مادہ کی اصل
لیکن اگر مادہ حقیقی اور پائیدار نہیں تو پھر مادہ کی عدم موجودگی میں ہم مخلوقات کی اس بو قلمونی اور رنگا رنگی کی وجہ کیا بتا سکتے ہیں جس میں جا بجا حسن کار، ہنر، مدعا، تناسب، ہم آہنگی اور بے خطا ریاضیاتی ذہن کے اوصاف کار فرما نظر آتے ہیں۔ یقینا یہ سب شعور ہی کے اوصاف ہیں لہٰذا شعور ہی کائنات کی آخری حقیقت ہے جس سے دنیا جگمگا رہی ہے مادہ کے فانی ہونے کے بعد اب اس نظریہ کے لئے کائنات کی آخری حقیقت شعور ہے نہ صرف راستہ صاف ہو گیا ہے بلکہ اب اس نظریہ کے تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ آج شعور کو کائنات کی حقیقت قرار دینا عقلی طور پر اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انیسویں صدی میں یہ ماننا ضروری تھا کہ کائنات فقط مادہ سے بنی ہے۔ فلسفہ تو اپنی ساری تاریخ میں سائنس کی تائید کے بغیر بلکہ سائنس کی مخالفت کے باوجود کائنات کی روحانی توجیہہ پر اصرار کرتا رہا ہے اور فلسفہ کا یہ نظریہا قدیم سائنس کے مادیاتی نظریہ سے کسی طرح کم معقول یا کم قابل قبول نہیں تھا لیکن اب سائنس بھی اس کی تائید میں وزن دار شہادت پیش کر رہی ہے۔ چونکہ مادہ بے حقیقت اور فانی ثابت ہوا ہے۔ لہٰذا طبیعات کے ماہرین محسوس کرنے لگے ہیں کہ اب وہ مادہ کی دنیا کے اندر محدود رہ کر طبیعات کے مسائل کو حل نہیں کر سکتے اور مجبور ہیں کہ مادہ کی دنیا سے آگے نکل کر صداقت کی جستجو کریں کیونکہ اب مادہ کی حقیقت مادہ سے پرے کی دنیا میں ہی معلوم کی جا سکتی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان اور یورپ کے بہت سے ماہرین طبیعات مثلاً ریڈنگٹن، جینز، وائٹ ہیڈ، آئن سٹائن، شروڈ نگر اور پلانک مادی دنیا کی حقیقت کی وضاحت روحانی نقطہ نظر سے پیش کر رہے ہیں اب وہ ماہرین طبیعات ہی نہیں بلکہ ماہرین ماوراء طبیعات بھی ہیں ان سب سائنس دانوں کے دلائل اس مفروضہ کی تائید کرتی ہیں کہ کائنات کی حقیقت شعور ہے مادہ نہیں۔ جوڈ (Joad) لکھتا ہے:
’’ سر بر آوردہ سائنس دانوں کی نگاہ میں علم طبیعات کی ترقی کی موجودہ منزل ایسے نتائج کی طرف راہ نمائی کر رہی ہے جو قدیم مادیات کے نتائج کے بالکل برعکس ہیں اور جو کائنات کی روحانی توجیہہ کی اتنی ہی پر زور تاکید کرتے ہیں جتنی کہ آج سے پچاس سال پہلے سائنس کائنات کی مادی توجیہہ کی تائید کرتی تھی۔‘‘
نظریہ کو انٹم کے موجد پروفیسر پلانک کے ساتھ مسٹر جے ڈبلیو این سیلون کی ایک گفتگو 26جنوری 1931ء کے رسالہ آبزرور میں شائع ہوئی تھی اس میں پروفیسر پلانک کہتا ہے:
’’ میں شعور کو ایک بنیادی حقیقت سمجھتا ہوں اور مادہ کو شعور کا نتیجہ سمجھتا ہوں ہم شعور سے آگے نہیں جا سکتے ہر چیز جس کا ہم ذکر کرتے ہیں ای جس چیز کو موجود تصور کرتے ہیں اس کی ہستی شعور پر مبنی ہے۔‘‘
سر آلیور لاج (Oliver Lodge) لکھتا ہے:
’’ کائنات پر شعور کی حکومت ہے خواہ یہ شعور کسی ماہر ریاضیات کا سمجھا جائے یا کسی مصور کا یا کسی شاعر کا یا ان سب کا یا ان کے علاوہ اوروں کا یہی وہ حقیقت ہے جو ہستی کو معنی خیز بناتی ہے ہماری روز مرہ کی زندگی میں رونق پیدا کرتی ہے۔ ہماری امید کو بڑھاتی ہے اور جب علم ناکام رہ جاتا ہے تو یقین کے ساتھ ہمیں قوت بخشتی ہے اور تمام کائنات کو ایک لازوال محبت سے پر نور بناتی ہے۔‘‘
جیمز جینز کا معقول استدلال
سر جیمز جینز کا استدلال یہ ہے کہ مادہ سب کا سب ریاضیاتی نسبتوں کی صورت میں ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ریاضیات کا دخل جس طرح ایک جوہر کی ہیئت ترکیبی میں نظر آتا ہے اسی طرح فلک کے نظامات میں بھی موجود ہے۔ ریاضیات کے قوانین جس طرح قریب ترین مادی اشیاء پر حاوی ہیں اسی طرح کائنات کے دور دراز حصوں پر بھی حکمران ہے لیکن ریاضیات کا علم جو ہمیں اس وقت حاصل ہے وہ کائنات کے مطالعہ سے حاصل نہیں ہوا بلکہ ہمارے اپنے منطقی یا عقلی استدلال سے حاصل ہوا ہے جس کو کائنات کے مطالعہ سے کوئی تعلق نہیں اپنی قوت استدلال کی راہنمائی میں اپنے ہی ذہن کی پیداوار کے طور پر قوانین ریاضیات کو مرتب کرنے کے بعد جب ہم کارخانہ قدرت پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ نہ صرف کائنات کی تعمیر ان قواعد کے مطابق ہوئی ہے بلکہ یہی قوانین اس کائنات کی آخری صورت ہیں چونکہ مادہ غیر حقیقی ہے اس لئے کائنات آخر کار قوانین ریاضیات کے ایک مجموعہ کے بغیر کچھ ثابت نہیں ہوتی ہم نے ان قوانین کو جو ہمارے شعور سے باہر کی دنیا میں جاری و ساری ہیں، خود بخود کیونکر دریافت کر لیا اور پھر یہ قوانین مادی دنیا کی تعمیر میں خود بخود کیونکر کام آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات ہماری طرح کے ایک شعور کی تخلیق ہے یہ شعور ہماری طرح ٹھیک ٹھیک ریاضیاتی یا منطقی انداز کے ساتھ سوچ سمجھ سکتا ہے پس ضروری ہے کہ خارج کی دنیا اور ہمارا اپنا شعور دونوں اسی شعور عالم نے پیدا کئے ہوں سر جیمز جینز اپنی کتاب ’’ پر اسرار کائنات‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ کائنات کسی مادی تشریح کی متحمل نہیں ہو سکتی اور میری رائے میں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اپنی حقیقت ایک خیال سے زیادہ نہیں آج سے تیس سال پہلے ہم سمجھتے تھے یا فرض کرتے تھے کہ ہم ایک آخری میکانکی حقیقت کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں آج دنیا بڑی حد تک اس بات پر متفق ہے (اور جہاں تک علم طبیعات کے ماہرین کا تعلق ہے اس رائے سے اختلاف تقریباً مفقود ہے) کہ علم کا دریا ایک غیر میکانکی حقیقت کی طرف بہہ رہا ہے کائنات ایک بڑی مشین یا کل کی بجائے ایک بڑے تصور کی صورت میں نظر آنے لگی ہے اب شعور کوئی ایسی چیز نہیں جو مادہ کی دنیا میں اتفاقاً داخل ہو گئی ہو بلکہ اس کی بجائے ہم یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ ہمیں شعور ہی کو مادہ کی دنیا کا خالق اور حکمران قرار دینا چاہئے ہمارے اپنے شعور کو نہیں بلکہ اس شعور کو جس کے اندر وہ جواہر جن سے ہمارا شعور صورت پذیر ہوا ہے خیالات کی حیثیت رکھتے ہیں تازہ علم ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اپنے پہلے جلد بازی سے قائم کئے ہوئے تاثرات پر کہ ہم ایک ایسی دنیا میں آ پہنچے ہیں جو زندگی سے کچھ سروکار نہیں رکھتی یا زندگی سے عملاً عداوت رکھتی ہے نظر ثانی کریں اغلب ہے کہ مادہ اور شعور کی قدیم دوئی جو اس فرضی عداوت کی ذمہ دار تھی بالکل ناپید ہو جائے گی نہ اس لئے کہ مادہ اور بے حقیقت ثابت ہو جائے گا یا شعور مادہ ہی کی ایک خصوصیت بن جائے گا بلکہ اس لئے کہ ٹھوس اور حقیقی مادہ آخر کار شعور ہی کی ایک مخلوق یا شعور ہی کا ایک ظہور مانا جائے گا ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ایک منظم اور مدبر ہستی کا پتہ دیتی ہے جو ہمارے شعور کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت رکھتی ہے جس حد تک ہمیں علم ہو سکا ہے جذبات اخلاق اور احساس کے اوصاف کے لحاظ سے نہیں بلکہ ایک ایسے انداز فکر کے لحاظ جسے ہم کسی بہتر لفظ سے تعبیر نہ کر سکنے کی وجہ سے ریاضیاتی انداز فکر کہتے ہیں۔‘‘