شعور اور مادہ کا فرق
بظاہر شعور اور مادہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں، مادہ بے حس اور بے جان ہے آپ ایک کرسی کو آگے یا پیچھے یا دائیں یا بائیں دھکیل سکتے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں، اگر چاہیں تو اس کے اجزاء کو الگ الگ کر سکتے ہیں اور پھر جوڑ سکتے ہیں کرسی آپ سے کوئی مزاحمت نہیں کرے گی۔ اس کا اپنا کوئی مقصد یا مدعا نہیں، تمام بے جان مادی اشیاء کی حالت ایسی ہی ہے لیکن شعور کی کیفیت مادہ سے بالکل جدا ہے عام معنوں کے لحاظ سے جب مادہ کے اندر شعور موجود ہو تو وہ ایک اندرونی مقصد یا مدعا کے مطابق حرکت کا اظہار کر سکتا ہے اگر آپ ایک حیوان کی حرکات کو اپنی خواہش کے مطابق ضبط میں لانا چاہیں تو آپ کو ایک نہایت ہی پیچیدہ عمل کرنا پڑے گا جو اس بات کے گہرے مطالعہ پر موقوف ہو گا کہ ایک حیوان کا کردار خارجی اثرات سے کیونکر متاثر ہوتا ہے اور پھر بھی اس میں آپ کو پوری کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی اور وہ اس لئے کہ ہر حیوان کی حرکات اس کے اپنے اندرونی مقصد یا مدعا کے مطابق سرزد ہوتی ہیں اس بنا پر مدعا کے مطابق عمل کرنا شعور کا ایک خاصہ قرار دیا گیا ہے جو مادہ میں قطعاً موجود نہیں۔
مادہ اور شعور کی اصل ایک ہے
لیکن مادہ اور شعور کے اس نہایت ہی وسیع ظاہری اختلاف کے باوجود فلسفیوں اور سائنس دانوں نے اپنے اس لاشعوری وجدانی اعتقاد کی وجہ سے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ کائنات کی آخری حقیقت ایک ہی ہونی چاہئے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی ہے کہ مادہ اور شعور دونوں کو ایک ہی چیز ثابت کیا جائے اس لئے یا تو وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ شعور دراصل مادہ ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے اور یا یہ کہ مادہ در حقیقت شعور ہی کی صفات کا ایک مظہر ہے۔ سائنس دانوں کا وہ طبقہ جو انیسویں صدی سے تعلق رکھتا ہے، بالعموم اول الذکر نظریہ پیش کرتا رہا ہے اور اس کے برعکس فلسفیوں میں سے اکثر موخر الذکر نظریہ کے حامی رہے ہیں۔ انیسویں صدی کے سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ مادہ ایک غیر فانی حقیقت ہے اس لئے کسی چیز کی کوئی اصلیت نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے اوصاف و خواص مادہ کی طرح نہ ہوں۔ یعنی جب تک کہ اسے مادہ کی طرح دیکھا اور چھوا نہ جا سکے یا وہ اس قابل نہ ہو کہ معمل میں اس پر مادہ کی طرح تجربات کئے جا سکیں۔ چنانچہ یہ قدرتی بات تھی کہ وہ شعور کو ذی حیات مادہ کی ایک خاصیت قرار دیں یہ لوگ اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ شعور کی مانند کوئی چیز تخلیق کائنات کا سبب ہو سکتی ہے یا مظاہر قدرت کے ساتھ اس کا کوئی سروکار یا علاقہ ہو سکتا ہے ان کا خیال تھا کہ شعور مادہ کی ہی ایک خاص حالت کا وصف ہے جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب مادہ ایک خاص کیمیائی ترکیب پا لیتا ہے یا طبیعیات کے خاص قوانین کے تحت میں آ جاتا ہے۔
قدیم سائنس دانوں میں سے بائل (Boyle) 1672-1691ء نے کہا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ’’ جب متحرک مادہ کو اپنی جگہ پر چھوڑ دیا جائے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ اس سے انسانوں اور حیوانوں کے مکمل اجسام ایسی حیرت انگیز موجودات یا اس سے بھی زیادہ محیر العقول وہ اجزائے مادہ جو زندہ حیوانات کے بیج کی حیثیت رکھتے ہیں خود بخود وجود میں آ جائیں‘‘ چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے وہ قدرت کے اندر ایک تعمیر کنندہ روح یا قوت شعور کا ہونا ضروری قرار دیتا تھا لیکن انیسویں صدی میں صرف لارڈ کیلون(Kalvin) 1824-1907ء ہی ایک ایسا سائنس دان ہے جس کی ذہانت نے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا کہ قدرت شعور کے اوصاف سے بے بہرہ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ کائنات کے اندر ایک تخلیقی اور رہنما قوت بھی کار فرما ہے تاہم فلسفہ جو سائنس کی طرح حقیقت کی کسی جزوی یا محدود واقفیت پر کبھی قانع نہیں ہو ااور جو تلاش حقائق میں وجدان کی راہ نمائی سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے، ہمیشہ اس بات پر اسرار کرتا رہا ہے کہ عقدہ کائنات کا معقول اور مکمل حل جس کے لئے انسان فطری طور پر بیتاب ہے اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ نظام عالم میں شعور کو ایک مرکزی حیثیت نہ دی جائے۔ قرون وسطیٰ کی اروپائی حکمت کا مقصد تو عیسائیت کی عقلی توجیہہ کے سوائے اور کچھ نہ تھا لیکن شعور جیسا کہ وہ انسان اور کائنات کے اندر موجود ہے نہ صرف قرون وسطیٰ کے فلسفہ کا بلکہ عصر جدید کے ان بڑے بڑے فلسفیانہ نظریات کا بھی واحد موضوع رہا ہے جو ڈیکارٹ، لیبنر، شوپن ہار، نینٹے، کانت، سپائی نوزا، ہیگل، فشٹے، کروچے اور برگسان ایسے مقتدر فلسفیوں نے پیش کئے ہیں اور جن میں وہ خدا، روح کائنات، حقیقت مطلقہ، تصور مطلق، قوت، ارادہ کائنات، شعور ابدی، افراد حیات، خودی شعوری قوت حیات وغیرہ اصطلاحات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سائنس کی مادیات کو پہلا چیلنج
سائنس کی مادیات پر سب سے پہلے جس فلسفی نے شدید اعتراضات کئے وہ انگلستان کا بشپ جارج برکلے تھا جس نے کہا کہ مادی دنیا اپنی کوئی جدا ہستی نہیں رکھتی کیونکہ ہم فقط حواس کے ذریعہ سے جانتے ہیں اور یہ جاننا شعور کے بغیر ممکن نہیں چونکہ ہمارے شعور سے باہر مادہ کی کائنات کا اپنا کوئی وجود نہیں ہو سکتا اس لئے جو چیز حقیقتاً موجود ہے وہ شعور ہے نہ کہ مادہ، حواس کے ذریعہ سے ہمیں جس چیز کا علم حاصل ہوتا ہے وہ مادہ نہیں بلکہ فقط رنگ، صورت، شکل، آواز، نرمی اور سختی وغیرہ مختلف اوصاف ہیں اور ان اوصاف کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ شعور ان کا احساس کرے اور شعور کے بغیر ان میں سے کوئی چیز بھی موجود نہ ہو سکے گی پس مادہ کی حقیقت فقط شعور ہے۔ برکلے اپنے نظریہ کی روشنی میں ایک غیر فانی ابدی شعور کی ہستی کو ثابت کرنے کے لئے جو دلیل قائم کرتا ہے وہ اسی طرح کی ہے۔
’’ آسمان کے تمام ستارے اور زمین کی تمام چیزیں مختصر یہ کہ وہ تمام اشیاء جو اس کائنات کی ترکیب میں حصہ لیتی ہیں شعور کے بغیر کوئی وجود نہیں رکھتیں اگر میں ان کا احساس نہ کروں یا اگر وہ میرے یا کسی اور مخلوق ہستی کے شعور کے اندر موجود نہ ہوں تو پھر یا تو ان کا کوئی وجود ہی نہیں یا ان کا وجود کسی ابدی شعور کے علم میں ہے۔‘‘
نو تصوریت
برکلے کی اس تصوریت کو اس زمانے میں ایک جدید فلسفہ جسے نو تصوریت کہنا چاہئے اور جس کے شارحین اٹلی کے دو فلسفی کروچے اور جینٹلے ہیں بہت مضبوط سہارا مل گیا ہے یہ دونوں فلسفی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کائنات روح اور شعور کے سوا اور کچھ نہیں ان کا فلسفہ نہ صرف زمانہ کے لحاظ سے جدید ترین ہے بلکہ بہت سے حکماء کے خیال کے مطابق موجودہ زمانہ کے فلسفوں میں سے ایک نہایت ہی اچھوتا اور اثر انگیز فلسفہ ہے یہ فلسفہ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہمارے شعور کا احساس ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی حقیقت کے بارہ میں ہمیں یقین ہو سکتاہے اس مفروضہ سے استدلال کرتے ہوئے ہم اس فلسفیانہ نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اگر کائنات کی حقیقت کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم جان سکتے ہیں تو وہ لامحالہ ہمارے شعوری تجربہ یا احساس کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے اور چونکہ خود شعوری ہمارا واضح ترین احساس ہے اس لئے مادی کائنات کی حقیقت بھی لازماً ایک اعلیٰ قسم کی خوشنودی ہے۔
اقبال کی تنقید
جیسا کہ پہلے بیان کیاجا چکا ہے انیسویں صدی کے ماہرین طبیعات کے لئے اس قسم کے خیالات کو قبول کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ ایسا کرنے سے قائم بالذات ازلی اور ابدی میکانکی قوی کے طور پر ان کے مادی قوانین کی بنیادیں اکھڑ جاتی تھیں اور ان قوانین کی بنیاد یہ عقیدہ تھا کہ مادہ کا اپنا خارجی وجود ہے جو شعور کے افعال و خواص پر ہر گز موقوف نہیں، اقبال لکھتے ہیں:
’’ طبیعات ایک تجرباتی علم ہے جو ہمارے حسی تجربات سے بحث کرتا ہے ماہر طبیعات کی تحقیق و تجسس کا آغاز و انجام محسوس مظاہر قدرت سے تعلق رکھتا ہے جن کے بغیر وہ اپنے دریافت کئے ہوئے حقائق کی صداقت کا امتحان نہیں کر سکتا یہ صحیح ہے کہ وہ غیر مرئی اشیاء مثلاً جواہر کو بھی اپنے مفروضات میں داخل کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بغیر وہ اپنے حسی تجربات کی تشریح نہیں کر سکتا گویا طبیعیات کا علم فقط مادی دنیا کا مطالعہ کرتا ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں یہ مطالعہ جن ذہنی اعمال و افعال پر یا جن روحانی یا جمالیاتی احساسات و تجربات پر موقوف ہے، اگرچہ وہ سب مل کر ہمارے تجربہ کی پوری وسعت کا ایک عنصر ہیں تاہم وہ طبیعات کے دائرہ تحقیق سے خارج تصور کئے جاتے ہیں اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ طبیعات کا مطالعہ مادی کائنات تک یعنی کائنات کے اس حصہ تک جس کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں محدود ہے لیکن جب میں آپ سے پوچھوں کہ آپ مادی دنیا کی کون سی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ اپنے ارد گرد کی معروف اشیاء کا ذکر کریں گے مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ، کرسیاں، میز وغیرہ جب میں آپ سے مزید یہ سوال کروں کہ ان اشیاء میں سے آپ خاص کر کس چیز کا مشاہدہ کرتے ہے تو آپ کا جواب فوراً یہ ہو گا کہ ان کی صفات و خصوصیات کا ظاہر ہے کہ اس قسم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم اپنے حواس کی شہادت کی حقیقت کا ایک تصور قائم کرتے ہیں اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ اشیاء اور ان کے اوصاف الگ الگ چیزیں ہیں یہ دراصل حقیقت مادہ کا ایک نظریہ ہے یعنی محسوسات کی حقیقت اور ادراک کرنے والے شعور کے ساتھ ان کے تعلق اور ان کے بنیادی اسباب کا نظریہ مختصر طور پر یہ نظریہ حسب ذیل ہے۔‘‘
محسوسات (رنگ آواز) ادراک کرنے والے ذہن کی حالتیں ہیں اور لہٰذا اگر قدرت کو خارج میں وجود رکھنے والی کوئی چیز قرار دیا جائے تو یہ قدرت کے دائرے میں نہیں آتیں اس بنا پر وہ کسی معقول معنوں میں مادی اشیاء کی صفات نہیں ہو سکتیں جب میں یہ کہوں کہ آسمان نیلا ہے تو میرا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ آسمان میرے ذہن میں نیلاہٹ کا ایک احساس پیدا کرتاہے یہ نہیں کہ نیلاہٹ ایک صفت ہے جو آسمان میں پائی جاتی ہے ذہنی حالتون کی حیثیت سے وہ تاثرات ہیں یعنی کچھ ایسے نتائج جو ہماری ذات میں نمودار ہوئے ہیں ان نتائج کا سبب مادہ ہے یا مادی چیزیں ہیں جو ہمارے حسی اعصاب اور دماغ کے ذریعہ سے ہمارے شعو رپر اثر انداز ہوتی ہیں یہ مادی سبب چھونے یا ٹکرانے سے عمل کرتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس میں صورت حجم، ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات موجود ہوں۔
پہلا فلسفی جس نے اس نظریہ کی تردید کا کام اپنے ذمہ لیا کہ مادہ ہمارے حسی تجربات کا ایک نا معلوم سبب ہے برکلے (Barkaley) تھا ہمارے زمانے میں وائٹ ہیڈ نے جو ایک ممتاز ماہر ریاضیات اور سائنس دان ہے قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ مادیت کا مروج نظریہ بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس نظریہ کی رو سے رنگ و آواز وغیرہ فقط ذہنی حالتیں ہیں اور قدرت کا کوئی جزو نہیں، آنکھ یا کان میں جو چیز داخل ہوتی ہے وہ رنگ یا آواز نہیں بلکہ وہ ایتھر (Eather) کی نا ابل دید امواج یا ہوا کی نا قابل شنید لہریں ہیں قدرت وہ نہیں جو ہم اسے سمجھتے ہیں ہمارے ادراکات سراب کی طرح ہیں اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ قدرت کی صحیح بے نقابی کرتے ہیں۔ قدرت خود اس نظریہ کے مطابق دو حصوں میں بٹ جاتی ہے ایک ہمارے ذہنی تاثرات اور دوسرے وہ خارجی ناقابل فہم اور نا قابل امتحان موجودات جو ان تاثرات کو پیدا کرتے ہیں، اگر طبیعات فی الواقع مدرک اور معلوم اشیاء کا کوئی مربوط اور صحیح علم ہے تو مادہ کا مروج نظریہ ترک کر دینا ضروری ہے اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ ہمارے حواس کی شہادتوں کو جن پر ایک ماہر طبیعات جو تجربات و مشاہدات سے سروکار رکھتا ہے کلی انحصار کرنے پر مجبور ہے۔ مشاہدہ کرنے والے کے ذہنی تاثرات سے زیادہ حقیقت نہیں دیتا۔ یہ نظریہ قدرت اور قدرت کا مشاہدہ کرنے والے کے درمیان ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے جسے پاٹنے کے لئے اسے اس مشکوک مفروضہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی نامعلوم چیز موجود ہے جو گویا بسیط فضا کے ایک برتن میں پڑی ہے اور کسی خاص قسم کے ٹکراؤ کے نتیجہ کے طور پر ہمارے احساسات کو پیدا کرتی رہتی ہے۔ پروفیسر کے وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں یہ نظریہ قدرت کے ایک حصہ کو محض ایک ’’ خواب‘‘ اور دوسرے حصہ کو محض ایک ’’ انکل‘‘ بنا کر رکھ دیتا ہے اس طرح سے طبیعات اپنی بنیادوں پر تنقید کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بالاخر اس بات کی معقول وجہ پاتی ہے کہ اپنے ہی تراشے ہوئے بت کو آپ ہی توڑ ڈالے اس طرح سے تجرباتی نقطہ نظر جو شروع میں گویا حکمیاتی مادیات کو ضروری قرار دے رہا تھا۔ آخر کار مادہ کے خلاف بغاوت پر ختم ہو جاتا ہے حاصل یہ کہ چونکہ اشیاء ایسی ذہنی حالتیں نہیں جو کسی نامعلوم چیز سے جسے ہم مادہ کا نام دیتے ہیں پیدا ہو رہی ہیں لہٰذا وہ سچ مچ کے مظاہر قدرت ہیں جو قدرت کی حقیقت ہیں اور جن کو ہم بالکل اسی طرح سے جانتے ہیں جیسا کہ وہ فی الواقع قدرت کے اندر موجود ہیں۔
سائنس دانوں کے نئے تصورات
جب برکلے نے نیوٹن (Newton) کے طبیعات ی قوانین پر سب سے پہلے اعتراض اٹھایا تو سائنس دانوں نے ایک نفرت آمیز طعن و تشنیع کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ کسے خبر تھی کہ اس بحث میں کہ آیا مادہ حقیقی ہے یا شعور۔ فلسفی جلد ہی سائنس دانوں پر غالب آ جائیں گے اور وہ بھی سائنس دانوں کی اپنی ہی تحقیقات و انکشافات کی بدولت فلسفی تو مدت سے کائنات کی ایک ایسی تشریح پر مصر تھے جو حقیقت شعور پر مبنی تھی اگر ان کا نقطہ نظر عام قبولیت حاصل نہ کر سکا تھا تو اس کی وجہ فقط سائنس ہی کی رکاوٹ تھی لیکن اب بیسویں صدی کی سائنس کے انکشافات سے جن میں نظریہ اضافیت، نظریہ کوانٹم اور عالم حیات کے بعض حقائق شامل ہیں یہ رکاوٹ دور کر دی ہے طبیعات جدید کی تحقیقات نے مادہ کو (جو کسی وقت ٹھوس سادہ اور روشن حقیقت کا درجہ رکھتا تھا) اور اس کے ساتھ قوت، حرکت، فاصلہ، وقت اور ایتھر کو محض لاشے میں بدل دیا ہے ڈاکٹر جوڈ(Joad) کے الفاظ میں:
’’ جدید مادہ ایک ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار برقی رو کا ایک جال یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے فنا کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادہ کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ہی ایک پھیلاؤ سمجھا جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں:
’’ لیکن مادہ کے تصور کو جس شخص نے سب سے بڑی ضرب لگائی ہے وہ ایک اور ممتاز ماہر طبیعات حکیم آئن سٹائن (Einstien) ہے جس کے انکشافات نے نوع بشر کی علمی دنیا کے اندر ایک دورس انقلاب کی داغ بیل ڈالی ہے۔ رسل (Russel) کہتا ہے ’’ نظریہ اضافیت نے ’’ وقت‘‘ کو ’’ فاصلہ وقت‘‘ میں مدغم کر کے مادہ کے قدیم تصور کو فلسفیوں کے تمام دلائل سے بڑھ کر شکستہ کیا ہے۔ عقل عامہ کے نقطہ نظر سے مادہ ایک ایسی چیز ہے جو مرور وقت سے نہیں بدلتا اور فضا میں حرکت کرتا ہے لیکن اضافیت کی جدید طبیعات کی رو سے یہ نظریہ بے بنیاد ہو گیا ہے اب مادہ کا کوئی جزو ایک ایسی قائم بالذات شے نہیں جس کی فقط حالتیں بدلتی رہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے متعدد واقعات کا ایک نظام ہے۔‘‘ مادہ کا وہ پرانا ٹھوس پن جاتا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام خاصیات بھی جاتی رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک فلسفی کو گریز پا خیالات سے زیادہ حقیقی نظر آتا تھا۔‘‘
پروفیسر روژے (Roughier) نظریہ اضافیت سے پیدا ہونے والے نتائج پر بحث کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ فلسفہ اور طبیعات جدید‘‘ میں لکھتا ہے:
’’ اس طرح مادہ الکترانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جو خود لطیف لہروں کی صورت اختیار کرتے ہوئے فنا ہو جاتے ہیں۔ گویا مادہ کا مستقل نقصان اور قوت کا ناقابل تلافی انتشار عمل میں آتا ہے۔ دوام مادہ کے اس ہمہ گیر اصول کی بجائے جو سائنس دانوں نے سائنس کی بنیاد قرار دیا تھا اور جو اسے قابل فہم بناتا تھا یعنی ’’ نہ تو کوئی چیز وجود میں آتی ہے اور نہ فنا ہوتی ہے۔‘‘ اب ہمیں یہ متضاد اصول وضع کرنا چاہئے کہ ’’ کوئی چیز وجود میں نہیں آتی، ہر چیز فنا ہو جاتی ہے۔‘‘ دنیا ایک آخری بربادی کی طرف بڑھی چلی جا رہی ہے اور ایتھر جس کے بارہ میں ناحق یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ وہ کائنات کا سہارا ہے۔ کائنات کی آخری قبر ثابت ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹری ہیری شمٹ (Harry Schmidt) نے اپنی کتاب ’’ اضافیت اور کائنات‘‘ میں یہ بتاتے ہوئے کہ نظام عالم میں نظریہ اضافیت کے داخل ہونے کے بعد کائنات کی کیفیت کیا ہوئی ہے بڑے مایوسانہ انداز میں لکھا ہے:
’’ فاصلہ اور وقت بے حقیقت ہو کر رہ گئے ہیں خود حرکت بے معنی ہو گئی ہے اجسام کی شکل و صورت ہمارے نقطہ نظر پر موقوف ہو گئی ہے اور کائنات کی ایتھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئی ہے۔ افسوس کہ تم نے خوبصورت دنیا کو ایک شدید ضرب کے ساتھ برباد کر دیا ہے اب یہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے اور اس کے ٹکڑے منتشر کر دئیے گئے ہیں اب ہم ان ٹکڑوں کو فنا کے سپرد کرتے ہیں اور بڑے درد کے ساتھ اس حسن کا ماتم کرتے ہیں جو تباہ ہو گیا ہے۔‘‘