خودی اور میکڈوگل ازم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی اور میکڈوگل ازم
میکڈوگل (Mcdougall) کے نزدیک انسان کے اعمال کی قوت محرکہ اس کی جبلتیں ہیں وہ لکھتا ہے:
’’ جبلتیں انسان کے سارے اعمال کی حرکت میں لانے والی بنیادی قوتیں ہیں۔‘‘
میکڈوگل تسلیم کرتا ہے کہ انسان اور حیوان کی جبلتیں ایک ہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری ہے کہ حیوان اور انسان کے فطری رحجانات اور قدرتی اعمال و افعال بھی ایک ہی ہوں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انسانی فطرت کے بعض امتیازات ایسے بھی ہیں جو حیوان میں موجود نہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کسی علمی، اخلاقی، روحانی یا جمالیاتی نصب العین کی خاطر اپنی جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے لیکن حیوان جبلتوں کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نصب العین کی محبت کا جوہر حیوان میں موجود ہی نہیں لیکن یہ نصب العین کی محبت انسان میں کہاں سے آئی ہے۔ فطرت انسانی میں اس کا ماخذ مقام اور کردار کیا ہے۔کیا یہ بھی کوئی جبلت ہے۔ میکڈوگل کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک جبلت نہیں بلکہ ایک جذبہ ہے جو جبلتوں کی ترکیب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس جذبہ کو وہ جذبہ ذات اندیشی کا نام دیتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ جذبہ جبلت تفوق کی مدد سے دوسری جبلتی خواہشات کی مخالفت کرنے پر قادر ہوتا ہے۔
میکڈوگل کا یہ نظریہ بہت سے اعتراضات کی زد میں آتا ہے مثلاً
1۔اگر انسان کے اندر اس کی حیوانی جبلتیں مل کر اور ترکیب پا کر نصب العینی خواہش پیدا کر سکتی ہیں تو حیوان میں کیوں پیدا نہیں کرتیں۔ بالخصوص جب میکڈوگل تسلیم کرتا ہے کہ انسان اور حیوان میں جو چیز امتیاز پیدا کرتی ہے وہ فقط عقل ہے جو انسان میں ہے اور حیوان میں نہیں اور انسانی عقل انسانی جبلتوں کی اس ترکیب کا سبب نہیں جو جذبہ اندیشی کی صورت اختیار کرتی ہے۔
2۔اگر نصب العینی خواہش جبلتوں کی ترکیب سے پیدا ہوئی ہے تو وہ جبلتوں کی مخالفت کیوں کرتی ہے یہاں تک اس کی خاطر ایک انسان بعض وقت نہ صرف اپنی جبلتی ضروریات کو بلکہ اپنی زندگی کو بھی (جس کی حفاظت کے لئے وہ موجود ہوئی ہیں) قربان کر دیتا ہے اور پھر یہ نصب العینی خواہش جبلتی خواہشات کو میکڈوگل کے اپنے الفاظ میں ’’ خوف‘‘ (Horror) اور ’’ حقارت‘‘ (Detertation) کی نگاہ سے کیوں دیکھتی ہے۔

3۔بعض وقت جبلت تفوق کا مقصد نصب العینی خواہش کے مقصد کے بالکل برعکس قسم کا ہوتا ہے۔ جبلت تفوق تو فقط غلبہ کا تقاضا کرتی ہے۔ لیکن بعض وقت ایک انسان اپنے نصب العین کی ناداری، کمزوری، بیچارگی اور ذلت بلکہ موت تک کو بخوشی قبول کر لیتا ہے ایسی حالت میں جبلت تفوق جو غلبہ چاہتی ہے۔ جذبہ ذات اندیشی یا نصب العینی خواہش کی مدد کیوں کر کرتی ہے۔ اگر نصب العینی خواہش کی تشریح کے لئے فلسفہ خودی کی اس روشنی کو قبول کر لیا جائے کہ نصب العین کی محبت انسانی فطرت کا ایک مستقل جذبہ ہے جو جبلتوں کے کسی مرکب سے پیدا نہیں ہوا تو اس تشریح پر اس قسم کے کوئی اعتراضات وارد نہیں ہو سکتے۔