ تن آرزوئے حسن ہے۔ ستائش کے طالب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اسے معلوم ہے کہ بعض اوصاف ستائش کے قابل ہوتے ہیں اور بعض ستائش کے قابل نہیں ہوتے۔ اس کی خودی میں ایک معیار رکھ دیا گیا ہے جس سے وہ حسن کو غیر حسن سے ممیز کرتا ہے۔ اس معیار پر صرف خدا کا تصور ہی پورا اتر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ معیار خدا کی محبت کا جذبہ نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر کیوں نہ سمجھا جائے کہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے نہ کہ جبلت تفوق۔
2قدرت نے جبلت تفوق کا دائرہ کار بہت محدود رکھا ہے۔ یہ جبلت قدرت نے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں حیوان کو اس لئے دی تھی کہ وہ اس کی مدد سے مخالف حملہ آور حیوانات کا مقابلہ کر کے ان پر غالب آئے تاکہ اپنی زندگی اور نسل کو برقرار رکھ سکے۔ انسان میں آ کر بھی اس جبلت کا مقصد اور جبلتوں کی طرح وہی رہتا ہے جو حیوانی مرحلہ ارتقا میں تھا۔ یعنی بحیثیت حیوان کے انسان کی بدنی اور حیاتیاتی زندگی کی حفاظت۔ لیکن جس طرح فرائڈ نے جبلت جنس مضحکہ خیز تک وسعت دے کر انسان کے سیاہ و سفید کا مالک فرض کر لیا تھا۔ اسی طرح ایڈلر نے جبلت تفوق کو غیر معمولی حد تک وسعت دے کر انسان کا آمر مطلق فرض کر لیا ہے۔ تاکہ فطرت انسانی میں نصب العین کے مقام کو نظر انداز کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی مرحلہ ارتقاء میں ایسا کیوں ہوا ہے اور اس کے ہونے کا ثبوت کیا ہے کہ جبلت تفوق اپنے اصلی حیاتیاتی دائرہ کار سے عبور کر کے انسان کی تمام جبلتوں پر حکمران ہو گئی ہے۔

جب ایڈلر کا کوئی معقتدان سوالات کا ایسا معقول اور مدلل جواب دینے کی کوشش کرے گا جو انسان اور کائنات کے تمام معلومہ اور مسلمہ حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو تو اس کی توجہ لازماً ایسے حقائق کی طرف ہو گی جن کی روشنی میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ جبلت تفوق نہیں بلکہ خدا اور اس کی صفات (حسن، نیکی، صداقت، قوت، عظمت وغیرہ) کی محبت ہے اور یہی نتیجہ فلسفہ خودی کا نچوڑ ہے۔

خودی اور فرائڈ ازم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فرائڈ ازم
مثلاً فرائڈ (Freud) کا خیال ہے کہ اعمال انسانی کی اصل قوت محرکہ جبلت جنس (Sex Instinct) ہے جس کا مرکز انسان کا لاشعور ہے جو کچھ انسان کرتا ہے اس کا مقصد بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی لا محدود جنسی خواہشات کی مکمل تشفی کا سامان بہم پہنچائے۔ باقی رہا یہ سوال کہ فطرت انسانی میں نصب العین کی محبت کا مقام کیا ہے اور کیوں جبلت جنس کی بجائے نصب العین ہی انسان کے سارے اعمال پر حکمران نظر آتا ہے۔ تو فرائڈ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ صرف جبلت جنس کی بدلی ہوئی شکل ہے اور وہ اس طرح کہ جب ایک انسان سماج کی عائد کی ہوئی پابندیوں کے خوف سے اپنی جنسی خواہشات کو آزادی سے مطمئن کر سکتا تو وہ ذہنی پریشانی اور بے عزتی دونوں سے بچنے کے لئے یہ فرض کر لیتا کہ وہ جنسی خواہشات کی آسودگی کی بجائے کسی علمی، اخلاقی، مذہبی یا جمالیاتی نصب العین کو چاہتا ہے اس طرح اس کی جنسی خواہشات بدل کر نصب العین کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
چونکہ فرائڈ فطرت انسانی میں انسان کے نصب العین کے صحیح مقام کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے نظریہ میں علمی اور عقلی نقطہ نظر سے کئی خامیاں اور کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس پر کئی معقول اعتراضات وارد ہوتے ہیں مثلاً
1۔اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ جبلت جنس کی ایک بدلی ہوئی صورت ہے۔ کسی دلیل کی عدم موجودگی میں یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ نصب العین کی خواہش انسان کی اصلی اور حقیقی خواہش ہے اور جنسی خواہش کی ایک بدلی ہوئی صورت نہیں۔ تعجب ہے کہ فرائڈ اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی مشکلات کا سامنا نہیں کرتا۔ تاہم وہ اپنے نظریہ کی بنیاد ہی اس پر رکھتا ہے۔
2۔یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ وہ ناپاک اور شرمناک جنسی خواہشات جن کو انسان سماج کے خوف سے مطمئن نہیں کر سکتا جن کے خیال کو بھی ایک جرم سمجھ کر چھپاتا ہے وہ خواہشات کس طرح ایک پاکیزہ مذہبی یا اخلاقی نصب العین میں بدل سکتی ہیں۔
3۔اگر نصب العینی خواہشات ناپاک جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی شکل ہیں تو وہ بدلنے کے عمل میں ناپاک سے پاک کیوں ہو جاتی ہیں اور کسی دوسری قسم کی ناپاک خواہشات میں کیوں نہیں بدلتیں۔ اور پھر وہ نصب العینی خواہشات سے پیدا ہونے کے باوجود ان کی مخالفت کیوں کرتی ہیں اور یہ مخالفت اس حد تک کیوں چلی جاتی ہے کہ انسان نصب العین کی خاطر بعض وقت اپنی جائز جنسی خواہشات کو بھی مطمئن کرنے سے گریز کرتا ہے۔ مثلاً جب ایک انسان کسی بلند نصب العینی مقصد کے لئے شادی کرنے سے انکار کر دے۔
4 ۔اگر جبلت جنس بدل کر نصب العین بن جاتی ہے تو جبلت تغذیہ، جبلت استیلائ، جبلت انقیاد، جبلت غضب، جبلت فرار اور جبلت امومت میں سے ہرایک کیوں نہیں بدلتی۔ اور پھر جب جبلت جنس انسان اور حیوان دونوں میں موجود ہے تو وہ انسان میں کیوں بدلتی ہے حیوان میں کیوں نہیں بدلتی۔
5۔جبلت جنس فقط جوانی میں نمودار ہوتی ہے تو پھر اگر انسانی اعمال کی قوت محرکہ وہی ہے تو وہ اعمال جو جبلت جنس کے نمودار ہونے سے پہلے صادر ہوتے ہیں۔ وہ اس جبلت کی پیداوار کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب میں فرائڈ یہ کہتا ہے کہ یہ جبلت آغاز حیات ہی سے موجود ہوتی ہے۔ چنانچہ بچہ کا انگوٹھا چوسنا، ماں کی چھاتیوں سے دودھ چوسنا یا خوراک کا نگلنا یا فضلات اور رطوبات کا خارج کرنا یا لڑکے کا ماں سے اور لڑکی کا باپ سے بلکہ اس کے فرض کئے ہوئے مقلوب جنسی الجھاؤ کی صورت میں لڑکے کا باپ سے اور لڑکی کا ماں سے محبت کرنا سب جنسی قسم کے مشاغل ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ فرائڈ کا یہ جواب جو جبلت جنس کو مضحکہ خیز حد تک وسعت دیتا ہے، معقول نہیں۔
6۔قدرت نے انسان کی فطری خواہشات کے ساتھ ایک قسم کی راحت اور مسرت وابستہ کر رکھی ہے۔ اگر انسان کی نصب العینی مذہبی اور اخلاقی خواہشات اس کی فطری خواہشات نہیں بلکہ اس کی بدلی ہوئی غیر فطری خواہشات ہیں تو ان کی تشفی سے اس کو راحت اور مسرت کیوں حاصل ہوتی ہے اور لوگ ان بگڑی ہوئی غیر فطری خواہشات کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر لوگ ان کو پسند نہ کریں تو کوئی شخص ان کی پناہ لے کر سماج میں مقبول نہیں بن سکتا۔
ان اعتراضات کا کوئی معقول جواب ایسا ممکن نہیں جو فرائڈ کے نظریہ کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہو۔

فلسفہ خودی کی رو سے نصب العین کی محبت کا جذبہ جبلت جنس کی بگڑی ہوئی یا بدلی ہوئی صورت نہیں بلکہ انسان کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا ہے جو انسان کی تمام جبلتوں کو اپنے تصرف میں رکھتا ہے اور یہ جذبہ محبت صرف خدا کے نصب العین کی محبت سے مستقل اور مکمل طور پر تشفی پا سکتا ہے۔

خودی اور نفسیاتی علوم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور نفسیاتی علوم
اوپر بارہ گھوڑوں کی ایک گاڑی کی مثال سے اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ اگرچہ انسان کے اندر کئی متضاد قسم کی جبلتی خواہشات موجود ہیں۔ تاہم انسانی شخصیت اور اس سرزد ہونے والی انسانی مشاغل میں وحدت اور تنظیم اور یکسوئی کے اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن حیوان کے شعور اور اعمال میں یہ اوصاف موجود نہیں۔ حالانکہ حیوان اور انسان کی جبلتیں مشترک ہیں۔ انسان کا یہ امتیاز اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی خواہش ہے جو اس کی تمام خواہشات کو اپنے تصرف میں رکھتی ہے اور لہٰذا بالآخر اس کے تمام اعمال و افعال کی قوت محرکہ ہے۔ مغرب میں فطرت انسانی پر غور و فکر کرنے والے تمام حکماء اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس خواہش کو معلوم کرنا نہایت ہی اہم ہے یہاں تک کہ انسان کے معمہ کو حل کر لینے کے مترادف ہے اس بات کی کوشش کی بھی ہے کہ اس کو دریافت کیا جائے۔ لیکن چونکہ ان حکماء میں سے کوئی بھی اس خواہش کا کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کر سکا جو انسان کی فطرت کے تمام حقائق سے مطابقت رکھتا ہو اور پوری طرح معقول اور تسلی بخش ہو۔ لہٰذا دنیا کے علمی حلقوں میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان کی اس اہم خواہش کی حقیقت ابھی تک پردہ راز میں ہے اور اس کا مطلوب ایک ایسا عقدہ ہے جو کھل نہیں سکا۔
تمام انسانی افراد کی فطرت ایک جیسی ہے اور ہر فرد انسانی کے اندر اس کے اعمال کی قوت محرکہ بھی ایک ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال کا حقیقی مقصود اور مدعا بھی ایک ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسانی مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر قوم کی راہ عمل اور منزل مقصود دوسری قوموں سے الگ ہے جس کی وجہ سے کرہ ارض قوموں کی سیاسی رقابتوں اور مسابقتوں کا اکھاڑہ اور ان کی سرد اور گرم جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ قوموں کے اختلافات کی وجہ سے عالم انسانی آج تک دو عالمگیر جنگوں کا سامنا کر چکی ہے اور تیسری عالمگیر جنگ کی تباہیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو رہی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ افراد میں بھی بعض کا عمل ایک طرح کا ہوتا ہے اور بعض کا دوسری طرح کا بعض لوگ نیکی اور شرافت کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض لوگ عیاشی اور جرم پسندی کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی ممالک میں بڑھی ہوئی جنسی آزادی کے رحجانات، طلبہ کی بے راہروی اور بغاوت اور توڑ پھوڑ کے میلانات جو اب مشرقی ممالک میں بھی اپنا اثر اور نفوذ پیدا کر رہے ہیں اس کی مثالیں ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے بعض قوموں کا رحجان عیاشی اور بے راہروی کی زندگی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ وہ من حیث القوم چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کیونکہ ان کو یقین ہے کہ یہ راستہ صحیح نہیں اور اس کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں کہ اس پر اور چلنے کے لئے مجبور ہیں اور ان کو اپنے آپ پر اختیار باقی نہیں رہا۔ اس قسم کی زندگی افراد کو بھی سکون نہیں بخشتی بلکہ جوں جوں وہ اس زندگی میں غرق ہوتے جاتے ہیں ان کا سکون اور کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آگے زندگی کی راہیں مسدود ہیں پھر یا تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں یا دماغی امراض میں مبتلا ہو کر دماغی ہسپتالوں کو آباد کرتے ہیں۔


نوع انسانی کے اختلافات کا سبب
ان مشاہداتی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ تمام انسانی افرادکی وہ خواہش جو ان کے اعمال کو حرکت میں لاتی ہے ایک ہی ہے اور اس کا قدرتی اور اصلی مقصود بھی ایک ہی ہے۔ تاہم افراد اپنی عقل اور اپنے علم کے مطابق اس کے مقصود کو مختلف طرح سے سمجھتے ہیں اور اس کی مختلف توجیہات کرتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی لاعلمی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ خواہش دراصل کیا ہے کیسی ہے اور کس چیز کے لئے ہے۔ ان حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان اس طرح سے بنا ہے کہ جب وہ اپنی اس مرکزی اور حکمران خواہش کے قدرتی مقصود کو نہ جانتا ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نکما ہو کر بیٹھ نہیں رہتا بلکہ کسی قائم مقام مقصود کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے اور انسان کی ساری مصیبتوں کا باعث اس کی فطرت کا یہی پہلو ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ جب تک وہ اپنی عملی زندگی کے قدرتی اور اصلی مقصود کے متعلق پوری طرح سے مطمئن نہ ہو لیتا اس وقت تک اپنے عمل کو روک سکتا تو پھر نہ وہ غلط راستوں پر چلتا اور نہ ان کے چلنے کے لئے شدید نقصانات کو مول لیتا بلکہ خاموشی کے ساتھ علم کی روشنی اور انشراح صدر کا منتظر رہتا اور جب ان کا وقت آتا تو سلامتی کے صحیح راستہ پر چل نکلتا، لیکن افسوس کہ انسان کی فطرت اس قسم کی ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے عمل تاریخ (العصر) کے حقائق کو شہادت میں پیش کر کے فرمایا کہ نوع انسانی بڑے گھاٹے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو اپنی عملی زندگی کے اصل مقصود پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے اعمال کی تشکیل کرتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو ان کی زندگی کے اس سچے مقصود (حق) کی طرف بلاتے ہیں اور اس کے راستے پر صبر سے قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ اس راستہ سے بھٹک کر اپنے لئے مصیبتیں پیدا نہ کریں
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنو و عملو الصلحت و تواصو بالحق و تواصو بالصبر
انسانی فطرت کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فرشتوں نے انسان کو خلافت الٰہی کے عظم الشان منصب کے لئے نا موزوں سمجھا تھا کیونکہ اسی کی وجہ سے انسانوں میں وہ عملی اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو فساد اور خونریزی پر آمادہ کرتے ہیں۔
(اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدمائ)
تاہم خدا کو معلوم تھاکہ نوع انسانی کے اختلافات کا دور عارضی ہو گا اور انسان کی فطرت کا ایک اور پہلو ایسا ہے جو آخر کار اس پہلو پر غالب آئے گا اور وہ پہلو یہ ہے کہ وہ علم کا پیاسا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ اس کا علم زود یا بدیر یہاں تک نہ پہنچے کہ وہ یہ جان لے کہ اس کی عملی زندگی کا قدرتی اور اصلی مقصود جس پر تمام نوع انسانی متفق ہو سکتی ہے کیا ہے۔
انسان کی فطرت کا یہ پہلو کہ وہ اپنے مقصود حیات کو نہ جاننے کے باوجود اپنے عمل کو روک نہیں سکتا جس طرح اس کے خلاف کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی شخص کے پاس ایک قیمتی اور عمدہ موٹر کار ہو جسے وہ حکماً اور قانوناً بیکار نہ رکھ سکتا ہو۔ لیکن استعمال کرنے اور چلانے پر مجبور ہونے کے باوجود اسے ٹھیک طرح سے چلانا نہ جانتا ہو اور بار بار گڑھوں میں گر کر یا چٹانوں اور درختوں سے ٹکرا کر شدید حادثات سے دو چار ہو جاتا ہو۔ دور حاضر کے انسان کا حال بھی ایسا ہی ہے اس کو بھی قدرت کی طرف سے انسانی خودی یا انسانی شخصیت کی صورت میں ایک متاع نفیس و بے بہا ارزاں ہوئی ہے جو گویا ایک نادر اور نایاب کل ہے جس کو اگر وہ ٹھیک طرح سے اور اس کے قواعد کے مطابق استعمال کرے تو وہ اس کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں انتہائی مسرت اور راحت کی منزل تک پہنچا سکتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اس کل کو ٹھیک طرح سے استعمال کرنا نہ جانتا ہو تو پھر بھی وہ اسے بیکار نہیں رکھ سکتا بلکہ اس سے ہر حالت میں کام لینے پر مجبور ہے اور اس پر دوسری مشکل یہ ہے کہ وہ فی الواقع اسے ٹھیک طرح استعمال کرنا نہیں جانتا اور اس کل کے اس مرکزی پرزہ سے آشنا نہیں جو اس کو صحیح طور پر صحیح راستہ پر حرکت میں لا سکتا ہے لہٰذا وہ اسے غلط طور پر استعمال کر کے بار بار طرح طرح کی مصیبتوں کے گڑھوں میں گر کر اور قسما قسم کے حادثات کی چٹانوں سے ٹکرا کر ہلاکت سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔
فطرت انسانی کے متعلق مغربی حکماء کی خطرناک لاعلمی
مغرب کے حکماء فطرت انسانی کے متعلق اپنی لاعلمی کا پورا اعتراف کرتے ہیں اور اسے (بالخصوص طبیعیاتی علوم کی غیر معمولی ترقیوں کے پیش نظر) انسانیت اور تہذیب کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ایک نامور ماہر نفسیات اپنی کتاب ’’ سائنس اور انسانی کردار‘‘ میں لکھتا ہے:
’’ سائنس نے ایک غیر متوازن طریق سے ترقی کی ہے۔ آسان مسائل کی طرف پہلے توجہ کرنے کی وجہ سے اس نے بے جان قدرت پر ہمارے تصرف میں اضافہ کیا ہے لیکن ہمیں ان سماجی مشکلات کے لئے تیار نہیں کیا جو اس سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔ قدرت کی سائنس کو آگے بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں۔ جب تک کہ اس میں فطرت انسانی کی سائنس بھی بڑی مقدار میں شامل نہ ہو۔ کیونکہ اسی صورت میں سائسن کی ترقی کے نتائج عاقلانہ طور پر کام میں لائے جا سکیں گے۔‘‘
ایلپکس کارول جس نے نوبل کا انعام بھی لیا تھا اپنی کتاب ’’ انسان جو نامعلوم ہے‘‘ میں لکھتا ہے:ـ
’’ انسانیت کی تعمیر ایسے اداروں کی تشکیل چاہتی ہے جہاں بدن اور روح کی تربیت تعلیم کے مختلف فکری مکتبوں کے تعصبات کے مطابق نہیں بلکہ قوانین قدرت کے مطابق انجام پا سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری تہذیب نے زندگی کا ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جو زندگی کو نا ممکن بنا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس خرابی کا علاج صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں فطرت انسانی کا گہرا علم اس سے بہت زیادہ حاصل ہو جو اب تک حاصل ہے۔‘‘
مغرب کے نفسیاتی علوم کی خطرناک بے ربطی
انسانی اعمال کی قوت متحرکہ کے متعلق دور حاضر کے انسان کی اس لاعلمی نے نہ صرف اس کے انفرادی اور جماعتی افعال کو غلط راستوں پر ڈال دیا ہے بلکہ اس کے ان افعال کے فلسفوں کو بھی جیسا کہ وہ ان کو مرتب کر سکا ہے، پراگندہ خیالات کے مجموعے بنا دیا ہے۔ انسانی افعال کے فلسفوں کو انسانی علوم ( Human Sciences) کا نام دیا جاتا ہے اور ان میں فلسفہ سیاست، فلسفہ اخلاق، فلسفہ تاریخ، فلسفہ قانون، فلسفہ تعلیم، فلسفہ اقتصادیات، فلسفہ علم، فلسفہ فن، نفسیات فرد اور نفسیات جماعت کو شمار کیا جاتا ہے۔ ان تمام علوم کو نفسیاتی علوم (Psychilogical Sciences) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ تمام علوم در حقیقت فطرت انسانی کے کسی نظریہ پر مبنی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے علم نفسیات یا فطرت انسانی کے علم کی شاخیں ہیں۔ انسان کی ہر فعلیت اس کی فطرت کے منبع سے نمودار ہوتی ہے۔ لہٰذا جب تک ہم انسان کی فطرت کو نہ سمجھیں ہم اس کی کسی فعلیت کی حقیقت کو اس کے مبداء اور ماخذ کو اس کے مقصد اور مدعا کو اس کی زشتی اور زیبائی کو اور اس کے سود و زیاں کو نہیں سمجھ سکتے اور فطرت انسانی کو جاننے کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اعمال کی فطری قوت محرکہ کو جانا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انسان کو کسی فعلیت کے متعلق کسی معقول مدلل اور منظم علمی نظریہ کی تدوین نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ انسان کے اعمال کو وجود میں لانے والی انسان کی اصلی قدرتی خواہش کیا ہے اور کس طرح سے انسان جب اسے نہ جانتا ہو تو اس کی بعض غلط خواہشات سے اس خواہش کا روپ دھار کر اس کے اعمال کی حکمران بن جاتی ہیں اور بعد میں اس کے گوناگوں مصائب کا موجب بنتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے علم کے بغیر انسان کے کسی عمل کا علم مرتب کریں گے تو ہماری کوشش اس علم کی بنیاد کو نہ جاننے کی وجہ سے ناکام ہو جائے گی اور ہمارا علم محض جہالت کا ایک مظاہرہ بن کر رہ جائے گا۔ انسانی اعمال کے مغربی علوم چونکہ انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے علم کے بغیر لکھے گئے ہیں ان کی موجودہ حالت اسی قسم کی ہے۔ اس موضوع پر خود کچھ کہنے کی بجائے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ ماہر نفسیات میکڈوگل کی ایک کتاب سے بعض حوالے نقل کرتا ہوں۔ میکڈوگل لکھتا ہے:
’’ فطرت انسانی کے متعلق ہماری لا علمی اب تک تمام انسانی اور اجتماعی علوم کے ظہور کو روکتی رہی ہے اور اب بھی روک رہی ہے۔ یہ علوم ہمارے اس زمانہ کی ایک شدید ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر ہماری تہذیب زوال بلکہ شاید مکمل تباہی کے شدید خطرہ کا سامنا کر رہی ہے۔ ہم علم نفسیات کا، علم اقتصادیات کا، علم سیاسیات کا، علم قانون کا، علم معاشرت کا اور ان کے علاوہ اور ہمت سے فرضی علوم کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن سیدھی بات یہ ہے کہ یہ تمام دلکش نام فقط ہمارے علم کے خلاؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ فقط ان وسیع و عریض غیر آباد بیابانوں کی دھندلی سی نشاندہی کرتے ہیں جن کی سیاحت ابھی تک نہیں کی گئی۔ لیکن یہ بیابان وہ ہیں کہ اگر ہماری تہذیب نے زندہ رہنا ہے تو ہمیں ان کو کسی قاعدے کے اندر لانا ہی پڑے گا۔۔۔۔ میرا مدعا یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے توازن کو بحال کرنے کے لئے ہمیں انسان کی فطرت اور سوسائٹی کی زندگی کا علم (یعنی منظم کیا ہوا سائنسی علم) اس سے بہت زیادہ مقدار میں درکار ہے جو ہمیں اب تک حاصل ہے۔۔۔۔ لہٰذا یہ ہے وہ ایک ہی طریق کار جس سے ہم اپنی تہذیب کی موجودہ غیر یقینی اور دن بدن زیادہ خطرناک ہونے والی حالت کا علاج کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے انسانی اور اجتماعی علوم کو پوری کوشش سے ترقی دے کر فطرت انسانی اور اس کی فعلیتوں کے سچ مچ کے علوم کی شکل دیں۔۔۔ انسانی اور اجتماعی علوم کی بنیادی حقیقت دریافت کرنے اور ان کی تدوین کے طریق کار کو مہیا کرنے کی ضرورت آج اتنی شدید ہے کہ پہلے کبھی نہ تھی۔۔۔۔ تو پھر عملی نقطہ نظر سے علاج کیا ہوا؟ میں اپنے جواب کو بالاختصار پیش کرنے کی غرض سے یہ بتاؤں گا کہ اگر میں ڈکٹیٹر ہوتا تو کیا کرتا۔۔۔۔۔ میں ہر ممکن طریق سے کوشش کرتا کہ اپنی قوم کے بہترین دماغوں کو طبیعیاتی علوم سے ہٹا کر انسانی اور اجتماعی علوم میں تحقیق کے کام پر لگا دیا جائے۔‘‘
(ورلڈ کے آس’’ World Chaos‘‘ صفحات 115,112,59,9)
انسانی علوم کی صحیح تدوین کی بنیادی شرط
اوپر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بعض ایسے حقائق کو پیش کیا گیا ہے جن سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فطرت انسانی کی لاعلمی نوع انسانی کے لئے کیا کیا برے نتائج پیدا کرتی ہے اور کیوں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ میکڈوگل فطرت انسانی کی لاعلمی کو اپنی تہذیب کے لئے ایک عظیم خطرہ کیوں سمجھتا ہے۔ اس کا یہ خیال درست ہے کہ فطرت انسانی کے علم کے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں کہ انسانی اور اجتماعی علوم کی وہ’’ بنیادی حقیقت‘‘ کیا ہے جو ان کی ’’ تدوین کے طریق کار‘‘ کی طرف راہنمائی کر سکتی ہے اور جس کے مرکز کے ارد گرد ان علوم کو معقول اور مدلل سائنسی علوم کے طور پر منظم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ خارجی اور مادی کائنات کے علوم کی طرح داخلی اور غیر مادی فطرت انسانی کا علم فقط ’’قوم کے بہترین دماغوں‘‘ کی ذہنی کاوشوں اور کوششوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اندر خود نگاہ ڈال کر دیکھے کہ وہاں کیا ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت (جس میں اطاعت بھی شامل ہے) کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی پوری پوری نشوونما کرے جو نبوت کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر اس تجربہ کی کامیابی اس حقیقت کا درجہ اول کا روشن ثبوت ہو گی کہ انسان کی فطرت خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ یہ ثبوت ذاتی تجربہ پر اور ایک طرح کی چشم دید حقیقت پر مبنی ہو گا۔ تاہم اس کے عقلی اور علمی دلائل بھی موجود ہوں گے اور وہ خطا سے مبرا ہوں گے۔
گر دلیلت باید ازوے رومتاب
آفتاب آمد دلیل آفتاب
فطرت انسانی کا علم اور علوم کی طرح نہیں کہ اس میں خارجی تجربوں اور فکر و استدلال کی جدتوں سے قدم آگے اٹھ سکے۔ یہاں ہم علم کے اس میدان میں آ نکلتے ہیں جہاں ہمارا سابقہ حقیقت کائنات کے خارجی مادی اور حیاتیاتی مظاہر سے نہیں بلکہ براہ راست حقیقت کائنات سے پڑتا ہے۔ لہٰذا فطرت انسانی کا علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں حقیقت کائنات کے ساتھ جو فطرت انسانی کا مقصود اور مطلوب ہے، ذاتی رابطہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی رابطہ کا نام عبادت ہے اور اسی سے فطرت انسانی کے اصلی اور قدرتی مقصود اور مطلوب کی ذاتی تصدیق ہوتی ہے۔ فطرت انسانی کے علم کی اہمیت کے باوجود اس کے علم کے راستہ کی اسی مشکل کے پیش نظر خدا نے ایک لاکھ سے بھی زیادہ انبیاء کو مبعوث فرمایا اور آخر کار تعلیم نبوت کو ایک خاتم الانبیاء کے ذریعہ سے مکمل کیا جس کا نچوڑ یہ ہے کہ اے لوگو! اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا تاکہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خدا کو پہچان سکو۔
(یا ایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم)
ذاتی تجربہ سے خودی کے ارتقاء کی بلند ترین منزلوں تک پہنچ کر خودی کو واشگاف دیکھنے کے بغیر قوم کا بہترین دماغ بھی زیادہ سے زیادہ کچھ افکار و تصورات کو جمع کر کے ان کو فطرت انسانی کا نام دے لے گا۔ لیکن اس سے خودی کے سربستہ اسرار و رموز منکشف نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اقبال ماہر نفسیات کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ ذہنی افکار و تصورات کی دنیا سے گزر کر قلبی واردات اور احساسات کی دنیا میں آؤ۔ اگرچہ اس کام کے لئے ذرا جرات اور ہمت کی ضرورت ہے۔ تم شاید سمجھتے ہو کہ تم نے اپنی ذہنی افکار کی مدد سے انسانی خودی کو بڑی حد تک سمجھ لیا ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ خودی کے بحر بیکراں میں ابھی اسرار و رموز کے بہت سے جزیرے چھپے ہوئے ہیں۔ انسان کی خودی ایک گہرا اور خاموش سمندر ہے۔ جب تک ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ضرب عصا سے اس سمندر کو چیر کر نہ دیکھیں ہم نہیں جان سکتے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ لیکن یہ سمندر عصائے لا الہ الا اللہ کی ضرب سے ہی چیرا جا سکتا ہے۔
جرات ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا
ہیں بحر خودی میں بھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
عبادت کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی نشوونما کاشف اسرار خودی اس لئے ہے کہ اگر وہ جاری رہے تو بندہ مومن ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے مستقل اور مکمل اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے اور وہ یقین کر لیتا ہے کہ اس کے دل میں سوائے خدا کی محبت کے اور کسی چیز کی تمنا موجود نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا انسان کا محبوب اور انسان کی فطرت کا مقصود اور مطلوب نہ ہو تو خدا کے ذکر سے اس کو اطمینان قلب کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے انسان کو اس حقیقت کی طرف بڑے زور دار الفاظ سے متوجہ کیا ہے کہ دلوں کو خدا کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب) تاکہ انسان سمجھ لے کہ اس کا قدرتی مقصود خدا ہی ہے۔
اقبال لکھتا ہے:
’’ فلسفہ کا کام اشیاء کا علمی مطالعہ ہے اور اس حیثیت سے وہ ایسے تصور سے آگے بڑھنے کی فکر نہیں کرتا جو تجربے کی گوناگوں انواع کو ایک نظام میں منسلک کر دیتا ہے۔ گویا وہ حقیقت کا مشاہدہ دور سے کرتا ہے۔ اس کے برعکس مکاشفہ قلبی حقیقت کو قریب سے دیکھتا ہے۔ اول الذکر محض نظریہ ہے اور آخر الذکر یعنی مکاشفہ ایک زندہ تجربہ حقیقت کے ساتھ ایک رابطہ اور اس کے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ قرب حاصل کرنے کے لئے فکر کو اپنی سطح سے بلند ہونا چاہئے اور اپنی تکمیل قلب کے اس رحجان کی شکل میں کرنا چاہئے جسے مذہب کی زبان میں عبادت کہتے ہیں اور یہی لفظ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والے آخری الفاظ میں سے ایک تھا۔‘‘
’’ خطبات‘‘
اگر آدمی علم کی حد سے گزر کر عبادت کے میدان میں قدم رکھے تو وہ محبت کی شیرینی اور محبوب کے دیدار کی نعمت دونوں خوش بختیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
علم کی حد سے پرے بندہ مومن کے لئے
لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے
خدا کے تصور سے مغربی حکماء کا گریز
لیکن مغرب کا ماہر نفسیات ایک ایسے علمی ماحول کی پیداوار ہے جہاں حسی صداقت کا غیر عقلی عقیدہ علم کی ابتداء اور انتہا ہے اور جہاں خدا کا علم سے اور علم کا خدا سے کوئی علاقہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نفسیات انسانی کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے عبادت کے ذریعہ سے خدا سے براہ راست رابطہ پیدا کرنا اور خدا کا دیدار کرنا تو درکنار وہ سرے سے خدا کا نفسیات سے کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتا۔ بلکہ اپنے علم کو علم کی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا کے تصور سے بھاگتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کے قدرتی اور بے ساختہ استدلال کا بہاؤ اور نا قابل انکار حقائق کا زور اسے کشاں کشاں خدا کے تصور کی طرف لئے جا رہا ہو تو وہ گھبرا کر رک جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ حقائق کی کوئی اور توجیہ کرے جس سے اس کا استدلال اس راستہ سے ہٹ جائے جو خدا کے تصور کی طرف جاتا ہے۔ فلسفہ خودی کا مرکزی تصور یہ ہے کہ انسان کی خودی خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا کی محبت انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن یہ تصور ایک اور تصور سے بطور ایک نتیجہ کے اخذ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی خودی نصب العین کی محبت کا ایک جذبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں نصب العین کی محبت انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ عملی طور پر اس دوسرے بیان کا جو مفہوم نکلتا ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے اس میں الفاظ ’’ نصب العین‘‘ کی بجائے لفظ’’ خدا‘‘ رکھنا علمی اور عقلی نقطہ نظر سے ضروری ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ایک ہی نصب العین ہے جو انسان کو مکمل اور مستقل طور پر مطمئن کر سکتا ہے لہٰذا یہ نصب العین کی محبت کا جذبہ انسان کی فطرت کی رو سے خدا ہی کے لئے ہے اگر کوئی شخص یہ مان لے کہ نصب العین کی محبت کا جذبہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے تو پھر اسے یہ ماننے سے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ خدا کی محبت کا جذبہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے حکماء فطرت انسانی میں نصب العین کو انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے طور پر تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اس کی مثال خود انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے وہ نظریات ہیں جنہوں نے مغرب میں جنم لیا ہے اور جو فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل اور کارل مارکس اور مغرب کے دوسرے حکماء کی طرف منسوب ہیں۔ مغرب کے ان حکماء میں سے ہر ایک یہ مانتا ہے کہ انسانی افراد نصب العینوں سے محبت کرتے ہیں اور نصب العین کی محبت ہی کی وساطت سے بظاہر انسان کے تمام افعال ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس مسلمہ سے یہ نتیجہ ناگزیر تھا کہ انسان میں نصب العین کی محبت کسی جبلت سے یا جبلتوں کے کسی مجموعہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ فطرت انسانی میں اپنا مستقل وجود رکھتی ہے اور وہی انسان کے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جبلتوں کی تشفی جس طریق سے ہوتی ہے وہ تو سب کو معلوم ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ قدرت میں ان کا مقصد فرد کی زندگی کی نشوونما ہے لیکن نصب العین کی محبت کی تشفی کا طریق کیا ہے اور قدرت میں نصب العین حسن، نیکی اور صداقت کا ایک تصور ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کی محبت کی مستقل اور مکمل تشفی ایک ایسے نصب العین سے ہی ہو سکتی ہے جس میں حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف بدرجہ کمال موجود ہوں اور ایسا تصور سوائے خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور قدرت میں نصب العین کی محبت کا مقصد فرد کی شخصیت کی نشوونما ہے جو حسن نیکی اور صداقت کی طلب گار ہے۔ لیکن ان حکماء میں سے ہر ایک نے خدا کے تصور کے نتیجہ سے بچنے کے لئے اس طرح سوچا کہ اعمال انسانی پر نصب العین کی محبت کا مقصد فرد کی شخصیت کی نشوونما ہے جو حسن نیکی اور صداقت کی طلب گار ہے۔ لیکن ان حکماء میں سے ہر ایک نے خدا کے تصور کے نتیجہ سے بچنے کے لئے اس طرح سوچا کہ اعمال انسانی پر نصب العین کی حکمرانی سے انکار ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ کسی نہ کسی جبلت کا یا جبلتوں کے کسی مجموعہ کی بگڑی ہوئی یا بدلی ہوئی شکل ہوتا ہے اسی کا خادم ہوتا ہے اور اسی کی تشفی کے لئے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس طرح ہر ایک نے نصب العین کے خاص انسانی امتیاز کی اہمیت کو ختم کر کے اس کی جگہ انسان کی جبلتی یا حیوانی سرشت کی اہمیت کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انسان ایک حیوان ثابت ہو اور یہ ظاہر ہو کہ اسے بھی حیوان کی طرح خدا کی ضرورت نہیں۔ لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کوئی شخص محض استدلال سے نہ انسان کو حیوان ثابت کر سکتا ہے اور نہ سونے کو مٹی یہی سبب ہے کہ ان حکماء میں سے ہرایک کا استدلال عقلی اور علمی لحاظ سے غلط اور ناقص اور غیر تسلی بخش ہو کر رہ گیا ہے۔

خودی اور حیاتیاتی علوم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور حیاتیاتی علوم
حیاتیاتی علوم میں زو آلوجی (Zoology) اور باٹنی (Batany) وغیرہ شامل ہیں۔ جب حیاتیاتی علوم فلسفہ خودی کی روشنی کے بغیر مدون کئے جائیں تو وہ بھی طبیعیاتی علوم کی طرح غلط بنیادوں پر قائم ہو جاتے ہیں اور طبیعیاتی علوم سے زیادہ غلط رخ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ مغرب میں یہی ہوا ہے۔ مغرب کے حیاتیاتی علوم کے حقائق فلسفہ خودی کی روشنی سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی حکمائے حیاتیات کے اس بے بنیاد اور غلط عقیدہ کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں کہ حقیقت وہی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکیں۔ جو چیز حیاتیاتی مظاہر قدرت کو ممکن بناتی ہے وہ زندہ اجسام کے اندر نظم، تجویز اور مقصد کی موجودگی ہے ۔ تجویز اور مقصد کی موجودگی نظم سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ کسی ذہن یا شخصیت کے تخلیقی عمل پر دلالت کرتی ہے۔ ایک زندہ جسم حیوانی تنظیم اور مقصدیت کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے۔ اور یہ تنظیم اور مقصدیت اس کے ہر خلیہ(Cell) کے اندر موجود ہوتی ہے۔ صرف آنکھ یا کان کے نہایت ہی پیچیدہ میکانیہ کی تخلیق میں علم، حکمت اور قدرت کے جو کمالات بروئے کار آئے ہیں ان پر ایک بڑی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ایک زندہ جسم حیوانی کے اندرونی حیاتیاتی وظائف جو حیوان کی توجہ یا کوشش کے بغیر خود بخود اپنا کام کرتے ہیں مثلاً عمل انہضام اور اس کی حیاتیاتی کیمیا، حیاتین اور وفاقین کی صنعت، دوران خون، تنفس ایک خاص طے شدہ جسمانی شکل کی جانب حیوان کی خود کارانہ نشوونما تناسل، حیوان کے اعضائے رئیسہ، دل، جگر، پھپھڑوں اور گردوں کا خود کارانہ عمل، زخوں کا خود بخود بھرنا اور بیماریوں کے خلاف صحت بحال کرنے والے رد عمل کا خود بخود ظہور پذیر ہونا، سب مل کر حیوان کی زندگی اور نسل کو قائم رکھتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اپنے ظاہری اختلاف کے باوجود یہ وظائف آپس میں اور حیوان کے بیرونی جبلتی اعمال و افعال کے ساتھ ایک خاص مقصد کے لئے مکمل اتفاق و اتحاد رکھتے ہیں اور وہ مقصد حیوان کی زندگی اور نوع کا قیام ہے۔ حیوان کے علم اور احساس کے بغیر اس قدر مکمل یک جہتی، یک سوئی اور موافقت کے ساتھ ان وظائف کے بامقصد عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوان کی پیدائش اور نشوونما ایک ایسے ذہن کے حکیمانہ اور قادرانہ تصرف میں ہے جو حیوان کا اپنا ذہن نہیں اور اس بات میں ذرا شک باقی نہیں رہتا کہ یہ ذہن ایسا قادر مطلق ہے کہ اس کو صرف یہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کان کا پردہ یا آنکھ کا شیشہ یا دل کا عضو اس طرح سے بن جائے اور وہ بن جاتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے حکم کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔
انما امرہ اذا اراد شیا ان یقول لہ کن فیکون
ماحول سے جسم حیوانی کا توافق
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانات کے اجسام خود بخود اپنے ماحول کے ساتھ ایک حیرت انگیز موافقت پیدا کر لیتے ہیں۔ ایک مچھلی جس نے پانی میں تیرنا ہوتا ہے پانی کا سانس لینے کے لئے گلچھڑے رکھتی ہے اور اس کا جسم اس طرح بنا ہوتا ہے کہ تیرتے وقت پانی کی مزاحمت کم سے کم ہو۔ اس کے دونوں پہلوؤں پر چپو لگے ہوتے ہیں اور سرے پر تیرتے وقت آگے دھکیلنے والا ایک پر لگا ہوتا ہے۔ ایک پرندہ جس نے ہوا میں اڑنا ہوتا ہے ایک پیچیدہ تجویز کے مطابق تیار کیا ہوا پروں کا ایک نظام رکھتا ہے جو اسے اڑنے میں سہولت بہم پہنچاتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر ہوا سے بھری ہوئی جھلی کی تھیلیاں ہوتی ہیں اور اس کی ہڈیاں اندر سے کھوکھلی اور گرم گیس سے بھری ہوئی ہوتی ہیں تاکہ وہ ہلکارہے اور آسانی سے پرواز کر سکے دراصل ماحول کے ساتھ اعضاء کا توافق پیدا کرنا تمام زندہ اجسام کی ایک خصوصیت ہے جو ان کی جسمانی ساخت اور جبلتی فعلیت کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں بھی آشکار نظر آتی ہے اور اس کی مثالیں ان گنت ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ حیاتیات کی درسی کتابوں کا مضمون بھی یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ وہ ذہن جس کا پیدا کیا ہوا نظم اور مقصد حیوان کے جسم کے کونے کونے میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے کس کا ہے۔ اور اس سوال کا علمی اور عقلی جواب بھی سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ کسی قادر مطلق خالق کائنات کا۔ لیکن ماہر طبیعیات کی طرح حیاتیات کی درسی کتاب لکھنے والا مغربی ماہر حیاتیات بھی اس سوال کے جواب میں خاموش رہتا ہے۔ وہ یا تو حیاتیاتی مظاہر قدرت میں نظم اور مقصد کی موجودگی کو بالکل تسلیم ہی نہیں کرتا یا کرتا ہے تو اس کی غلط توجیہہ اس طرح سے کرتا ہے کہ خدا کا تصور اس کی کتاب میں گھسنے نہ پائے اور اس کی وجہ پھر یہی ہے کہ مغرب کی سائنس جس عقیدہ سے آغاز کرتی ہے اس کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی اور کسی ایسے سوال کو درخور اعتنا نہیں سمجھ سکتی جس کا جواب خدا ہو۔ اس فرضی مجبوری کا ایک افسوسناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کے عمل کو جو در حقیقت خدا کی ربوبیت کا دوسرا نام ہے۔ قدرت کی اندھا دھند بے مقصد میکانیکی قوتوں کے کھیل کا اتفاقی نتیجہ سمجھ لیا گیا ہے اور پھر ارتقاء کے اس میکانیکی مادی اور بے خدا نظریہ سے انسان اورکائنات کے بہت سے غلط مادی فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ایک مارکسزم ہے جس نے کروڑ ہا بندگان خدا کو ارتقاء کی شاہراہ سے ہٹا رکھا ہے اور غلط راستہ پر ڈالا ہوا ہے جہاں سے انہیں ٹھوکریں کھا کر اور بڑی بڑی مصیبتیں اٹھا کر واپس آنا پڑے گا۔
علم حیاتیات کی تعریف

مغربی سائنس دانوں نے حیاتیات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’ حیاتیات زندگی (یعنی زندہ اجسام )‘‘ کی سائنس ہے۔ لیکن طبیعیات کی تعریف کی طرح ان کی یہ تعریف بھی غلط ہے کیونکہ اس میں بھی اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ زندگی خود بخود موجود نہیں بلکہ خدا نے پیدا کی ہے اور خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا حیاتیات کی صحیح تعریف اس طرح سے ہو گی ’’ حیاتیات خدا کے اس تخلیقی اور تربیتی عمل کی سائنس ہے جو جاندار اجسام میں ظہور پذیر ہوا ہے۔‘‘ ضروری ہے کہ حیاتیات کی اس ناگزیر تعریف کو اختیار کرنے کے بعد حیاتیات کا علم خود بخود اس طرح بدلے اور نشوونما پائے کہ حیاتیاتی مظاہر قدرت میں تجویز اور مقصد کا انکار جو مثلاً جولین بکسے اور اس کی طرح سوچنے والے اور ماہرین حیاتیات کا شیوہ ہے اور حقیقت ارتقاء کی غلط میکانکی توجیہ جس کی بنیاد ڈارون نے رکھی ہے دونوں ممکن نہ رہیں۔

خودی اور طبیعیاتی علوم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور طبیعیاتی علوم
مثلاً پہلے طبیعیاتی علوم کی درسی کتابوں کو لیجئے۔ ان علوم میں فزکس(Physics) کیمسٹری(Chemistry) اور فلکیات(Astronomy) وغیرہ شامل ہیں۔ ان علوم کی درسی کتابوں میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ان کا مواد مغرب کے حکمائے طبیعیات کے اس غلط اور بے بنیاد عقیدہ پر مبنی ہے کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکتے ہیں۔ جو چیز ہم اپنے حواس خمسہ سے دریافت نہیں کر سکتے وہ یا تو موجود ہی نہیں یا اگر موجود ہے تو معدوم کے حکم میں ہے۔ یہ عقیدہ طبیعیاتی علوم کا ہی نہیں بلکہ مغرب کے تمام حیاتیاتی اور انسانی علوم کا اور لاجیکل پازیٹوزم اور بی ہیویرزم ایسے کئی جدید مغربی فلسفیوں اور نفسیاتی نظریوں کا بھی نقطہ آغاز ہے اگر یہ عقیدہ غلط ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی علوم کی خشت اول ہی غلط ہے اور ان کی دیوار اگر ثریا تک بھی چلی جائے تو غلط ہی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس عقیدہ میں عملی طور پر خدا کا انکار مضمر ہے اور اگر اسے ذرا اور وسعت دی جائے تو اس کی بنا پر انسانی خودی اور اس کی پسندیدہ اقدار کا بھی انکار کیا جا سکتا ہے اور ایسا کیا جا رہا ہے۔حالانکہ اپنی خودی سے زیادہ یقنی علم ہمیں ان چیزوں کا بھی نہیں ہو سکتا جن کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں۔ مشاہدات میں غلطی کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے لیکن مجھے اس میں ذرا شک نہیں ہو سکتا کہ میں ہوں۔ اگرچہ میں حواس خمسہ سے اپنے آپ کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ مغربی حکماء کے اس عقیدہ کے غلط ہونے کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ یہ اپنی تردید خود کرتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ عقیدہ فی الواقع صحیح ہے اور صداقت پر مبنی ہے تو ہم اسے ایک صداقت قرار نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عقیدہ کو کسی شخص نے اپنے حواس خمسہ کی مدد سے بطور ایک صداقت کے دریافت نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ ایک مفروضہ یا تحکم یا ادعا ہے اور حواس خمسہ سے دریافت کی ہوئی کوئی صداقت نہیں۔ لہٰذا یہ عقیدہ اپنی تردید خود کرتا ہے۔ مغرب کے حکمائے طبیعیات اس عقیدہ سے اس اصول کو بھی ایک نتیجہ کے طور پر اخذ کرتے ہیں کہ مشاہداتی یا سائنسی علم کو کسی ایسے عقیدہ سے آغاز نہیں کرنا چاہئے۔ جو سائنسی طریقوں سے اور براہ راست حواس خمسہ کے مشاہدہ سے ثابت نہ ہو۔ لیکن ان کا یہ اصول خود ایک عقیدہ ہے جو کسی اور عقیدہ سے ماخوذ ہے اور سائنس کے طریقوں سے ثابت شدہ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا یہ اصول پہلے موجود ہوتا ہے اور سائنسی تحقیق بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کی سائنسی تحقیق اس اصول کو ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ اصول ان کی سائنسی تحقیق کو جنم دیتا ہے۔ اس طرح جب مغربی ماہر طبیعیات اپنی سائنس کو اس عقیدہ سے شروع کرتا ہے کہ سائنسی تحقیق کو کسی عقیدہ سے شروع نہیں ہونا چاہئے تو وہ اپنی تردید خود کرتا ہے اور اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ جس عقیدہ سے وہ در حقیقت اپنی سائنسی تحقیق کو شروع کرتا ہے وہ غلط ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ادعا کے خلاف اپنی سائنس کو ایک عقیدہ سے شروع نہیں ہونا چاہئے۔ اس بات پر مجبور کیوں ہے کہ اپنی سائنس کا آغاز ایک عقیدہ سے کرے۔ اس سوال کا جواب ہمیں خودی کی فطرت سے ملتا ہے۔ انسانی خودی فقط خدا کی محبت یا خدا کی محبت کی کسی ممد و معاون محبت کا ایک جذبہ ہے اور محبت کسی مقصود یا مطلوب کے عمدہ یا حسین ہونے کے عقیدہ کا ہی دوسرا نام ہے چونکہ ناممکن ہے کہ انسان کا کوئی فعل ایسا ہو جو اس جذبہ سے سرزد نہ ہو لہٰذا ناممکن ہے کہ اس کا کوئی فعل ایسا ہو جو کسی عقیدہ پر مبنی نہ ہو۔ مثلاً ہر فعل سے پہلے اس کا فاعل یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کا یہ فعل فلاں عمدہ اور حسین مقصد کو حاصل کرے گا اور اس کو انجام دینے کا فلاں طریقہ عمدہ اور حسین ہے اور یہ عقیدہ اگرچہ معمولی سا نظر آتا ہے لیکن آخر کار کسی تصور حقیقت یا کسی نصب العین کی محبت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ سائنسی تحقیق بھی چونکہ ایک انسانی فعل ہے وہ اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں لہٰذا ممکن نہیں کہ سائنس کسی عقیدہ سے آغاز نہ کرے۔
غیر حسی صداقتوں کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں
مغربی سائنس دانوں کا یہ عقیدہ کی علمی صداقت وہی ہے جسے ہم اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکتے ہیں نہ تو سائنس کے طریقوں سے ثابت شدہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اور علمی یا عقلی بنیاد ہے۔ اس کو اختراع کرنے کی ضرورت فقط اس لئے پیش آئی تھی کہ اس کے ذریعہ سے خدا کے تصور کو سائنس سے خارج کر کے سائنس کو ایک ناپاک، مذہب سے غیر متعلق اور دنیاوی قسم کی کدو کاوش کے طور پر پیش کیا جائے اور اس طرح سے سائنس اور سائنس دانوں کو کلیسا کے مظالم سے بچایا جائے۔ کون نہیں جانتا کہ کلیسا کی سائنس دشمنی یورپ کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر مغرب کے سائنس دان خدا کے سوائے اور کسی غیر حسی صداقت کو جو مشاہدہ میں نہ آنے کے باوجود اپنے اثرات اور نتائج کے ذریعہ سے ثابت ہو رہی ہو رد نہیں کرتے اور اپنے اس عقیدہ کو صرف خدا ہی کے تصور کے خلاف بروئے کار لاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صداقت وہی نہیں جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ کے مشاہدہ سے معلوم کریں بلکہ وہ بھی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ کے مشاہدہ سے تو معلوم نہ کر سکیں لیکن اس کے اثرات اور نتائج کو براہ راست اپنے حواص خمسہ کے مشاہدہ سے معلوم کر سکیں۔ اس کی مثال ایٹم کی ہے جس کے آج تک کے سارے علم کا دار و مدار اس کے براہ راست مشاہدہ پر نہیں بلکہ اس کے آثار و نتائج کے مشاہدہ پر ہے۔ خدا کا وجود بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے کیونکہ ہم خدا کا علم اس کے براہ راست مشاہدہ سے حاصل نہیں کرتے بلکہ مظاہر قدرت کی صورت میں اس کے وجود کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اگر مغرب کے سائنس دان ایٹم کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے ایٹم کو ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہیں تو مظاہر قدرت میں خدا کے وجود کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے خدا کو ایک سائنسی حقیقت کیوں نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ خدا کے تصور سے وہی ڈر ہے جو کلیسا کی سائنس دشمنی سے پیدا ہوا تھا اور آج تک چلا آتا ہے۔ اسی ڈر کی وجہ سے وہ اب بھی اس آشکار حقیقت کا اعتراف کرنے سے گھبراتے ہیں کہ مظاہر قدرت میں خدا کی ہستی اور صفات کا جلوہ نظر آتا ہے۔


قدرت میں وجود باری تعالیٰ کے آثار و نتائج
یہ بات قابل غو رہے کہ جس چیز نے طبیعیات کے علم کو ممکن بنایا ہے وہ یہ ہے کہ طبیعیاتی مظاہر قدرت میں ایک نظم یا آرڈر ( Order) موجود ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قدرت میں نظم کی موجودگی کی دارائے علم و حکمت اور صاحب اختیار و قدرت ذہن کی تخلیقی کارروائی کا پتہ دیتی ہے۔ اگر آپ کسی ایسے جنگل میں چلے جا رہے ہوں جس کے متعلق یہ مشہور ہو کہ اس میں آج تک کسی انسان نے قدم نہیں رکھا اور آپ اچانک کسی جھونپڑی کے پاس آ نکلیں جس کے صحن میں سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں بھی ہوں تو آپ فوراً کہیں گے کہ یہ کسی ذہن یا شخصیت کا کام ہے اور یہ بات صحیح نہیں کہ اس جنگل میں کبھی کوئی انسان نہیں آیا۔ کائنات کے جنگل میں قدم قدم پر ایسی بے شمار جھونپڑیاں نظر آتی ہیں بلکہ یہ پورا جنگل ہی کسی تجویز یا پلان کے مطابق تعمیر پایا ہوا نظر آتا ہے۔ مادی مظاہر قدرت کے اندر جو نظم پایا جاتا ہے وہ اس قدر جچا تلا ہے کہ ہم اسے ریاضیاتی قوانین کی صورت میں بیان کر سکتے ہیں اور یہ ریاضیاتی قوانین کائنات میں اس وقت بھی اپنا کام کر رہے تھے جب ہنوز دنیا میں کوئی ریاضیات جاننے والا انسان بلکہ کوئی انسان اور کوئی متنفس بھی موجود نہ تھا۔ان ریاضیاتی قوانین کو کس ذہن نے نہ سوچا تھا؟ ظاہر ہے کہ طبیعیات کا محقق اپنے مشاہدہ اور مطالعہ قدرت سے نظم کی جستجو کر کے اور اسے دریافت کر کے بار بار یہ سوال پیدا کرتا رہتا ہے کہ یہ کس کا ذہن ہے اور یہ کون سی شخصیت ہے جس کی تخلیقی کارروائی اور مقصدیت مادی کائنات کے ذرہ ذرہ میں آشکار ہے۔ یہ سوال چونکہ طبیعیات کی کتاب پیدا کرتی ہے اور اس کا جواب بھی اسی کتاب کو دینا چاہئے، کسی اور کتاب کو نہیں۔ سوال کا جواب سوال کے موقعہ پر ہی ملنا چاہئے۔ اس سوال کا عقلی اور علمی جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جو تخلیق کی قدرت اور علم اور حکمت اور حسن اور کمال کی محبت کے اوصاف رکھتا ہے اور چونکہ اس کا پیدا کیا ہوا نظم ہر جگہ اور ہر وقت ایک ہی رہتا ہے وہ خالق کائنات ایک ہی ہے۔ جدید طبیعیات کی تخلیق کے مطابق مادہ فنا ہو جاتا ہے اور اگر کائنات کو برقرار رکھتے ہوئے مادہ کو رفتہ رفتہ کائنات سے نکال دی اجائے تو کائنات کے اندر فقط ریاضیاتی نسبتوں اور فارمولوں کا ایک جال باقی رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی بنیادی اور آخری حقیقت وہی ذہن ہے جس نے اس حیرت انگیز لازوال اور اٹل ریاضیاتی نظم کو سوچا ہے اور چونکہ آج تک کوئی ریاضیاتی انداز میں سوچنے والا ذہن شخصیت کی دوسری صفات مثلاً جذباتی اور جمالیاتی اوصاف سے الگ دیکھا نہیں گیا لہٰذا وہ ایک مکمل شخصیت ہے اور وہی شخصیت اس کائنات کی خالق ہے۔
بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر
جہاں نا پیدداد پیداست بنگر
تاہم مغرب کا ماہر طبیعیات اپنی طبیعیات کی کتاب میں نہ تو اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اسے ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے خدا پھر سائنس کے اندر آ جائے گا اور دین اور دنیا اور کلیسا اور سائنس کے درمیان پھر کوئی حد فاصل باقی نہ رہے اور اس کے نتائج پھر وہی ہوں گے جن کا تجربہ ایک بار کیا جا چکا ہے۔
علم طبیعیات کی تعریف

مغرب کے حکماء اپنے اس غلط عقیدہ کی وجہ سے کہ صداقت وہی ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں طبیعیات کی تعریف اس طرح سے کرتے ہیں۔ ’’ طبیعیات علم کا مادہ ہے‘‘ لیکن یہ تعریف تصور خودی کے مضمرات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ اس کے اندر یہ خیال مضمر ہے کہ مادہ کوئی ایسی چیز ہے جو خود بخود موجود ہے اور جس کا علم ہمیں اس کو جاننے کی خاطر حاصل کرنا چاہئے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ تعریف دہریت کے امکان کو مسترد نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن فلسفہ خودی کے مطابق مادہ قطعی طور پر خدا کی خالقیت اور ربوبیت کی وجہ سے موجود ہے۔ وہ اپنا کوئی بالذات وجود نہیں رکھتا بلکہ خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک نشان ہے۔ لہٰذا اس کا جو علم ہو گا وہ پہلے اس کے خالق اور رب کا علم ہو گا اور بنیادی طور پر ہمیں اس کا علم حاصل کرنے کی ضرورت اس لئے ہو گی کہ ہم اس کے خالق کی خالقیت اور ربوبیت کو جانیں اور پہچانیں۔ لہٰذا فلسفہ خودی کے مطابق طبیعیات کی صحیح تعرف یہ ہو گی ’’ طبیعیات مادہ کے اندر خدا کی تخلیقی فعلیت کا علم ہے‘‘ اور مغرب کے حکمائے طبیعیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مادہ جیسا کہ ہم اب اسے دیکھتے ہیں یکایک وجود میں نہیں آیا بلکہ تدریجی ارتقاء کی بہت سی منزلوں کو طے کر کے اپنی موجودہ حالت کو پہنچا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مادہ کو کسی حالت میں بھی یہ صلاحیت نہ ہو سکتی تھی کہ وہ خود بخود بدل کر اگلی حالت کی صورت اختیار کر لے۔ ایک بے جان شے جس حالت میں ہو اس کو اسی حالت میں رہنا چاہئے جب تک کہ کوئی اور قوت اس پر عمل نہ کرے مثلاً آکسیجن اور ہائیڈروجن میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی جس سے وہ مل کر پانی بنا دیں اور اپنی کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی ماہر طبیعیات ان دونوں گیسوں کی خاصیات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ نہ کر سکتا تھا کہ ان کا ایک خاص نسبت سے کیمیاوی ترکیب پانا ممکن ہے اور ان کی ترکیب کا نتیجہ پانی ایسے ایک سیال کی صورت میں رونما ہو گا۔ پھر وہ کون سی قوت تھی جو مادہ کو بار بار ایک حالت سے بدل کر اگلی بہتر اور بلند تر حالت میں لاتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کو وہ تکمیل حاصل ہو گئی جو زندگی کے ظہور کی ایک ضروری شرط تھی۔ وہ کون سی قوت تھی جس نے اسے مختلف ارتقائی حالتوں سے گزار کر حالت کمال تک پہنچایا۔ فلسفہ خودی کا جواب یہ ہے کہ وہ خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کیق وت یعنی خود خدا ہی کی قوت تھی۔ اسی قوت کو اقبال زندگی یا خودی کا نام دیتا ہے۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مل کر پانی بن جانا بلکہ اپنے ارتقاء کے ہر قدم پر مادہ کا ایک نئی بہتر، برتر اور مقصد کائنات سے قریب تر حالت کا اختیار کر لینا خدا کے قول کن سے ممکن ہوا تھا۔ لہٰذا طبیعیات کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ مادہ کے اندر خدا کے تخلیقی عمل کا علم ہے۔