خودی اور فرائڈ ازم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فرائڈ ازم
مثلاً فرائڈ (Freud) کا خیال ہے کہ اعمال انسانی کی اصل قوت محرکہ جبلت جنس (Sex Instinct) ہے جس کا مرکز انسان کا لاشعور ہے جو کچھ انسان کرتا ہے اس کا مقصد بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنی لا محدود جنسی خواہشات کی مکمل تشفی کا سامان بہم پہنچائے۔ باقی رہا یہ سوال کہ فطرت انسانی میں نصب العین کی محبت کا مقام کیا ہے اور کیوں جبلت جنس کی بجائے نصب العین ہی انسان کے سارے اعمال پر حکمران نظر آتا ہے۔ تو فرائڈ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ صرف جبلت جنس کی بدلی ہوئی شکل ہے اور وہ اس طرح کہ جب ایک انسان سماج کی عائد کی ہوئی پابندیوں کے خوف سے اپنی جنسی خواہشات کو آزادی سے مطمئن کر سکتا تو وہ ذہنی پریشانی اور بے عزتی دونوں سے بچنے کے لئے یہ فرض کر لیتا کہ وہ جنسی خواہشات کی آسودگی کی بجائے کسی علمی، اخلاقی، مذہبی یا جمالیاتی نصب العین کو چاہتا ہے اس طرح اس کی جنسی خواہشات بدل کر نصب العین کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔
چونکہ فرائڈ فطرت انسانی میں انسان کے نصب العین کے صحیح مقام کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کے نظریہ میں علمی اور عقلی نقطہ نظر سے کئی خامیاں اور کمزوریاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس پر کئی معقول اعتراضات وارد ہوتے ہیں مثلاً
1۔اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ جبلت جنس کی ایک بدلی ہوئی صورت ہے۔ کسی دلیل کی عدم موجودگی میں یہ کیوں نہ سمجھا جائے کہ نصب العین کی خواہش انسان کی اصلی اور حقیقی خواہش ہے اور جنسی خواہش کی ایک بدلی ہوئی صورت نہیں۔ تعجب ہے کہ فرائڈ اس دعویٰ کو ثابت کرنے کی مشکلات کا سامنا نہیں کرتا۔ تاہم وہ اپنے نظریہ کی بنیاد ہی اس پر رکھتا ہے۔
2۔یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ وہ ناپاک اور شرمناک جنسی خواہشات جن کو انسان سماج کے خوف سے مطمئن نہیں کر سکتا جن کے خیال کو بھی ایک جرم سمجھ کر چھپاتا ہے وہ خواہشات کس طرح ایک پاکیزہ مذہبی یا اخلاقی نصب العین میں بدل سکتی ہیں۔
3۔اگر نصب العینی خواہشات ناپاک جنسی خواہشات کی بدلی ہوئی شکل ہیں تو وہ بدلنے کے عمل میں ناپاک سے پاک کیوں ہو جاتی ہیں اور کسی دوسری قسم کی ناپاک خواہشات میں کیوں نہیں بدلتیں۔ اور پھر وہ نصب العینی خواہشات سے پیدا ہونے کے باوجود ان کی مخالفت کیوں کرتی ہیں اور یہ مخالفت اس حد تک کیوں چلی جاتی ہے کہ انسان نصب العین کی خاطر بعض وقت اپنی جائز جنسی خواہشات کو بھی مطمئن کرنے سے گریز کرتا ہے۔ مثلاً جب ایک انسان کسی بلند نصب العینی مقصد کے لئے شادی کرنے سے انکار کر دے۔
4 ۔اگر جبلت جنس بدل کر نصب العین بن جاتی ہے تو جبلت تغذیہ، جبلت استیلائ، جبلت انقیاد، جبلت غضب، جبلت فرار اور جبلت امومت میں سے ہرایک کیوں نہیں بدلتی۔ اور پھر جب جبلت جنس انسان اور حیوان دونوں میں موجود ہے تو وہ انسان میں کیوں بدلتی ہے حیوان میں کیوں نہیں بدلتی۔
5۔جبلت جنس فقط جوانی میں نمودار ہوتی ہے تو پھر اگر انسانی اعمال کی قوت محرکہ وہی ہے تو وہ اعمال جو جبلت جنس کے نمودار ہونے سے پہلے صادر ہوتے ہیں۔ وہ اس جبلت کی پیداوار کیوں کر ہو سکتے ہیں۔ اس سوال کا جواب میں فرائڈ یہ کہتا ہے کہ یہ جبلت آغاز حیات ہی سے موجود ہوتی ہے۔ چنانچہ بچہ کا انگوٹھا چوسنا، ماں کی چھاتیوں سے دودھ چوسنا یا خوراک کا نگلنا یا فضلات اور رطوبات کا خارج کرنا یا لڑکے کا ماں سے اور لڑکی کا باپ سے بلکہ اس کے فرض کئے ہوئے مقلوب جنسی الجھاؤ کی صورت میں لڑکے کا باپ سے اور لڑکی کا ماں سے محبت کرنا سب جنسی قسم کے مشاغل ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ فرائڈ کا یہ جواب جو جبلت جنس کو مضحکہ خیز حد تک وسعت دیتا ہے، معقول نہیں۔
6۔قدرت نے انسان کی فطری خواہشات کے ساتھ ایک قسم کی راحت اور مسرت وابستہ کر رکھی ہے۔ اگر انسان کی نصب العینی مذہبی اور اخلاقی خواہشات اس کی فطری خواہشات نہیں بلکہ اس کی بدلی ہوئی غیر فطری خواہشات ہیں تو ان کی تشفی سے اس کو راحت اور مسرت کیوں حاصل ہوتی ہے اور لوگ ان بگڑی ہوئی غیر فطری خواہشات کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ اگر لوگ ان کو پسند نہ کریں تو کوئی شخص ان کی پناہ لے کر سماج میں مقبول نہیں بن سکتا۔
ان اعتراضات کا کوئی معقول جواب ایسا ممکن نہیں جو فرائڈ کے نظریہ کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہو۔

فلسفہ خودی کی رو سے نصب العین کی محبت کا جذبہ جبلت جنس کی بگڑی ہوئی یا بدلی ہوئی صورت نہیں بلکہ انسان کی فطرت کا ایک مستقل تقاضا ہے جو انسان کی تمام جبلتوں کو اپنے تصرف میں رکھتا ہے اور یہ جذبہ محبت صرف خدا کے نصب العین کی محبت سے مستقل اور مکمل طور پر تشفی پا سکتا ہے۔