سائنس اینڈ ٹکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سائنس اینڈ ٹکنالوجی لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

کیا کوانٹم فزکس ’روح‘ کے راز کو سمجھ جائے گی؟

کارلوس سیرانو ، بی بی نیوز منڈو

10 مئ 2019

برقی مقادیر یا کوانٹم کی دنیا اس دنیا سے مختلف ہے جسے ہم دیکھتے ہیں۔

تصور کریں کہ آپ ایک آسیب زدہ جگہ میں ہیں۔ یہ ایک تاریک، سرد اورغیرآباد حویلی ہے۔

جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں تو پہلے آپ کو یہ گھر خالی لگتا ہے لیکن فوراً آپ غور کرنے لگتے ہیں کہ کچھ اشیا اچانک ظاہر ہوتی ہیں اور پھر اچانک غائب ہو جاتی ہیں۔

اس گھر پر مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے، لیکن آپ ذرّات گزرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں اور باورچی خانے سے ہلکی سے آواز سنتے ہیں جیسے لکڑی کے فرش پر کسی کے چلنے کی خفیف سی چرچر ہو۔

کائنات کے سب سے اہم سوالوں میں سے ایک حل کے قریب

پال رنکون ، سائنس ایڈیٹر بی بی سی نیوز

16 اپريل 2020

نو سال کے ڈیٹا کا جائزہ لینے کے بعد سائنسدانوں کو پتا چلا ہے کہ نیوٹرینوز اور اینٹی نیوٹرینوز اپنی خصوصیات تبدیل مختلف طریقے سے کرتے ہیں

ستارے، کہکشائیں، سیارے سبھی کچھ جو آج وجود میں ہے کائنات کی ایک انوکھی خصوصیت کی وجہ ہے۔

اس خصوصیت کی نوعیت آج تک سائنسدانوں کے لیے ایک معمہ ہے جس کے تحت ’میٹر‘ یعنی مادہ ’اینٹی میٹر‘ پر حاوی ہے۔

اب جاپان میں ایک تجربے کے نتائج سے اس معاملے کو سلجھانے میں مدد ملے گی جو کہ سائنس میں دورِ حاضر کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک ہے۔

کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

تاریخ کا سب سے زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

بی بی سی اردو، 24 مئی 2021

 پال اردیش: دنیاوی آسائشوں سے ماورا ’خانہ بدوش‘ ریاضی دان جنھیں کبھی امریکی جاسوس کہا گیا کبھی روسی ۔ 

تاریخ کا  سب سے  زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

اگر آپ پال اردیش سے اُس وقت ملے ہوتے جب اُن کی عمر فقط چار یا پانچ برس تھی تو یہ ملاقات آپ کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہوتی کیونکہ وہ آپ سے آپ کی تاریخِ پیدائش اور ولادت کا وقت پوچھتے اور ذہن ہی ذہن میں کچھ جمع تفریق کے آپ کو چند ہی لمحوں میں بتا دیتے کہ آپ کی عمر سیکنڈز کے حساب سے کتنی ہو چکی ہے۔

اور اگر آپ پال ادریش سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر سات برس کے لگ بھگ تھی تو وہ آپ کے کچھ مسائل حل کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے تھے جیسا کہ اگر آپ سورج تک بذریعہ ٹرین جانا چاہیں تو یہ سفر کتنے گھنٹوں یا دنوں میں طے ہو گا اور کس رفتار پر چلتے ہوئے آپ کب تک سورج پر پہنچ سکتے ہیں۔

مگر اب ایک دلچسپ بات اگر آپ پال سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر 14 برس تھی اور آپ انھیں کہتے کہ وہ اپنے جوتوں کے تسمے باندھ کر دکھائیں تو شاید وہ ایسا نہ کر پاتے کیونکہ بڑی عمر میں پہنچنے کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ تسمے کیسے باندھے جاتے ہیں۔

جوتے کے تسمے باندھنا واحد چیز نہیں تھی جسے وہ نہیں کر سکتے تھے۔

مجھے وہ وقت بہت اچھے سے یاد ہے کہ جب میں انگلینڈ پڑھنے گیا تھا۔ چائے کا وقت تھا اور انھوں نے چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بریڈ (ڈبل روٹی) پیش کی۔ وہاں موجود طلبا کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے کبھی بریڈ پر مکھن نہیں لگایا تھا۔‘ (یعنی بریڈ پر مکھن کیسے لگایا جاتا ہے وہ اس بات سے ناواقف تھے۔)

مہمان پرندوں کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنز سے ٹکرا کر ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تحقیق اور واڈلا کونج کی کہانی

 بی بی سی اردو ، 21 مئ 2021

 کونجیں اور دیگر پرندے موسم سرما گزارنے کے لیے روس اور آس پاس کے علاقوں سے جنوبی ایشیا کا رخ کرتے ہیں-

بھارت کے وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ دہرہ دون کے ماہرین نے سنہ 2020 میں موسمِ سرما گزارنے کے لیے آنے والے مہمان پرندوں کی ہائی پاور ٹرانسمیشن لائنز سے ٹکرا کر ہلاکتوں کے حوالے سے ایک تحقیق شروع کی تھی اور اسی تحقیق کے لیے انڈیا کی ریاست گجرات کے علاقے واڈلا میں مارچ 2020 میں پہنچنے والی ایک مادہ کونج میں جی پی ایس ٹرانسمیٹر نصب کیا گیا تھا۔ کونج کو واڈلا کا نام اسی علاقے کی نسبت سے دیا گیا تھا۔

وائلڈ لائف انسٹیٹیوٹ دہرہ دون کے ڈاکٹر سریش کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک سال سے زائد عرصہ تک ٹرانسمیٹر کی مدد سے ہر دس منٹ بعد واڈلا کے سفر کی معلومات حاصل کی جاتی رہی ہیں جس سے پہلی مرتبہ کونجوں کی سرمائی نقل مکانی کے حوالے سے بنیادی اور اہم معلومات حاصل ہو سکی ہیں۔

ڈاکٹر سریش کا کہنا ہے کہ ’واڈلا اس عرصے میں موسم سرما اور گرما اپنی روایتی آماجگاہوں میں گزارنے کے بعد مخصوص راستوں پر سفر کرتی رہی اور جب وہ رواں برس اپریل میں صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں مانی ہور کے مقام پر موجود تھی تو اس کی آخری لوکیشن ہمیں موصول ہوئی جس کے بعد رابطہ ختم ہو گیا۔‘

ڈاکٹر سریش کمار کے مطابق واڈلا سے حاصل ہونے والا ڈیٹا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ’اس سے ہمیں اس کے روٹ کے علاوہ کچھ بنیادی معلومات حاصل ہوئی ہیں جو اس سے پہلے منظرِ عام پر نہیں آئی تھیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگا لیں کہ اگر برسوں پہلے ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی ہوتی اور اس کی مدد سے سربیائی کونجوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئی ہوتیں تو پاکستان اور انڈیا کے علاوہ پورے خطے میں ان کا تحفظ ممکن ہو سکتا تھا۔

کانوے ناٹ: ریاضی کا 50 سال پرانا سوال ایک ہفتے سے کم وقت میں حل کرنے والی طالبہ

ریاضی کا 50 سال پرانا سوال ایک ہفتے میں حل کرنی والی طالبہ
(بی بی سی اردو 24 جون 2020م )

امریکہ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ نے ریاضی کا 50 سال پرانا ایک سوال اپنے فالتو وقت میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں حل کر دیا ہے۔

لیزا پکاریلو نامی طالبہ یونیورسٹی آف ٹیکساس میں اپنے مقالے پر کام کر رہی تھیں جب انھوں نے کانوے ناٹ یا کانوے گانٹھ کا مسئلہ حل کیا۔ جب وہ یونیورسٹی میں ریاضی کے ماہر پروفیسر کیمرون گورڈن سے بات کر رہی تھیں تو انھوں نے بلا ارادہ اس مسئلہ کے متعلق اپنے حساب کا ذکر ان سے کیا۔

لیزا پکاریلو نے سائنسی خبروں کی ویب سائٹ قوانٹا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے زور سے کہا کہ تمھیں تو بہت خوش ہونا چاہئے۔ وہ تو جیسے دیوانے ہو گئے تھے۔‘

کانوے ناٹ کا مسئلہ سب سے پہلے برطانوی ریاضی دان جان ہورٹن کانوے نے 1970 میں پیش کیا تھا، مگر لیزا پکاریلو کو پہلی بار اس معمے کا علم سنہ 2018 میں ایک سمینار کے دوران ہوا تھا۔

پروفیسر گورڈن کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ کتنا پرانا اور مشہور مسئلہ ہے۔‘

کائنات میں تاریک مادے کی کھوج کے دوران ’نامعلوم سگنل‘ کی دریافت (بی بی سی اردو )

کائنات میں تاریک مادے کی کھوج 
 کائنات میں 'ڈارک میٹر' کے وجود کے متلاشی سائنسدانوں کو ایک ایسے سگنل کا سراغ ملا ہے جس کی فی الحال وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

ڈارک میٹر یا تاریک مادہ کائنات میں پایا جانے والا وہ مادہ ہے جس کے وجود کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا تاہم کشش ثقل (گریوٹی) کے اصول کے تحت اس پُراسرار مادے کے وجود کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

جن سائنسدانوں نے اس نامعلوم سگنل کی کھوج لگائی ہے وہ 'زینان ون ٹی' نامی سائنسی منصوبے پر کام کر رہے جس کا مقصد نظام کائنات میں پھیلے ڈارک میٹر پر تحقیق کرنا ہے۔

'زینان ون ٹی' پر کام کے دوران سائنسدانوں نے اپنے سراغ رساں آلات کے ذریعے کائنات میں اس سے کہیں زیادہ سرگرمی کا پتا لگایا ہے جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔

سائنسدانوں کا گمان ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ 'غیر متوقع سرگرمی' درحقیقت ڈارک میٹر کے اب تک ناقابلِ شناخت 'شمسی ایکسیان' نامی ذرات کی وجہ سے ہو۔ڈارک میٹر کیا ہے؟
ڈارک میٹر کائنات میں موجود مادے کا لگ بھگ 85 فیصد پر مشتمل ہے، تاہم ڈارک میٹر کی نوعیت اور ساخت کیا ہے یہ اب تک صیغہ راز ہے۔

کیا چاند پر کان کنی ممکن ہے ؟

کیا چاند پر کان کنی ممکن ہے ؟  
(بی بی سی اردو 12 اپريل 2020)

صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکہ چاند پر معدنیات کے لیے کان کنی شروع کرے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو کرۂ ارض سے باہر خلا میں وسائل کی تلاش کرنے اور ان کے استعمال کا حق حاصل ہے۔

حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ خلا کو وسائل کے حصول کے لیے مشترکہ علاقے کے طور پر نہیں دیکھتا ہے اور اسے وسائل کی تلاش کے لیے کسی بین الاقوامی معاہدے کے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔

کورونا وائرس: برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟ -

عالمی وبا عالمی بحران ، کرونا وائرس
برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 کرونا جیسی وبا آئے گی ؟
( برائن والش ، بی بی سی فیوچر 8 اپريل 2020)

کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بارے میں، جو کووِڈ 19 کے نام سے جانی جاتی ہے، پہلے سے اندازہ کر لینا اس سے زیادہ آسان نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ دعوٰی میں اپنی رپورٹنگ کی بنیاد پر کر رہا ہوں۔

اکتوبر 2019 میں، میں نے کورونا وائرس کی ایک فرضی عالمی وبا کے بارے میں ایک سِمیولیشن یا تمثیل کا مشاہدہ کیا تھا۔ اسی طرح سنہ 2017 کے موسم بہار میں، میں نے اسی موضوع پر ٹائم میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا تھا۔ رسالے کے سرِ ورق پر تحریر تھا: ’خبردار: دنیا ایک اور عالمی وبا کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

اس کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ پچھلے پندرہ برس میں ایک ایسی عالمی وبا کے بارے میں بہت سے مضامین اور قرطاسِ ابیض شائع ہوئے ہیں جن میں خبردار کیا گیا تھا کہ ہمارے نظام تنفس کو متاثر کرنے والا ایک نیا مرض پھیلنے والا ہے۔

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی

کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی
کرونا وائرس: پانچ ایسے وبائی امراض جنہوں نے تاریخ بدلنے میں مدد کی
(4 اپريل 2020 bbc urdu)

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کے لاکھوں افراد اپنی زندگی بسر کرنے کے انداز کو ڈرامائی انداز میں بدل رہے ہیں۔ ان میں سے بہت ساری تبدیلیاں عارضی ہوں گی۔ لیکن تاریخ میں بیماریوں کے بڑے طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں - خاندانوں کے زوال سے نوآبادیاتی نظام میں اضافے اور یہاں تک کہ آب و ہوا میں بھی۔

14ویں صدی کی بلیک ڈیتھ اور مغربی یورپ کا عروج


یوروپ میں بہت سارے لوگوں نے طاعون کے خاتمے کے لئے شدت سے دعا کی 1350 میں یورپ میں پھیلنے والے طاعون کا پیمانہ خوفناک تھا، جس نے آبادی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو ختم کر دیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ بوبونک طاعون سے مرنے والے لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق کسان طبقے سے تھا۔ جس کے باعث زمینداروں کے لیے مزدوری کی قلت پیدا ہوگئی۔ اس سے زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں میں سودے بازی کی طاقت زیادہ بڑھ گئی۔

لہٰذا یہ سوچ دم توڑنے لگی کہ لوگوں کو پرانے جاگیردارانہ نظام کے تحت کرایہ ادا کرنے کے لیے کسی مالک کی زمین پر کام کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ اس نے مغربی یورپ کو جدید، تجارتی، اور نقد پر مبنی معیشت کی طرف دھکیل دیا۔

کورونا وائرس: سائنسدان کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟

کورونا وائرس : سائنسدان  کورونا وائرس کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
(تاریخ اشاعت : 2 اپریل ، 2020 م  بی بی سی اردو ) 

نول کویڈ-19 وائرس نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور دنیا بھر میں لاکھوں افراد اس سے متاثر ہیں، سائنسدان اس وائرس کی ویکسین بنانے میں کوشاں ہیں لیکن وہ اس وائرس کے متعلق کیا اور کتنا جانتے ہیں،

ان کا کہنا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جن لوگوں میں کورونا وائرس کی ظاہری علامات موجود ہیں ، وہ دوسرے لوگوں میں وائرس منتقل کر سکتے ہیں ۔

 لیکن جن لوگوں میں ظاہری علامات موجود نہیں ، ان کا کیا ؟ 

وائرس کون کون پھیلارہا ہے ؟ 

بہت سے افراد کو پتا ہی نہیں ہے کہ ان میں وائرس موجود ہے ، بعض اوقات بچوں میں وائرس کی زیادہ علامات نظر نہیں آتیں ، لیکن وہ وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کر سکتے ہیں ، لیکن ابھی سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ، کیا آپ وائرس کے خلاف مدافعت پیدا کر سکتے ہیں ؟ 

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟

کورونا وائرس آپ کے جسم کے ساتھ کرتا کیا ہے؟
کورونا وائرس گذشتہ برس دسمبر میں سامنے آیا لیکن اب کوویڈ-19 عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

اس بیماری میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر افراد میں اس بیماری کا اتنا اثر نہیں ہوتا اور وہ صحت یاب بھی ہو رہے ہیں، تاہم کچھ افراد اس کی وجہ سے ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ وائرس جسم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، اس کے نتیجے میں کچھ افراد ہلاک کیوں ہو رہے ہیں اور اس بیماری کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
اس دورانیے میں وائرس اپنی جگہ پکڑ رہا ہوتا ہے۔ وائرسز عام طور پر آپ کے جسم کے خلیوں کے اندر تک رسائی حاصل کر کے ان کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

کورونا وائرس جسے سارس-کووی-2 کہا جا رہا ہے آپ کے جسم پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب آپ سانس کے ذریعے اسے اندر لے جاتے ہیں (جب کوئی قریب کھانسے) یا آپ کسی ایسی چیز کو چھونے کے بعد اپنے چہرے کو چھو لیں جس پر وائرس موجود ہو۔

میوزیم آف دی فیوچر ، دبئی ، متحدہ عرب امارات

میوزیم آف فیوچر ،  دبئی 

میوزیم آف دی فیوچر: دبئی میں ’مستقبل کے عجائب گھر‘ کی انوکھی عمارت میں کیا دکھایا جائے گا؟


دبئی میں جہاں راتوں راتوں بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دی جاتی ہیں وہاں لوگ اب ان عمارتوں پر نگاہ تک نہیں ڈالتے۔

لیکن یہاں ایک ایسا زیرِ تعمیر منصوبہ بھی ہے جو ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور یہ ہے میوزیم آف دی فیوچر یا مستقبل کا عجائب گھر، جو ستونوں کے اوپر ڈرائیور کے بغیر چلنے والی میٹرو کے لیے بنائے گئے ٹریک پر بنایا جا رہا اور یہ شہر کے مالیاتی مرکز کے قریب ہے۔

عجائب گھر کا ڈھانچہ 2400 ترچھے ایک دوسرے سے جڑے سٹیل کے ستونوں سے بنایا گیا جو نومبر 2018 میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اب اس کے بیرونی حصے کے پینلز کو جوڑا جا رہا ہے۔ دبئی میں 20 اکتوبر 2020 میں ’ورلڈ ایکسپو‘ یا عالمی نمائش کے انعقاد کے موقع پر اس عجائب گھر کا افتتاح کر دیا جائے گا۔

تعمیراتی ماہرین اس عجائب گھر کی جدید طرز پر مبنی ہیئت کو ’ٹورس‘ کہتے ہیں۔ ٹورس کسی ڈونٹ کی طرح ایک پھولا ہوا دائرہ ہوتا ہے جو بیچ میں سے خالی ہوتا ہے، لیکن اس کو اگر ’ہولا ہوپ‘ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔

گریٹ ایپس / hominidae- بلال الرشید

گریٹ ایپس /hominid
آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں شخص کے جینز میں خرابی ہے یا ذہانت تو فلاں کے جینز میں پائی جاتی ہے ۔جینز میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خصوصیت اس شخص کو وراثتی طور پر اپنے آ بائو اجداد سے ملی ہے ۔ اگر ایک شخص جنیاتی طور پر (genetically)ذہین ہے ‘تو وہ ایک گھنٹے وہ سب کچھ سمجھ سکتاہے ‘ جو کہ جنیاتی طور پر غیر ذہین شخص کو سمجھنے میں دس گھنٹے لگیں ۔ حسد‘ غصے اور سخاوت سمیت ساری عادات انسان کو اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملتی ہیں ۔ اکثر لوگوں کی آواز‘ بال‘ قد کاٹھ اور شکل و صورت اپنے والدین سے مشابہہ ہوتی ہے ‘ اسی طرح بیماریاں بھی ورثے میں منتقل ہوتی ہیں ۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس علاقے کے پانی میں خرابی ہے یا میں سر میں تیل نہیں ڈالتا‘ اس وجہ سے میرے بال گر رہے ہیں ؛حالانکہ گنجا پن اس کے جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ خواہ وہ اپنے سر کو منرل واٹر سے دھونا شروع کر دے یا وہ ہمیشہ اسے تیل میں بھگوئے رکھے‘اس کے بال گر کے رہیں گے۔ ہاں؛ البتہ کسی کسی کو بال چر یادوسری کوئی بیماری لاحق ہو تو وہ علاج سے ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ 

انسان کا قد کاٹھ‘ شکل و صورت ‘ دانتوں کی ساخت ‘ ذہین یاغیر ذہین ہونا ‘ یہ سب کچھ ہمارے جینز میں پہلے سے درج کر دیا گیا ہے ۔ ایک آدمی بزدل ہوگا یا بہادر ‘ یہ بھی جینز میں لکھا ہوتا ہے ۔ اس میں initiativeلینے کی صلاحیت ہوگی یا نہیں ‘ وہ مستقل مزاج ہوگا یا متلون ‘ وہ شرمیلے مزاج کا حامل ہوگا یا بے باک ‘سب کچھ لکھ دیا گیا ہے ۔ ایک شخص ایسا ہوتاہے کہ صحرا میں ریت پر آرام سے سو جاتا ہے ۔ دوسرے کے ذاتی کمرے میں بھی ذرا سی بے ترتیبی ہوتو وہ سکون سے سو نہیں سکے گا ۔ ایک منظر ایک شخص کے لیے بے معنی ہوگا‘ دوسرے کے لیے اس میں ایک پوری داستان رقم ہوگی ۔ ایک آواز ایک شخص کے لیے بے معنی ہوتی ہے ۔ دوسرے کے لیے اس میں کئی سُر چھپے ہوتے ہیں ۔یہ سب سمجھنے کی صلاحیت جینز میں درج ہوتی ہے ۔

الریاض شہر کو عرب دنیا کا پہلا 'ڈیجیٹل دارالحکومت' قرار دیا گیا ہے ۔

ریاض شہر کو پہلا ڈیجیٹل دار الحکومت قرار دیا گیا ہے۔ 
سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض میں منعقدہ عرب وزارتی کونسل کے اجلاس میں الریاض شہر کو عرب دنیا کا پہلا 'ڈیجیٹل دارالحکومت' قرار دیا گیا ہے۔ عرب وزارتی کونسل برائے سائنس و ٹیلی کام'کے 23 ویں اجلاس کے لیے 'ڈیجیٹل جنریشن کے لیے عرب عزائم' کا عنوان منتخب کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب آئندہ سال 2020ء میں سعودی عرب 'گروپ 20' کی میزبانی کے ساتھ کئی اہم عالمی نوعیت کے اجلاسوں کی صدارت اورمیزبانی کرنے کی تیاری کررہا ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت الریاض کو عرب دنیا کا 'ڈیجیٹل کیپٹل' قرار دینے کی کئی وجوہات ہیں۔ الریاض شہر ٹیلی کام، سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں مشرق وسطیٰ اورشمالی افریقا میں پہلے جب کہ پوری دنیا میں 13 ویں نمبر پرہے۔ اس کے علاوہ الریاض اقتصادی اعتبار سے بھی عرب ممالک ممالک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ سعودی عرب دنیا کی 20 بڑی معاشی قوتوں میں شامل ہونے کی وجہ سے الریاض اس گروپ میں عرب دنیا سے شامل واحد دارالحکومت بھی ہے۔

الگورتھم ریاضی میں کہاں سے آیا اور کس کو کہا جائے اس کا موجد؟

 الگورتھم ریاضی کا موجد خوارزمی کی کتاب کا ایک عکس 
الگورتھم ریاضی میں کہاں سے آیا اور کس کو کہا جائے اس کا موجد؟

سرسری طور پر دیکھنے یا سننے سے لگتا ہے کہ لفظ الگورتھم کوئی جدید اصطلاح ہے لیکن اصل میں یہ لفظ لگ بھگ 900 سال پرانا ہے۔ یہ لفظ فارسی ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کے نام سے نکلا ہے۔

الخوارزمی سنہ 780 میں ازبکستان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے نام سے اشارہ ملتا ہے کہ ان کا تعلق خوارزم سے تھا۔ وہ ہاؤس آف وزڈم یا بیت الحکمہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ یہ 9 ویں صدی میں بغداد میں دانشوروں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے ریاضی، علم فلکیات، جغرافیہ اور کارٹوگرافی یا نقشہ نگاری کی ترقی میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے کئی مشہور کتابیں لکھیں جیسا کہ ’کنسرنگ دی ہندو آرٹ آف ریکننگ‘ یا ’کتاب الحساب الہندی‘۔

علمِ ریاضی: حقیقت کا عکس یا خود ایک حقیقت؟

علم ریاضی : حقیقت کاعکس یا خود ایک حقیقت؟
نیپچُون سیارے کے بارے میں سوچیے۔

کیوں؟

کیونکہ پہلی نظر میں تو یہ سیارہ نظر ہی نہیں آئے گا۔

ایک اچھی بھلی دوربین سے بھی نظر نہیں آئے گا۔

کرّۂِ ارض سے چار ارب تیس کروڑ کلومیٹر دور واقع، نظامِ شمسی کا یہ آٹھواں سیارہ، دور کہیں آسمان میں ایک چھوٹا سا سفید رنگ کا ایک نقطہ لگتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زمین سے زُہرہ یا مریخ جیسے قریب سیاروں نے جو ہمیں پوری چمک دمک کے ساتھ نظر آتے ہیں، انھوں نے ہمارے ذہن کو صدیوں سے ورطۂ حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔

اس کے برعکس، ہم نیپچون کے وجود سے حال ہی میں، یعنی 19ویں صدی میں آگاہ ہوئے۔

اس سیارے کی دریافت دو لحاظ سے اہم ہے۔

سلائی مشین کی ایجاد

سائنسی ایجادات نے کائنات کے بارے میں اور روزمرہ زندگی کے بارے میں تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔ آج ہم جن چیزوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہ بھی بنیادی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ان ہی میں ایک سلائی مشین ہے اس کے بغیر ہمارے کپڑے نہیں سل سکتے۔اسے کس نے ایجاد کیا یہ آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
سلائی مشین کی ایجاد 

1755ء میں ایک جرمن Charles Weisenthal نے درزیوں کی سہولت کے لئے دہری نوکدار سوئی تیار کی تھی ۔ لیکن سلائی مشین کی ترقی میں پہلا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب انگلستان کے تھامس سینٹ نے 1790ء میں ایک مشین ایجاد کی جو کپڑے پر بخیہ لگانے کے علاوہ ٹانکا بھی لگا سکتی تھی۔ اس میں موجودہ دور کی سلائی مشین والی کچھ خصوصیات بھی موجود تھیں۔ 1830ء میں فرانس کے ایک غریب درزی Barthelemy Thimonier نے پہلی باقاعدہ مشین ایجاد کی جو صحیح معنوں میں سلائی کا کام کرتی تھی۔

تھمونیئر فرانسیسی صوبہ Loire کے ایک صنعتی قصبہ سینٹ ایٹائن (St. Eteinne) میں کام کرتا تھا۔ اس کی سلائی مشین کی بنیادی خوبی اس کی سوئی کا نوک سے اوپر کی جانب خمدار ہونا تھی۔ یہ سوئی ایک پیڈل سے حرکت کرتی تھی جو پاؤں کی حرکت سے کام کرتا تھا۔ سوئی کی ہر بار اوپر نیچے حرکت سے مشین ایک ٹانکا لگاتی تھی۔اسی مشین کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے بعد میں سلائی مشینیں بنائی گئیں۔ تھمونیئر نے پیرس جاکر وہاں کے Sevres نامی کوچے میں اپنی ایک ورکشاپ بنالی۔ 

انسانی دماغ یا شعور کیا ہے ؟ کیا شعور محض ایک فریب ہے ؟ ادراکی سائنس دان ڈینیئل ڈینیٹ کے خیالات کا جائزہ

شعور کیا ہے ؟

ادراکی سائنس دان ڈینیئل ڈینیٹ سمجھتے ہیں کہ ہمارا دماغ ایک ایسی مشین ہے جو اربوں چھوٹے چھوٹے 'روبوٹوں' یعنی عصبی خلیوں پر مشتمل ہے۔ تو کیا واقعی انسانی دماغ حقیقیت میں ایسا ہی ہے؟


1965 میں فلسفی ہوبرٹ ڈرائفس نے بیان دیا کہ انسان ہمیشہ کمپیوٹر کو شطرنج میں شکست دیتا رہے گا کیوں کہ انسان کے پاس وجدان کی صلاحیت ہے جس سے کمپیوٹر عاری ہے۔ ڈینیئل ڈینیٹ نے ان سے اختلاف کیا تھا۔

چند برس کے اندر اندر ڈرائفس کو اس وقت خجالت کا سامنا کرنا پڑا جب انھیں ایک کمپیوٹر نے مات دے دی۔

پھر مئی 1997 میں آئی بی ایم کے کمپیوٹر 'ڈیپ بلو' نے شطرنج کے عالمی چیمپیئن گیری کاسپاروف کو شکست دے کر دنیا کو چونکا دیا۔

انسانوں کے سب بڑے سوالات میں سے ایک سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش ۔


'ایک اشاریہ چار بلین ڈالر کی لاگت سے بننے والی ٹی ایم ٹی انسانوں کے سب سے بڑے سوالات میں سے ایک کا جواب ڈھونڈنے میں مدد کر سکتی ہے: کیا دوسرے سیاروں پر کوئی مخلوق موجود ہے؟' (29 جولائی 2019،  بی بی سی اردو)