نکتۂ نظر و فکر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
نکتۂ نظر و فکر لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ریاست اور حکومت ۔ جاوید احمد غامدی

ریاست اور حکومت - جاوید احمد غامدی
[’’اسلام اور ریاست — ایک جوابی بیانیہ‘‘ پر تنقیدات کے جواب میں لکھا گیا۔]


ریاست اور حکومت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ علم سیاست کی اصطلاح میں ریاست معاشرے کی سیاسی تنظیم ہے اور حکومت کا لفظ اُن ارباب حل و عقد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اُس میں نظم و نسق قائم رکھنے کے ذمہ دار ہوں۔ پہلے ریاست کو لیجیے۔ اِ س کی جو اقسام اب تک دنیا میں نمایاں ہوئی ہیں، وہ اصلاً تین ہی ہیں: 


ایک، جزیرہ نماے عرب کی ریاست جس کے حدود خود خالق کائنات نے متعین کر کے اُس کو اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔ چنانچہ اُسی کے حکم پر اُس کی دعوت اور عبادت کا عالمی مرکز اُس میں قائم کیا گیا اور ساتویں صدی عیسوی میں آخری رسول کی وساطت سے اعلان کر دیا گیا کہ ’لا یجتمع فیھا دینان‘ ’’اب قیامت تک کوئی غیر مسلم اِس کا شہری نہیں بن سکتا۔‘‘ اِس سے پہلے کئی صدیوں تک یہی حیثیت ریاست فلسطین کی تھی۔ اسلام اور اسلامی شریعت کے مخاطب یہاں بھی اپنی مختلف حیثیتوں میں افراد ہی ہوں گے، تاہم اِس طرح کی ریاست کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ اِس کا مذہب اسلام ہے اور اِس میں حکومت بھی اسلام ہی کی ہو گی تو یہ تعبیر ہر لحاظ سے قابل فہم ہے۔ اِس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔

نقل مکانی اور شہریت کا مسئلہ: جناب جاوید احمد غامدی کا موقف

نقل مکانی اور شہریت کا مسئلہ - جاوید احمد غامدی
 (بھارت کے متنازع شہریت بل پر ایک سوال کے جواب میں استاذ گرامی کی گفتگو سے ماخوذ)

بھارت کی پارلیمان کے ایوان زیریں (لوک سبھا) نے رائج قانون شہریت میں ترمیم کا بل پاس کیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ کے وہ مہاجرین بھارتی شہریت کے مستحق قرار پائے ہیں جو کم از کم پانچ سال سے بھارت میں مقیم ہیں اور جن کا تعلق ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی مذہب کے ساتھ ہے۔ مسلمان مہاجرین کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہے، کیونکہ اُنھیں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک سکونت کے لیے میسر ہو سکتے ہیں۔ اِس بل میں استحقاق کی بنا چونکہ مذہب کو بنایا گیا ہے، لہٰذا اِسے بھارت کے سیکولر اسٹیٹ ہونے کے تصور کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ اِسی طرح اِس کی زد مسلمانوں پر پڑی ہے، اِس لیے اُن کی جانب سے تنقید اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس تناظر میں ایک سوال کے جواب میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی نے اپنے اصولی موقف کو واضح کیا ہے۔ اُن کے موقف کا خلاصہ درج ذیل ہے۔


میں ریاستوں کے نقل مکانی پر پابندی کے قانون کو اصولی طور پر غلط سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک یہ انسانوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ زمین اللہ کی زمین ہے اور اِس میں سب انسانوں کو یکساں طور پر رہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے کہ انسان اپنے حالات اور ضرورتوں کے لحاظ سے جس خطے میں چاہیں، جا کر رہیں اورجس علاقے کو چاہیں، اپنا وطن بنائیں۔ یہ نقل مکانی بعض حالات میں اختیاری نہیں رہتی، بلکہ دین کا ناگزیر مطالبہ بن جاتی ہے۔ اگر کسی علاقے میں اللہ کی عبادت پر قائم رہنا مشکل ہو جائے اور لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا نہ ہو سکیں تو ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اُسے چھوڑ کر ایسی جگہ منتقل ہو جائیں جہاں وہ کھلم کھلا اپنے دین کا اظہار کر سکیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے اُس پر عمل کر سکیں۔ اِسی کو قرآن مجید نے ’’ہجرت ‘‘سے تعبیر کیا ہے اور ایسے حالات میں نقل مکانی سے گریز کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ ظَالِمِيْ٘ اَنْفُسِهِمْ قَالُوْا فِيْمَ كُنْتُمْﵧ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْاَرْضِﵧ قَالُوْ٘ا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّٰهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوْا فِيْهَاﵧ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُﵧ وَسَآءَتْ مَصِيْرًا.(النساء ۴: ۹۷)

" فکر فراہی کے دور جدید پر متوقع اثرات" مدرسۃ الاصلاح سہ روزہ سیمنار 2019 ء سے جناب جاوید احمد غامدی کا خطاب

مدرسۃ الاصلاح سہ روزہ سیمنار 2 تا 4 نومبر 2019 سے جناب غامدی صاحب کا خطاب 

’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ سرائے میر، اعظم گڑھ (بھارت) میں ۲؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو ایک سہ روزہ عالمی سیمینار منعقد ہوا۔ سیمینار کا عنوان ’’تاریخ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر‘‘ تھا۔ سیمینار کا افتتاح مولانا سید جلال الدین عمری نے کیا۔ مختلف نشستوں میں ساٹھ سے زیادہ علمی مقالات پیش کیے گئے۔ جن مقررین نے خطاب کیا، اُن میں ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی، ڈاکٹر عنایت اللہ سبحانی اور محمد جمیل صدیقی شامل ہیں۔ اِس موقع پر استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کو بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ اُنھوں نے ویڈیو لنک پر اپنے مختصر خطاب میں امام حمید الدین فراہی کے علمی کام اور دور حاضر میں اُس کے متوقع اثرات کو بیان کیا۔ استاذ گرامی کا یہ خطاب درج ذیل ہے:

الحمد للہ، الحمد للہ رب العٰلمین والصلوٰة والسلام علیٰ محمد الأمین، فأعوذ باللہ من شیطان الرجیم. بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.
میں آپ حضرات کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے اِس طالب علم کی عزت افزائی فرمائی اور اہل علم کے اِس اجتماع میں اِسے بھی چند حرف کہنے کی سعادت بخشی۔

آپ حضرات اِس بات سے واقف ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے ہدایت کا جو اہتمام کیا ہے، اُس میں قرآن مجید کی اب قیامت تک کے لیے ایک خاص حیثیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور اصول فرمایا ہے کہ جب لوگوں کے مابین اختلافات ہوئے تو نبیوں کا سلسلہ جاری کیا گیا :’فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ ‘اور پھر اُن کے ساتھ کتاب نازل کی گئی: ’وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ ‘ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان دین اور مذہب سے متعلق اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہی حقیقت قرآن مجید نے بعض دوسرے اسالیب میں بھی بیان کی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب ایک میزان کی حیثیت سے نازل کی ہے ’لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ‘ تاکہ لوگ دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔

مسلم معاشرے اور سیکولرازم - خورشید ندیم

مسلم معاشرہ اور سیکولر ازم - خورشید ندیم 
مشکل کی اس گھڑی میں کون ہے جو بھارت کے مظلوم مسلمانوں کا ہاتھ تھام سکتا ہے؟ ہر سمت سے ایک ہی آواز ہے: ''سیکولرازم‘‘۔

ہمیں تو بتایا گیا ہے کہ سیکولرازم 'لادینیت‘ ہے۔ مذہب کے خلاف اُٹھنے والا سب سے بڑا فتنہ۔ پھر وہ مسلمانوں کی مدد کو کیوں آئے گا؟ ان کی مذہبی شناخت کی حفاظت کیوں کرے گا؟ اب ان دو مقدمات میں سے ایک ہی درست ہو سکتا ہے: یا تو ہم نے سیکولرازم کو سمجھنے میں غلطی کی یا پھر تجزیے میں۔ یا تو سیکولرازم لادینیت نہیں ہے یا پھر یہ مسلمانوں کا نجات دہندہ نہیں۔ میرا احساس ہے کہ آج یہ مسلم دنیا کا سب سے بڑا فکری مخمصہ ہے۔ اس نے ایک فکری پراگندگی کو جنم دیا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور لبرل ازم اس کے نتائج ہیں۔

24 دسمبر کو ''نیو یارک ٹائمز‘‘ میں ایک ترک دانشور مصطفیٰ اخول کا ایک بہت اہم مضمون شائع ہوا ''اسلام میں جدید سیکولرازم کا ظہور‘‘ (A New Secularism is Appearing in Islam) ۔ یہ مضمون عالم اسلام میں آنے والی بعض اہم تبدیلیوں کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مصطفیٰ نے گزشتہ سالوں میں بہت اہم تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کی کتاب 'اسلام کا مسیحؑ‘ (The Islamic Jesus) بین المذاہب ہم آہنگی کے باب میں غیر معمولی اضافہ ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ یہودی مسیحی (Jewish Christians)، یعنی وہ یہود جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لائے، وہ انہیں اللہ کا پیغمبر اور مسیحا مانتے تھے اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں ان کے عقائد وہی تھے جو قرآن مجید نے چھٹی صدی عیسوی میں بیان کیے۔ یوں اخول نے ابراہیمی ادیان میں فکری ربط، یہودی و مسیحی علمی تاریخ کے ابتدائی ماخذات سے ثابت کیا ہے۔
مصطفیٰ نے پرنسٹن اور میشیگان یونیورسٹی کے ایک مشترکہ ریسرچ پروجیکٹ 'عرب بیرومیٹر‘ کے ایک سروے کا ذکر کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں مذہب بیزاری روز افزوں ہے۔ بہت سرعت کے ساتھ تو نہیں لیکن لوگوں میں مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے۔ 2013ء میں چھ عرب ممالک میں مذہب بیزار افراد کی تعداد آٹھ فیصد تھی۔ 2018ء میں یہ تیرہ فیصد ہو چکی۔

گریٹ ایپس / hominidae- بلال الرشید

گریٹ ایپس /hominid
آپ نے سنا ہوگا کہ فلاں شخص کے جینز میں خرابی ہے یا ذہانت تو فلاں کے جینز میں پائی جاتی ہے ۔جینز میں ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خصوصیت اس شخص کو وراثتی طور پر اپنے آ بائو اجداد سے ملی ہے ۔ اگر ایک شخص جنیاتی طور پر (genetically)ذہین ہے ‘تو وہ ایک گھنٹے وہ سب کچھ سمجھ سکتاہے ‘ جو کہ جنیاتی طور پر غیر ذہین شخص کو سمجھنے میں دس گھنٹے لگیں ۔ حسد‘ غصے اور سخاوت سمیت ساری عادات انسان کو اپنے آبائو اجداد سے ورثے میں ملتی ہیں ۔ اکثر لوگوں کی آواز‘ بال‘ قد کاٹھ اور شکل و صورت اپنے والدین سے مشابہہ ہوتی ہے ‘ اسی طرح بیماریاں بھی ورثے میں منتقل ہوتی ہیں ۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس علاقے کے پانی میں خرابی ہے یا میں سر میں تیل نہیں ڈالتا‘ اس وجہ سے میرے بال گر رہے ہیں ؛حالانکہ گنجا پن اس کے جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ خواہ وہ اپنے سر کو منرل واٹر سے دھونا شروع کر دے یا وہ ہمیشہ اسے تیل میں بھگوئے رکھے‘اس کے بال گر کے رہیں گے۔ ہاں؛ البتہ کسی کسی کو بال چر یادوسری کوئی بیماری لاحق ہو تو وہ علاج سے ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ 

انسان کا قد کاٹھ‘ شکل و صورت ‘ دانتوں کی ساخت ‘ ذہین یاغیر ذہین ہونا ‘ یہ سب کچھ ہمارے جینز میں پہلے سے درج کر دیا گیا ہے ۔ ایک آدمی بزدل ہوگا یا بہادر ‘ یہ بھی جینز میں لکھا ہوتا ہے ۔ اس میں initiativeلینے کی صلاحیت ہوگی یا نہیں ‘ وہ مستقل مزاج ہوگا یا متلون ‘ وہ شرمیلے مزاج کا حامل ہوگا یا بے باک ‘سب کچھ لکھ دیا گیا ہے ۔ ایک شخص ایسا ہوتاہے کہ صحرا میں ریت پر آرام سے سو جاتا ہے ۔ دوسرے کے ذاتی کمرے میں بھی ذرا سی بے ترتیبی ہوتو وہ سکون سے سو نہیں سکے گا ۔ ایک منظر ایک شخص کے لیے بے معنی ہوگا‘ دوسرے کے لیے اس میں ایک پوری داستان رقم ہوگی ۔ ایک آواز ایک شخص کے لیے بے معنی ہوتی ہے ۔ دوسرے کے لیے اس میں کئی سُر چھپے ہوتے ہیں ۔یہ سب سمجھنے کی صلاحیت جینز میں درج ہوتی ہے ۔

سولہ دسمبر - محمد اظہار الحق

سولہ دسمبر - محمد  اظہار الحق 
آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا!جب بھی سولہ دسمبر آیا‘ نوحہ خوانی کی!اس بار ضبط کیا۔ اس لیے کہ ؎

کب تلک پتھر کی دیواروں پر دستک دیجیے
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں

سولہ دسمبر آیا‘ گزر گیا۔ کیسے کیسے فلسفے پڑھنے کو ملے۔ کیسی کیسی وجوہ اس سانحہ کی سننے میں آئیں۔ الامان والحفیظ! ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک عامیانہ‘ بھونڈا سا مزاح گردش کر رہا ہے کہ جسے گھر والے دوسری بار سالن نہیں دیتے ‘وہ بھی فلاں فلاں پر تنقید کر رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا بھی یہی حال ہے۔ سقوط ڈھاکہ ایک سانحہ تھا۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ جن بزرجمہروںکو بنگلہ دیش (یا مشرقی پاکستان) کا حدود اربعہ تک نہیں معلوم‘ وہ بھی سقوط ڈھاکہ کا فلسفہ بگھارنے میں اپنے آپ کو ابن ِخلدون سے کم نہیں گردانتے ؎

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب  آبروئے  شیوئہ اہلِ   نظر  گئی

احسن اقبال سے کئی اختلافات ہیں‘ مگرایک بات ان کی دل کو لگتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف والا فیصلہ پچاس برس پہلے آ جاتا تو پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ چلئے الگ ہو بھی جاتا تو یوں شکست اور رسوائی نہ ہوتی۔ قتل و غارت نہ ہوتی۔ سیاست دان شاید عقل کو بروئے کار لاتے۔ پارلیمنٹ فیصلہ کرتی اور بریگزٹ (Brexit)قسم کا پرامن بٹوارا ہوتا۔

مولانا وحید الدین خاں اور استاذ جاوید احمد غامدی کا فلسفۂ دعوت(*) - ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی (**)

مولانا وحید الدین خاں
راقم خاکسارنے مولاناوحیدالدین خاں[1] کے لٹریچرکا بیش تر حصہ پڑھاہے۔ان کی کلاسوں میں شرکت کی ہے اورکئی مرتبہ ان سے بالمشافہ ملاقات اورگفتگوکرنے کا موقع بھی ملاہے۔ان کے فکری وعملی کا م کے سلسلہ میں راقم کا خیال یہ ہے کہ عصرحاضرمیں مولانا مودودی اورسیدقطب شہید کی دین کی سیاسی تعبیرکے جوتلخ نتائج بعدمیں سامنے آئے، اس کا ادراک سب سے پہلے مولاناوحیدالدین خاں نے کیااوردین کی سیاسی تعبیرکا سب سے زیادہ علمی اورزبردست جواب مولانانے فراہم کیااورایک متبادل دعوتی آئیڈیالوجی پیش کی[2]۔اس کے علاوہ راقم کے نزدیک ان کی بڑی خدمات میں سے یہ ہے کہ :

٭عصرحاضرکی تہذیب نے اورخاص کرسائنسی فکری الحادنے جوچیلنج پیدا کیے، ان کا اپنی بساط بھربہترین جواب دیا، جس کا بہترین نمونہ 'مذہب اور علم جدیدکا چیلنج'،'عقلیات اسلام '،'مذہب اورسائنس' اور 'اظہار دین' ہے۔یہ سائنسی چیلنج کے جواب میں نیاعلم کلام ہے، تاہم اس میں موجودہ کاسمولوجی کے چیلنج کودیکھتے ہوئے مزیدکام کرنے کی ضرورت ہے۔

٭جوامکانات اسلامی دعوت کے لیے موجودہ تہذیب نے پیداکیے ہیں،مثلاً اظہار راے کی آزادی، جدید ذرائع ابلاغ اورآج کے انسان کا سائنٹیفک ذہن وغیرہ، ان امکانات کوایجابی طورپر کیسے استعمال کیاجائے اور پرامن طورپر اسلام کی دعوت کیسے پیش کی جائے۔ اس کے لیے مولانانے ''الرسالہ'' کے پلیٹ فارم سے مسلسل جدوجہدکی ہے۔
جاوید احمد غامدی 

٭تشددکی انھوں نے غیرمشروط مخالفت کی اوراس کوکسی قسم کا جواز اگرمگرکے ذریعے سے نہیں دیا، یعنی دنیابھرمیں امن کی مساعی کے لیے ان کا نظریاتی کام بھی قابل ذکرکنٹری بیوشن ہے۔انھوں نے ثابت کیاکہ اسلامی دعوت میں تشددکا عنصرخداکوقابل قبول نہیں اورنہ آج کے انسان کو،اس لیے بجاطورپران کوامن کا عالمی سفیربھی کہاجاتاہے۔

٭مغربی تہذیب وتمدن کے منفی رجحانات سے بچتے ہوئے اوراس کے سلبی پہلوؤں کونظرانداز کرتے ہوئے مثبت پہلوؤں سے فائدہ کشیدکرنے کی تعلیم دی ہے۔

٭ہندوستان کے تناظرمیں ملت اسلامیہ ہندکوبے جاجذباتیت،سطحی ہنگامہ آرائی،اورمطالباتی سیاست سے دورکرنے کی مسلسل کوشش کی ہے۔اوربلاشبہ اس کے مثبت اثرات مسلمانان ہندکی زندگیوں پر پڑے ہیں۔

٭انھوں نے اپنے ادب کے ذریعے سے تذکیربالآخرت کی،خداکی عظمت کا احساس دلایااوربتایاکہ یہی اصل پیغمبرانہ دعوت ہے۔

بھارت کے مسلمان کیا کریں؟ ۔ خورشید ندیم

بھارت کے مسلمان کیا کریں ؟ 
وہی اکثریت کا جبر اور وہی بے بسی۔ کیا ہندوستان کے مسلمان آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 1947ء میں کھڑے تھے؟ پاکستان نام کی ایک آزاد مسلم مملکت، جس نے ایسے ہی ایک جبر کے نتیجے میں جنم لیا، کیا آج ان کی کوئی مدد کر سکتی ہے؟ کیا بھارت کے مسلمانوں کے پاس آج بھی علیحدگی کا متبادل موجود ہے؟

یہ سوال 1947ء میں بھی اٹھے تھے۔ اُس وقت انہیں جب کوئی پذیرائی نہیں ملی تو یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایک نوحے میں ڈھل گئے۔ یہ نوحہ دلی کی جامع مسجد کے میناروں نے سنا اور مسلمانوں نے بھی۔ دونوں ساکت رہے۔ آج مولانا کے الفاظ کی صدائے بازگزشت پورے جنوبی ایشیا میں گونج رہی ہے۔ وقت کا قافلہ مگر رواں دواں ہے۔ اب ان سوالوں کو گزرے وقت کی بازگشت کے بجائے، نئے دور کی صدا سمجھنا ہو گا۔ موجودہ حالات کی روشنی میں ان کے جواب تلاش کرنا ہوں گے، ہمیں بھی اور بھارت کے مسلمانوں کو بھی۔

مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش ۔ مفکر اسلام مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ؒ

مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش

  یعنے  وقت کے سب سے بڑے چیلنج " مغربی تہذیب کی کامل پیروی، زندگی کی شرط اور ترقی و طاقت کی واحد راہ ہے" کو دنیائے اسلام نے کس طرح قبول کیا، اور مختلف اسلامی ممالک نے کیا کیا موقف اختیار کئے اور عالم اسلام کے لئے اس بارہ میں صحیح راہ عمل کیا ہے؟  

O جائزہ O محاسبہ O مشورہ  


یہ بات کتنی ہی تلخ اور ناخوشگوار ہو، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ موجودہ عالم اسلامی مجموعی طور پر خود شناسی اور خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہے، اس وسیع (اسلامی) دنیا میں جو ملک آزاد ہیں، (خواہ وہ صدیوں سے آزاد چلے آ رہے ہوں یا انہوں نے ماضی قریب میں آزادی حاصل کی ہو) وہ بھی ذہنی اور علمی حیثیت سے مغرب کے اسی طرح سے غلام ہیں، جس طرح ایک ایسا پسماندہ ملک غلام ہوتا ہے جس نے غلامی ہی کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا ہے۔ بعض اوقات ان ملکوں کے سربراہ سیاسی میدان میں قابل تعریف اور بعض اوقات خطرناک حد تک جرات و ہمت کی بات کرتے ہیں، اور بعض اوقات مہم جوئی اور اپنے ملک کی بازی تک لگا دینے سے باز نہیں آتے، لیکن فکری، تہذیبی اور تعلیمی میدان میں ان سے اتنی بھی خود اعتمادی، انتخاب کی آزادی اور تنقیدی صلاحیت کا اظہار نہیں ہوتا، جتنی کہ کسی ایک عاقل بالغ انسان سے توقع کی جاتی ہے۔ حالانکہ فلسفہ تاریخ کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ فکری، تہذیبی اور تعلیمی غلامی، سیاسی غلامی سے زیادی خطرناک، عمیق اور مستحکم ہوتی ہے اور اس کی موجودگی میں ایک حقیقت پسند  فاتح قوم کے نزدیک سیاسی غلامی کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں جب دنیا دو عظیم عالمگیر جنگوں سے گزر چکی ہے اور تیسری جہاں سوز جنگ کے بادل امنڈ رہے ہیں، اور کسی ملک کا کسی ملک کو غلام بنانا اور اس کی مرضی کے خلاف اس پر قبضہ رکھنا ایک ناقابل فہم اور ناممکن العمل سی بات سمجھی جانے لگی ہو ((۱) لیکن افغانستان پر روس کے فوجی تسلط نے اس کلیہ کو مجروح و مشکوک بنا دیا ہے۔)، دنیا کی بڑی طاقتیں اب روز بروز سیاسی اقتدار کے بجائے ذہنی و تہذیبی اقتدار اور یکسانی و ہم رنگی پا قانع ہوتی چلی جائیں گی۔

تعلیمی نظام ۔ جاوید احمد غامدی

ہماری قوم کا ایک بڑا مسئلہ اُس کے تعلیمی نظام کی آفات ہیں۔ اِن میں تین چیزیں بالخصوص قابل توجہ ہیں:

ایک یہ کہ ہماری تہذیبی روایت سے یہ نظام ہمارا رشتہ بتدریج منقطع کر رہا ہے۔ نئی نسلوں سے ملیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اگلے دس بیس سال میں قومی حیثیت سے ہم اپنی یادداشت شاید کھو چکے ہوں گے۔ اِس سے پہلے عربی زبان سے بے گانگی نے چودہ سو سال اور فارسی سے بے گانگی نے گذشتہ بارہ سو سال ہماری یادداشت سے محو کر دیے ہیں۔ اب یہی معاملہ اردو کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ہماری تہذیبی روایت کے تین سو سال اِس زبان سے وابستہ ہیں۔ اِس سے ہمارا رشتہ کمزور ہوا تو کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔ یہ صرف زبان ہے جو تہذیبی روایت کو قائم رکھتی اور پوری حفاظت کے ساتھ اُسے آگے منتقل کرتی رہتی ہے۔ اِس سے محرومی کوئی معمولی حادثہ نہیں ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری آیندہ نسلیں اپنے اساطین علم و ادب کو پڑھنا تو ایک طرف، اُن کے ناموں سے بھی غالباً واقف نہیں ہوں گی۔ یہ کتنا بڑا نقصان ہے؟ اِس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو قومی شخصیت کی تعمیر میں اُن عوامل کی اہمیت کو سمجھتے ہیں جو تہذیبی روایت سے پیدا ہوتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ بارہ سال کی عمومی تعلیم ہر شعبۂ زندگی میں اختصاصی تعلیم کے لیے بنیادی مہارت فراہم کرتی ہے، مگر دین کا عالم بننے کے لیے اِس طرح کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتی۔ دینی مدارس اِس کوتاہی سے پیدا ہوئے ہیں اور جب تک یہ باقی رہے گی، اِسی طرح پیدا ہوتے رہیں گے۔ سوسائٹی کو جس طرح سائنس دانوں، ادیبوں، شاعروں، ڈاکٹروں اور انجینئروں کی ضرورت ہے، اِسی طرح دین کے جید علما کی بھی ضرورت ہے۔ اِس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اختصاصی تعلیم کی درس گاہیں قائم کی جائیں تو اِن میں داخلے کے لیے بنیادی اہلیت کہاں پیدا ہوگی؟ اِس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

الگورتھم ریاضی میں کہاں سے آیا اور کس کو کہا جائے اس کا موجد؟

 الگورتھم ریاضی کا موجد خوارزمی کی کتاب کا ایک عکس 
الگورتھم ریاضی میں کہاں سے آیا اور کس کو کہا جائے اس کا موجد؟

سرسری طور پر دیکھنے یا سننے سے لگتا ہے کہ لفظ الگورتھم کوئی جدید اصطلاح ہے لیکن اصل میں یہ لفظ لگ بھگ 900 سال پرانا ہے۔ یہ لفظ فارسی ریاضی دان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کے نام سے نکلا ہے۔

الخوارزمی سنہ 780 میں ازبکستان میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے نام سے اشارہ ملتا ہے کہ ان کا تعلق خوارزم سے تھا۔ وہ ہاؤس آف وزڈم یا بیت الحکمہ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ یہ 9 ویں صدی میں بغداد میں دانشوروں کا مسکن ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے ریاضی، علم فلکیات، جغرافیہ اور کارٹوگرافی یا نقشہ نگاری کی ترقی میں بہت نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے کئی مشہور کتابیں لکھیں جیسا کہ ’کنسرنگ دی ہندو آرٹ آف ریکننگ‘ یا ’کتاب الحساب الہندی‘۔

علمِ ریاضی: حقیقت کا عکس یا خود ایک حقیقت؟

علم ریاضی : حقیقت کاعکس یا خود ایک حقیقت؟
نیپچُون سیارے کے بارے میں سوچیے۔

کیوں؟

کیونکہ پہلی نظر میں تو یہ سیارہ نظر ہی نہیں آئے گا۔

ایک اچھی بھلی دوربین سے بھی نظر نہیں آئے گا۔

کرّۂِ ارض سے چار ارب تیس کروڑ کلومیٹر دور واقع، نظامِ شمسی کا یہ آٹھواں سیارہ، دور کہیں آسمان میں ایک چھوٹا سا سفید رنگ کا ایک نقطہ لگتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زمین سے زُہرہ یا مریخ جیسے قریب سیاروں نے جو ہمیں پوری چمک دمک کے ساتھ نظر آتے ہیں، انھوں نے ہمارے ذہن کو صدیوں سے ورطۂ حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔

اس کے برعکس، ہم نیپچون کے وجود سے حال ہی میں، یعنی 19ویں صدی میں آگاہ ہوئے۔

اس سیارے کی دریافت دو لحاظ سے اہم ہے۔

خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)

جنگ آزادی : رابندرناتھ ٹیگور، شانتی نکیتن ، تعلیم اور آزادی ۔

رابندرناتھ ٹیگور 

بنگالی زبان کے نوبل انعام یافتہ شاعر، فلسفی اور افسانہ و ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور کا اصل نام رویندر ناتھ ٹھاکر۔ ٹیگور ٹھاکر کا بگاڑ ہے۔ آپ 1861ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔

رابندر ناتھ ٹیگور 
 ابتدائی تعلیم کلکتہ میں ہی حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب صرف 17 برس کی عمر میں منصہ شہود پر آئی۔ پھر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر 1878ء میں انگلستان گئے، ڈیڑھ سال بعد ڈگری لیے بغیر لوٹ آئے اور اپنے طور پر پڑھنے لکھنے اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو گئے۔ 

اس دوران میں کئی افسانے لکھے اور شاعری کی جانب بھی توجہ دی۔ ٹیگور نے زیادہ تر چیزیں بنگالی زبان میں لکھیں۔ 1901ء میں بولپور بنگال کے مقام پر شانتی نکتین کے نام سے مشرقی اور مغربی فلسفے پر ایک نئے ڈھنگ کے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس نے 1921ء میں یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ شانتی نکیتن میں اپنی بنگالی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس کے باعث ان کی مقبولیت دوسرے ملکوں میں پھیل گئی۔ یورپ، جاپان، چین ،روس ،امریکا کا کئی بار سفر کیا ۔

1913ء میں ادب کے سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔ اور 1915ء میں برطانوی حکومت ہند کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ لیکن برطانوی راج میں پنجاب میں عوام پر تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پرانہوں نے ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ 

ٹیگور نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں کم و بیش پوری متمدن دنیا کا دورہ کیا اور لیکچر بھی دیے۔ 1930ء میں ’’انسان کا مذہب‘‘ کے عنوان سے لندن میں کئی بلند پایہ خطبات ممالک اورنیویارک میں اپنی ان تصاویر کی نمائش کی۔ جو 68 برس کی عمر کے بعد بنائی تھیں۔ تین ہزار گیت مختلف دھنوں میں ترتیب دیے۔

 بے شمار نظمیں لکھیں، مختصر افسانے لکھے۔ چند ڈرامے بھی لکھے۔ ہندوستان کی کئی جامعات اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ آپ کو بنگالی زبان کا شکسپیئر بھی کہتے ہیں۔

بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ بنگالی۔ انگریزی کے ادبی نوبل انعام یافتہ ادیب،شاعر اور ڈراما نگار رابند ناتھ ٹیگور اسٹیج کے اداکار بھی تھے۔ 1881ء میں کھینچی گئی اس تصویر میں ٹیگور اپنے لکھے ھوئے ڈرامے “ولمکی پرتیھبا“(عقل مند ولمکی) میں اندرا دیوی کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ٹیگور نے تین ہزرا گیت لکھے۔ سات  ڈرامے ان کے ذخیرہ تحریر میں ہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ‘ڈاک گھر‘، ‘راجا ‘اور ‘گورا‘ کے نام لیے جاتے ہیں۔

1901ء میں ٹیگور، ایک آشرم بنانے کے لیے شانتی نکیتن منتقل ہوئے۔ اس میں سنگ مرمر کا ایک عبادت خانہ اور ایک مندر، ایک تجربہ گاہ اور اسکول، پیڑوں سے لدا علاقہ، باغات، ایک کتب خانہ بنایا ۔ اسی  جگہ ان کی اہلیہ اور دو بچوں کا انتقال ہوا۔ ان کے والد بھی 1905ء میں یہیں پر انتقال کر گئے۔ ان کو تریپورہ کے مہاراجا کی جانب سے ماہانہ وراثتی تنخواہ ملا کرتی تھی۔۔

1934ء کے بعد ٹیگور کی صحت خراب ہو گئی اور 1941ء کو یہ عظیم افسانہ نگار بمقام کلکتہ انتقال کر گئے۔

شانتی نکیتن 

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اقتدار براہِ راست تاج برطانیہ کے پاس آ گیا‘ جس نے ایک خاص منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے ذہنوں میں فرنگی زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی کی برتری بٹھانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ اس عمل میں تاج برطانیہ نے مغربی طرزِ تعلیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا‘ جس میں بنگال کے ایک گھرانے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے آنکھ کھولی‘ اور جس نے آنے والے دنوں میں ہندوستانی نوجوانوں نے ایک کثیر تعداد کے ذہنوں کو متاثر کیا۔
شانتی نکیتن کا ایک منظر 
ٹیگور کے والد ایک مذہبی شخصیت تھے۔ کہتے ہیں ایک روز ٹیگور اپنے والد کے ہمراہ بنگال کے علاقے بول پور میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ٹیگور کے والد ایک پر فضا جگہ پر رک گئے۔ چاروں سمت ایک عجیب دل آویز سکوت تھا۔ سر سبز درختوں کے گھیرے میں یہ جگہ جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتی تھی۔ ٹیگور کے والد نے اسی وقت ارادہ کر لیا کہ وہ اس جگہ کو خریدیں گے اور وہاں ایک ایسا ٹھکانہ بنائیں گے‘ جہاں گہرے سکوت میں مراقبہ کر سکیں۔ یہ جگہ شانتی نکیتن تھی جو بعد میں عالم گیر شہرت اختیار کر گئی۔

1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کا زمانہ مقامی ہندوستانی باشندوں کے لیے مایوسی کا زمانہ تھا۔ ٹیگور کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ دیہات میں غریب کسانوں کی حالتِ زار سے آگاہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے معاشی، ثقافتی اور مذہبی استحصال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ فرنگی پروپیگنڈے نے ہندوستانی رعایا کے ایک بڑے حصے کو اپنا اسیر بنایا ہوا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی اس مشترکہ مزاحمت کا اظہار تھا جس میں ہندوستان میں بسنے والی ساری قوموں نے بلا امتیازِ مذہب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو للکارا تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ مقامی لوگوں کو کامیابی نہ مل سکی لیکن کمپنی کے اقدار کی چولیں ہل گئیں۔ جنگ کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سرِ عام پھانسیاں دی گئیں اور کچھ کو طویل عرصے کے لیے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔

ٹیگور کے حساس طبیعت اپنے ہم وطنوں کی حالتِ زار پر کڑھتی تھی۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ جسمانی غلامی سے بدتر ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے باسیوں کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی زبان، تہذیب، ثقافت کم تر ہے اور وہ غیر مذہب ہیں۔ یہ پیغام اس تواتر سے دیا گیا تھا کہ عام لوگ فرنگی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب سے مرعوب اور اپنی ثقافت‘ اقدار اور زبان و ادب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اس وقت ایک طرف مقامی تعلیم کے مراکز تھے‘ جہاں تحقیق کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں تھی اور دوسری طرف مغربی تعلیم کے مراکز کھل رہے تھے جہاں اقدار کو پسِ پشت ڈالا جا رہا تھا اور فرنگی تہذیب و ثقافت کے پیغام کو تقویت دی جا رہی تھی۔ ایسے میں ٹیگور نے ایک ایسے تعلیمی مرکز کے قیام کا ارادہ کیا جو مروجہ تعلیمی اداروں سے مختلف ہو۔ یوں 1901 میں وہ سکول وجود میں آیا‘ جسے شانتی نکیتن سکول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

ٹیگور کے اس سکول کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طلبا کو سوچ، اظہار اور انتخاب کی آزادی تھی۔ یہ سکول صرف کتاب اور سکول کی چہار دیواری تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ فطرت کی گود میں واقع ایک اوپن ایئر سکول تھا جو طلبا کو اپنے گرد و پیش کی اشیائے فطرت سے مکالمے کا موقع دیتا تھا۔ یہاں بنگالی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا تھا۔ مقامی ثقافت کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اس سکول کا مقصد محض طلبا کو خواندہ بنانا نہیں تھا بلکہ یہاں تعلیم کا جامع تصور کارفرما تھا جس میں طلبا کی علمی، جسمانی، ثقافتی اور روحانی نشوونما کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بنیادی مضامین کے علاوہ مصوری، ڈرامہ، ڈانس اور کتاب خوانی کی سرگرمیوں پر زور دیا جاتا تھا۔ سکول میں کوئی مستقل نصاب نہیں تھا۔

طلبا کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں کی جاتی تھیں۔ سکول میں طلبا کو اشیائے فطرت (Objects of Nature) کے قریب رہنے کا موقع ملتا۔ درخت، دھوپ، بارش، پانی، پرندے‘ ندیاں طلبا کی زندگی کا حصہ تھے۔ یوں شانتی نکیتن میں تعلیم کا ایک جامع (Holistic) تصور رائج تھا جس کے تحت طلبا کو زندگی کے چیلنجز کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔

ٹیگور کو دیہات میں بسنے والے غریب کسانوں کی زبوں حالی کا احساس تھا۔ اس کے لیے سری نکیتن لٹریسی سینٹر قائم کیا گیا جس کے ذریعے کسانوں کو بنیادی خواندگی سکھائی جاتی۔ بعد میں ٹیگور نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کی جس میں تعلیم کا وہ تصور کارفرما تھا جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زبانوں اور ثقافتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا کہ لوگ ان پر فخر کریں۔ یوں ٹیگور نے شانتی نکیتن کے تعلیمی اداروں کو Decolonization کے عمل کے لیے استعمال کیا۔ شانتی نکیتن محض ایک سکول نہ رہا بلکہ ایک تحریک بن گئی‘ جس کا بنیادی نکتہ حریت فکر تھا اور پھر 1919 میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے سانحے نے مزاحمت کا عمل اور تیز کر دیا۔ ٹیگور نے بطورِ احتجاج اپنا اعزاز واپس کر دیا۔ بول پور کے خاموش پُر سکوت علاقے شانتی نکیتن نے تعلیم کے ذریعے طلبا کو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کا درس دیا اور پھر انہیں طلبا نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

شانتی نکیتن کے کامیاب تعلیمی تجربے کے پس منظر میں ایک سب سے اہم بات ٹیگور کا تخلیقی ویژن تھا جس کے تحت تعلیم اور معاشرے میں گہرا تعلق پایا جاتا تھا اور جس میں طلبا کی تعلیمی، جسمانی، روحانی، ثقافتی اور ماحولیاتی نشوونما شامل تھی۔ جس میں آزادیٔ فکر تعلیمی عمل کا بنیادی جزو تھا۔ جس میں طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی بلکہ ان کی نشوونما کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ جس میں طلبا کو محض کتابوں تک محدود کرنے کے بجائے زندگی کو بہتر بسر کرنے کی مہارتیں سکھائی جاتیں۔ جس میں اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر فخر کرنا سکھایا جاتا۔ جس میں طلبا کو اعتماد کی قوت دی جاتی جو ان کے کردار و عمل میں نظر آتی۔ 

-------------------

تصانیف : 

شاعری
بھانو سمہہ ٹھاکرر پدولی (بھانو سمہہ ٹھاکرکے نغمے )۔.۔.(1884ء)
مانسی (مثالی)۔.۔. (1884ء)
سونار تاری (سونے کی کشتی)۔.۔. (1890ء)
گیتانجلی (نغموں کے نذرانے)۔.۔. (1910ء)
گیت مالا (نغموں کی مالا)۔.۔. (1914ء)
بلاکا (کرین کی اُڑان)۔.۔. (1916ء)
ڈرامے
والمیکی پرتیبھا (والمیکی کی ذہانت)۔.۔. (1881ء)
وِسرجن (چڑھاوا)۔.۔. (1890ء)
راجا (اندھیرے کمرے کا بادشاہ)۔.۔. (1910ء)
ڈاک گھر (ڈاک خانہ)۔.۔. (1912ء)
اچلیاتان (بے حرکت/ساکن)۔.۔. (1912ء)
مُکتادھارا (آبشار)۔.۔. (1922ء)
رکتاکاروی (سُرخ کنیر)۔.۔. (1926ء)
ناول
نسترنِرھ(ٹوٹا گھونسلا)۔.۔. (1901ء)
گورا (گوری رrنگت والا)۔.۔. (1910ء)
گھرویار (گھر اور دنیا)۔.۔. (1916ء)
یوگا یوگ (عمل رد عمل)۔.۔. (1929ء)
یادداشتیں
جیون سمرتی (میری یادیں)۔.۔. (1912ء)
چھلبیلا (میرے لڑکپن کے دن)۔.۔. (1940ء)

--------------------

خدا کی ضرورت ہے !

(بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )

اس موضوع پر طویل بحث کی ضرورت ہے کہ عمومی سطح پر زندگی میں مذہب کی کیا اہمیت ہے اور فطری علوم و فنون سے اس کا کیا تعلق ہے۔ بحث اُسی انداز سے کی جانی چاہیے کہ جو یونانی فلسفی سقراط نے اختیار کیا تھا۔ بحث حسن نیت کے ساتھ کی جائے اور تکلم میں شائستگی کا بھی خیال رکھا جائے۔ سقراط مخالفین کی بات نہایت سکون اور سنجیدگی سے سنتا اور انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیتا۔ اس کے بعد وہ ان کی دلائل کا مرحلہ وار ابطال کرتا چلا جاتا مگر اس خوبصورتی سے کہ مخالفین بھی اس کے موقف کے قائل ہوئے بغیر نہ رہتے۔ سقراط کا موقف تھا کہ بحث دلائل کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس عمل میں کسی بھی نوع کی بدنیتی کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔

جب میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تب مجھے سکھایا گیا تھا کہ بحث کے دوران سوال کے ہر پہلو پر غور کروں، دلائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لوں اور حقائق و شواہد کی موجودگی میں کوئی بھی بات قبول کرنے کے لیے تیار رہوں۔ میری زندگی کے بیشتر سال ایسی حالت میں گزرے کہ مذہب سے بیزاری سی ہوگئی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ مذاہب کی تعلیمات اور اُن سے متعلق تاریخ کے مطالعے نے میری سوچ بدل دی۔

گیان - یوول نوح حریری ۔ (15)

غور کرو 

اتنی کہانیوں پرتنقید کے بعد، مذاہب اور نظریات پر نقطہ چینی کے بعد، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خود کا جائزہ بھی لے لیا جائے، کہ کس طرح ایک تشکیک پسند فرد خوشگوار صبح سے زندگی کا آغازکرسکتا ہے! پڑھنے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ میرے چشمے پروہ کون سے رنگ چڑھے ہیں، جن سے میں دنیا کودیکھتا ہوں۔ جب میں نوجوان تھا، بہت بے چین طبیعت تھا۔ دنیا میری سمجھ سے باہرتھی۔ بڑے سوالوں کا کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ خاص طورپریہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ دنیا میں اتنا درد، تکالیف، اور آزمائشیں کیوں ہیں؟ اوران سے نجات کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ جوجواب دوستوں اور کتابوں سے ملے وہ سب فکشن تھا۔ مذاہب اور قومی پرستی کے نظریات مجھے متاثر نہ کرسکے۔ رومانی داستانیں اورمہم جوقصے مجھے قائل نہ کرسکے۔ سرمایہ دارانہ ترقی نے بھی مجھے خوش نہ کیا۔ مجھے بالکل سمجھ نہ آیا کہ سچ کہاں تلاش کروں؟ جب یونیورسٹی میں داخل ہوا توگمان تھا کہ سچ یہاں مل جائے گا، مگرمایوسی ہوئی۔ اکادمی دنیا نے مجھے دیومالائی نظریات ڈھانے میں مدد دی، مگربڑے سوالوں کے جواب یہاں بھی نہ ملے۔ اس کے برعکس، تنگ سے تنگ سوالوں پرغوروفکرکی تحریک دی گئی۔ اس دوران قرون وسطیٰ کے صلیبیوں کی یادداشتوں پرپی ایچ ڈی کرتا رہا اور فلسفے کی کتابیں کھنگالتا رہا۔ مگر اس فکری عیاشی کا نتیجہ بھی کچھ نہ نکلا۔

کائنات کی تخلیق :ایک حادثہ یا باقاعدہ منصوبہ؟ ڈاکٹر فرینک ایلن

کائنات کی تخلیق : ایک حادثہ یا باقاعدہ منصوبہ ؟ 
بارہا اس بات کو ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں کہ: ’’یہ عالمِ مادی اپنے وجود کے لیے کسی خالق کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس عالم کا وجود بہرحال ایک امرِواقعہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے لامحالہ اس کے موجود ہونے کی کوئی نہ کوئی توجیہہ کرنی پڑتی ہے۔ عام طور پر اس کی چار توجیہات پیش کی جاتی ہیں:

o- اس دنیا کا وجود محض ایک فریب ِ نظر اور واہمہ ہے، اس کی اصل حقیقت کچھ بھی نہیں۔
o- یہ کائنات اَزخود عدم سے وجود میں آگئی ہے۔
o-یہ ازلی و ابدی ہے اور اس کا کوئی آغاز اور اختتام نہیں ہے۔
o-یہ ایک خالق کی تخلیق کا شاہکار ہے۔

پہلی توجیہہ اگر تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں انسانی شعور کی مابعد الطبیعی تعبیر کے سوا کوئی حل طلب مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، اور اسے خود ایک واہمہ قرار دیا جاچکا ہے۔ علمِ طبیعیات (Physics) کے ماہر سر جیمز جینز نے اپنی کتاب پُراسرار کائنات میں ان غیرحقیقی مفروضات پر ان الفاظ میں بحث کی ہے:
علمِ طبیعیات کے جدید تصورات کے مطابق کائنات کی کوئی مادی توجیہہ ممکن نہیں اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ کائنات کا سارا معاملہ ہی ایک تخیلاتی معاملہ ہے۔

o کتاب The Evidence of God in an Expanding Universe سے ماہر طبیعیات پروفیسر فرینک ایلن کے مضمون کا ترجمہ، از پروفیسر عبدالحمید صدیقی