جنگ آزادی : رابندرناتھ ٹیگور، شانتی نکیتن ، تعلیم اور آزادی ۔

رابندرناتھ ٹیگور 

بنگالی زبان کے نوبل انعام یافتہ شاعر، فلسفی اور افسانہ و ناول نگار رابندر ناتھ ٹیگور کا اصل نام رویندر ناتھ ٹھاکر۔ ٹیگور ٹھاکر کا بگاڑ ہے۔ آپ 1861ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔

رابندر ناتھ ٹیگور 
 ابتدائی تعلیم کلکتہ میں ہی حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب صرف 17 برس کی عمر میں منصہ شہود پر آئی۔ پھر قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر 1878ء میں انگلستان گئے، ڈیڑھ سال بعد ڈگری لیے بغیر لوٹ آئے اور اپنے طور پر پڑھنے لکھنے اور اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے میں مصروف ہو گئے۔ 

اس دوران میں کئی افسانے لکھے اور شاعری کی جانب بھی توجہ دی۔ ٹیگور نے زیادہ تر چیزیں بنگالی زبان میں لکھیں۔ 1901ء میں بولپور بنگال کے مقام پر شانتی نکتین کے نام سے مشرقی اور مغربی فلسفے پر ایک نئے ڈھنگ کے مدرسہ کی بنیاد ڈالی، جس نے 1921ء میں یونیورسٹی کی شکل اختیار کی۔ شانتی نکیتن میں اپنی بنگالی تحریروں کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس کے باعث ان کی مقبولیت دوسرے ملکوں میں پھیل گئی۔ یورپ، جاپان، چین ،روس ،امریکا کا کئی بار سفر کیا ۔

1913ء میں ادب کے سلسلے میں نوبل پرائز ملا۔ اور 1915ء میں برطانوی حکومت ہند کی طرف سے ’’سر‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ لیکن برطانوی راج میں پنجاب میں عوام پر تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پرانہوں نے ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ 

ٹیگور نے اپنی زندگی کے آخری حصہ میں کم و بیش پوری متمدن دنیا کا دورہ کیا اور لیکچر بھی دیے۔ 1930ء میں ’’انسان کا مذہب‘‘ کے عنوان سے لندن میں کئی بلند پایہ خطبات ممالک اورنیویارک میں اپنی ان تصاویر کی نمائش کی۔ جو 68 برس کی عمر کے بعد بنائی تھیں۔ تین ہزار گیت مختلف دھنوں میں ترتیب دیے۔

 بے شمار نظمیں لکھیں، مختصر افسانے لکھے۔ چند ڈرامے بھی لکھے۔ ہندوستان کی کئی جامعات اور آکسفورڈ یونیورسٹی نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی۔ آپ کو بنگالی زبان کا شکسپیئر بھی کہتے ہیں۔

بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ بنگالی۔ انگریزی کے ادبی نوبل انعام یافتہ ادیب،شاعر اور ڈراما نگار رابند ناتھ ٹیگور اسٹیج کے اداکار بھی تھے۔ 1881ء میں کھینچی گئی اس تصویر میں ٹیگور اپنے لکھے ھوئے ڈرامے “ولمکی پرتیھبا“(عقل مند ولمکی) میں اندرا دیوی کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ ٹیگور نے تین ہزرا گیت لکھے۔ سات  ڈرامے ان کے ذخیرہ تحریر میں ہیں۔ ان کے مشہور ڈراموں میں ‘ڈاک گھر‘، ‘راجا ‘اور ‘گورا‘ کے نام لیے جاتے ہیں۔

1901ء میں ٹیگور، ایک آشرم بنانے کے لیے شانتی نکیتن منتقل ہوئے۔ اس میں سنگ مرمر کا ایک عبادت خانہ اور ایک مندر، ایک تجربہ گاہ اور اسکول، پیڑوں سے لدا علاقہ، باغات، ایک کتب خانہ بنایا ۔ اسی  جگہ ان کی اہلیہ اور دو بچوں کا انتقال ہوا۔ ان کے والد بھی 1905ء میں یہیں پر انتقال کر گئے۔ ان کو تریپورہ کے مہاراجا کی جانب سے ماہانہ وراثتی تنخواہ ملا کرتی تھی۔۔

1934ء کے بعد ٹیگور کی صحت خراب ہو گئی اور 1941ء کو یہ عظیم افسانہ نگار بمقام کلکتہ انتقال کر گئے۔

شانتی نکیتن 

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد اقتدار براہِ راست تاج برطانیہ کے پاس آ گیا‘ جس نے ایک خاص منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کے ذہنوں میں فرنگی زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی کی برتری بٹھانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ اس عمل میں تاج برطانیہ نے مغربی طرزِ تعلیم کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہی وہ زمانہ تھا‘ جس میں بنگال کے ایک گھرانے میں رابندر ناتھ ٹیگور نے آنکھ کھولی‘ اور جس نے آنے والے دنوں میں ہندوستانی نوجوانوں نے ایک کثیر تعداد کے ذہنوں کو متاثر کیا۔
شانتی نکیتن کا ایک منظر 
ٹیگور کے والد ایک مذہبی شخصیت تھے۔ کہتے ہیں ایک روز ٹیگور اپنے والد کے ہمراہ بنگال کے علاقے بول پور میں سفر کر رہے تھے کہ اچانک ٹیگور کے والد ایک پر فضا جگہ پر رک گئے۔ چاروں سمت ایک عجیب دل آویز سکوت تھا۔ سر سبز درختوں کے گھیرے میں یہ جگہ جنت کا ٹکڑا معلوم ہوتی تھی۔ ٹیگور کے والد نے اسی وقت ارادہ کر لیا کہ وہ اس جگہ کو خریدیں گے اور وہاں ایک ایسا ٹھکانہ بنائیں گے‘ جہاں گہرے سکوت میں مراقبہ کر سکیں۔ یہ جگہ شانتی نکیتن تھی جو بعد میں عالم گیر شہرت اختیار کر گئی۔

1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد کا زمانہ مقامی ہندوستانی باشندوں کے لیے مایوسی کا زمانہ تھا۔ ٹیگور کا تعلق بنگال سے تھا۔ وہ دیہات میں غریب کسانوں کی حالتِ زار سے آگاہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے معاشی، ثقافتی اور مذہبی استحصال نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ فرنگی پروپیگنڈے نے ہندوستانی رعایا کے ایک بڑے حصے کو اپنا اسیر بنایا ہوا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی اس مشترکہ مزاحمت کا اظہار تھا جس میں ہندوستان میں بسنے والی ساری قوموں نے بلا امتیازِ مذہب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کو للکارا تھا۔ اس جنگ میں اگرچہ مقامی لوگوں کو کامیابی نہ مل سکی لیکن کمپنی کے اقدار کی چولیں ہل گئیں۔ جنگ کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سرِ عام پھانسیاں دی گئیں اور کچھ کو طویل عرصے کے لیے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔

ٹیگور کے حساس طبیعت اپنے ہم وطنوں کی حالتِ زار پر کڑھتی تھی۔ وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں احساس تھا کہ جسمانی غلامی سے بدتر ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے باسیوں کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کی زبان، تہذیب، ثقافت کم تر ہے اور وہ غیر مذہب ہیں۔ یہ پیغام اس تواتر سے دیا گیا تھا کہ عام لوگ فرنگی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب سے مرعوب اور اپنی ثقافت‘ اقدار اور زبان و ادب کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گئے تھے۔ اس وقت ایک طرف مقامی تعلیم کے مراکز تھے‘ جہاں تحقیق کو مرکزی اہمیت حاصل نہیں تھی اور دوسری طرف مغربی تعلیم کے مراکز کھل رہے تھے جہاں اقدار کو پسِ پشت ڈالا جا رہا تھا اور فرنگی تہذیب و ثقافت کے پیغام کو تقویت دی جا رہی تھی۔ ایسے میں ٹیگور نے ایک ایسے تعلیمی مرکز کے قیام کا ارادہ کیا جو مروجہ تعلیمی اداروں سے مختلف ہو۔ یوں 1901 میں وہ سکول وجود میں آیا‘ جسے شانتی نکیتن سکول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

ٹیگور کے اس سکول کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طلبا کو سوچ، اظہار اور انتخاب کی آزادی تھی۔ یہ سکول صرف کتاب اور سکول کی چہار دیواری تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ فطرت کی گود میں واقع ایک اوپن ایئر سکول تھا جو طلبا کو اپنے گرد و پیش کی اشیائے فطرت سے مکالمے کا موقع دیتا تھا۔ یہاں بنگالی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا گیا تھا۔ مقامی ثقافت کو اپنی پہچان کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ اس سکول کا مقصد محض طلبا کو خواندہ بنانا نہیں تھا بلکہ یہاں تعلیم کا جامع تصور کارفرما تھا جس میں طلبا کی علمی، جسمانی، ثقافتی اور روحانی نشوونما کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بنیادی مضامین کے علاوہ مصوری، ڈرامہ، ڈانس اور کتاب خوانی کی سرگرمیوں پر زور دیا جاتا تھا۔ سکول میں کوئی مستقل نصاب نہیں تھا۔

طلبا کی دلچسپی اور ضروریات کے مطابق نصاب میں تبدیلیاں کی جاتی تھیں۔ سکول میں طلبا کو اشیائے فطرت (Objects of Nature) کے قریب رہنے کا موقع ملتا۔ درخت، دھوپ، بارش، پانی، پرندے‘ ندیاں طلبا کی زندگی کا حصہ تھے۔ یوں شانتی نکیتن میں تعلیم کا ایک جامع (Holistic) تصور رائج تھا جس کے تحت طلبا کو زندگی کے چیلنجز کیلئے تیار کیا جاتا تھا۔

ٹیگور کو دیہات میں بسنے والے غریب کسانوں کی زبوں حالی کا احساس تھا۔ اس کے لیے سری نکیتن لٹریسی سینٹر قائم کیا گیا جس کے ذریعے کسانوں کو بنیادی خواندگی سکھائی جاتی۔ بعد میں ٹیگور نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک یونیورسٹی قائم کی جس میں تعلیم کا وہ تصور کارفرما تھا جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زبانوں اور ثقافتوں کو اس طرح پیش کیا جاتا کہ لوگ ان پر فخر کریں۔ یوں ٹیگور نے شانتی نکیتن کے تعلیمی اداروں کو Decolonization کے عمل کے لیے استعمال کیا۔ شانتی نکیتن محض ایک سکول نہ رہا بلکہ ایک تحریک بن گئی‘ جس کا بنیادی نکتہ حریت فکر تھا اور پھر 1919 میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے سانحے نے مزاحمت کا عمل اور تیز کر دیا۔ ٹیگور نے بطورِ احتجاج اپنا اعزاز واپس کر دیا۔ بول پور کے خاموش پُر سکوت علاقے شانتی نکیتن نے تعلیم کے ذریعے طلبا کو آزادیٔ افکار اور آزادیٔ اظہار کا درس دیا اور پھر انہیں طلبا نے ہندوستان کی آزادی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔

شانتی نکیتن کے کامیاب تعلیمی تجربے کے پس منظر میں ایک سب سے اہم بات ٹیگور کا تخلیقی ویژن تھا جس کے تحت تعلیم اور معاشرے میں گہرا تعلق پایا جاتا تھا اور جس میں طلبا کی تعلیمی، جسمانی، روحانی، ثقافتی اور ماحولیاتی نشوونما شامل تھی۔ جس میں آزادیٔ فکر تعلیمی عمل کا بنیادی جزو تھا۔ جس میں طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جاتی بلکہ ان کی نشوونما کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ جس میں طلبا کو محض کتابوں تک محدود کرنے کے بجائے زندگی کو بہتر بسر کرنے کی مہارتیں سکھائی جاتیں۔ جس میں اپنی زبان اور اپنی ثقافت پر فخر کرنا سکھایا جاتا۔ جس میں طلبا کو اعتماد کی قوت دی جاتی جو ان کے کردار و عمل میں نظر آتی۔ 

-------------------

تصانیف : 

شاعری
بھانو سمہہ ٹھاکرر پدولی (بھانو سمہہ ٹھاکرکے نغمے )۔.۔.(1884ء)
مانسی (مثالی)۔.۔. (1884ء)
سونار تاری (سونے کی کشتی)۔.۔. (1890ء)
گیتانجلی (نغموں کے نذرانے)۔.۔. (1910ء)
گیت مالا (نغموں کی مالا)۔.۔. (1914ء)
بلاکا (کرین کی اُڑان)۔.۔. (1916ء)
ڈرامے
والمیکی پرتیبھا (والمیکی کی ذہانت)۔.۔. (1881ء)
وِسرجن (چڑھاوا)۔.۔. (1890ء)
راجا (اندھیرے کمرے کا بادشاہ)۔.۔. (1910ء)
ڈاک گھر (ڈاک خانہ)۔.۔. (1912ء)
اچلیاتان (بے حرکت/ساکن)۔.۔. (1912ء)
مُکتادھارا (آبشار)۔.۔. (1922ء)
رکتاکاروی (سُرخ کنیر)۔.۔. (1926ء)
ناول
نسترنِرھ(ٹوٹا گھونسلا)۔.۔. (1901ء)
گورا (گوری رrنگت والا)۔.۔. (1910ء)
گھرویار (گھر اور دنیا)۔.۔. (1916ء)
یوگا یوگ (عمل رد عمل)۔.۔. (1929ء)
یادداشتیں
جیون سمرتی (میری یادیں)۔.۔. (1912ء)
چھلبیلا (میرے لڑکپن کے دن)۔.۔. (1940ء)

--------------------