خودی اور ایڈ لرزم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور ایڈ لرزم
فرائڈ کے ایک شاگرد ایڈلر (Adler) نے اپنے استاد کی خیال آرائیوں سے اختلاف کر کے انہیں غلط قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے نزدیک انسان کے اعمال کو قوت محرکہ اگر جبلت جنس نہیں تو جبلت تفوق (Self Asserton) ہے اس کا خیال یہ ہے کہ انسان کے سارے اعمال و افعال کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر اور برتر بنائے۔ اور دوسروں سے زیادہ قوت اور طاقت حاصل کر کے ان پر غالب آئے۔ انسانی فرد جب دنیا میں آتا ہے تو کمزور ہونے کی وجہ سے اپنی ہر ضرورت اور خواہش کے لئے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے اس کمتری کے مقام سے راضی نہیں ہوتا بلکہ تمنا کرتا ہے کہ جدوجہد کر کے اپنی کمتری کو دور کرے اور لوگوں کی توجہ اور ستائش کا مرجع بن جائے اور یہی تمنا اس کی زندگی کی ساری تگ و دو کا سبب بنتی ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ پھر انسان کی فطرت میں نصب العین کی محبت کا مقام کیا ہے اور کیوں جبلت تفوق کی بجائے نصب العین ہی انسان کے سارے اعمال کا حکمران نظر آتا ہے تو ایڈلر اس سوال کا جواب فرائڈ ہی کی طرح یہ دیتا ہے کہ نصب العین کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کی آرزوئے تفوق کی ایک وہمی توجیہ ہوتا ہے۔ انسان کا نصب العین وہی تصور ہوتا ہے جو اس کے خیال میں اس کی کمتری کی تلافی کر سکتا ہے اور اسے قوی اور طاقت ور بنا سکتا ہے چونکہ افراد کی اپنی کمتری کے تصورات مختلف ہوتے ہیں اس لئے ان کے وہ تصورات بھی مختلف ہوتے ہیں جو ان کے خیال میں ان کی کمتری کو دور کر سکتے ہیں۔ یہی تصورات ان کے نصب العین ہوتے ہیں۔ چونکہ لوگ حسن، نیکی اور صداقت کے اوصاف کو پسند کرتے ہیں جو شخص ان اوصاف کو اپنا لیتا ہے وہ لوگوں میں پسندیدہ ہو جاتا ہے اور لہٰذا قوت اور طاقت حاصل کر لیتا ہے۔
ایڈلر کا نظریہ کئی سوالات پیدا کرتا ہے مثلاً
1اگر بچہ شروع ہی سے بڑوں میں رہنے کی وجہ سے اپنی کمتری اور دوسروں کی بڑائی کے احساس کا عادی ہو جاتا ہے تو پھر اپنے اس مقام کو ضروری اور قدرتی سمجھ کر اس سے رضا مند کیوں نہیں ہو جاتا اور کیوں اس کے خلاف رد عمل کر کے اپنی کمتری کو دور کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتا ہے صاف ظاہر ہے کہ بڑائی یا عظمت کی محبت اس کے دل میں شروع سے ہی اس کی فطرت کے ایک ضروری عنصر کے طور پر موجود ہوتی ہے ۔ کیا یہ حقیقت فلسفہ خودی کی تائید مزید نہیں کرتی جس کی رو سے انسان، خدا اور اس کی صفات حسن، نیکی، صداقت، قوت اور عظمت کی محبت کا ایک جذبہ ہے۔ اگر انسان خدا کی محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو اس میں عظمت کی محبت بھی نہ ہوتی اور وہ قوت اور عظمت کے حصول کی تمنا بھی نہ کر سکتا۔
بچہ ستائش کا طالب اس لئے ہوتا ہے کہ ستائش حسن کے لئے ہوتی ہے اور وہ بحیثیت انسان کے ہمہ تن آرزوئے حسن ہے۔ ستائش کے طالب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اسے معلوم ہے کہ بعض اوصاف ستائش کے قابل ہوتے ہیں اور بعض ستائش کے قابل نہیں ہوتے۔ اس کی خودی میں ایک معیار رکھ دیا گیا ہے جس سے وہ حسن کو غیر حسن سے ممیز کرتا ہے۔ اس معیار پر صرف خدا کا تصور ہی پورا اتر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ معیار خدا کی محبت کا جذبہ نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر کیوں نہ سمجھا جائے کہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے نہ کہ جبلت تفوق۔
2قدرت نے جبلت تفوق کا دائرہ کار بہت محدود رکھا ہے۔ یہ جبلت قدرت نے حیوانی مرحلہ ارتقاء میں حیوان کو اس لئے دی تھی کہ وہ اس کی مدد سے مخالف حملہ آور حیوانات کا مقابلہ کر کے ان پر غالب آئے تاکہ اپنی زندگی اور نسل کو برقرار رکھ سکے۔ انسان میں آ کر بھی اس جبلت کا مقصد اور جبلتوں کی طرح وہی رہتا ہے جو حیوانی مرحلہ ارتقا میں تھا۔ یعنی بحیثیت حیوان کے انسان کی بدنی اور حیاتیاتی زندگی کی حفاظت۔ لیکن جس طرح فرائڈ نے جبلت جنس مضحکہ خیز تک وسعت دے کر انسان کے سیاہ و سفید کا مالک فرض کر لیا تھا۔ اسی طرح ایڈلر نے جبلت تفوق کو غیر معمولی حد تک وسعت دے کر انسان کا آمر مطلق فرض کر لیا ہے۔ تاکہ فطرت انسانی میں نصب العین کے مقام کو نظر انداز کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی مرحلہ ارتقاء میں ایسا کیوں ہوا ہے اور اس کے ہونے کا ثبوت کیا ہے کہ جبلت تفوق اپنے اصلی حیاتیاتی دائرہ کار سے عبور کر کے انسان کی تمام جبلتوں پر حکمران ہو گئی ہے۔

جب ایڈلر کا کوئی معقتدان سوالات کا ایسا معقول اور مدلل جواب دینے کی کوشش کرے گا جو انسان اور کائنات کے تمام معلومہ اور مسلمہ حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو تو اس کی توجہ لازماً ایسے حقائق کی طرف ہو گی جن کی روشنی میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ جبلت تفوق نہیں بلکہ خدا اور اس کی صفات (حسن، نیکی، صداقت، قوت، عظمت وغیرہ) کی محبت ہے اور یہی نتیجہ فلسفہ خودی کا نچوڑ ہے۔