خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)


ہم اس پراسرار خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اسرار کائنات پر سے پردہ اٹھائے۔ طبیعات کے بنیادی قوانین کی صورت گری کیسے ہوئی؟ شعور کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ ہم ان سوالوں کے جواب نہیں جانتے، اور ہم اس لاعلمی کو خدا کا نام دے دیتے ہیں پڑھو (اے نبیؐ) اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا ربّ بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔     (العلق، ۵۔۱)

اس خدا کی صفات کے بارے میں ہم کوئی ٹھوس بات نہیں کہہ سکتے ’’کہہ دو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو سارے اچھے نام (صفات) اسی کے ہیں‘‘ (بنی اسرائیل۔۱۱۰)

یہ فلسفیوں کا خدا ہے، ہمارا یہ خدا و ہ ہے، رات گئے ہم خیمے کے سامنے آگ جلا کر جس کا ذکر کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ یہ زندگی کیا ہے! کچھ اور موقعوں پر لوگوں کا خدا سخت حاکم اور قانون ساز نظر آتا ہے، جس کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ خوراک، جنس، سیاست اور فیشن کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ہم لاکھوں قوانین کو جواز مہیا کرنے کے لیے اس آسمانی خدا کا حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ یہ فحش کاری اور شراب نوشی پر پابندی لگاتا ہے۔ غرض اس خدا کے ہر ہر منٹ کے حکم کی تفصیلات سے لائبریریاں بھری ہوئی ہیں۔

جب ہم کسی دین دار فرد سے خدا کے وجود پر سوال کرتے ہیں، تو وہ پراسرار معمہ کی سی گفتگو کرتا ہے اورانسانی فہم کی کم مائیگی واضح کرتا ہے۔ وہ (مذہبی) کہتے ہیں سائنس بگ بینگ کی وضاحت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ یہ خدا کا کام ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے جادوگر لوگوں کوبے وقوف بنارہا ہو (پروفیسر ہراری بغیر کسی دلیل خدا کے وجود کا انکار کرنا چاہ رہے ہیں۔ اُن کے پاس اس انکار کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب سائنس پر ایمان رکھتے ہیں اور سائنس اس قابل نہیں ہوئی کہ خدا کا انکار کرسکے ۔  مترجم)۔

 کتاب مقدس کائنات کے اسرار اور عالمی قانون ساز کے درمیان ربط مہیا کرتی ہے۔ یہ کتاب بچکانہ قسم کے قوانین کی تفصیل پر مبنی ہے، اور ساتھ ساتھ اسے کائناتی اسرار رموز سے جوڑ دیا گیا ہے۔ زمان و مکان کا مالک ہمیں روزمرہ کی رسومات اور خوراک کے بارے میں بھی احکامات دیتا ہے ۔ (پروفیسر صاحب کی ’کتاب مقدس‘ سے کیا مراد ہے؟ جادوگری دکھا رہے ہیں؟ مترجم )۔  سچ یہ ہے کہ ہمارے پاس انجیل، قرآن اور ویدوں میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ ’وحی الٰہی‘ ہیں (یقینا پروفیسر صاحب نے قرآن حکیم کا مطالعہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تینوں تصانیف میں جہاں جہاں بھی قرآن کا ذکر آیا ہے، وہ انجیل کے ضمن میں آیا ہے۔ انہوں نے کہیں بھی قرآن کی کوئی آیت نقل نہیں کی۔ پورے مغرب کی یہی روش رہی ہے کہ انجیل کو قرآن کے خلاف بطور حجت استعمال کرتے ہیں، اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ علمی رویہ نہیں متعصبانہ رویہ ہے۔ اس حوالے سے موریس بوکائیے کی کتاب ’’قرآن، بائبل اور سائنس‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ اگر قرآن وحی الٰہی نہیں، تو اس جیسی زندہ کتاب، سورت، یا آیت کوئی پیش کرے، جو زمان و مکان سے ماوراء ہو، جسے ہمیشگی حاصل ہو، جسے نئے ایڈیشن کی ضرورت نہ ہو اورجسے کسی طور جھٹلایا نہ جاسکے۔ یہ قرآن حکیم کا کھُلا چیلنج ہے۔ یہی چیلنج اس کے ’وحی الٰہی‘ ہونے کا عظیم ترین ثبوت ہے : مترجم )۔ 

ہماری سائنسی معلومات کے مطابق، تمام مقدس کتابیں تصوراتی و تخیلاتی انسانوں نے رقم کیں(وہی اہل قریش والا جاہلانہ اعتراض کہ تمہارے صاحب نعوذ باللہ مجنوں یا کاہن ہیں۔ پروفیسر صاحب کی کون سے سائنسی اکتشاف سے یہ جانا جاسکتا ہے کہ مقدس کتابوں کا اصل متن کون سا ہے؟ اور وہ اصل متن کیوں سمجھا جارہا ہے؟ کن بنیادوں پرسمجھا جارہا ہے؟ اور اگر وہ اصل متن ہی نہیں ہے توپھر مقدس کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر جعلی ہے؟ مسخ شدہ ہے؟ توپھر مذہب کے خلاف حجت کیسے ہوسکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سوائے قرآن مجید کوئی مقدس کتاب روئے زمین پر اصل متن کے ساتھ موجود ہی نہیں، اور قرآن ایسا حقائق نامہ ہے جسے تخیلاتی سمجھنا اورتصوراتی قرار دینا نری جہالت ہے : مترجم )۔ یہ ہمارے آباؤاجداد کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں، جنہیں معاشرہ بندی اور سیاسی استحکام کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔مجھے ہمیشہ ہی خدا کے وجود کا اسرار حیران کرتا ہے۔

احکام عشرہ ہدایت دیتا ہے کہ خدا کے نام کا غلط استعمال کبھی نہ کرو۔ شاید اس ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں سیاسی مفادات، معاشی مفادات، اور ذاتی نفرتوں کے لیے خدا کا نام استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ہم احکام عشرہ کے تیسرے حکم پر عمل کریں تو دنیا زیادہ محفوظ مقام بن جائے۔ تم پڑوسیوں سے جنگ کرنا چاہتے ہو، اُن کی زمین ہتھیانا چاہتے ہو؟ تو پھرخدا کو چھوڑو اور کوئی دوسرا بہانہ تراشو (مذہب مخالفین کی بڑی بوسیدہ سی دلیل ہے کہ ’کیونکہ لوگ بداعمال ہیں اور اپنے مفادات کے لیے خدا کا نام استعمال کرتے ہیں، چنانچہ مذہب اور خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے‘۔ اگر اس دلیل کو مان لیا جائے توروئے زمین کے سارے قوانین ہی ختم ہوجانے چاہییں، کیونکہ ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا! پھر کیوں نہ اقوام متحدہ کوتاریخ کے کچرے دان میں پھینک دیا جائے! پھر کیوں نہ ریاستوں سے بغاوتیں کردی جائیں!پھر کیوں نہ ماہرین نفسیات کو جیلوں میں بھیج دیا جائے! پھرکسی بھی قانون کی کیا وقعت؟ مترجم )۔ جب میں خدا کا نام لیتا ہوں توذہن میں داعش اور صلیبی جنگوں کا خیال ابھرتا ہے (داعش اور صلیبی جنگوں دونوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ داعش کرائے کے دہشت گرد ہیں۔ صلیبی جنگیں پوپ اربن دوئم نے مسلمانوں کے خلاف چھیڑی جودوسوسال تک چلی۔ حالیہ صلیبی جنگ کا نعرہ جارج ولیم بُش نے لگایا اورامریکا کی ساکھ تباہ کی، دنیا کو جارحیت کی آگ میں دھکیلا گیا: مترجم )۔ جب میں وجود خدا کے اسرار پر غور کرتا ہوں تو ذہن میں دیگر الفاظ اور مختلف تصورات ابھرتے ہیں، تاکہ الجھاؤ سے محفوظ رہوں۔

بے خدا اخلاقیات 

(لغو بات ہے۔ خدا کو جوابدہی اور خدا سے صلے کے بغیر کسی اخلاقیات کی کوئی معنویت ہی نہیں۔)

یقینا کائناتی اسرار و رموز معاشرتی نظم کے لیے کچھ نہیں کرسکتے (ثابت شدہ حقیقت ہے کہ معاشرے ہمیشہ مذہبی تعلیمات پر تشکیل پائے ہیں)۔ لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں خدا پر یقین رکھنا چاہیے جس نے مستحکم معاشرتی قوانین مہیا کیے، ورنہ دوسری صورت میں اخلاقیات کا وجود ہی باقی نہ رہے اور معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے۔ یہ درست بات ہے کہ خدائی احکامات معاشرتی نظم کے لیے اہم تھے، اور کبھی کبھی مثبت نتائج سامنے لاتے تھے۔ درحقیقت مذاہب ایک ہی وقت میں جہاں نفرت اور تعصب پیدا کرتے تھے وہیں محبت اخوت کا درس بھی دیتے تھے۔ اگرچہ آج بھی مذہبی اخلاقیات رحم دلی پر مائل کرسکتی ہیں۔ لیکن اب اخلاقیات کے لیے مذہب کی ضرورت نہیں۔ اخلاقیات پر عمل درآمد کے لیے کسی ماورائی ہستی کا پابند ہونا غیر فطری لگتا ہے (خدا کے بغیر اخلاقیات کا تصور غیر فطری اور احمقانہ بات ہے۔ اگرکوئی جزا و سزا نہیں؟ کوئی انسانی تقدس نہیں؟ زندگی کی کوئی معنویت نہیں؟ تو پھر کوئی کیوں اخلاقیات کا پابند ہو؟ مترجم  )۔ انسان معاشرتی حیوان ہیں، اورحیوانوں میں بھی اخلاقیات فطری طور پر موجود ہوتی ہیں۔ محبت، دوستی، اورکمیونٹی کے بغیرکون خوش رہ سکتا ہے؟ پھر اجنبیوں کے بارے میں ایسی اخلاقیات کیا ہدایت دیتی ہیں؟ کیوں نہ اجنبیوں کو قتل کرکے ان کا مال لوٹ لیا جائے؟ مگر ایسا کرنے کی صورت میں بدلے کا خدشہ رہے گا، اورمعاشرت وتجارت کا چلنا مشکل ہوجائے گا (یہ انتظامی اخلاقیات کی خودغرضانہ قسم ہے، مترجم)۔ قدیم چین سے جدید یورپ تک دانشوروں نے یہ سنہرا اصول تسلیم کیا ہے کہ ’دوسروں کے ساتھ وہ سلوک نہ کروجواپنے لیے پسند نہ کرو‘۔

دوسروں کو تکلیف دینا ہمیشہ آپ کو تکلیف دیتا ہے۔ ہر پُرتشدد رجحان پُرتشدد ذہن سے پیدا ہوتا ہے، اوریوں پہلے اُس ذہن کو نقصان پہنچاتا ہے، جو اس پر آمادہ ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ لالچ، حسد، غصہ اور نفرت ناخوش کرنے والے جذبات ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے آپ خوش نہیں رہ سکتے۔

لہٰذا، ہمیں اخلاقیات کے لیے خدا کی ضرورت نہیں ہے۔ سیکولرازم ہمیں وہ سب اقدار فراہم کرسکتا ہے، جن کی ہمیں ضرورت ہے (پروفیسر صاحب آخرمیں دل کی بات کہہ گئے۔)

سیکولرازم: اپنا سایہ پہچانو!

سیکولرازم دراصل مذہب کا انکار ہے، لہٰذا سیکولر حضرات کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں رکھتے، اور اس بات پرعمل کرتے ہیں۔ اس تعریف کے مطابق، سیکولرحضرات کسی خدا کسی ماورائی حقیقت کوتسلیم نہیں کرتے، نہ گرجا گھر جاتے ہیں اور نہ ہی مذہبی رسوم اداکرتے ہیں۔ اس طرح سیکولردنیا خالی خالی، بے حقیقت، اورغیر اخلاقی نظرآتی ہے، ایسا خالی ڈبہ جوبھرے جانے کا منتظرہو۔ کم ہی لوگ ایسی منفی شناخت اختیارکرنا چاہیں گے۔ سیکولرحضرات کا اپنا یہ دعوٰی ہے کہ سیکولرازم اقدار اور مذہب کا مخالف نہیں بلکہ حامی ہے۔ درحقیقت اکثرسیکولر اقدار اورمذہبی روایات مشترک ہیں۔ مذہبی ان اقدارپر اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ سیکولر حضرات انہیں انسانوں کی فطری میراث کہتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ چند کائناتی اقدار پوری دنیا کے مسلمانوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور دہریوں میں مشترک ہوں۔

مذہبی پیشوا اکثراپنے ماننے والوں پر واضح کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا پھرنہیں ہیں

اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کروکہ وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے۔ (البقرہ، ۲۰۸)

اگرمسلمان ہیں تو پھر دیگر تمام نظریات مسترد کردیں 

"اور اعلان کردو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تومٹنے ہی والا ہے"  (بنی اسرائیل، ۸۱)

جبکہ سیکولر حضرات مختلف شناختوں کے ساتھ اطمینان سے گزارا کرلیتے ہیں۔ جہاں تک سیکولرازم کا تعلق ہے، آپ اپنے آپ کو مسلمان کہلوا سکتے ہیں، حج پر بھی جاسکتے ہیں، حلال غذا بھی کھاسکتے ہیں، اورسیکولرسوسائٹی کے رکن بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ اخلاقی کوڈ ہے جسے لاکھوں مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندوؤں نے اپنا رکھا ہے۔ یہ سب سچائی، رحمدلی، مساوات، اور آزادی وغیرہ کے گیت گاتے ہیں۔ یہ جدید سائنس کی بنیاد پریقین رکھتے ہیں اور جدید جمہوری اداروں کی حمایت کرتے ہیں۔

سیکولر آئیڈیل

پھرکیا ہے سیکولر آئیڈیل؟ سیکولرکا سب سے اہم تعلق ایسے سچ سے ہے، جومشاہدے اورثبوت (حسیات) پرانحصار کرتا ہے۔ سیکولر سچ اور یقین کو گڈمڈ نہیں کرتے۔ اگر آپ کا کسی کہانی پرپورا یقین ہے، تویہ آپ کی نفسیات کی دلچسپیاں واضح کرے گی، آپ کا بچپن، اور آپ کے ذہن کا سانچا نمایاں کرے گی۔ مگر ان سب سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ کہانی سچی ہے۔ جبکہ سیکولر کسی گروہ، فرد، یا کتاب کو مقدس قرار نہیں دیتے(یعنی سائنس کو مقدس سمجھتے ہیں۔)۔یہ بس سچ کومقدس قرار دیتے ہیں، جہاں کہیں بھی وہ خود کوآشکار کردے۔۔۔ قدیم بوسیدہ ہڈیوں میں، دور کی کہکشاؤں کی تصاویر میں، اعدادوشمار اور ڈیٹا کی میز پر، اور مختلف روایتی تحریروں میں (یعنی سیکولر حضرات پیغمبروں کی زندہ تعلیمات اور بہترین کردار اور سچے قول پر یقین نہیں کرتے بلکہ بوسیدہ ہڈیوں اورغاروں کے ادھ مٹے نقش ونگار پرگھڑی گئی قیاس آرائیوں پر ایمان رکھتے ہیں)۔ سچ سے یہ وابستگی جدید سائنس کے ذریعے ہے، جس نے انسان کو اس قابل بنایا کہ ایٹم کے ٹکڑے کرسکے، جینوم کوسمجھا جاسکے، زندگی کے ارتقاء کا جائزہ لیا جاسکے، اور تاریخ انسانی کا فہم حاصل کیا جاسکے(یہ سائنس پر ایمان ہے۔ یعنی سائنس بھی عقیدہ ہے، مذہب ہے)۔

سیکولر حضرات کا ایک اور اصول زندگی ’رحم‘ ہے۔ سیکولر اخلاقیات خدا کی پابند یا تابعدارنہیں، بلکہ انسانی مصائب کے مقابل وضع کی گئی ہیں۔ سیکولرقتل سے اس لیے باز نہیں رہتا کہ کتاب مقدس نے روکا ہے بلکہ اس لیے باز رہتا ہے کہ ’قتل‘ دیگرانسانوں کے لیے باعث رنج ہوتا ہے( یعنی سیکولر اپنی عقل اور جذبات کی ملکیت کا دعویدارہے، اورخالق کائنات کا منکر ہے کہ جس نے یہ عقل اور جذبات عطا کیے)۔ مذہبی لوگ قتل سے اس لیے گریز کرتے ہیں کہ خدا کا حکم ہے۔ لیکن جب انہیں ’قتال‘ کا حکم دیا جاتا ہے، تو وہ ضرورایسا کرتے ہیں(قتل اگرچہ بُرا ہے مگر فتنہ اس سے بھی بڑھ کرہے۔۔۔۔ کسی کو قتل نہ کرومگر حق کے ساتھ۔۔۔۔ انسانوں کے سب سے بڑے قتلِ عام کا ارتکاب سیکولر ریاست امریکا نے کیا ہے۔ دوبار تاریخ کے مہلک ترین ایٹم بم کا استعمال سیکولر امریکا نے کیا ہے۔ بیسویں صدی تاریخ کی سب سے قاتل صدی ہے اوراس ’بدترین قتل عام‘ میں سیکولراورقوم پرست ریاستوں کا کردارکلیدی ہے)۔ 

یقینا، واضح خدائی احکامات کے بغیر، سیکولر اخلاقیات مسائل سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس وقت کیا کیا جائے، جب ایک عمل ایک فرد کے لیے تکلیف دہ جبکہ دوسرے کے لیے تسلی کا باعث ہو؟ کیا یہ اخلاقی ہوگا کہ امرا ء پرمحصولات لگائے جائیں تاکہ غربا کی فلاح ممکن ہوسکے؟ ایک ظالم آمرکے خاتمے کے لیے خونیں جنگ چھیڑی جائے؟ ان گنت پناہ گزینوں کواپنے ملک میں داخلے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟ ایسی صورتحال میں سیکولرحضرات خدا سے رہنمائی حاصل نہیں کرتے بلکہ متاثرین کا جائزہ لیتے ہیں، حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور امکانات کی طرف جاتے ہیں۔ سیکولرعصمت دری کواس لیے غیر اخلاقی سمجھتے ہیں کہ ’تکلیف دہ‘ ہے۔ مگر وہ ہم جنس پرستی اور دیگر جنسی رجحانات میں انسانوں کے لیے ’تکلیف‘ کا احساس نہیں پاتے (سیکولر اخلاقیات کا بنیادی ’سقم‘ غیرفطری ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستی جیسے قبیح ’غیرفطری‘ عمل کے دوررس معاشرتی و نفسیاتی نقصانات کا اندازہ نہیں لگاسکتی۔ آج مغربی معاشرے کی تباہی کا سبب ’غیر فطری‘ جنسی تعلقات ہیں، جنھوں نے خاندانی نظام برباد کردیا ہے اور رشتوں کا احترام ختم کردیا ہے۔ سیکولراخلاقیات انسان کی فطرت کے تقاضے نہ سمجھ سکتی ہے، نہ انہیں پورا ہی کرسکتی ہے)۔

لہٰذا ایسے جنسی تعلقات کے لیے خدائی احکامات کی ضرورت نہیں، محض نفسیاتی علوم کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت سیکولر سائنسی حقائق پسند کرتے ہیں۔ سائنس کی رہنمائی کے بغیر، ہماری رحم دلی اکثراندھی ہوتی ہے۔ سچ اور رحم کے اخلاقی اصول ’مساوات‘ تک لے جاتے ہیں۔ سیکولرحضرات مساوات کے معاملے میں مختلف الخیال ہوتے ہیں، یہاں معاشی اور سیاسی مساوات پربحث جاری ہے۔ سیکولراپنی قوم، ثقافت، اورملک کی انفرادیت پرفخرکرتے ہیں، مگراسے بالاترنہیں سمجھتے۔ اپنے ملک کے لیے خدمات ادا کرتے ہیں مگردنیا بھرکے انسانوں کی خدمت پریقین رکھتے ہیں۔

سیکولرتعلیمات سکھاتی ہیں کہ اگرہم ’کچھ‘ نہیں جانتے توہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ اگرہم ’کچھ‘ جانتے ہیں تواس کے اظہارسے گھبرانا نہیں چاہیے اور اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ بہت سارے لوگ ’نامعلوم‘ سے خوفزدہ رہتے ہیں، انہیں ہر سوال کا صاف اور حتمی جواب چاہیے۔ تاریخ کے سارے سفر میں لوگوں نے مکمل سچائی جاننے کے لیے ’حتمی جوابات‘ کے کسی نہ کسی نظام پر ایمان رکھا ہے، کیونکہ اس کے بغیرمعاشرے کا شیرازہ بکھرجاتا۔ مگروہ لوگ جنہیں سچ کے کھوجانے کا خوف ہوتا ہے وہ زیادہ پرتشدد ہوتے ہیں۔

سیکولرحضرات زیادہ ذمے دار ہوتے ہیں۔ وہ کسی بالادست قوت پریقین نہیں رکھتے، جودنیا کا نظام سنبھالے، گناہ گاروں کو سزا دے، نیکوکاروں کوجزا دے، اورہمیں جنگ قحط اوربیماریوں کے خوف سے محفوظ رکھے۔ ہم گوشت پوست کے انسانوں کواپنے ہرعمل کا خود ذمے دار ہونا چاہیے۔ اگر دنیا دکھ سے بھرجائے توہماری ذمے داری ہے کہ اسے دکھ سے نجات دلائیں۔ سیکولرجدید معاشروں کی کامیابیوں پر فخرکرتے ہیں۔ میڈیکل میں ترقی، غربت میں کمی، اوردنیا کے بڑے حصوں میں امن وامان کا قیام وغیرہ۔ ہم ان کامیابیوں کا سہرا کسی آسمانی محافظ کے سرنہیں باندھ سکتے۔ بالکل اسی طرح، جدیدیت کے جرائم اور ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ یہ جرائم نسل کشی سے ماحولیات کی تباہی تک پھیلے ہیں۔ مذکورہ سیکولر اقدارایکسکلوزو نہیں ہیں۔ یہودی بھی سچ کوبڑی قدر سمجھتے ہیں۔ عیسائی بھی رحم دلی کی بات کرتے ہیں، اور مسلمان بھی مساوات پرزور دیتے ہیں (اعلیٰ انسانی اقدار وحیٔ الٰہی کی دین ہیں۔ سیکولر حضرات نے تمام مذہبی اقدار اپنالی ہیں، انہیں اپنے محدود معنی پہنا دیے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اعلیٰ اقدار سیکولرازم کی جھولی میں ڈال دیں۔۔۔ اورمذاہب کوحقیربناکر پیش کیا ہے)۔

بالکل اسی طرح، سیکولر تعلیم بچوں کو مذہب سے بیزار نہیں بناتی (پروفیسر صاحب بھرپور مبالغہ آرائی سے مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں اور پھر کمال فیاضی سے مذہب کے لیے اپنے تئیں عظیم رعایت فرماتے ہیں۔ جب سیکولر نظامِ تعلیم مذہب کا مذاق اُڑائے گا تو طلبہ میں مذہب کے لیے احترام کا کوئی جذبہ کہاں باقی رہ جائے گا)۔ بلکہ وہ بچوں میں سچائی اور یقین کا فرق واضح کرتی ہے۔ انہیں سکھایا جاتا ہے کہ کسی اَن دیکھی ہستی سے خوفزدہ نہ ہوں اور اپنے ہرعمل کی ذمے داری محسوس کریں۔

سیکولرازم پر اخلاقیات کی کمی یا عدم موجودگی کا اعتراض بے بنیاد ہے۔ سیکولرازم کا مسئلہ بالکل برعکس ہے، اس کی اخلاقیات کے تقاضے لوگوں کی توقع سے بہت زیادہ ہیں۔ اکثر لوگ اس اخلاقی کوڈ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے۔ بڑے معاشرے اتنا سچ اور اتنی مساوات نہیں جھیل سکتے (سیکولر اخلاقیات مذہبی تعلیمات کا چربہ ہیں۔ اس لیے لادین معاشرے بھی آخرکار اسے برداشت نہیں کرسکتے اور کہیں نہ کہیں قلعی کھُل جاتی ہے)۔

مگر سیکولرازم کے ساتھ ایک واضح مسئلہ ہے۔ یہ کمیونزم میں پایا جاتا ہے جوخود ایک عقیدہ ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا جزلاینفک ہے، جو خود ایک عقیدہ ہے۔ جدیدیت اور صنعتی پیشرفت کے جتنے بھی مہلک نتائج برآمد ہوں، سرمایہ دار اسے جواز مہیا کریں گے۔ یہ جنگیں کرتے ہیں، ان میں اربوں ڈالرضائع کرتے ہیں، عراق اور افغانستان جیسی جگہوں پرعام انتخابات کرواتے ہیں، اور توقع رکھتے ہیں کہ ڈنمارک کی جمہوریت یہاں نمودار ہوجائے گی۔ آپ یہاں جمہوریت پر سوال نہیں اٹھاسکتے۔

یقینا سارے عقائد یکساں طورپر خطرناک نہیں۔ بالکل اسی طرح کچھ مذہبی عقائد نے بھی انسانیت کا بھلا کیا۔

یہی انسانی حقوق کا سچا نظریہ ہے۔ حقوق کا وجود انسانوں کی اُن کہانیوں سے ہی برآمد ہوتا ہے، جو وہ ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ یہ کہانیاں مذہبی تعصب اور آمر حکومتوں کے خلاف جدوجہد کے دوران وجود میں آئیں۔ شاید یہ انسانوں کی فلاح میں سب سے زیادہ حصہ ڈالنے والی ڈاکٹرائن بن کرسامنے آئی۔ مگر افسوس یہ بھی اب تک ایک عقیدہ ہی ہے۔

بائیو ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت انسانیت کی بنیادی فطرت میں تغیر لارہی ہے۔ جب بائیو ٹیکنالوجی موت پرقابو پالے گی توجینے کے ’حق‘ کا کیا ہوگا؟ اگر ہم آزادی کی قدرکے پابند ہیں توپھراُن ایلگوریتھم کا کیا ہوگا، جو ہماری چھپی خواہشات آشکار کردیں گے؟ اگر ہم انسان انسانی حقوق سے لطف اٹھاتے ہیں توپھرکیا سپرہیومن سُپر رائٹس سے لطف اٹھائیں گے؟ جب تک لوگ سیکولر ’انسانی حقوق‘ سے چمٹے رہیں گے، مذکورہ سوالوں سے نمٹنا دشوار ہوگا۔

سیکولرازم: حقیقت کیا؟

سیکولرازم کو مغربی استعماریت یا سرمایہ داری جیسا نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ان کے اعمال کے لیے جواب دہ نہیں(یہ بالکل غلط بات ہے۔ مغرب میں مذہب اورسیاست کی جُدائی سے ہی مادہ پرستی، صنعتی سفاکیت اوراستعماری استحصال کی بنیاد پڑی۔ سیکولرائزیشن ہی مغرب کا گناہ ہے، جس سے ہربرائی نے جڑ پکڑی)۔ سیکولرازم سائنس اور نوع انسان کی فلاح سے متعلق ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ چرچ نے مسیحیوں پر مظالم کیے جبکہ یسوع مسیح نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی، انھوں نے صرف محبت کا درس دیا تھا۔ مسیحیت سے یہ جُرم ہوا کہ ’محبت کا درس‘ بھلا دیا گیا۔۔ مسیحی پیروکاروں نے محبت کا تصورمسخ کیا، اور ایک بار نہیں بلکہ بار بار کیا۔ ہرمذہب اور نظریہ اپنے سائے میں ہے۔ سیکولرسائنس کو کم ازکم ایک بڑا امتیاز حاصل ہے، یہ اپنے سائے سے خوفزدہ نہیں ہے۔ اور یہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے میں فراخ دل ہے(بے بنیاد دعویٰ ہے۔ صورتحال یکسر برعکس ہے۔ سیکولرازم نے تنگ دلی میں تمام نظاموں کو مات دیدی ہے۔ یورپ ہو یا ہندوستان سیکولرقوانین نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ باپردہ عورت اور مساجد کے مینار تک ان سے برداشت نہیں ہیں۔ یہ زندگی کے ہر فطری سلسلہ پرپابندی لگانا چاہتے ہیں، اور ہرغیر فطری اور غیرانسانی رویے کوفروغ دینا چاہتے ہیں، اور اسے آزادی کا نام دیتے ہیں)۔

میرے نزدیک وہ عقیدہ سب سے زیادہ قابل بھروسہ ہے جواپنی لاعلمی کا اعتراف کرے، اورقابل اصلاح ہونا تسلیم کرے۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا عقیدہ دنیا کی رہنمائی کرے، تومیرا تم سے اہم سوال یہ ہوگا، ’’وہ کیا عظیم غلطی ہے جوتمہارے نظریے سے سرزد ہوئی؟ کہاں کہاں غلطی ہوئی؟ اگرتم اس معاملہ میں سنجیدگی نہیں دکھاسکتے تومیں تم پربھروسہ نہیں کرسکتا‘‘۔
----------------------------
(کتاب: ’’اکیسویں صدی کے اکیس سبق‘‘۔ ترجمہ و تلخیص: ناصر فاروق)

 پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی  شمارہ 16 ستمبر 2019