خودی اور حیاتیاتی علوم
حیاتیاتی علوم میں زو آلوجی (Zoology) اور باٹنی (Batany) وغیرہ شامل ہیں۔ جب حیاتیاتی علوم فلسفہ خودی کی روشنی کے بغیر مدون کئے جائیں تو وہ بھی طبیعیاتی علوم کی طرح غلط بنیادوں پر قائم ہو جاتے ہیں اور طبیعیاتی علوم سے زیادہ غلط رخ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ مغرب میں یہی ہوا ہے۔ مغرب کے حیاتیاتی علوم کے حقائق فلسفہ خودی کی روشنی سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی حکمائے حیاتیات کے اس بے بنیاد اور غلط عقیدہ کے بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں کہ حقیقت وہی ہے جسے ہم براہ راست اپنے حواس خمسہ سے دریافت کر سکیں۔ جو چیز حیاتیاتی مظاہر قدرت کو ممکن بناتی ہے وہ زندہ اجسام کے اندر نظم، تجویز اور مقصد کی موجودگی ہے ۔ تجویز اور مقصد کی موجودگی نظم سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ کسی ذہن یا شخصیت کے تخلیقی عمل پر دلالت کرتی ہے۔ ایک زندہ جسم حیوانی تنظیم اور مقصدیت کا ایک حیرت انگیز شاہکار ہے۔ اور یہ تنظیم اور مقصدیت اس کے ہر خلیہ(Cell) کے اندر موجود ہوتی ہے۔ صرف آنکھ یا کان کے نہایت ہی پیچیدہ میکانیہ کی تخلیق میں علم، حکمت اور قدرت کے جو کمالات بروئے کار آئے ہیں ان پر ایک بڑی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ایک زندہ جسم حیوانی کے اندرونی حیاتیاتی وظائف جو حیوان کی توجہ یا کوشش کے بغیر خود بخود اپنا کام کرتے ہیں مثلاً عمل انہضام اور اس کی حیاتیاتی کیمیا، حیاتین اور وفاقین کی صنعت، دوران خون، تنفس ایک خاص طے شدہ جسمانی شکل کی جانب حیوان کی خود کارانہ نشوونما تناسل، حیوان کے اعضائے رئیسہ، دل، جگر، پھپھڑوں اور گردوں کا خود کارانہ عمل، زخوں کا خود بخود بھرنا اور بیماریوں کے خلاف صحت بحال کرنے والے رد عمل کا خود بخود ظہور پذیر ہونا، سب مل کر حیوان کی زندگی اور نسل کو قائم رکھتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اپنے ظاہری اختلاف کے باوجود یہ وظائف آپس میں اور حیوان کے بیرونی جبلتی اعمال و افعال کے ساتھ ایک خاص مقصد کے لئے مکمل اتفاق و اتحاد رکھتے ہیں اور وہ مقصد حیوان کی زندگی اور نوع کا قیام ہے۔ حیوان کے علم اور احساس کے بغیر اس قدر مکمل یک جہتی، یک سوئی اور موافقت کے ساتھ ان وظائف کے بامقصد عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ حیوان کی پیدائش اور نشوونما ایک ایسے ذہن کے حکیمانہ اور قادرانہ تصرف میں ہے جو حیوان کا اپنا ذہن نہیں اور اس بات میں ذرا شک باقی نہیں رہتا کہ یہ ذہن ایسا قادر مطلق ہے کہ اس کو صرف یہ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کان کا پردہ یا آنکھ کا شیشہ یا دل کا عضو اس طرح سے بن جائے اور وہ بن جاتا ہے۔ جب وہ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے حکم کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔
انما امرہ اذا اراد شیا ان یقول لہ کن فیکون
ماحول سے جسم حیوانی کا توافق
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانات کے اجسام خود بخود اپنے ماحول کے ساتھ ایک حیرت انگیز موافقت پیدا کر لیتے ہیں۔ ایک مچھلی جس نے پانی میں تیرنا ہوتا ہے پانی کا سانس لینے کے لئے گلچھڑے رکھتی ہے اور اس کا جسم اس طرح بنا ہوتا ہے کہ تیرتے وقت پانی کی مزاحمت کم سے کم ہو۔ اس کے دونوں پہلوؤں پر چپو لگے ہوتے ہیں اور سرے پر تیرتے وقت آگے دھکیلنے والا ایک پر لگا ہوتا ہے۔ ایک پرندہ جس نے ہوا میں اڑنا ہوتا ہے ایک پیچیدہ تجویز کے مطابق تیار کیا ہوا پروں کا ایک نظام رکھتا ہے جو اسے اڑنے میں سہولت بہم پہنچاتا ہے۔ اس کے جسم کے اندر ہوا سے بھری ہوئی جھلی کی تھیلیاں ہوتی ہیں اور اس کی ہڈیاں اندر سے کھوکھلی اور گرم گیس سے بھری ہوئی ہوتی ہیں تاکہ وہ ہلکارہے اور آسانی سے پرواز کر سکے دراصل ماحول کے ساتھ اعضاء کا توافق پیدا کرنا تمام زندہ اجسام کی ایک خصوصیت ہے جو ان کی جسمانی ساخت اور جبلتی فعلیت کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں بھی آشکار نظر آتی ہے اور اس کی مثالیں ان گنت ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ حیاتیات کی درسی کتابوں کا مضمون بھی یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ وہ ذہن جس کا پیدا کیا ہوا نظم اور مقصد حیوان کے جسم کے کونے کونے میں کام کرتا ہوا نظر آتا ہے کس کا ہے۔ اور اس سوال کا علمی اور عقلی جواب بھی سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ کسی قادر مطلق خالق کائنات کا۔ لیکن ماہر طبیعیات کی طرح حیاتیات کی درسی کتاب لکھنے والا مغربی ماہر حیاتیات بھی اس سوال کے جواب میں خاموش رہتا ہے۔ وہ یا تو حیاتیاتی مظاہر قدرت میں نظم اور مقصد کی موجودگی کو بالکل تسلیم ہی نہیں کرتا یا کرتا ہے تو اس کی غلط توجیہہ اس طرح سے کرتا ہے کہ خدا کا تصور اس کی کتاب میں گھسنے نہ پائے اور اس کی وجہ پھر یہی ہے کہ مغرب کی سائنس جس عقیدہ سے آغاز کرتی ہے اس کی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی اور کسی ایسے سوال کو درخور اعتنا نہیں سمجھ سکتی جس کا جواب خدا ہو۔ اس فرضی مجبوری کا ایک افسوسناک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حیاتیاتی ارتقا کے عمل کو جو در حقیقت خدا کی ربوبیت کا دوسرا نام ہے۔ قدرت کی اندھا دھند بے مقصد میکانیکی قوتوں کے کھیل کا اتفاقی نتیجہ سمجھ لیا گیا ہے اور پھر ارتقاء کے اس میکانیکی مادی اور بے خدا نظریہ سے انسان اورکائنات کے بہت سے غلط مادی فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ایک مارکسزم ہے جس نے کروڑ ہا بندگان خدا کو ارتقاء کی شاہراہ سے ہٹا رکھا ہے اور غلط راستہ پر ڈالا ہوا ہے جہاں سے انہیں ٹھوکریں کھا کر اور بڑی بڑی مصیبتیں اٹھا کر واپس آنا پڑے گا۔
علم حیاتیات کی تعریف
مغربی سائنس دانوں نے حیاتیات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’ حیاتیات زندگی (یعنی زندہ اجسام )‘‘ کی سائنس ہے۔ لیکن طبیعیات کی تعریف کی طرح ان کی یہ تعریف بھی غلط ہے کیونکہ اس میں بھی اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ زندگی خود بخود موجود نہیں بلکہ خدا نے پیدا کی ہے اور خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا حیاتیات کی صحیح تعریف اس طرح سے ہو گی ’’ حیاتیات خدا کے اس تخلیقی اور تربیتی عمل کی سائنس ہے جو جاندار اجسام میں ظہور پذیر ہوا ہے۔‘‘ ضروری ہے کہ حیاتیات کی اس ناگزیر تعریف کو اختیار کرنے کے بعد حیاتیات کا علم خود بخود اس طرح بدلے اور نشوونما پائے کہ حیاتیاتی مظاہر قدرت میں تجویز اور مقصد کا انکار جو مثلاً جولین بکسے اور اس کی طرح سوچنے والے اور ماہرین حیاتیات کا شیوہ ہے اور حقیقت ارتقاء کی غلط میکانکی توجیہ جس کی بنیاد ڈارون نے رکھی ہے دونوں ممکن نہ رہیں۔