خودی اور طبیعیاتی علوم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور طبیعیاتی علوم
مثلاً پہلے طبیعیاتی علوم کی درسی کتابوں کو لیجئے۔ ان علوم میں فزکس(Physics) کیمسٹری(Chemistry) اور فلکیات(Astronomy) وغیرہ شامل ہیں۔ ان علوم کی درسی کتابوں میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ ان کا مواد مغرب کے حکمائے طبیعیات کے اس غلط اور بے بنیاد عقیدہ پر مبنی ہے کہ صداقت صرف وہی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکتے ہیں۔ جو چیز ہم اپنے حواس خمسہ سے دریافت نہیں کر سکتے وہ یا تو موجود ہی نہیں یا اگر موجود ہے تو معدوم کے حکم میں ہے۔ یہ عقیدہ طبیعیاتی علوم کا ہی نہیں بلکہ مغرب کے تمام حیاتیاتی اور انسانی علوم کا اور لاجیکل پازیٹوزم اور بی ہیویرزم ایسے کئی جدید مغربی فلسفیوں اور نفسیاتی نظریوں کا بھی نقطہ آغاز ہے اگر یہ عقیدہ غلط ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مغربی علوم کی خشت اول ہی غلط ہے اور ان کی دیوار اگر ثریا تک بھی چلی جائے تو غلط ہی رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس عقیدہ میں عملی طور پر خدا کا انکار مضمر ہے اور اگر اسے ذرا اور وسعت دی جائے تو اس کی بنا پر انسانی خودی اور اس کی پسندیدہ اقدار کا بھی انکار کیا جا سکتا ہے اور ایسا کیا جا رہا ہے۔حالانکہ اپنی خودی سے زیادہ یقنی علم ہمیں ان چیزوں کا بھی نہیں ہو سکتا جن کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں۔ مشاہدات میں غلطی کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے لیکن مجھے اس میں ذرا شک نہیں ہو سکتا کہ میں ہوں۔ اگرچہ میں حواس خمسہ سے اپنے آپ کا مشاہدہ نہیں کر سکتا۔ مغربی حکماء کے اس عقیدہ کے غلط ہونے کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ یہ اپنی تردید خود کرتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ عقیدہ فی الواقع صحیح ہے اور صداقت پر مبنی ہے تو ہم اسے ایک صداقت قرار نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عقیدہ کو کسی شخص نے اپنے حواس خمسہ کی مدد سے بطور ایک صداقت کے دریافت نہیں کیا بلکہ یہ عقیدہ ایک مفروضہ یا تحکم یا ادعا ہے اور حواس خمسہ سے دریافت کی ہوئی کوئی صداقت نہیں۔ لہٰذا یہ عقیدہ اپنی تردید خود کرتا ہے۔ مغرب کے حکمائے طبیعیات اس عقیدہ سے اس اصول کو بھی ایک نتیجہ کے طور پر اخذ کرتے ہیں کہ مشاہداتی یا سائنسی علم کو کسی ایسے عقیدہ سے آغاز نہیں کرنا چاہئے۔ جو سائنسی طریقوں سے اور براہ راست حواس خمسہ کے مشاہدہ سے ثابت نہ ہو۔ لیکن ان کا یہ اصول خود ایک عقیدہ ہے جو کسی اور عقیدہ سے ماخوذ ہے اور سائنس کے طریقوں سے ثابت شدہ نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا یہ اصول پہلے موجود ہوتا ہے اور سائنسی تحقیق بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا ان کی سائنسی تحقیق اس اصول کو ثابت نہیں کرتی بلکہ یہ اصول ان کی سائنسی تحقیق کو جنم دیتا ہے۔ اس طرح جب مغربی ماہر طبیعیات اپنی سائنس کو اس عقیدہ سے شروع کرتا ہے کہ سائنسی تحقیق کو کسی عقیدہ سے شروع نہیں ہونا چاہئے تو وہ اپنی تردید خود کرتا ہے اور اس بات کا ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ جس عقیدہ سے وہ در حقیقت اپنی سائنسی تحقیق کو شروع کرتا ہے وہ غلط ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ادعا کے خلاف اپنی سائنس کو ایک عقیدہ سے شروع نہیں ہونا چاہئے۔ اس بات پر مجبور کیوں ہے کہ اپنی سائنس کا آغاز ایک عقیدہ سے کرے۔ اس سوال کا جواب ہمیں خودی کی فطرت سے ملتا ہے۔ انسانی خودی فقط خدا کی محبت یا خدا کی محبت کی کسی ممد و معاون محبت کا ایک جذبہ ہے اور محبت کسی مقصود یا مطلوب کے عمدہ یا حسین ہونے کے عقیدہ کا ہی دوسرا نام ہے چونکہ ناممکن ہے کہ انسان کا کوئی فعل ایسا ہو جو اس جذبہ سے سرزد نہ ہو لہٰذا ناممکن ہے کہ اس کا کوئی فعل ایسا ہو جو کسی عقیدہ پر مبنی نہ ہو۔ مثلاً ہر فعل سے پہلے اس کا فاعل یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اس کا یہ فعل فلاں عمدہ اور حسین مقصد کو حاصل کرے گا اور اس کو انجام دینے کا فلاں طریقہ عمدہ اور حسین ہے اور یہ عقیدہ اگرچہ معمولی سا نظر آتا ہے لیکن آخر کار کسی تصور حقیقت یا کسی نصب العین کی محبت سے ماخوذ ہوتا ہے۔ سائنسی تحقیق بھی چونکہ ایک انسانی فعل ہے وہ اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں لہٰذا ممکن نہیں کہ سائنس کسی عقیدہ سے آغاز نہ کرے۔
غیر حسی صداقتوں کو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں
مغربی سائنس دانوں کا یہ عقیدہ کی علمی صداقت وہی ہے جسے ہم اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکتے ہیں نہ تو سائنس کے طریقوں سے ثابت شدہ ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اور علمی یا عقلی بنیاد ہے۔ اس کو اختراع کرنے کی ضرورت فقط اس لئے پیش آئی تھی کہ اس کے ذریعہ سے خدا کے تصور کو سائنس سے خارج کر کے سائنس کو ایک ناپاک، مذہب سے غیر متعلق اور دنیاوی قسم کی کدو کاوش کے طور پر پیش کیا جائے اور اس طرح سے سائنس اور سائنس دانوں کو کلیسا کے مظالم سے بچایا جائے۔ کون نہیں جانتا کہ کلیسا کی سائنس دشمنی یورپ کی تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر مغرب کے سائنس دان خدا کے سوائے اور کسی غیر حسی صداقت کو جو مشاہدہ میں نہ آنے کے باوجود اپنے اثرات اور نتائج کے ذریعہ سے ثابت ہو رہی ہو رد نہیں کرتے اور اپنے اس عقیدہ کو صرف خدا ہی کے تصور کے خلاف بروئے کار لاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ صداقت وہی نہیں جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ کے مشاہدہ سے معلوم کریں بلکہ وہ بھی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ کے مشاہدہ سے تو معلوم نہ کر سکیں لیکن اس کے اثرات اور نتائج کو براہ راست اپنے حواص خمسہ کے مشاہدہ سے معلوم کر سکیں۔ اس کی مثال ایٹم کی ہے جس کے آج تک کے سارے علم کا دار و مدار اس کے براہ راست مشاہدہ پر نہیں بلکہ اس کے آثار و نتائج کے مشاہدہ پر ہے۔ خدا کا وجود بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے کیونکہ ہم خدا کا علم اس کے براہ راست مشاہدہ سے حاصل نہیں کرتے بلکہ مظاہر قدرت کی صورت میں اس کے وجود کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے حاصل کرتے ہیں۔ اگر مغرب کے سائنس دان ایٹم کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے ایٹم کو ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہیں تو مظاہر قدرت میں خدا کے وجود کے آثار و نتائج کے مشاہدہ سے خدا کو ایک سائنسی حقیقت کیوں نہیں سمجھتے۔ اس کی وجہ خدا کے تصور سے وہی ڈر ہے جو کلیسا کی سائنس دشمنی سے پیدا ہوا تھا اور آج تک چلا آتا ہے۔ اسی ڈر کی وجہ سے وہ اب بھی اس آشکار حقیقت کا اعتراف کرنے سے گھبراتے ہیں کہ مظاہر قدرت میں خدا کی ہستی اور صفات کا جلوہ نظر آتا ہے۔


قدرت میں وجود باری تعالیٰ کے آثار و نتائج
یہ بات قابل غو رہے کہ جس چیز نے طبیعیات کے علم کو ممکن بنایا ہے وہ یہ ہے کہ طبیعیاتی مظاہر قدرت میں ایک نظم یا آرڈر ( Order) موجود ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قدرت میں نظم کی موجودگی کی دارائے علم و حکمت اور صاحب اختیار و قدرت ذہن کی تخلیقی کارروائی کا پتہ دیتی ہے۔ اگر آپ کسی ایسے جنگل میں چلے جا رہے ہوں جس کے متعلق یہ مشہور ہو کہ اس میں آج تک کسی انسان نے قدم نہیں رکھا اور آپ اچانک کسی جھونپڑی کے پاس آ نکلیں جس کے صحن میں سبزہ اور پھولوں کی کیاریاں بھی ہوں تو آپ فوراً کہیں گے کہ یہ کسی ذہن یا شخصیت کا کام ہے اور یہ بات صحیح نہیں کہ اس جنگل میں کبھی کوئی انسان نہیں آیا۔ کائنات کے جنگل میں قدم قدم پر ایسی بے شمار جھونپڑیاں نظر آتی ہیں بلکہ یہ پورا جنگل ہی کسی تجویز یا پلان کے مطابق تعمیر پایا ہوا نظر آتا ہے۔ مادی مظاہر قدرت کے اندر جو نظم پایا جاتا ہے وہ اس قدر جچا تلا ہے کہ ہم اسے ریاضیاتی قوانین کی صورت میں بیان کر سکتے ہیں اور یہ ریاضیاتی قوانین کائنات میں اس وقت بھی اپنا کام کر رہے تھے جب ہنوز دنیا میں کوئی ریاضیات جاننے والا انسان بلکہ کوئی انسان اور کوئی متنفس بھی موجود نہ تھا۔ان ریاضیاتی قوانین کو کس ذہن نے نہ سوچا تھا؟ ظاہر ہے کہ طبیعیات کا محقق اپنے مشاہدہ اور مطالعہ قدرت سے نظم کی جستجو کر کے اور اسے دریافت کر کے بار بار یہ سوال پیدا کرتا رہتا ہے کہ یہ کس کا ذہن ہے اور یہ کون سی شخصیت ہے جس کی تخلیقی کارروائی اور مقصدیت مادی کائنات کے ذرہ ذرہ میں آشکار ہے۔ یہ سوال چونکہ طبیعیات کی کتاب پیدا کرتی ہے اور اس کا جواب بھی اسی کتاب کو دینا چاہئے، کسی اور کتاب کو نہیں۔ سوال کا جواب سوال کے موقعہ پر ہی ملنا چاہئے۔ اس سوال کا عقلی اور علمی جواب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جو تخلیق کی قدرت اور علم اور حکمت اور حسن اور کمال کی محبت کے اوصاف رکھتا ہے اور چونکہ اس کا پیدا کیا ہوا نظم ہر جگہ اور ہر وقت ایک ہی رہتا ہے وہ خالق کائنات ایک ہی ہے۔ جدید طبیعیات کی تخلیق کے مطابق مادہ فنا ہو جاتا ہے اور اگر کائنات کو برقرار رکھتے ہوئے مادہ کو رفتہ رفتہ کائنات سے نکال دی اجائے تو کائنات کے اندر فقط ریاضیاتی نسبتوں اور فارمولوں کا ایک جال باقی رہ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی بنیادی اور آخری حقیقت وہی ذہن ہے جس نے اس حیرت انگیز لازوال اور اٹل ریاضیاتی نظم کو سوچا ہے اور چونکہ آج تک کوئی ریاضیاتی انداز میں سوچنے والا ذہن شخصیت کی دوسری صفات مثلاً جذباتی اور جمالیاتی اوصاف سے الگ دیکھا نہیں گیا لہٰذا وہ ایک مکمل شخصیت ہے اور وہی شخصیت اس کائنات کی خالق ہے۔
بہ بزم ما تجلی ہاست بنگر
جہاں نا پیدداد پیداست بنگر
تاہم مغرب کا ماہر طبیعیات اپنی طبیعیات کی کتاب میں نہ تو اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اسے ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے خدا پھر سائنس کے اندر آ جائے گا اور دین اور دنیا اور کلیسا اور سائنس کے درمیان پھر کوئی حد فاصل باقی نہ رہے اور اس کے نتائج پھر وہی ہوں گے جن کا تجربہ ایک بار کیا جا چکا ہے۔
علم طبیعیات کی تعریف

مغرب کے حکماء اپنے اس غلط عقیدہ کی وجہ سے کہ صداقت وہی ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں طبیعیات کی تعریف اس طرح سے کرتے ہیں۔ ’’ طبیعیات علم کا مادہ ہے‘‘ لیکن یہ تعریف تصور خودی کے مضمرات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ اس لئے کہ اس کے اندر یہ خیال مضمر ہے کہ مادہ کوئی ایسی چیز ہے جو خود بخود موجود ہے اور جس کا علم ہمیں اس کو جاننے کی خاطر حاصل کرنا چاہئے۔ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔ یہ تعریف دہریت کے امکان کو مسترد نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے۔ لیکن فلسفہ خودی کے مطابق مادہ قطعی طور پر خدا کی خالقیت اور ربوبیت کی وجہ سے موجود ہے۔ وہ اپنا کوئی بالذات وجود نہیں رکھتا بلکہ خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک نشان ہے۔ لہٰذا اس کا جو علم ہو گا وہ پہلے اس کے خالق اور رب کا علم ہو گا اور بنیادی طور پر ہمیں اس کا علم حاصل کرنے کی ضرورت اس لئے ہو گی کہ ہم اس کے خالق کی خالقیت اور ربوبیت کو جانیں اور پہچانیں۔ لہٰذا فلسفہ خودی کے مطابق طبیعیات کی صحیح تعرف یہ ہو گی ’’ طبیعیات مادہ کے اندر خدا کی تخلیقی فعلیت کا علم ہے‘‘ اور مغرب کے حکمائے طبیعیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مادہ جیسا کہ ہم اب اسے دیکھتے ہیں یکایک وجود میں نہیں آیا بلکہ تدریجی ارتقاء کی بہت سی منزلوں کو طے کر کے اپنی موجودہ حالت کو پہنچا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ مادہ کو کسی حالت میں بھی یہ صلاحیت نہ ہو سکتی تھی کہ وہ خود بخود بدل کر اگلی حالت کی صورت اختیار کر لے۔ ایک بے جان شے جس حالت میں ہو اس کو اسی حالت میں رہنا چاہئے جب تک کہ کوئی اور قوت اس پر عمل نہ کرے مثلاً آکسیجن اور ہائیڈروجن میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی جس سے وہ مل کر پانی بنا دیں اور اپنی کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی ماہر طبیعیات ان دونوں گیسوں کی خاصیات کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ نہ کر سکتا تھا کہ ان کا ایک خاص نسبت سے کیمیاوی ترکیب پانا ممکن ہے اور ان کی ترکیب کا نتیجہ پانی ایسے ایک سیال کی صورت میں رونما ہو گا۔ پھر وہ کون سی قوت تھی جو مادہ کو بار بار ایک حالت سے بدل کر اگلی بہتر اور بلند تر حالت میں لاتی رہی۔ یہاں تک کہ اس کو وہ تکمیل حاصل ہو گئی جو زندگی کے ظہور کی ایک ضروری شرط تھی۔ وہ کون سی قوت تھی جس نے اسے مختلف ارتقائی حالتوں سے گزار کر حالت کمال تک پہنچایا۔ فلسفہ خودی کا جواب یہ ہے کہ وہ خدا کے ارادہ تخلیق یا قول کن کیق وت یعنی خود خدا ہی کی قوت تھی۔ اسی قوت کو اقبال زندگی یا خودی کا نام دیتا ہے۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مل کر پانی بن جانا بلکہ اپنے ارتقاء کے ہر قدم پر مادہ کا ایک نئی بہتر، برتر اور مقصد کائنات سے قریب تر حالت کا اختیار کر لینا خدا کے قول کن سے ممکن ہوا تھا۔ لہٰذا طبیعیات کی صحیح تعریف یہی ہے کہ وہ مادہ کے اندر خدا کے تخلیقی عمل کا علم ہے۔