اقبال اور گلشن راز جدید

 گلشن راز جدید

اس سے قبل محمود شابستری کی کتاب ’’ گلشن راز‘‘ کا ذکر آ چکا ہے۔ اس کتاب میں فلسفے و تصوف سے پیدا شدہ سوال و جواب منظوم ہیں۔ اس کے متعلق روایت یہ ہے کہ محمود سے ایک شخص نے ایک مجلس میں کچھ سوالات پوچھے۔ محمود نے وہیں مختصراً ان کا جواب دیا، لیکن بعد میں ان کو زیادہ تشریح اور توضیح سے نظم میں بیان کیا۔ محمود کے زمانے میں فلسفے اور تصوف اور علم الکلام کے مسائل علماء کے لیے میدان مناظرہ بن گئے تھے۔ ’’ گلشن راز‘‘ میں جو ذات و صفات الٰہیہ اور حیات و کائنات کے متعلق نظریات ہیں ان میں سے اکثر اقبال کے نزدیک روح اسلام کے منافی ہیں اور ان میں غیر اسلامی تصوف اور فلسفے کو اسلام کے رنگ میں پیش کرنے کی کوش کی گئی ہے۔ مگر یہ کتاب ایک گروہ کے نزدیک آج تک مستند شمار کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے متصوفانہ افکار کسی حد تک اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ جن سوالوں کے جوابات محمود نے اپنے زاویہ نگاہ سے دیے ہیں، انہیں سوالوں کے جواب اب اس بصیرت سے دیئے جائیں جو اقبال کو قرآن کریم اور حیات نبویؐ سے حاصل ہوئی۔ گلشن راز جدید میں علم اور عشق اور مقصود حیات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ گلشن راز جدید کا مطالعہ کرنے والوں کو چاہیے کہ پہلے محمود شابستری کے ’’ گلشن راز‘‘ پر اچھی طرح نظر ڈال لیں تاکہ اقبال کے افکار اور نظریات کا موازنہ اور مقابلہ ہو سکے۔
تمہید میں اقبال نے مشرق کی عقلی اور روحانی موت پر اظہار تاسف کیا ہے۔ وہی مشرق جو ادیان عالیہ کی جنم بھوم اور اس کا گہوارہ تھا اور جسے اب بھی اپنی روحانیت پر فخر ہے، اس کی کیفیت اب یہ ہے کہ اس کے تن کے اندر من نظر نہیں آتا۔ اس میںکوئی زندگی نہیں۔ زندگی کی ایک تصویر ہے جس میں جان اور حرکت نہیں۔ اب اس مشرق میں محمود کے نظریات نئی روح نہیں پھونک سکتے۔ زمانے کے انداز بدل گئے ہیں، اس کے ساتھ تفکر کے ساز بھی بدلنے چاہئیں:
ز جان خاور آں سوز کہن رفت
دمشق واماند و جان او زتن رفت


چو تصویرے کہ بے تار نفس زیست
نمی داند کہ ذوق زندگی چیست


دلش از مدعا بیگانہ گردید
نے او از نوا بیگانہ گردید


بطرز دیگر از مقصود گفتم
جواب نامہ محمود گفتم
تصوف کا زور شور فتنہ تاتار کے بعد نظر آتا ہے اور بعض مفکرین نے اس کا سبب یہی بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب، ان کا تمدن، ان کے علوم و فنون ان کی سلطنتوں کا جاہ و جلال، سب اس عالم گیر غارت گری کے سیلاب میں بہہ گئے۔ اہل دل اور اہل فکر دنیا سے مایوس او ربیزار ہو گئے اور مسلمانوں کے اذہان نے عالم کی اس بے ثباتی کو دیکھ کر دل کی دنیا میں پناہ لی اور طبیعتیں اس طرف آ گئیں کہ:
گر گریزی با امید راحتے
ہم درآں جا پیشت آید آفتے


ہیچ کنجے بے دو و بے دام نیست
جز بخلوت گاہ حق آرام نیست
جلوت سے جب مایوسی ہوئی تو خلوت میں پناہ ڈھونڈی:
ستم است اگر ہوست کشد، کہ بہ سیر سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدۂ در دل کشا بہ چمن در آ
یہ تمام تباہی عارف رومی اور شمس تبریزی کی آنکھوں کے سامنے واقع ہوئی۔ محی الدین ابن عربی کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ان کی آنکھوں نے جو عالم اسلام کی تباہی دیکھی تھی اور جس کی وجہ سے اس زمانے میں خاص قسم کے نظریات حیات پیدا ہوئے، میرے سامنے اس سے کچھ کم انقلاب پیدا نہیں ہوا۔ گو اس انقلاب کی کیفیت مختلف ہے۔ ہر ظلمت انگیز انقلاب کے بعد ایک نیا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور اختلاف احوال سے انسان میں ایک نئی نگاہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ نئی نگاہ خدا نے مجھ میں پیدا کی ہے اور میں اس بصیرت کی بدولت قدیم سوالات کے نئے جوابات پیش کرتا ہوں۔ میں اس بصیرت کو شعر کا جامہ پہناتا ہوں تاکہ بیان دلنشین ہو جائے، لیکن وہ شخص بڑا ظالم اور بدیخت ہو گا جس نے مجھے اس کی وجہ سے فقط شاعر سمجھ لیا۔ شاعری میرا مقصود نہیں ہے۔ اقبال کی قسم کی شاعری کے متعلق ایک اور شاعر کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ:
مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
وراے شاعری چیزے دگر ہست
٭٭٭
گذشت از پیش آں دانائے تبریز
قیامت ہا کہ رست از کشت چنگیز


نگاہم انقلابے دیگرے دید
طلوع آفتابے دیگرے دید


نہ پنداری کہ من بے بادہ ستم
مثال شاعراں افسانہ بستم


نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست
کہ برمن تہمت شعر و سخن بست
میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ محض فن یا فلسفہ نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں او ردل کی خلوتوں سے نکلی ہوئی نوا ہے:
دمے در خویشتن خلوت گزیدم
جہانے لا زوالے آفریدم


’’مرا زیں شاعری خود عار ناید
کہ در صد قرن یک عطار ناید‘‘
اقبال کہتا ہے کہ محمود شابستری کے جوابات میں تو خودی کی فنا کی تعلیم ہے، میرا جواب اس کے برعکس ہے۔ مجھ کو خدا نے اسرار خودی سے روشناس کیا ہے۔ اسی خودی کی استواری سے حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا مقصود خدا میں جذب ہو کر فنا نہیں بلکہ خدا کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ میرے پاس فنا کی بجائے بقا کی تعلیم ہے اور یہی تعلیم مشرق کے تن مردہ اور روح افسردہ میں جان پیدا کرے گی:
بجانم رزم مرگ و زندگنی است
نگاہم بر حیات جاودانی است


ز جاں خاک ترا بے گانہ دیدم
باندام تو جان خود میدم


مرا ذوق خودی چوں انگبیں است
چہ گویم واردات من ہمین است


نخستیں کیف او را آزمودم
دگر بر خاوراں قسمت نمودم
خودی کے احساس اور عرفان میں ایسی لذت ہے کہ اگر جبریل بھی اس سے آشنا ہو جائے تو وصال جاوداں کی بجائے اس فراق کو برقرار رکھنے کی آرزو کرے جو ناز و نیاز اور سوز و گداز پیدا کرتا ہے۔ یہی کیفیت آدم کو ملائکہ سے افضل بناتی ہے۔ جبریل پکارنے لگے کہ:
تجلی را چناں عریاں نخواہم
نخواہم جز غم پنہاں نخواہم


گذشتم از وصال جاودانے
کہ بینم لذت آۃ و فغانے


مرا ناز و نیاز آدمے دہ
بجان من گداز آدمے دہ
اس تمہید کے بعد پہلا سوال تفکر کے متعلق ہے۔ قرآن نے کبھی تفکر پر بہت زور دیا ہے۔ یہ تفکر یا کائنات و حیات کی حکمت پر غور و خوض کیا چیز ہے۔ بعض لوگ تفکر کو حقیقت نارس اور گمراہ کن تصور کرتے ہیں مگر قرآ ن اس کوطاعت و عبادت قرار دیتا ہے۔ تفکر کی ماہیت میں یہ تضاد تو نہیں ہو سکتا۔ ذرا اس گتھی کو سلجھاؤ کہ کس قسم کا تفکر طاعت اور کس انداز کا تعقل گناہ بن جاتا ہے۔ اقبال نے زیادہ تر اشعار عقل کی تحقیر ہی میں لکھے ہیں، اگرچہ کہیں کہیں اس کی وضاحت بھی کر دی ہے کہ محض محسوسات میں گھری ہوئی عقل جزئی ہوتی ہے اور کلیت وجود تک اس کی رسائی کا دعویٰ باطل ہوتا ہے۔ اگر انسان کی تنگ نظری اس کے عمل کو محدود نہ کر دے تو تفکر اسی حکمت تک پہنچا سکتا ہے جسے قرآن میں خدا نے خیر کثیر کہا ہے۔ غلط قسم کے متصوفانہ عقائد کی وجہ سے بعض لوگوں نے عقل و فکر کو بے کار سمجھ کر برطرف کر دیا اور خالی تاثرات سے اسرار حیات کی گرہ کشائی چاہی۔ اقبال نے اس سوال کے جواب میں صحیح تفکر کی ماہیت، اس کی قوت تسخیر اور حقیقت مطلقہ تک اس کی رسائی کو واضح کیا ہے۔ یہ تفکر وہی ہے جس کے متعلق اقبال اور مقامات پر کئی بار اس خیال کو دہرا چکا ہے کہ انسان کو کمال فقط عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔
پہلا سوال یہ ہے:
نخست از فکر خویشم در تحیر
چہ چیز است آنکہ گویندش تفکر


کہ امیں فکر مارا شرط راہ است
چرا گہ اطاعت و گاہے گناہ است
اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہے کہ غور و فکر کی صلاحیت سینہ آدم کا نور ہے۔ اس نور کے اشعاع سے غیب و حضور ایک ہو جاتے ہیں۔ اس کی بدولت حاضر سے غیب پر روشنی پڑتی ہے اور غیب کی روشنی حاضر کو منور کرتی ہے۔ اس میں دلیل و برھان کی نار بھی ہے اور جان جبریل کا نور بھی۔ نار، نور سے الگ ہو کر حقائق کو سوخت کر سکتی ہے، لیکن نور کے ساتھ وہ زندگی کی حرارت بن جاتی ہے۔ عالم محسوس کی وابستگی سے خاک آلود ہونے کے باوجود عقل کو ان حقائق کا عرفان بھی حاصل ہو سکتا ہے جو زمان و مکان کے ماوریٰ ہیں۔ کبھی وہ زندگی کو ساکن و جامد حیثیت سے دیکھتی ہے اور کہیں اس کا دریائے بے پایاں سر بسر حرکت و تموج ہوتا ہے۔ وہ خود دریا بھی ہے اور عصاے کلیم کی طرح دریا شگاف بھی، کیوں کہ تسخیر فطرت علم کی ایک اساسی صفت ہے۔ ’’ صدائے صور و مرگ و جنت و حور‘‘ یہ سب حکمت ہی کے تمثیلی احوال ہیں۔ ابلیس و آدم، خیر و شر دونوں کی نمود اسی سے ہے۔ ایک آنکھ سے عقل باطن کا مشاہدہ کرتی ہے اوردوسری آنکھ سے ظاہر کا۔ انفس و آفاق دونوں اس کے احاطے میں ہیں۔ حقیقی معرفت ظاہر و باطن دونوں کی بیک وقت بینش سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر وہ ایک آنکھ بند کر ے تو گناہ گار ہو جاتی ہے اور اس کی بصیرت گمراہ کن بن جاتی ہے۔ عقل حواس خمسہ کے مشاہدات سے گزر کر براہ راست حقائق سے روشناس ہوتی ہے۔ تمام روزگار اس کے ضمیر اور ممکنات میں مضمر ہے، لیکن اس کا ظہور بتدریج ہوتا ہے۔ معقولات کے اندر محسوسات کی ہیئت بدل جاتی ہے:
درو ہنگامہ ہاے بے خروش است
درو رنگ و صدا بے چشم و گوش است


درون شیشہ او روزگار است
ولے بر ما بہ تدریج آشکار است
زندگی نے عقل کو شکاری بنایا ہے۔ وہ ہر پست و بلند پر کمند اندازی کرتی رہتی ہے اور خود بھی اپنی مرضی سے گاہے گاہے اس کی زنجیروں میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی ترقی جاری رہے تو کونین اس کی فتراک میں بندھ جائیں۔ جب کونین کی قوتیں اس کی گرفت میں آ جائیں تو اس کی حکمت کے مالک کو موت نہیں آ سکتی۔ کونین کی صیادی کے یہ معنی ہیں کہ تسخیر آفاق کے ساتھ تسخیر نفس بھی ہو، بلکہ تسخیر نفس تسخیر آفاق پر مقدم ہے:
اگر ایں ہر دو عالم را بگیری
ہمہ آفاق میرد تو نہ میری


بہ تسخیر خود افتادی اگر طاق
ترا آساں شود تسخیر آفاق
انسان حقیقت میں اس وقت آزاد ہو گا، جب وہ ظاہر و باطن او رکونین کی تسخیر کر چکے گا۔ اس دہر کہن میں عقل پھر بھی صورت گری کرے گی، لیکن انسان اپنی بنائی ہوئی صورتوں کی پرستش میں سر بسجود نہ ہو گا:
خنک روزے کہ گیری ایں جہاں را
شگافی سینہ نہ آسماں را


گزارد ماہ پیش تو سجودے
برو پیچی کمند از موج دودے


دریں دہر کہن آزاد باشی
بتاں را بر مراد خود تراشی
اقبال کے باقی کلام سے آشنا شخص کو فوراً یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہ سب تعریف عقل کی تو معلوم نہیں ہوتی۔ اس میں تو وہی زور شور ہے جو اقبال کے اشعار میں عشق کی توصیف میں ملتا ہے۔ اس قسم کا تفکر جو عرفانی اور مسخر کائنات ہے اس میں اور عشق میں کیا حد فاضل باقی رہ جاتی ہے۔ اس کا جواب اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں مختصراً دیا ہے اور کہیں کہیں اشعار میں بھی اس کا اشارہ ہے کہ تفکر اور اس وجدان میں، جسے اقبال عشق کہتا ہے، کوئی اساسی تضاد نہیں۔ تفکر اپنی ترقی سے عشق و وجدان کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ البتہ محسوساتی، مکانی اور جسمانی تفکر، جو ہستی کے فقط ایک پہلو پر حاوی ہوتا ہے، اس کی رسائی حقیقت مطلقہ تک نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ وجدان کے لیے حجاب اکبر بن جاتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے:
چہ بحر است ایں کہ علمش ساحل آمد
ز قعر او چہ گوہر حاصل آمد
یہ سمندر کیا ہے کہ علم جس کا ساحل ہے اور اس سمندر میں غوطہ زنی سے کس قسم کا موتی ہاتھ آتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں اقبال نے بڑے گہرے فلسفے میں غوطہ لگایا ہے۔ اسے آسان زبان میں بھی بیان کیا جائے تو اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ ہر پڑھنے والے کے لیے قابل فہم ہو۔ بہرحال کوشش کی جاتی ہے۔
جسے ہستی کہتے ہیں اس کی ماہیت یہ ہے کہ وہ زندگی کا ایک قلزم بے پایاں ہے۔ شعور اور آگہی اس کے کنارے ہیں۔ مگر یہ کنارے، جو خود حیات آفریدہ ہیں، اس کو محدود نہیں کر سکتے۔ کوہ و صحرا ہوں یا شعور و آگہی، زندگی ان کو بناتی بھی ہے اور توڑتی بھی ہے۔ جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کے فیض و شعور سے منور ہو جاتی ہے۔ اس کی کیفیت باہمہ اور بے ہمہ ہے۔ خلوت پرست اور صحبت ناپذیر ہونے کے باوجود جلوت میں ہر چیز اس سے مستفید ہے۔ وہ اپنے پیدا کردہ مظاہر کو آئین میں بھی اسیر کرتی رہی ہے، جس کی بدولت اس کے مظاہر قابل فہم اور قابل تسخیر ہو جاتے ہیں۔شعور زندگی کو جہاں سے قریب تر کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ جہان شناسی زندگی میں خود شناسی پیدا کرتی ہے۔ خود زندگی کی حقیقت سے نقاب اٹھاتی ہے، لیکن نطق، جو خرد ہی کا ایک ہی پہلو ہے، ماہیت حیات کو عریاں کر دیتا ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں اس کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ زندگی کے سیرو سفر کے راستے میں ایک مقام ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ زندگی کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے۔
حیات کی باطنیت اور ماہیت نفس انسانی ہے، جو زندگی کا بھی مرکز و ماخذ ہے اور یہ زمان و مکان کا جہان بھی اس کا مظہر ہے۔
قالب از ما ہست شد نے ما ازو
بادہ از ما مست شد نے ما ازو
(رومی)
تو سمجھتا ہے کہ جہاں مجھ سے باہر کوئی مستقل حیثیت رکھتا ہے اور دشت و یم، صحرا و کان کا وجود میرے ہونے یا نہ ہونے، یا میرے محسوس کرنے یا نہ کرنے سے بے نیاز ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ہستی ایک لحاظ سے مجھ سے آزاد ہے اور دوسری حیثیت سے یہ میری محتاج ہے:
بروں از خویش می بینی جہاں را
در و دشت و یم و صحرا و کاں را


جہان رنگ و بو گلدستہ ما
زما آزاد و ہم وابستہ ما
جہان کی اپنی حقیقت جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارے احساس و ادرک میں جس طرح آتا ہے، ہمارے شعور کے سانچوں میں ڈھل کر آتا ہے۔ جسے رنگ و بو کہتے ہیں وہ ہمارے محسوسات ہیں۔ ہمارے حواس نہ ہوں تو یہ بھی نہ ہوں۔ انگریزی فلسفی لاک نے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ عالم مادی کا ایک مستقل وجود ہے جو ہمارے شعور کا رہین منت نہیں۔ لیکن رنگ و بو اور سردی گرمی وغیرہ اس اثر کا نتیجہ ہیں جو عالم مادی ہمارے حواس پر کرتا ہے۔ بعد میں المانوی فلسفی کانٹ نے اس سے بڑھ کر ایک قدم اٹھایا کہ عالم مادی کی اپنی جو ماہیت ہے وہ ہم پر کبھی منکشف نہیں ہو سکتی۔ وہ جو کچھ ہے پہلے ہمارے محسوسات کے سانچوں میں ڈھلتا ہے اور اس کے بعد علت و معلول کے معقولی سانچے میں، جو مظاہر کو آئین میں منسلک کرتے ہیں۔ گویا کائنات میں جو تنظیم دکھائی دیتی ہے وہ ہماری عقل کی آفریدہ ہے۔ نفس انسانی عالم مادی کے وجود مطلق کا تو خلاق نہیں لیکن اس کے مظاہر کا شیرازہ بند ہے۔ یہ آئیڈیلزم کا ایک نظریہ ہے جو قانون تعطیل اور زمان و مکان کو آفاقی نہیں بلکہ نفسی قرار دیتا ہے۔ نظریہ کائنات کے لحاظ سے اقبال بھی آئیڈیلسٹ ہے۔ اس جواب میں اسی نظریے کی ترجمانی ہے۔
جہان رنگ و بو گلدستہ ما
زما آزاد و ہم وابستہ ما


خودی او را بہ یک تار نگہ بست
زمین و آسمان و مہر و مہ بست


دل ما را بہ او پوشیدہ راہے ست
کہ ہر موجود ممنون نگاہے ست
اگر جہان کو کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو اس کا اپنا وجود کچھ ہو گا تو سہی لیکن بے حقیقت ہو گا۔ اجرام فلکیہ ہوں یا گل و گلزار، یا قلزم و کہسار، ان کی صورتیں ہمارے شعور اور حسی ادراک نے متعین کی ہیں۔ گویا ایک لحاظ سے انسان کا نفس ان کا آفرید کار ہے:
گر او را کس نہ بیند زار گرد
داگر بیند یم و کہسار گردد
یہ ناظر و منظور یا شاہد و مشہود کا قصہ ایک عجیب راز ہے، جہاں کا ہر ذرہ گویا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا جو مجھے مشہود و موجود کر دے۔ انسان کے فیض نظر کے بغیر ہستی نیستی کے برابر ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں وہ نفس انسانی کی ایک تجلی ہے۔ انسان نہ ہو تو رنگ و بو اور نور و صدا معدوم ہو جائیں۔ اقبال کی اصطلاح میں خودی صیاد ہے اور کونین اس کے نخچیر ہیں:
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
عارف رومی جو ان نظریات میں اقبال کا معلم و مرشد ہے، اس کے نزدیک تو صرف خدائی نہیں بلکہ خدا بھی انسان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے:
بزیر کنگرۂ کبریاش مردانند
فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر
اسی تصو رکو اقبال نے اپنے اس شعر میں ڈھالا ہے:
در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے
یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ
اس نظریہ علم و شہود کا لب لباب رومی کے اس شعر میں موجود ہے جس کا حوالہ پہلے آ چکا ہیـ:
قالب از ما ہست شد نے ما ازو
بادہ از ما مست شد نے ما ازو
تیسرا سوال یہ ہے:
وصال ممکن و واجب بہم چیست
حدیث قرب و بعد و بیش و کم چیست
امکان و وجوب کا مسئلہ فلسفے اور علم ا لکلام کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہستی باری تعالیٰ کو ذات واجب الوجود کہتے ہیں۔ یعنی اس کا ہونا لازم ہے۔ اس کے ماننے کے بغیر عقل کو چارہ نہیں۔ وہ ہستی مطلق ہے جو واجب بھی ہے اورقدیم بھی۔ اس کے ماسوا جو کچھ ہے وہ حادث ہے، یا ممکن ہے۔ یعنی اس کا ہونا لازمی نہیں۔ اس کی ہستی اور نیستی دونوں کا امکان ہے۔ اس کا جو کچھ وجود ہے وہ ہستی واجب الوجود سے مستعار ہے لیکن اشکال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ماسوا یا حادث و ممکن کا ظہور بھی آخر ہستی مطلق اور واجب کی بدولت ہوتا ہے۔ خدا اپنی مخلوقات سے جو ممکنات پر مشتمل ہے، بالکل بے تعلق تو نہیں ہو سکتا، لیکن یہ تعلق منطقی عقل کے ادراک میں نہیں آتا۔ ہستی واجب و قدیم، حادث و ممکن سے قریب بھی ہے اور بعید بھی، یہاں وصل بھی ہے اور فراق بھی۔ از روے منطق تو وصل اور فراق میں تضاد ہے، لیکن از روے حقیقت یہ دونوں کیفیتیں بیک وقت موجود ہیں۔ ’’ نخن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ حقیقت مطلقہ یعنی خدا کو انسان کی شہ رگ سے زیادہ نفس انسانی سے قرب بھی ہے اور دوسری طرف خالق و مخلوق میں ناقابل عبور خلیج بھی ہے۔ اس وصل و فراق کے سمجھنے میں عقل عاجز معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے عارف رومی فرماتے ہیں:
اتصالے بے تکنیف بے قیاس
ہست رب الناس را با جان ناس
کیفیت اور قیاس میں تو نہیں آتا لیکن یہ اتصال ایک حقیقت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جس طرح جان یا نفس اور تن میں نہایت ہی قریبی رابطہ بھی ہے، حالانکہ نفس اور بدن کیفیت و صفات کے لحاظ سے نوعیت میں مختلف ہیں:
تن ز جان و جان ز تن مستور نیست
لیک کس را دید جاں دستور نیست
علامہ اقبال نے اپنے جواب میں اس اشکال کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جواب کے پہلے حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاںچوند و چندیہ تین پہلو کون سے ہیں، اس کی تشریح اقبال نے نہیں کی۔ لیکن آگے چل کر جو استدلال ہے اس سے یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک پہلو مادہ ہے، دوسرا زمان، تیسرا مکان علاقہ فرماتے ہیں یہ کیف و کم کا جہان ہے جسے فارسی میں چون وچند کہتے ہیں۔ خرد کا کام یہی ہے کہ وہ ایک طرف ریاضیات کی مدد سے طبعی مظاہر کو ناپے اور تولے اور دوسری طرف کمیت یا مقدار کے علاوہ کیفیت کی بھی توجیہہ کرے کہ کوئی چیز جیسی ہے، ویسی کیوں ہے؟ رنگ و بو کی کیفیات میں اختلاف کس وجہ سے ہے؟ علامہ کا ارشاد ہے کہ طوسیٰ اور اقلیدس کی عقل اسی ریاضیاتی دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ یہ زمین فرسا عقل ہے جو خاک سے حاصل کردہ آئین کا اطلاق اجرام فلکیہ اور ان کی حرکات پر بھی کرتی ہے۔ اس عقل کے پاس زمان اور مکان کے پیمانے ہیں، لیکن زمان اور مکان کوئی مستقل وجود نہیں رکھتے۔ وہ محض اضافی اور اعتباری ہیں۔ زمان و مکان محض زمین فرسا نظر کی پیداوار نہ ہوتے تو معراج کے تجزیہ نبوی میں دونوں کی نفی نہ ہو سکتی۔ اس تجربے میں لامتناہی دکھائی دینے والا مکان اور افلاک کی بے پایاں وسعتیں آنکھ جھپکنے کے لمحے میں کیسے طے ہو گئیں۔ جن تجربات کے لیے ایک طویل مدت درکار تھی وہ سمٹ کر ایک طرفتہ العین میں کیسے سما گئے۔ معلوم ہوا کہ زمان و مکان مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ حقیقت مطلقہ میں مکان کی لامتناہی نہیں، اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ عالم خارجی بے کراں ہے۔ ہستی کی عینیت میں زیر و بالا نہیں او رہمارے زمان مسلسل کا دیر و زور بھی نہیں۔ عارف رومی نے اس شعر میں معراج کی کیفیت بیان کی ہے:
عشق نے بالا نہ پستی رفتن است
عشق حق از جنس ہستی رستن است
یہاں جنس ہستی سے نجات پانے کے معنی زمان و مکان کے قیود سے ماوریٰ ہونا ہے۔ لامتناہی مکان کا نفس کے اندر ایک وجدانی لمحے میں سما جانا سرمد کے نزدیک بھی حقیقت معراج ہے:
آں را کہ سر حقیقتش باور شد
خود پہن تر از سپہر پہناور شد


ملا گوید کہ برشد احمد بہ فلک
سرمد گوید فلک بہ احمد درشد
اسی نظریے کو اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
حقیقت لا زوال و لا مکان است
مگو دیگر کہ عالم بے کران است


کران او درون است و بروں نیست
درونش پست و بالا کم فزوں نیست


درونش خالی از بالا و زیر است
ولے بیرون او وسعت پذیر است
زمان و مکان گویا ممکنات ہیں جنہیں حیات مطلقہ نے اپنے اظہار کے ایک پہلو کی خاطر پیدا کیا ہے۔ ذات واجب نے جو ممکنات اور حوادث کی کثرت پیدا کی ہے ریاضیاتی عقل اس کے شمار اور پیمائشوں میں الجھ جاتی ہے۔ حقیقت مطلقہ کا ادراک اس عقل کی رسائی سے باہر ہے۔ یہ عقل وحدت مطلقہ کو کثرت میں اور حرکت کو سکون میں تبدیل کر کے مظاہر کے باہمی روابط دریافت کرنا چاہتی ہے۔ ہستی کا باطن اس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔
ابد را عقل ما ناسازگار است
یکی از گیر و دار او ہزار است


چو لنگ است او سکوں را دوست دارو
نہ بیند مغز و دل بر پوست دارو
خرد لامکانی حقیقت کو مکانی بنا کر سمجھتے ہے۔ اپنے ضمیر میں غوطہ زنی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ مکانیت کے زیر و بالا اور چپ و راست ہیں او رنہ مکان آلودہ زمانیت کے دیر و زود، ماضی و حال و مستقبل۔ اس نظریے کی فلسفیانہ تشریح علامہ اقبال کے انگریزی خطبات میں ملتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن نے بھی زمان کو اعتباری قرار دیا ہے۔ محشر میں کروڑوں برس کے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے جب پوچھا جائے گا کہ تم کو دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے ’’ کم لبثتم‘‘ تو وہ اس کی مدت ایک آدھ دن ہی کی بتائیں گے۔ مکان کے اضافی ہونے کا ایکا ور ثبوت بھی قرآن میں ملتا ہے، جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔ یہ اشارہ توریت میں بھی موجود ہے۔
علامہ اقبال آگے چل کر فرماتے ہیں کہ واجب اور ممکن کا ربط عقل کو اس لیے لاینحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی تن اور جان کو دو متضاد ہستیاں سمجھ لیتی ہے۔ ایسا سمجھنا گمراہ کن اور حرام ہے۔ تن، جان کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے، اس کا کوئی الگ مستقل وجود نہیں ہو سکتا۔ ’’ قالب از ما ہست شد نے ما ازو‘‘
تن و جاں را دو تاگفتن کلام است
تن و جان را دو تا دیدن حرام است


بجاں پوشیدہ رمز کائنات است
بدن حالے ز احوال حیات است
جسم یا جہان حقیقت مطلقہ کا خود اپنے چہرے پر ڈالا ہوا پردہ ہے۔ یہ پردہ ذوق حجاب نے نہیں بنایا بلکہ ذوق اظہار و انکشاف نے بنایا ہے:
حقیقت روے خود را پردہ ہاف است
کہ او را لذتے از انکشاف است


واقف نہیں ہے تو ہی نوا ہاے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
(غالب)
اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہوا کہ جسے ممکن کہتے ہیں وہ ذات مطلق یا ذات واجب الوجود کے اظہار کی ایک کیفیت ہے۔ واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں جن کا رابطہ قابل فہم نہ ہو سکے۔ ریاضیاتی عقل کے لیے تو وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے لیکن وجدانی اور عرفانی بصیرت کے لیے یہ کوئی لاینحل عقدہ نہیں۔
زندگی کی ناقابل تقسیم وحدت میں نفس و بدن کی دوئی کا فلسفہ گزشتہ دو تین سو سال میں فرنگ میں زیادہ ترقی پذیر ہوا اور اسی دوئی نے وہاں مذہب اور سیاست میں خلیج حائل کر دی۔ مذہب نفس کے لیے رہ گیا اور سیاست مادی اغراض کے لیے وقف ہو گئی۔ تن بے جان ہو گیا او رجان بے تن ہو کرنیست ہو گئی۔ ترکوں کے جدید انقلابی مصلحین تقلید فرنگ میں اسلام کے نظریہ حیات کو کھو بیٹھے اور تقلید فرنگ میں یہ روش اختیار کر لی کہ ملکی اور دینی معاملات کے دائرے الگ الگ ہیں:
بدن را تا فرنگ از جان جدا دید
نگاہش ملک و دیں را ہم دوتا دید


خرد را با دل خود ہم سفر کن
یکے ہر ملت ترکاں نظر کن


بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند
میان ملک و دیں ربطے ندیدند
جسے تم کائنات سمجھتے ہو وہ ذات پاک کی سرگزشت کا ایک لمحہ اور ایک حال ہے۔ اس حال کو ایک مستقل کائنات سمجھ کر اس کا تجزیہ کرنا، مردے کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے یا علوم طبعی میںاس کے نقطے بنانا ہے۔ ایسی حکمت میں نہ موسیٰ کا ید بیضا ہے اور نہ عیسیٰ کا دم حیات بخش۔ میں اس حکمت سے اس لیے بیزار ہو گیا کہ اس میں مجھے کہیں حقیقت حیات کا نشان نہ ملا۔ میں نے اس فلسفے اور اس سائنس کو برطرف کر کے اس حکمت کو ڈھونڈا جس کا سرچشمہ وجدان ہے اور جو مادیت میں پا بہ گل یا زمان و مکان میں پا بہ زنجیر نہیںـ:
حکیماں مردہ را صورت نگار اند
ید موسیٰ دم عیسیٰ ندارد


دریں حکمت دلم چیزے ندید است
براے حکمت دیگر طپید است
مجھے تو جہان کے باطن میں ایک انقلاب انگیز اور احوال خیز حیات ہی حیات نظر آتی ہے۔ ایک مسلسل ارتقاء اور مسلسل خلاقی ہے:
من ایں گویم جہاں در انقلاب است
درونش زندہ و در پیچ و تاب است
تم نے خرد کے دھوکے میں آ کر اپنے نفس کو لامتناہی عالم زمانی و مکانی کی کلیت کا ایک جزو سمجھ لیا ہے، لیکن اپنے ضمیر میں غوطہ لگاؤ تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ جزو اس خارجی کل سے افزوں ہے:
در جہانی و از جہاں بیشی
ہمچو معنی کہ در بیاں باشد
(انوری)
در آں عالم کہ جزو از کل فزوں است
قیاس رازی و طوسیٰ جنون است
لیکن یہ مظاہر پیما عقل بھی بالکل بے کار نہیں۔ زندگی نے اس کو بھی خاص ضرورتوں کے لیے پیدا کیا ہے کچھ عرصہ اس سے بھی آشنائی پیدا کرنی چاہیے۔ رازی اور طوسیٰ اور ارسطو اور بیکن کو تھوڑے عرصے کے لیے ہم سفر بنا لیا کرو۔ جس منزل تک وہ رک گئے ہیں انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو اور اس حقیقت تک پہنچو جو لازمانی او رلامکانی ہے۔
چوتھا سوال یہ ہے:
قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد
کہ ایں عالم شد، آں دیگر خدا شد


اگر معروف و عارف ذات پاک است
چہ سودا در سر ایں مشت خاک است
قدیم او رمحدث کا سوال در حقیقت واجب و ممکن کے مابین ربط کے سوال کا ایک پہلو ہے، لیکن اس سوال کے جواب میں اقبال نے اپنا خودی کا فلسفہ پیش کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہستی قدیم اور ہستی حادث، یعنی خدا اور عالم، ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوئے؟ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ماسوا کو بھی اپنے مقابل میں لا کھڑا کرے۔ بالفاظ دیگر وجہ تکوین عالم کیا ہے۔ اگر ناظر و منظور، عارف و معروف، شاہد و مشہود، ایک ہی ذات پاک ہے تو انسان کے سر میں یہ سودا کہاں سے پیدا ہو گیا ہے جو اس کو حیران اور مضطرب رکھتا ہے:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
(غالب)
اقبال نے انگریزی خطبات میں استدلال سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا کی ہستی ایک بے مقصود سیلان و میلان حیات نہیں، بلکہ ایک نفس مطلقہ ہے اور نفس کے لیے مقصد آفرینی اور مقصد کوشی لازمی ہے۔ ایک خودی انسان کی ہے اور ایک خودی وہ ہے جو ذات الٰہی کی ماہیت ہے۔ خودی کو اپنے اظہار اور ارتقاء کے لیے اپنا غیر پیدا کرنا پڑتا ہے۔ بعض صوفیہ کا خیال ہے کہ انسان کی خودی خدا ہی کی خودی میں سے الگ ہو کر معروض شہود میں آئی ہے۔ا رواح کی یہ کثرت خدا کی ازلی وحدت سے کیوں جدا ہوئی؟اس کی کوئی تشفی بخش توجیہہ صوفیانہ فلسفے میں نہیں ملتی۔ عارف رومی، جس کا نظریہ حیات وہی ہے جس کا اقبال بھی قائل ہے، اپنی مثنوی کو اس بیان سے شروع کرتا ہے کہ ارواح ذات الٰہی سے فراق محسوس کر رہی ہیں اور وصال کے لیے کوشاں ہیں۔ کیوں کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف عود کرنے کا امیلان رکھتی ہے۔ درد فراق اور ذوق وصال نہ صرف روح انسانی بلکہ کائنات کے ہر ذرے میں عشق اور اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ حیات و کائنات کے تمام مظاہر کی توجیہہ مولانا روم اسی نظریے سے کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ فراق پیدا ہی کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔ علامہ اقبال ایک وجہ تکوین بتاتے ہیں اور آفرینش کو خودی کی ماہیت میں سے اخذ کرتے ہیں۔ خدا خیر مطلق اور خلاق ہے۔ نفس الٰہی کو نفس انسانی پر قیاس کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ نفس انسانی کے لیے اگر اس کا غیر موجود و مشہود نہ ہو تو انسان کی خودی نہ بیدار ہو سکتی ہے اور نہ استوار۔ اسی طرح ذات الٰہی بھی اپنا غیر خود پیدا کرتی ہے۔ انسان کے لیے اس کا غیر خود آفریدہ نہیں، لیکن خدا کے لیے ماسوا خود آفریدہ ہے۔ انسان اور خدا کی خودی میں یہی ایک بین فرق ہے۔ اس پر استدلال بھی انگریزی خطبات میں ملتا ہے۔ خدا کی ذات میں سے عالم خیر آفرینی کے لیے الگ ہوتا ہے۔ خدا سراپا حیات ہے اور یہ ماہیت حیات میں داخل ہے کہ وہ اپنا غیر بھی پیدا کرے:
خودی را زندگی ایجاد غیر است
فراق عارف و معروف خیر است
اگر انسان کی خودی خدا سے الگ ہو کر فراق زدہ نہ ہوتی تو اس میں کوئی زندگی نہ ہوتی۔ کیوں کہ زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے اور آرزو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مقصود ایک لحاظ سے موجود ہوتا ہے اور دوسری حیثیت سے مطلوب ہوتا ہے۔ اگر انسان خدا کا عاشق ہو سکتا ہے تو فراق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی ذات بھی تو عشق سے معرا نہیں، عشق اس کی ماہیت میں بھی داخل ہے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے بے تاب ہیں اور خدا ہمارے لیے بیتاب ہے۔ اگر ہم اس سے الگ نہ ہوئے ہوتے تو وہ ہمارے لیے بے تاب کیسے ہوتا۔ فراق عشق کی فطرت میں داخل ہے اور یہی وجہ آفرینش ہے۔ ’’ خدا ہم در تلاش آدمے ہست‘‘ خدا اور انسان کی محبت دو طرفہ ہے:
ازو خود را بریدن فطرت ماست
تپیدن نا رسیدن فطرت ماست


نہ ما را در فراق او عیارے
نہ او را بے وصال ما قرارے


نہ او بے ما نہ ما بے او! چہ حال است
فراق ما فراق اندر وصال است
خدا کا مقصود مخلوق میں عشق پیدا کرنا ہے اور اس عشق کا مقصود خود خدا ہے۔ اس لیے عشق کی بدولت انسان میں بصیرت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔
جدائی خاک را بخشد نگاہے
دبد سرمایہ کوہے بہ کاہے
خدا اور انسان کا یہ رشتہ ہی بقائے ذات انسانی کا ضامن ہے۔ نہ اس عشق کی انتہا ہو سکتی ہے اور نہ زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ اگر خدا اور انسان کے درمیان عشق کا رابطہ نہ ہوتا تو انسانی نفس بھی مادی مظاہر کی طرح ایک آنی جانی چیز ہوتا:
من و او چیست؟ اسرار الٰہی است
من و او بر دوام ما گواہی است
زندگی خوا ہ خدا کی ہو اور خواہ انسان کی، اس کو خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے۔ ذوق جلوت نے ذات الٰہی کو انجمن آفرین اور انجمن آرا کر دیا:
پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر
چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر


محبت دیدہ ور بے انجمن نیست
محبت خود نگر بے انجمن نیست
انگریزی خطبات میں اقبال نے اپنے اس خیال کو بیان کیا ہے کہ خدا نے جامد و بے جان اشیاء پیدا نہیں کیں۔ وہ خود ایک نفس ہے، اس لیے اس سے نفوس ہی صادر ہوئے ہیں۔ جنہیں ہم ذرات کہتے ہیں، وہ بھی دل ہی ہیں یا دلوں کے اجتماعات ہیں۔ یہ نظریہ بھی اسلامی مفکرین اور صوفیہ کے ہاں قدیم سے چلا آتا ہے۔ یہ نظریہ جلال الدین رومی کے ہاں بھی ملتا ہے اور بعض اور صوفی یا متصوف شعراء کے کلام میں بھی:
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش بہت سے مقابل ہے آئینہ
(غالب)
آہستہ سے چل میان کہسار
ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے
(میر درد)
خاک و باد و آب و آتش بندہ اند
بامن و تو مردہ با حق زندہ اند
(رومی)
قرآن بھی جب ’’ یسبح للہ ما فی السماوات وما فی الارض ‘‘ کہتا ہے تو تسبیح نفوس ہی کا فعل ہو سکتی ہے۔ خواہ ہم کائنات میں دیگر نفوس کے انداز حیات اور ان کی تسبیح کو نہ سمجھ سکیں۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ بعض کم فہم حکما اور مفسرین نے اس کو جامد کائنات کی زبان حال کی تسبیح قرار دیا ہے۔ جیسے کوئی کھنڈر زبان سے یہ کہہ رہا ہو کہ میں بھی ایک شاندار عمارت تھا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ توجیہہ درست نہیں معلوم ہوتی۔ اقبال کہتا ہے کہ اس عالم میں اور کسی چیز کا وجود نہیں۔ یا نفوس ہیں یا خدا کا نفس کلی:
کہ ایں جا ہیچ کس جز ما او نیست
خدا اور ہمارے درمیان فراق و وصل کی حالتیں یکے بعد دیگرے آتی رہتی ہیں۔ موجیں ساحل سے ٹکراتی بھی ہیں اور پھر اس سے دور بھی ہو جاتی ہیں:
گہے خود را ز ما بیگانہ سازد
گہے ما را چو سازے می نوازو
’’ چو سازے می نوازد‘‘ سے غالب کا ایک لطیف شعر یاد آ گیا:
شوریست نوا ریزی تار نفسم را
پیدا نہ اے جنبش مضراب کجائی
خدا ہی کی تلاش اور اس کے عشق میں انسان اپنے تصور سے پتھروں میں اس کی تصویریں بنا کر ان کی پرستش کرتا رہا ہے اور کبھی بن دیکھے بھی سجدہ پاشی کرتا ہے۔ کبھی پردۂ فطرت کو چاک کر کے جمال یار کی بیباکانہ دید کی ایک جھلک بھی اس کو دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ اس مشت خاک میں یہ سودا کیا ہے۔ اس کا جواب اقبال کے ہاں یہ ہے کہ یہ سودا نہیں، بلکہ سرچشمہ حیات ہے۔ اسی عشق سے انسان کو بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے او رنشوونما بھی:
چہ سودا سر ایں مشت خاک است
ازیں سودا درونش تابناک است


چہ خوش سودا کہ نالہ از فراقش
و لیکن ہم ببالد از فراقش


فراق او چناں صاحب نظر کرد
کہ شام خویش را بر خود سحر کرد
خدا کی محبت نے عالم اور زندگی کو پیدا کیا اور پھر اس محبت کو مخلوقات کے لیے ذریعہ ارتقاء بنایا:
محبت؟ درگرہ بستن مقامات
محبت؟ در گزشتن از نہایات
عالم کے مظاہر محبت ہی سے پیدا ہوتے اور محبت ہی سے ترقی پاتے ہیں۔ محبت باعث تکوین بھی ہے اور مقصود حیات بھی:
عشق ہم را ہست و ہم خود منزل است
خدا کی خودی میں گم یا فنا ہو جانے سے عشق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نہ خدا کی محبت کا کوئی محبوب رہے گا اور نہ محبت خدا کے لیے کوئی آرزو باقی رہے گی۔ فنا کے اس روایتی مفہوم سے خدا اور انسان دونوں کی خودی سوخت ہو جاتی ہے۔ خدا کے لیے بھی مشہود و معروف و محبوب مخلوق کی ہستی ضروری ہے اور انسان کے لیے بھی۔ حیات جاودانی کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ خودی کے ارتقاء اور عشق الٰہی میں ہزاروں عالم پیدا کرتا ہوا چلا جائے اور فطرت کی یہ خلاقی کہیں ختم نہ ہو۔ خدا میں گم ہو جانے سے تو انسان فنا ہو جائے گا، لیکن خدا کو اپنے اندر مسلسل جذب کرتے رہنے سے انسان ہمیشہ باقی رہے گا۔ انسان کا مقصود حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر پہلی صورت کو فنا کرتا ہوا ارتقاء یافتہ صورتوں کی آفرینش کرتا چلا جائے:
ہزاراں عالما فتد در رہ ما
بپایاں کے رسد جولانگہ ما


مسافر! جاوداں زی جاوداں میر
جہانے را کہ پیش آید فرا گیر


یہ بحرش گم شدن انجام ما نیست
اگر او را تو درگیری فنا نیست


زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
(میرتقی)
بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے


ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
(اقبال)
اقبال کے تصوف اور اکثر صوفیہ کے تصوف میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا کی بھی خودی ہے اور انسان کی بھی اور انسان کی خودی کا ارتقاء مسلسل صفات الٰہیہ پید اکرنے سے ہوتا ہے۔ اس کا انجام یہ نہیں کہ انسان کی خودی خدا کی خودی میں اس طرح گم ہو جائے جس طرح بارش کا قطرہ سمندر میں اپنی انفرادیت کو فنا کر دیتا ہے۔ اس کے نزدیک خودی کی ماہیت ہی یہی ہے کہ وہ اپنی عینیت کو قائم و دائم رکھنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا نہ خدا انسان میں گم ہو سکتا ہے اور نہ انسان خدا کی ذات میں:
خودی اندر خودی گنجد محال است
خودی را عین خود بودن کمال است
پانچواں سوال یہ ہے:
کہ من باشم مرا از، من، خبر کن
چہ معنی دارد اندر خود سفر کن
یہ سوال خودی کی مزید توضیح کے لیے کیا گیا ہے کہ ’’ میں‘‘ ’’ من‘‘ یا’’ انا‘‘ کیا ہے اور خود اپنی ذات کے اندر سفر کرنے کے کیا معنی ہیں؟
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ خودی‘‘ حفظ و بقاے کائنات کی ضامن ہے۔ یہ نہیں کہ حیات میں ارتقاء کے ایک خاص درجے میں خودی پیدا ہوئی ہے، بلکہ ازلی حقیقت خودی ہے اور حیات اس کا پرتو ذات ہے۔ خودی کی وحدت جب مظاہر کی کثرت پیدا کرتی ہے تو اس سے زندگی بیدار ہو جاتی ہے۔ ذوق نمو کے بغیر مظاہر حیات پیدا نہ ہوتے اور نہ کشود حیات کے بغیر خودی کی نمود ہو سکتی تھی۔ زندگی سے اشیاء کی نہیں بلکہ افراد یا خودی کے مالک نفوس کی نمود ہوتی ہے۔ کثرت افزائی، انجمن آرائی، جلوت پسندی، غیر آفرینی اور غیر بینی کے باوجود خودی اپنی ماہیت میں خلوت نشیں ہی رہتی ہے۔ جلوت میں ظہور سے اس کی خلوت مستور میں فرق نہیں آتا۔ ضمیر فطرت جستجو آرزوئے رنگ و بو کے باوجود پوشیدہ رہتا ہے:
ز خود نا رفتہ بیروں غیر بیں است
میان انجمن خلوت نشین است


نہاں از دیدہا در ہائے و ہوئے
دما دم جستجوے رنگ و بوئے
اس کا باطنی پیچ و تاب پیکار حیات میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی پیکار سے ارتقا اور بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ کف خاک کو اسی ستیز اور جست و خیز نے آئینہ حقیقت بنا دیا ہے۔ پیکر خاکی خودی کا حجاب بن جاتا ہے، لیکن اسی کے اندر سے آفتاب طلوع ہوتا ہے:
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
(ناسخ)
خودی را پیکر خاکی حجاب است
طلوع او مثال آفتاب است


درون سینہ ما خاور او
فروغ خاک ما از جوہر او
اے سائل تو پوچھتا ہے یہ ’’ من‘‘ کیا ہے اور ’’ اندر خود سفر کردن‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ اس کا جواب تو میں ایک انداز سے پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ربط جان و تن کس قسم کا ہے ۔ تو اپنے ضمیر میں ڈوب کر دیکھ لے کہ یہ من کیا ہے۔ اس ’’ سفر خویش‘‘ میں جس خودی کا انکشاف ہوتا ہے وہ والدین کے اجتماع سے پیدا نہیں ہوئی، اس کی حقیقت ازلی ہے۔ کسی صوفی کا شعر ہے:
ما پرتو نور پادشاہ ازلیم
فرزند نہ ایم آدم و حوا را
اسی ’’ من‘‘ کے متعلق رومی کہتا ہے:
من آں روز بودم کہ اسما نہ بود
نشان از وجود مسمیٰ نہ بود
اور کسی صوفی نے ایک شوخ انداز میں کہا ہے:
می گفت در بیاباں رندے دہن دریدہ
صوفی خدا نہ دارو او نیست آفریدہ
اقبال کہتا ہے ’’ سفر در خویش؟ زاون بے اب و مام‘‘ یہاں تکوین فی الزمان کا سوال نہیں بلکہ ’’ابد بودن بیک دم اضطرابے‘‘
یا’’ طے شود جادۂ صد سالہ بہ آہے کاہے‘‘ کا مضمون ہے۔
خودی جب لازمانی اور لامکانی حالت سے شہود کی طرف واپس آتی ہے تو عالم مکانی اس کی مٹھی میں ہوتا ہے:
چناں باز آمدن از لا مکانش
درون سینہ او در کف جہانش
یہ مسئلہ دانش کا نہیں بلکہ بینش کا ہے۔ دیدن آئینہ کمال ہے اور اس حال کے مقابلے میں قال محض جام سفال ہے:
ولے ایں راز را گفتن محال است
کہ دیدن شیشہ و گفتن سفال است
اس کی حقیقت فہم قرآنی رکھنے والے انسان پر کسی قدر بے نقاب ہو جاتی ہے۔ وہ امانت کیا تھی جس کی بھاری ذمہ داری اور اضطراب آفرینی کو دیکھ کر موجودات خاک و افلاک نے اس کوقبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ’’ انا عرضنا‘‘ کی معرفت آفرین آیت میں اسی خودی کی ماہیت کی طرف اشارہ ہے:
آسماں بار امانت نتوانست کشید
قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند
(حافظ)
بردہ آدم از امانت ہر چہ گردوں برتنافت
ریخت مے بر خاک چوں در جام گنجیدن نہ داشت
(غالب)
چہ گویم از من و از توش و تابش
کند ’’انا عرضنا‘‘ بے نقابش
فلک را لرزہ بر تن از فر او
زمان و ہم مکان اندر براو
یہ خودی ’’ غیر خود‘‘ سے وابستہ بھی ہے اور ماوریٰ بھی ۔ ذرا اپنے خیال پر ہی غور کر لیجئے۔ دیکھئے سیر اندیشہ میں زمان مکان کہاں ہے۔ تفکر میں مکانیت نہیں ہے اور زمانیت کا یہ حال ہے کہ ایک لمحے میں خیال افلاک کو عبور کر جاتا ہے۔ جسم کے زنداں میں محبوس ہونے کے باوجود یہ آزادی، خود ہی کمند، خود ہی صید، خود ہی صیاد ہے۔ اور صیادی بھی ایسی جو یزداں گیر کا حوصلہ رکھتی ہے۔ یہی خودی تیرے باطن کا چراغ ہے جس کا تجھے امین بنایا گیا ہے کہ یہ بجھنے نہ پائے بلکہ اس کے نور میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔
چھٹا سوال یہ ہے:
چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است
طریق جستن آں جزو چون است
یہ سوال بھی خودی کی ماہیت کی بابت ہے۔ پہلے جوابات میں خودی کی حقیقت بہت کچھ بیان ہو چکی ہے۔ لیکن علامہ اقبال کا یہ خاص مضمون ہے اس لیے ان کو بیان سے سیری نہیں ہوتی۔ انسان کی خودی کل موجودات کا ایک جزو معلوم ہوتی ہے لیکن اس پر جزو کل کی منطق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لامتناہی زمان و مکان کا عالم اس کے اندر سما جاتا ہے:
خودی ز اندازہ ہاے ما فزون است
خودی زاں کل کہ تو بینی فزون است
شجر و حجر میں وہ بات نہیں جو انسان کے نفس میں ہے ہستی کے اندر خودی ہی خود نگر ہے، کسی اور ہستی کی یہ پرواز کہاں حاصل ہے۔ اس کا کام گر گر کر ابھرنا ہے۔ عالم مادی کے ظلمت کدے میں یہ چراغ منیر و مستیز ہے۔ خودی فطرت کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر معرفت کے موتی نکالتی ہے۔ اس کا ظاہر زمانی لیکن اس کا ضمیر جاودانی ہے۔ تمام ہستی اس کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔ تقدیر کے احکام اس پر خارج سے نازل نہیں ہوتے۔ اس کی تقدیر اس کی اپنی نہاد میں مضمر ہے۔ یہ ظاہر میں مجبور ہے اور باطن میں مختار۔ اسی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اسلام نے یہ تعلیم دی کہ ایمان جبر و اختیار کے مابین ہے۔ اے انسان تو مخلوق کو مجبور دیکھتا اور مجبور سمجھتا ہے، لیکن تیری جان کو اس جاں آفرین نے پیدا کیا ہے جو خلاق و مختار ہے، اور یہی صفت اس نے تیری خودی میں بھی رکھ دی ہے۔ خلق الانسان علی صورتہ۔ جہاں جان کی ماہیت کا ذکر ہو، وہاں جبر کا تذکرہ بے معنی ہے کیوں کہ جان کے معنی ہی یہی ہیں کہ اس کی فطرت آزاد ہو:
تو ہر مخلوق را مجبور گوئی
اسیر بند نزد و دور گوئی


ولے جاں از دم جاں آفرین است
بچندیں جلوہ ہا خلوت نشین است


ز جبر او حدیثے درمیاں نیست
کہ جاں بے فطرت آزاد جاں نیست


شبیخون بر جہان کیف و کم زد
ز مجبوری بختاری قدم زد
زندگی کا مقصود اور اس کی راہ ارتقاء یہ ہے کہ وہ مسلسل گرد مجبوری کو دامن سے جھٹکتی چلی جائے۔ جو ہستی درجہ حیات میں جتنی بلند ہے اتنی ہی صاحب اختیار ہے۔ جب اختیار اور بڑھ جائے گا تو انسان صحیح معنوں میں مسخر کائنات اور مسجود ملائک ہو گا۔ خودی کی ترقی خرد سے عشق کی طرف ہوتی ہے۔ خرد کا کام محسوسات کا فہم ہے اور وہ اجزاء کے اندر روابط تلاش کرتی رہتی ہے۔ عشق کلیت حیات پر محیط ہو جاتا ہے۔خرد مر سکتی ہے لیکن عشق کے لیے موت نہیں:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق


خرد را از حواس آید متاعے
فغاں از عشق می گیر شعاعے


خرد جز را فغاں کل را بگیرد
خرد میرو فغاں ہر گز نہ میرو
٭٭٭
فغان عاشقاں انجام کارے است
نہاں در یک دم او روزگارے است
خودی پختہ ہونے سے ابد پیوند اور لازوال ہو جاتی ہے:
ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است
خودی چوں پختہ شد از برگ پاک است
خودی کی موت عشق کے فقدان سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اصل موت یہی ہے اور اسی موت سے ڈرنا چاہیے:
ترا ایں مرگ ہر دم در کمین است
بترس از دے کہ مرگ ما ہمین است
ساتواں سوال یہ ہے:
مسافر چوں بود رہرو کدام است
کرا گویم کہ او مرد تمام است
سوال یہ ہے کہ مسافر اور رہرو کسے کہتے اور سفر کے کیا معنی ہیں۔ انسان کامل کی کیا نشانی ہے۔
اقبال نے جا بجا زندگی کو ایک لامتناہی سفر قرار دیا ہے اور اسے مرحلہ شوق کہا ہے، جس کو سکون منزل کی آرزو نہیں:
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی


بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے
لندن میں کہی ہوئی ایک غزل بال جبریل میں درج ہے۔ جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ ہر حالت سے گزرتا چلا جا:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مختلف احوال سے آگے نکلتا جا:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر


گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر


کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر
اب یہاں اسی سفر کے متعلق سوال ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کوئی خارجی عالم کی مسافت طے کرنا نہیں ہے۔ یہ سفر خودی کا باطنی ارتقائی سفر ہے۔ اس میں انسان خود ہی مسافر ہے، خود ہی راہ ہے اور خود ہی منزل ہے۔ یہ از خود تا بخود سفر ہے۔ یہ خودی کی مسلسل ترقی یافتہ صورتوں تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے:
اگر چشمے کشائی بر دل خویش
دروں سینہ بینی منزل خویش


سفر اندر حضر گردن چنین است
سفر از خود بخود کردن ہمین است
خودی کسی مکان کے اندر نہیں کہ اس کا کوئی مقام متعین کر سکیں۔ زمانی و مکانی عالم کے لحاظ سے اگر کوئی پوچھے کہ ہم کہاں ہیں تو اس کا جواب محال ہے۔ چشم مہ و اختر جو ہمارے ظاہر کو دیکھتی ہے اسے ہماری حقیقت کا کچھ علم نہیں:
کسے ایں جا نداند ما کجانیم
کہ در چشم مہ و اختر نیانم
اس سفر کی کوئی انتہائی منزل نہیں، کیونکہ اگر کوئی آخری منزل آ جائے تو ہماری جان ہی فنا ہو جائے۔ جان تو جستجو اور آرزو کا نام ہے، اگر کوئی انجام آ گیا تو آرزو ناپید اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہو جائے گی:
مجو پایاں کہ پایائے نداری
بپایاں تا رسی جانے نداری
خودی اپنی ترقی میں یقین اور بصیرت میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ تب و تاب محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ محبت کو فنا ہے او رنہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔ کمال زندگی دیدار ذات ہے، لیکن اگر حسن ذات بے پایاں ہے، تو عشق ذات کی بھی انتہا کہیں نہیں ہے۔ خدا کو دیکھتے ہوئے بھی شوق دیدار کا سفر جاری رہتا ہے:
چناں با ذات حق خلوت گزینی
ترا او بیند و او را تو بینی
لیکن خدا کے اندر گم ہو جانا مقصود نہیں۔ اگر ہم گم ہو گئے تو محب و محبوب کا امتیاز ہی مٹ جائے گا۔ اس لیے اگر تو خدا کے حضور میں بھی گزر رہا ہو تو خودی کو استوار کرتے ہوئے گزر۔ قطرے کی طرح سمندر میں ناپید نہ ہو جا:
بخود محکم گزر اندر حضورش
مشو ناپید اندر بحر نورش
جس شخص میں دید پیدا ہو جائے، یعنی اپنی اور خدات کی ذات کا بیک وقت دیدار، اور یہ دیدار اس کی خوشی کی سوخت نہ کر دے تو اسی شخص کو دنیا کا امام سمجھو۔ مرد کامل کا معیار یہی ہے:
کسے کو دید عالم را امام است
من و تو نا تمامیم او تمام است


آدمی دید است و باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
(رومی)
اگر ایسا شخص دکھائی نہ دے تو اس کی طلب کو جاری رکھ اور اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو پھر اس کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ مرد کامل تجھے فقیہ و شیخ و ملا کے طبقوں میں نہ ملے گا۔ یہ لوگ انسانوں کے شکاری ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔
فقیہ و شیخ و ملا را مدہ دست
مرد مانند ماہی غافل از شست
مرد کامل تو ملک اور دین دونوں میں اچھا رہنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مرد راہ ہے۔ فرنگ سے بھی خبردار رہنا۔ وہاں جو جمہوریت انسانی اخوت و مساوات کی مدعی بن گئی ہے، یہ سب ابلہ فریبی ہے۔ ہوس پرست عوام کا ہجوم کہاں انسانیت کی ترقی اور بصیرت افزائی کا موجب بن سکتا ہے۔ ایک لاکھ جمہوریت کے ہنگامے بھی ایک مرد راہ کے برابر بصیرت نہیں رکھتے۔ اس جمہوریت میں امام عالم کہاں سے آئیں گے۔ مشرق اپنی جھوٹی روحانیت اور مذہبیت کے دعوے باطل میں مردان راہ سے خالی ہے اور مغرب مادہ پرستی میں اسیر کمند ہوا ہے۔ اب شرق و غرب میں کس کو کہوں کہ وہ ’’ مرد تمام‘‘ ہے:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیزو بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو
کیا یہ مرد راہ کہیں نہیں؟ کیا یہ محض انسانیت کا ملہ کا ایک نصب العین ہے؟ ایک عرصے تک تو یہ عارف رومی کو بھی کہیں دکھائی نہ دیا:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست
آٹھواں سوال یہ ہے:
کدامی نکتہ را نطق است انا الحق
چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق
ایقان ’’ انا الحق‘‘ تمام تصور کا محور ہے۔ اس کے متعلق آج تک بحث چلی آتی ہے۔ کہ منصور نے جو انا الحق کہا وہ کفر کا کلمہ تھا یا راز حیات کا افشا تھا۔ علمائے ظاہر نے اس جرم پر اس کو سولی پر چڑھا دیا، لیکن اکثر صوفی اس کو عارف باللہ اور امام سمجھتے ہیں اور تنگ نظر فقہا کو ایک معصوم کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہیں۔
چوں قلم در دست غدارے بود
لا جرم منصور بر دارے بود
(رومی)
محمود شابستری نے بھی ’’ گلشن راز‘‘ میں بڑے زور و شور سے منصور کی حمایت کی ہے:
را باشد انالحق از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
انا الحق کا عقیدہ ہندو تصوف کا بھی لب لباب ہے:
اہم برہم آسمی تت توم آسی
اقبال نے جو نظریہ خودی پیش کیا اس میں بھی جا بجا خودی اور خدا میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ خودی کے کثرت سے اشعار ایسے ہیں کہ بادی النظر میں دھوکا ہو سکتا ہے کہ یہ اشعار خدا کی ذات و صفات کے متعلق ہیں۔ اقبال مذکورہ صدر سوال میں انا الحق کے متعلق اپنے موقف کی تشریح کرتے ہیں، چونکہ یہ عقیدہ ہند اور ایران دونوں جگہ عام اور مسلم ہو گیا تھا اسی لیے پہلے شعر میں فرماتے ہیں:
من از رمز انا الحق باز گویم
دگر با ہند و ایراں راز گویم
پہلے یہ بیان کیا ہے کہ ایک ایرانی یہ کہہ گیا ہے کہ زندگی دھوکا کھا کر یہ ’’ من‘‘ کا تصور پیدا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں تمام عالم، انسانی نفوس سمیت ایک سوتے ہوئے خدا کا خواب ہے۔ وہ شعر اقبال نے یہاں درج نہیں کیا لیکن اس قسم کی بحث کے دوران میں انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ وہ شعر یہ ہے:
تا تو ہستی خداے در خواب است
تو نمانی چو او شود بیدار
مرزا غالب بھی عقلی طور پر وحدت وجود کے قائل تھے، اس لیے اس قسم کے تصورات غالب کے اردو اور فارسی کلام میں کثرت سے ملتے ہیں:
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہ دام خیال ہے
اس فارسی شعر کے تصور کو اقبال نے اپنے جواب میں ذرا پھیلا کر لکھا ہے، کیوں کہ اس کی تردید مقصود ہے:
خدا خفت و وجود ما ز خوابش
وجود ما نمود ما ز خوابش


مقام تحت و فوق و چار سو خواب
سکون و سیر و شوق و جستجو خواب
دل بیدار وو عقل نکتہ بیں، گمان و فکر، تصدیق و یقیں سب خواب ہی خواب ہے اور یہ خواب خدا دیکھ رہا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس زندگی کو اپنی چشم بیدار سے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ بیداری بھی سپنا ہے اور ہمارے گفتار و کردار ہندو ویدانت کی اصطلاح میں مایا یا فریب ادراک ہیں۔ یہاں ایک ویدانتی گرو کے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا جو ہم نے اپنے ہندو استاد فلسفہ سے سنا تھا۔ یہ گرو جنگل میں اپنے چیلوں کو حیات و کائنات کے مایا ہونے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ ایک روز ایک مست ہاتھی گرو اور چیلوں کی طرف لپکتا دکھائی دیا۔ چیلے جان بچا کر ادھر ادھر تتر بتر ہو گئے اور گرو جی بھی ایک درخت پر چڑھ گئے۔ ایک چیلے نے جرأت کر کے گرو جی سے پوچھا کہ اگر یہ ہاتھی اور اس سے جان کا خطرہ مایا تھا تو آپ اس طرح دم دبا کر کیوں بھاگے؟ گرو جی اپنی منطق میں طاق تھے۔ انہوں نے جواب دیا عجب احمق ہو کہ وہ میرا بھاگنا اور درخت پر چڑھ جانا بھی تو مایا ہی تھا۔ جیسے ہاتھی کی کچھ حقیقت نہ تھی اسی طرح ہمارے فرار کی بھی کچھ اصلیت نہیں۔ وہ بھی دھوکا یہ بھی دھوکا۔
اقبال کے نظریہ حیات میں خدا بھی حق ہے اور انسانی خودی، جو خدا کی حیات ابدی سے سر زد ہوئی ہے، وہ بھی حق ہے۔ وحدت وجود کا روایتی فلسفہ خدا کو حق قرار دیتا ہے۔ وہی حقیقت مطلقہ ہے، لیکن انسانی نفس یا خواب ہے، یا فریب ادراک، یا خدا کے لامتناہی قلزم ہستی کی ایک لہر۔ لہریں پیدا اور نا پید ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن قلزم ہستی مطلق اپنے تلاطم میں ان سے مستغنی رہتا ہے۔ وحدت وجود کے اکثر قائلوں نے انسانی نفس کو ایک وہمی ہستی قرار دیا ہے:
صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما
چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما
(غالب)
اقبال کہتا ہے کہ تمام عالم کے وجود حقیقی ہونے پر شک ہو سکتا ہے لیکن شک کرنے والا نفس موہوم نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری دانش قیاسی ہے اور قیاس کا مدار حواس پر ہے، حواس مختلف ہوں تو عالم بھی اور کا اور ہو جائے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہان رنگ و بو محض اعتبار ہے، خواب ہے یا حقیقت کا حجاب ہے۔ لیکن اپنے نفس کے وجود کا انکار ناممکن ہے۔ (یہ بعینہ وہی بات ہے جہاں سے فرنگ کا فلسفہ جدید شروع ہوتا ہے۔ ڈیکارٹ کہتا ہے کہ میرا سوچنا یا تمام موجودات کے وجود پر شک کرنا ہی اس امر کی محکم دلیل ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو صاحب فکر نفس تو موجود ہے):
تواں گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است
فریب پردہ ہاے چشم و گوش است


خودی از کائنات رنگ و بو نیست
حواس ما میلان ما و اس نیست
خودی کے حرم اور خلوت گاہ میں حواس و محسوسات کو بار حاصل نہیں ہے۔ سب احساس و ادراک بالواسطہ ہوتا ہے، لیکن انسان کو اپنے نفس کا موجود ہونا براہ راست محسوس ہوتا ہے۔ ظن اور شک کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نفس کو اپنے ’’ حق‘‘ ہونے کا احساس ہے۔ حقیقت مطلقہ تو خدا کی ذات حق ہے، لیکن نفس کے حقیقی ہونے پر بھی کوئی شک نہیں:
خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است
یکے اندیش و در یاب ایں چہ راز است


خودی را حق بداں باطل مپندار
خودی را کشت بے حاصل مپندار
خدا کی خودی اور انسان کی خودی میں یہ فرق ہے کہ خدا کا سرمدی دوام کوئی جزاے کار نہیں، بلکہ اس کی ماہیت میں داخل ہے۔ لیکن انسانی خودی کو لازوال کرنے کے لیے عمل اور عشق سے پائدار کرنا پڑتا ہے۔
اقبال کہتا ہے کہ شنکر اچاریہ اور منصور حلاج دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں انا الحق کہا۔ تم ان کے نظریات کو برطرف کر کے عرفان خودی سے خدا کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ انا الحق کہتے ہوئے اپنی خودی کے راستے سے خدا کی مطلق خودی تک پہنچو۔ ’’ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ‘‘ :
دگر از شنکر و منصور کم گوے
خدا را ہم براہ خویشتن جوے


بخود گم بہر تحقیق خودی شو
انا الحق گو و صدیق خودی شو
یہاں اقبال کے اردو اشعار کا درج کرنا بھی لازمی معلوم ہوتا ہے:
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش


حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
نواں سوال یہ ہے:
کہ شد بر سر وحدت واقف آخر
شناساے چہ آمد عارف آخر
راز وحدت سے کون واقف ہوا اور عارف کو کس حقیقت کا عرفان حاصل ہوا، اس کے جواب میں پہلے دنیا کے ہر مظہر کی بے ثبانی پر کچھ اشعار کہتے ہیں۔ شجر و حجر، سنگ و شرر، شبنم و گہر، رنگ و نواے چنگ، کسی کو ثبات حاصل نہیں۔ انسان کا دم بھی آنی جانی چیز ہے:
مپرس از من ز عالم گیری مرگ
من و تو از نفس زنجیری مرگ
عرفان میں پہلا انکشاف ہر شے کی فنا پذیری ہے:
فنا را بادۂ ہر جام گردند
چہ بیدردانہ او رام عام کرند
لیکن خودی کا چراغ صر صر فنا سے نہیں بجھتا:
خودی در سینہ چاکے نگہ دار
ازیں کوکب چراغ شام کردند
جہاں کا کوئی حصہ فنا کی دستبرد سے باہر نہیں۔ ہر صورت فانی اور آفل ہے۔ لیکن خودی آرزو اور جستجو سے قائم و دائم ہو جاتی ہے۔ فنا کا قانون اس پر عائد نہیں ہوتا:
نگہ دارند ایں جا آرزو را
سرور ذوق و شوق جستجو را


خودی را لازوالے می تواں کرد
فراقے را وصالے می تواں کرد
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا کو لا تعدادنفوس کی خودی کو برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خداے زندہ دوسرے نفس سے رابطہ رکھنے کا ذوق رکھتا ہے، اسے خود تنہائی پسند نہیں:
خدائے زندہ بے ذوق سخن نیست
تجلی ہاے او بے انجمن نیست
’’ الست بربکم قالو ابلے‘‘ خود خدا کے ذوق سے سرزد ہوا۔ اسی نے نفوس میں عشق کی چنگاری رکھ دی۔ ’’ چہ آتش عشق در خاکے برا فروخت‘‘ خدا کی گرمی محفل تو ہمیں سے ہے۔ ہمیں فنا کر دے گا تو وہ تنہا رہ جائے گا:
اگر مائیم گرداں جام ساقی است
بیزمش گرمی ہنگامہ باقی است
ہمیں بھی اپنی خودی کو اس لیے لازوال بنانا چاہیے کہ خدا کی بزم آرائی باقی رہے:
مرا دل سوخت بر تنہائی او
گنم سامان بزم آرائی او


مثال دانہ می کارم خودی را

براے او نگہ دارم خودی را