خدا کی ضرورت ہے !

(بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )

اس موضوع پر طویل بحث کی ضرورت ہے کہ عمومی سطح پر زندگی میں مذہب کی کیا اہمیت ہے اور فطری علوم و فنون سے اس کا کیا تعلق ہے۔ بحث اُسی انداز سے کی جانی چاہیے کہ جو یونانی فلسفی سقراط نے اختیار کیا تھا۔ بحث حسن نیت کے ساتھ کی جائے اور تکلم میں شائستگی کا بھی خیال رکھا جائے۔ سقراط مخالفین کی بات نہایت سکون اور سنجیدگی سے سنتا اور انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیتا۔ اس کے بعد وہ ان کی دلائل کا مرحلہ وار ابطال کرتا چلا جاتا مگر اس خوبصورتی سے کہ مخالفین بھی اس کے موقف کے قائل ہوئے بغیر نہ رہتے۔ سقراط کا موقف تھا کہ بحث دلائل کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس عمل میں کسی بھی نوع کی بدنیتی کا دخل نہیں ہونا چاہیے۔

جب میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تب مجھے سکھایا گیا تھا کہ بحث کے دوران سوال کے ہر پہلو پر غور کروں، دلائل کا غیر جانب داری سے جائزہ لوں اور حقائق و شواہد کی موجودگی میں کوئی بھی بات قبول کرنے کے لیے تیار رہوں۔ میری زندگی کے بیشتر سال ایسی حالت میں گزرے کہ مذہب سے بیزاری سی ہوگئی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ مذاہب کی تعلیمات اور اُن سے متعلق تاریخ کے مطالعے نے میری سوچ بدل دی۔


قدیم زمانوں میں انسانوں کا حال یہ تھا کہ جو چیز حیرت سے دوچار کرتی تھی اس کی پرستش شروع کردی جاتی تھی۔ اس کی نظر پیکر محسوس کی خوگر تھی اور اس نے درختوں اور پتھروں کو اپنا مسجود بنا رکھا تھا۔ انسان چاہتا تھا کہ کسی خاص چیز کو پوجنے کی اجازت مل جائے اور وہ اُسے پوجتا رہے۔ فروغ علم کے ساتھ انسان نے اپنے قدیم تصورات کو ترک کردیا اور اب وہ اپنے عقائد میں زیادہ منطقی ہوگیا ہے۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم خدا کو تجرباتی طور پر جان سکیں اس لیے خدا کے بارے میں ہمارے تصورات میں لازمی طور پر ابہام پایا جانا چاہیے۔

مذہبی روایات بہت پیچیدہ اور تہہ دار ہوتی ہیں۔ مذہب ماورائیت کی کھوج اور معنویت کی نہ ختم ہونے والی تلاش کا نام ہے۔ مذہب کا وجود سائنس سے مختلف ہے۔ اشیا کے بارے میں فطری علوم کی مانند توضیح کرنا مذہب کا کام نہیں۔ مذہب ہمیں پوری متانت کے ساتھ تخلیقی انداز سے زندگی بسر کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ اُن عقلی اشکال کا حل پیش کرنا مذہب کا کام نہیں، جو ابھی فطری علوم کی گرفت سے بھی باہر ہیں۔

خدا سے انکار کا رجحان تاریخ کے ہر دور میں رہا ہے۔ جب یونان میں عقلی علوم کا زور تھا تب بھی یہ رجحان عروج پر تھا۔ قرون وسطیٰ میں بھی فطری علوم کا دائرہ وسیع تر ہوتے رہنے سے مذہب سے بیزاری اور خدا کے وجود سے انکار کا رجحان توانا تر ہوتا چلا گیا۔ فی زمانہ بھی خدا کے وجود سے انکار کا رجحان خاصا مضبوط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا سے انکار کے رجحان کو پھیلانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ اس معاملے میں یورپ سب سے آگے ہے۔ برطانیہ میں پروفیسر رچرڈ ڈاکنز، سام ہیرس، کرسٹوفر ہچنز اور دوسرے دانشور حضرات بڑی شد و مد سے مذہب کے خلاف لکھ رہے ہیں اور اسے تمام برائیوں کا مرکز و منبع قرار دے رہے ہیں۔ ان کا موقف ذہنی رجحان سے کئی قدم آگے جاکر مکتبۂ فکر بنتا جارہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایسا رجحان یا نظام فکر ہے جس کے نزدیک فطرت ہی سب کچھ ہے … اور یہ کہ نظام فطرت کی توضیح کے لیے کسی مافوق الفطرت ہستی یا دلیل کی ضرورت نہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جو کچھ مذہب کے نام پر آج عقائد کی دنیا میں رائج ہے وہی تمام مسائل، مصائب، خوں ریزی اور فساد کی بنیاد ہے۔ اِن تمام اہلِ دانش کے نزدیک مذہب نے انسان کو آج تک بے سکونی کے سوا کچھ نہیں دیا۔

آئیے دورِ جدید میں خدا اور مذہب پر کیے جانے والے چند اعتراض کا جائزہ لیں۔ اولین نکتہ خدا کے وجود سے انکار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دور جدید میں سائنس نے کائنات کو جان لیا ہے اس لیے اب خدا کی کوئی حیثیت بھی نہیں رہی اور اُس کے وجود کے لیے گنجائش بھی نہیں رہی۔ اس حوالے سے جرمن فلسفی فریڈرک نطشے کا مشہور جملہ دہرایا جاتا ہے کہ خدا کی (نعوذ باللہ) رحلت واقع ہوچکی ہے۔

جب نطشے نے ۱۸۸۲ء میں ’’مرگِ خدا‘‘ کا اعلان کیا تھا تب اس کا خیال تھا کہ فطری علوم و فنون کی روشنی میں لوگ بہت جلد مذہب کے اصل خد و خال کو جان لیں گے۔ ۱۹۹۹ء میں برطانوی جریدے دی اکنامسٹ نے اپنا مشہور خصوصی شمارہ God is Dead شائع کیا۔ اس شمارے کے ذریعے اعلان کردیا گیا کہ اب انسان کو خدا کی ضرورت نہیں۔

۱۹۷۰ء کے بعد سے دنیا کے ہر مذہبی عقیدے کا سیاسی بنیاد پر احیاء ہوا اور بنیاد پرستی کو تیزی سے فروغ پانے کا موقع ملا۔ ایران میں ایک آیت اللہ نے شاہ کا تختہ الٹ دیا، اسرائیل میں مذہبی صہیونیت ابھری۔ امریکا میں جیری فالویل جیسے پادریوں اور مبلغین نے غیر معمولی شدت سے ’’سیکولر ہیومن ازم‘‘ کی مخالفت کی۔ یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ مذہب اب بھی انسانوں کی زندگی میں نمایاں اور اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہاں، کردار کی نوعیت اور فعالیت کے حوالے سے بحث کی جاسکتی ہے لیکن نائن الیون کے بعد سے خدا نے شاید یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اپنے پورے (تصور) وجود کے ساتھ انسانوں کی زندگیوں میں دخیل ہے اور جہاں تک کے اس کے وجود سے متعلق عالمگیر سطح پر ہونے والے مباحث کا تعلق ہے تو وہ کسی شبہے سے بھی ماورا ہے۔ اگر کسی کو اس بات میں اب بھی شبہہ ہے تو امریکا پر جہادیوں کے حملے، مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی، وائٹ ہاؤس میں انتہاپسند عیسائیوں کا تسلط اس کے شبہات کے ازالے کے لیے کافی ہیں۔ دی اکنامسٹ کے مدیر اعلیٰ نے حال ہی میں ’’خدا کی واپسی‘‘ کے زیر عنوان کتاب لکھی ہے۔

ایک طرف یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ہماری زندگی میں خدا کی کیا اہمیت ہے۔ اور دوسری طرف ایک نئی بحث اس موضوع پر بھی ہو رہی ہے کہ خدا کا وجود دنیا میں کسی خیر کا موجب ہے بھی یا نہیں! رچرڈ ڈاکنز، سام ہیرس اور کرسٹوفر ہیچنز جیسے ملحدوں اور دہریوں نے مذہبی عقائد کو بدی اور شر سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تینوں اپنے آپ کو مذہب مخالف تحریک کا ہراول دستہ سمجھتے ہیں اور انسانی شعور کی گہرائیوں میں پیوست مذہبی عقائد کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ مذہب تفریق، نزاع اور جنگوں کا باعث ہے، یہ عورتوں کو محبوس اور بچوں کے اذہان کو تبدیل کردیتا ہے، اس کے عقائد کہنہ و فرسودہ، اس کا انداز غیر سائنسی اور غیر عقلی اور اس کی تشریحات غیر منطقی ہیں، یہ محض سادہ لوح اور کم فہم افراد کے لیے اچھی پناہ گاہ کا کردار ادا کرتا ہے۔

ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز اور اِسی قبیل کے دیگر افراد مذہب کے حوالے سے شدید غلطی فہمی اور خام خیالی کا شکار ہیں۔ ان کا سیاسی نقطۂ نظر بھی خام ہے۔ انسانی فطرت کے حوالے سے ان کی سوچ میں سقم پایا جاتا ہے۔ مذہب اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود انسان۔ دور قدیم کا انسان بھی کائنات سے ماورا کسی ایسی خالق اور پالنے والی ہستی کا تصور رکھتا تھا جو اس سے کہیں طاقتور اور عظیم ہے۔

انسان اپنے ابتدائی دور ہی سے کسی برتر وجود کے آگے سرنگوں رہا ہے۔ انسان جیسے جیسے باشعور ہوتا گیا، مذہبی تصورات و عقائد بھی پختہ تر ہوتے گئے۔ انسان ہمیشہ کسی نہ کسی سطح کی معنویت کی تلاش میں رہا ہے۔ معنویت کی تلاش انسان کا کام ہے۔ ہم نے کبھی کسی جانور کو کسی حوالے سے پریشان ہوتے نہیں دیکھا۔ جانوروں کو اخلاقی اصولوں کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اُن کے ایک لگی بندھی زندگی کا اہتمام کردیا گیا ہے۔ وہ اپنے کسی بھی فعل میں معنویت تلاش نہیں کرتے۔ انسان کی زندگی سے اگر معنویت ایک لمحے کے لیے بھی غائب ہوجائے تو وہ بہت تیزی سے مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ مذہبی نظریات بدلتے رہتے ہیں لیکن معنویت کی جستجو جاری رہتی ہے۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ’’خدا کہیں نہیں جارہا‘‘ بلکہ پوری طرح سے انسانوں کی زندگیوں میں شامل و داخل ہے۔

جب ہم مذہب کو ہدفِ استہزاء بناتے ہیں، اُسے مسترد کرتے ہیں تب ہم محض اُس کی خامیوں کی تشہیر کر رہے ہوتے ہیں۔ مذہب ہمیں بہت کچھ دیتا ہے مگر ہم اُس کی عنایات کا ذکر کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ ’’خدا کہیں نہیں جارہا‘‘ لہٰذا ہم سب کو مذہب کے حوالے سے شفقت و توازن کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ابتداء کرنی چاہیے۔

فی زمانہ یہ کہنا فیشن کا درجہ رکھتا ہے کہ مذہب اور سیاست کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ یہ اعتراض بھی مذہب سے متعلق غلط فہمی یا سیاسی نظریات کی غلط تفہیم کے بطن سے ہویدا ہوا ہے۔ مذہب سے یکسر نابلد بہت سے سیاست دانوں نے مذہب کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ خدا کے حوالے سے ناکافی تفہیم نے اسے انسانی تخیلات میں ایک ’’بت‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے جو ہماری پسند و ناپسند کو تقدیس کا جواز مہیا کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ فکری و روحانی مطلق العنانیت ہے۔ اسی فکری نخوت سے بڑے مسائل نے جنم لیا ہے اور اس کی بنیاد پر ڈھائے جانے والے مظالم نے مذہبی جنگوں کی شکل اختیار کی ہے۔ حکومتی اور ریاستی سطح پر ’’لادینیت‘‘ (سیکولرازم) کا آغاز دراصل اسی طرزِِ عمل کی تحدید کے لیے کیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ اب لادینیت خود ایک عفریت بن چکی ہے اور پوری تندہی سے دنیا کو ضرر پہنچارہی ہے۔

مغرب میں سیکولرازم کو کامیابی سے اپنایا گیا ہے کیونکہ یہ جدید معاشیات اور سیاسی نظام کے لیے لازمی تھا تاہم یہ سب کچھ راتوں رات یا اچانک نہیں ہوگیا بلکہ اسے معاشرے کی ہر سطح تک پہنچانے اور مقبول عام بنانے میں کم از کم تین سو برس لگے ہیں۔ دیگر خطوں میں سیکولر ازم بہت تیزی سے پھیلا۔ ہاں، اِسے پنپنے کا موقع نہیں مل سکا اور عوام اس کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی نہ تھے۔ یہی سبب ہے کہ اِسے مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

کسی بھی معاشرے میں سیکولر ازم کے فروغ کی کوششوں نے بعض اوقات معکوس نتائج پیدا کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مذہبی ادارے یا تو مزید قدامت پسند ہوگئے یا پھر انہوں نے بنیاد پرستی کو اپنالیا۔ مثال کے طور پر مصر میں جب محمد علی نے تحریک اصلاح کا آغاز کیا تو انہوں نے اس دوران مذہبی اداروں کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے تنقید کے نشتر نے کسی مذہبی عالم کو بھی نہ چھوڑا تو خود ان کے اپنے ساتھیوں نے اپنی راہیں الگ کرلیں اور تبدیلی کے عمل میں ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ ایران میں شاہ نے ملاؤں اور مذہبی رہنماؤں پر ظلم کی انتہا کردی تو اقتدار ملنے پر ملاؤں نے بھی غیر معمولی سختی سے کام لیا۔ ان کا خیال تھا کہ ریاست پر اپنی حاکمیت اور حکومت پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے یہ سب ناگزیر ہے۔

شیعیت میں ایک عرصے تک مذہب اور سیاست کو الگ الگ رکھا گیا تھا۔ آیت اللہ خمینی کی جانب سے ملا کو سربراہ حکومت بنائے جانے کا فیصلہ غیر معمولی فکری اجتہاد کے مترادف تھا۔ معتدل مذاہب سیاست میں تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں۔ مصر کے سابق مفتی اعلیٰ محمد عبدہ کا خیال تھا کہ مصر کے جمہوری اداروں کو اسلامی اقدار سے ہم آہنگ کیے جانے تک عوام کی اکثریت انہیں سمجھنے سے قاصر رہے گی۔

اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا نے اپنی اصلاحی تحریک کے دوران قرآن کی تفہیم جدید محاورے کے مطابق کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کلینک، مزدور یونین، اسکول اور کارخانے قائم کیے جہاں مزدوروں کو انشورنس، بہتر اجرت اور کام کا صحت مند و محفوظ ماحول فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ سب کچھ کرنے کا مقصد یقیناً لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا اور اسلامی تعلیمات و احکام کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں ہر شعبۂ زندگی کے حوالے سے جدیدیت کی طرف مائل کرنا تھا۔ انہی تمام سرگرمیوں کے نتیجے میں اخوان المسلمون نے مختصر عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور مصر کی سیکیولر حکومت کے لیے خطرے کی علامت بن گئی۔ ۱۹۴۹ء میں حسن البنا کو قتل کردیا گیا۔ اخوان المسلمون پر بے پناہ سختیاں کی گئیں۔ اس کے ہزاروں کارکنوں کو یا تو قتل کردیا گیا یا پھر عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس کے ردعمل میں اخوان کے بیشتر ارکان بنیاد پرست اور انقلاب پسند بن گئے۔

یہ بات البتہ درست ہے کہ مذہب کو سیاست کے لیے غلط انداز سے بروئے کار لانے سے کہیں بہتر ہے کہ اِسے الگ رکھا جائے۔ متعدد امریکی صدور نے مذہب کو ایک ایسا مشترکہ تجربہ قرار دیا ہے، جس نے تمام امریکیوں کو ایک لڑی میں پرو رکھا ہے۔ ان کے اس بیان سے عیسائی روحانیت کی تسکین کا اظہار ہوتا ہے حالانکہ اُن الوہی اختیارات کو ظاہراً کبھی اپنایا نہیں جاتا۔ ویسے امریکی پروٹسٹنٹ بنیاد پرستوں کی تشفی کے لیے اتنا کہہ دینا کافی نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کو خالص عیسائی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔

ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ خدا یا مذہب تشدد اور عدم برداشت کو فروغ دیتا ہے۔ اس کا جواب اگر ایک جملے میں دیا جائے تو وہ یوں ہوگا کہ یہ سب کچھ تو انسان خود کرتا ہے۔ مذہب کے حوالے سے تشدد کے فروغ کا الزام ہم سب سوچے سمجھے بغیر اور آنکھ بند کرکے درست تسلیم کرلیتے ہیں اور کبھی غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب تشدد پر نہیں اکساتا۔ الہامی کتابوں کی تشریح یقیناً الہامی نہیں، اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے مواقع پر حکومت کے تسلسل کا جواز پیدا کرنے کے لیے من پسند تشریحات لکھوائی گئیں۔

کرسٹوفر ہچنز نے اپنی کتاب ’’خدا عظیم نہیں‘‘ (God is not Great) میں اسی طرز فکر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے ’’مذہب فطرتاً تشدد پسند ہوتا ہے۔ اس سے وابستہ لوگ عمومی طور پر عدم برداشت کے رویے کے حامل ہوتے ہیں اور عام طور پر مذہب نسل پرستانہ، قبائلی اور متعصب ہوتا ہے، حتیٰ کہ بہت سے اعتدال پسند لوگ اسی رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔

کرسٹوفر نے اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ یہ خدا یا مذہب کا معاملہ نہیں بلکہ بذات خود تشدد کا مسئلہ ہے۔ تشدد دراصل انسانی فطرت کی گہرائیوں میں کہیں موجود ہے جو اسے اس راہ پر بار بار لے جاتا ہے۔ انسان زندہ رہنے کے لیے جانوروں کو ذبح کرتا ہے، انہیں کھاتا ہے، دوسرے انسانوں کو بھی قتل کردیتا ہے اور خون بہانے کا یہ سلسلہ ہزاروں برسوں سے جاری ہے۔ صدیوں کے اس عمل کے دوران خوں ریزی کی یہ داستانیں، کبھی کم کبھی زیادہ، کسی نہ کسی طور مذہبی کتب میں بھی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ تشدد پسندی کو قابو میں رکھنے کے لیے مذہبی کتب ہی میں ایسے احکامات بھی موجود ہیں جن میں انسانوں سے کہا گیا ہے کہ اخلاقی اقدار کو اپنائیں اور کسی پر ظلم نہ ڈھائیں۔ انسانوں سے کہا گیا ہے کہ دوسروں سے وہی سلوک روا رکھو جو تم اپنے لیے چاہتے ہو۔ مذہبی کتب میں کسی انسان کے بلا جواز قتل کو دس بڑے گناہوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے گناہ کے ارتکاب سے ہر حال میں مجتنب رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن میں ایک انسان کے (بلا جواز) قتل کو تمام انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز اور کرسٹوفر ہچنز کا دعویٰ ہے کہ خدا تمام انسانی مظالم کا مرکز ہے۔ یہ حقیقت انہوں نے البتہ نظر انداز کردی ہے کہ آج کا سیکولر معاشرہ بھی بے انتہا تشدد پسند ہے اور جدید ٹیکنالوجی نے اسے بے نظیر قتل عام کے قابل بنادیا ہے۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ہمیں گیارہ ستمبر کو ٹیکنالوجی کے ذریعے تباہی کا یہ وحشت ناک مظاہرہ مذہب کے نام پر ہی دیکھنا پڑا۔

اب تک جتنی بھی مذہبی جنگیں لڑی گئی ہیں ان سب کی ابتدا سیاسی محاذ پر ہوئی۔ ۱۷ ویں صدی کے یورپ کا بھی یہی حال تھا۔ جب پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقے آپس میں دست و گریباں تھے اور تمام یورپ میں آگ لگی ہوئی تھی تب بھی جنگ و جدل کے پس پردہ محرکات سیاسی ہی تھے۔ فلسطینیوں کی قومی تحریک کا آغاز بھی پہلے پہل بائیں بازو کی سیکیولر جماعت کی حیثیت سے ہوا جس نے بعد ازاں واضح طور پر اسلامی قومی تحریک کی شکل اختیار کی۔ نام نہاد جہادیوں کے تمام افعال کے محرکات بھی سیاسی ہی ہوتے ہیں۔

امریکا میں ہونے والے ایک مطالعے کے دوران ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۴ء تک ہونے والے خودکش حملوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے ۹۵ فیصد واقعات کے پس پردہ محرکات نہایت واضح تھے یعنی حملہ آور اپنے دشمنوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ان کی سرزمین کو، جس پر اس نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، خالی کردے اور انہیں ان کی مرضی سے زندگی گزارنے دے اور یہ جارحانہ رویہ بھی مذہب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ۳۵ مسلم ممالک میں کیے گئے گیلپ کے ایک سروے کے مطابق صرف ۷ فیصد افراد نے ۱۱ ستمبر کے حملوں کو جائز قرار دیا تاہم انہوں نے بھی اس جواز کو سیاسی بنیاد فراہم کی ہے۔

بنیاد پرست ہونے کا مطلب قدامت پرست ہونا ہرگز نہیں، بلکہ یہ انتہائی جدت کا حامل نظریہ ہے کیونکہ یہ پیش پا بحرانوں کے دوران پروان چڑھتا ہے اور دوران اضطراب یا اندیشہ کچھ بنیاد پرست انہی روایت کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں جن کا وہ دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ابوالاعلیٰ مودودی پہلے مسلم اسکالر تھے جنہوں نے ’’جہاد‘‘ کی اہمیت و معنویت کو نمایاں کرتے ہوئے اسے ’’مقدس جنگ‘‘ کی حیثیت سے نمایاں کیا، وگرنہ اس سے قبل یہ لفظ نفس کے خلاف جہاد کے معنوں میں زیادہ مستعمل تھا اور یہ اسلام کے بنیادی فرائض میں سے تھا۔ ابوالاعلیٰ اور مصر کے سید قطب دونوں اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ جہاد کی یہ تفہیم متنازع ہوسکتی ہے لیکن ان کا موقف تھا کہ بڑھتے ہوئے مغربی استعمار اور حکومتی سیکیولر پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ نظریہ اپنے وجود کا جواز رکھتا ہے۔

مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں بنیاد پرستی کا تعلق فنا ہوجانے کے گہرے احساس و خوف سے ہے۔ سید قطب نے اپنے نظریے کو قید کے دوران پروان چڑھایا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب کبھی اس طرح کے گروہوں پر سختی برتی گئی، ان پر حملے کیے گئے تب وہ انتہا پسندی کی طرف مزید مائل ہوئے۔

خدا پر ایک بنیادی اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ ہمیشہ غریبوں اور جاہلوں کے سہارے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اعتراض بھی سطحی معلوم ہوتا ہے کیونکہ خود جدید ملحدین پرزور اصرار کرتے ہیں کہ مذہب کا خیال بچگانہ اور غیر معقول ہے اور بقول کرسٹوفر اس سے وابستگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ معاشرہ ابھی عہد طفولیت میں ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یقیناً مغربی دانشوروں کے لیے یہ بات دل شکستگی کا باعث ہے کہ باوجود اس کے کہ دور جدید میں انسانیت کے سامنے انتخاب اور کامیابی کے بے شمار مواقع موجود ہیں، لوگ مذہب پر پہلے ہی کی طرح انحصار کرتے ہیں۔

خدا صرف غریبوں کے لیے ہے یہ خیال اس لحاظ سے بھی عجیب معلوم ہوتا ہے کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور دولت مند ملک میں بھی خدا سے تعلق اور وابستگی کا اظہار ختم نہیں ہوگیا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب کسی بھی کاروبار پر کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی آپ کو پیسہ کمانے سے منع کرتا ہے۔ بائبل اور قرآن میں بے شک سود کی حرمت بیان کی گئی ہے لیکن صدیوں کے ارتقائی عمل کے دوران یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں نے اس پابندی کے باوجود بے انتہا ترقی کرتی ہوئی معیشتیں قائم کی ہیں۔ یہ مذہبی تاریخ کی سب سے بڑی ستم ظریفی ہے کہ عیسائیت نے ایک ایسا تہذیبی و ثفافتی ماحول پروان چڑھایا جو جدید سرمایہ دارانہ نظام کے لیے ضروری تھا حالانکہ عیسائیت کے بانیوں نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’یہ ممکن نہیں کہ تم خدا اور ساہوکار کی یکساں اطاعت و خدمت کرسکو‘‘۔

یہ کہنا سراسر بے بنیاد ہے کہ مذہب غریبوں کے لیے ہوتا ہے۔ مذہب نے ہمیشہ انسانی فطرت میں پائی جانے والی طمع کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے تلقین کی ہے کہ دولت کی مساوی یا منصفانہ تقسیم یقینی بنائے تاکہ طبقاتی فرق پیدا نہ ہو۔ دولت کے حصول اور تقسیم سے متعلق مذہب کی تعلیمات پر متوجہ نہ ہونے ہی سے ہمیں کساد بازاری دکھائی دے رہی ہے۔ چند بڑے کاروباری و مالیاتی اداروں کی حرص پسند پالیسیوں کے باعث ہمیں پوری دنیا میں مہنگائی اور بڑھتی ہوئی غربت دکھائی دے رہی ہے۔ مذہب نے زندگی کے معاشی پہلو کو متوازن اور مستحکم رکھنے کے لیے جو احکامات دیئے ہیں ان پر عمل کے لیے غیر معمولی قوتِ ارادی درکار ہوتی ہے۔ یہ خاصا پُرمشقّت مرحلہ ہے۔ مذہب شخصی اغراض اور خود پسندی کے خلاف جانے کو کہتا ہے۔

مذہب پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ یہ عورت کے خلاف جاتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تشریحات اور پھر ان کے نتائج کے حوالے سے دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں سے کوئی بھی عورتوں کے حق میں جاتا دکھائی نہیں دیا ہے۔ ماضی میں کبھی کوئی روایت اگر عورتوں کے حق میں مثبت بھی رہی ہے تو کچھ نسلوں کے بعد ہی اسے گھسیٹ کر مردوں کے خانے میں ڈال دیا گیا۔ وقت بدل رہا ہے۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی عورتیں مردوں کو چیلنج کر رہی ہیں اور مساوی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

دورِ جدید کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک عورتوں کا بندشوں سے آزاد ہوجانا بھی ہے۔ اسی لیے بنیاد پرست جب دور جدید کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہیں اور اس کے اداروں کی مخالفت کرتے ہیں تو زور اسی بات پر ہوتا ہے کہ معاشرے میں اسی قدیم جنسی تقسیم اور صنفی مراتب کا احیاء کیا جائے جو اس سے قبل رائج تھا، اور جس میں مردوں کی حاکمیت تھی اور عورتیں دوسرے درجے کے ساتھ رہتی تھیں۔ بدقسمتی سے مردانہ حاکمیت کی طرز عمل پر براہ راست حملوں نے معکوس نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔ جب کبھی کسی ترقی یافتہ جدید حکومت نے عورتوں کے حجاب پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی ہے تو ردعمل کے طور پر ہی سہی، عورتوں کی بڑی تعداد نے اُسے اپنایا ہے۔

۱۹۳۵ء میں رضا پہلوی کے فوجیوں نے مشہد میں ان نہتے مظاہرین پر گولیاں چلائیں جو حکومت کی جانب سے مغربی لباس کو لازمی قرار دیے جانے کے خلاف پُرامن احتجاج کر رہے تھے۔ حکومت کی جانب سے بالجبر جدیدیت کو اپنانے کی کوششیں کبھی بارآور ثابت نہیں ہوسکیں۔ ایسے ہی اقدامات کا نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ حجاب، جو کبھی عالمگیر مسئلہ نہیں تھا، آج لازمی اسلامی شناخت کا حامل ہوچکا ہے اور اِسے اپنانے کا مطلب اسلامی تہذیب و ثقافت سے یگانگت کا اظہار کرنا ہے۔

کچھ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ جدید ہونے کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا ضروری نہیں اور نہ ہی ان کے طور طریقوں کو اپنانا چاہیے کیونکہ مغربی فیشن عام طور پر دولت اور امتیاز کی نمائش کرتا ہے جبکہ اسلامی لباس قرآن کے بتائے ہوئے مساوات کے اصول پر زور دیتا ہے۔ اور اِسی لیے لازم ہے کہ مغرب ان مسلم تحریکوں کا ساتھ دے جو تعلیم، ملازمت اور سیاست میں عورتوں کی شمولیت کے لیے جد و جہد کر رہی ہیں۔

مذہب پر لگائے گئے الزامات کی فہرست میں ’’علم دشمنی‘‘ کا الزام نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ خدا کو سائنس کا دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا خدا فطری علوم کا دشمن ہے؟ خدا کو سائنس سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے بھلا؟ یہ تو بنیاد پرست عیسائی ہیں جو فطری علوم کے دشمن ہیں اور چاہتے ہیں کہ کہ بچوں کو نظریۂ ارتقاء بالکل نہ پڑھایا جائے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ نظریہ بائبل کی تعلیمات سے متصادم ہے۔ دور جدید سے قبل کچھ لوگ بائبل کے ’’باب پیدائش‘‘ میں بتائے گئے ابتدائے آٰفرینش کے بیان کو کلی طور پر درست سمجھتے تھے لیکن اب جبکہ سائنس اس حوالے سے الگ موقف اور دلائل رکھتی ہے تو مذہبی علما اصرار کرتے ہیں کہ اگر بائبل کی تعلیمات فطری علوم سے متصادم نظر آئیں تو بائبل میں بیان کیے گئے استعاروں اور تشبیہات کی تفہیم نو کی ضرورت ہے۔

علم کی دنیا کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ تمام انسانی علوم دراصل معاشرے کی بہتری اور انسانی ذہن کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔ سائنس سے تصادم دراصل مغرب میں رائج خدا کے تخفیف شدہ تصور کی علامت ہے۔ فطری علوم کا طریق تجرباتی ہے اس لیے مذہب کی حاکمیت کے لیے اس سے وابستہ افراد نے خدا اور مذہب کے فرمودات کو فطری علوم کے بیان کردہ حقائق کی طرح ماننا شروع کردیا اور اُنہیں فطری علوم ہی کی طرح عقلی و منطقی قرار دیا۔

بنیاد پرستوں کی اکثریت جدیدیت کے خلاف کمربستہ ہیں جبکہ عیسائی بنیاد پرستوں کے نزدیک جدید دنیا میں موجود خامیوں کا اصل سبب نظریۂ ارتقاء ہے۔ یہ لوگ نظریۂ ارتقاء کو فطری علوم کے ایک مظہر کے طور پر کم اور بدی کی علامت کے طور پر زیادہ پھیلاتے ہیں۔ دوسری طرف اسلام اور یہودیت میں ہمیں جدید فطری علوم کے حوالے سے معاندانہ رویہ یا تعصب کم نظر آتا ہے۔ ان مذاہب میں تمام بنیاد پرست تحریکوں کی اصل سیاسی محرکات ہیں۔ ہمیں ان تمام بنیاد پرست تحریکوں کے پس پردہ بہت کم ایسی وجوہ ملیں گی جن کی بنیاد عقیدے پر یا پھر فطری علوم سے دشمنی پر مبنی ہوں۔

خدا ناشناس دانشور اکثر یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا جمہوریت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یقیناً یہ مفروضہ بھی بے بنیاد ہے۔ سیموئل ہنٹنگٹن نے آنے والے وقتوں میں ایک آزاد دنیا اور اسلام کے درمیان تہذیبی بنیاد پر تصادم کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ ان کے خیال میں یہ تصادم جمہوری اصولوں اور اقدار کے منافی ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز میں تقریباً تمام مسلم دانشور مغرب کی محبت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ اس دور میں وہ تمام لوگ چاہتے تھے کہ ان کے ممالک بھی برطانیہ اور فرانس جیسے ہوجائیں۔ مسلمانوں کو جدید مغربی جمہوری اقدار سے جس شے نے متنفر کیا وہ مذہب نہیں بلکہ خود مغربی حکومتوں کی دخل اندازی تھی۔ مغربی حکومتوں نے متعدد مسلم ممالک میں مطلق العنان حکمرانوں کی سرپرستی کی جن میں شاہ ایران، صدام حسین اور حسنی مبارک جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان حکمرانوں نے اپنے ممالک میں لوگوں کو بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق سے محروم کیا۔ ایران، مصر، عراق اور دوسرے بہت سے مسلم ممالک کے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر مغرب بے جا مداخلت نہ کرتا اور جمہوری عمل کو پنپنے دیتا تو عوامی طاقت ان حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیتی اور یوں جمہوری اقدار معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر جاتیں۔

۲۰۰۷ء کے ایک عالمگیر سروے کے مطابق مسلم دنیا میں آزادی و جمہوری اقدار اور عورتوں کے حقوق کے حوالے سے حمایت بڑھ رہی ہے اور وہاں کی حکومتوں کو بھی اب با دل ناخواستہ سیاسی عمل میں آزادی دینا پڑ رہی ہے تاہم مغربی سیکولر ازم کو پوری طرح اپنانے میں شدید مخالفت و مزاحمت پائی جاتی ہے۔ اکثریت چاہتی ہے کہ ان کی زندگیوں میں خدا کے فرمان کی جھلک واضح ہو۔ امریکا میں ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ ۴۶ فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ قانون سازی کے عمل میں خدا کو محور و مرکز کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔

بیشتر مغرب پسند ذہن شرعی قوانین کو فرسودہ قرار دے کر ان کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ شیخ علی جمعہ اور طارق رمضان جیسے اہل دانش کا کہنا ہے کہ شرعی قوانین میں وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضرورتوں کے تحت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ کسی بھی مسلم مفتی کی جانب سے دیا گیا فتویٰ تمام مسلمانوں کو عالمی سطح پر عمل کا پابند نہیں کرتا۔ کوئی فتویٰ دراصل مفتی کی اپنی رائے پر مبنی ہوتا ہے۔ اور یہ رائے وہ اپنے فہم کی بنیاد پر جاری کرتا ہے۔ مسلمانوں میں چونکہ مختلف مکاتب فکر پائے جات ہیں اس لیے لوگ اپنے اپنے مکتب فکر کے مفتی کے پاس جاتے ہیں۔ یوں ہمیں مسلم دنیا میں مذہبی فکر کی ’’فری مارکیٹ‘‘ نظر آتی ہے جہاں کسی پر کسی سے کوئی بات منوانے کے حوالے سے کوئی جبر نہیں۔

دنیا میں سیاسی مسائل کی جڑ یا بنیادی سبب مذہب نہیں۔ ہاں، ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مذہب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکی پالیسی میکرز نے شیعیت کا مطالعہ کیا ہوتا تو ایرانی انقلاب کے بعد ان سے بھیانک غلطیاں سرزد نہ ہوئی ہوتیں اور مشکلات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا۔ تمام سیاسی مشکلات اور پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ہمیں مذہب کا مطالعہ غیر جانب داری اور درستی سے کرنا ہوگا جیسا کہ ہم معاشیات، سیاسیات یا دیگر سماجی و بشری علوم کا کرتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلے گا کہ مذہب کس طرح زندگی کے دیگر شعبوں کو باہم لے کر چلنا چاہتا ہے، اس کے افعال کیا ہیں اور ان افعال کو نہ سمجھنے کے عواقب کیا ہوتے ہیں۔

---------------
“Think again God”. (“Foreign Policy” USA.)
by Karen Armstrong
(ترجمہ: تنزیل الرحمن)
اشاعت : پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی