خودی اور نفسیاتی علوم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور نفسیاتی علوم
اوپر بارہ گھوڑوں کی ایک گاڑی کی مثال سے اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ اگرچہ انسان کے اندر کئی متضاد قسم کی جبلتی خواہشات موجود ہیں۔ تاہم انسانی شخصیت اور اس سرزد ہونے والی انسانی مشاغل میں وحدت اور تنظیم اور یکسوئی کے اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن حیوان کے شعور اور اعمال میں یہ اوصاف موجود نہیں۔ حالانکہ حیوان اور انسان کی جبلتیں مشترک ہیں۔ انسان کا یہ امتیاز اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسی خواہش ہے جو اس کی تمام خواہشات کو اپنے تصرف میں رکھتی ہے اور لہٰذا بالآخر اس کے تمام اعمال و افعال کی قوت محرکہ ہے۔ مغرب میں فطرت انسانی پر غور و فکر کرنے والے تمام حکماء اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس خواہش کو معلوم کرنا نہایت ہی اہم ہے یہاں تک کہ انسان کے معمہ کو حل کر لینے کے مترادف ہے اس بات کی کوشش کی بھی ہے کہ اس کو دریافت کیا جائے۔ لیکن چونکہ ان حکماء میں سے کوئی بھی اس خواہش کا کوئی ایسا نظریہ پیش نہیں کر سکا جو انسان کی فطرت کے تمام حقائق سے مطابقت رکھتا ہو اور پوری طرح معقول اور تسلی بخش ہو۔ لہٰذا دنیا کے علمی حلقوں میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ انسان کی اس اہم خواہش کی حقیقت ابھی تک پردہ راز میں ہے اور اس کا مطلوب ایک ایسا عقدہ ہے جو کھل نہیں سکا۔
تمام انسانی افراد کی فطرت ایک جیسی ہے اور ہر فرد انسانی کے اندر اس کے اعمال کی قوت محرکہ بھی ایک ہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اعمال کا حقیقی مقصود اور مدعا بھی ایک ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ نوع انسانی مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہر قوم کی راہ عمل اور منزل مقصود دوسری قوموں سے الگ ہے جس کی وجہ سے کرہ ارض قوموں کی سیاسی رقابتوں اور مسابقتوں کا اکھاڑہ اور ان کی سرد اور گرم جنگوں کا میدان بنا ہوا ہے۔ قوموں کے اختلافات کی وجہ سے عالم انسانی آج تک دو عالمگیر جنگوں کا سامنا کر چکی ہے اور تیسری عالمگیر جنگ کی تباہیوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہو رہی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ افراد میں بھی بعض کا عمل ایک طرح کا ہوتا ہے اور بعض کا دوسری طرح کا بعض لوگ نیکی اور شرافت کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اس پر کاربند رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بعض لوگ عیاشی اور جرم پسندی کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی ممالک میں بڑھی ہوئی جنسی آزادی کے رحجانات، طلبہ کی بے راہروی اور بغاوت اور توڑ پھوڑ کے میلانات جو اب مشرقی ممالک میں بھی اپنا اثر اور نفوذ پیدا کر رہے ہیں اس کی مثالیں ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے بعض قوموں کا رحجان عیاشی اور بے راہروی کی زندگی کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ وہ من حیث القوم چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کیونکہ ان کو یقین ہے کہ یہ راستہ صحیح نہیں اور اس کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں کہ اس پر اور چلنے کے لئے مجبور ہیں اور ان کو اپنے آپ پر اختیار باقی نہیں رہا۔ اس قسم کی زندگی افراد کو بھی سکون نہیں بخشتی بلکہ جوں جوں وہ اس زندگی میں غرق ہوتے جاتے ہیں ان کا سکون اور کم ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آ جاتا ہے جب وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آگے زندگی کی راہیں مسدود ہیں پھر یا تو وہ خود کشی کر لیتے ہیں یا دماغی امراض میں مبتلا ہو کر دماغی ہسپتالوں کو آباد کرتے ہیں۔


نوع انسانی کے اختلافات کا سبب
ان مشاہداتی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ تمام انسانی افرادکی وہ خواہش جو ان کے اعمال کو حرکت میں لاتی ہے ایک ہی ہے اور اس کا قدرتی اور اصلی مقصود بھی ایک ہی ہے۔ تاہم افراد اپنی عقل اور اپنے علم کے مطابق اس کے مقصود کو مختلف طرح سے سمجھتے ہیں اور اس کی مختلف توجیہات کرتے ہیں اور اس کی وجہ ان کی لاعلمی ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ یہ خواہش دراصل کیا ہے کیسی ہے اور کس چیز کے لئے ہے۔ ان حقائق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان اس طرح سے بنا ہے کہ جب وہ اپنی اس مرکزی اور حکمران خواہش کے قدرتی مقصود کو نہ جانتا ہو تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نکما ہو کر بیٹھ نہیں رہتا بلکہ کسی قائم مقام مقصود کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لئے سر گرم عمل ہو جاتا ہے اور انسان کی ساری مصیبتوں کا باعث اس کی فطرت کا یہی پہلو ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ جب تک وہ اپنی عملی زندگی کے قدرتی اور اصلی مقصود کے متعلق پوری طرح سے مطمئن نہ ہو لیتا اس وقت تک اپنے عمل کو روک سکتا تو پھر نہ وہ غلط راستوں پر چلتا اور نہ ان کے چلنے کے لئے شدید نقصانات کو مول لیتا بلکہ خاموشی کے ساتھ علم کی روشنی اور انشراح صدر کا منتظر رہتا اور جب ان کا وقت آتا تو سلامتی کے صحیح راستہ پر چل نکلتا، لیکن افسوس کہ انسان کی فطرت اس قسم کی ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔ یہی سبب ہے کہ قرآن حکیم نے عمل تاریخ (العصر) کے حقائق کو شہادت میں پیش کر کے فرمایا کہ نوع انسانی بڑے گھاٹے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو اپنی عملی زندگی کے اصل مقصود پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنے اعمال کی تشکیل کرتے ہیں اور دوسرے انسانوں کو ان کی زندگی کے اس سچے مقصود (حق) کی طرف بلاتے ہیں اور اس کے راستے پر صبر سے قائم رہنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ اس راستہ سے بھٹک کر اپنے لئے مصیبتیں پیدا نہ کریں
والعصر ان الانسان لفی خسر الا الذین امنو و عملو الصلحت و تواصو بالحق و تواصو بالصبر
انسانی فطرت کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فرشتوں نے انسان کو خلافت الٰہی کے عظم الشان منصب کے لئے نا موزوں سمجھا تھا کیونکہ اسی کی وجہ سے انسانوں میں وہ عملی اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو فساد اور خونریزی پر آمادہ کرتے ہیں۔
(اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدمائ)
تاہم خدا کو معلوم تھاکہ نوع انسانی کے اختلافات کا دور عارضی ہو گا اور انسان کی فطرت کا ایک اور پہلو ایسا ہے جو آخر کار اس پہلو پر غالب آئے گا اور وہ پہلو یہ ہے کہ وہ علم کا پیاسا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ اس کا علم زود یا بدیر یہاں تک نہ پہنچے کہ وہ یہ جان لے کہ اس کی عملی زندگی کا قدرتی اور اصلی مقصود جس پر تمام نوع انسانی متفق ہو سکتی ہے کیا ہے۔
انسان کی فطرت کا یہ پہلو کہ وہ اپنے مقصود حیات کو نہ جاننے کے باوجود اپنے عمل کو روک نہیں سکتا جس طرح اس کے خلاف کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی شخص کے پاس ایک قیمتی اور عمدہ موٹر کار ہو جسے وہ حکماً اور قانوناً بیکار نہ رکھ سکتا ہو۔ لیکن استعمال کرنے اور چلانے پر مجبور ہونے کے باوجود اسے ٹھیک طرح سے چلانا نہ جانتا ہو اور بار بار گڑھوں میں گر کر یا چٹانوں اور درختوں سے ٹکرا کر شدید حادثات سے دو چار ہو جاتا ہو۔ دور حاضر کے انسان کا حال بھی ایسا ہی ہے اس کو بھی قدرت کی طرف سے انسانی خودی یا انسانی شخصیت کی صورت میں ایک متاع نفیس و بے بہا ارزاں ہوئی ہے جو گویا ایک نادر اور نایاب کل ہے جس کو اگر وہ ٹھیک طرح سے اور اس کے قواعد کے مطابق استعمال کرے تو وہ اس کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں انتہائی مسرت اور راحت کی منزل تک پہنچا سکتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اس کل کو ٹھیک طرح سے استعمال کرنا نہ جانتا ہو تو پھر بھی وہ اسے بیکار نہیں رکھ سکتا بلکہ اس سے ہر حالت میں کام لینے پر مجبور ہے اور اس پر دوسری مشکل یہ ہے کہ وہ فی الواقع اسے ٹھیک طرح استعمال کرنا نہیں جانتا اور اس کل کے اس مرکزی پرزہ سے آشنا نہیں جو اس کو صحیح طور پر صحیح راستہ پر حرکت میں لا سکتا ہے لہٰذا وہ اسے غلط طور پر استعمال کر کے بار بار طرح طرح کی مصیبتوں کے گڑھوں میں گر کر اور قسما قسم کے حادثات کی چٹانوں سے ٹکرا کر ہلاکت سے دوچار ہوتا رہتا ہے۔
فطرت انسانی کے متعلق مغربی حکماء کی خطرناک لاعلمی
مغرب کے حکماء فطرت انسانی کے متعلق اپنی لاعلمی کا پورا اعتراف کرتے ہیں اور اسے (بالخصوص طبیعیاتی علوم کی غیر معمولی ترقیوں کے پیش نظر) انسانیت اور تہذیب کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ ایک نامور ماہر نفسیات اپنی کتاب ’’ سائنس اور انسانی کردار‘‘ میں لکھتا ہے:
’’ سائنس نے ایک غیر متوازن طریق سے ترقی کی ہے۔ آسان مسائل کی طرف پہلے توجہ کرنے کی وجہ سے اس نے بے جان قدرت پر ہمارے تصرف میں اضافہ کیا ہے لیکن ہمیں ان سماجی مشکلات کے لئے تیار نہیں کیا جو اس سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔ قدرت کی سائنس کو آگے بڑھانے سے کچھ حاصل نہیں۔ جب تک کہ اس میں فطرت انسانی کی سائنس بھی بڑی مقدار میں شامل نہ ہو۔ کیونکہ اسی صورت میں سائسن کی ترقی کے نتائج عاقلانہ طور پر کام میں لائے جا سکیں گے۔‘‘
ایلپکس کارول جس نے نوبل کا انعام بھی لیا تھا اپنی کتاب ’’ انسان جو نامعلوم ہے‘‘ میں لکھتا ہے:ـ
’’ انسانیت کی تعمیر ایسے اداروں کی تشکیل چاہتی ہے جہاں بدن اور روح کی تربیت تعلیم کے مختلف فکری مکتبوں کے تعصبات کے مطابق نہیں بلکہ قوانین قدرت کے مطابق انجام پا سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری تہذیب نے زندگی کا ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جو زندگی کو نا ممکن بنا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس خرابی کا علاج صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ ہمیں فطرت انسانی کا گہرا علم اس سے بہت زیادہ حاصل ہو جو اب تک حاصل ہے۔‘‘
مغرب کے نفسیاتی علوم کی خطرناک بے ربطی
انسانی اعمال کی قوت متحرکہ کے متعلق دور حاضر کے انسان کی اس لاعلمی نے نہ صرف اس کے انفرادی اور جماعتی افعال کو غلط راستوں پر ڈال دیا ہے بلکہ اس کے ان افعال کے فلسفوں کو بھی جیسا کہ وہ ان کو مرتب کر سکا ہے، پراگندہ خیالات کے مجموعے بنا دیا ہے۔ انسانی افعال کے فلسفوں کو انسانی علوم ( Human Sciences) کا نام دیا جاتا ہے اور ان میں فلسفہ سیاست، فلسفہ اخلاق، فلسفہ تاریخ، فلسفہ قانون، فلسفہ تعلیم، فلسفہ اقتصادیات، فلسفہ علم، فلسفہ فن، نفسیات فرد اور نفسیات جماعت کو شمار کیا جاتا ہے۔ ان تمام علوم کو نفسیاتی علوم (Psychilogical Sciences) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ تمام علوم در حقیقت فطرت انسانی کے کسی نظریہ پر مبنی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے علم نفسیات یا فطرت انسانی کے علم کی شاخیں ہیں۔ انسان کی ہر فعلیت اس کی فطرت کے منبع سے نمودار ہوتی ہے۔ لہٰذا جب تک ہم انسان کی فطرت کو نہ سمجھیں ہم اس کی کسی فعلیت کی حقیقت کو اس کے مبداء اور ماخذ کو اس کے مقصد اور مدعا کو اس کی زشتی اور زیبائی کو اور اس کے سود و زیاں کو نہیں سمجھ سکتے اور فطرت انسانی کو جاننے کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اعمال کی فطری قوت محرکہ کو جانا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انسان کو کسی فعلیت کے متعلق کسی معقول مدلل اور منظم علمی نظریہ کی تدوین نہیں کر سکتے جب تک کہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ انسان کے اعمال کو وجود میں لانے والی انسان کی اصلی قدرتی خواہش کیا ہے اور کس طرح سے انسان جب اسے نہ جانتا ہو تو اس کی بعض غلط خواہشات سے اس خواہش کا روپ دھار کر اس کے اعمال کی حکمران بن جاتی ہیں اور بعد میں اس کے گوناگوں مصائب کا موجب بنتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے علم کے بغیر انسان کے کسی عمل کا علم مرتب کریں گے تو ہماری کوشش اس علم کی بنیاد کو نہ جاننے کی وجہ سے ناکام ہو جائے گی اور ہمارا علم محض جہالت کا ایک مظاہرہ بن کر رہ جائے گا۔ انسانی اعمال کے مغربی علوم چونکہ انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے علم کے بغیر لکھے گئے ہیں ان کی موجودہ حالت اسی قسم کی ہے۔ اس موضوع پر خود کچھ کہنے کی بجائے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ ماہر نفسیات میکڈوگل کی ایک کتاب سے بعض حوالے نقل کرتا ہوں۔ میکڈوگل لکھتا ہے:
’’ فطرت انسانی کے متعلق ہماری لا علمی اب تک تمام انسانی اور اجتماعی علوم کے ظہور کو روکتی رہی ہے اور اب بھی روک رہی ہے۔ یہ علوم ہمارے اس زمانہ کی ایک شدید ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر ہماری تہذیب زوال بلکہ شاید مکمل تباہی کے شدید خطرہ کا سامنا کر رہی ہے۔ ہم علم نفسیات کا، علم اقتصادیات کا، علم سیاسیات کا، علم قانون کا، علم معاشرت کا اور ان کے علاوہ اور ہمت سے فرضی علوم کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ لیکن سیدھی بات یہ ہے کہ یہ تمام دلکش نام فقط ہمارے علم کے خلاؤں کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ فقط ان وسیع و عریض غیر آباد بیابانوں کی دھندلی سی نشاندہی کرتے ہیں جن کی سیاحت ابھی تک نہیں کی گئی۔ لیکن یہ بیابان وہ ہیں کہ اگر ہماری تہذیب نے زندہ رہنا ہے تو ہمیں ان کو کسی قاعدے کے اندر لانا ہی پڑے گا۔۔۔۔ میرا مدعا یہ ہے کہ اپنی تہذیب کے توازن کو بحال کرنے کے لئے ہمیں انسان کی فطرت اور سوسائٹی کی زندگی کا علم (یعنی منظم کیا ہوا سائنسی علم) اس سے بہت زیادہ مقدار میں درکار ہے جو ہمیں اب تک حاصل ہے۔۔۔۔ لہٰذا یہ ہے وہ ایک ہی طریق کار جس سے ہم اپنی تہذیب کی موجودہ غیر یقینی اور دن بدن زیادہ خطرناک ہونے والی حالت کا علاج کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے انسانی اور اجتماعی علوم کو پوری کوشش سے ترقی دے کر فطرت انسانی اور اس کی فعلیتوں کے سچ مچ کے علوم کی شکل دیں۔۔۔ انسانی اور اجتماعی علوم کی بنیادی حقیقت دریافت کرنے اور ان کی تدوین کے طریق کار کو مہیا کرنے کی ضرورت آج اتنی شدید ہے کہ پہلے کبھی نہ تھی۔۔۔۔ تو پھر عملی نقطہ نظر سے علاج کیا ہوا؟ میں اپنے جواب کو بالاختصار پیش کرنے کی غرض سے یہ بتاؤں گا کہ اگر میں ڈکٹیٹر ہوتا تو کیا کرتا۔۔۔۔۔ میں ہر ممکن طریق سے کوشش کرتا کہ اپنی قوم کے بہترین دماغوں کو طبیعیاتی علوم سے ہٹا کر انسانی اور اجتماعی علوم میں تحقیق کے کام پر لگا دیا جائے۔‘‘
(ورلڈ کے آس’’ World Chaos‘‘ صفحات 115,112,59,9)
انسانی علوم کی صحیح تدوین کی بنیادی شرط
اوپر کسی قدر تفصیل کے ساتھ بعض ایسے حقائق کو پیش کیا گیا ہے جن سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ فطرت انسانی کی لاعلمی نوع انسانی کے لئے کیا کیا برے نتائج پیدا کرتی ہے اور کیوں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے کہ میکڈوگل فطرت انسانی کی لاعلمی کو اپنی تہذیب کے لئے ایک عظیم خطرہ کیوں سمجھتا ہے۔ اس کا یہ خیال درست ہے کہ فطرت انسانی کے علم کے بغیر یہ جاننا ممکن نہیں کہ انسانی اور اجتماعی علوم کی وہ’’ بنیادی حقیقت‘‘ کیا ہے جو ان کی ’’ تدوین کے طریق کار‘‘ کی طرف راہنمائی کر سکتی ہے اور جس کے مرکز کے ارد گرد ان علوم کو معقول اور مدلل سائنسی علوم کے طور پر منظم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ خارجی اور مادی کائنات کے علوم کی طرح داخلی اور غیر مادی فطرت انسانی کا علم فقط ’’قوم کے بہترین دماغوں‘‘ کی ذہنی کاوشوں اور کوششوں سے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اندر خود نگاہ ڈال کر دیکھے کہ وہاں کیا ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ وہ خدا کی عبادت (جس میں اطاعت بھی شامل ہے) کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی پوری پوری نشوونما کرے جو نبوت کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر اس تجربہ کی کامیابی اس حقیقت کا درجہ اول کا روشن ثبوت ہو گی کہ انسان کی فطرت خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ یہ ثبوت ذاتی تجربہ پر اور ایک طرح کی چشم دید حقیقت پر مبنی ہو گا۔ تاہم اس کے عقلی اور علمی دلائل بھی موجود ہوں گے اور وہ خطا سے مبرا ہوں گے۔
گر دلیلت باید ازوے رومتاب
آفتاب آمد دلیل آفتاب
فطرت انسانی کا علم اور علوم کی طرح نہیں کہ اس میں خارجی تجربوں اور فکر و استدلال کی جدتوں سے قدم آگے اٹھ سکے۔ یہاں ہم علم کے اس میدان میں آ نکلتے ہیں جہاں ہمارا سابقہ حقیقت کائنات کے خارجی مادی اور حیاتیاتی مظاہر سے نہیں بلکہ براہ راست حقیقت کائنات سے پڑتا ہے۔ لہٰذا فطرت انسانی کا علم حاصل کرنے کے لئے ہمیں حقیقت کائنات کے ساتھ جو فطرت انسانی کا مقصود اور مطلوب ہے، ذاتی رابطہ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی رابطہ کا نام عبادت ہے اور اسی سے فطرت انسانی کے اصلی اور قدرتی مقصود اور مطلوب کی ذاتی تصدیق ہوتی ہے۔ فطرت انسانی کے علم کی اہمیت کے باوجود اس کے علم کے راستہ کی اسی مشکل کے پیش نظر خدا نے ایک لاکھ سے بھی زیادہ انبیاء کو مبعوث فرمایا اور آخر کار تعلیم نبوت کو ایک خاتم الانبیاء کے ذریعہ سے مکمل کیا جس کا نچوڑ یہ ہے کہ اے لوگو! اس خدا کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا تاکہ تم اپنے آپ کو اور اپنے خدا کو پہچان سکو۔
(یا ایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم)
ذاتی تجربہ سے خودی کے ارتقاء کی بلند ترین منزلوں تک پہنچ کر خودی کو واشگاف دیکھنے کے بغیر قوم کا بہترین دماغ بھی زیادہ سے زیادہ کچھ افکار و تصورات کو جمع کر کے ان کو فطرت انسانی کا نام دے لے گا۔ لیکن اس سے خودی کے سربستہ اسرار و رموز منکشف نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اقبال ماہر نفسیات کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ ذہنی افکار و تصورات کی دنیا سے گزر کر قلبی واردات اور احساسات کی دنیا میں آؤ۔ اگرچہ اس کام کے لئے ذرا جرات اور ہمت کی ضرورت ہے۔ تم شاید سمجھتے ہو کہ تم نے اپنی ذہنی افکار کی مدد سے انسانی خودی کو بڑی حد تک سمجھ لیا ہے لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ خودی کے بحر بیکراں میں ابھی اسرار و رموز کے بہت سے جزیرے چھپے ہوئے ہیں۔ انسان کی خودی ایک گہرا اور خاموش سمندر ہے۔ جب تک ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ضرب عصا سے اس سمندر کو چیر کر نہ دیکھیں ہم نہیں جان سکتے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ لیکن یہ سمندر عصائے لا الہ الا اللہ کی ضرب سے ہی چیرا جا سکتا ہے۔
جرات ہے تو افکار کی دنیا سے گذر جا
ہیں بحر خودی میں بھی پوشیدہ جزیرے
کھلتے نہیں اس قلزم خاموش کے اسرار
جب تک تو اسے ضرب کلیمی سے نہ چیرے
عبادت کے ذریعہ سے خدا کی محبت کی نشوونما کاشف اسرار خودی اس لئے ہے کہ اگر وہ جاری رہے تو بندہ مومن ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے مستقل اور مکمل اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے اور وہ یقین کر لیتا ہے کہ اس کے دل میں سوائے خدا کی محبت کے اور کسی چیز کی تمنا موجود نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا انسان کا محبوب اور انسان کی فطرت کا مقصود اور مطلوب نہ ہو تو خدا کے ذکر سے اس کو اطمینان قلب کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے انسان کو اس حقیقت کی طرف بڑے زور دار الفاظ سے متوجہ کیا ہے کہ دلوں کو خدا کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب) تاکہ انسان سمجھ لے کہ اس کا قدرتی مقصود خدا ہی ہے۔
اقبال لکھتا ہے:
’’ فلسفہ کا کام اشیاء کا علمی مطالعہ ہے اور اس حیثیت سے وہ ایسے تصور سے آگے بڑھنے کی فکر نہیں کرتا جو تجربے کی گوناگوں انواع کو ایک نظام میں منسلک کر دیتا ہے۔ گویا وہ حقیقت کا مشاہدہ دور سے کرتا ہے۔ اس کے برعکس مکاشفہ قلبی حقیقت کو قریب سے دیکھتا ہے۔ اول الذکر محض نظریہ ہے اور آخر الذکر یعنی مکاشفہ ایک زندہ تجربہ حقیقت کے ساتھ ایک رابطہ اور اس کے قرب کے حصول کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ قرب حاصل کرنے کے لئے فکر کو اپنی سطح سے بلند ہونا چاہئے اور اپنی تکمیل قلب کے اس رحجان کی شکل میں کرنا چاہئے جسے مذہب کی زبان میں عبادت کہتے ہیں اور یہی لفظ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والے آخری الفاظ میں سے ایک تھا۔‘‘
’’ خطبات‘‘
اگر آدمی علم کی حد سے گزر کر عبادت کے میدان میں قدم رکھے تو وہ محبت کی شیرینی اور محبوب کے دیدار کی نعمت دونوں خوش بختیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
علم کی حد سے پرے بندہ مومن کے لئے
لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے
خدا کے تصور سے مغربی حکماء کا گریز
لیکن مغرب کا ماہر نفسیات ایک ایسے علمی ماحول کی پیداوار ہے جہاں حسی صداقت کا غیر عقلی عقیدہ علم کی ابتداء اور انتہا ہے اور جہاں خدا کا علم سے اور علم کا خدا سے کوئی علاقہ نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ نفسیات انسانی کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے عبادت کے ذریعہ سے خدا سے براہ راست رابطہ پیدا کرنا اور خدا کا دیدار کرنا تو درکنار وہ سرے سے خدا کا نفسیات سے کوئی تعلق ہی نہیں سمجھتا۔ بلکہ اپنے علم کو علم کی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے خدا کے تصور سے بھاگتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کے قدرتی اور بے ساختہ استدلال کا بہاؤ اور نا قابل انکار حقائق کا زور اسے کشاں کشاں خدا کے تصور کی طرف لئے جا رہا ہو تو وہ گھبرا کر رک جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ حقائق کی کوئی اور توجیہ کرے جس سے اس کا استدلال اس راستہ سے ہٹ جائے جو خدا کے تصور کی طرف جاتا ہے۔ فلسفہ خودی کا مرکزی تصور یہ ہے کہ انسان کی خودی خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں خدا کی محبت انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن یہ تصور ایک اور تصور سے بطور ایک نتیجہ کے اخذ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی خودی نصب العین کی محبت کا ایک جذبہ ہے یا دوسرے لفظوں میں نصب العین کی محبت انسانی اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ عملی طور پر اس دوسرے بیان کا جو مفہوم نکلتا ہے اسے ظاہر کرنے کے لئے اس میں الفاظ ’’ نصب العین‘‘ کی بجائے لفظ’’ خدا‘‘ رکھنا علمی اور عقلی نقطہ نظر سے ضروری ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف ایک ہی نصب العین ہے جو انسان کو مکمل اور مستقل طور پر مطمئن کر سکتا ہے لہٰذا یہ نصب العین کی محبت کا جذبہ انسان کی فطرت کی رو سے خدا ہی کے لئے ہے اگر کوئی شخص یہ مان لے کہ نصب العین کی محبت کا جذبہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے تو پھر اسے یہ ماننے سے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ خدا کی محبت کا جذبہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کے حکماء فطرت انسانی میں نصب العین کو انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے طور پر تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اس کی مثال خود انسانی اعمال کی قوت محرکہ کے وہ نظریات ہیں جنہوں نے مغرب میں جنم لیا ہے اور جو فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل اور کارل مارکس اور مغرب کے دوسرے حکماء کی طرف منسوب ہیں۔ مغرب کے ان حکماء میں سے ہر ایک یہ مانتا ہے کہ انسانی افراد نصب العینوں سے محبت کرتے ہیں اور نصب العین کی محبت ہی کی وساطت سے بظاہر انسان کے تمام افعال ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس مسلمہ سے یہ نتیجہ ناگزیر تھا کہ انسان میں نصب العین کی محبت کسی جبلت سے یا جبلتوں کے کسی مجموعہ سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ فطرت انسانی میں اپنا مستقل وجود رکھتی ہے اور وہی انسان کے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ جبلتوں کی تشفی جس طریق سے ہوتی ہے وہ تو سب کو معلوم ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ قدرت میں ان کا مقصد فرد کی زندگی کی نشوونما ہے لیکن نصب العین کی محبت کی تشفی کا طریق کیا ہے اور قدرت میں نصب العین حسن، نیکی اور صداقت کا ایک تصور ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس کی محبت کی مستقل اور مکمل تشفی ایک ایسے نصب العین سے ہی ہو سکتی ہے جس میں حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف بدرجہ کمال موجود ہوں اور ایسا تصور سوائے خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور قدرت میں نصب العین کی محبت کا مقصد فرد کی شخصیت کی نشوونما ہے جو حسن نیکی اور صداقت کی طلب گار ہے۔ لیکن ان حکماء میں سے ہر ایک نے خدا کے تصور کے نتیجہ سے بچنے کے لئے اس طرح سوچا کہ اعمال انسانی پر نصب العین کی محبت کا مقصد فرد کی شخصیت کی نشوونما ہے جو حسن نیکی اور صداقت کی طلب گار ہے۔ لیکن ان حکماء میں سے ہر ایک نے خدا کے تصور کے نتیجہ سے بچنے کے لئے اس طرح سوچا کہ اعمال انسانی پر نصب العین کی حکمرانی سے انکار ممکن نہیں۔ لہٰذا یہ کہا جائے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں بلکہ وہ کسی نہ کسی جبلت کا یا جبلتوں کے کسی مجموعہ کی بگڑی ہوئی یا بدلی ہوئی شکل ہوتا ہے اسی کا خادم ہوتا ہے اور اسی کی تشفی کے لئے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اس طرح ہر ایک نے نصب العین کے خاص انسانی امتیاز کی اہمیت کو ختم کر کے اس کی جگہ انسان کی جبلتی یا حیوانی سرشت کی اہمیت کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انسان ایک حیوان ثابت ہو اور یہ ظاہر ہو کہ اسے بھی حیوان کی طرح خدا کی ضرورت نہیں۔ لیکن حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کوئی شخص محض استدلال سے نہ انسان کو حیوان ثابت کر سکتا ہے اور نہ سونے کو مٹی یہی سبب ہے کہ ان حکماء میں سے ہرایک کا استدلال عقلی اور علمی لحاظ سے غلط اور ناقص اور غیر تسلی بخش ہو کر رہ گیا ہے۔