تاریخ کا سب سے زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

بی بی سی اردو، 24 مئی 2021

 پال اردیش: دنیاوی آسائشوں سے ماورا ’خانہ بدوش‘ ریاضی دان جنھیں کبھی امریکی جاسوس کہا گیا کبھی روسی ۔ 

تاریخ کا  سب سے  زیادہ ماہر ریاضی دان پال اردیش

اگر آپ پال اردیش سے اُس وقت ملے ہوتے جب اُن کی عمر فقط چار یا پانچ برس تھی تو یہ ملاقات آپ کو حیران کر دینے کے لیے کافی ہوتی کیونکہ وہ آپ سے آپ کی تاریخِ پیدائش اور ولادت کا وقت پوچھتے اور ذہن ہی ذہن میں کچھ جمع تفریق کے آپ کو چند ہی لمحوں میں بتا دیتے کہ آپ کی عمر سیکنڈز کے حساب سے کتنی ہو چکی ہے۔

اور اگر آپ پال ادریش سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر سات برس کے لگ بھگ تھی تو وہ آپ کے کچھ مسائل حل کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے تھے جیسا کہ اگر آپ سورج تک بذریعہ ٹرین جانا چاہیں تو یہ سفر کتنے گھنٹوں یا دنوں میں طے ہو گا اور کس رفتار پر چلتے ہوئے آپ کب تک سورج پر پہنچ سکتے ہیں۔

مگر اب ایک دلچسپ بات اگر آپ پال سے اس وقت ملے ہوتے جب ان کی عمر 14 برس تھی اور آپ انھیں کہتے کہ وہ اپنے جوتوں کے تسمے باندھ کر دکھائیں تو شاید وہ ایسا نہ کر پاتے کیونکہ بڑی عمر میں پہنچنے کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھ پائے تھے کہ تسمے کیسے باندھے جاتے ہیں۔

جوتے کے تسمے باندھنا واحد چیز نہیں تھی جسے وہ نہیں کر سکتے تھے۔

مجھے وہ وقت بہت اچھے سے یاد ہے کہ جب میں انگلینڈ پڑھنے گیا تھا۔ چائے کا وقت تھا اور انھوں نے چائے کے ساتھ کھانے کے لیے بریڈ (ڈبل روٹی) پیش کی۔ وہاں موجود طلبا کے سامنے اس بات کا اقرار کرتے ہوئے مجھے بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں نے کبھی بریڈ پر مکھن نہیں لگایا تھا۔‘ (یعنی بریڈ پر مکھن کیسے لگایا جاتا ہے وہ اس بات سے ناواقف تھے۔)


اُس وقت پال کی عمر 21 برس تھی۔ان واقعات کے کئی برس بعد انھوں نے بتایا تھا کہ ’یہ سب کرنا کچھ اتنا بھی مشکل نہیں تھا۔‘

پال کی شخصیت میں موجود ان تضادات (یعنی ایک جانب وہ انتہائی معمولی کام نہیں کر پاتے تھے اور دوسری جانب وہ جمع تفریق کے ماہر تھے) کی کچھ وجوہات تھیں۔

سنہ 1913 میں جس روز وہ ہنگری میں پیدا ہوئے تھے عین اسی روز ان کی دو بڑی بہنیں زرد بخار کا شکار رہنے کے بعد ہلاک ہوئی تھیں۔ دونوں بہنوں کی عمریں تین اور پانچ سال تھیں۔

پال کی پیدائش کے ایک برس بعد ہی یعنی سنہ 1914 میں پہلی عالمی جنگ شروع ہو گئی اور اسی دوران اُن کے والد کو گرفتار کر لیا گیا۔ پال کے والد چھ سال روسی فوج کی قید میں رہنے کے بعد رہا ہوئے اور واپس گھر پہنچے۔

بچیوں کی ہلاکت کے بعد پال کی والدہ کو ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا کہ کہیں ان کا بیٹا بھی اس موذی مرض کا شکار نہ ہو جائے اور اسی لیے انھوں نے پال کو سکول نہ بھیجنے اور گھر ہی میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا۔

درحقیقت پال کی والدہ نے اپنی زندگی اپنے ’قیمتی بیٹے‘ کو مسائل اور بیماریوں سے بچانے کی غرض سے وقف کر دی تھی۔

پال کے والد اور والدہ دونوں ریاضی کے استاد تھے۔ پال کو ریاضی سے شغف وہ کتابیں پڑھ کر ہوا جو ان کے گھر میں پہلے ہی سے موجود تھیں، یا آپ یوں کہیے کہ ان کتابوں ہی کی بدولت وہ بچپن ہی میں علم ریاضی کے عشق میں مبتلا ہو چکے تھے۔

دنیا کے معروف ریاضی دان بننے کے بعد انھوں نے بتایا تھا کہ ’وہاں میرے دوست ہر وقت میری مدد کے لیے موجود ہوتے تھے اور میں ان پر (چھوٹے موٹے کاموں جیسا کہ تسمے باندھنا یا توس پر مکھن لگانا) بھروسہ کرتا تھا۔‘

اور شاید یہی وجہ ہے کہ توس پر مکھن لگانے کی تیکنیک سیکھنے سے قبل پال اردیش کامیابی سے اپنا پہلا علمی آرٹیکل شائع کروا چکے تھے۔

چیبیشیف تھیورم 

چیبیشیف تھیورم


وہ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں تھے جب انھوں نے چیبشیف تھیورم کا حیرت انگیز طور پر انتہائی آسان پروف پیش کیا۔


اس مشہور تھیورم کا ایک خوبصورت اور آسان حل تلاش کر کے انھوں نے ناصرف دنیائے ریاضی پر اپنا پہلا نقش ثبت کیا بلکہ وہ وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو تمام زندگی ان کے لیے مشعل راہ رہا یعنی اکیلے یا ساتھیوں کی مدد سے ریاضی کے مشکل ترین مسائل کا بہترین اور آسان ترین حل تلاش کرنا۔

بیشتر ریاضی دانوں کی طرح اُن کا بھی یہ ماننا تھا کہ علم ریاضی کی سچائیاں دریافت ہوتی ہیں ایجاد نہیں کی جاتیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی انھوں نے ریاضی کی فیلڈ میں کوئی ایسا نیا کام دیکھا جس نے انھیں متاثر کیا تو وہ یہ کہتے ہوئے اس کی تعریف کرتے کہ 'یہ براہ راست کتاب سے آتا ہے۔'

اگر پال کی خداداد قابلیت کی بات کی جائے تو چار سال کی قلیل مدت میں انھوں نے ناصرف اپنی بیچلر کی ڈگری حاصل کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ریاضی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔

یہ سنہ 1934 کی بات ہے اور ہنگری میں فاشسٹ جماعت برسراقتدار تھی اور جو ملک میں موجود یہودیوں پر دن تنگ کیے جا رہی تھی۔

اسی وجہ سے انھوں ہی انگلینڈ کا رختِ سفر باندھا اور کیمبرج اور مانچسٹر میں اپنے پوسٹ ڈاکٹریٹ پر کام شروع کیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ان پر اپنی ذات کے حوالے سے یہ عقدہ وا ہوا کہ نیم خالی سوٹ کیس، جو وہ ساتھ لائے تھے اور جسے پیک کرنا بھی انھیں نہیں آتا تھا، کے علاوہ انھیں اپنی ذات کے لیے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔

وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہتے تھے کہ وہ فقط ایک سیاح ریاضی دان بنیں، دنیا کا سفر کریں اور ہر اس جگہ جائیں جہاں کچھ نیا ہو رہا ہو اور جہاں سوچ اور آئیڈیاز شیئر کرنے پر پابندی نہ ہو۔

پال اردیش نے پوری زندگی کوئی باقاعدہ نوکری نہیں کی اور نہ ہی کسی آفس میں کسی ڈیسک یا کرسی پر بیٹھے۔ اپنا کام کرنے کے لیے انھیں صرف اور صرف اپنے دماغ کی ضرورت ہوتی یا بعض اوقات ایک پنسل اور کاغذ کی۔

ان کے پاس کسی قسم کا کوئی مادی (دنیاوی) سامان نہیں تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ سامان انسان کو پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے: نہ کوئی بینک اکاؤنٹ، نہ ہی کوئی کریڈٹ کارڈ۔

وہ دنیاوی رشتوں سے بھی مبرا رہے، نہ کبھی کسی خاتون کے ساتھ تعلق استور کیا اور نہ ہی ان کے بچے تھے۔

اور ہنگری میں اپنے والدین کے آبائی گھر کے علاوہ ان کا کبھی کوئی مستقل گھر بھی نہ تھا۔

زندگی بھر وہ سفر میں رہے اور نئے نئے چیلنجز کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ وہ عموماً اپنے ان نامور ریاضی دان دوستوں کے گھروں میں رہتے تھے جو اُن کی طرح قابل تھے۔

وہ اپنے دوستوں کے گھر بھی بغیر اطلاع دیے پہنچ جاتے تھے، دروازے پر دستک دیتے اور میزبان سے کہتے 'میرا دماغ کام کر رہا ہے۔' (یعنی میں نیا کام کرنے کے لیے تیار ہوں)۔

اور ان کے میزبان دوست بھی اچھے سے جانتے تھے کہ ان کا ذہن واقعی نئے خیالات اور ذہانت سے مالا مال ہو گا اور اسی لیے وہ ہمیشہ انھیں خوش آمدید کہتے۔

ساتھ ساتھ ان کے دوست یہ بھی جانتے تھے کہ ریاضی کے مسائل حل کرنے میں کئی کئی دنوں کے سیشنز ہو سکتے ہیں اور دوسری جانب ان کے مہمان کا حال یہ ہے کہ وہ ناشتے میں اپنا پسندیدہ پھل بھی کاٹ کر نہیں کھا سکتا (یعنی ان کا تمام تر کام میزبان ہی کی ذمہ داری ہوتا)۔

اپنے آبائی گھر کے علاوہ جو ایک جگہ انھیں میسر آئی وہ رونالڈ گراہم اور ان کی اہلیہ فین چنگ کی جانب سے اپنے گھر میں ان کے لیے تعمیر کردہ ایک کمرہ تھا۔ پال اس جوڑے کے گھر عموماً آتے تھے کیونکہ یہ دونوں میاں بیوی مشہور ریاضی دان تھے۔

فین چنگ کے مطابق وہ دونوں میاں بیوی اس حقیقت سے واقف تھے کہ پال کے ان کے گھر آنے کے دو دن کے اندر ہی کسی نہ کسی مسئلے یا بات پر ان کی لڑائی ہو جائے گی مگر اس کے باوجود یہ تینوں اس وقت سے انتہائی گہرے دوست اور پیشہ وارانہ تعلقات قائم کیے ہوئے تھے جب وہ پہلی مرتبہ سنہ 1963 میں ملے تھے۔

یہ تینوں افراد ان ریاضی دانوں میں شامل تھے جنھوں نے مجرد ریاضی کے شعبے میں کام کیا۔

اپنے گھر کے دروازے اپنے دوست کے لیے کھولنے کے علاوہ، گراہم اپنے دوست کے تمام تر انتظامی اُمور کا بھی خیال رکھتے۔ یہاں پال کے انتظامی امور کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے، پال کا گزر بسر مختلف تعلیمی اداروں سے ملنے والے وظائف اور فیسوں پر ہوتا تھا، اگرچہ وہ اس میں سے بہت کم ہی اپنے آپ پر خرچ کرتے اور ملنے والی زیادہ تر رقم ان نئے ریاضی دانوں کو عطیہ کر دیتے جو ریاضی کے پیچیدہ مسائل کا حل نکال کر دکھاتے۔

انھوں نے نئے ریاضی دانوں کی صرف اپنے پیسے ہی سے مدد نہیں کی بلکہ وہ کسی بھی لالچ یا کریڈٹ ملنے کی توقع کیے بغیر دوسروں کی تحقیق میں نئی جہتوں کا اضافہ کرتے اور تحقیق میں ان کی مدد کرتے۔

ان کا پختہ یقین تھا کہ علم ریاضی سماجی سرگرمی سے متعلقہ ہے اور اس مضمون کے لیے اپنی زندگیاں وقف ہونے والے تمام افراد کا مشن ان تمام رازوں کو اکٹھا کرنا تھا جن کا ’کتاب‘ میں تذکرہ ہے اور وہ وہاں محفوظ ہیں۔

پال کے حوالے سے برطانوی ریاضی دان جان ولیم سکاٹ نے ایک مرتبہ یونیورسٹی آف کیمبرج میں اپنے ایک لیکچر کے دوران کہا تھا کہ ’جس طرح شہد کی مکھیاں پھولوں کی پاس پولن لیے جاتی ہیں، اسی طرح پال اپنی تمام تر معلومات کے ساتھ ریاضی کے مراکز جاتے ہیں اور بطور ریاضی کے ایک کراس فرٹیلائزیشن ایجنٹ کے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔‘


پال کا کام صرف پہلے سے موجود ریاضی سینٹرز کو فکری طور پر مزید افزودہ کرنے تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ وہ نوجوان ریاضی دانوں کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی اور مدد کرتے تھے جیسا کہ کسی مسئلے میں ان کی رہنمائی کر کے، بڑے ریاضی دانوں سے اپنے روابط کا استعمال کرتے ہوئے نئے لوگوں کی مدد کرنا اور اگر ضروری ہو تو نئے ریاضی دانوں کو فنڈز فراہم کر کے تاکہ پیسوں کی عدم دستیابی سے ان کے سیکھنے کا عمل متاثر نہ ہو۔

اور یہی وجہ تھی کہ جب سنہ 1984 میں انھیں دنیائے ریاضی کے بڑے ’وولف ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تو وہ صرف انھیں ریاضی کے مختلف شعبوں میں کیے جانے والے ان کے بے مثل کام کی بدولت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ریاضی کی ترویج کرنے کی وجہ سے بھی دیا گیا۔

مگر دنیا نے اس شخص پر کبھی کبھی اپنے دروازے بند بھی کیے۔ مثال کے طور پر ان کے آبائی ملک ہنگری نے اس شبے کا اظہار کیا کہ شاید وہ امریکہ کے جاسوس ہیں اور ایک مرتبہ امریکہ نے اس شبہے کا اظہار کیا کہ وہ کمیونسٹ (روسی) جاسوس تھے۔

مگر اس سب کے باوجود انھوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ریاضی کی دنیا کا یہ خانہ بدوش اپنی زندگی میں سے 25 سے زائد ممالک گیا، اُن ممالک میں بھی جنھوں نے پہلے انھیں جاسوس کہتے ہوئے مسترد کیا تھا۔ اور آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ ان دوروں کا مقصد صرف اور صرف علم ریاضی تھا۔

کافی اور مرکزی اعصابی نضام کو محرک کرنے والی ایک دوا کی مدد سے وہ دن میں 20 گھنٹے تک لگاتار کام کرتے تھے۔ ان کی ریاضی کے مسائل پر تصانیف پندرہ سو کے لگ بھگ ہیں جس کے باعث انھیں تاریخ کا سب سے زیادہ ماہر ریاضی دان کا اعزاز بھی دیا جاتا ہے۔

500 کے قریب تصنیفات میں وہ معاون مصنف بھی تھے۔ اگرچہ کسی مضمون یا تحریر کے معاون مصنف ہونے کا کام انھیں کچھ خاص پسند نہیں تھا مگر نئے ریاضی دان اپنے نام کے ساتھ ان کا نام لکھنا باعث فخر سمجھتے تھے۔

اگر آپ پال سے ان کی زندگی کے آخری دس برسوں میں ملے ہوتے تو وہ آپ کو ضرور یہ بتاتے کہ وہ کیسے مرنا پسند کریں گے: درحقیقت مرنا نہیں بلکہ ’چلے جانا۔‘ اُن کی ڈکشنری میں صرف وہ ریاضی دان ’مرنے‘ کے عہدے پر فائز ہوتے تھے جو اپنی زندگی میں ہی علم ریاضی سے اپنا شغف کھو بیٹھتے تھے یا آپ کہیے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارتے تھے۔

انھوں نے اپنا زندگی کا آخری دن بھی ایک ریاضی کانفرنس میں گزارا اور ’چلے جانے سے پہلے‘ ساتھیوں کے ساتھ رات کا کھانا کھایا۔ وہ سنہ 1996 میں ’چلے گئے‘ یعنی ان کی وفات ہو گئی۔

اس کے بعد کئی برسوں تک سائنس اور ریاضی کے میگزینوں میں اُن کے مضامین شائع ہوتے رہے۔

اگر آپ پال اردیش سے ان کے آخری دنوں میں ملتے تو وہ آپ کو ضرور بتاتے کہ وہ اپنی قبر کے کتبے پر یہ لکھوانا چاہتے ہیں ’آخر کار میں نے مزید احمق بننا چھوڑ دیا ہے۔‘

وہ کہتے تھے کہ ’میری والدہ نے کہا ’(بڑے ریاضی دان بننے کے باوجود بھی) پال تم ایک وقت میں ایک جگہ ہی ہو سکتے ہو۔‘ شاید جلد ہی میں اس معذوری (ایک وقت میں ایک جگہ ہونا) سے نجات پا جاؤں گا۔ شاید ایک بار میں چلا گیا (یعنی میری وفات ہو گئی) تو میں ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر موجود ہو سکوں گا۔ شاید اس وقت میں ارشمیدس اور اقلیدس (معروف یونانی ریاضی دان) کے ساتھ مل کر کام کروں گا۔‘