حیاتیات کے حقائق کی شہادت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

حیاتیات کے حقائق کی شہادت برگسان اور ڈریش
تصوری اور نو تصوری فلاسفہ کے نظریات اور طبیعات جدید کی شہادت کے علاوہ جن میں سے ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر ایک کے اندر اس خیال کی پر زور تائید موجود ہے کہ کائنات کی حقیقت شعور یا روح ہے، حیاتیات کے بعض حقائق بھی اس نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔ ان حقائق کی بنا پر بعض منظم فلسفے قائم کئے گئے ہیں جن میں سے ایک ارتقائے تخلیقی کا فلسفہ ہے جسے برگسان نے مدون کیا ہے اور دوسرا اینٹی لیچی کا فلسفہ ہے جسے ڈریش نے پیش کیا ہے مادیت کے حامیوں کا خیال ہے کہ زندگی مادہ کی ایک خاص حالت کے وصف کے سوا کچھ نہیں جب مادہ ایک خاص کیمیاوی ترکیب کو پا لیتا ہے تو اس میں زندگی کی خاصیت نمودار ہو جاتی ہے حیوان جو اس طرح سے وجود میں آتا ہے ایک حساس مشین یا کل کی طرح ماحول کی کیفیات سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کی جسمانی بناوٹ میں ایک تبدیلی ظاہر ہوتی ہے جوں جوں ادوار گزرتے جاتے ہیں ماحول کی ان نوبہ نو کیفیات کے باعث جن سے حیوان کا سابقہ پڑتا رہتا ہے اس تبدیلی میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس طرح حیوانات کی نئی نئی اقسام وجود میں آتی رہتی ہیں۔ لیکن حیاتیات کی تازہ تحقیقات اس نقطہ نظر کی حمایت نہیں کرتیں۔ پروفیسر جے ایس ہالڈین کا خیال ہے کہ وہ حکماء جو حیاتیات کا مطالعہ سنجیدگی سے کرتے ہیں اب اس بات کے قائل نہیں رہے کہ زندگی فقط مادہ کی کسی خاص کیمیاوی ترکیب کا نتیجہ ہے جرمنی کے ماہر حیاتیات ڈریش (Driesh) کے تجربات بالخصوص اس نتیجہ پر مجبور کرتے ہیں کہ ماحول کی خارجی کیفیات سے متاثر ہونے کے باعث جو حرکات ایک زندہ انسان سے سرزد ہوتی ہیں وہ ایک کل یا مشین کی حرکات سے یکسر مختلف ہیں۔ کل ایک بیرونی طاقت سے حرکت میں لائی جاتی ہے اور خود چند اجزا کے مجموعہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی اس کے برعکس حیوان جسم کی ایک خاص شکل و صورت حاصل کرنے اور قائم رکھنے کے لئے ایک اندرونی میلان کا اظہار کرتا ہے یہ ایک مجموعہ اجزا کی طرح نہیں بلکہ ایک ناقابل تقسیم وحدت کی طرح عمل کرتا ہے جس کے اندر ایک رحجان طبیعت ایسا ہے جو اس وحدت کی ضروریات کی خبر رکھتا ہے اگر ہم ایک کیکڑے کی ٹانگ کاٹ دیں تو اس کی جگہ دوسری ٹانگ پیدا ہو جاتی ہے کوئی کل یا مشین اپنے ٹوٹے ہوئے پرزہ کو خود بخود مہیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
ڈریش نے ایک جنین کو اس کی نشوونما کے شروع میں تجربہ کے لئے دو حصوں میں کاٹا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا کا ایک حصہ بھی نشوونما پا کر مکمل حیوان بن جاتا ہے خواہ جنین کو کہیں سے کاٹا جائے اور خواہ اس کے اس ایک حصہ کی نسبت کل کے ساتھ کچھ ہو۔ تجربہ کے نتائج میں کوئی فرق نہیں آتا اس کا مطلب یہ ہو اکہ وہ خلیات (Cells) جو ایک مکمل جنین میں نشوونما پا کر سر بننے والے ہوں نا مکمل جنین میں ٹانگ بن سکتے ہیں۔ دراصل جنین کا کوئی حصہ بڑھتے ہوئے حیوان کی ضرورت کے مطابق کسی عضو کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ڈریش لکھتا ہے ’’ یہ عجیب کل ہے جس کا ہر حصہ ایک ہی جیسا ہے‘‘ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک حصہ کل کی حیثیت کیونکر پیدا کر لیتا ہے، جنین کے اعضاء کی نشوونما میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے اگر ایک نیوٹ (Newt) کی دم کاٹ دی جائے تو اس کی جگہ دوسری دم پیدا ہو جاتی ہے اور اگر دم ابتدا ہی میں کاٹ دی جائے اور ایک تازہ کٹی ہوئی ٹانگ کے بقیہ کے ساتھ جوڑ دی جائے تو دم دم کی شکل میں نہیں بلکہ ٹانگ کی شکل میں نشوونما پانے لگ جاتی ہے۔ کائنات کے مادی اجزا کا ذکر کر کے ہم اس قسم کے حقائق کی کوئی تشریح نہیں کر سکتے اس لئے ڈریش نے جنین کی نشوونما کی تشریح کرنے کے لئے اس مفروضہ کو بیکار سمجھ کر ترک کر دیا کہ زندگی طبیعات یا کیمیا کے خاص خاص قوانین کے عمل کا نتیجہ ہے وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم حیاتیاتی رد عمل کو کسی میکانکی نقطہ نظر سے نہیں سمجھ سکتے اس کی نوعیت ایسی ہے جیسے ایک سوال کا معقول جواب یا ایک گفتگو کا کوئی ایسا حصہ جو کسی دوسرے حصہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو حیاتیاتی رد عمل مکمل حیوان کا رد عمل ہوتا ہے اس کے کسی جزو کا رد عمل نہیں ہوتا۔ ضروری تھا کہ عمل حیات کی تشریح کے لئے کائنات کا ایک اور روحانی یا غیر مادی عنصر تصور کیا جائے چنانچہ ڈریش نے طبیعاتی کیمیائی نظریہ کو رد کر کے اینٹی لیچی(Entelechy) کا ایک نظریہ پیش کیا۔ا ینٹی لیچی گویا ایک سوچی سمجھی ہوئی تجویز ہے جو کسی نہ کسی طرح حیوان کے اندر پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کی قوت حیوان کی نشوونما کے دوران میں اس کے ہر ایک حیاتیاتی رد عمل میں نمودار ہوتی ہے۔ حیوان کے اندر ایک مدعا یا مقصد کام کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک مناسب شکل و صورت اختیار کرتا ہے۔ مقصد یا مدعا ایک ایسی خود اختیار تدبیری اور انتظامی قوت شعور ہے جو حیوان کے مجموعی مفاد کے لئے اس کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور جو خود اختیار تدبیری اور انتظامی قوت شعور ہے جو حیوان کے مجموعی مفاد کے لئے اس کو ڈھالتی اور بناتی ہے اور خود اپنے ارادہ کو بھی اس مفاد کے اقتضا کے مطابق بدلتی ہے ضروری ہے کہ یہ قوت کائنات کے اندر زندگی کی ساری نشوونما اور ارتقا سے دلچسپی رکھتی ہو۔ برگسان اسی قوت کو قوت حیات(Vital Impestus) کا نام دیتا ہے اس کے نزدیک اس قوت میں اور شعور میں کوئی فرق نہیں۔ ڈریش نے بھی اینٹی لیچی کا تصور شعور اور نفسیات کے مطالعہ کے لئے استعمال کیا ہے اس کے نزدیک جہاں حیاتیات جسم حیوانی کی شعوری نشوونما کا مطالعہ ہے حیوان کا کردار جس میں انسان کا کردار بھی شامل ہے حیوان کی نشوونما سے ملتا جلتا ہے دونوں ایک ہی مقصد یا مدعا کی طرف بڑھتے ہیں جس طرح سے حیوان کی نشوونما کی سمت ایک اینٹی لیچی سے متعین ہوتی ہے اس طرح اس کا کردار ایک مماثل نفسیاتی میلان سے مطمئن ہوتا ہے یہ میلان تازہ جنم لینے والے حیوان کی ان مفید حیات حرکات میں نمودار ہوتا ہے جنہیں وہ کسی تجربہ سے نہیں سیکھتا۔ زندگی کے مطالعہ سے اس طرح کے بعض اور حقائق کا بھی پتہ چلتا ہے جو ڈریش کے نتائج کی تائید کرتے ہیں۔ برگسان نے ان حقائق کو اپنی کتاب ارتقائے تخلیقی(Creative Evolution) میں اس بات کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ زندگی کا مخفی محرک یا مدعا ہی روئے زمین پر حیوانات کی اولین پیدائش اور پھر رفتہ رفتہ ان کی بلند تر اقسام کے ظہور اور ارتقا کا باعث ہوا ہے۔
برگستان کا استدلال
لا مارک ( Lamarck) نے حیوانات کے ارتقاء کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ضروری ہے کہ ایک زندہ حیوان کی جسمانی بناوٹ ماحول کی کیفیات سے مطابقت پیدا کرے۔ جب یہ مطابقت پیدا ہو جاتی ہے تو حیوان کے جسم میں ایک تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے جو اگلی نسلیں وراثتاً حاصل کرتی ہیں اور چونکہ یہ نسلیں خود بھی مجبور ہوتی ہیں کہ ماحول کے ساتھ جسمانی مطابقت پیدا کریں اس لئے موروثی تغیر میں اور اضافہ ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حیوان کی ایک اور نئی قسم وجود میں آ جاتی ہے۔
اول تو یہ نظریہ ان حقائق کے خلاف ہے جو اب اچھی طرح سے ثابت ہو چکے ہیں کہ حیوان کے جسم میں ایک نمایاں تبدیلی آہستہ آہستہ جمع ہونے والی چھوٹی تبدیلیوں کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ فوری طور پر بھی ظاہر ہو جاتی ہے یہ اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک کہ حیوان کے اندر کوئی شعوری یا غیر شعوری میلان ایسا موجود نہ ہو جس سے وہ ایک فوری تبدیلی اور اصلاح اختیار کر سکے۔
دوئم۔ ماحول کے ساتھ جسمانی بناوٹ کو مطابق کرنے کی ضرورت ارتقاء کے رک جانے کی وجہ بن سکتی ہے لیکن اس کے جاری رہنے کی وجہ نہیں بنس کتی۔ جونہی کہ ایک حیوان کی جسمانی ساخت ماحول کے ساتھ اتنی مطابقت حاصل کر لے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنی زندگی کو قائم رکھ سکے تو اس کے مزید بدلنے یا ترقی کرنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر مطابقت ماحول فی الواقع زندگی کی حفاظت کے لئے عمل میں آتی ہے تو زندگی کی حفاظت کا انتظام ہو جانے کے بعد حیوان کو زیادہ منظم اور ترقی یافتہ اجسام کی طرف ارتقاء نہیں کرنا چاہئے۔ برگسان لکھتا ہے:
’’ ایک چھوٹا سا جانور زندگی کے حالات کے ساتھ اتنی ہی مطابقت رکھتا ہے جتنا کہ ہمارا جسم کیونکہ وہ اپنی زندگی کو قائم رکھنے پر قادر ہے تو پھر زندگی ایک ایسے جانور کے مرحلے پر پہنچ جانے کے بعد فنا کے خطرات سے بے پرواہ ہو کر مزید ترقی کے راستے پر گامزن کیوں رہتی ہے زندہ حیوانات کے بعض اجسام جو ہم آج دیکھتے ہیں دور دراز زمانوں سے جوں کے توں چلے آئے ہیں اور ادوار کے گزرنے سے ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو پھر زندگی کو آج سے پہلے کسی خاص جسم حیوانی پر جا کر ٹھہر جانا چاہئے تھا لیکن جہاں جہاں ممکن تھا یہ رک کیوں نہ گئی؟ اگر خود اس کے اندر کوئی ایسی قوت محرکہ نہ تھی جو اسے خطرات کے باوجود زیادہ سے زیادہ تنظیم اور ترقی کی منزل کی طرف لے جانا چاہتی تھی تو پھر یہ آگے کس طرح بڑھتی گئی؟‘‘
یہ حقائق اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ شعور مادہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ خود بخود موجود ہے شعور خود ایک بنیادی حقیقت ہے اور مادہ کی خاصیات کا مظہر نہیں اگر شعور اپنی جدا حقیقت رکھتا ہے تو مادہ کے بے حقیقت ثابت ہونے کے بعد ہم آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ کائنات کی ساری حقیقت بھی یہی ہے اور مادہ اسی سے ظہور پذیر ہوا ہے جس طرح سے حیوانات کی مختلف قسمیں عمل ارتقاء سے وجود میں آئی ہیں اس طرح سے مادہ کی موجودہ حالت بھی عمل ارتقاء کا نتیجہ ہے جو قوت حیوانات کے ارتقاء کا سبب ہے وہی مادہ کے ارتقاء کا باعث بھی ہے۔ لہٰذا مادہ کی حقیقت بھی شعور ہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ طبیعات جدید اس نتیجہ کی پر زور تائید کرتی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ شعور کی صفات کیا ہیں؟
کائناتی شعور کی صفات
سر جیمز جینز شعور کی صرف ایک صفت یعنی کامل ذہانت یا کامل ریاضیاتی فکر تسلیم کرتا ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ جب ہم شعور عالم کی ایک صفت ریاضیاتی کے قائل ہو جائیں تو ہم اس نتیجہ کو روک نہیں سکتے کہ اس کے اندر وہ تمام صفات موجود ہیں جو ہمارے علم کے مطابق شعور کا خاصہ ہیں اور بغیر کسی استثنا کے ریاضیاتی ذہانت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔
سر جیمز جینز نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ شعور عالم ریاضیاتی فکر کے اعتبار سے ہمارے ہی شعور کی طرح ہے لیکن کوئی وجہ نہیں کہ وہ شعور کی دوسری صفات کے اعتبار سے بھی ہمارے ہی شعور کی طرح نہ ہو۔ جہاں تک ہمارے تجربہ کا تعلق ہے ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ شعور کے اندر ریاضیاتی فکر تو موجود ہو لیکن شعور کی دوسری صفات مثلاً محبت، اخلاق، جذبات، طلب مدعا وغیرہ موجود نہ ہوں جس طرح دھواں تنہا نہیں ہوتا بلکہ آگ اور اس کی حرارت کے ساتھ پایا جاتا ہے اسی طرح سے ریاضیاتی ذہانت تنہا نہیں ہوتی بلکہ شعور کی باقی صفات کے ساتھ ان کے ایک پہلو کے طور پر پائی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ کے متعلق جہاں سے دھواں نکل رہا ہو یہ کہئے کہ ہم دھوئیں کی حد تک تو جانتے ہیں کہ وہاں ضرور موجود ہے لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہاں آگ بھی ہے تو یہ موقف علمی اور عقلی طور پر درست نہیں ہو گا جہاں ذہانت اور ریاضیاتی فکر کے اوصاف بدرجہ کمال ہوں گے وہاں شعور کی باقی صفات کا بحالت کمال ہونا بھی ضروری ہے کامل ترین ذہانت کامل ترین شعور کا ہی ایک وصف ہو سکتی ہے اور کامل ترین شعور وہ ہے جو کامل طور پر اپنے آپ سے آگاہ اور خود شناس اور خود شعور ہو اس لئے ایک ریاضیاتی فکر ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے بدرجہ کمال آگاہ ہونے کی وجہ سے ایک کامل شخصیت یا انا یا ایغو ہے اسی کائناتی خودی یا ایغو کو مذہب کی زبان میں خدا کہا جاتا ہے اسی کے مقصد نے کائنات اور جسم انسانی کو پیدا کیا ہے۔ اسی کے مقصد کا دوسرا نام انسانی خودی ہے۔
انسانی خودی کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے
انسانی خودی کا سب سے بڑا اور مرکزی وصف یہ ہے کہ اس کے اندر خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ عمل اپنا اظہار پانے کے لئے ہر وقت بیتاب رہتا ہے یہ جذبہ اس قدر طاقتور ہے کہ اگر یہ بھٹک کر انسان کی کسی اور خواہش کو اپنا مقصود نہ بنا لے تو انسان کی تمام انسانی اور حیوانی قسم کی خواہشات کو اپنے تابع رکھتا ہے اور اس کو اپنی غرض کے لئے استعمال کرتا ہے لہٰذا انسان فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر یہ جذبہ ختم ہو جائے تو انسان بھی باقی نہ رہے۔
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے یہی طغیان مشتاقی
اقبال نے مرید ہندی اور پیر رومی کی ایک گفتگو نظم کی ہے اس میں جب مرید ہندی پیر رومی سے پوچھتا ہے کہ آدمی کی حقیقت کیا ہے خبر یا نظر تو پیر رومی جواب دیتا ہے:
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
(آدمی کی حقیقت دیدار ہے، اور دیدار سے مراد دوست یعنی خدا کا دیدار ہے، اس کے علاوہ آدمی جو کچھ ہے وہ اس کا چھلکا ہے)
خدا کی خواہش خودی کی اپنی خواہش ہے اور انسان کی حیوانی خواہشات خودی کی اپنی خواہشات نہیں بلکہ انسان کے جسم کی خواہشات ہیں جسم خودی کا خدمت گزار ہے اس کا حاکم نہیں اس کی وجہ جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ خودی انسان کے جسم سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی نے اپنی غرض کے لئے انسان کے جسم کو اس کی تمام حیوانی قسم کی خواہشات کے سمیت جو اس کی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے کام کرتی ہیں پیدا کیا ہے تاکہ خودی اپنے کئے ہوئے زندہ جسم میں موجود رہ کر خدا کی محبت کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔
خودی کی حقیقت کا راز یہ ہے کہ وہ خدا کو چاہتی ہے اور اس کے سوائے اور کچھ نہیں چاہتی اور خدا کی محبت اسے تیغ برآں بنا دیتی ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
وہ شخص جو اپنے جسم کو ہی اپنا مقصد حیات قرار دے لیتا ہے وہ اپنی خودی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرے اور نشوونما پا کر مکمل ہو جائے۔ لہٰذا وہ اپنی اس غیر دانشمندانہ روش کے شدید نقصانات کو اس دنیا میں اور اگلی دنیا میں بھی جھیلتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دوسروں کی زمین میں گھر بنا لے اور بعد میں لوگ اسے گرا دیں یا دوسروں کا کام کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دے اور اپنا کوئی کام نہ کرے اور بعد میں کف افسوس ملتا رہے۔ مولانا روم ایسے شخص کو تنبیہہ کرتے ہیں:
در زمین مرد مان خانہ مکن
کار خود کن کار بے گانہ مکن
کیست بیگانہ تن خاکئے تو
کز برائے ادست غمنا گئے تو
شاید یہاں یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا کوئی عقلی اور علمی شواہد ایسے ہیں جو اقبال کے اس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ انسان کا مرکزی وصف خدا کی محبت ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں سب سے پہلے انسان اور حیوان کے فرق پر غور کرنا چاہئے۔
ایک مثال سے انسان اور حیوان کے فرق کی وضاحت
اس میں شک نہیں، جبلتی یا حیوانی خواہشات مثلاً جبلت تغدیہ، جبلت غضب، جبلت فرار، جبلت جنس، جبلت امومت، جبلت تفوق، جبلت اختیار وغیرہ انسان اور حیوان دونوں میں مساوی طور پر موجود ہیں اس کے باوجود حیوان اور انسان میں کم و بیش کا فرق نہیں بلکہ مخلوقات کی قسم کا فرق ہے یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان ایک برتر اور بہتر قسم کا حیوان ہے یا حیوان ایک کمتر یا پست تر درجہ کا انسان ہے بلکہ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انسان مخلوقات کی ایک قسم ہے جو حیوانات سے بالکل جدا اور ممتاز اور ممیز ہے۔
ایک ایسی گھوڑا گاڑی کا تصور کیجئے جس میں بارہ گھوڑے اس سے جتے ہوئے ہیں کہ ہر گھوڑا جدھر چاہے جا سکتا ہے اس قسم کی ایک گاڑی میں اگر گھوڑوں کو ضبط رکھنے والا کوچوان نہ ہو گا تو گاڑی کبھی دائیں طرف حرکت کرے گی اور کبھی بائیں طرف اور کبھی ٹھہر جائے گی اور پھر کبھی ایک رخ پر اور کبھی دوسرے رخ پر چلنے لگے گی لیکن اگر ہم دیکھیں کہ گاڑی نہایت تیزی اور آسانی کے ساتھ ایک خاص سمت میں حرکت کر رہی ہے اور نہایت عمدگی اور صفائی کے ساتھ جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے راستوں کے موڑ کاٹتی چلی جاتی ہے تو ہم فوراً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ گاڑی کے اندر کوئی ہوشیار کوچوان موجود ہے جو گھوڑوں پر پورا ضبط اور کنٹرول رکھتا ہے اور ہر ایک کو روک کر ایک خاص سمت میں چلا جا رہا ہے جو اس نے معین کی ہے۔ حیوان ایک ایسی گھوڑا گاڑی کی طرح ہے جو کوچوان کے بغیر ہو۔ اس کی فطری خواہشات یا جبلتوں میں سے ہر ایک تمام دوسری خواہشات سے قطع نظر کر کے اپنی تشفی کرتی ہے۔ حیوان کی ہر جبلت کے اندر ایک زبردست حیاتیاتی زور یا دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حیوان اس کی تشفی پر مجبور ہوتا ہے ہر جبلت کی فعلیت بعض خاص اندرونی اور بیرونی حالات اور کوائف کے موجود ہونے پر آغاز کرتی ہے جن کے مجموعہ کو جبلت کی تحریک ( Stimulus) کہا جاتا ہے۔ جبلت کی تحریک اس وقت نمودار ہوتی ہے جب حیوان کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اور نسل کی بقا کے لئے ایک خاص قسم کا عمل کرے جب تحریک موجود ہو جائے تو حیوان جبلت کی فعلیت کو شروع ہونے اور انتہا تک پہنچنے سے روک نہیں سکتا حیوان اس قابل نہیں ہوتا کہ کسی بہتر اور بلند تر مقصد کے لئے اپنی کسی جبلت کی تشفی کو روک سکے، محدود کر سکے یا ترک کر سکے۔ دراصل حیوان جبلتوں کی تشفی سے بالاتر کوئی مقصد رکھتا ہی نہیں جب بھی حیوان کسی جبلت کی مخالفت پر مجبور ہوتا ہے تو اس کی ایک جبلت کسی دوسری جبلت کی مخالفت کرتی ہے جس کے بعد طاقتور جبلت کمزور جبلت کی جگہ لے لیتی ہے اور کمزور جبلت طاقتور جبلت کی تشفی کے لئے راستہ چھوڑ دیتی ہے۔
انسان کے معاملہ میں صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے انسان کی شخصیت ایک ایسی گھوڑا گاڑی کی طرح ہے جس میں ایک ہوشیار کوچوان موجود ہو۔ انسان میں بھی وہی جبلتیں ہیں جو حیوان میں ہیں اور انسان میں بھی ان کا حیاتیاتی زور یا دباؤ ویسا ہی ہے جیسا کہ حیوان میں ہے۔ تاہم انسان حیوان کے برعکس اپنی ہر جبلت کی تشفی کو جس حد تک چاہے روک سکتا ہے یا کم کر سکتا ہے یا بالکل ترک کر سکتا ہے تاکہ اپنی تمام جبلتوں کو اپنے کسی خاص مقصد کے ماتحت متحد اور منظم کرے اور کسی مطلوبہ سمت کی طرف ان کے اظہار کی راہ نمائی کرے انسان جب اپنی کسی جبلت کی مخالفت کرتا ہے تو اس کی مخالفت حیوان کی طرح بے اختیار اور خود بخود نہیں ہوتی بلکہ ایک اختیاری فیصلہ کے ماتحت ہوتی ہے بالعموم وہ اپنی جبلتوں کی مخالفت اس طرح سے کرتا ہے کہ اس مخالفت کے دوران کسی جبلت کی تشفی ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تمام جبلتی خواہشات کو روک دیت اہے بلکہ اپنی جان کو جس کی حفاظت کے لئے جبلتیں اپنا کام کرتی ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تاکہ ہر مزاحمت کے بغیر کسی خاص مقصد کو جو اسے پسند ہے حاصل کر سکے۔ حیوان کی زندگی عمل کے الگ الگ خانوں پر مشتمل ہوتی ہے جن میں سے ہر خانہ پر کسی جبلت کا تسلط ہوتا ہے اور کسی خانہ کا اس سے پہلے اور بعد کے خانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا اس کے برعکس ایک فرد انسانی کی زندگی ایک منظم کل یا وحدت کی صورت اختیار کرتی ہے اور ہر جبلت کے فعل کو (جس حد تک اس کو اپنی تشفی کی اجازت دی گئی ہو) اس طرح سے نظم و ضبط میں لاتی ہے کہ وہ اس وحدت یا کل کا ایک جزو بن جاتا ہے انسان کی جبلتی خواہشات کی یہ تنظیم یا وحدت یا راہ نمائی یا تجدید جو انسان کی اس استعداد سے پیدا ہوتی ہے کہ وہ جبلتوں کی مخالفت کر سکتا ہے ہر گز ممکن نہ ہوتی، اگر انسان کے اندر ایک ایسی خواہش موجود نہ ہوتی جو جبلتوں پر حکمرانی کر سکتی۔ انسان کی یہی پر اسرار خواہش ہے جو اس کی شخصیت کی گھوڑا گاڑی کے ہوشیار کوچوان کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کی شخصیت کے اندر وحدت اور تنظیم پیدا کرتی ہے اس خواہش کی خدمت اور اعانت کے لئے ہی انسان کی تمام دوسری خواہشات موجود ہیں۔
پر اسرار حکمران انسانی خواہش کون سی ہے
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پر اسرار خواہش جو انسان کی شخصیت کی گاڑی کے ڈرائیور کا مقام رکھتی ہے اور اس کے تمام اعمال اور افعال کی قوت محرکہ ہے، کون سی ہے اس سوال کے جواب میں ایک حقیقت بالکل واضح ہے کہ وہ کوئی ایسی خواہش ہی ہو سکتی ہے جس سے حیوان محروم ہے اور جو انسان ہی کا خاص امتیاز ہے۔
دور حاضر کے تمام حکماء جنہوں نے فطرت انسانی کے رموز و اسرار پر قلم اٹھایا ہے اس بات پر متفق ہیں کہ انسان میں خواہش موجود ہے کہ وہ کسی نصب العین سے محبت کرے اور یہ خواہش انسان سے نچلے درجہ کے حیوانات میں قطعاً موجود نہیں بظاہر نصب العین سے محبت کرے اور یہ خواہش انسان سے نچلے درجہ کے حیوانات میں قطعاً موجود نہیں بظاہر نصب العین کی محبت کے علاوہ انسان میں اور خواہشات ایسی ہیں جوانسان سے خاص ہیں اور حیوان میں قطعاً موجود نہیں مثلاً نیک عملی کی خواہش، جستجوئے صداقت یا علم کی خواہش تخلیق حسن یا آرٹ کی خواہش لیکن یہ تینوں خواہشات نصب العین کی خواہش کے ماتحت رہ کر اپنا اظہار اپتی ہیں، دراصل یہ تینوں خواہشات نصب العین کی محبت کے تین پہلو ہیں اور نصب العین کی محبت سے الگ اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ نصب العین ایک ایسا تصور ہوتا ہے جسے انسان اپنے علم کے مطابق حسن اور کمال کی انتہا سمجھتا ہے انسان سارا حسن جس کی وہ تمنا کرتا ہے اپنے نصب العین کی طرف منسوب کرتا ہے نیکی صداقت اور آرٹ کی خواہشات کا منبع حسن کی یہی آرزو ہے جس کو انسان کا نصب العین اس کے خیال کے مطابق مکمل طور پر مطمئن کرتاہے۔ حسن کی تمنا خواہ کوئی صورت اختیار کرے وہ دراصل انسان کے پسندیدہ نصب العین ہی کی تمنا ہوتی ہے۔ جب ہم اپنے اخلاق میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے نیکی کا نام دیتے ہیں لیکن ہم اسی عمل کو نیک اور حسین سمجھتے ہیں جو ہمارے اپنے ںصب العین سے مطابقت رکھتا ہے اسی طرح سے جب ہم اپنی معلومات میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے علم یا صداقت کی جستجو کہتے ہیں لیکن ہم صرف ان ہی حقائق کو صحیح اور سچا سمجھتے ہیں جو ہمارے نصب العین سے مطابقت رکھتے ہوں یا اس کے خلاف نہ ہوں پھر اسی طرح سے جب ہم اپنی تخلیقات میں حسن کی تمنا کرتے ہیں تو اسے آرٹ کا نام دیتے ہیں لیکن کسی ایسی تخلیق کو حسین نہیں سمجھتے اور نہ اس کی تمنا کرتے ہیں جو ہمارے نصب العین سے مناسبت نہ رکھتی ہو۔ اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ انسان کی تمام خواہشات میں سے صرف ایک خواہش ایسی ہے جو صرف انسان میں ہے اور حیوان میں نہیں اور یہ مخصوص انسانی خواہش نصب العین کی محبت ہے۔ پھر کیا وہ پر اسرار خواہش جو انسان کی جبلتوں پر حکمران ہے جو اس کی شخصیت کی گاڑی کو اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہتی ہے چلاتی ہے اور جو اس کے تمام اعمال و افعال کا منبع اور سرچشمہ ہے یہی نصب العین کی محبت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب اثبات میں ہو سکتا ہے اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا نصب العین ہی اس کی تمام جبلتی خواہشوں کو کم کرتا یا ترک کرتا ہے بلکہ نصب العین کی محبت ہی وہ چیز ہے جس کی خاطر وہ خود اپنی جان عزیز کو بھی جس کی حفاظت کے لئے جبلتی خواہشات پیدا کی گئی ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ تاریخ کے مسلسل واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ انسان دار پر چڑھ جاتا ہے، سینے پر گولی کھا لیتا ہے،ز ہر کا پیالہ پی لیتا ہے لیکن نصب العین کی محبت کے تقاضوں کو پورا کرنے سے باز نہیں آتا۔
خودی اور نصب العین کا باہمی تعلق
اقبال نے خودی اور اس کے نصب العین کے باہمی تعلق کا ذکر اس طرح سے کیا ہے کہ گویا خودی نصب العین کی محبت ہے اور نصب العین کی محبت خودی ہے نصب العین کو اقبال کبھی مدعا کبھی مقصد، کبھی مقصود، کبھی آرزو اور کبھی تمنا کا نام دیتا ہے۔ خودی کی بقا کا دار و مدار نصب العین کی محبت پر ہے اس لئے کہ خودی کی زندگی خودی کی حرکت کا ہی دوسرا نام ہے اگر وہ حرکت نہ کرے تو مردہ ہے دریا کی ایک لہر کی طرح کہ جب تک وہ چلتی رہے لہر ہے، تھم جائے تو کچھ بھی نہیں۔
ساحل افتادہ گفت بسے زیستم
ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم
موج از خود رفتہ تیز خر امید و گفت
بستم اگر بردم اگر نر دم نیستم
زندگی یا خودی فقط حرکت یا ذوق پرواز یا ذوق سفر ہے۔
سمجھتا ہے تو راز زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
٭٭٭
ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
لیکن خودی کی حرکات یا پرواز اس کا سفر نصب العین کی محبت کے بغیر ممکن نہیں۔ نصب العین کی محبت ہی خودی کو حرکت پر اکساتی ہے اس کی حرکت کی سمت کو معین کرتی ہے اور اس کے کارواں کے لئے درا کا کام دیتی ہے۔
زندگانی را بقا از مدعاست
کاروانش را درا از مدعاست
خودی کے تمام اعمال و افعال اس کے نصب العین کے حصول کے لئے سر زد ہوتے ہیں۔ خودی اپنے آپ کو کلیتاً نصب العین کے تابع کر دیتی ہے اور اسی کو نیک و بد، خوب و زشت اور حق و باطل کا معیار بناتی ہے اور لہٰذا ہر فعل اور عمل کو اسی کی وجہ سے قبول کرتی یا رد کرتی ہے۔ نصب العین ہمارے عمل کی جان ہے اور جن ہی کی طرح ہمارے عمل کے اندر پوشیدہ ہوتا ہے۔ یہ ہمارا نصب العین ہی ہے جو ہمارے ہر عمل کا کیف و کم معین کرتا ہے۔
 چوں حیات از مقصدے محرم شود
ضابط اسباب ایں عالم شود
خوشتن را تابع مقصد کند
بہر او چنید گزیند روکند
ہمچو جان مقصود پنہاں در عمل
کیف و گم ازدے پذیر و ہر عمل
نصب العین ہی اعمال انسانی کی قوت محرکہ ہے
نصب العین ہی وہ قوت ہے جو خودی کے عمل کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے اس کی حرکت کو تیز کرتی ہے۔ اسی کی ایڑ سے خودی کے عمل کا گھوڑا باد صر صر کی طرح چلنے لگتا ہے۔ زندگی کی قوتیں سیماب کی طرح ہیں اگر ان کی کوئی سمت معین نہ ہو تو وہ کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لڑھک جاتی ہیں۔ نصب العین ان قوتوں کے بہاؤ کی سمت متعین کرتا ہے۔ لہٰذا ان سب کو ایک مرکز پر لا کر مجتمع اور متحد اور منظم کر دیتا ہے۔ نصب العین فرد کی زندگی کا ایک ایسا مرکز ہے جس کی طرف اس کی تمام قوتیں سمٹ کر آ جاتی ہیں نصب العین کی محبت ہی خودی کے لئے ممکن بناتی ہے کہ اس دنیا کے تمام اسباب و ذرائع کو اپنے کام میں لائے کیونکہ نصب العین ہی ان کے استعمال کی ضرورت محسوس کراتا ہے اگر ہماری رگوں میں خون بڑی تیزی سے گردش کر رہا ہو یعنی اگر ہم اپنی پوری قوت سے سرگرم عمل ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ کسی نصب العین کی شدت محبت ہی ہمیں ایسا کرنے پر اکسا رہی ہے۔ نصب العین کی محبت کے بغیر ہم اپنی کسی اندرونی یا بیرونی قوت کو استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا کوئی مصرف ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا لہٰذا ہماری ہمت بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ نصب العین ایک ایسی قوت ہے جس کے اثر سے ایک پوری قوم کے ہاتھ پاؤں متحرک ہو جاتے ہیں اور سینکڑوں گاہیں بیک وقت اپنا زاویہ بدل لیتی ہیں گویا یہی وہ قوت ہے جو ایک قوم کے تمام افراد کو آپس میں متحد و منظم کر کے ایک قوم بناتی ہے نصب العین ہی خودی کی تمام ہنگامہ آرائیوں کے سبب ہے وہی اس کے خاموش اور پر سکون سمندر میں تلاطم پیدا کرتا ہے اب اقبال کے الفاظ میں سنئے:
مدعا گرد و اگر مہمیز ما
ہمچو صر صر مے رود شبدیز ما
مدعا راز بقائے زندگی
جمع سیماب قوائے زندگی
گردش خونے کہ درد گہائے ماست
تیز از سعی حصول مدعاست
مدعا مضراب ساز ہمت است
مرکزے کو جاذب ہر قوت است
دست و پائے قوم راجنبا نداد
یک نظر صد چشم را گرداند او
آرزو ہنگامہ آرائے خودی
موج بیتابے زوریائے خودی
ہمارے تمام چھوٹے چھوٹے مقاصد (Ends) نصب العین کے ذیلی اور ضمنی مقاصد ہوتے ہیں جو اس کے ماتحت اس کی اعانت کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور ہم ان کو نصب العین کی اہمیت اور کشش ہی کی وجہ سے اہمیت دینے اور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نصب العین کی محبت ہمارے تمام اعمال کی قوت محرکہ ہے وہی ان کو پیدا کر کے ان کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔
آرزو صید مقاصد را کمند
دفتر اعمال را شیرازہ بند
نصب العین کی محبت ہی وہ پر اسرار انسانی خواہش ہے جو انسانی شخصیت کی گاڑی کے زبردست کوچوان کی حیثیت رکھتی ہے لیکن شخصیت انسانی کی اس پر اسرار مرکزی اور حکمران خواہش کے متعلق صرف یہ معلوم کر لینا کہ وہ کسی نصب العین کی خواہش ہوتی ہے کافی نہیں جب تک یہ معلوم نہ کیا جائے کہ وہ کون سے نصب العین کی خواہش ہے کیونکہ نصب العین سینکڑوں ہو سکتے ہیں اور ان میں سے بعض مختلف درجوں پر اچھے او ربلند بھی ہو سکتے ہیں اور بعض برے اور پست بھی، ان میں سے کون سا نصب العین ہے جو در حقیقت اس خواہش کا مقصود ہے اور لہٰذا صحیح اور سچا نصب العین ہے چونکہ نصب العین حسن و کمال کا ایک تصور ہوتا ہے اور نصب العین کی خواہش حسن کی خواہش کا دوسرا نام ہے لہٰذا ایک بات بالکل واضح ہے کہ یہ خواہش ایک ایسے نصب العین کے لئے ہے جو منتہائے حسن و کمال ہو یعنی جس کے اندر وہ تمام صفات حسن بدرجہ کمال موجود ہوں جن کا ہم تصور کر سکتے ہیں جو ان تمام نقائص سے کلیتاً پاک ہو جو ہمارے ذہن میں آ سکتے ہیں حسن میں کمال کی خواہش اس لئے شامل ہے کہ جو چیز ناقص ہو وہ حسین نہیں ہو سکتی۔ نقص حسین کا نقیض ہے لہٰذا محبت کا دشمن ہے یہ صحیح ہے کہ بسا اوقات ہم ایک ناقص تصور سے بھی محبت کرتے ہیں لیکن یہ اسی وقت تک ممکن ہوتا ہے جب تک کہ اس کا نقص ہماری نظروں سے اوجھل رہے جوں ہی کہ ہم اس کے کسی نقص کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ہمارے لئے ناممکن ہو جاتا ہے کہ ہم اس کی محبت کو پھر کسی درجہ میں بھی قائم رکھ سکیں یہی وجہ ہے کہ اقبال کہتا ہے کہ ہمارا نصب العین ایسا ہونا چاہئے جس کا حسن مکمل طور پر دلربا ہو جس کے حسن کا احساس یا عشق یہاں تک ترقی کر سکے کہ اس کی شدت اور گہرائی کے اندر کوئی کمی یا کسر باقی نہ رہے یہاں تک کہ انسان کی خودی اس کے عشق کی شراب سے مست اور مخمور ہو جائے۔ اقبال کے نزدیک یہ نکتہ اس قدر اہم ہے کہ اسے جان لینا گویا زندگی کے راز سے واقف ہو جانا ہے اور اسے نہ جاننا راز زندگی سے بیگانگی ہے۔
اے راز از زندگی بیگانہ خیز
از شراب مقصدے مستانہ خیز
مقصدے از آسمان بالاترے
دلربائے دلستانے دلبرے
کوئی نصب العین پوری طرح سے دلربا، دلستان اور دلبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دل یا خودی کے تقاضائے حسن و کمال کو پوری طرح سے مطمئن نہ کرے یعنی جب تک کہ وہ حسن کی ان صفات سے بدرجہ کمال بہرہ ور نہ ہو جن سے ہماری خودی محبت کر سکتی ہے اور ان نقائص سے بدرجہ اتم پاک ہو جن کو ہماری خودی نقائص سمجھ کر ناپسند کر سکتی ہے۔
کامل نصب العین کی صفات۔ غیر محدود اور لازوال حسن
انسان کے نصب العین کی ان عمومی اور مجمل صفات کی روشنی میں ہم اس کی مخصوص اور مفصل صفات بآسانی معلوم کر سکتے ہیں، مثلاً ہم یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ضروری ہے کہ انسان کے نصب العین کا حسن غیر محدود اور لازوال ہو کیونکہ اگر ایک انسان یہ سمجھتا ہو کہ اس کے نصب العین کے حسن و کمال کی ایک حد ہے جس سے آگے وہ نہیں جا سکتا تو وہ سمجھے گا کہ اس کا ایک حصہ یا ایک پہلو حسن اور زیبائی کے اوصاف سے محروم ہے اور جہاں اس کا حسن ختم ہوتا ہے وہیں سے یہ محرومی شروع ہو جاتی ہے اور پھر اگر وہ یہ جانتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد اس کے نصب العین کاحسن ختم ہو جائے گا تو وہ یہ سمجھے گا کہ وہ اب بھی حسین نہیں کیونکہ اس کے حسن کو ختم کرنے والی کل کا دن آج بھی آنے والے دنوں میں شمار ہو رہا ہے۔
ازلی اور ابدی زندگی
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا نصب العین زندہ ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر کسی ایسی چیز کے تصور کو اپنا نصب العین نہیں بنا سکتا جو اس کے نزدیک مردہ اور بے جان ہو وہ خود زندہ ہے۔ لہٰذا کسی ایسی چیز کے لئے جو مردہ ہونے کی وجہ سے اس سے پست تر درجہ کی ہو وہ محبت کا جذبہ محسوس نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس کی ستائش کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی خدمت کے لئے طرح طرح کی قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے حسن کی طرح اس کی زندگی غیر فانی ہو کیونکہ اگر اسے یقین ہو جائے کہ اس کا نصب العین کل کو اپنی زندگی سے محروم ہونے والا ہے تو وہ یہ محسوس کرنے پر مجبور ہو گا کہ وہ آج بھی دائمی زندگی سے محروم ہے یہی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے نصب العین کے اندر زندگی کے وہ تمام اوصاف جن سے وہ آشنا ہے موجود ہوں مثلاً یہ کہ وہ سنے، دیکھے، سمجھے، محسوس کرے اور اس کی محبت کا جواب محبت سے دے۔
محبت اور عدم محبت کے جذبات
انسانی دنیا میں اس کا کوئی مقصد یا مدعا ہو اور اسے اس بات کی قدرت حاصل ہو کہ وہ حصول مدعا کے لئے عمل کرے اور اپنے عمل کو کامیاب بنائے دوسرے الفاظ میں اسے اس قابل ہونا چاہئے کہ بعض اعمال کو پسند کرے اور بعض کو نا پسند اور جن اعمال کو پسند کرتا ہو ان کی اعانت اور امداد کرے اور جن کو ناپسند کرتا ہو ان کی مخالفت کرے اور بالآخر روک دے، اپنے مددگاروں اور چاہنے والوں کی حوصلہ افزائی کر سکے اور مخالفوں اور دشمنوں کو سزا دے سکے، مختصر یہ کہ ضروری ہے کہ اس میں محبت اور عدم محبت کے تمام جذبات موجود ہوں اور وہ اپنے مدعا کی پیش برو کے لئے ان کا اظہار کرے اگر کسی انسان کے نصب العین میں یہ اوصاف موجود نہ ہوں یا ان میں سے کوئی ایک صفت بھی موجود نہ ہو اور وہ اس بات سے آگاہ ہو جائے تو اس کے لئے نصب العین سے محبت کرنا اس کی ستائش کرنا یا اس کی خدمت یا اعانت کر نا نا ممکن ہو جاتا ہے۔
محبت کرنے والے سے عمل کا مطالبہ
محبت ہمیشہ محبوب کی خاطر عمل کا تقاضا کرتی ہے اور اس عمل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محبوب کی خوشنودی حاصل کی جائے اور وہ رضا مند اور مہربان ہو اور وہ چاہنے والے سے قریب تر آ جائے کوئی نصب العین رکھنے یا کسی نصب العین سے محبت کرنے کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ عمل کے ذریعہ سے اس کی جستجو کی جائے اس کی خدمت اور اعانت کی جائے اور اس طرح سے اس کا قرب ڈھونڈا جائے لیکن اگر ایک نصب العین جس سے انسان محبت کرتا ہے نہ کوئی عمل پسند کرتا ہے اور نہ ناپسند کرتاہے نہ اس کے نزدیک کوئی بات اچھی ہے اور نہ بری، دوسرے الفاظ میں انسانی دنیا میں اس کا کوئی مدعا ایسا نہیں جس کے حصول کے لئے وہ متمنی ہو تو اس کا چاہنے والا کیونکر جان سکتا ہے کہ اس کی خدمت اور اعانت کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے انسان اپنے نصب العین کی اعانت کے لئے عمل کرنا چاہتا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ یہ عمل کیا ہو وہ ایسی محبت سے مطمئن نہیں ہو سکتا جو اس سے کسی عمل کا مطالبہ نہ کرے اور جو خود عمل کی صورت اختیار نہ کر سکے اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اس کا نصب العین نہ سنتا ہے نہ دیکھتا ہے نہ جانتا ہے، نہ محسوس کرتا ہے نہ اس کی محبت کا جواب دے سکتا ہے نہ اس کی قدر دانی کر سکتا ہے تو وہ اپنے کسی عمل سے کوئی تسلی نہیں پا سکتا اور اس کے دل میں اپنے عمل کو جاری رکھنے کے لئے کوئی جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا جسے ہم نیکی کہتے ہیں وہ انگریزی کی مشہور مثل کے باوجود کبھی آپ اپنا انعام نہیں ہوتی بلکہ آخر کار یہ دل نواز یقین ہمیشہ اس کا انعام ہوتا ہے کہ وہ اس کے نصب العین کے نزدیک ہے جسے وہ ایک شخصیت سمجھتا ہے پسندیدہ ہے۔
قوت اور قدرت
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ایک انسان کا نصب العین پوری طرح سے طاقتور اور قوی ہو کیونکہ اگر وہ سمجھے کہ اس کا نصب العین اتنی قوت نہیں رکھتاکہ اپنے مددگاروں کو جو اس کے مدعا کی پیش برو کے لئے کام کرتے ہیں نوازے یا اپنے دشمنوں کو جو اس کے مدعا کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں سزا دے تو وہ محسوس کرنے لگے گا کہ ایسے نصب العین کی محبت یا اعانت ایک بے سود مشغلہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی وہ دنیا کو اپنے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کی پوری سعی کرے گا اس کے دشمن اس کی کوششوں کو ناکام بنا دیں گے اور جو کچھ اس نے بنایا ہے آسانی سے بگاڑ دیں گے لہٰذا وہ سمجھے گا کہ اس کا نصب العین کمزور اور ناتواں ہے اور اس کی محبت یا اعانت کا حقدار نہیں۔
نیکی
پھر ضروری ہے کہ اس کے نصب العین کے اندر نیکی کی تمام صفات بدرجہ کمال موجود ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات حسن کی صفات ہیں کیونکہ ہم انہیں چاہتے اور پسند کرتے ہیں اگر وہ محسوس کرنے لگ جائے کہ اس کے نصب العین کے اندر ان میں سے بعض صفات موجود نہیں یا موجود تو ہیں لیکن بدرجہ کمال موجود نہیں تو وہ اس کو ایک نقص تصور کرے گا اور اس سے محبت ترک کر دے گا۔
بے مثلی اور بے چگونی

پھر اس کے نصب العین کو اپنی صفات میں بے مثل اور بے نظیر ہونا چاہئے کیونکہ اگر اسے معلوم ہو کہ دنیا میں کوئی اور تصور ایسا ہے جس کے اندر یہ صفات اسی درجہ کمال میں موجود ہیں تو وہ بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت کرنے کے لئے مجبور ہو گا اور ایسا کرنا اس کی فطرت کے قوانین کی وجہ سے اس کے لئے نا ممکن ہو گا کوئی شخص بیک وقت دو نصب العینوں سے محبت نہیں کر سکتا اور حسن کی صفات بھی ایسی ہیں کہ وہ ایک سے زیادہ نصب العینوں میں موجود نہیں ہو سکتیں۔