کیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟

بی بی سی اردو ، 24 مارچ 2021

مضمون نگار : مونیکا گریڈی 

( نوٹ : یہ مضمون معلومات میں اضافہ کے لے شائع کیا جارہاہے ، بلاگر کا اس کے مندرجات سے اتفاق لازمی نہیں )

میں خدا پر ایمان رکھتا تھا (میں اب دہریہ ہو چکا ہوں) لیکن میں نے ایک سیمینار میں مندرجہ ذیل سوال سنا، جو کہ سب سے پہلے آئنسٹائین نے اٹھایا تھا، اور یہ سوال سن کر میں ایک دم سے ساکت ہو گیا۔

کیا فزکس خداکے وجود کو ثابت کر سکتی ہے ؟

وہ یہ کہ: ’اگر کسی خدا کا وجود ہے جس نے یہ ساری کائنات اور اس کے تمام قوانین کو تخلیق کیا، تو کیا یہ خدا خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کے تابع ہے یا خدا اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین سے ماورا ہو سکتا ہے، مثلاً روشنی کی رفتار سے تیز سفرکرنا اور اس طرح کئی جگہوں پر ایک ہی وقت میں موجود ہونا۔'

کیا اس سوال کا جواب خدا کے وجود یا عدمِ وجود کو ثابت کرسکتا ہے یا یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سائنسی ایمپیریسزم (فلسفہ کا یہ نظریہ کہ علم تجربے اور عملی ثبوت سے حاصل ہوتا ہے) اور مذہب کا باہمی مکالمہ ہوتا ہے اور وہاں کسی بات کا کوئی جواب نہیں موجود ہوتا ہے؟ (ڈیوڈ فراسٹ، عمر 67 برس، لاس اینجلیز، امریکہ)۔

میں اُن دِنوں لاک ڈاؤن میں بند تھی جب مجھے یہ سوال موصول ہوا اور میں نے فوراً اس کا جواب تلاش کرنا شروع کر دیا۔ یہ وقت واقعی کافی پریشان کن وقت تھا ۔ تکلیف دہ واقعات ہو رہے تھے، جیسا کہ عالمی وبا وغیرہ، ایسے حالات ہمارے دلوں میں خدا کے وجود کے بارے میں سنجیدہ سوالات پیدا کرتے ہیں: اگر کسی رب العالمین کا وجود ہے، تو پھر اتنی تباہی اور بربادی کیوں ہو رہی ہے؟ یہ خیال کہ شاید خدا بھی طبیعیاتی قوانین کے تابع ہے۔ جو علومِ کیمیا اور علومِ حیاتیات کے بھی حاکم ہیں۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جس پر مزید تحقیق کی ضرورت تھی۔

اگر خدا خود طبیعیاتی قوانین کو توڑنے کے قابل نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے وہ اتنا طاقتور نہیں ہو گا جتنا عظیم ہم اُسے سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر وہ طاقتور ہو سکتا ہے تو پھر ہم نے کائنات میں طبیعیات کے قوانین کے ٹوٹنے کے شواہد کیوں نہیں دیکھے ہیں۔

اس سوال کو سمجھنے کے لیے اس کو جزویات میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا نکتہ: کیا خدا روشنی کی رفتار سے سفر کر سکتا ہے؟ آئیے اس سوال کا اس کی ظاہری صورت کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ ہم زمانۂ طالب علمی میں پڑھتے رہے ہیں کہ روشنی کی رفتار سے زیادہ کوئی شے سفر نہیں کر سکتی ہے ۔ یہاں تک کہ امریکی سائنس فیکشن 'سٹار ٹریک' میں یو ایس ایس انٹرپرائیز اُس وقت بھی روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتا جب اس کے ڈیلیتھیم میں تبدیل ہونے والے ذرات اپنی تیز ترین رفتار میں حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن کیا یہ حقیقت ہے؟ ابھی چند برس پہلے کی بات ہے طبیعیات کے ماہرین کے ایک گروپ نے یہ تحقیقی مفروضہ شائع کیا کہ 'ٹیکیونز' کہلانے والے ذرات نے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر کیا۔ خوش قسمتی سے ایسے ذرات کے حقیقت میں موجود ہونے کے بہت کم امکانات ہیں۔ اگر ان کا وجود ہوتا تو یہ ایک تخیلاتی کمیت ہوتی اور اس سے خلا اور وقت کے سٹرکچر (ڈھانچے) کی شکل بگڑ جاتی۔ جس کے نتیجے میں علت و معلول کے قانون میں بگاڑ پیدا ہو جاتا۔

اس لیے اب تک ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی شے روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی ہے۔ یہ مشاہدہ اپنی جگہ خدا کے وجود کے بارے میں کوئی بات نہیں بتاتا ہے۔ اس سے صرف روشنی کے تیز رفتار کے ساتھ سفر کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

اگر خدا کا وجود ہوتا تو ایک سوال یہ پیدا ہوتاکہ کیا وہ طبیعیات کے سائنسی قوانین کا پابند ہوتا۔

ایسے موضوعات پر بحث اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتی ہے جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ جب سے روشنی نے سفر کرنا شروع کیا اس وقت سے اب تک اس نے کتنا فاصلہ طے کر لیا ہوگا۔ فرض کرتے ہیں کہ ’بگ بینگ‘ کہلانے والے تخلیق کے پہلے بڑے دھماکے سے بننے والی کائنات کے آغاز سے لے کر اب تک روشنی کا سفر 300,000 کلو میٹر فی سیکنڈ سے جاری ہے۔

کائنات کے متعلق اندازہ ہے کہ اگر اس کی کوئی سرحد ہے تو یہ شاید 46 ارب نوری سالوں کے فاصلے پر ہو۔ جس طرح وقت گزر رہا ہے کائنات کا حجم بھی بڑھ رہا ہے اور روشنی کو ہم تک پہنچنے کے لیے اور زیادہ سفر کرنا پڑے گا۔

جتنی بڑی کائنات ہمیں نظر آتی ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے، لیکن اب تک ہم نے جو زیادہ سے زیادہ فاصلے کی کوئی شے دیکھی ہے تو وہ GN-z11 کہلانے و الی کہکشاں ہے جسے ’حبل سپیس ٹیلی سکوپ‘ سے دیکھا گیا اور اس کی روشنی زمین تک تقریباً 13.4 ارب نوری سال گزرنے کے بعد پہنچی۔ لیکن جس وقت اس روشنی کی شعاؤں نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا اُس وقت یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے تین ارب نوری سال کی دوری پر تھی جس میں ہمارا کرّہِ ارض موجو د ہے اور جسے ہم ’ملکی وے‘ کہتے ہیں۔

ہم پوری کائنات کو بصری طور پر دیکھ نہیں سکتے ہیں جس کا ’بِگ بینگ‘ سے آغاز ہوا تھا۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ آیا کائنات کے دیگر حصوں میں طبیعیات کے قوانین مختلف طرح کام کرتے ہیں۔ شاید وہاں کے اپنے مقامی طبیعیاتی قوانین ہوں جو حادثاتی طور پر بنے ہوں۔ اور یہ خیال ہمیں ہماری موجودہ کائنات کے تخیل سے کچھ بڑھ کر سوچنے کی راہ پر ڈالتا ہے۔

کاسمولوجسٹوں یعنی کائنات کے مظاہر کا مطالعہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ ہماری کائنات خود ایک اور بڑی کائنات کا ایک توسیعی حصہ ہے جسے کثیرالکائنات یا متعدد کائناتیں کہا جاتا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں کئی کائناتیں بیک وقت موجود رہتی ہیں لیکن ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔ متعدد کائناتوں کے نظریے کو نظریۂ افراط سے بھی مدد ملتی ہے ۔ یعنی یہ نظریہ کہ یہ کائنات اپنے وجود میں آنے کے فوراً بعد، جب یہ ایک سیکنڈ کے کھربویں حصے کے برابر کے وقت جتنی پرانی تھی تو اُس لمحے یہ بہت ہی تیز رفتار سے پھیلی۔ کائنات کے افراط کا نظریہ بہت اہم ہے کیونکہ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ کائنات کی جو بھی شکل و صورت ہمیں نظر آرہی ہے یہ کس طرح تشکیل پائی تھی۔

لیکن کائناتی افراط صرف ایک مرتبہ ہو سکتا ہے، کئی مرتبہ کیوں نہیں؟ ہم اپنے تجربات کی روشنی میں یہ جانتے ہیں کہ مقدار (یعنی کوانٹم) کا اتار چڑھاؤ تیزی سے ظہور میں آنے والے ذرات کو جوڑوں کی صورت میں ابھرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور یہ دوسرے ہی لمحے معدوم ہوجاتے ہیں۔ اور اگر اس طرح کے اتار چڑھاؤ سے ذرات وجود میں آتے ہیں تو پھر پورے ایٹم یا کائناتیں کیوں نہیں؟ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کائنات کی افراط کے لمحے کی افراتفری کے دوران ہر عمل ایک ہی رفتار کے ساتھ وقوع پذیر نہیں ہو رہا تھا ۔ کائنات کی توسیع کے دوران کے کوانٹم اتار چڑھاؤ نے بلبلے بھی پیدا کیے ہوں گے جو پھٹنے کے بعد اپنی حیثیت کی کائناتیں بن گئیں ہوں گی۔

لیکن کائنات کے اس سارے پھیلاؤ کے عمل میں خدا کا تصور کہاں بیٹھتا ہے؟ کائنات کے علوم کے ماہرین کے لیے ایک حقیقت زیادہ دردِ سر رہی ہے کہ ہماری کائنات کیسے اُس توازن پر آکر ٹھہری کہ اِس میں زندگی وجود میں آگئی۔ ’بِگ بینگ‘ میں وہ بنیادی ذرات پیدا ہوئے جن میں وہ خصوصیات تھی جن کی بدولت ہائیڈروجن اور ڈیوٹیریم کے عناصر ظہور میں آئے ۔ یہ وہ عناصر ہیں جن سے پہلے ستارے وجود میں آئے۔

کوانٹم فزکس خدا کے وجود کے تصور کو سمجھنے کی وضاحت دینے میں مدد دیتی ہے جو بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں پر موجود ہو سکتا ہے

ان ستاروں میں نیوکلیئر ری ایکشن کے عمل کو مربوط کرنے والے طبعی قوانین ایسا ماحول یا مادہ تشکیل دیتے ہیں جن کی وجہ سے زندگی وجود میں آتی ہے ۔ کاربن، نائیٹروجن اور آکسیجن۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات میں تمام طبعی قوانین اور میعار وہ ’اقدار‘ رکھتے ہوں جو ستاروں اور سیاروں اور پھر آخر میں زندگی کو تشکیل دیتے ہیں؟

کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ بس یہ ایک خوش قسمت حادثہ تھا۔ جبکہ دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں زندگی کے لیے سازگار ماحول بنانے والے طبعی قوانین کو دیکھ کر حیران نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بہرحال ہمیں وجود میں لانے کا سبب بنے ہیں، تو ہم اس میں اور کیا دیکھنا یا جاننا چاہتے ہیں؟ چند وہ ماہرین جو الوہیت پر یقین رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ مظاہرِ قدرت جنھوں نے (زندگی کے لیے) ساز گار ماحول بنایا، یہ خدا کے وجود کا ثبوت ہیں۔

لیکن خود خدا کے وجود کے نظریے کی کوئی مستند سائنسی توضیح نہیں ہے۔ اس کی جگہ متعدد کائناتوں کا نظریہ اس پر اسرار خیال کا حل پیش کرتا ہے کیونکہ یہ نظریہ مختلف کائناتوں میں مختلف نوعیت کے طبعی قوانین کے امکان کو قبول کرتا ہے، اس لیے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے ہم اُن کائناتوں میں سے ایک میں اپنے آپ کو دیکھتے ہیں جو زندگی کے لیے سازگار ماحول مہیا کرتی ہیں۔ بے شک آپ اس خیال کو مسترد نہیں کر سکتے کہ ان متعدد کائناتوں کو کسی ایک خدا نے تخلیق کیا ہو گا۔

یہ سب کچھ ایک مفروضہ ہے، اور متعدد کائناتوں کے نظریات کی ایک سب سے بڑی تنقید یہ ہے کہ چونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری کائنات اور دیگر کائنات کے مابین کوئی باہمی تعلق موجود نہیں رہا ہے، اس لیے متعدد کائناتوں کے تصور کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا۔

کوانٹم کا انوکھاپن

اب آئیے غور کریں کہ کیا خدا بیک وقت ایک سے زیادہ جگہوں پر موجود ہو سکتا ہے۔ خلائی سائنس میں جو سائنس اور ٹیکنالوجی ہم زیادہ تر استعمال کرتے ہیں وہ ایٹم اور ذرات کی ننھی دنیا کے انسدادِ بدیہی (counter- intuitive) کے نظریہ پر مبنی ہے جسے کوانٹم میکینکس کا نام دیا جاتا ہے۔

یہ نظریہ ایک ایسی چیز کو فعال سامنے لاتا ہے جسے کوانٹم انٹیگلمنٹ (یا مقداری الجھاؤ) کہا جاتا ہے: جو کہ بہت ہی پراسراریت کے ساتھ آپس میں جڑے ہوئے ذرات ہوتے ہیں۔ اگر دو ذرات الجھے ہوئے ہیں، تو آپ خود بخود اس کے جوڑے کو کنٹرول کرلیتے ہیں جب آپ پہلے ایک کو کنٹرول کر لیتے ہیں، چاہے وہ بہت دور ہوں اور چاہے یہ دونوں ایک دوسرے سے تعامل نہ بھی کر رہے ہوں۔ اس الجھاؤ کی اس سے بہتر وضاحتیں بھی ہو سکتی ہیں جو میں نے یہاں دی ہیں۔ لیکن یہ سب سے آسان ہے جسے میں کچھ سمجھ سکتی ہوں۔

اب ذرا سوچیں کے ایک ذرا جو ٹوٹ کر A اورB میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ان ذیلی ذرات کی خصوصیات کے لیے ضروری ہے کہ ان کا کل اصل ذرے کی خصوصیات کے برابر ہو۔ یہ تحفظ کا اصول (principle of conservation) کہلاتا ہے۔ مثال کے طور پر، تمام ذرات میں ’سپن‘ (چکر) نامی ایک کوانٹم پراپرٹی (مقداری خصوصیت) موجود ہوتی ہے۔ اگر اصل ذرے میں صفر کا ’سپن‘ ہے تو دو ذیلی ذرات میں سے ایک میں مثبت ’سپن‘ اور دوسرے میں منفی ’سپن‘ ہونا چاہیئے، جس کا مطلب ہے کہ A اور B میں سے ہر ایک میں مثبت ہونے کا پچاس فیصد امکان ہے، اور اسی طرح دوسرے میں منفی ’سپن‘ کا بھی پچاس فیصد امکان ہے۔ (کوانٹم میکانکس کے مطابق ذرات اپنی نوعیت کے لحاظ سے اصلی سطح یا ذیلی ذرات کا ملا جلا ایک مجموعہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ آپ واقعی ان کی پیمائش کر لیں۔)

البرٹ آئین سٹائن نے کوانٹم انٹینگلمنٹ کی کو اس طرح بیان کیا ہے کہ یہ فاصلے پر ہونے والا پُر اسرار تعامل ہے

ذیلی ذرات A اور B کی خصوصیات ایک دوسرے سے آزاد نہیں ہیں۔ وہ آپس میں الجھی ہوئی ہیں ۔ چاہے یہ الگ الگ سیاروں پر الگ الگ لیبارٹریوں میں ہی واقع کیوں نہ ہوں۔ اگر آپ A کی ’سپن‘ کی پیمائش کرتے ہیں اور آپ کو یہ مثبت معلوم ہوتی ہے تو پھر تصور کریں کہ کسی دوست نے B کی ’سپن‘ کو بالکل اسی وقت ماپا جس وقت آپ نے A کی پیمائش کی تھی۔ تحفظ کے اصول کے کام کرنے کے لیے اسے لازمی طور پر B کی ’سپن‘ کو تلاش کرنا چاہئے جو منفی ہو۔

لیکن یہیں سے چیزیں مبہم ہونا شروع ہو جاتی ہیں مطلب یہ کہ ذیلی ذرہ A کی طرح B میں بھی مثبت ہونے کا 50:50 فیصد کا امکان تھا، لہذا اس کی ’سپن‘ کی برقی حالت اس وقت منفی ہو گئی جب A کی ’سپن‘ کی حالت مثبت دیکھی گئی۔ دوسرے الفاظ میں ’سپن‘ کی حالت کے بارے میں معلومات دونوں ذیلی ذرات کے درمیان فوری طور پر منتقل ہو گئیں۔ کوانٹم معلومات کی اس طرح کی منتقلی بظاہر روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ اور اگر آئین سٹائن کو دو ذرات کے درمیان یہ تعلق حیران کن لگا تھا تو مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اسے عجیب و غریب سمجھنے پر معاف کیا جا سکتا ہے۔

لہذا، یہاں کوئی ایسی شے ہے جو روشنی سے کہیں زیادہ تیز رفتار سفر کرتی ہے: اور وہ ہے کوانٹم کی معلومات۔ یہ بات خدا کے وجود کو نہ تو ثابت کرتی ہے نہ ہی مسترد کرتی ہے۔ لیکن یہ طبعی لحاظ سے خدا کے بارے میں سوچنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ الجھے ہوئے ذرات کی بارش کی شکل میں ہو، جن میں کوانٹم کی معلومات آگے پیچھے منتقل ہوتی ہوں اور اسی طرح ایک ہی وقت میں بہت سے مقامات پر موجود ہوں۔ یہاں تک کہ ایک ہی وقت میں بہت سی کائناتوں میں بھی؟

میرے پاس خدا کا یہ تصور ہے کہ وہ سیارے کے سائز کی گیندوں کے کرتب دکھاتے وقت کہکشاں کے سائز کی پلیٹوں کو گھوماتا رہتا ہے اور معلومات ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں میں بھیجتا رہتا ہے تاکہ ہر شے حرکت میں رہے۔ خوش قسمتی سے خدا بیک وقت کئی کام سرانجام دے سکتا ہے، یعنی ملٹی ٹاسک کرسکتا ہے اور جگہ اور وقت کے تانے بانے کا کام جاری رکھتا ہے۔ اور اس کو سمجھنے کے لیے بس تھوڑے سے ایمان کی ضرورت ہے۔

کیا یہ مضمون ان سوالات کے جوابات دینے میں کامیاب رہا ہے جو اٹھائے گئے تھے؟ مجھے شک ہے نہیں: اگر آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں (جیسا کہ میں رکھتی ہوں) تو یہ خیال کہ خدا کو طبیعیات کے قوانین کا پابند ہونا چاہیئے ایک بے معنی خیال ہے، کیونکہ خدا ہر کام کر سکتا ہے، یہاں تک کہ روشنی سے بھی تیز سفر کرسکتا ہے۔ اگر آپ خدا کو نہیں مانتے ہیں تو پھر بھی یہ سوال اتنا ہی غیر معقول ہے، کیوں کہ خدا نہیں ہے اور کوئی بھی چیز روشنی سے تیز سفر نہیں کر سکتی۔ شاید واقعی یہ سوال ہی ان لوگوں کے لیے ہے جو ايسے عقيدے کے حامل ہیں کہ نہ ہم خدا کا علم رکھتے ہيں اور نہ ہي رکھ سکتے ہيں، ہم نہیں جانتے ہیں کہ خدا ہے یا نہیں۔

دراصل یہ وہ مرحلہ ہے جہاں سائنس اور مذہب میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ سائنس ثبوت مانگتی ہے جبکہ مذہب ایمان کا تقاضہ کرتا ہے۔ سائنسدان خدا کے وجود کو ثابت کرنے یا اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کوئی تجربہ نہیں کیا جاسکتا ہے جس کے ذریعے خدا کا مشاہدہ کیا جاسکے۔ اور اگر آپ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سائنسدانوں نے کائنات کے بارے میں کیا دریافت کیا ہے ۔ کسی بھی کائنات کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ وہ خدا کے تصور کے مطابق چل رہی ہے۔

خدا کے بارے میں ہمارے نظریے کا، طبیعیات یا کسی بھی چیز کے حوالے سے، انحصار ہماری سوچ کے پس نظر پر ہوتا ہے یعنی اس خیال پر کہ کس زاویے سے بات ہو رہی ہے۔ لیکن آئیے حقیقی معنوں میں مستند ذریعے کے ایک اقتباس پر اختتام کرتے ہیں۔ نہیں نہیں، یہ بائبل نہیں ہے۔ نہ ہی یہ کائنات کی درسی کتاب ہے۔ یہ ایک مصنف ٹیری پرچیٹ کی کتاب 'ریپر مین' (Reaper Man) کا ایک اقتباس ہے:

’روشنی سوچتی ہے کہ وہ کسی بھی چیز سے زیادہ تیزی سے سفر کرتی ہے لیکن یہ غلط ہے۔ روشنی کا سفر چاہے کتنا ہی تیز کیوں نہ ہو، اسے اندھیرا وہاں ہمیشہ پہلے سے موجود ملتا ہے اور اس کا منتظر ہوتا ہے۔‘

(اس آرٹیکل کی مصنفہ، مونیکا گریڈی، دی اوپن یونیورسٹی میں سیاروں اور خلائی سائنس کی پروفیسر ہے۔)