خودی اور مارکسزم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور مارکسزم
کارل مارکس (Karl Marx) کے نزدیک بنیادی طور پر انسان کے اعمال کی قوت محرکہ جبلت تغذیہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حیوان خوراک حاصل کر کے اپنی زندگی برقرار رکھے۔ چونکہ خوراک کا مقصد زندگی کا قیام ہے۔ کارل مارکس خوراک کی ضرورت میں انسان کی اور ایسی ضرورتیں بھی شامل کرتا ہے جس کی تشفی بقائے حیات کے لئے ضروری ہے۔ مثلاً موسم کے مطابق کپڑا اور گرمی اور سردی سے بچاؤ کے لئے رہائشی مکان وغیرہ اور ان سب کو ملا کر اقتصادی ضروریات کا نام دیتا ہے۔ کارل مارکس تسلیم کرتا ہے کہ انسان اخلاقی، مذہبی، روحانی، علمی، جمالیاتی اور سیاسی نصب العینوں سے محبت کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ انسان کے اعمال بظاہر نصب العین کی خاطر ظہور پذیر ہوتے ہیں تاہم وہ نصب العینوں کے لئے شعور (Consciousness) یا مشتملات شعور (Contents of Consciousness) کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے اعمال کی قوت محرکہ اس کی اقتصادی ضروریات ہیں تو انسان کے نصب العینوں کی حیثیت کیا ہے اور ایسا کیوں ہے کہ انسان کے سارے اعمال و افعال اقتصادی ضروریات سے نہیں بلکہ نصب العینوں سے پیدا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کارل مارکس اور اس کا دوست اور فلسفہ سوشلزم کی تخلیق کا شریک کار اینجلز دونوں اس حقیقت کی ایک عجیب و غریب وجہ بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دراصل نو اقتصادی ضروریات ہی انسان کے اعمال کی قوت محرکہ ہیں لیکن انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی اقتصادی ضروریات کے لئے نہیں بلکہ کسی نصب العین کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ یہ بات کچھ اس قسم کی ہے ایک آدمی گھوڑے پر سوار ہو کر چلا جا رہا ہو اور دیکھنے والوں کو ساتھ ساتھ یہ کہتا جائے کہ آپ یقین کیجئے میں در حقیقت پیدل چل رہا ہوں۔ آپ کو فقط ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں گھوڑے پر سوار ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اگر جو کچھ محسوس ہوتا ہے حقیقت وہ نہیں تو س کا کوئی ثبوت بھی تو ہونا چاہئے کہ حقیقت کچھ اور ہے ورنہ جو کچھ محسوس ہوتا ہے اسی کو حقیقت سمجھا جائے گا۔ ذاتی احساس سے بڑھ کر کسی چیز کا ثبوت اور کیا ہو گا خصوصاً ایسی حالت میں جب دنیا میں ہر آدمی کا احساس وہی ہو اور اس کلیہ کا استثنیٰ ایک بھی موجود نہ ہو۔ ہر مشاہدہ بھی تو دیکھنے والے کی ذاتی احساس میں بدل کر ہی ایک حقیقت بنتا ہے۔ دراصل یہ حکماء اس قسم کا بے بنیاد دعویٰ کر کے یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ تاریخ کا ہر مذہبی، علمی یا اخلاقی انقلاب در حقیقت ایک اقتصادی انقلاب تھا۔ مارکس لکھتا ہے:
’’ جس طرح سے کوئی شخص ایک فرد کے متعلق اس بناء پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا کہ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے اس طرح سے کوئی شخص سماجی انقلاب کے ایک دور کے متعلق اس بناء پر کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا کہ اس دور کے لوگوں کا شعور (یعنی نصب العین) کیا ہے۔‘‘
اسی طرح سے اینجلز لکھتا ہے:
’’ نصب العین کی سوچ ایک ایسا عمل ہے جسے نام نہاد سوچنے والا لاریب شعوری طور پر انجام دیتا ہے لیکن ایک کاذب شعور کے ساتھ۔ اس کے عمل کو حرکت میں لانے والی اصلی قوتیں اس کے لئے نامعلوم رہتی ہیں۔ لہٰذا وہ عمل کی کاذبہ اور ظاہری قوتوں کا ہی تصور کرتا ہے۔ چونکہ اس کا سارا عمل نصب العین کے ذریعہ سے انجام پاتا ہے اسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نصب العین پر مبنی ہے۔‘‘

لیکن اس دعویٰ کی دلیل کیا ہے کہ جو شخص ایک اخلاقی یا مذہبی نصب العین کی جستجو کرتا ہے، اس کا خیال کاذب ہوتا ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے اور در حقیقت وہ اپنی اقتصادی ضروریات کا اہتمام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے کہ ایک شخص کو دماغی طور پر صحت مند ہونے کے باوجود اپنی اقتصادی ضروریات کسی اخلاقی یا مذہبی نصب العین کے ایسے تقاضے نظر آتے ہیں جن کا اقتصادی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ جن کی خاطر وہ اپنی اقتصادی ضروریات کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی قربان کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ جب ایک شخص کو بھوک لگتی ہے تو وہ صاف کہتا ہے کہ اسے خوراک کی ضرورت ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اسے مسجد میں جانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب وہ اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لئے موجودہ اقتصادی حالات کو بدلنا چاہتا ہے تو صاف طور پر اپنے مقصود کا ذکر کیوں نہیں کرتا اور اس کی بجائے کسی اخلاقی یا مذہبی نصب العین کا ذکر کیوں کرتا ہے اور اس کی عقل پر ایسا پردہ کیوں پڑ جاتا ہے جو اس کو بھلا دیتا ہے کہ وہ در حقیقت کیا چاہتا ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ اقتصادی تبدیلی کو برپا کرنے کے لئے ایک ٹیڑھا اور منافقانہ راستہ اختیار کر کے یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ فلاں مذہبی یا اخلاقی نصب العین کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ مارکس اور اینجلز کے خیال کے مطابق انسان فقط ایک اقتصادی وجود ہے اور ایک مذہبی یا اخلاقی وجود نہیں۔ اور اس کے لئے سیدھا اور غیر منافقانہ راستہ اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ موجود نہیں۔ جب انسان کی ساری خواہشات اقتصادی خواہشات ہیں تو وہ ظاہر طور پر لاشعوری طور پر یا منافقانہ بھی ایسی غیر حقیقی اور فرضی خواہشات کا بندہ کیوں بن جاتا ہے جو روحانی یا اخلاقی خواہشات کہلاتی ہیں اور جن کے مقابلہ میں وہ اقتصادی خواہشات کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتا اور پھر جب کسی شخص کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا اور نہ ہو سکتا ہے کہ اس کے عمل کے اصلی محرکات کیا ہیں تو مارکس اور اینجلز کو ان محرکات کا علم کیسے ہو گیا۔ اینجلز تسلیم کرتا ہے کہ انسان کا ’’ سارا عمل نصب العین کے ذریعہ سے انجام پاتا ہے۔‘‘ لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود وہ یہ نہیں مانتا کہ یہ عمل نصب العین پر مبنی ہے حالانکہ کسی دلیل کے بغیر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ نصب العین کے ذریعہ سے اسی لئے انجام پاتا ہے کہ وہ در حقیقت اس پر مبنی ہے۔