گیان - یوول نوح حریری ۔ (15)

غور کرو 

اتنی کہانیوں پرتنقید کے بعد، مذاہب اور نظریات پر نقطہ چینی کے بعد، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خود کا جائزہ بھی لے لیا جائے، کہ کس طرح ایک تشکیک پسند فرد خوشگوار صبح سے زندگی کا آغازکرسکتا ہے! پڑھنے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ میرے چشمے پروہ کون سے رنگ چڑھے ہیں، جن سے میں دنیا کودیکھتا ہوں۔ جب میں نوجوان تھا، بہت بے چین طبیعت تھا۔ دنیا میری سمجھ سے باہرتھی۔ بڑے سوالوں کا کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ خاص طورپریہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ دنیا میں اتنا درد، تکالیف، اور آزمائشیں کیوں ہیں؟ اوران سے نجات کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ جوجواب دوستوں اور کتابوں سے ملے وہ سب فکشن تھا۔ مذاہب اور قومی پرستی کے نظریات مجھے متاثر نہ کرسکے۔ رومانی داستانیں اورمہم جوقصے مجھے قائل نہ کرسکے۔ سرمایہ دارانہ ترقی نے بھی مجھے خوش نہ کیا۔ مجھے بالکل سمجھ نہ آیا کہ سچ کہاں تلاش کروں؟ جب یونیورسٹی میں داخل ہوا توگمان تھا کہ سچ یہاں مل جائے گا، مگرمایوسی ہوئی۔ اکادمی دنیا نے مجھے دیومالائی نظریات ڈھانے میں مدد دی، مگربڑے سوالوں کے جواب یہاں بھی نہ ملے۔ اس کے برعکس، تنگ سے تنگ سوالوں پرغوروفکرکی تحریک دی گئی۔ اس دوران قرون وسطیٰ کے صلیبیوں کی یادداشتوں پرپی ایچ ڈی کرتا رہا اور فلسفے کی کتابیں کھنگالتا رہا۔ مگر اس فکری عیاشی کا نتیجہ بھی کچھ نہ نکلا۔


ایک دن میرے دوست رون میروم نے مشورہ دیا کہ یہ کتابیں رکھو ایک طرف اورعالمانہ مباحث روک دو، اور چند روز ’وپسیانا گیان‘ میں لگاؤ! (یہ قدیم ہندوستان کی پالی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنی ہیں ’بصیرت‘)۔ مجھے یہ تجربہ نیا اور انوکھا لگا، گوکہ میں مزید کوئی کہانی سننا نہیں چاہتا تھا۔ اس سے پہلے میں اس ’گیان‘ کے بارے میں کم ہی جانتا تھا۔ اسے کافی پراسرار خیال کرتا تھا۔ مگریہ جان کر حیران ہوا کہ یہ ’علم‘ کافی عملی تھا۔ میرے استاد ایس این گوئنکا ہدایت دیتے کہ سارے شاگرد آلتی پالتی مارکے بیٹھ جائیں اور آنکھیں بند کرلیں، اورساری توجہ آتی جاتی سانسوں پر مرکوز کرلیں۔ سانسوں کوکھُلا چھوڑدیں، انہیں قابو کرنے کی کوئی کوشش نہ کریں۔ بس موجودہ لمحے کی حقیقت کا مشاہدہ کریں۔ جیسے ہی آپ کی توجہ ہٹے گی، ذہن پھریادداشتوں اورتخیلاتی کہانیوں میں جاپڑے گا۔ جیسے ہی آتی جاتی سانس کا زیروبم بگڑے گا، خیالات بھٹک جائیں گے۔ یہ بہت ہی اہم بات تھی جوکسی نے مجھے بتائی تھی۔ اگر تم موت کا اسرار جاننا چاہتے ہوتوپہلے زندگی کو سمجھو، اور زندگی کا موجودہ لمحہ محسوس کرو۔ پیدائش سے موت تک پیش آنے والے واقعات، تکالیف اور مسائل زیادہ اہم ہیں۔ عمر کے ساتھ جسم میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ ذہن بھی بدلتا رہتا ہے۔ جتنا قریب سے آپ اپنا جائزہ لیں گے، اتنا یہ واضح ہوگا کہ ایک سے دوسرا لمحہ کن مراحل سے گزر رہا ہے۔ کس شے نے زندگی کوجوڑ رکھا ہے؟ اگر تم اس بات کا جواب نہیں جانتے، تم زندگی کو نہیں سمجھ سکتے،اوراس طرح موت کو سمجھنا بھی ممکن نہ رہے گا۔ جب آپ زندگی کے سوالات کے جوابات پالیں گے، موت کا مطلب ازخود ظاہر ہوجائے گا (پروفیسرصاحب نے ایک داخلی کہانی گھڑلی، مترجم)۔ سانسوں کے مشاہدے سے میں نے ذہن کو قابو میں رکھنے کا ہنرسیکھا۔ یہ آنکھیں کھول دینے والا تجربہ تھا۔

جیسے جیسے تربیت کے مراحل آگے بڑھے، بات سانسوں سے پورے جسم کی سنسنی تک چلی گئی۔ خوشی کے احساسات اورعام سطحی قسم کے محسوسات کا تجربہ ہوا۔ یہ دراصل دماغ اور جسم کے درمیان ہم آہنگ رشتے کی شاندار کوشش ہے۔ دنیا اور میرے درمیان ہمیشہ سے جسمانی حسیات کا ہی تعلق ہے۔ میں کبھی دنیا کے واقعات پر ردعمل ظاہر نہیں کرتا۔ میں ہمیشہ اپنے جسمانی محسوسات پرردعمل دیتا ہوں۔ جب یہ محسوسات ناخوشگوار ہوتے ہیں، میں بُرا ردعمل دیتا ہوں۔ جب یہ خوشگوار ہوتا ہے، میں خوشی کا اظہار کرتا ہوں۔ ہمارے اعمال کا انحصارمحسوسات پر ہے۔ (یہ قطعی غلط بات ہے، جدید علم نفسیات واضح کرتا ہے کہ انسان حسیات پرنہیں احساسات پرچلتا ہے، انسانی محرک کی ڈرائیونگ نشست پراحساسات ہوتے ہیں جبکہ حسیات اور عقل پچھلی نشست پربراجمان ہوتے ہیں۔ مترجم)

میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کو سمجھنے کے لیے اپنی حسیات کا مشاہدہ ہی سب سے مددگارہوتا ہے۔ یہی میں نے دس روزہ گیان تربیت میں سیکھا۔ اس کے لیے مجھے کسی کہانی، تھیوری، یا نظریے کوقبول نہ کرنا پڑا(جسمانی وحسیاتی ڈھچرکو سب کچھ سمجھنا خالص مادہ پرستی ہے، یہ سائنس پرستوں کی کہانی بھی ہے، نظریہ اورایمان بھی ہے، مترجم)۔ سب سے زیادہ جس شے کا ادراک ہوا وہ یہ تھا کہ میری تکلیفوں کا تعلق میرے ذہن کے اپنے الجھاؤ کا تھا۔ آج میں روزانہ دو گھنٹے گیان کرتا ہوں۔ یہ حقیقت سے فرار نہیں بلکہ حقیقت سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ اس گیان کے بغیرمیرے لیے Sapiens اور Homo Deus لکھنا ممکن نہ تھا۔ مزید یہ کہ یہ گیان سائنسی تحقیق سے متصادم بھی نہیں۔ یہ انسانی دماغ کوسمجھنے میں مددگار سمجھا جاتا ہے۔

دونوں جانب سے کھُدائی

سائنس کے لیے دماغ کے اسرار جاننا مشکل ہے کیونکہ ہمارے پاس کارگرآلات نہیں ہیں۔ سائنس دانوں سمیت اکثرلوگ دماغ اور ذہن کوگڈمڈ کردیتے ہیں۔ مگردونوں کافی مختلف ہیں۔ دماغ نیورونز، بائیوکیمیکلز اور سائناپسز کا مادی نظام ہے۔ جبکہ ذہن تجربات کے بہاؤ کا احساس ہے، جیسے خوشی، غم، غصہ اور محبت وغیرہ۔ اب تک ہم یہ نہیں جان سکے کہ ذہن دماغ کی کون سی اپچ ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کس طرح اربوں نیورونزبرقی اشاروں کے نمونے تشکیل دیتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کس طرح کون سا احساس تشکیل پاتا ہے۔کب محبت اور نفرت کا احساس ہوتا ہے؟ ہمارے ہاتھ کوئی سرا نہیں آسکا ہے۔ اس لیے دماغ اور ذہن کا مطالعہ الگ الگ کیا جارہا ہے۔

ذہن کے مشاہدے کے لیے جدید طریقوں کی عدم موجودگی میں، ہم قدیم ثقافتوں کا رخ کرتے ہیں۔ کئی قدیم ثقافتوں میں ذہن کے مطالعہ کے لیے روایتی طریقے رائج تھے۔ یہ گیان اور مشاہدے کا پورا نظام تھا۔ آج اس گیان کو مذہب سے جوڑدیا جاتا ہے حالانکہ یہ ذہن کے براہ راست مشاہدے کا طریقہ ہے، اس میں کوئی بالاتر قوت حائل نہیں ہوتی۔ وپسیاناکی بنیاد قدیم ہندوستان میں بدھا نے رکھی تھی۔مگر اس گیان کے لیے ضروری نہیں کہ آپ بدھا پر یقین رکھیں یا ایمان لائیں۔ یہ سچ ہے، کہ کائنات کا سب سے بڑا اسرار ’شعور‘ ہے۔ تاہم گیان کرنے والوں کوہدایت یہ ہے کہ صرف حاضرحقیقت کو سمجھنے کی سعی کریں۔

حالیہ برسوں میں سائنس دانوں نے گیان کے مختلف طریقوں پر تحقیق کی ہے۔ گیان والوں کو لیبارٹری میں بلواکر گیان کروایا جاتا ہے۔ اُن کے سروں کوالیکٹروڈ سے ڈھانپ کرذہن کا مطالعہ و مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ مشینیں گیان کی کیفیت نہیں سمجھ سکتیں۔ تاہم دماغ اور ذہن اگر دونوں ایک ہی چیزہیں تو سائنسی آلات کا استعمال انہیں سمجھنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ اگر یہ بہت بڑا پہاڑ ہے اور دونوں جانب سے سرنگ کھودی جارہی ہے، جوایک جگہ پہنچ کر مل سکتی ہیں، توپھر گیانی اور سائنسی دونوں طریقے فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔ گوکہ ہم ابھی ان ٹیکنالوجیکل آلات پرانحصار نہیں کرسکتے، ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ ایلگوریتھم ہمارے ذہنوں کوہمارے لیے ترتیب دے، ہمیں خود ہی اپنے ذہن کی حقیقت تک رسائی پالینی چاہیے۔ 

 (پروفیسر نوح ہراری صاحب نے پوری کتاب میں مذہب اور غیر سائنسی طریقوں پر استہزا کیا ہے، لیکن آخر میں دو بڑے مذاہب ہندو مت اور بدھ مت کے طریقہ ’گیان‘ پر پہنچ کر بیٹھ گئے، آلتی پالتی بھی مارلی، آنکھیں بند کرلیں اور گیان شروع کردیا۔ اس بھرپور نظریاتی وعلمی تضاد پرتنقید سے بچنے کے لیے پروفیسر صاحب نے ’گیان‘ کو مذہب کی ملکیت سے بھی خارج کردیا، گویا دیگر کائناتی اصولوں کی طرح ’گیان‘ بھی مذہب سے غصب کرلیا گیا، اور مذہب کودیومالائی کہانیوں کے جملہ حقوق تک محفوظ کردیاگیا۔ یہ لادین مغرب کا طریقہ واردات ہے۔ مگریہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ جدید مغربی سائنس کی راہ میں خدا، نجات اور نفس مطمئنہ کہیں موجود نہیں۔ اس کے لیے مذہب سے رجوع کرنا ہوگا اور مذہب صرف ’اسلام‘ ہے)۔




(اقتباس : كتاب كا نام  ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)

[ناصر فاروق جامعہ کراچی سے ابلاغِ عامہ میں ماسٹرز ہیں۔ شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ بارہ سال سے نجی نیوز میں ایڈٹنگ اور نیوز میکنگ کی ذمہ داریاں اداکررہے ہیں۔ پندرہ سال سے ملکی وغیر ملکی اخبارات وجرائد کے لیے اردو اور انگریزی میں مضامین لکھ رہے ہیں۔ مذہب، فلسفہ، تاریخ، سیاست، اور حالات حاضرہ ان کے خاص موضوعات ہیں۔ ]

 (Yuval Noah Harari is an Israeli historian and a professor in the Department of History at the Hebrew University of Jerusalem. He is the author of the popular science bestsellers Sapiens: A Brief History of Humankind, Homo Deus: A Brief History of Tomorrow, and 21 Lessons for the 21st Century. Wikipedia
Born: February 24, 1976 (age 43 years), Kiryat Ata, Israel
Nationality: Israeli
Education: Jesus College, Oxford (1998–2002), MORE
Known for: Sapiens: A Brief History of Humankind, Homo Deus
Influenced by: Jared Diamond, Frans de Waal)
---------------
نوٹ : بلاگر کا مضمون کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں ۔