اکیسویں صدی کے اکیس سبق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اکیسویں صدی کے اکیس سبق لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

خدا کے نام غلط استعمال نہ کرو! ۔ یوول نوح حریری (Yuval Noah Harari)

(نوٹ : بلاگر کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق لازمی نہیں )


خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو! بسم اللہ الرحمان الرحیم ’’شروع اللہ کے نام سے جوبے انتہا مہربان نہایت رحم والا ہے‘‘۔ اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اس کا بدلہ وہ پاکر رہیں گے۔ (الاعراف، ۱۸۰)۔


حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں)۔

کیا خدا وجود رکھتا ہے؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے ذہن میں تصو ر خدا کیا ہے: کوئی کائناتی راز ہے یا عالمی قانون ساز؟ کبھی کبھی جب لوگ خدا کا ذکر کرتے ہیں، وہ ایک بہت بڑے معمے کی بات کرتے ہیں، جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے (اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ نہ وہ سوتا ہے اور نہ اسے اونگھ آتی ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی، اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔ اس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔    (آیت الکرسی، البقرۃ۔۲۵۵)

گیان - یوول نوح حریری ۔ (15)

غور کرو 

اتنی کہانیوں پرتنقید کے بعد، مذاہب اور نظریات پر نقطہ چینی کے بعد، یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خود کا جائزہ بھی لے لیا جائے، کہ کس طرح ایک تشکیک پسند فرد خوشگوار صبح سے زندگی کا آغازکرسکتا ہے! پڑھنے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ میرے چشمے پروہ کون سے رنگ چڑھے ہیں، جن سے میں دنیا کودیکھتا ہوں۔ جب میں نوجوان تھا، بہت بے چین طبیعت تھا۔ دنیا میری سمجھ سے باہرتھی۔ بڑے سوالوں کا کوئی جواب نہ ملتا تھا۔ خاص طورپریہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ دنیا میں اتنا درد، تکالیف، اور آزمائشیں کیوں ہیں؟ اوران سے نجات کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟ جوجواب دوستوں اور کتابوں سے ملے وہ سب فکشن تھا۔ مذاہب اور قومی پرستی کے نظریات مجھے متاثر نہ کرسکے۔ رومانی داستانیں اورمہم جوقصے مجھے قائل نہ کرسکے۔ سرمایہ دارانہ ترقی نے بھی مجھے خوش نہ کیا۔ مجھے بالکل سمجھ نہ آیا کہ سچ کہاں تلاش کروں؟ جب یونیورسٹی میں داخل ہوا توگمان تھا کہ سچ یہاں مل جائے گا، مگرمایوسی ہوئی۔ اکادمی دنیا نے مجھے دیومالائی نظریات ڈھانے میں مدد دی، مگربڑے سوالوں کے جواب یہاں بھی نہ ملے۔ اس کے برعکس، تنگ سے تنگ سوالوں پرغوروفکرکی تحریک دی گئی۔ اس دوران قرون وسطیٰ کے صلیبیوں کی یادداشتوں پرپی ایچ ڈی کرتا رہا اور فلسفے کی کتابیں کھنگالتا رہا۔ مگر اس فکری عیاشی کا نتیجہ بھی کچھ نہ نکلا۔